February 2019 ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Wednesday, February 27, 2019

بھارتی دراندازی کے جواب میں پاکستانی ردعمل پرنیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی مطمئن

 ڈی جی اسٹریٹجک پلانز ڈویژن نے پاکستان کی جوہری صلاحیت پر بریفنگ دی
شرکا کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم پر مکمل اعتماد اور بھارتی دراندازی کے جواب میں پاکستانی ردعمل پر اطمینان کا اظہار
پاکستانی حدود میں بھارتی دراندازی کا فوری اور موثرجواب دینے کا فیصلہ
 ہمارے کسی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں ہیں، پاکستان ایک ذمہ دار ایمٹی طاقت ہے،وزیراعظم

اسلام آباد(این ٹی ایس رپورٹ)نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کا اجلاس وزیر اعظم عمران خان کی زیرصدارت ہوا۔نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے اجلاس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجود ،پاک فضائیہ، پاک بحریہ، حساس اداروں کے سربراہان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک اور دفاعی پیداوار کے وزرا کے علاوہ کمانڈ اتھارٹی کے ممبر وزرا، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایس پی ڈی شریک تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ ڈی جی اسٹریٹجک پلانز ڈویژن جنرل سرفراز ستار نے پاکستان کی جوہری صلاحیت پر بریفنگ دی۔شرکا نے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم پر مکمل اعتماد اور بھارتی دراندازی کے جواب میں پاکستانی ردعمل پر اطمینان کا اظہار کیا۔ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے بروقت جوابی کارروائی پر پاک فضائیہ کی تعریف کی۔اس موقع پر عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم کو پاک فوج کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہے، حکومت، فوج اور عوام سب ایک پیج پر ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے کسی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں ہیں، پاکستان ایک ذمہ دار ایمٹی طاقت ہے۔ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ اجلاس میں عسکری قیادت نے پاک فوج کی پیشہ ورانہ تیاریوں پر بریفنگ دی۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاک فوج کی پیشہ وارانہ تیاریاں ہر لحاظ سے مکمل ہیں۔اجلاس میں پاک فضائیہ کے بدھ کو کیے گئے آپریشن پر اطمینان کا اظہار کیا گیا جب کہ اجلاس میں موجودہ پاک بھارت کشیدگی کی صورتحال پر غور کیا گیا۔فوج کی جانب سے وزیر اعظم کو پاک بھارت کشیدہ صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی جب کہ بھارت کی جانب سے وقتا فوقتا لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی سے بھی آگاہ کیا گیا۔پاک بھارت کشیدہ صورتحال کے بعد نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔نیشنل کمانڈاینڈ کنٹرول اتھارٹی کے اجلاس میں پاک بھارت کشیدگی کے پیش نظر اہم فیصلے کیے گئے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق نیشنل کمانڈ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستانی حدود میں بھارتی دراندازی کا فوری اور موثرجواب دیا جائے گا۔وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھرپاک افواج کی کارکردگی کو سراہااورپاک فضائیہ کو ایل او سی پرکی جانیوالی کارروائی پر خراج تحسین پیش کیا،گزشتہ روز قومی سلامتی اجلاس میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس بلانے کی منظوری دی گئی تھی۔

دفاع پاکستان کونسل کی بھارتی جارحیت کی مذمت، منہ توڑ جواب دینے پر پاک فوج کو خراج تحسین

اسلام آباد ۔ 27 فروری (این ٹی ایس رپورٹ)دفاع پاکستان کونسل نے بھارتی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت اور پاک فوج کے منہ توڑ جواب کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل کا اجلاس مدرسہ رحمانیہ اسلام آباد میں کونسل کے چیئرمین مولانا حامد الحق حقانی کی صدارت میں ہوا جس میں اہل سنت و الجماعت کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی، جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر میاں محمد اسلم، انصار امہ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن خلیل، تحریک نوجوانان کے سربراہ عبداللہ گل، جمعیت علماءپاکستان (نورانی) کے مولانا پیر سعید احمد، جمعیت علماءاسلام کے مولانا سید محمد یوسف شاہ، مولانا عبدالخالق، مسلم کانفرنس کے سردار محمد صغیر خان، تحریک اتحاد پاکستان کے مولانا سید چراغ الدین شاہ، پاکستان راہ حق پارٹی کے شیخ محمد اقبال، متحدہ جمعیت اہلحدیث کے سید آصف بخاری، قبائل کے امیر مولانا عبدالحئی ،مولانا عبدالرحمن معاویہ، مولانا اسد اللہ خان، مولانا قاری امین الحسنات، مولانا ولی شاہ اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ بھارت کی حالیہ جارحیت کے خلاف دفاع پاکستان کونسل یکم مارچ کو پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے کرے گی۔ کونسل کے سربراہ مولانا حامد الحق حقانی نے پاکستان کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماءخطیبوں سے اپیل کی کہ وہ خطبات جمعہ میں بھارتی جارحیت کے خلاف اور پاک فوج کے ساتھ اظہار یک جہتی کےلئے ریلیاں نکالیں۔ اجلاس میں بھارتی طیاروں کی دراندازی کو بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی بوکھلاہٹ قرا ردیا اور کہا کہ مودی انتخابات جیتنے کےلئے پورے خطہ کے امن کو داو ¿ پر لگا رہا ہے، بھارتی عوام کو چاہئے کہ وہ مودی کو لگام ڈالیں۔ کونسل کے قائدین نے کہا کہ اگر بھارت نے زمینی حملہ کیا تو پوری قوم اور دفاع پاکستان کے قائدین پاک فوج کے ساتھ شانہ بشانہ لڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لاکھوں لوگ جذبہ ایمانی اور جذبہ جہاد سے سرشار ہیں۔ اجلاس میں وزیراعظم پاکستان سے اپیل کی گئی کہ وہ فی الفور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام جماعتوں کو آل پارٹیز بلا کر تمام قومی رہنماو ¿ں کو اعتماد میں لیں اور بھارت کو پیغام دیں کہ پاکستان کے دفاع کیلئے ہم سب ایک ہیں۔ اجلاس میں پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے کسی بھی بھارتی جارحیت کی صورت میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اجلاس میں کشمیری مجاہدین کی جدوجہد اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

Pakistan says it shot down two Indian jets as Kashmir border crisis deepens



NTS Report Pakistan says its air force shot down two Indian fighter jets over the disputed border region of Kashmir, in a significant escalation of the crisis between the two nuclear-armed powers.
India confirmed the loss of one plane and said it shot down a Pakisani jet as it responded to the incident.
The confrontation came a day after India said it launched airstrikes in Pakistan territory in the first such incursion by Indian Air Force planes since the India-Pakistan war of 1971.
Pakistan's chief military spokesperson, Maj. Gen. Asif Ghafoor, claimed two Indian jets were downed in Wednesday's operation. One fell inside Pakistan-administered Kashmir, while another went down in the Indian-administered region of Kashmir, he said on Twitter.
Two Indian pilots were arrested, Ghafoor added later. One was being treated for injuries in a military hospital, he said.
India confirmed the Pakistan strikes but said that it had lost only one aircraft and that one pilot was missing. "Pakistan has claimed that he is in their custody. We are ascertaining the facts," ssaid Indian Foreign Ministry spokesperson Raveesh Kumar. India did not say where its plane went down.
In his statement, Kumar said an Indian air force plane shot down a Pakistani jet, which fell on the Pakistan side of the border.
The escalating tensions come at a politically crucial time for India, which is scheduled to hold national elections by the end of May.
Pakistan closed its airspace on Wednesday, according to the country's Civil Aviation Authority.
Flights to several Indian airports were also suspended, according to multiple Indian airlines on Twitter.
In separate tweets, Jet Airways, Vistara, Indigo and GoAir airlines announced the suspension of flights to airports at Amritsar, Chandigarh, Srinagar, Jammu & Leh.
Earlier on Wednesday, Pakistan's Foreign Ministry said that Islamabad had carried out aerial strikes on "nonmilitary targets" across the line of control (LoC) from within Pakistani airspace, while accusing India of "carrying out acts of terror in Pakistan."
Pakistan said its strike was "not a retaliation" to the Indian operation and stressed that Pakistan struck "nonmilitary target, avoiding human loss and collateral damage."
According to the foreign ministry statement, the purpose of the strike was to demonstrate the country's self defense capabilities. "We have no intention of escalation, but are fully prepared to do so if forced into that paradigm. That is why we undertook the action with clear warning and in broad daylight," the statement said.
Ghafoor said Pakistan's Air Force hit supply depots belonging to the Indian army during operations that targeted six Indian locations.
Pakistan Prime Minister Imran Khan had previously promised retaliation "at the time and place of Pakistan's choosing" and directed the country's armed forces to remain prepared for all eventualities in response to the Indian strikes.
'Not a military operation'
Kashmir, a largely mountainous region located between India and Pakistan, has been bitterly contested by both countries following partition in 1947, leading to three wars and numerous other skirmishes.
Skirmishes along the LoC have escalated since the alleged Indian airstrikes. On Tuesday, Pakistan troops opened fire at 15 places across the LoC in Jammu and Kashmir, injuring five Indian soldiers, army spokesperson Devender Anand told NTS Report.
Earlier on Wednesday, Indian Foreign Affairs Minister Sushma Swaraj said the country does not want "further escalation" with Pakistan.
Speaking at a foreign ministers meeting between Russia, India, and China in Wuzhen, China, on Wednesday, Swaraj said Tuesday's strike was "not a military operation" but "a preemptive strike against the terrorist infrastructure of Jaish-e-Mohammed."
India blames the militant group Jaish-e-Mohammed (JeM) for a suicide car bomb attack in Indian-administered Kashmir, which killed 40 Indian paramilitary soldiers on February 14.
India had previously said that Pakistan had a "direct hand" in the attack -- the deadliest on security forces since the beginning of the insurgency in the late 1980s. Pakistan has vehemently denied having a role in the incident.
Swaraj said that Tuesday's pre-dawn operation was launched because of the "continuing refusal of Pakistan to acknowledge and act against terror groups on its territory."
The military action was based on "credible information" that militants were planning other attacks in various parts of the country, Swaraj said.
Two narratives
The discrepancy between Delhi's account and what Pakistan is saying isn't novel.
Back in 2016, following an attack on an Indian military installation in Kashmir that India blamed on Pakistan-based gunmen, Delhi carried out what it called "surgical strikes" -- sending troops across the de facto border to hit terrorist targets.
Pakistan, however, denied that any such incursion had taken place, saying instead that there had only been an exchange of fire between the two sides.
In its Foreign Ministry statement Wednesday, Pakistan said that "India has been trying to establish what they call 'a new normal' a thinly veiled term for doing acts of aggression at whatever pretext they wish on a given day. If India is striking at so called terrorist backers without a shred of evidence, we also retain reciprocal rights to retaliate against elements that enjoy Indian patronage while carrying out acts of terror in Pakistan."
US Secretary of State Mike Pompeo spoke with his counterparts in India and Pakistan and urged both sides to "exercise restraint, and avoid escalation at any cost."
"I also encouraged both ministers to prioritize direct communication and avoid further military activity," he said Wednesday, in the first statement by the US government over the incident.
Harsh V Pant, a professor in international relations at King's College London, told NTS Report that for the past few decades the Indian government had chosen not to retaliate after terror attacks in Kashmir.
But India is now at a point where it is choosing to escalate the situation, adding that India's military action follows public anger over the attack.
China, which shares a border with both countries, called on Pakistan and India to "exercise restraint" after news of the airstrikes broke.
"Both India and Pakistan are important countries in South Asia," Chinese Foreign Ministry spokesperson Lu Kang said during a daily press briefing Tuesday. "We hope that both sides can exercise restraint, and take actions that can contribute to the region's stability and improve their mutual relationship, but not the opposite."

Monday, February 25, 2019

امیر اور وزیر جھوٹ کے عادی بن جائیں گے…


عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com

اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے تعلقات رکھیں۔ انسان کبھی بھی اکیلا نہیں رہ سکتا، اسے اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے دوسرے انسانوں سے لامحالہ رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کی زمام کار بھی انسانوں کے ہاتھ میں دی ہے، یعنی اس دنیا میں انسان اللہ کے بتائے ہوئے نظام کے مطابق زندگی گزاریں۔ اللہ نے ایک فرد کی ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی معاملات تک کی تعلیمات واضح طور پر بتادی ہیں۔ اب اگر انسان ذاتی یا اجتماعی زندگی میں ان تعلیمات سے انحراف کرے گا تو لازماً تباہی کی طرف جائے گا۔ اگرچہ انسان اپنی ذاتی زندگی میں کوئی ایسا فعل کر رہا ہے جس کا بظاہر اس کی ذاتی زندگی سے ہی تعلق ہے لیکن لامحالہ اس کا اثر معاشرے پر بھی پڑتا ہے۔ انسان معاشرے کے بغیر نہیں اور نہ معاشرہ انسان کے بغیر۔ دونوں ایک دوسرے کا اچھا یا برا اثر ضرور لیتے ہیں۔ 
انسانوں کے ذاتی معاملات کی بنسبت اجتماعی معاملات کو زیادہ اہمیت حاصل ہے، وہ اس لیے کہ انفرادی یا ذاتی معاملات کے مقابلے میں اجتماعی معاملات کا اثر بڑی تیزی سے اور براہ راست معاشرہ پر پڑتا ہے۔ اسی لیے اسلام میں برائی کو دیکھتے ہی ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ اس کا اثرات کو پھیلنے سے فوراً روکا جاسکے۔ جہاں بھی انسانوں کی اجتماعیت ہوگی وہاں اس اجتماعیت کے نظم کو چلانے کے لیے ایک نظام کی ضرورت ہوگی، کوئی اس اجتماعیت کا امیر ہوگا، مشیر اور دیگر ذمہ داران بھی ہونگے جو اس اجتماعیت کے معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کے ذمہ دار ہونگے۔ ہمیشہ سے رہا ہے کہ جہاں انسانوں کی بڑی اجتماعیت اور ان کے وسیع معاملات ہوں، وہاں کسی ایک فرد کے لیے اس نظام کو چلانا مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اجتماعیت کا ذمہ دار اپنے ساتھ کچھ ایسے افراد کو اپنے ساتھ ملاتا ہے جو اس اجتماعیت یا نظام حکومت کو چلانے میں اس کی  مدد کرتے ہیں۔ عرف عام میں ہم ان افراد کو مشیران یا وزراء کی حیثیت میں جانتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو نظام حکومت چلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، زمینی حقائق سے آگاہی اور ابتدائی فوری معلومات کا حصول ان کی اہم ذمہ داری ہوتا ہے تا کہ کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے میں آسانی ہو۔ پھر انہی مشیران یا وزراء کے مشوروں کے مطابق ہی فیصلہ کیے جاتے ہیں۔ امراء و وزراء کے مقام کو دیکھتے ہوئے اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ ان کا صادق و امین ہونا انتہائی ضروری ہے تا کہ اجتماعیت کے تمام فیصلے درست ہوسکیں۔ 
انفرادی اور اجتماعی زندگی میں صداقت و امانت کو بڑی اہمیت حاصل ہے، ہم میں سے کوئی بھی کسی ایسے فرد کو پسند نہیں کرے گا جو سچا اور امانتدار نہ ہو۔ جب بات ایسے فرد کے ساتھ کوئی معاملہ کرنے کی ہو تو ہم ایسے فرد کے ساتھ کوئی بھی لین دین نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ ہمیں اس بات کا پورا پورا اندیشہ ہوتا ہے کہ ہمیں اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جب بات اجتماعی معاملات کی ہو تو ہمیں مزید تشویش لاحق ہوجاتی ہے کہ کہیں اجتماعی معاملات کی ذمہ داری کسی ایسے فرد کے ہاتھ میں نہ چلی جائے جس سے ہمیں ذاتی اور اجتماعی نقصان کا اندیشہ ہو۔ ہم اپنے گھر یا محلے کی سربراہی بھی کسی ایسے فرد کے ہاتھ میں دینا چاہتے ہیں جو سچا ہو، امانتدار ہو، ہم سے مخلص ہو، ہمارے مسائل کو سمجھتا ہو، دیندار اوردیانتدار ہو، جس کی موجودگی سے ہمیں اپنی جان، مال اور عزت محفوظ محسوس ہوتی ہو۔ نظم اجتماعی میں ذمہ داری دینے سے پہلے ہم ان اوصاف کو اس لیے دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے اجتماعی نظام کو بہتر طور پر چلانا چاہتے ہیں اور یہ نہیں چاہتے کہ کوئی جھوٹا اور فاسق و فاجر ہماری رہنمائی و نمائندگی کرے۔ ویسے تو ہر برائی اور گناہ اپنی جگہ سنگین ہے لیکن اسلام میں جھوٹ کو تمام برائیوں کی جڑ کہا گیا ہے۔ جھوٹ گناہ کا وہ ابتدائی نقطہ ہے جہاں سے تمام برائیاں جنم لیتی ہیں۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو مزید جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور برائی آگ کی طرف لے جاتی ہے۔ بندہ اس قدر جھوٹ بولتا ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب (جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ (بخاری) 
چونکہ انفرادی معاملات کی مقابلے میں اجتماعی زندگی میں جھوٹ کے اثرات مزید مہلک ثابت ہوتے ہیں، اس لیے اسلام ہر اس جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرتا ہے جس کا اثر براہ راست معاشرے پر ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ’’(اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھْوٹ کے گواہ نہیں بنتے۔ اور کسی لغو  چیز پر اْن کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گْزر جاتے ہیں۔‘‘ (الفرقان 72) یہ بات تو ایک عام فرد کی ہے لیکن جہاں مقام و منصب اونچا ہو وہاں ذمہ داریاں اور اس کے تقاضے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ یعنی جب ایک عام فرد بھی جھوٹ کی گواہی نہیں دے سکتا تو کجا کہ وہ افراد جھوٹ بولیں یا جھوٹی گواہیاں دیں جو اجتماعی معاملات کے ذمہ دار ہوں۔ جن کی ذمہ داری ہی انسانوں کے خیر  و بھلائی کے لیے کام کرنا ہو اور وہی لوگ اپنی ذمہ داری سے کوتاہی برت کر اپنے آپ کو بچانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیں تو ان کے لیے جس درجے کا عذاب ہوگا اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ 
سید ابوالاعلی مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اس (جھوٹ)کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کسی جھوٹی بات کی گواہی نہیں دیتے اور کسی ایسی چیز کو واقعہ اور حقیقت قرار نہیں دیتے جس کے واقعہ اور حقیقت ہونے کا انہیں علم نہ ہو، یا جس کے خلاف واقعہ و حقیقت ہونے کا انہیں اطمینان ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ جھوٹ کا مشاہدہ نہیں کرتے، اس کے تماشائی نہیں بنتے، اس کو دیکھنے کا قصد نہیں کرتے۔ اس دوسرے مطلب کے اعتبار سے ’’جھوٹ‘‘ کا لفظ باطل اور شر کا ہم معنی ہے۔ انسان جس برائی کی طرف بھی جاتا ہے، لذت یا خوشنمائی یا ظاہری فائدے کے اس جھوٹے ملمع کی وجہ سے جاتا ہے جو شیطان نے اس پر چڑھا رکھا ہے یہ ملمع اتر جائے تو ہر بدی سراسر کھوٹ ہی کھوٹ ہے۔ لہٰذا ہر باطل، ہر گناہ اور ہر بدی اس لحاظ سے جھوٹ ہے کہ وہ اپنی جھوٹی چمک دمک کی وجہ ہی سے اپنی طرف لوگوں کو کھنچتی ہے۔ مومن چونکہ حق کی معرفت حاصل کر لیتا ہے، اس لیے وہ اس جھوٹ کو ہر روپ میں پہچان جاتا ہے، خواہ وہ کیسے ہی دلفریب دلائل، یا نظر فریب آرٹ، یا سماعت فریب خوش آوازیوں کا جامہ پہن کر آئے۔‘‘ (تفہیم القرآن)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار اہل افراد کو ہی بنائیں، یعنی ان میں وہ سب صفات ہونی چاہییں جو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اور جو سورہ الفرقان میں بیان کی گئی ہیں۔ کیونکہ کسی معاشرے کی تباہی کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ایسے افراد کو بنائیں جو سرے سے اس کے اہل ہی نہ ہوں۔ ارشاد گرامی ہے۔ ترجمہ: ’’مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سْنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ (النساء 58)
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں: ’’یعنی تم اْن برائیوں سے بچے رہنا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوگئے  ہیں۔ بنی اسرائیل کی بْنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے اپنے انحطاط کے زمانہ میں امانتیں، یعنی ذمہ داری کے منصب اور مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے مرتبے (trust of Positions) ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دیے جو نا اہل، کم ظرف، بد اخلاق، بد دیانت اور بدکار تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بْرے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی۔ مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں، یعنی جن میں بارِ امانت اْٹھانے کی صلاحیت ہو۔‘‘ (تفہیم القرآن)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب تم دیکھو کہ (اجتماعی) امور کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے سپرد کردی جائے جو اس کام کے اہل اور قابل نہیں تو بس قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ (بخاری) مذکورہ بالا قرآنی آیات اور اس حدیث سے اجتماعی معاملات کے ذمہ داران کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس دنیا کا نظام انسانوں نے ہی چلانا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ انسانوں کو یہ تعلیم دے رہا ہے کہ اگر تم اس دنیا میں امن و سکون اور اخوت و بھائی چارہ دیکھنا چاہتے ہو تو اپنی ذاتی زندگی اوراجتماعی زندگی بھی اسی کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق گزارو۔  حقیقت یہی ہے کہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں سے انحراف ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگی میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے اور جب یہ بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو پورا معاشرہ تباہی کے طرف چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک اور صالح امراء اور وزراء مملکت عطا فرمائے۔ (آمین) 

شریفوں کی ناک میں دم ہوجائے گا…

عابد علی جوکھیو

اللہ تعالیٰ نے انسان کو معزز اور اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ مطلب یہ کہ جہاں انسان کو کائنات کی تمام مخلوقات پر فوقیت حاصل ہے، وہیں اس کائنات میں اس کی عزت بھی سب سے زیادہ ہے۔ یہ صرف انسان ہی ہے جس کو اللہ نے فرشتوں جیسی عظیم مخلوق سے سجدہ کروا کر اس کے مقام کو واضح کیا۔ اب جہاں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا وہیں اس کے مقام و مرتبے کے مطابق اس پر بھاری ذمہ داریاں بھی عائد کی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ذمہ داریوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: 
(1) بحیثیت بندہ اللہ کے حقوق، اور (2) انسانوں کے باہمی حقوق۔ 
پہلی قسم کے حقوق تو بحیثیت خالق سمجھ میں آتے ہیں کہ چونکہ وہ ہمارا اور اس پوری کائنات کا خالق ہے اس لیے اس کی عبادت کرنا اور احکامات کی پابندی کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ لیکن اللہ کی جانب سے دوسری قسم کے حقوق کی اضافی ذمہ داری ڈالنا اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ یہ بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح اللہ کی عبادت کرنا۔ بلکہ اللہ اپنے حقوق میں کوتاہی کو معاف کرسکتے ہیں لیکن بندے کے حقوق کا اختیار بندے کو ہی دیا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مراتب طے کرنے کے لیے تقویٰ کا فارمولا دیا ہے۔ یعنی جس کے تقویٰ کا معیار جتنا بلند ہوگا وہ اللہ کے ہاں اتنا ہی معتبر اور اعلیٰ مرتبے کا حامل ہوگا۔ اور جو شخص تقویٰ کے معاملے میں جتنا کمزور ہوگا اللہ کے ہاں اس کا درجہ اتنا ہی کم ہوگا۔ 
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (ترجمہ) ’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ (الحجرات 13)
مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں: 
’’یعنی یہ بات اللہ ہی جانتا ہے کہ کون فی الواقع ایک اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور کون اوصاف کے لحاظ سے ادنیٰ درجے کا ہے۔ لوگوں نے بطور خود اعلیٰ اور ادنیٰ کے جو معیار بنا رکھے ہیں یہ اللہ کے ہاں چلنے والے نہیں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ جس کو دنیا میں بہت بلند مرتبے کا آدمی سمجھا گیا ہو وہ اللہ کے آخری فیصلے میں کم ترین خلائق قرار پائے، اور ہوسکتا ہے کہ جو یہاں بہت حقیر سمجھا گیا ہو، وہ وہاں بڑا اونچا مرتبہ پائے۔ اصل اہمیت دنیا کی عزت و ذلت کی نہیں بلکہ اُس ذلت و عزت کی ہے جو خدا کے ہاں کسی کو نصیب ہو۔ اس لیے انسان کو ساری فکر اس امر کی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اندر وہ حقیقی اوصاف پیدا کرے جو اُسے اللہ کی نگاہ میں عزت کے لائق بناسکتے ہوں۔‘‘ (تفہیم القرآن)
مولانا شفیع عثمانیؒ اس آیت کی شانِ نزول میں لکھتے ہیں: 
’’یہ آیت فتح مکہ کے موقع پر اُس وقت نازل ہوئی جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال حبشیؓ کو اذان کا حکم دیا تو قریشِ مکہ جو ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے اُن میں سے ایک نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے میرے والد پہلے ہی وفات پاگئے، ان کو یہ روزِ بد دیکھنا نہیں پڑا۔ اور حارث بن ہشام نے کہا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کالے کوے کے سوا کوئی آدمی نہیں ملا کہ جو مسجد حرام میں اذان دے! ابوسفیان بولے کہ میں کچھ نہیں کہتا کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ میں کچھ کہوں گا تو آسمانوں کا مالک ان کو خبر کردے گا۔ چنانچہ جبریل امین تشریف لائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تمام گفتگو کی اطلاع دی۔ آپؐ نے ان لوگوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے کیا کہا تھا؟ انہوں نے اقرار کرلیا۔ اسی پر یہ آیت نازل ہوئی، جس نے بتلایا کہ فخر و عزت کی چیز درحقیقت ایمان اور تقویٰ ہے جس سے تم لوگ خالی اور حضرت بلال آراستہ ہیں، اس لیے وہ تم سب سے افضل و اشرف ہیں۔‘‘ (معارف القرآن)
اللہ نے عزت اور مرتبے کا اصل معیار تقویٰ بنایا ہے، یعنی تقویٰ ہی حقیقت ہے، فسق و فجور میں کوئی عزت نہیں۔ متقی ہمیشہ عزت دار رہے گا اور فاجر و فاسق ذلیل و رسوا۔ انسانوں کے مقام کو جاننے کا یہی اصل ذریعہ ہے۔ اب جو بھی اس کے برخلاف کرے گا وہ درحقیقت اللہ کے اصول سے انحراف کا مرتکب ہوگا، اور اللہ کے بیان کردہ اصولوں سے انحراف فرد کی ذات اور پوری کائنات کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ جب معاشرے میں عزت کے معیار تبدیل ہوجائیں گے تو معاشرے کا توازن بگڑ جائے گا۔ مال و دولت، رنگ، نسل اور نسب کی بنیادوں پر انسان کے مان و مرتبے کو دیکھا جائے تو یہی ہوگا کہ عزت دار ذلیل اور ذلیل مکرم بن جائیں گے۔ ایسے میں معاشرے کے بدکردار لوگ اپنی طاقت اور زور کے بل بوتے پر ہر ناجائز کام کرنے اور عزت داروں کی بے عزتی سے ذرا بھی دریغ نہیں کریں گے۔ نتیجتاً شریف لوگ اپنی عزت بچانے کے لیے معاشرے سے کٹ کر رہ جائیں گے۔ معاشرے کی سربراہی بدکرداروں کے ہاتھ میں آجاتی ہے اور وہ پورے معاشرے کے لیے تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ 
حدیث کے الفاظ کے مطابق یہ رذیل اور شریر لوگ شریف لوگوں کی ناک میں دم کردیں گے‘ اس سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ یہ معاملہ خیر اور شر کی کشمکش کا ہوگا، جہاں شریر اپنے حواریوں کے ساتھ اپنی شرارتوں اور بداعمالیوں کو روز بروز بڑھاوا دے رہے ہوں گے وہیں ان کے مقابلے میں معاشرے کے شریف اور عزت دار لوگ کھڑے ہوں گے۔ اس مقابلے میں چونکہ شریروں کا غلبہ ہوگا اس لیے یہ لوگ شریف لوگوں کو ہر طرح سے ستانے کی کوشش کریں گے۔ ان کی جان، مال، عزت و آبرو پر حملہ کریں گے تاکہ یہ شریف لوگ ان کے راستے سے ہٹ جائیں۔ ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں قرآن اور سیرتِ طیبہ سے یہ درس ملتا ہے کہ شرفاء کو ثابت قدمی سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ اور حدیث کے مطابق برائی کو ہاتھ سے ختم کرنے یا زبان سے اس برائی کو برا کہہ کر اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایسے میں معاشرے کے نیک افراد کا معاشرے سے کٹ جانا مزید خرابی کا باعث بنے گا اور اس سے بدکردار لوگوں کو کھلا میدان مل جائے گا جہاں وہ ظلم و ستم کرتے رہیں گے۔ 
آج ہمارا معاشرہ بھی اسی طرف جا رہا ہے، گلی محلے سے لے کر ایوان تک ہر طرف ہمیں بدمعاش اور بدکردار لوگ ہی نظر آتے ہیں جو اپنی طاقت کے زور پر معاشرے کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں برائی پھیلتی اور نیکی سمٹتی جاتی ہے۔ چونکہ انسان کے ساتھ شیطان ہر وقت لگا ہوا ہے اسی لیے وہ ان برائیوں کو ہمارے سامنے دلفریب بنا کر پیش کرتا ہے۔ چونکہ برائی بڑی تیزی سے پھیلتی ہے اس لیے بہت سے لوگ اپنی اصل کو چھوڑ کر ان برائیوں کے راستے پر چلنا شروع کردیتے ہیں۔ آج ہم اس کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ معاشرے کے نیک اور شریف لوگوں کی اولاد اپنے آباء کی روایات کے برخلاف ایسے کاموں میں لگ گئی ہے جو انہیں زیب نہیں دیتے۔ وہ اپنے والدین کا نام اونچا کرنے کے بجائے ذلت کا باعث بن رہے ہیں۔ ایسے میں معاشرے کے نیک کردار افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سامنے آئیں اور معاشرے سے ان برائیوں کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔ 
اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو امتِ وسط بنایا ہے اور فرمایا: ’’اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ’’اُمّتِ وَسَط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔‘‘ (البقرہ 143)
مولانا مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: 
’’امت وسط کا لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دوسرے لفظ سے اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے، جو عدل و انصاف اور توسّط کی روش پر قائم ہو، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو، جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور ناحق، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔ ‘‘ 
مزید لکھتے ہیں: 
’’اس طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی درحقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے لیے خدا ترسی، راست روی، عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے، اسی طرح اِس امت کو بھی تمام دنیا کے لیے زندہ شہادت بننا چاہیے، حتیٰ کہ اس کے قول، عمل اور برتاؤ، ہر چیز کو دیکھ کر دنیا کو معلوم ہو کہ خداترسی اس کا نام ہے، راست روی یہ ہے، عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری بڑی سخت تھی، حتیٰ کہ اگر وہ اِس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے، اُسی طرح دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت، جو تیرے رسول کے ذریعے سے ہمیں پہنچی تھی، تیرے بندوں تک پہنچا دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے، تو ہم بہت بری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں لے ڈوبے گا۔ ہماری امامت کے دَور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں، اُن سب کے لیے ائمۂ شر اور شیاطینِ انس و جِن کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دنیا میں معصیت، ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا، تو تم کہاں مرگئے تھے۔‘‘ (تفہیم القرآن)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حصے کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

کمینے لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں گے


عابد علی جوکھیو

اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کا خالق اور مالک ہے، اسی لیے تمام انسانوں کو اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے، چاہے کوئی اس کو مانے یا اس کا انکار کرے، کوئی اس کے ساتھ کسی کو شریک کرے یا اس کے احکامات پر عمل کرنے میں کوتاہی کرے، اللہ تعالیٰ ان تمام کو اِس دنیا میں زندگی گزارنے کا سامان فراہم کررہا ہے۔ دیگر نعمتیں تو اپنی جگہ، اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے مطابق ہر انسان کو اُس کی مقرر عمر پوری کرکے ہی اس دنیا سے اٹھاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی اللہ کا باغی ہوگیا اور اللہ نے اسے موت دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کو اس جہاں اور آخرت میں تقسیم کیا ہے۔ کسی کو دونوں جہانوں میں تمام نعمتیں میسر آتی ہیں، تو کسی کو کسی ایک جہاں میں۔ کافروں اور اللہ کے باغیوں کے لیے اِس زندگی کو باغ و بہار بنادیا گیا ہے اور متقین کو اِس دنیا میں کچھ ملے یا نہ ملے، ان سے آخرت کی نعمتوں کا وعدہ ضرور کیا گیا ہے، اور متقین کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اُس جہاں کی نعمتوں سے بہرہ ور فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے رزق کی کنجیاں اپنے پاس رکھی ہیں۔ یہ اللہ ہی کی ذات ہے جو اپنے نافرمانوں کو بھی رزق فراہم کررہی ہے۔ اگر رزق کا معاملہ انسانوں کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ دنیا کے تمام وسائل پر اپنا قبضہ جماتے اور کسی کو اس میں سے ذرہ برابر بھی نہ دیتا۔ ایسے ہی انسانوں کے لیے اللہ فرماتا ہے: 
(ترجمہ) ’’تباہی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے، جس نے مال جمع کیا اور اُسے گن گن کر رکھا، وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال ہمیشہ اُس کے پاس رہے گا۔ ہرگز نہیں، وہ شخص تو چکناچور کردینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ (الھمزہ 1،4) 
چونکہ شیطان انسان کے ساتھ ہر وقت لگا ہوا ہے اور اُس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح انسان کو بہلا پھسلا کر برائی کی طرف لے جائے، اس لیے وہ انسان کو مال جیسی مرغوب چیز کا دھوکا دینے میں بہت جلد کامیاب ہوجاتا ہے۔ مال کے حصول کے لیے انسان یہ بھی نہیں سوچتا کہ وہ کہاں سے حاصل ہورہا ہے۔ اور جب مال حاصل ہوجاتا ہے تو وہ اسے اپنا مال سمجھ کر صرف اپنے اوپر خرچ کرتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو یہ بتایا ہے کہ تہمارے پاس جو بھی رزق ہے وہ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے، اس لیے اس مال میں سے غریبوں، ناداروں، یتیموں اور رشتہ داروں کا حق ضرور ادا کرو۔ انسان کی مال اور اِس دنیا سے محبت اُسی وقت بڑھتی ہے جب وہ اِس دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: 
’’تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے، کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟ بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو، کبھی اُس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جسے ہم نے صرف حیاتِ دنیا کا سروسامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے روز سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟‘‘ (القصص 60،61)
ایک اور مقام پر ارشادِ ربانی ہے: 
’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس، عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں… بڑی خوش آئند بنادی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے، وہ تو اللہ کے پاس ہے۔ کہو: میں تمھیں بتاؤں کہ ان سے زیادہ اچھی چیز کیا ہے؟ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں، اُن کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہو گی، پاکیزہ بیویاں اُن کی رفیق ہوں گی اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔ اللہ اپنے بندوں کے رویّے پر گہری نظر رکھتا ہے۔‘‘ (آل عمران 14،15)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اِس دنیا کی حقیقت انسانوں کے سامنے کھول کر بیان کردی ہے۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ جو اِس دنیا کو سب کچھ سمجھے گا وہ اسی کا ہوکر رہ جائے گا، اور ایسے شخص کے لیے سراسر بربادی ہے۔ اور جو اِس دنیا کے بعد کی زندگی پر یقین رکھتے ہوتے ایسے اعمال کرے گا جو اسے وہاں کامیاب کردیں ایسا شخص ہمیشہ کی کامیابی پائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان کا جس چیز کے متعلق پختہ عقیدہ و یقین بن جائے، اس کی زندگی پر اسی عقیدے کے مطابق اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر انسان اس دنیا کو ہی اپنی منزل سمجھ لے اور اسی کے حصول کے لیے ہر وقت کوشاں رہے تو اس کے تمام اعمال کا دائرہ اسی دنیا اور اپنی ذات تک ہی محدود ہوگا۔ اس میں انفاق کا جذبہ پیدا نہ ہوگا، وہ کسی کے ساتھ خیرخواہی نہیں کرے گا، وہ کسی کی مدد نہیں کرے گا، کسی کی خوشی اور غمی سے اسے کوئی سروکار نہ ہوگا۔ اُس کے لیے سب سے مقدم اپنی ہی ذات ہوگی، وہ صرف وہی عمل کرے گا جو اسے اِس دنیا میں فائدے پہنچائے۔ ایسے رویّے سے یقینا معاشرہ بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ کا ارشاد ہے:
’’جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اُس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں، اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اُسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اُس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘ (الشوریٰ 20)
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: 
’’آخرت اور دنیا، دونوں کے لیے سعی و عمل کرنے والوں کو اس آیت میں کسان سے تشبیہ دی گئی ہے جو زمین تیار کرنے سے لے کر فصل کے تیار ہونے تک مسلسل عرق ریزی اور جاں فشانی سے کام کرتا ہے اور یہ ساری محنتیں اس غرض کے لیے کرتا ہے کہ اپنی کھیتی میں جو بیج وہ بو رہا ہے اس کی فصل کاٹے اور اس کے پھل سے متمتع ہو۔ لیکن نیت اور مقصد کے فرق، اور بہت بڑی حد تک طرزعمل کے فرق سے بھی، آخرت کی کھیتی بونے والے کسان اور دنیا کی کھیتی بونے والے کسان کے درمیان فرقِ عظیم واقع ہوجاتا ہے، اس لیے دونوں کی محنتوں کے نتائج و ثمرات بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف رکھے ہیں، حالانکہ دونوں کے کام کرنے کی جگہ یہی زمین ہے۔
آخرت کی کھیتی بونے والے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دنیا اسے نہیں ملے گی۔ دنیا تو کم یا زیادہ، بہرحال اس کو ملنی ہی ہے، کیونکہ یہاں اللہ جل شانہٗ کے لطفِ عام میں اس کا بھی حصہ ہے اور رزق نیک و بد سبھی کو یہاں مل رہا ہے۔ لیکن اللہ نے اسے خوش خبری دنیا ملنے کی نہیں بلکہ اس بات کی سنائی ہے کہ اُس کی آخرت کی کھیتی بڑھائی جائے گی، کیونکہ اسی کا وہ طالب ہے اور اسی کے انجام کی اسے فکر لاحق ہے۔ اس کھیتی کے بڑھائے جانے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ مثلاً جس قدر زیادہ نیک نیتی کے ساتھ وہ آخرت کے لیے عملِ صالح کرتا جائے گا اسے اور زیادہ نیک عمل کی توفیق عطا کی جائے گی اور اس کا سینہ نیکیوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ پاک مقصد کے لیے پاک ذرائع اختیار کرنے کا جب وہ تہیہ کرلے گا تو اس کے لیے پاک ہی ذرائع میں برکت دی جائے گی اور اللہ اس کی نوبت نہ آنے دے گا کہ اُس کے لیے خیر کے سارے دروازے بند ہوکر صرف شر ہی کے دروازے کھلے رہ جائیں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ دنیا میں اُس کی تھوڑی نیکی بھی آخرت میں کم از کم دس گنا تو بڑھائی ہی جائے گی، اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے، ہزاروں لاکھوں گنا بھی اللہ جس کے لیے چاہے گا بڑھا دے گا۔
رہا دنیا کی کھیتی بونے والا، یعنی وہ شخص جو آخرت نہیں چاہتا اور سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتا ہے، اُسے اللہ تعالیٰ نے اُس کی محنت کے دو نتائج صاف صاف سنا دیے ہیں۔ ایک یہ کہ خواہ وہ کتنا ہی سر مارے، جس قدر دنیا وہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ پوری کی پوری اسے نہیں مل جائے گی، بلکہ اس کا اتنا حصہ ہی ملے گا، جتنا اللہ نے اُس کے لیے مقرر کردیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اُسے جو کچھ ملنا ہے بس دنیا ہی میں مل جائے گا، آخرت کی بھلائیوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن)
یہاں تک تو معاملہ صرف رزق کے حصول اور سوچ کا تھا، لیکن آج ہمارے معاشرے میں یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ وہ لوگ جن کی کل تک معاشرے میں کوئی حیثیت اور مقام نہ تھا، اچانک راتوں رات امیر بن جاتے ہیں۔ امیر بنتے ہی ان کی زندگی کے طور طریقے بدل جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو کل تک دو وقت کی روٹی کے حصول میں ہی لگے ہوتے تھے، دولت آتے ہی عیش و عشرت کی زندگی اور لغویات میں مال خرچ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ چھوٹے بڑے کی تمیز، رشتہ داروں کے حقوق وغیرہ سب بھول جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر وہ اعلانیہ اللہ کی بغاوت کے بھی مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔ ان تمام افعال کا معاشرے پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ لوگوں کے درمیان محبت کے بجائے نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ معاشرے کے دیگر افراد ایسے راستوں کی تلاش میں لگ جاتے ہیں جن سے وہ بھی راتوں رات امیر بن جائیں۔ یہ رویہ یقینا معاشرتی بگاڑ کا باعث بن رہا ہوتا ہے۔ اس سے اُن تمام حرام ذرائع کی طرف انسان کی رغبت بڑھنے لگتی ہے جن سے اللہ نے روکا ہے۔ اس طرزِعمل سے انسانیت ختم ہوجائے گی اور وہی ہوگا جو آج کل ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔

اولاد غم اور غصے کا موجب ہوگی…


عابد علی جوکھیو

یہ انسانی کمزوری ہے کہ وہ کبھی بھی تنہا نہیں رہ سکتا۔ وہ فطرتاً اجتماعیت کا محتاج ہے۔ حضرت آدمؑ کی خلقت کے فوراً بعد ہی اللہ نے بی بی حواؑ کو پیدا فرمایا، اور یہیں سے نسلِ انسانی کا آغاز ہوا۔ حضرت آدمؑ کی اولاد کی صورت میں اس زمین پر انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا جو آج تک جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے باہمی تعلقات اور رشتوں کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو محبت و الفت کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے احکامات کثرت سے ملتے ہیں جو براہِ راست انسانی تعلقات سے متعلق ہے۔ سورۃ الحجرات میں انسانی معاشرے کے تمام خدوخال بیان کیے گئے ہیں۔ جس طرح حضرت آدمؑ کے بعد بی بی حواؑ کی خلقت اور ان دونوں کے ملاپ سے ان کی اولاد وجود میں آئی، اسی طرح آج بھی ایک مرد اور عورت کے ذریعے ایک نیا انسان اس دنیا میں وارد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان (میاں، بیوی اور اولاد) کے تعلقات کو تمام انسانوں کے تعلقات سے اہم قرار دیا ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ ان کے تعلقات آپس میں مضبوط ہوں۔ جہاں میاں بیوی کے حقوق کا تذکرہ ہے، وہیں اولاد پر والدین کے حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اولاد کو حکم دیتے ہیں: 
(ترجمہ) ’’تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُس کی، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو، اور نرمی و رحم کے ساتھ اُن کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ ’’پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح اِنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘ (بنی اسرائیل 23۔24) 
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: 
’’اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے بعد انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ اولاد کو والدین کا مطیع، خدمت گزار اور ادب شناس ہونا چاہیے۔ معاشرے کا اجتماعی اخلاق ایسا ہونا چاہیے جو اولاد کو والدین سے بے نیاز بنانے والا نہ ہو بلکہ ان کا احسان مند اور ان کے احترام کا پابند بنائے، اور بڑھاپے میں اسی طرح ان کی خدمت کرنا سکھائے جس طرح بچپن میں وہ اپنی اولاد کی پرورش اور ناز برداری کرچکے ہیں۔ یہ آیت بھی صرف ایک اخلاقی سفارش نہیں ہے بلکہ اسی کی بنیاد پر بعد میں والدین کے وہ شرعی حقوق و اختیارات مقرر کیے گئے جن کی تفصیلات ہم کو حدیث اور فقہ میں ملتی ہیں۔ نیز اسلامی معاشرے کی ذہنی و اخلاقی تربیت میں اور مسلمانوں کے آدابِ تہذیب میں والدین کے ادب اور اطاعت اور ان کے حقوق کی نگہداشت کو ایک اہم عنصر کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ ان چیزوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے کردیا کہ اسلامی ریاست اپنے قوانین اور انتظامی احکام اور تعلیمی پالیسی کے ذریعے سے خاندان کے ادارے کو مضبوط اور محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی نہ کہ اسے کمزور بنانے کی۔‘‘ (تفہیم القرآن)
مولانا شفیع عثمانیؒ معارف القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں: بیہقی نے شعب الایمان میں بروایت ابی بکرہؓ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اور سب گناہوں کی سزا تو اللہ تعالیٰ جس کی چاہتے ہیں قیامت تک مؤخر کردیتے ہیں بجز والدین کی حق تلفی اور نافرمانی کے، اس کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں بھی دی جاتی ہے۔ 
اس آیت سے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی اہمیت ہمارے سامنے واضح ہوگئی، اس کے علاوہ متعدد احادیث میں بھی ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم، فضیلت اور والدین کی خدمت نہ کرنے کی وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان فضیلتوں کا حقدار اور وعیدوں سے محفوظ فرمائے (آمین)۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے والدین کو بھی ایک دعا سکھائی ہے کہ وہ بھی جب اللہ سے دعا مانگیں تو کس طرح مانگیں۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔‘‘ (الفرقان 74)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں: 
’’یعنی ان کو ایمان اور عملِ صالح کی توفیق دے اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کر، کیونکہ ایک مومن کو بیوی بچوں کے حسن و جمال اور عیش و آرام سے نہیں بلکہ اُن کی نیک خصالی سے ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے۔ اُس کے لیے اِس سے بڑھ کر کوئی چیز تکلیف دہ نہیں ہوسکتی کہ جو دنیا میں اُس کو سب سے پیارے ہیں انہیں دوزخ کا ایندھن بننے کے لیے تیار ہوتے دیکھے۔ ایسی صورت میں تو بیوی کا حسن اور بچوں کی جوانی و لیاقت اُس کے لیے اور بھی زیادہ سوہانِ روح ہوگی، کیونکہ وہ ہر وقت اس رنج میں مبتلا رہے گا کہ یہ سب اپنی ان خوبیوں کے باوجود اللہ کے عذاب میں گرفتار ہونے والے ہیں۔
یہاں خاص طور پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ جس وقت یہ آیات نازل ہوئی ہیں، یہ وقت وہ تھا جب مکہ کے مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس کے محبوب ترین رشتہ دار کفر و جاہلیت میں مبتلا نہ ہوں۔ کوئی مرد ایمان لے آیا تھا تو اُس کی بیوی ابھی کافر تھی۔ کوئی عورت ایمان لے آئی تھی تو اُس کا شوہر ابھی کافر تھا۔ کوئی نوجوان ایمان لے آیا تھا تو اُس کے ماں باپ اور بھائی بہن، سب کے سب کفر میں مبتلا تھے۔ اور کوئی باپ ایمان لے آیا تھا تو اُس کے اپنے جوان جوان بچے کفر پر قائم تھے۔ اس حالت میں ہر مسلمان ایک شدید روحانی اذیت میں مبتلا تھا اور اس کے دل سے وہ دعا نکلتی تھی جس کی بہترین ترجمانی اس آیت میں کی گئی ہے۔ ’آنکھوں کی ٹھنڈک‘ نے اس کیفیت کی تصویر کھینچ دی ہے کہ اپنے پیاروں کو کفر و جاہلیت میں مبتلا دیکھ کر ایک آدمی کو ایسی اذیت ہورہی ہے جیسے اس کی آنکھیں آشوبِ چشم سے ابل آئی ہوں اور کھٹک سے سوئیاں سی چبھ رہی ہوں۔ اس سلسلۂ کلام میں ان کی اس کیفیت کو دراصل یہ بتانے کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ وہ جس دین پر ایمان لائے ہیں پورے خلوص کے ساتھ لائے ہیں۔ ان کی حالت اُن لوگوں جیسی نہیں ہے جن کے خاندان کے لوگ مختلف مذہبوں اور پارٹیوں میں شامل رہتے ہیں اور سب مطمئن رہتے ہیں کہ چلو، ہر بینک میں ہمارا کچھ نہ کچھ سرمایہ موجود ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن)
مفتی شفیع عثمانیؒ اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: 
’’اس میں اپنی اولاد اور ازواج کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کو میرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے سے مراد حسن بصریؒ کی تفسیر کے مطابق یہ ہے کہ ان کو اللہ کی اطاعت میں مشغول دیکھے، یہی ایک انسان کے لیے آنکھوں کی اصلی ٹھنڈک ہے۔ اور اگر اولاد و ازواج کی ظاہری صحت و عافیت اور خوشحالی بھی اس میں شامل کی جائے تو وہ بھی درست ہے۔ یہاں اس دعا سے اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ کے مقبول بندے صرف اپنے نفس کی اصلاح اور اعمالِ صالحہ پر قناعت نہیں کرلیتے بلکہ اپنی اولاد اور بیبیوں کی بھی اصلاحِ اعمال و اخلاق کی فکر کرتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اسی کوشش میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کی صلاحیت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا رہے۔‘‘ (معارف القرآن)
مذکورہ بالا دونوں آیاتِ قرآنی سے والدین اور اولاد کی ذمہ داریوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ جیسے مولانا مودودیؒ نے بیان کیا ہے کہ انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے، اس سے والدین اور اولاد کے رشتے کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ جب ایک فرد خاندان تشکیل دینے کے لیے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتا ہے تو یہ خاندان اولاد سے ہی مکمل ہوتا ہے اور بعد میں یہی اولاد ایک دوسرا خاندان بناتی ہے۔ اسی طرح معاملہ چلتا رہتا ہے۔ چونکہ اولاد کو خود ایک دن والدین کی حیثیت میں آنا ہوتا ہے اس لیے ان کو اس مقام اور مرتبے کا پہلے سے ہی احساس کرلینا چاہیے کہ اگر وہ اپنی اولاد کو اچھا دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں خود اپنے والدین کے لیے اچھا بننا ہوگا۔ جیسا کہ مولانا شفیع عثمانیؒ نے بیہقی کی ایک روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ والدین کے ساتھ زیادتی کے جرم کی سزا اولاد کو اس دنیا میں بھی دیں گے۔ اس کی واضح صورت یہ ہوگی کہ اس کی اولاد کی جانب سے اس کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو اس نے والدین کے ساتھ کیا ہوگا۔ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم کو اپنی عبادت سے متصل بیان کیا ہے کہ جس طرح اللہ کی عبادت ضروری ہے اسی طرح والدین کی اطاعت و فرماں برداری بھی ضروری ہے۔ جس طرح حقوق اللہ میں سب سے پہلے یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اسی طرح حقوق العباد میں سب سے مقدم یہ ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ 
آج ہم اپنے معاشرے کو دیکھیںتو بخوبی اندازہ ہوگا کہ آج کل کی اولاد ایسے کام کرتی ہے جو والدین کے لیے باعثِ شرمندگی اور معاشرے میں والدین کا نام اونچا کرنے کے بجائے لوگوں کے سامنے ان کی گردنیں جھکانے کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے میں جہاں اولاد کے بُرے افعال سے والدین غمگین ہوتے ہیں، وہیں بعض کے لیے غیظ و غضب کا باعث بھی بنتے ہیں۔ کوئی بری اولاد کے غم میں نڈھال ہوکر اس دنیا سے جاتا ہے، تو کوئی اولاد کے برے افعال پر کڑھ کر اور غصہ کرکے اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ بلاشبہ یہ والدین کے لیے بڑی اذیت کا موقع ہوتا ہے جب ان کی اولاد برے افعال کی وجہ سے ان کی گردنیں جھکا دیتی ہے۔ ایسی اولاد یقینا والدین کے لیے غم و غصے کا موجب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)

بارشوں کے باوجود گرمی ہوگی…


عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com

اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کے لیے ایک ضابطہ و قانون مقرر کیا ہے۔ اس ضابطہ و قانون سے معمولی انحراف بھی کسی بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ جس طرح انسان کے اعمال کو علامات قیامت میں شامل کیا گیا ہے اسی طرح قدرتی تبدیلیاں بھی قیامت کی علامات کے طور پر بتائی گئی ہیں۔ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیاں اہم علاماتِ قیامت میں شمار ہوتی ہیں۔ انسانی بداعمالیاں اس کائنات کے نظام میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔ یہی بگاڑ ہمیں ماحولیاتی، موسمی، سورج اور چاند گرہن کی کثرت وغیرہ کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالی نے ان تبدیلیوں کو بے مقصد نہیں بنایا بلکہ انہیں انسان کے لیے ایک علامت بتایا ہے کہ اگر تم اس طرح کی قدرتی تبدیلیاں دیکھو تو اپنے اعمال کی طرف توجہ دو۔ اسی لیے اسلام میں چاند اور سورج گرہن اور بارش وغیرہ کے لیے نمازوں کی تعلیم دی گئی ہے کہ اس نماز کے ذریعے تم لوگ اللہ سے اس کے عذاب کی پناہ اور رحمت طلبگار بنو۔ 
گزشتہ برسوں میں پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 15میں سے 14 گرم ترین سال 21 ویں صدی میں رونما ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بارشوں اور سیلاب کے باوجود عالمی سطح پر گرمی میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ صرف پاکستان کے گزشتہ چند سالوں کے اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ موسلادھار بارشوں کے باوجود ملک میں گرمی کی شدت میں کمی نہیں ہوئی۔ جولائی 2012 ، جون 2013 اور 2014 میں بارشوں کے باوجود گرمی کا زور نہیں ٹوٹا۔ امسال ملک میں گرمی کی شدید لہر کے نتیجے میں صرف کراچی میں ہزاروں اموات ہوئی ہیں۔ یہ سب اعداد و شمار صرف اس لیے بیان کیے ہیں کہ ان سے اندازہ کیا جاسکے کہ ہر طرح کی علامات قیامت ہمیں پوری ہوتی نظر آرہی ہیں، اس کے باوجود اپنی بداعمالیوں سے توبہ نہ کرنا اپنے ساتھ ہی ظلم ہوگا۔ 
اللہ تعالی نے  اس زمین میں فساد کو انسانی بداعمالیوں کا نتیجہ بتایا ہے۔ جہاں انسان کی ان بداعمالیوں کا اثر اس کی اپنی ذات، دوسرے انسانوں اور معاشرے پر پڑتا ہے بعینہ اس کا اثر قدرت کے نظام پر بھی پڑتا ہے۔ اللہ تعالی انسانوں کو ان کی بداعمالیوں پر متنبہ کرنے کے لیے ان پر چھوٹی چھوٹی آزمائشیں اور مصیبتیں نازل کرتا رہتا ہے تا کہ انسان ان آزمائشوں کو اللہ کی ناراضگی سمجھتے ہوئے گناہوں سے باز رہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزّہ چکھائے اْن کو اْن کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔‘‘ (الروم۔41)
مفتی شفیع عثمانیؒ معارف القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یعنی خشکی اور دریا میں سارے جہاں میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اعمال بد کی وجہ سے، تفسیر روح المعانی میں ہے کہ فساد سے مراد قحط اور وبائی امراض اور آگ لگنے اور پانی میں ڈوبنے کے واقعات کی کثرت اور ہر چیز کی برکت کا مٹ جانا، نفع بخش چیزوں کا نفع کم ہوجانا وغیرہ آفات ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان دنیوی آفات کا سبب انسانوں کے جذبات اور اعمال بد ہوتے ہین جب میں شرک و کفر سب سے زیادہ اشد ہیں، اس کے بعد دوسرے گناہ ہیں۔
یہی مضمون دوسری ایک آیت میں اس طرح آیا ہے وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم و یعفوا عن کثیر، یعنی تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تہمارے ہی ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے ہے۔ یعنی ان معاصی کے سبب جو تم کرتے رہتے ہو اور بہت سے گناہوں کو تو اللہ تعالی معاف ہی کردیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اس دنیا میں جو مصائب اور آفات تم پر آتی ہیں ان کا حقیقی سبب تمہارے گناہ ہوتے ہیں، اگرچہ دنیا مین نہ ان گناہوں کو پورا بدلہ دیا جاتا ہے اور نہ ہر گناہ پر مصیبت و آفت آتی ہے، بلکہ بہت سے گناہوں کو تو معاف کیا جاتا ہے، بعض بعض گناہوں پر ہی گرفت ہوتی اور آفت و مصیبت بھیج دی جاتی ہے۔ اگر ہر گناہ پر دنیا میں مصیبت آیا کرتی تو ایک انسان بھی زمین پر زندہ نہ ہوتا۔ 
دنیا کی بڑی بڑی آفتیں اور مصائب انسانوں کے گناہوں کے سبب سے آتے ہیں۔ اسی لیے بعض علماء نے فرمایا کہ جو انسان کوئی گناہ کرتا ہے وہ ساری دنیا کے انسانوں، چوپایوں اور چرند و پرند جانوروں پر ظلم کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے گناہوں کے وبال سے جو بارش کا قحط اور دوسرے مصائب دنیا میں آتے ہیں اس سے سب ہی جاندار متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے قیامت کے روز یہ سب بھی گناہگار انسان کے خلاف دعوی کریں گے۔
اور شقیق زاہد نے فرمایا کہ جو شخص حرام مال کھاتا ہے وہ صرف اس پر ظلم نہیں کرتا جس کا مال ناجائز طور پر حاصل کیا ہے، بلکہ پورے انسانوں پر ظلم کرتا ہے۔ کیونکہ اول تو ایک کے ظلم سے دوسرے لوگوں میں ظلم کرنے کی رسم پڑتی ہے، اور یہ سلسلہ ساری انسانیت کو محیط ہوجاتا ہے۔ دوسرے اس ظلم کی وجہ سے دنیا میں آفتیں اور مصائب آتے ہیں جو سے سب ہی انسان متاثر ہوتے ہیں۔‘‘ (معارف القرآن)
یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان کے اعمال کا تعلق صرف اس کی ذات تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات دوسرے انسانوں، معاشرے حتی کہ قدرت کے نظام میں بھی در و بدل کا باعث بنتے ہیں۔ جس طرح کوئی فرد کسی کا حق غضب کرتا ہے تو اس سے جہاں متاثرہ شخص پریشان ہوتا ہے وہیں اس کا یہ عمل معاشرے میں برے کام کی ترویج، معاشرتی بگاڑ اور عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔ معاملہ یہیں رک نہیں جاتا بلکہ ظالم کے اس عمل پر اللہ تعالیٰ بھی اس شخص کو سزا دیتے ہیں۔ اس کے لیے آخرت کی سزا تو اپنی جگہ مقرر ہے لیکن یہاں دنیا میں بھی انسانی بداعمالیوں کی وجہ سے اس فرد کو انفرادی اور بحیثیت قوم بھی سزا اور عذاب کا مزا چکھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ عذاب کبھی قحط کی صورت میں ہوتا ہے تو کبھی بارشوں میں کمی کے ذریعے۔ کبھی گرمی میں اضافے کی صورت میں تو کبھی برکت کے مٹ جانے سے۔ الغرض اللہ تعالی انسانوں کو ان کی بداعمالیوں پر مختلف طریقوں سے تنبیہ کرتے رہتے ہیں۔ 
جب اللہ تعالیٰ کی طرف انسانوں پر عذاب، ماحولیاتی تبدیلی یا کسی بھی دوسری صورت میں آتا ہے تو اس کا اثر بھی انسانوں یعنی معاشرے پر براہ راست پڑتا ہے۔ یہ وجہ اور اثر کے عمل کی طرح ہے کہ ہر ایک عمل دوسرے کے لیے سبب بن رہا ہوتا ہے۔ ان عذابوں کا معاشرے پر اثر اس طرح سمجھیں گے کہ اگر گرمی کی شدت میں بے حساب اضافہ ہوجائے تو انسان لامحالہ ایسے علاقوں کی طرف ہجرت کرنا شروع کردیں گے جو نسبتاً سرد ہوں۔ اگر بڑے پیمانے پر لوگ ہجرت کرکے کسی نئے علاقے میں آباد ہوں تو وہاں پیدا ہونے والے معاشرتی اور معاشی مسائل کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اور نتائج پر ایک تحقیق سامنے آئی ہے جس کے مطابق گرمی میں اضافے کے سبب پوری دنیا کا نظام بگڑ جائے گا اور دنیا کسی بڑے خطرے سے لاحق ہوجائے گی۔ اس تحقیق کے مطابق صرف گرمی کی وجہ سے انسانوں اور دیگر جانداروں کے لیے رہنا مشکل ہوجائے گا۔ گرمی بڑھنے سے سمندر مزید تیزابی ہو جائے گا جس سے وہاں کے جانداروں کو نقصان پہنچے گا۔ درجہ حرارت میں اضافہ کے نتیجے میں زمین پر انسان اور جانور اونچائی کی جانب اور قطبی علاقوں کی جانب ہجرت کرنا شروع کردیں گے۔ اس کے علاوہ درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں فوڈ سکیورٹی کو بھی خطرہ لاحق ہے جبکہ 2050 تک مکئی، چاول اور گندم کی پیداوار متاثر ہوگی۔ اس وقت تک دنیا کی آبادی تقریباً 9 ارب ہو چکی ہوگی اور ان کے لیے کھانے کی فراہمی مشکل ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ مچھلیوں کی بہت سی اقسام گرم پانی کے سبب اپنی جگہ سے چلی جائیں گی جو کہ بہت سے لوگوں کے لیے خوراک کا اہم ذریعہ ہیں اور بعض علاقوں میں مچھلیوں کی تعداد میں 50 فیصد کی کمی آ جائے گی۔
علامت کے مطابق بارشوں کے باوجود گرمی میں کمی نہ ہوگی، سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ بارشیں بھی خوب ہونگیں اور ممکن ہے کہ سیلاب کی حد تک بارشیں ہوں۔ ان دونوں کا نقصان یہ ہوگا کہ لوگ گرمی اور سیلاب سے متاثر ہوں گے۔ اس سے انسانوں کے معاش، معاشرت، جذبات اور نفسیات پر گہرا اثر پڑے گا۔ خاص طور پر زرعی علاقوں میں موسمی تبدیلیاں انسانوں کے معاش پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ ہجرت کے باعث معاشرت کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ گرمی مزاج میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔  بڑھتی ہوئی گرمی کا اثر انسانی مزاجوں پر  بھی پڑسکتا ہے۔ امریکا میں کی گئی ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے تشدد کا تعلق اسی بڑھتی ہوئی گرمی سے ہے۔ سائنسدانوں کو تحقیق کے دوران سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے کہ درجہ حرارت میں معمولی تبدیلی یا بارش بھی حملوں، جنسی زیادتی، قتل، کشیدگی اور جنگ پر اثر انداز ہوتی ہے، جبکہ جس سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کا اندازہ لگایا گیا ہے اس سے لگتا ہے کہ دنیا میں پرتشدد واقعات بڑھ جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر دو سینٹی گریڈ درجہ حرارت بڑھنے سے ذاتی نوعیت کے جرائم میں 15 فیصد اضافہ ہوگا۔
اللہ تعالی کی جانب سے اپنے نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم کے ذریعے بتائی گئی علامات قیامت کوئی ایسی عمومی نہیں جن سے ہم نظریں چرالیں۔ ہر ہر علامت کا تعلق انسان اور معاشرے سے جڑا ہوا ہے۔ ہر علامت انسانی تعلقات پر قائم ہے۔ اسی لیے ان علامات کا عمیق مطالعہ ہمیں اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان اپنی زندگیوں کو خالق کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ہی گزاریں، کیونکہ اصل کامیابی اسی میں ہے۔ 

جھوٹے انسان کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا


عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے نظام کو قائم اور برقرار رکھنے کے لیے اصول وضع کیے ہیں، ان اصولوں سے انحراف کی صورت میں یہ دنیا تباہ برباد ہوجائے گی۔ حقیقت کو مِن و عَن تسلیم کرنا ایک بہت بڑا خاصہ ہے، جس کا اطلاق دنیا کے کسی بھی شعبۂ زندگی میں کیا جائے اس کی اہمیت تبدیل نہ ہوگی۔ درحقیقت اس دنیا میں اصل معرکہ ہی سچ اور جھوٹ کا ہے، اللہ کا وجود اور اس کی کبریائی سچ اور اس کے مقابل سب جھوٹ ہے۔ اس لیے اللہ نے انسانوں کو اپنے معاملات میں بھی سچ اور جھوٹ کے فرق کو سامنے رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ سچ اور جھوٹ وہ بنیادی معیار ہے جس کے مطابق انسان کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچ نجات و کامیابی کا باعث ہے اور جھوٹ ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صادقین کی صفت کی اہمیت بیان کی ہے کہ یہ لوگ جنت میں اعلیٰ مقام و مرتبے والے ہونگے۔ سچ کی حقانیت اور جھوٹ کی قباحت ابدی معیار ہیں۔ اسی لیے اس ابدی معیار کی تبدیلی دنیا کے نظام میں بگاڑ اور فساد کا باعث بن سکتی ہے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں سچ اور جھوٹ کا معیار تبدیل ہو چکا ہے۔ معاشرے سے سچ بولنے کا رواج اٹھتا جا رہا ہے۔ سچ بولنا بے وقوفی کی علامت بن چکا ہے۔ ہمیں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر کوئی سچ بول کر نقصان اٹھاتا ہے تو آس پاس کھڑے اسے یہی مشورہ دیتے ہیں کہ سچ بولنے کی کیا ضرورت تھی، جھوٹ بول لیتے، تمہارا کیا نقصان ہوتا، وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح جھوٹ کا معاملہ ہے، اگر کوئی جھوٹ بول کر اپنی جان چھڑا لیتا ہے یا سامنے والے کو بظاہر بے وقوف بناتا ہے تو آس پاس کھڑے ہوئے واہ واہ کرتے دکھائی دیتے ہیں… واہ کس طرح اپنے آپ کو بچھایا یا فلاں کو بے وقوف بنایا۔ اس مضمون کی ایک حدیث ملتی ہے کہ حضرت ابو خالد حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دونوں سودا کرنے والوں کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں، پس اگر وہ دونوں سچ بولیں اور چیز کی حقیقت صحیح صحیح بیان کردیں کوئی عیب وغیرہ ہو تو بتلا دیں۔ تو ان کے اس سودے میں برکت ڈال دی جا تی ہے اور اگر وہ چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو ان کے سودے سے برکت مٹادی جاتی ہے۔ (متفق علیہ) جب بحیثیت مجموعی معاشرے کا یہ معیار اور رجحان بن جائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ معاشرے کا کیا حال ہوگا۔ دنیا کے کسی بھی مذہب اور معاشرے میں جھوٹ کو پسند نہیں کیا جاتا۔ اللہ نے انسان کی خصلت میں بھی سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت رکھی ہے۔ اسی لیے ہمیں کامیاب افراد، معاشروں اور اقوام میں سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت کی مشترک وصف ملتی ہے۔ 
بدقمستی سے آج ایک طرف ہمارے معاشرے سے سچے انسانوں اٹھتے جا رہے ہیں تو دوسری جانب سچے انسانوں کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ سچے لوگوں کو یہی کہہ کر خاموش کرادیا جاتا ہے کہ یہ شرافت اور سچ کا زمانہ نہیں۔ یہ بھیڑیوں کی دنیا ہے، یہاں ایسے ہی رہا جاتا ہے، لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ حقیقت میں تو ہم ہی نے اس دنیا کو اپنے اعمال کی وجہ سے بھیڑیوں کی دنیا بنا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اس دنیا کو امن اور محبت کی جگہ بنایا ہے جہاں انسان محبت اور سکون کے ساتھ رہیں، یہی نہیں بلکہ اللہ نے تو اس دنیا کو امن اور سکون کی جگہ بنانے کے لیے انسانوں کو ایک پورا نظام بھی دیا ہے تا کہ انسان اس نظام کو نافذ کرکے اس دنیا کو امن و سکون کی جگہ بنا سکتے ہیں۔ لیکن حضرتِ انسان نے خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہوئے اس کائنات کے خالق کی جانب دیے ہوئے نظام سے بغاوت کرکے اس دنیا کو ظلم کی آماجگاہ اور  بھیڑیوں کی دنیا بنادیا ہے۔ 
سچ کی اہمیت کی اندازہ اس بات کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خود اپنے لیے ارشاد فرمایا ہے کہ۔ ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہوگا۔؟ (النساء: 87) ایک دوسری جگہ ارشادہے: ’’یہ ہے اللہ کا وعدہ جو سراسر سچا ہے اور کون ہے جو اپنی بات میں اللہ سے زیادہ سچا ہو؟۔‘‘ (النساء:122) ایک اور مقام میں ارشاد ہے: ’’اور ہم یقیناً سچے ہیں۔‘‘ (الانعام: 146)
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے نبیوں اور رسولوں کی سچائی کا تذکرہ کیا ہے: سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے فرمایا: ’’اس کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کر، بیشک وہ بڑی سچائی والے پیغمبر تھے۔‘‘ (مریم: 41)
حضرت ادریس علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور اس کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا بھی ذکر کر، وہ بھی نیک کردار پیغمبر تھا۔‘‘ (مریم: 56)
حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اس کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا واقعہ بھی بیان کر، وہ بڑا ہی وعدے کا سچا تھا اور تھا بھی رسول اور نبی۔‘‘  (مریم: 54)
اللہ تعالیٰ نے مومنین سے بھی مخاطب ہوتے ہوئے انہیں حکم دیا کہ‘ ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔‘‘ (التوبۃ: 119)
اس آیت مبارکہ میں مومنین کو خاص طور پر سچوں کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا ہے یعنی یہی کافی نہیں کہ تم خود سچ بولو بلکہ جو لوگ سچے ہیں، حق کے لیے محنت کر رہے ہیں، ان کا ساتھ دو۔ اگر کوئی ان کو جھٹلائے تو تم جھٹلانے والوں کے سامنے کھڑے ہوجاؤ اور سچے انسانوں کی سچائی کی گواہی دو۔ اس آیت میں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ جب سچ اور جھوٹ کے معیار تبدیل ہوجائیں اور جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے تو تم سچے لوگوں کا ساتھ دینے والوں میں سے ہونا۔ سچوں کو سچا اور جھوٹوں کو جھوٹا کہنا۔ آج ہمیں معاشرے میں یہی طرز عمل دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہم لوگ سچے اور جھوٹے کا حقیقی معیار بالکل بھی سامنے نہیں رکھتے، بلکہ صرف طاقت، زور، عصبیت اور اپنے دنیوی فائدے کو دیکھ کر یہ سوچے بغیر کہ سچا کون اورجھوٹا کون ہے، طاقتور دیکھ کر یا جس سے کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہو اسی کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہ طرز عمل بھی انسان کے اپنے اعمال کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ انسان فطرت کے مطابق پیدا ہوتا ہے، اور سچائی فطرت کا حصہ ہے، لیکن انسان مستقل ایسے اعمال کرتا ہے کہ وہ فطرت کا باغی ہوجاتا ہے، اور وہ طرز عمل بھلا دیتا ہے جو طرز زندگی لے کر وہ اس دنیا میں آیا ہے۔ اس بات کو اس حدیث سے سمجھیں: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک اسے اللہ کے یہاں بہت سچا لکھ دیا جاتا ہے۔ اور جھوٹ نافرمانی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نافرمانی جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی یقینا جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں وہ بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (متفق علیہ)
مطلب مستقل برا عمل کرتے رہنے سے انسان کے اندر سے خیر کے جذبات مفقود اور برائی کے جذبات پھلتے پھولتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب انسان برائی کی معراج کو پہنچ جاتا ہے تو اسے برائی برائی محسوس نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ اس برائی سے دوسری برائیوں کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔ جس طرح ایک انسان جھوٹ بولتا ہے، پھر اس جھوٹ کو اپنے لیے حلال سمجھ بیٹھتا ہے، اور آخر میں جھوٹوں کی ٹولی میں شامل ہوکر جھوٹ کی ترویج اور دفاع کا کام کرتا ہے۔ پھر وہ سچوں کو جھوٹا اور جھوٹوں کو سچا مانتا ہے۔ جھوٹوں کی دنیا میں رہنے لگتا ہے، اور اپنے لیے جھوٹ کو ہی کامیابی کا معیار قرار دیتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ بھی اس طرف جا رہا ہے، ذاتی زندگی کے معاملات سے لے کر سیاسی و قومی زندگی تک ہم خود اتنے جھوٹے ہو چکے ہیں کہ ہم نے جھوٹ کو سچ اور حقیقت سمجھ کر جھوٹوں کو سچا اور سچوں کو جھوٹا مان لیا ہے۔ سچوں کی ناقدری اور جھوٹوں کو سر پر بٹھایا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے آج ہم پر طرح طرح کے عذاب نازل ہورہے ہیں۔ کبھی سیاسی بحران تو کبھی اشیاء خورونوش کی کمی۔ کبھی اہدافی قتل تو کبھی آگ، زلزلوں اور گرمی کی شدت کے باعث اموات… یہ سب ہمارے ان اعمال کا نتیجہ ہے جو ہم انفرادی اور بحیثیت قوم کر رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے رب سے منہ موڑ لیا ہے، اس کے احکامات ماننے کو تیار نہیں۔ دیدہ دلیری سے اس کی بغاوت کر ر ہے ہیں۔ ماہ صیام میں بھی اس کی بغاوت سے باز نہیں آتے۔ حکمران تو اپنی جگہ ہم عوام بھی جہاں موقع ملے جھپٹ پڑتے ہیں۔ اگر ہمارا یہی طرز عمل رہا ہے عنقریب ہم کسی بڑے عذاب کو شکار ہوجائیں گے۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔ 

Thursday, February 21, 2019

بھارت جتنی مر ضی ریاستی دہشت گردی کرلے، دنیا کی کوئی طاقت کشمیر کو آزاد ہونے سے نہیں روک سکتی ،گورنر پنجاب چوہدری محمدسرور

لاہور (این ٹی ایس رپورٹ) گورنر پنجاب چوہدری محمدسرور نے کہا ہے کہ بھارت کو پتہ ہے اس کو پاکستان سے پنگا لینا کتنا مہنگا پڑ یگا اس لیے وہ کبھی پاکستان کیخلاف کسی حر کت کی جرات نہیں کر یگا ‘پاکستان نہیں آج بھارت دنیا میں سفارتی سطح پر تنہا ہو رہا ہے ‘پاکستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں ‘افواج پاکستان اور عوام بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے متحد ہیں ‘بھارت جتنی مر ضی ریاستی دہشت گردی کرلیں اب دنیا کی کوئی طاقت کشمیر کو آزاد ہونے سے نہیں روک سکتی ‘کشمیر آج بھی پاکستان کی شہ رگ ہے اور ہم سب کشمیر یوں کیساتھ کھڑے ہیں ‘نر یندر مودی نے بطور وزیر ا علی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جو دہشت گردی کی وہ بھی پوری دنیا کے سامنے ہیں ‘میں نے نر یندر مودی کے خلاف بر طانیہ پار لیمنٹ میں بھی آواز بلند کی جسکی وجہ سے بر طانیہ نے اس وقت نر یندر مودی کو بطور وزیر اعلی ویزہ دینے سے انکار کر دیا ‘اقوام متحد ہ سمیت تمام عالمی اداروں کو مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالی ریاستی دہشت گردی کا نوٹس لینا چاہیے ‘نر یندرمودی انتخابات میں متوقع شکست سے خوفزدہ ہوکر اپنی عوام کو پاکستان کے خلاف اکسا رہا ہے مگر اسکی ہر سازش اور منصوبہ ناکام ہوگا ۔ وہ لاہور پر یس کلب ‘پی ایف یوجے او ر پی یو جے کے زیر اہتمام ’’بھارتی جارحیت اور میڈیا کا کردار ‘‘کے عنوان سے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسڑی میں ہونیوالے سیمینار سے خطاب کر رہے تھے جبکہ اس موقعہ پرپی ایف یو جے کے جنرل سیکرٹری رانا عظیم اور پی یوجے کے صدر شہزاد بٹ ’نامور صحافی سلمان غنی‘سنیئر کالم نگار ارشاد احمد عارف ‘سجاد میر ‘شاہد چوہدری اور دیگر بھی موجود تھے۔ گورنر پنجاب چوہدری محمدسرور نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں بھارت مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ کر رہا ہے یہ خطے میں امن کیلئے بھی سب سے بڑا خطر ہ ہے اور بھارت جتنا مر ضی جارحانہ رویہ اختیار کر لے پاکستان اس سے خوفزدہ ہونیوالا نہیںا ور کشمیری عوام بھی اپنی پر امن تحر یک آزادی اور جد وجہد سے پیچھے ہٹنے والے نہیں بلکہ تمام حالات اور سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر یں گے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو وزیر اعظم عمران خان نے بڑا واضح اور د وٹوک پیغام دیدیا ہے کہ اگر وہ مذاکرات کر نا چاہتا ہے تو ہم اس کیلئے تیار ہے اور بھارت کے پاس اگر پلوامہ میں ہونیوالے واقعے میں پاکستان کے بارے کوئی ثبوت دیں تو وہ دیں ہم ایکشن لیں گے اور بھارت نے پاکستان کے خلاف کوئی حر کت کی تو اس کوبھر پور جواب دیا جائیگا آج بھارتی جارحیت کے خلاف پار لیمنٹ ‘حکومت اور افواج پاکستان سمیت پوری قوم متحد ہے پار لیمنٹ نے بھارت کی دھمکیوں اور الزام تر شیوں کے خلاف قرارداد بھی منظور کی ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر کسی ایک جماعت یا حکومت کو نہیں بلکہ ہر کشمیری اور پاکستانی کا مسئلہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں عام انتخابات ہونے جار رہے ہیں اور نر یندرمودی کو ان انتخابات میں اپنی بدترین شکست نظر آرہی ہے او روہ اپنی قوم کو پاکستان کے خلاف اکسارہا ہے ماضی میں بھی نر یندرمودی کی جماعت عوام کی ہمدردیوں کے کیلئے بہت بار ایسا کر چکی ہے لیکن ہر بار انکو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ ا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں کوئی بھی واقعے ہو جائے تو وہ اس کی انکوائری کر نے کی بجائے سب سے پہلے اس کا الزام پاکستان پر لگا دیتے ہیںمگر حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے پاس کسی قسم کا کوئی ثبوت نہیںہوتا وہ صرف الزام تر شیاں کر تا ہے پلوامہ واقعے پر بھارت کے اپنے سیکورٹی ادارے یہ کہہ رہے ہیں کہ پلوامہ دھماکے میں استعمال ہونیوالا بارود سمیت سب کچھ انکے اپنے ملک سے ہی ہے اس لیے بھارت کے پاس پاکستان پر الزام تر شیوں کا کوئی جوز نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کیا وجہ ہے کہ کشمیر کے نوجوانوں کو آج موت سے بھی خوف نہیں آتا اصل وجہ یہ ہے کہ کشمیر کا بچہ بچہ بھارتی مظالم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہے اور انکی پر امن جد وجہد کا مقصد کشمیری کی آزادی ہے جسکے لیے وہ کسی بھی قر بانی سے دریغ نہیں کر یں گے کشمیریوں کے دل میں بھارت سے نفرت اور آزادی کے علاوہ کوئی جذبہ نہیںبھارت کسی بھی صورت بھی بہادر کشمیریوں کو شکست نہیں دے سکتا۔انہوں نے کہا کہ پلوامہ واقع کی آڑ میں بھارت کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اقوام متحدہ سمیت تمام ادارے اس کا سخت نوٹس لیں اور بھارت کی اس ریاستی دہشت گردی کو روکا جائے۔ 

صدر آزادکشمیر سردار مسعود خا ن کا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل سے پاک بھارت کشیدگی ختم کرانے کا مطالبہ

 مظفرآباد۔ 21 فروری (این ٹی ایس رپورٹ) صدر آزادکشمیر سردار مسعود خان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترش اور سلامتی کونسل کے ارکان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری مداخلت کر کے پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ختم کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی امن و سلامتی کو یقینی بنائے اور عالمی امن کے لیے خطرہ کا باعث مسائل کوترجیحی بنیادوں پر حل کرے ۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں الجزیرہ ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو انٹرویو میں صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی کا واحد سبب جموں و کشمیر کا تنازعہ ہے جس کے حل نہ ہونے کی وجہ سے پلوامہ جیسے واقعات رونما ہو تے ہیں۔ اقوام متحدہ نے 1950 ء کی دہائی میں کشمیر کو ایک بین الاقوامی تنازع تسلیم کرتے ہوئے کئی قرار دادیں منظور کیں جن پر آج تک عملدرآمد نہیںہوا اور اس وجہ سے بھارت مقبوضہ کشمیر پر قابض ہے اور وہاں کے عوام اس نا جائز اور غیر اخلاقی قبضہ کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پلوامہ واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے سردار مسعود خان کا کہنا تھا کہ بھارت کی حکمران جماعت اور بعض انتہا پسند ہندو گروپ پاکستان اور کشمیر مخالف جذبات بھڑکا کر جنگ اور کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے میںمصروف ہیں۔ بھارتی حکمرانوں اور انتہا پسند عناصر کی یہ منفی کوششیں دونوں ملکوں کو جنگ کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام جنگی جنون کے خلاف ہیں اور وہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کو بات چیت اور سفارتکاری سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ پلوامہ واقعہ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ اس واقعہ کی آڑ میں بھارت دنیا کی توجہ ایک بڑی حقیقت سے ہٹانا چاہتا ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت گزشتہ 71 سال سے کشمیریوں کو آزادی اور حق خود ارادیت مانگنے کے جرم میں قتل کر رہا ہے ۔ نوجوانوں کو اپاہج اور بصارت سے محروم کر رہا ہے اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے ۔ انسانیت کے خلاف اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت کبھی اوڑی ، کبھی پٹھان کوٹ اور کبھی چھٹی سنگھ پورہ کے ڈرامے رچا تا ہے تاکہ دنیا کو یہ باور کرا سکے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کے لیے نہیں بلکہ دہشت گردی کے لیے ہے ۔ انہوں نے بھارت کے اس الزام کو بھی مسترد کر دیا کہ پلوامہ واقعہ میں جیش محمد نامی تنظیم ملوث ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جیش محمد ایک کالعدم تنطیم ہے جس کا مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری تحریک آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ آزاد کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مسعود خان نے کہا کہ آزاد کشمیر میں جبری گمشیدگیوں ، اندھا دھند گرفتاریوں ، سیاسی قیدیوں پر وحشیانہ تشددد اور بے گناہ خواتین کی بے حرمتی کے واقعات کا کوئی وجود نہیں اس لیے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ انہوں نے مذید کہا کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی اُمنگوں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کیے بغیر پلوامہ جیسے واقعات کی روک تھام ہو سکتی اور نہ ہی خطہ میں امن و سلامتی کی صورتحال کویقینی بنایا جا سکتا ہے ۔ قبل ازیں صدر آزاد کشمیرسردار مسعود خان سے الجزیرہ ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے قائم مقام ڈائریکٹر مصطفی سواگ اور ٹیلی ویژن کی کور ٹیم کے ارکان نے ٹی وی نیٹ ورک کے ہیڈ کوارٹر میں ملاقات کی۔

پاکستان کوئی مذاق نہیں بلکہ ایک نیوکلئیر پاور ہے،سابق بھارتی جج مودی پر برس پڑے

گر اس بار لائن آف کنٹرول کراس کرنے کی کوشش کی گئی تو بھارت کو جوابی کاروائی کے لیے تیار رہنا ہو گا،
مرکنڈے کاٹجو نے اپنی حکومت کو اوقات یاد دلا دی

نئی دہلی (این ٹی ایس رپورٹ ) بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مرکنڈے کاٹجو نے مودی حکومت کو اوقات یاد دلاتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے جنگ کوئی مذاق نہیں ہے بلکہ وہ ایک نیو کلیئر پاور ہے ،اگر ایسی کوئی غلطی کی تو صدیوں پچھتانا پڑے گا،میں بھی ایک کشمیری ہوں ،آج کل کشمیریوں پر حملے ہو رہے ہیں ،میں نے ڈنڈا سنبھال کر رکھا ہے جو آئے گا اس کا ’’سر‘‘ کھول دوں گا ۔ایک انٹرویو میں سابق جج مرکنڈے نے کہا کہ پلوامہ حملے میں جو 42 نوجوان مارے گئے میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ آج کل جو لمبی چوڑی باتیں ہو رہی ہیں کہ ہم نے بدلہ لینا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے جن لوگوں نے یہ حملہ کیا ہے وہ تو غائب ہو گئے۔ بھارت نے جو کچھ کشمیر میں کیا ہے اس کے بعد ساری کشمیری عوام بھارت کے خلاف ہو گئی ہے۔دوسری طرف پاکستان پر حملے کرنا کوئی مذاق نہیں بلکہ ایک نیوکلئیر پاور ہے۔اور جو بھارت نے وہاں سرجیل سٹرائیک کی وہ بلکل ایسے ہی جیسے ایک آدمی رات کو گھر میں سو رہا ہے اور آپ چپکے سے اس کے گھر میں گھسں اور ایک تماچہ مار کر بھاگ جائیں۔ لیکن اب وہ آدمی سو نہیں رہا ہے اب پاکستانی فوج تیارہے۔اگر اس بار لائن آف کنٹرول کراس کرنے کی کوشش کی گئی تو جوابی کاروائی کے لیے تیار رہنا ہو گا۔جسٹس مرکنڈے نے کہا کہ بھارت کے سرجیک اسٹرائیک کرنے میں کوئی حقیقت نہیں ہے اس بار بھارت سرجیل سٹرائیک نہیں کر سکے گا۔ جسٹس مرکنڈے نے کہا کہ یہ بھارتی رہنماؤں کی نااہلی اور بیوقوفی کا نتیجہ ہے کہ آج تمام کشمیری عوام بھارت کی مخالفت میں کھڑی ہے۔ جسٹس مرکنڈے کا کہنا تھا کہ بدلہ کیسے لیا جائے گا؟ کیا نہتے لوگوں پر حملہ کرنا بہادری ہے۔جب آپ ایک نہتے آدمی پر حملہ کریں گے تو پھر اس کے دوست رشتہ داروں میں بھی بدلے کی آگ بھڑک اٹھ سکتی ہے۔ جسٹس مرکنڈے انٹرویو دینے کے دوران ڈنڈا لے کر بیٹھے رہے جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو مرکنڈے کاٹجو کا کہنا تھا کہ میں نے اس لیے ڈانڈا پکڑا ہوا ہے کیونکہ میں بھی ایک کشمیری ہوں اور لوگ کشمیریوں پر حملے کر رہے ہیں۔میں بھی کشمیر ہوں میرے پاس اگر ہمت ہے تو میرے پاس آؤ یہ ڈنڈا تمہارا انتظار کر رہا ہے اگر کسی نے ایسی حرکت کی تو اس ’’ سر‘‘ کھول دوں گا۔

بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کی حکومت ذمہ دار ہے ،ہیومن رائٹس واچ

 نئی دہلی (این ٹی ایس رپورٹ )انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھارت میں گائے کے نام پر ہونے والے قتل عام اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو ذمہ دار قرار دے دیا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ہیومین رائٹس واچ کی جانب سے بھارت میں بڑھتے ہوئے تشدد کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں عالمی تنظیم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت میں بڑھتے ہوئے تشدد کو فی الفور روکے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گائے کے گوشت کے استعمال اور جانوروں کے کاروبار سے منسلک تاجروں کو حکمراں جماعت کے رہنمائوں نے اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے نشانہ بنوایا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2015 سے دسمبر 2018 کے درمیان بھارت میں 44 لوگ گائے ذبیحہ یا گوشت کھانے کے الزام میں مارے گئے، مقتولین میں سے بیشتر مسلمان تھے جبکہ پولیس نے بھی حملہ آوروں کی معاونت کی اور حکمراں جماعت نے اس قتل کو عوامی ردعمل قرار دیا۔جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گانگولی کا کہنا تھا کہ گائے کی آڑ میں انتہا پسند مسلسل اقلیتیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ حکومت کی طرف سے بلوایں کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی اشتعال انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف بی جے پی حکومت نے کوئی کارروائی کی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومتی پشت پناہی اور مدد سے انتہا پسندوں چار بھارتی ریاستوں ہریانہ، اترپردیش، راجستھان اور جھار کھنڈ میں حملے کیے، جن میں 14 لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ حکومتی پالیسیوں اور گاؤرکشک گروہوں کے حملوں نے ہندوستان کے مویشی کاروبار اور دیہی زرعی معیشت کو برباد کر دیا، زراعت، دودھ، چمڑا اور گوشت برآمد کرنے والی صنعتوں کو بھی بہت زیادہ نقصانات کا سامنا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ گائے کو بنیاد بنا کر بی جے پی کی ہندو توادی ذیلی تنظیم کے مشتعل کارکنان مسلمانوں، دلت اور قبائلی برادری کو ڈراتے اور انہیں قتل کرتے ہیں۔ہیومن رائٹس واچ نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرے تاکہ تاجروں کو بھی محفوظ ماحول اور قیمتی انسانی جانوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔

Wednesday, February 20, 2019

بھارتی فوجیوں کے حوصلے پست ہیں جنگ لڑنے کے اہل نہیں، بھارتی انٹیلی جنس کی رپورٹ

 بھارتی افواج میں جنگ سے بھاگنے کی پانچ وجوہات بتائی گئی ہیں جن میں راشن اور سہولیات کی کمی ہے بھارتی فوجی تنگ آکر خودکشیاںکرنے میں مصروف 

 اسلام آباد(این ٹی ایس رپورٹ)بھارت کی ملٹری انٹیلی جنس نے حکومت کو اپنی رپورٹ ارسال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوج کا مورال جنگ لڑنے والا نہیں ہے جبکہ بھارتی افواج میں دن بدن جوش اور ولولہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ بھارتی افواج کے نوجوانوں میں اس حد تک بددلی پھیلی ہوئی ہے وہ خود کشیاں کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ مودی حکومت نے بھارتی فوج کے ملٹری انٹیلی جنس کو بھارتی افواج کا مورال جاننے کیلئے ریسرچ کرنے کا ٹاسک دیا تھا۔ بھارتی ملٹری انٹیلی جنس نے گزشتہ پانچ سالوں میں یہ ریسرچ مکمل کرکے رپورٹ حکومت کوارسال کردی ہے۔ یہ رپورٹ بریگیڈیئر کرم ملہو تزا کے دستخطوں سے متعلقہ حکام کو بھیجی گئی ہے۔ رپورٹ میں حکومت کو بتایا گیا ہے کہ بھارتی کی تینوں افواج میں جنگ لڑنے کا جذبہ انتہائی کم ہے جس کی پانچ وجوہات بیان کی گئی ہیں ۔ جنگ سے بھاگنے کی پہلی وجہ بھارتی افواج میں سہولتوں کا فقدان اور راشن کی کم قرار دیا گیا ہے۔ بھارتی افواج میں ہم جنس پرستی کا رجحان عام ہے ۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بھارتی افواج کے افسران میں 532جبکہ بھارتی جوجیوں میں 2267ہم جنس پرستی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔جنگ میں ہلاک ہونے والے بھارتی فوجیوں کے ورثا کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ بھارت کی افواج میں مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ جبکہ افسران کی طرف سے فوجیوں کو سخت سزائیں دینابھی بزدلی کی اہم وجہ ہے ۔ ان وجوہات کی بنیاد پر بھارت کی فوج میں خود کشیوں کا رجحان عام ہے اور ہر سال 100سے زائد فوجی خود کشی کررہے ہیں۔ 

یورپی پارلیمنٹ کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بحث

دنیا بھر میں انسانی حقوق کا تحفٖظ کیا جائیگا، کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر دیرینہ حل طلب مسئلہ ہے،
 یورپی یونین اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اس نوعیت کے مسائل کا واحد حل مذاکرات ہیں، چیئرمین ذیلی کمیٹی

اسلام آباد (این ٹی ایس رپورٹ)مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کو یورپی پارلیمنٹ کے اجلاس میں باضابطہ طور پر زیر بحث لایا گیا جو کہ یورپی پارلیمنٹ میں انسانی حقوق سے متعلق ذیلی کمیٹی کی جانب سے ایک اہم پیشرفت ہے۔2007 کے بعد کشمیر کامسئلہ یورپی یونین فورم پر باضابطہ طور پر زیر بحث لانے کا یہ پہلا موقع ہے۔ اپنے تعارفی ریمارکس میں چیئر مین ذیلی کمیٹی پنزیری نے یورپی یونین کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کا تحفٖظ کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین نے اس وقت بھی انسانی حقوق کو زیر بحث لانے سے پہلو تہی نہیں کی جب انہیں پیچیدہ سیاسی مسائل کا سامنا تھا۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر دیرینہ حل طلب مسئلہ ہے۔ یورپی یونین اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اس نوعیت کے مسائل کا واحد حل مذاکرات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فورم میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال اور کشمیری عوام کے مصائب پر توجہ مبذول کرائی گئی۔ فورم میں جون 2018کو جاری کشمیر کے حوالے سے انسانی حقوق سے متعلق یو این ہائی کمشنر کی رپورٹ زیر بحث لائی گئی جبکہ زیلی کمیٹی نے رپورٹ کی ایک مصنف کرسٹین چنگ کو فورم میں شرکت کی خصوصی دعوت دی تھی۔ ٖاس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کرسٹین چنگ نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو اجاگر کیا اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جامع اورآزادانہ بین الاقوامی تحقیقات کی غرض سے کمیشن قائم کرنے کیلئے ہیومن رائٹس کونسل کے سفارشات کے عزم کا اعادہ کیا۔وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر،بیلجیئم میں پاکستان کی سفیر نغمانہ عالمگیر ہاشمی کے علاوہ یورپی پارلیمنٹ کے ارکان، انسانی حقوق و سول سوسائٹی تنظیموں کے نمائندوں، تھنک ٹیکنکس اور مختلف ممالک کے سفارتکاروں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔یورپی پارلیمنٹ کے اراکین میں واجد خان، جولی وارڈ، بیرونس نوشینہ مبارک،امجد بشیر،ڈیوڈ مارٹن،جورڈی سولے،سیون سائمن،جین لیمبرٹ، رچرڈ کوربٹ، تھریسا گریفن اور جو لینن شامل تھے۔ارکان پارلیمنٹ کی کثیر تعداد نے ہیومن رائٹس کونسل کی سفارشات پر فوری عملدرآمد اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے مظالم روکنے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کیلئے سہ فریقی مذاکرات کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔اقدام پاکستان کی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے کیونکہ ایک دہائی سے بھی زائد عرصہ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ یورپی یونین نے باضابظہ طور پر مسئلہ کشمیر پر بحث کی ہے۔

پوری قوم متحد ہو کر بھارت کے جنگی جنون کا جواب دینے کے لیے تیار ہے، اسپیکر قومی اسمبلی

ایوان کا کسٹوڈین ہونے کے ناطے سب کو ساتھ لے کر چلوں گا۔۔۔ میڈیا بحران کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوں،وفدسے گفتگو
اسلا م آباد(این ٹی ایس رپورٹ)سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ پوری قوم متحد ہو کر بھارت کے جنگی جنون کا جواب دینے کے لیے تیار ہے اورپارلیمنٹ کی جانب سے بھار ت کی طر ف سے دی جانے والی دھمکیوں کا مشترکہ اوردوٹوک جواب دیا جائے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا جس نے بدھ کے روز پارلیمنٹ ہاوس میں سپیکر سے ملاقات کی۔ سپیکر نے کہا کہ قومی اسمبلی کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں بھارت کے جنگی جنون پر بحث کرائی جائے گی اور بھارت کے جنگی جنون کے خلاف مشترکہ قرار داد بھی منظور کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کے جنگی جنون کے معاملہ پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر راجہ ظفرالحق اور وزیرخارجہ سمیت دیگر پارلیمانی رہنماوں سے بات ہوئی ہے جس میں بھارت کو مشترکہ اور واضح پیغام دینے کے لیے مشترکہ و متفقہ قرارداد منظور کرانے پر اتفاق کیا گیاہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی افراتفری کے ماحول میں خواہش ہے کہ اسمبلیاں چلیں اور زیادہ سے زیادہ قانون سازی کرکے عوام کو ریلیف فراہم کریں۔انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں عوامی مفاد کے قوانین جلدمنظوری کے لیے پیش کیے جائیں گے ۔اسد قیصر نے کہا کہ اس وقت 700 ایسے قوانین کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں ترامیم کی گنجائش موجود ہے ۔اس ضمن میں ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو ان مجوزہ ترامیم کا جائزہ لے کر ایوان کو پیش کرے گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایوان میں جو جس کا مینڈیٹ ہے اس کے مطابق اس کا احترام کیا جائے گا۔سپیکر نے کہا کہ ایوان کا کسٹوڈین ہونے کے ناطے سب کو ساتھ لے کر چلوں گا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا بحران کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوں۔ انہوں نے پی آراے کو اپنی تجاویزدینے کے لیے کہا ۔انہوں نے یقین دلایا کہ وہ اس سلسلے میں وزیراعظم سے اس ایشو پر بات کریں گے کہ میڈیا کے مسائل کے حوالے سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر غور کیا جائے گا۔

Monday, February 18, 2019

پاکستان اور بھارت کے درمیان سفا رتی کشیدگی شدت اختیا ر کر گئی

 دونوں ممالک نے اپنے اپنے سفیر واپس بلا لیے۔پاکستانی ہائی کمشنر کو مشاورت کے لیے اسلام آباد طلب کیا گیا، ترجمان دفتر خارجہ

اسلام آباد (این ٹی ایس رپورٹ)پاکستان نے بھارت سے اپنا ہائی کمشنر واپس بلا لیا، ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے بھارت سے اپنا ہائی کمشنر واپس بلا لیا ہے اور انہیں مشاورت کے لیے طلب کیا گیا ہے۔دفتر خارجہ ذرائع کے مطابق پاکستانی کمشنر سہیل محمود کو اسلام آباد میں مشاورت کرنے کے لیے طلب کیا گیا ہے۔جس کے بعد بھارت میں تعینات پاکستان کے ہائی کمشنر نئی دہلی سے پاکستان روانہ ہو گئے ہیں۔ واضح رہے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں قابض بھارتی فوجی قافلے پر حملے کے بعد بھارت نے بغیر تفتیش ہی پاکستان پر الزام عائد کردیا جس کے بعد مودی سرکار نے پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر کومشاورت کیلئے واپس بلا لیا ہے، بھارتی ہائی کمشنر بھارت واپس چلے گئے۔جب کہ بغیر تفتیش کے پاکستان پر الزام عائد کرنے پر پاکستان نے بھارتی ہائی کمیشن کو طلب کرکے جواب دہی بھی کی ہے۔ تاہم پاکستان باقاعدہ اپنا مئوقف بھی جاری کرے گا۔ بھارتی حکومت نے پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر کو بھی واپس بلا لیا ۔ اجے بساریہ کو پلواما حملے کے بعد کی صورتحال پر مشاورت کیلئے بلایا گیا تھا۔ واضح ہے مقبوضہ کشمیرمیں ضلع پلوامہ کے علاقے اونتی پورہ میں سرینگر جموں ہائی وے پر ایک بم دھماکے میں کم سے کم44 بھارتی فوجی اہلکار ہلاک اوردرجنوں زخمی ہو گئے ہیں، زخمیوں میں بعض کی حالت نازک ہے جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔جمعرات کو کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب دھماکہ خیز مواد سے لدی ایک کار کو بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکاروں کی بس سے ٹکرا دیا گیا جس کے نتیجے میں زبردست دھماکہ ہوا۔ دھماکہ میں44 سی آر پی ایف اہلکار ہلاک اورمتعدد شدید زخمی ہوگئے جنہیں بادامی باغسرینگر میںبھارتی فوج کی 92 بیس ہسپتال میں منتقل کردیا گیا تھا۔

India detains 23 men with suspected links to group behind Pulwama attack

SRINAGAR: Indian forces have detained 23 men suspected of links to the militant group that masterminded the bombing of an Indian security convoy that killed 44 paramilitary police, a top police official said on Sunday.

The 23 men included members and sympathizers of Jaish-e-Mohammad, the militant group which has reportedly claimed responsibility for Thursday’s attack, the deadliest on Indian security forces in decades.
Re of India’s National Investigating Agency (NIA) questioned the suspects about the bombing on Sunday, two security officials said.
“They are trying to reach out to the top commanders of Jaish-e-Mohammad, including its Kashmir Chief,” one of the sources said.
Mohammed Umair, the commander of the JeM in Kashmir who is believed to have plotted the attack, is suspected to be hiding in the region where the attacks took place, the officials said.
The officials say Umair had “radicalised and motivated” the Kashmiri school dropout who rammed a car laden with explosives into the convoy on Thursday.
Indian officials say Umair is a nephew of the chief of the Jaish, Masood Azhar.
Indian Prime Minister Narendra Modi has promised a strong response to the attack and says he has given the military a free hand to tackle militancy.
India has raided the houses of suspected militants across the occupied territory  to find information on those who masterminded and executed the attack.
Investigators are now trying to figure out how a large quantity of explosives used in the attack was smuggled into Kashmir, the officials said.

Saturday, February 16, 2019

وزیراعظم عمران خان کا ویژن پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر استوار کرنا ہے،درحقیقت شہزادہ محمد بن سلمان کے خیالات بھی انہی اقدار پر مبنی ہیں

اسلام آباد ۔ 16 فروری (این ٹی ایس نیوز) اطلاعات ونشریات کے وفاقی وزیر فواد حسین چوہدری نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا ویژن ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر استوار کیا جائے جس کی بنیاد رواداری کی اقدار پر استوار ہو، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی تعلقات ہیں جو اقتصادی روابط اور اسلامی اخوت کے رشتوں میں بندھے ہیں، پاکستان میں مرحوم سعودی فرمانروا شاہ عبدالعزیزاور ان کے شاہی خاندان کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا  ہے جس کا ثبوت اسلام آباد میں واقع شاہ فیصل مسجد ہے جو دونوں برادر اسلامی ممالک کے مضبوط رشتے کی عکاسی کرتی ہے۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے سعودی ٹی وی چینل الاخباریہ کوخصوصی انٹرویو کے دوران کیا۔وزیراطلاعات نے کہاکہ دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط تعلقات کو مزید وسعت وزیر اعظم عمران خان کے سعودی عرب کے دوروں سے ملی ہے، پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات عشروں پر محیط ہیں یہی وجہ ہے کہ موجودہ سعودی حکومت کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کیا ہے اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ایشیا کے دورے کا آغاز بھی پاکستان سے کررہے ہیں، پاکستان سعودی عرب کا تہہ دل سے شکرگزار ہے کہ اس نے ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو تذویراتی شراکت داری میں بدل دیں کیونکہ پاکستان سعودی عرب کے موقف کی خاص طو رپر مشرق وسطیٰ، خطے اور بین الاقوامی سطح پر بھی ہمیشہ حمایت کرتا ہے۔ سعودی ولی عہد کے دورے کے پاک سعودی میڈیا تعلقات پر اثرات کے حوالے سے ایک سوال پر وزیراطلاعات نے کہا کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میڈیا حقیقت حال کی عکاسی کرتا ہے اگر صورت حال مثبت ہے تو میڈیا مثبت تاثر دے گا اوراگر منفی ہو تو منفی تاثر ہی دے گا، جیسا کہ ابھی دیکھا جارہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں مثبت صورتحال ہے تو دونوں ملکوں میں مثبت صورتحال کی عکاسی ہو رہی ہے،پاکستان میں دہشت گردی اور دھماکوں سے مرعوب نہیں ہوتے بلکہ ہم جرات مندی کے ساتھ مقابلہ کرنے والی قوم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے اس بات کی اہمیت ثابت ہوتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان میڈیا تعاون کو مضبوط کیا جائے اور یہی صورتحال سعودی عرب اور پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ ہم پاکستان میں سعودی وزارت اطلاعات کے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں اور سعودی شہریوں کے لئے ہم نے ویزہ کی مخصوص سہولتیں فراہم کی ہیں تاکہ سعودی شہریوں کو پاکستان آنے میں مشکلات نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بے شمار سیاحتی مقامات ہیں جن کو دیکھ کر اکثر لوگ سوئٹزرلینڈ کو بھی بھول جاتے ہیں۔ پاکستان میں دنیا کی بلند ترین برفانی چوٹیاں ، سمندر اور قدرتی مناظر موجود ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ عرب ممالک کے لوگ اور خاص طور پر سعودی شہری یورپ جانے کی بجائے سیرو سیاحت کے لئے پاکستان کا رخ کریں، سیاحت کے فروغ سے ہمارے تعلقات میں مزید استحکام آئے گا اور دونوں ملکوں کے درمیان مزید تفاہم اور ہم آھنگی پیدا ہوگی۔ وزیر اطلاعات نے کہا سعودی ولی عہد کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر اس سلسلے میں ایک جامع مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے جائیں گے اور اس حوالے سے ہم نے ایک مشترکہ کمیٹی بھی قائم کی ہے۔ پاکستانی اور سعودی وزارت اطلاعات کے درمیان تعاون اور رابطوں کے بارے میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ دونوں ممالک کو یکساں چیلنجز کا سامنا ہے اور ہر مرحلے میں خاص چیلنجز درپیش ہوتے ہیں۔ ماضی میں اسلحے کی جنگوں کی دوڑ کا چیلنج تھا لیکن اب ویژن کا چیلنج درپیش ہے لیکن پاکستان اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن پر عملدرآمد کرکے ان چیلنجز سے نمٹ سکتے ہیں اور اس بات کو پاکستان اور سعودی عرب کے عوام بخوبی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے عوام شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن کی تائید اور حمایت کرتے ہیں اور ہم سعودی وزارت اطلاعات کے ساتھ بھر پور تعاون کر رہے ہیں تاکہ اسلامی رواداری کو فروغ دیا جائے۔ وزیراطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا ویژن ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ایک ریاست بنایا جائے جس کی بنیاد رواداری کی اقدار پر استوار ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رواداری ، اسلامی اخوت ، غریبوں کی دادرسی اور انصاف پر مبنی پر معاشرے کی بنیاد ڈالی تھی جوحیٰ علی الفلاح کی بنیاد پر قائم تھی، درحقیقت شہزادہ محمد بن سلمان کے خیالات بھی انہی اقدار پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہی خیالات نئے معاشرے کی بنیاد بنتے ہیں اور اسی بنیاد پر شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنا 2030ء کا ویژن قائم کیا ہے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ سعودی فلسفہ صرف سعودی عرب کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ سعودی عرب عالم اسلام کی ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ مستقبل میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مشترکہ لائحہ عمل اپنا یا جائے گا۔ 

مودی کو الزام تراشی کے بجائے مقبوضہ وادی میں انسانیت سوز مظالم پراظہار شرمندگی کرنا چاہیے ‘شہباز شریف


بھارتی رویہ چوری اور سینہ زوری کامظہر ہے،سرجیکل سٹرائیک کی باتیں حماقت ہیں، بھارتی قیادت عقل اور ہوش کے ناخن لے، ہماری بہادر مسلح افواج ہر مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار ہے،بیان

لاہور (این ٹی ایس نیوز)قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے بھارتی وزیراعظم کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم کو پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانیت سوز مظالم پراظہار شرمندگی کرنا چاہیے ،بھارتی رویہ چوری اور سینہ زوری کامظہر ہے،سرجیکل سٹرائیک کی باتیں حماقت ہیں، بھارتی قیادت عقل اور ہوش کے ناخن لے ،ہماری بہادر مسلح افواج دشمن کے ہر مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دے چکے ہیں اور آئندہ انشااللہ اس سے بھی زیادہ موثر انداز میں جواب دیں گے۔اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ بھارتی رویہ چوری اور سینہ زوری کامظہر ہے،پیلٹ گن سے بیس ماہ کی معصوم کشمیری بچی کی بینائی چھیننے پر بھارتی وزیراعظم کو اتنا تائو دکھانا چاہئے تھا۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری بھارت کی پاکستان میں انتشار پھیلانے کی خواہش اور عزائم کا زندہ اور چلتا پھرتا ثبوت ہے،یہ وہ حقیقت ہے جس سے بھارت نظریں چرا نہیں سکتا۔ شہباز شریف نے کہا کہ پلوامہ واقعہ کی پاکستان نے مذمت کی ہے ،کسی تحقیق کے بغیر ہی پاکستان کو اس واقعہ سے جوڑ دینا پہلی بار نہیں ہوا،اس سے پہلے بھی بھارت نے خود ایسے مشکوک واقعات رچائے جس پر پوری دنیا نے سوال اٹھائے،تاریخ گواہ ہے کہ بھارت الیکشن اور دیگر مواقع پر ایسے واقعات کو تحریک آزادی کشمیر اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرتاآیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جموں وکشمیر کے عوام پر ظلم بند کرے، وہاں آبادی کا تناسب بدلنے کے مذموم ہتھکنڈوں سے باز آئے،پاکستان اور بھارت میں امن کی راہ کشمیر سے ہوکر ہی گزرتی ہے،پائیدار امن وسلامتی اور ترقی کے لئے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور مظلوم کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کا وعدہ پورا کیاجائے۔شہباز شریف نے کہا کہ سرجیکل سٹرائیک کی باتیں حماقت ہیں، بھارتی قیادت عقل اور ہوش کے ناخن لے ،پہلے سرجیکل سٹرائیک کی جھوٹی داستانوں کو اتنا مذاق بنا کہ بھارتی حکمرانوں نے اس پر بات کرنا ہی چھوڑ دی تھی،ہماری بہادر مسلح افواج دشمن کے ہر مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دے چکے ہیں اور آئندہ انشااللہ اس سے بھی زیادہ موثر انداز میں جواب دیں گے،پوری قوم اپنی مسلح افواج کے شانہ بہ شانہ دشمن کے عزائم خاک میں ملانے کے لئے ساتھ ہے۔

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی شخصیت کے پوشیدہ گوشے، شاہ سلمان کی تیسری اہلیہ کے سب سے بڑے بیٹے، قانون کی ڈگری حاصل کی

واٹر سکینگ پسند،مہنگی اور نادر اشیاء کی خریداری کے شوقین،تمباکو نوشی اور رات گئے باہر گھومنے سے گریز کرتے ہیں،جاپان شہزادہ محمد کا پسندیدہ ملک

اسلام آباد (این ٹی ایس نیوز) سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی تیسری اہلیہ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں اور انہوں نے زندگی کا زیادہ وقت والد کے زیر سایہ گزارا ہے۔امریکی اخبار ‘نیویارک ٹائمز’ 2015 کے ایک مضمون میں شہزادہ محمد بن سلمان کی زندگی کے بارے میں تفصیلات دی گئی تھیں۔جس کے مطابق سعودی ولی عہد کے پاس قانون کی ڈگری ہے جو انہوں نے ریاض کی کنگ سعود یونیورسٹی سے حاصل کی جبکہ وہ اپنے والد کے لیے کئی طرح کے مشیروں کے کردار ادا کرچکے ہیں۔انہیں واٹر سپورٹس جیسے ‘واٹر سکینگ’ پسند ہیں جبکہ آئی فونز اور ایپل کی دیگر ڈیوائسز کو استعمال کرتے ہیں، اسی طرح جاپان ان کا پسندیدہ ملک ہے جہاں وہ اپنے ہنی مون پر بھی گئے۔نیویارک ٹائمز کو سعودی شاہی خاندان کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا ‘محمد بن سلمان کو ہمیشہ اپنے عوامی کردار کے بارے میں فکر رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ تمباکو نوشی اور رات گئے باہر گھومنے سے گریز کرتے ہیں تاہم انہیں مہنگی اشیا کی خریداری کرنا پسند ہے اور برطانوی روزنامے ‘انڈپینڈنٹ’ کی 2016 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق انہوں نے جنوبی فرانس میں تعطیلات مناتے ہوئے ایک روسی تاجر کی کشتی کو پسند کر لیا اور پھر اسے 50 کروڑ یورو (اب کے 78 ارب پاکستانی روپے سے زائد) میں خرید بھی لیا۔ خریداری کا معاہدہ چند گھنٹوں میں طے پاگیا تھا۔اسی طرح نومبر 2017ء میں معروف مصور لیونارڈو ڈاونچی کی ایک نایاب پینٹنگ کو ایک گمنام شخص نے 45 کروڑ ڈالرز (48 ارب پاکستانی روپے سے زائد) میں خریدا تھا اور اس طرح یہ فن مصوری کا سب سے مہنگا شہ پارہ قرار پایا تھا۔اگلے ماہ یعنی دسمبر 2017 میں انکشاف ہوا کہ اس پینٹنگ کو خریدنے والا کوئی اور نہیں بلکہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تھے۔دسمبر 2017 میں ابوظبہی میں قائم میوزیم ‘لوورے’ نے اعلان کیا تھا کہ اس پینٹنگ کو وہاں رکھا جائے گا۔اسی طرح دسمبر 2017ء میں نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سعودی ولی عہد نے فرانس میں موجود ایک قلعے کو 30 کروڑ ڈالر سے زائد (33 ارب پاکستانی روپے) میں خریدا۔پیرس کے قریب واقع یہ گھر 56 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا اور اس کا ڈیزائن17 ویں صدی کے محلات سے متاثر ہوکر تیار کیا گیا۔اس سے ہٹ کر سعودی ولی عہد اپنے ملک کو تیل سے ہٹ کر بھی معاشی طور پر مضبوط بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے انہوں نے 2016 ء میں طویل المعیاد اقتصادی منصوبے ویژن 2030ء کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد سعودی عرب کی معیشت کا انحصار تیل سے ختم کرنا ہے۔اس منصوبے کے تحت 2017ء میں انہوں نے 500 ارب ڈالرز کا شہر نوم بحیرہ احمر کے کنارے تعمیر کرنے کا اعلان بھی کیا۔وہ سعودی خواتین کو گاڑیاں چلانے کی اجازت دینے کے فیصلے کے بھی روح رواں قرار دیئے جاتے ہیں، جبکہ ایسی ہی کافی اصلاحات پر کام جاری ہے۔33 سالہ شہزادے کو سعودی عرب کی فوج، خارجہ پالیسی، معیشت اور روز مرہ کی مذہبی اور ثقافتی زندگی پر اثر و رسوخ حاصل ہے، سعودی ولی عہد کو ہی اسلامی مملکت میں 2017ء میں کرپشن کے خلاف شروع کی جانے والی مہم کا روح رواں سمجھا جاتا ہے جس کے دوران خزانے میں 100 ارب ڈالرز سے زائد جمع ہوئے۔