اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Monday, February 11, 2019

اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے


عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس دنیا میں رہنے کا ایک سادہ سا فارمولا بتایا ہے کہ دنیا میں ایسے رہو جیسے کہ تم مسافر یا راہ گزر ہو۔ جس طرح مسافر اور راہ  گزر اپنے لیے کوئی مال و متاع نہیں بناتے اور ہر پل اپنی منزل کی طرف متوجہ رہتے ہیں اسی طرح ایک مسلمان کو بھی اس دنیا میں مسافر کی طرح زندگی گزارنے کا سبق ملا ہے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا:
 ’’مجھے اپنے جانے کے بعد تم پر سب سے زیادہ خطرہ دنیا کی زیب و زینت اور آرائش و آسائش کی چیزوں سے ہے جن کے دروازے تم پر کھول دیے جائیں گے۔‘‘ 
علاماتِ قیامت میں اونچی اونچی عمارتیں بنانے کے ذکر کا پس منظر بھی حُبِّ دنیا ہے۔ انسان جب اس دنیا سے محبت کرنے لگتا ہے تو اس کو خوبصورت بنانے کے لیے ہر وہ کام کرتا ہے جو اسے خود سمجھ میں آئے یا جسے دنیا کے باقی لوگ کررہے ہوں۔ اونچی اونچی عمارات بنانے کا تعلق بھی حُبِّ دنیا سے ہی ہے۔ جب دنیا انسان کے دل میں گھر کر جاتی ہے تو اس کی زندگی کا مقصد یہ دنیا ہی بن کر رہ جاتی ہے۔ اگرچہ اسلام اس دنیا میں بھی بھلائی مانگنے کی تعلیم دیتا ہے لیکن دوسری جانب اس دنیا کو کھیل تماشا اور دھوکے کا سامان قرار دے کر انسان کو اس دارِ فانی کی اصل حقیقت سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ جب انسان دنیا کے پیچھے پڑتا ہے تو وہ باقی تمام امور کو پس پشت ڈال دیتا ہے، وہ اپنے اصل مقصدِ زندگی کو بھلا دیتا ہے، اس کی ترجیحات بدل جاتی ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنی آخرت کو بھی بھول جاتا ہے۔ آج لوگ اونچی اونچی عمارتوں کو ترقی کا نام دے رہے ہیں، اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مسابقت کررہے ہیں، اور دوسری جانب انہی عمارتوں میں رہنے والے افراد ان اونچی عمارتوں سے تنگ آکر دوبارہ زمین پر رہائش کے متمنی ہیں۔  فطرت سے ہٹ کر جو بھی عمل ہوگا وہ بالآخر ناکام ہی ہوگا۔ آج کے جدید دور میں ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے ایک تجویز یہ بھی دی جارہی ہے کہ اونچی اونچی عمارتوں کے بجائے کشادہ، روشن اور ہوادار اور صحن والی عمارتیں تعمیر کی جائیں تاکہ توانائی کا استعمال کم ہو اور فضا کو خوشگوار بنایا جاسکے۔ 
تعمیرات کے سلسلے میں اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بقدر ضرورت سر چھپانے کے لیے اور اپنے بال بچوں کی کفالت و رہائش کے لیے اپنا آشیانہ بہرحال ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہر انسان کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں، اپنے بیوی بچوں کے حقوق اور جائز مطالبات ہوتے ہیں۔ اگر آپ کا اپنا آشیانہ اور اپنا نشیمن نہیں ہے، آپ کے پاس رہنے اور سر چھپانے کے لیے مکان اور جھونپڑا نہیں ہے تو آپ خود بھی پریشان رہیں گے اور اپنے بال بچوں کو بھی پریشان رکھیں گے۔
حضرت ابوالاحوص اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پرانے کپڑے پہن کر حاضر ہوا تو آپؐ نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس مال نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ مال تو ہے۔ آپؐ نے پوچھا کہ کس قسم کا مال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے اللہ نے اونٹ، گائے، بکریاں، گھوڑے اور غلام ہر طرح کا مال عطا کیا ہے! یہ سن کر آپؐ نے ارشاد فرمایا: جب اللہ نے تم کو مال سے نوازا ہے تو لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت و کرامت کا اثر تمہارے بدن پر ظاہر ہو۔ (مشکوٰۃ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونچی عمارتوں کو ناپسند فرمایا ہے۔ آپؐ نے اس طرزعمل کو حُبِّ دنیا سے تعبیر کیا ہے۔ ابوداؤد میں انس رضی اللہ عنہ کی ایک طویل روایت ہے کہ ’’ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابی کے اونچے مکان کو دیکھ کر دریافت فرمایا: یہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا کہ فلاں انصاری کی عمارت ہے۔ آپؐ خاموش ہوگئے۔ ایک روز وہ انصاری صحابی حاضرِ خدمت ہوئے اور سلام عرض کیا۔ آپؐ نے اعراض فرمایا۔ انہوں نے پھر سلام کیا، آپؐ نے پھر اعراض کیا۔ انہوں نے دیگر ساتھیوں سے معلوم کیا کہ آپؐ کیوں خفا ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارا مکان دیکھ لیا ہے۔ وہ صحابی اپنے گھر پہنچے اور مکان کو گرا دیا۔ ایک دن پھر آپؐ کا گزر اس طرف ہوا تو وہ مکان نہ دیکھ کر فرمایا کہ اس مکان کا کیا ہوا؟ عرض کیا گیا کہ مالک مکان نے آپؐ کے اعراض و بے توجہی کے باعث اس مکان کو گرا دیا۔ آپؐ نے فرمایا: سن لو! ہر عمارت اپنے مالک کے لیے وبال بنے گی سوائے اُس کے جو ضروری اور لازمی ہو۔‘‘
اکثر صحابہ کرامؓ کا طرزعمل بھی یہی تھا کہ وہ پختہ عمارتوں کے بنانے کو ناپسند فرماتے تھے۔ وہ بھی اسے حُبِّ دنیا سے ہی تعبیر کرتے تھے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے کبھی بھی پختہ گھر نہیں بنایا۔ اس کے علاوہ دیگر صحابہؓ نے اس بات کو ناپسند کیا کہ مسلمان عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں۔ ایک حدیث میں مکہ مکرمہ میں اونچی عمارتیں بنانے کو بھی قربِ قیامت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حدیث جبریلؑ میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ تم ننگے پاؤں اور ننگے بدن اور بکریاں چرانے والوں کو دیکھو گے کہ وہ بھی اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں مسابقت کرنے لگیں گے۔ آج پوری دنیا میں یہی ہورہا ہے۔ نودولتیے اور زمانے کے بدترین اور کرپٹ افراد عمارتیں بنانے میں مسابقت کررہے ہیں۔ دنیا کے ہر شہر میں ایسے افراد لینڈ مافیا بنے ہوئے ہیں جو کل تک کچھ بھی نہ تھے، اچانک زمینوں کے کاروبار میں ہیرا پھیری کرکے راتوں رات امیر بنے اور عمارتیں بنانے کے مقابلے میں لگ گئے۔ 
ذیل میں عمارتیں بنانے کے حوالے سے صحابہ کرامؓ کے چند واقعات تحریر کیے جارہے ہیں، جن سے اس مسئلے کی مزید تشریح اور توضیح ہوجاتی ہے۔ 
حضرت ابو وائل شقیق بن سلمہؓ کہتے ہیں: جب حضرت خبابہ بیمار تھے تو ہم لوگ ان کی عیادت کرنے گئے۔ ان کے پاس ایک کھلے ہوئے صندوق میں 80 ہزار درہم موجود تھے۔ آپ نے ان سے اپنی لاتعلقی اور عدم محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے ساتھیوں نے دین کو زندہ کرنے کے لیے خوب محنت کی اور انہیں دنیا نہیں ملی، ان کے بعد ہم یہاں رہ گئے اور ہمیں خوب دولت ملی جو ساری مٹی گارہ (تعمیرات) میں لگا دی۔ (حیاۃ الصحابۃ بحوالہ ابونعیم فی الحلیہ)
حضرت مالک بن انسؓ کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسیؓ کسی درخت کے سائے میں بیٹھا کرتے تھے (اور مسلمانوں کے اجتماعی کاموں کو انجام دیا کرتے تھے) سایہ گھوم کر جدھر جاتا خود بھی ادھر کھسک جاتے، اس کام کے لیے ان کا کوئی گھر نہ تھا، ان سے ایک آدمی نے کہا: کیا میں آپ کو ایک کمرہ نہ بنادوں کہ گرمیوں میں اس کے سایہ میں رہا کریں اور سردیوں میں اس میں رہ کر سردی سے بچاؤ کرلیا کریں؟ حضرت سلمان فارسیؓ نے اس سے فرمایا کہ ہاں بنادو! جب وہ آدمی چلا گیا تو حضرت سلمانؓ نے اسے زور سے آواز دے کر کہا کہ کیسا کمرہ بناؤ گے؟ اس آدمی نے کہا: ایسا کمرہ بناؤں گا کہ اگر آپ اس میں کھڑے ہوں تو آپ کا سر چھت کو لگے اور اگر آپ اس میں لیٹیں تو آپ کے پاؤں دیوار کو لگیں۔ حضرت سلمانؓ نے کہا: پھر ٹھیک ہے۔ (حیاۃ الصحابۃ بحوالہ ابو نعیم فی الحلیہ)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا میں نے نہ اینٹ پر اینٹ رکھی (کوئی تعمیر نہیں کی) اور نہ ہی کھجور کا کوئی پودا لگایا ہے۔ (حیاۃ الصحابۃ بحوالہ ابو نعیم فی الحلیہ)
حضرت سلمہ بن کلثومؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداءؓ نے دمشق میں ایک اونچی عمارت بنائی۔ حضرت عمرؓ بن خطاب کو مدینہ منورہ میں اس کی اطلاع ملی تو حضرت ابوالدرداءؓ کوخط لکھاکہ ’’اے عویمر بن ام عویمر! کیا تمہیں روم و فارس کی عمارتیں کافی نہیں ہیں کہ تم اور نئی عمارتیں بنانے لگ گئے ہو؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ (ہر کام سوچ سمجھ کر کیا کرو کیونکہ) تم دوسروں کے لیے نمونہ ہو (لوگ تمہیں جیسا کرتے ہوئے دیکھیں گے ویسا ہی کرنے لگیں گے)۔ (حیاۃ الصحابہ بحوالہ ابن عساکر)
حضرت ثابتؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابوذرؓ حضرت ابوالدرداءؓ کے پاس سے گزرے، وہ اپنا گھر بنا رہے تھے۔ حضرت ابوذرؓ نے کہا: تم نے بڑے بڑے پتھر لوگوں کے کندھوں پر لاد دیے ہیں۔ حضرت ابوالدرداءؓ نے کہا: میں تو گھر بنا رہا ہوں۔ حضرت ابوذرؓ نے پھر پہلے والا جملہ دوہرایا۔ حضرت ابوالدرداءؓ نے کہا کہ اے میرے بھائی! شاید میرے اس کام کی وجہ سے آپ مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں؟ حضرت ابوذرؓ نے کہا: اگر میں آپ کے پاس سے گزرتا اور آپ اپنے پاخانہ کی صفائی میں مشغول ہوتے تو یہ مجھے اس کام سے زیادہ محبوب تھا جس میں آپ مشغول ہیں۔ (حیاۃ الصحابہ)
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی نے ’’الغفاری‘‘ میں سیدنا ابوذر غفاریؓ کی زاہدانہ زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے راہبانہ صحرا نوردیوں سے روکا بھی تھا اور اس دنیا کو ایک گزرگاہ اور راستے سے تشبیہ دے کر اپنے آپ کو ایک مسافر کی مانند بتایا ہے، جو کسی چھاؤں کے نیچے تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے کھڑا ہوگیا ہو۔ سیدنا ابوذرؓ نے ان دونوں ارشادات پر عملی تطبیق اس طرح دی تھی کہ آپ جب تک مدینہ منورہ میں رہے زیادہ تر اِدھر اُدھر پڑے رہتے، کبھی مسجد میں، کبھی صفہ میں سو جاتے، اور اس کے بعد آپ جہاں کہیں رہے کمبل کے خیمے میں رہے، شام کے غدار شہر دمشق میں بھی جب تک آپ رہے، صوف کے جھونپڑے میں ہی رہے۔ اپنے بال بچوں کے ساتھ اسی قسم کے خیموں میں اپنی زندگی گزار دی، حتیٰ کہ جس مکان میں آپ نے اپنی آخری سانس لی، اس وقت بھی دیکھنے والوں نے یہی دیکھا کہ صوف کے معمولی خیمہ میں سیدنا ابوذرؓ کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ پس اگرچہ وہ پہاڑ کی کھوہ میں نہیں گئے لیکن شہروں کے وسط میں ہی آپ نے کھوہ بنا لیا تھا اور یوں؎
ایں طرفہ تماشا بیں لب تشنہ بآب اندر
کے خیالی تصور کی واقعی تصویر اپنی پوری زندگی سے کھینچ کر انہوں نے دکھا دی تھی۔‘‘ (الغفاری)
اگرچہ اسلام عمارتیں بنانے سے قطعی منع نہیں کرتا لیکن بغیر ضرورت کے اونچی اونچی عمارتیں بنانے کو حُبِّ دنیا اور نمود و نمائش کے باعث ناپسند کرتا ہے۔ یہ تمام افعال انسان کو خودغرضی، خودپسندی، بخل اور تکبر کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس لیے اسلام ایسے تمام افعال کا سدباب کرنا چاہتا ہے جو انسان کو اخلاقی طور پر رذیل بنادیں۔  

0 comments: