عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com
اللہ تعالیٰ اس کائنات کا خالق ہے، اسی نے اس کائنات کی ہر چیز کو تخلیق کیا ہے۔ اللہ نے انسان کو اپنی مخلوقات میں سے اعلیٰ مخلوق قرار دیا ہے۔ درحقیقت یہ انسان ہی ہے جو کائنات کی اہم مخلوق ہے۔ انسان ہی اپنے تمام اعمال کا جواب دہ ہے۔ اچھائی اور برائی کے نتیجے پر جنت اور جہنم کا فیصلہ ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں رہنے کے لیے ایک دستور دیا ہے۔ اگر انسان اس دستور سے انحراف کرکے اپنے لیے خود قوانین بنائے گا تو اس کائنات کا نظام لامحالہ بگڑ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو دستور دیا ہے اس کی چند حدود و قیود ہیں، انسان ان حدود و قیود کا خیال رکھتے ہوئے ہی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ ان حدود سے تجاوز کرنا خود انسان کو تباہی کی طرف لے جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے احکامات پر پوری طرح عمل کریں اور شیطانی وسوسوں اور دنیوی رنگینیوں کی وجہ سے ان سے انحراف نہ کریں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کریں گے ان کے لیے دردناک عذاب کی خبر سنائی گئی ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
(ترجمہ) ’’حق یہ ہے کہ جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دنیوی فائدوں پر انہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں۔ قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ انہیں پاکیزہ ٹھیرائے گا، اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔‘‘ (البقرہ 174)
اس آیت میں دینی احکامات کو تھوڑے سے دنیوی فائدوں کے عوض بیچنے والوں کے لیے وعید سنائی گئی ہے۔ دین اور دنیا الگ نہیں ہیں، بلکہ یہاں مقابلہ ہماری دنیا اور آخرت کا ہے۔ مطلب یہ کہ جو لوگ آخرت کی بھلائیوں کو چھوڑ کو محض دنیوی مفادات کے لیے دینی تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہیں، ان کا یہ عمل کسی صورت قابلِ معافی نہیں۔ اگر اس آیت اور علامتِ قیامت کے پس منظر میں اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ عمل جابجا نظر آتا ہے کہ لوگ محض عارضی اور معمولی سے دنیوی فائدے کے لیے اپنے ایمان، ضمیر، دین، عزت… الغرض ہر چیز کو بیچنے کے لیے تیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دین انسانوں کی رہنمائی کے لیے بنایا تاکہ وہ اس سے رہنمائی حاصل کرکے اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر گزار سکیں۔ لیکن جب یہی انسان اپنے رب کے طریقے کو باطل کے سامنے چند ٹکوں کے عوض بیچنے کے لیے تیار ہو تو بھلا اس شخص، معاشرے اور دنیا کے قائم رہنے کی کیا وجہ بن سکتی ہے؟ اگر انسان کا طرزعمل یہی ہو تو پھر اُس پر اِس دنیا میں ہی زلزلوں، آگ، قحط، ظالم حکمران، غلامی، دہشت گردی، خوف، بے چینی اور عدم اطمینان جیسے عذاب کیوں نہ آئیں؟
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر چند احباب نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک باپردہ عورت نے فرانس کی ایک سپرمارکیٹ سے خریداری کی اور اس کے بعد وہ پیسوں کی ادائیگی کے لیے لائن میں کھڑی ہوگئی۔ اپنی باری آنے پر وہ چیک آؤٹ کاؤنٹرآئی جہاں اسے رقم ادا کرنا تھی، وہاں اس نے اپنا سامان ایک ایک کرکے کاؤنٹر پر رکھ دیا۔ چیک آؤٹ پر کھڑی ایک بے پردہ مسلم لڑکی نے اس خاتون کی چیزیں ایک ایک کرکے اٹھائیں، اور ان کی قیمتوں کا جائزہ لینے لگی۔
تھوڑی دیر بعد اس نے نقاب والی خاتون گاہک کی طرف ناراضی سے دیکھا اور کہنے لگی ’’ہمیں اس ملک میں کئی مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل میں ایک مسئلہ تمہارا نقاب ہے۔ ہم یہاں تجارت کرنے کے لیے آئے ہیں، نہ کہ اپنا دین اور تاریخ دکھانے کے لیے‘‘۔ وہ مسلم عرب عورت جو نام نہاد روشن خیال تھی اپنی بے ہودہ تقریر جھاڑے جا رہی تھی کہ ’’اگر تم اپنے دین پر عمل کرنا چاہتی ہو اور نقاب پہننا ضروری سمجھتی ہو تو اپنے ملک واپس چلی جاؤ، جہاں تمہارا جو دل چاہے کرسکتی ہو۔ وہاں نقاب پہنو، برقع پہنو، ٹوپی والا برقع پہنو، جو چاہے کرو، مگر یہاں رہ کر ہم لوگوں کے لیے مسائل مت پیدا کرو…‘‘
نقاب پہننے والی خاتون ایک مسلم عورت کے منہ سے نکلنے والے الفاظ پر دم بخود رہ گئی۔ اپنے سامان کو تھیلے میں رکھتے ہوئے اُس کے ہاتھ رک گئے اور اچانک اس نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دیا۔ کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی اُس کا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئی کیونکہ نقاب والی لڑکی کے بال سنہری اور آنکھیں نیلی تھیں۔ اس نے کاؤنٹر والی سے کہا ’’میں فرانسیسی لڑکی ہوں نہ کہ عرب مہاجر۔ یہ میرا ملک ہے، میں مسلمان ہوں… اسلام میرا دین ہے، یہ نسلی دین نہیں ہے کہ تم اس کی مالک ہو۔ یہ میرا دین ہے۔ اور میرا اسلام مجھے یہی سبق دیتا ہے جو میں کررہی ہوں۔ میرا دین مجھے پردے کا حکم دیتا ہے۔ تم نسلی مسلمان ہوکر ہمارے یہاں کے غیر مسلموں سے مرعوب ہو، دنیا کی خاطر خوف میں مبتلا ہو، مجھے کسی کا خوف نہیں ہے۔ مجھے صرف اپنے اللہ کا خوف ہے اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے محبت ہے، اور ان کا یہ حکم پورا کرنے میں مجھے کسی کی پروا نہیں ہے۔‘‘ اس فرانسیسی نومسلم عورت کے یہ لفظ تو بے پردہ مسلم عورتوں کے منہ پر طمانچہ تھے کہ تم پیدائشی مسلمانوں نے دنیا کے بدلے اپنا دین بیچ دیا ہے اور ہم نے تم سے خرید لیا ہے۔
یہ دیارِ غیر میں رہنے والی ایک مسلمان عورت کا مسئلہ نہیں بلکہ مسلم معاشرے میں رہنے والے بھی اسی مسئلے سے دوچار ہیں۔ بات صرف مرعوبیت میں دینی احکامات کو ترک کرنے کی نہیں، بلکہ بغیر کسی بیرونی دباؤ اور سبب کے صرف اپنی ذات کے لیے تھوڑے سے دنیوی فائدے کے لیے اسلامی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالنا یا دین کی آڑ میں اپنے دنیوی مفادات حاصل کرنا ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ آج ہم بحیثیت مسلمان اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی دین کو دنیوی مفادات کے لیے قربان کرکے اپنی عاقبت کو خراب کیا جا رہا ہے۔ دینی حمیت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ دینی معاملات کو دنیا کی خاطر قربان کرنے کے لیے ہر کوئی ہر وقت تیار ہوتا ہے۔ دلیل کے طور پر بھوک میں چاند بھی روٹی نظر آنے کی مثال دی جاتی ہے۔ لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ کیا واقعی ہماری اتنی مجبوری ہوتی ہے کہ ہمیں چاند بھی روٹی نظر آئے؟ یقینا بہت کم لوگ اس کیفیت سے دوچار ہوں گے۔ اصل مسئلہ تو اُن لوگوں کا ہے جو ھل من مزید کی ہوس میں دنیا کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
واقعے میں تو ایک عام عورت کی بات تھی لیکن آج ہم مسلمان اس درجے تک گر گئے ہیں کہ کچھ مسلمانوں نے دنیا کمانے کے لیے دین کو ذریعہ بنالیا ہے، دین کو انہوں نے اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے، دین کو تاش کے پتّے کی طرح ضرورت کے وقت استعمال کیا جارہا ہے۔ جب اپنا دنیوی فائدہ حاصل کرنا ہو تو عام اور سادہ لوح عوام کے جذبات کو استعمال کرکے اپنے مفادات حاصل کیے جاتے ہیں۔ دین سے دنیوی مفادات حاصل کرنے والوں میں سیکولر ذہنیت رکھنے والے افراد پیش پیش ہیں۔ یہ سیکولر افراد چاہے دینی ہوں یا دنیوی… جب چاہیں دینی تعلیمات کو ہی ڈھال بناتے ہیں۔ مذہبی سیکولر افراد کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ دین کو دنیا سے کاٹ کر پیش کرتے ہیں لیکن ان کی تمام تر سعی اِسی دنیا کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ اور یہ لوگ دین کے متعلق اپنی طرف سے ایسی ایسی باتیں گھڑ کر لاتے ہیں جن کی دین میں کوئی حقیقت نہیں۔ مزارات پر موجود بابے ہوں یا نام نہاد خانقاہوں میں مسند نشین خلیفے… ہر کوئی دین کے نام پر اپنی دکان چلا رہا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے فرقہ اور سیاست کے نام پر دین کو استعمال کیا ہے۔ سیاست میں تو ہمارے سامنے ہے کہ نام نہاد دینی سیاست کرنے والوں کا طرزِ زندگی ہی شاہانہ ہوتا ہے، وہ سیاست کو اس طرح اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ خالص دنیوی (سیکولر) سیاست کرنے والے بھی عش عش کراٹھتے ہیں۔ وزارتوں کا حصول ہو یا کوئی زمین اپنے نام کرانی ہو… کیا ایک نمبر کیا دو نمبر… ہر کام کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں، وہ بھی زبان پر مقدس کلمات کے ورد کے ساتھ…
دوسری جانب دنیوی سیکولر ہیں۔ اس کی مثال ہمارے ملک کی ہی ایک تنظیم ہے، جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کے وقت ایسے چپ سادھ لی کہ گویا اس کا وجود ہی نہیں۔ وہ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کے لیے ہر اقدام میں ہمیشہ پیش پیش نظر آتی ہے، لیکن جب دنیوی سیاست سے بات نہ بنی تو اس تنظیم کے لوگ مہاجر کا نعرہ لگا کر اس کی دینی اہمیت کو اجاگر کرنے لگے۔ ہجرت مقدس بن گئی اور مہاجر کو گالی دینے والا کافر… لیکن کیا کہیں گے ان کے بارے میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں؟
جب انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں دنیا کی اہمیت دین سے بڑھ جائے اور انسان صرف اسی کام کو ترجیح دینے لگے جس سے اس کی دنیا سنور جائے یا اس کو دنیوی فائدہ ہو، اور وہ اپنے خالق و مالک اور اس کے احکامات کو بھول جائے تو کیوں کر انسانی وجود اور اس کی یہ عارضی دنیا قائم رہے؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کو اپنی ترجیح اول رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
0 comments:
Post a Comment