قطع رحمی ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Wednesday, February 13, 2019

قطع رحمی


عابد علی جوکھیو
abidjohio2001@gmail.com

انسان اس کائنات کی عظیم مخلوق ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے انسانوں کو باہمی تعلقات استوار کرنے پڑتے ہیں۔ انسان کو معاشرے میں عام افراد سے بھی واسطہ پڑتا ہے اور اپنے قریبی رشتے داروں سے بھی۔ لیکن عام افراد کے مقابلے میں انسان کو اپنے رشتے داروں سے ہی زیادہ واسطہ پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی عام افراد کے مقابلے میں رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی انسانوں کو باہمی تعلقات مضبوط کرنے کا حکم دیتا ہے۔ انسانوں کے باہمی تعلقات ہی سے معاشرتی استحکام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں انسانوں کے باہمی تعلقات کمزور ہوں گے وہاں معاشرتی نظام بھی کمزور بلکہ ختم ہوچکا ہوگا، اور جہاں انسانوں کے باہمی تعلقات مضبوط ہوں گے وہاں معاشرتی نظام بھی اپنی بہترین حالت میں ہوگا۔ اسلام عام انسانوں کے باہمی تعلقات کی مضبوطی کا بھی درس دیتا ہے، لیکن اسلام میں ان باہمی تعلقات میں سب سے زیادہ رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کی اہمیت ہے۔ یہ دنیا انسان کے لیے بنائی گئی ہے، انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس کو جہاں اپنے اعمال کا جواب دینا ہے وہیں اس کے اعمال اِس دنیا کے نظام کے بگاڑ اور اصلاح کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اسی لیے علاماتِ قیامت میں اعمالِ انسانی کو بڑی اہمیت سے بیان کیا گیا ہے۔ 
اسلام رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تمھیں حکومت و اقتدار حاصل ہوجائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی گئی ہے‘‘ (محمد : 22۔ 23)۔ ایک اور مقام پر ارشادِ الٰہی ہے: ’’اللہ کی عبادت و بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ اور قرابت داروں سے بھی حسنِ سلوک کرو‘‘۔ (النساء: 36)
احسان کا بدلہ احسان سے دینا برابری کا معاملہ اور مکافاتِ عمل ہے، جبکہ صلہ رحمی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے رشتہ دار پر بدلے کی خواہش و انتظار کے بغیر احسان کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں برابری کرلے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتہ دار اس سے قطع تعلق کریں اور وہ اُن سے اپنا رشتہ جوڑے رکھے‘‘۔ (صحیح بخاری)
عبداللہ بن محیریز سے پوچھا گیا کہ رشتہ داروں کے حقوق کیا ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ’’اگر کوئی آپ کی طرف آئے تو اُس کا خوش دلی سے استقبال کریں، اور اگر کوئی آپ سے بے رخی برتے تو آپ اُس کا پیچھا (رشتہ داری کرنا) نہ چھوڑیں‘‘۔
ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’میرے رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں اُن سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ مجھ سے قطع تعلقی کا رویہ اپناتے ہیں، میں اُن پر نیکی و احسان کرنے کی راہ اپناتا ہوں، مگر وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں، میں حلم و بردباری سے کام لیتا ہوں مگر وہ مجھ پر زیادتی کرتے ہیں‘‘۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر ایسے ہی ہے جیسے تم بتارہے ہو تو انھیں انگاروں پر لوٹا رہے ہو، اور جب تک تم اپنی اسی روش پر قائم رہو گے اللہ کی طرف سے تمھارے لیے ایک مددگار مقرر رہے گا‘‘۔ (صحیح مسلم)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادات میں توحیدِ الٰہی اور نماز و زکوٰۃ کے ساتھ ہی صلہ رحمی کو بھی شمار فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: ’’کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کردے‘‘۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی (رشتوں کو قائم) کرو‘‘۔ (متفق علیہ)
یتیموں مسکینوں پر خرچ کرنے سے بھی رشتہ داروں کا حق زیادہ ہے اور وہ ان پر مقدم ہیں۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: ’’لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں۔ آپ (اُن سے) کہہ دیں کہ بھلائی (مال) سے جو بھی تم خرچ کرو وہ اپنے والدین، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے‘‘۔ (البقرہ: 215)
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا (یعنی اللہ تعالیٰٰ نے تمام مخلوقات کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان صورتوں کے ساتھ اپنے علم ازلی میں مقدر کردیا جن پر وہ پیدا ہوں گی)۔ جب اس سے فارغ ہوا تو رحم یعنی رشتہ ناتا کھڑا ہوا اور پروردگار کی کمر تھام لی، پروردگارنے فرمایا: ’’کہو! کیا چاہتے ہو؟‘‘ رحم نے عرض کیا کہ ’’یہ کاٹے جانے کے خوف سے تیری پناہ کے طلبگار کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے (یعنی میں تیرے روبرو کھڑا ہوں اور تیرے دامنِ عزت و عظمت کی طرف دستِ سوال دراز کیے ہوئے ہوں، تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتا ہوںکہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامنِ عزت و عظمت کی طرف دستِ سوال دراز کیے ہو، تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتا ہوں کہ کوئی مجھے کاٹ دے اور میرے دامن کو جوڑنے کے بجائے اس کو تار تار کردے) ‘‘۔ پروردگار نے فرمایا: ’’کیا تُو اس پر راضی نہیں ہے کہ جو شخص (رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعے) تجھ کو قائم وبرقرار رکھے، اس کو میں بھی (اپنے احسان وانعام اور اجر وبخشش کے ذریعے) قائم و برقرار رکھوں، اور جو شخص (رشتہ داری اور تعلق کے حقوق کی پامالی کے ذریعے) تجھ کو منقطع کردے، میں بھی (اپنے احسان وانعام کا تعلق) اُس سے منقطع کرلوں؟‘‘ رحم نے عرض کیا کہ پروردگار! بیشک میں اس پر راضی ہوں۔ پروردگار نے فر مایا: ’’اچھا تو یہ وعدہ تیرے لیے ثابت و برقرار ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’قطع رحمی کرنے والا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘ (متفق علیہ)۔ حافظ ابن حجرؒ نے بخاری شریف کی شرح فتح الباری میں اس حدیث کے تحت لکھا ہے کہ قطع رحمی کرنے والا اللہ کی رحمتوں سے منقطع و محروم ہوتا ہے، اور اس کی سزا آخرت سے قبل اسی دنیا میں اسے دے دی جاتی ہے‘‘۔ ایسے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’کوئی گناہ ایسا نہیں جس کی اخروی سزا کے ساتھ ساتھ اللہ اسے اس دنیا میں بھی فوری سزا نہ دے، سوائے بغاوت و سرکشی اور قطع رحمی کے‘‘۔ (ترمذی)
ایک حدیث میں قطع تعلقی کرنے والے کو دنیا اور آخرت میں سخت عذاب، لعنت و تباہی اور ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے۔ قطع تعلقی کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قطع تعلقی کرنے والا جنت میں بھی داخل نہیں ہوسکتا۔ حدیث نبوی ہے کہ ’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘ (متفق علیہ)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قطع تعلقی کتنا بڑا گناہ ہے، قطع تعلقی کرنے والے کا ٹھکانہ جہنم قرار دیا گیا ہے۔ قطع تعلقی کرنے والے کو اللہ سخت ناپسند کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ رشتے داروں سے تعلق جوڑنے والے سے اپنا تعلق جوڑتے اور رشتے داروں سے تعلق توڑنے والوں سے اپنا تعلق توڑ دیتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رحم یعنی ناتا، عرش سے لٹکا ہوا ہے اور (بطریق دعا یا خبر دینے کے طور پر) کہتا ہے کہ جو شخص مجھ کو جوڑے گا اس کو اللہ تعالیٰٰ (اپنی رحمت کے ساتھ) جوڑے گا، اور جو شخص مجھ کو توڑے گا اللہ تعالیٰٰ اس کو (اپنی رحمت سے) جدا کردے گا‘‘ (متفق علیہ)۔ اندازہ کریں کہ جس شخص سے اللہ نے تعلق توڑ لیا اس کا کیا انجام ہوگا؟
حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بزرگ و برتر ارشاد فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں (یعنی صفتِ رحمت کے ساتھ متصف ہوں) میں نے رحم یعنی رشتے ناتے کو پیدا کیا ہے اور میں نے اس کے نام کا لفظ اپنے نام یعنی رحمن کے لفظ سے نکالا ہے۔ لہٰذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتے ناتے کے حقوق ادا کرے گا تو میں بھی اس کو (اپنی رحمت کے ساتھ) جوڑوں گا، اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتے ناتے کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو (اپنی رحمتِ خاص سے) جدا کردوں گا‘‘۔ (ابوداؤد)
رشتہ داروں پر خرچ کرنا دگنے اجر و ثواب کا باعث ہے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’مسکین پر صدقہ صرف صدقہ ہے جبکہ قرابت داروں پر صدقہ ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی صلہ رحمی بھی (دگنا اجر و ثواب ) ہے‘‘۔ (ترمذی)
صدقہ سب سے پہلے جسے دیا جائے گا وہ ایسے قرابت دار ہیں جو مسکین بھی ہوں۔ حضرت ابوطلحہؓ نے اپنا باغ صدقہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ اس باغ کو تم اپنے قرابت داروں پر صدقہ کردو‘‘۔ حضرت طلحہؓ نے وہ باغ اپنے رشتہ داروں اور چچا زادوں پر صدقہ کردیا‘‘۔ (متفق علیہ)
حضرت علیؓ فرماتے ہیں: ’’میں اپنے بھائیوں میں سے کسی بھائی کے ساتھ صلہ رحمی کروں، یہ چیز مجھے بیس درہم صدقہ کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے‘‘۔ قرابت داروں پر خرچ کرنے والا شخص سخی اور صاحبِ جود و کرم ہے۔ امام شعبیؒ فرماتے ہیں: ’’میرے قرابت داروں میں سے جو بھی فوت ہو اور اس پر کسی کا کوئی قرض ہو، اس کا قرض میں ادا کروں گا‘‘۔
حدیث ہے کہ ’’جسے یہ بات خوشگوار لگے کہ اس کے رزق میں اضافہ ہو اور اس کی عمر دراز ہو، اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے‘‘ (متفق علیہ)۔ عمرو بن دینار فرماتے ہیں: ’’کسی فریضے کی ادائیگی کے لیے اٹھائے گئے قدم کے بعد کوئی قدم ایسا نہیں جو صلہ رحمی کے لیے اٹھائے گئے قدم سے زیادہ اجر و ثواب والا ہو۔ اس کا فوری ثواب دنیا میں ہی مل جاتا ہے اور اسی عمل پر آخرت کی نعمتیں محفوظ ہوجاتی ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’کوئی ایسا عمل نہیں جس میں اللہ کی اطاعت کرنا صلہ رحمی سے جلدی ثواب پانے کا موقع ہو‘‘ (سنن کبری بیہقی)۔ حدیث میں ہے کہ اہلِ جنت تین قسم کے لوگ ہیں: عدل و انصاف پسند حاکم، رحم دل اور نرم طبیعت کا مالک شخص جو ہر قرابت دار اور مسلمان کے ساتھ نرم دل ہو، اور مالدار و غنی جو پاک دامن و پاک سیرت ہو‘‘۔ (مسلم)
مذکورہ تمام قرآنی آیات اور احادیث سے صلہ رحمی کی فضیلت اور قطع رحمی کے گناہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ قطع رحمی ایک ایسا گناہ ہے جس سے وہ انسانی تعلقات ختم ہوجاتے ہیں جنہیں اللہ نے خود بنایا ہے، اور جو بھی اللہ کے بنائے ہوئے رشتوں کی پامالی کرے گا وہ اس کی سزا ضرور پائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے رشتے داروں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

0 comments: