عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے نظام کو قائم اور برقرار رکھنے کے لیے اصول وضع کیے ہیں، ان اصولوں سے انحراف کی صورت میں یہ دنیا تباہ برباد ہوجائے گی۔ حقیقت کو مِن و عَن تسلیم کرنا ایک بہت بڑا خاصہ ہے، جس کا اطلاق دنیا کے کسی بھی شعبۂ زندگی میں کیا جائے اس کی اہمیت تبدیل نہ ہوگی۔ درحقیقت اس دنیا میں اصل معرکہ ہی سچ اور جھوٹ کا ہے، اللہ کا وجود اور اس کی کبریائی سچ اور اس کے مقابل سب جھوٹ ہے۔ اس لیے اللہ نے انسانوں کو اپنے معاملات میں بھی سچ اور جھوٹ کے فرق کو سامنے رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ سچ اور جھوٹ وہ بنیادی معیار ہے جس کے مطابق انسان کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچ نجات و کامیابی کا باعث ہے اور جھوٹ ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صادقین کی صفت کی اہمیت بیان کی ہے کہ یہ لوگ جنت میں اعلیٰ مقام و مرتبے والے ہونگے۔ سچ کی حقانیت اور جھوٹ کی قباحت ابدی معیار ہیں۔ اسی لیے اس ابدی معیار کی تبدیلی دنیا کے نظام میں بگاڑ اور فساد کا باعث بن سکتی ہے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں سچ اور جھوٹ کا معیار تبدیل ہو چکا ہے۔ معاشرے سے سچ بولنے کا رواج اٹھتا جا رہا ہے۔ سچ بولنا بے وقوفی کی علامت بن چکا ہے۔ ہمیں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر کوئی سچ بول کر نقصان اٹھاتا ہے تو آس پاس کھڑے اسے یہی مشورہ دیتے ہیں کہ سچ بولنے کی کیا ضرورت تھی، جھوٹ بول لیتے، تمہارا کیا نقصان ہوتا، وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح جھوٹ کا معاملہ ہے، اگر کوئی جھوٹ بول کر اپنی جان چھڑا لیتا ہے یا سامنے والے کو بظاہر بے وقوف بناتا ہے تو آس پاس کھڑے ہوئے واہ واہ کرتے دکھائی دیتے ہیں… واہ کس طرح اپنے آپ کو بچھایا یا فلاں کو بے وقوف بنایا۔ اس مضمون کی ایک حدیث ملتی ہے کہ حضرت ابو خالد حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دونوں سودا کرنے والوں کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں، پس اگر وہ دونوں سچ بولیں اور چیز کی حقیقت صحیح صحیح بیان کردیں کوئی عیب وغیرہ ہو تو بتلا دیں۔ تو ان کے اس سودے میں برکت ڈال دی جا تی ہے اور اگر وہ چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو ان کے سودے سے برکت مٹادی جاتی ہے۔ (متفق علیہ) جب بحیثیت مجموعی معاشرے کا یہ معیار اور رجحان بن جائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ معاشرے کا کیا حال ہوگا۔ دنیا کے کسی بھی مذہب اور معاشرے میں جھوٹ کو پسند نہیں کیا جاتا۔ اللہ نے انسان کی خصلت میں بھی سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت رکھی ہے۔ اسی لیے ہمیں کامیاب افراد، معاشروں اور اقوام میں سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت کی مشترک وصف ملتی ہے۔
بدقمستی سے آج ایک طرف ہمارے معاشرے سے سچے انسانوں اٹھتے جا رہے ہیں تو دوسری جانب سچے انسانوں کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ سچے لوگوں کو یہی کہہ کر خاموش کرادیا جاتا ہے کہ یہ شرافت اور سچ کا زمانہ نہیں۔ یہ بھیڑیوں کی دنیا ہے، یہاں ایسے ہی رہا جاتا ہے، لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ حقیقت میں تو ہم ہی نے اس دنیا کو اپنے اعمال کی وجہ سے بھیڑیوں کی دنیا بنا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اس دنیا کو امن اور محبت کی جگہ بنایا ہے جہاں انسان محبت اور سکون کے ساتھ رہیں، یہی نہیں بلکہ اللہ نے تو اس دنیا کو امن اور سکون کی جگہ بنانے کے لیے انسانوں کو ایک پورا نظام بھی دیا ہے تا کہ انسان اس نظام کو نافذ کرکے اس دنیا کو امن و سکون کی جگہ بنا سکتے ہیں۔ لیکن حضرتِ انسان نے خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہوئے اس کائنات کے خالق کی جانب دیے ہوئے نظام سے بغاوت کرکے اس دنیا کو ظلم کی آماجگاہ اور بھیڑیوں کی دنیا بنادیا ہے۔
سچ کی اہمیت کی اندازہ اس بات کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خود اپنے لیے ارشاد فرمایا ہے کہ۔ ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہوگا۔؟ (النساء: 87) ایک دوسری جگہ ارشادہے: ’’یہ ہے اللہ کا وعدہ جو سراسر سچا ہے اور کون ہے جو اپنی بات میں اللہ سے زیادہ سچا ہو؟۔‘‘ (النساء:122) ایک اور مقام میں ارشاد ہے: ’’اور ہم یقیناً سچے ہیں۔‘‘ (الانعام: 146)
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے نبیوں اور رسولوں کی سچائی کا تذکرہ کیا ہے: سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے فرمایا: ’’اس کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کر، بیشک وہ بڑی سچائی والے پیغمبر تھے۔‘‘ (مریم: 41)
حضرت ادریس علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور اس کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا بھی ذکر کر، وہ بھی نیک کردار پیغمبر تھا۔‘‘ (مریم: 56)
حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اس کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا واقعہ بھی بیان کر، وہ بڑا ہی وعدے کا سچا تھا اور تھا بھی رسول اور نبی۔‘‘ (مریم: 54)
اللہ تعالیٰ نے مومنین سے بھی مخاطب ہوتے ہوئے انہیں حکم دیا کہ‘ ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔‘‘ (التوبۃ: 119)
اس آیت مبارکہ میں مومنین کو خاص طور پر سچوں کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا ہے یعنی یہی کافی نہیں کہ تم خود سچ بولو بلکہ جو لوگ سچے ہیں، حق کے لیے محنت کر رہے ہیں، ان کا ساتھ دو۔ اگر کوئی ان کو جھٹلائے تو تم جھٹلانے والوں کے سامنے کھڑے ہوجاؤ اور سچے انسانوں کی سچائی کی گواہی دو۔ اس آیت میں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ جب سچ اور جھوٹ کے معیار تبدیل ہوجائیں اور جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے تو تم سچے لوگوں کا ساتھ دینے والوں میں سے ہونا۔ سچوں کو سچا اور جھوٹوں کو جھوٹا کہنا۔ آج ہمیں معاشرے میں یہی طرز عمل دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہم لوگ سچے اور جھوٹے کا حقیقی معیار بالکل بھی سامنے نہیں رکھتے، بلکہ صرف طاقت، زور، عصبیت اور اپنے دنیوی فائدے کو دیکھ کر یہ سوچے بغیر کہ سچا کون اورجھوٹا کون ہے، طاقتور دیکھ کر یا جس سے کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہو اسی کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہ طرز عمل بھی انسان کے اپنے اعمال کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ انسان فطرت کے مطابق پیدا ہوتا ہے، اور سچائی فطرت کا حصہ ہے، لیکن انسان مستقل ایسے اعمال کرتا ہے کہ وہ فطرت کا باغی ہوجاتا ہے، اور وہ طرز عمل بھلا دیتا ہے جو طرز زندگی لے کر وہ اس دنیا میں آیا ہے۔ اس بات کو اس حدیث سے سمجھیں: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک اسے اللہ کے یہاں بہت سچا لکھ دیا جاتا ہے۔ اور جھوٹ نافرمانی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نافرمانی جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی یقینا جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں وہ بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (متفق علیہ)
مطلب مستقل برا عمل کرتے رہنے سے انسان کے اندر سے خیر کے جذبات مفقود اور برائی کے جذبات پھلتے پھولتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب انسان برائی کی معراج کو پہنچ جاتا ہے تو اسے برائی برائی محسوس نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ اس برائی سے دوسری برائیوں کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔ جس طرح ایک انسان جھوٹ بولتا ہے، پھر اس جھوٹ کو اپنے لیے حلال سمجھ بیٹھتا ہے، اور آخر میں جھوٹوں کی ٹولی میں شامل ہوکر جھوٹ کی ترویج اور دفاع کا کام کرتا ہے۔ پھر وہ سچوں کو جھوٹا اور جھوٹوں کو سچا مانتا ہے۔ جھوٹوں کی دنیا میں رہنے لگتا ہے، اور اپنے لیے جھوٹ کو ہی کامیابی کا معیار قرار دیتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ بھی اس طرف جا رہا ہے، ذاتی زندگی کے معاملات سے لے کر سیاسی و قومی زندگی تک ہم خود اتنے جھوٹے ہو چکے ہیں کہ ہم نے جھوٹ کو سچ اور حقیقت سمجھ کر جھوٹوں کو سچا اور سچوں کو جھوٹا مان لیا ہے۔ سچوں کی ناقدری اور جھوٹوں کو سر پر بٹھایا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے آج ہم پر طرح طرح کے عذاب نازل ہورہے ہیں۔ کبھی سیاسی بحران تو کبھی اشیاء خورونوش کی کمی۔ کبھی اہدافی قتل تو کبھی آگ، زلزلوں اور گرمی کی شدت کے باعث اموات… یہ سب ہمارے ان اعمال کا نتیجہ ہے جو ہم انفرادی اور بحیثیت قوم کر رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے رب سے منہ موڑ لیا ہے، اس کے احکامات ماننے کو تیار نہیں۔ دیدہ دلیری سے اس کی بغاوت کر ر ہے ہیں۔ ماہ صیام میں بھی اس کی بغاوت سے باز نہیں آتے۔ حکمران تو اپنی جگہ ہم عوام بھی جہاں موقع ملے جھپٹ پڑتے ہیں۔ اگر ہمارا یہی طرز عمل رہا ہے عنقریب ہم کسی بڑے عذاب کو شکار ہوجائیں گے۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
0 comments:
Post a Comment