عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com
اسلام ہر اُس فعل کی مذمت کرتا ہے جس سے کسی دوسرے کا نقصان ہو۔ اسلام انسانوں کے مابین محبت اور اخوت کا رشتہ قائم کرنا چاہتا ہے، اسی لیے انسانی تاریخ میں مواخاتِ مدینہ کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ اسلام انسانوں کو یہ بتاتا ہے کہ ان کا مطمح نظر آخرت ہونی چاہیے، نہ کہ دنیا۔ جب انسان اپنا ہر عمل آخرت کو سامنے رکھ کر کرے گا تو لامحالہ وہ عارضی فائدے کو چھوڑ کر دائمی فائدے کو ترجیح دے گا۔ اسلام انسانوں کے باہمی تعلقات کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتا ہے، اسی لیے اسلامی تعلیمات میں ہمیں جابجا ایسے احکامات ملتے ہیں جن میں فرد کے انفرادی فوائد کے مقابلے میں اجتماعی فوائد کو ترجیح دی گئی ہے۔ اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے مالی اسباب کی اپنی اہمیت ہے۔ مالی وسائل کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے، اس لیے انسان آسودہ زندگی گزارنے اور اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے محنت، مشقت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی اس شخص کو محبوب رکھتا ہے جو اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لیے محنت اور مشقت کرتا ہے۔ دوسری جانب اسلام انسانوں کو یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ وہ صلۂ رحمی، ایثار اور قربانی کے جذبے کے تحت اپنی محنت سے کمائے ہوئے مال میں سے غریبوں، محتاجوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ انسان کے اس عمل کو سب سے محبوب رکھتے ہوئے اس کا اجر بھی ستّر گنا بڑھا چڑھا کر دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ ایک انسان جب کسی کی مالی امداد کرتا ہے تو وہ عموماً دو طرح کی ہوتی ہے، ایک تو یہ کہ امداد خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے ہو اور اس کا بعد میں مطالبہ بھی نہ کیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ یہ امداد قرض کی صورت میں ہو۔ اسلام اشد ضرورت کے وقت ہی قرض لینے کی اجازت دیتا ہے، عموماً جواز کے باوجود قرض سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ قرض کے حوالے سے اسلام قرض لینے والے کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ جلد از جلد قرض کی ادائیگی کی کوشش کرے، اور دوسری طرف قرض دینے والے کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ اتنا ہی واپس لے جتنا اس نے قرض دیا تھا۔ اس سے بڑھ کر لینے کو اسلام حرام قرار دیتا ہے۔ اصل رقم یا مال سے بڑھا کر لینے یا دینے کے عمل کو اسلام سود سے تعبیر کرتا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں سود کا پایا جانا اس بات کی عکاسی کررہا ہوتا ہے کہ اس معاشرے سے باہمی ہمدردی، ایثار و قربانی کا جذبہ ختم ہوچکا ہے۔ اسلام انسانوں کے باہمی تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے اسی لیے وہ ایسے تمام افعال کا سدباب کرنے کی کوشش کرتا ہے جن کے ذریعے انسانوں میں خودغرضی کا عنصر پروان چڑھے۔ یہ دنیا انسانوں کے لیے بنائی گئی ہے، اور اس کائنات کے خالق نے انسانوں کو اس جہاں میں رہنے کے لیے ایک دستور اور طریقۂ کار بھی بتایا ہے۔ ایک مکمل پالیسی موجود ہے، اگر انسان اس پالیسی کے مطابق اس کائنات میں زندگی گزارے گا تو یہ دنیا اُس کے لیے کسی جنت سے کم نہ ہوگی، اور اگر انسان اِس دنیا کو اس کے خالق کی پالیسی سے ہٹ کر چلانے کی کوشش کرے گا تو اس میں ضرور خرابی واقع ہوگی اور اس دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ جب انسان خود ہی اپنی دنیا کے نظام کو خراب کرنے کی کوشش کریں تو پھر یہ دنیا کیسے قائم رہ سکتی ہے! اس لیے اللہ تعالی نے اس دنیا کے اختتام کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی بتایا کہ انسان خالقِ کائنات کے قانون سے روگردانی کرتے ہوئے جب سود کو اپنے لیے جائز سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے دلیلیں پیش کرنے کی کوشش کرے گا تو یہ نظام کسی بھی صورت نہ چل سکے گا اور خالقِ کائنات اس دنیا کو ختم کردیں گے، جیسے آج کل کی مثال میں کوئی کمپنی اپنی پالیسی کے مطابق نہ چلے تو اسے ایک دن بند ہونا ہی پڑتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے۔ سود کھانے والے کے متعلق فرمایا کہ وہ قیامت کے روز ایسے اٹھے گا جیسے اسے شیطان نے باؤلا کردیا ہو۔ اللہ نے سود کو اپنے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ یہ واحد گناہ ہے جس کو اللہ نے اپنے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس لیے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ کوئی معمولی گناہ نہیں۔ بدقسمتی سے ایک فرد سے لے کر پوری ریاست تک اس گناہ میں بے فکر ہوکر لگی ہوئی ہے۔ کسی کو یہ احساس تک باقی نہ رہا کہ وہ کتنا بڑا گناہ کررہا ہے۔ اور گناہ لگے بھی تو کیسے… یہ تو سود نہیں، فائدہ (Interest) ہے…!
ذیل میں حرمتِ سود کے حوالے سے قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے:
اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود لوگوں کے پاس باقی رہ گیا ہے اگر ایمان والے ہو تو اسے چھوڑ دو، اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے خبردار ہوجاؤ‘‘۔ (البقرہ :275)
’’اے ایمان والو! کئی گنا بڑھا کر سود نہ کھاؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ، اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے، اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔ ( آل عمران :132۔131)
’’اللہ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اللہ کسی ناشکرے (سود خور) اور گناہ گار کو دوست نہیں رکھتا، بے شک جو لوگ ایمان لائے اور عملِ صالح کیے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ثابت ہے، اور ان پر نہ خوف طاری ہوگا، اور نہ انہیں کوئی غم لاحق ہوگا‘‘۔ ( البقرہ: 277۔276)
’’یَمحَقْ اللہ الرِّبَا‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’محق‘‘ (گھٹانا) یہ ہے کہ اللہ سود خور بندے کا نہ حج قبول کرتا ہے، نہ صدقہ، نہ جہاد، اور نہ صلہ رحمی۔ (یعنی اس کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی)۔ (تفسیر قرطبی)
’’اور تم لوگ جو سود دیتے ہو، تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہوجائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا، اور تم لوگ جو زکوٰۃ دیتے ہو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے، ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں‘‘۔ (الروم :39)
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ اپنی قبروں سے ایسے اٹھیں گے، جس طرح وہ آدمی جسے شیطان اپنے اثر سے دیوانہ بنا دیتا ہے، یہ (سزا انہیں) اس لیے ملی کہ وہ کہا کرتے تھے کہ خرید وفروخت بھی تو سود ہی کی مانند ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خرید وفروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی نصیحت پہنچ گئی، اور وہ (سود لینے سے) باز آگیا، تو ماضی میں جو لے چکا ہے وہ اس کا ہے، اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، اور جو اس کے بعد لے گا، تو وہی لوگ جہنمی ہوں گے، اس میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے‘‘۔ (البقرہ :275)
حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کے متعلق فرمایا: ’’سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی، اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارا سود ختم ہے‘‘۔ (بخاری)
عبداللہ بن حنظلہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سود کا ایک درہم، جسے انسان جانتے بوجھتے کھاتا ہے، وہ 36 مرتبہ زنا کاری سے بھی بدتر ہے‘‘۔ (مسند احمد، طبرانی)
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سود کے 73 دروازے ہیں، اس کا سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ جیسے کوئی آدمی اپنی ماں کے ساتھ نکاح کرے، سب سے بدترین سود کسی مسلمان کی عزت سے کھلواڑ کرنا ہے‘‘۔ (مستدرک حاکم، بیہقی)
سیدنا جابرؓ کہتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، اسے کھلانے والے، اس (دستاویز) کے لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت بھیجی ہے اور پھر فرمایا کہ یہ تمام کے تمام گناہ میں برابر کے شریک ہیں‘‘۔ (مسلم)
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس گاؤں میں زنا اور سود رواج پا گیا، وہاں کے باشندوں نے اپنے اوپر اللہ کے عذاب کو حلال کرلیا‘‘۔ (المستدرک حاکم)
سیدنا ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے سود کے ذریعے زیادہ (مال) حاصل کیا، اس کا انجام کمی پر ہی ہوگا‘‘۔ (ابن ماجہ)
ایک اور روایت میں ہے: ’’سود اگرچہ بظاہر زیادہ نظر آتا ہے لیکن اس کا انجام کمی اور قلت ہے‘‘۔ (مستدرک حاکم)
سیدنا عوف بن مالک ؓسے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم ان گناہوں سے بچو جو (بغیر توبہ کے) بخشے نہیں جاتے۔ 1) خیانت: جس نے کسی چیز میں خیانت کی، اس چیز کے ساتھ اسے قیامت کے دن حاضر کیا جائے گا۔ 2) سود خوری: اس لیے کہ جو شخص سود کھائے گا قیامت کے دن پاگل شخص کی طرح جھومتے ہوئے اٹھے گا۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: (ترجمہ) ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ اپنی قبروں سے ایسے اٹھیں گے، جس طرح وہ آدمی جسے شیطان اپنے اثر سے دیوانہ بنا دیتا ہے‘‘۔ (ترغیب وترہیب)
سیدنا سمرہ بن جندبؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رات میں میرے پاس دو فرشتے (حضرت جبرئیلؑ اور حضرت میکائیلؑ) آئے، وہ مجھے اٹھا کر پاک سرزمین کی طرف لے گئے، میں نے کئی چیزیں ملاحظہ فرمائیں، جن میں ایک چیز یہ بھی تھی کہ ایک خون کا دریا دیکھا جس میں ایک آدمی (تیر رہا) ہے، اس نہر کے ایک کنارے ایک آدمی کھڑا ہے، اس کے پاس پتھروں کا ایک ڈھیر ہے، خون کے دریا میں جو آدمی ہے، وہ کوشش کرتا ہے کہ اس دریا سے باہر نکل جائے، جب وہ کنارے کے قریب آتا ہے تو کنارے پر کھڑا شخص اس کے منہ پر زور سے پتھر دے مارتا ہے، پھر وہ شخص خون کے دریا کے بیچ میں چلا جاتا ہے، پھر وہ کوشش کرتا ہے کہ باہر نکل جائے، لیکن کنارے پر کھڑا شخص اس کے منہ پر پھر زور سے ایک پتھر مارتا ہے۔ اس کے ساتھ مسلسل یہی سلوک ہورہا ہے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’میں نے ان دونوں سے پوچھا:اس آدمی کو یہ سزا کیوں مل رہی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ سود خور ہے، سودی کاروبار کیا کرتا تھا، اس لیے اس کو یہ سزا مل رہی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا:’جو سزا آپؐ نے اس کو ملتے دیکھی، وہ اسے قیامت تک ملتی رہے گی‘‘۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس گناہ اور اس کے عذاب سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)
0 comments:
Post a Comment