_______________________
علاماتِ قیامت
نماز کی پابندی نہ کرنا
عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com
اسلام دینِ کامل ہے۔ اس کے کامل ہونے کے جہاں دوسرے کئی دلائل ہیں وہیں ایک دلیل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہماری دنیا کے وجود و آغاز اور اس کے اختتام کی مربوط تعلیمات بھی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں جہاں اس جہان کے آغاز کے متعلق معلومات ملتی ہیں وہیں اس کے اختتام اور علامات کے متعلق بھی واضح تعلیمات موجود ہیں۔ بلکہ وجودِ کائنات سے زیادہ اس جہان کے اختتام اور اس کی علامات کے حوالے سے مفصل بیان موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا کے اختتام (قیامت) اور اس کی علامات کو ایک ایک کرکے واضح کردیا ہے۔ آج اگر ہم اپنے معاشرے میں نگاہ ڈالیں تو ان میں سے اکثر علامات معاشرے کا جزو بن چکی ہیں۔ درحقیقت یہ وہ علامات ہیں جن کے بغیر کوئی معاشرہ بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ امرِ لازم ہے کہ جب یہ علامات ظاہر ہوں گی تو دنیا کا وجود بھی خطرے میں آجائے گا۔ تفسیر در منثور میں ابونعیم کے حوالے سے ایک حدیث میں 72 علاماتِ قیامت بیان کی گئی ہیں۔ یہاں ان علامات پر قسط وار بحث کی جائے گی۔ (ان شاء اللہ)
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 72 چیزیں قربِ قیامت کی علامت ہیں، جب تم یہ علامات دیکھو تو پھر سرخ آندھی، زمین میں دھنس جانے، شکلیں بگڑ جانے اور آسمان سے پتھر برسنے جیسے عذابوں کا انتظار کرنا:
1۔ لوگ نمازیں غارت کرنے لگیں گے، یعنی نمازوں کا اہتمام رخصت ہوجائے گا۔
نماز اسلام کا سب سے اہم ستون ہے۔ قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے نماز کے متعلق ہی پوچھا جائے گا۔ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن بندے سے پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا، اگر اس کی نماز درست ہے تو سارے عمل صحیح ہیں، اور اگر نماز فاسد ہے تو سارے عمل فاسد ہیں۔ قرآن میں بھی عبادات میں سے سب سے زیادہ نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ بیماری، سفر، حتیٰ کہ حالتِ جنگ میں بھی نماز کی معافی نہیں۔ حدیث میں نماز کو مومن کی معراج کہا گیا ہے۔ یہ حدیث ہم عموماً پڑھتے، سنتے ہیں لیکن کبھی اس پر غور نہیں کرتے کہ نماز اور معراج کا کیا تعلق ہے؟ سب سے پہلے تو یہ کہ پنج وقتہ نماز معراج کے موقع پر فرض ہوئی۔ اور دوسرا باریک نکتہ یہ ہے کہ معراج کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی ملاقات ہوئی تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ خالق کائنات جیسی عظیم ہستی سے ملاقات کوئی معمولی بات نہیں، یہ ایک شرف و مرتبے کا مقام ہے۔ اسی طرح جب بندۂ مومن رب کے حضور نماز کی حالت میں کھڑا ہوتا ہے تو درحقیقت وہ بھی اللہ سے ملاقات کررہا ہوتا ہے۔ حدیث جبریل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’احسان‘ کی تعریف کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ ’’تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، اور یہ کہ اگر تم اللہ کو نہیں دیکھ پارہے تو اللہ تو ضرور تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ ان احادیث کی روشنی میں نماز کی اہمیت اور بھی واضح ہوجاتی ہے کہ نماز کوئی معمولی عمل نہیں بلکہ بندے کے لیے اپنے رب سے ملاقات اور مناجات کا ذریعہ ہے۔ اس کو دُنیوی اعتبار سے سمجھیں کہ اگر کوئی افسر اپنے ماتحت کو یہ حکم دے کہ تم فلاں فلاں وقت مجھ سے ملاقات کے لیے آجانا، اور وہ ماتحت ملاقات کے لیے حاضر نہ ہو تو اس ماتحت کے لیے کیا سزا ہوسکتی ہے؟ لازماً تنبیہ اور بعد میں نوکری سے اخراج ہی اس عمل کا نتیجہ نکلے گا۔ اسی طرح اگر بندہ اپنے رب کے حضور وقت پر پیش ہوکر ملاقات نہ کرے تو اس بندے کا کیا انجام ہوگا؟
ہم عموماً دفتری اور تجارتی کاموں میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ اکثر نمازیں یا تو قضا ہوجاتی ہیں یا پھر جماعت فوت ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کی فضیلت بیان کی ہے جو نماز کے لیے اپنا دُنیوی کام دھندا چھوڑ کر مسجد میں حاضر ہوتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) ’’ان میں ایسے لوگ صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامتِ نماز و ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کردیتی، وہ اُس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آجائے گی۔‘‘ (سورہ النور 37)
مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب اپنی تفسیر القرآن میں لکھتے ہیں: ’’یعنی معاش کے دھندے ان کو اللہ کی یاد اور احکام الٰہیہ کی بجا آوری سے غافل نہیں کرتے، بڑے سے بڑا بیوپار یا معمولی خرید و فروخت، کوئی چیز خدا کے ذکر سے نہیں روکتی، صحابہ کرامؓ کی یہی شان تھی۔‘‘
تفسیر ابن کثیر میں منقول ہے کہ یہاں ذکر اللہ سے جماعت کی نماز مراد ہے، مزید لکھتے ہیں کہ: ’’ایک بار حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ اذان ہوتے ہی خرید وفروخت بند کرکے نماز کے لیے چل دیے ہیں، آپؓ نے یہ دیکھ کر فرمایا: یہی لوگ ہیں جن کو حق تعالیٰ شانہٗ نے ’’رجال اللہ‘‘ سے یاد فرمایا ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جو شخص یہ چاہتا ہو کہ کل (محشر میں) اللہ تعالیٰٰ سے مسلمان ہونے کی حالت میں ملے تو اس کو چاہیے کہ ان (پانچ) نمازوں کے ادا کرنے کی پابندی اس جگہ کرے جہاں اذان دی جاتی ہے (یعنی مسجد)، کیونکہ اللہ تعالیٰٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدایت کے کچھ طریقے بتلائے ہیں اور ان پانچ نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا انہی’’ سنن ہدیٰ‘‘ میں سے ہے، اور اگر تم نے یہ نمازیں اپنے گھر میں پڑھ لیں، جیسے یہ جماعت سے الگ رہنے والا اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہے (کسی شخص کی طرف اشارہ کرکے فرمایا) تو تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے، اور اگر تم نے اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دیا تو تم گمراہ ہوجاؤگے، (اور جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح پاکی حاصل کرے) پھر کسی مسجد کا رخ کرے تو اللہ تعالیٰٰ اس کے ہر قدم پر نیکی اس کے نامۂ اعمال میں درج فرماتے ہیں اور اس کا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف کردیتے ہیں، اور ہم نے اپنے مجمع کو ایسا پایا ہے کہ منافق بیّن النفاق (یعنی کھلے منافق) کے سوا کوئی آدمی جماعت سے الگ نماز نہ پڑھتا تھا، یہاں تک کہ بعض حضرات کو عذر اور بیماری میں بھی دو آدمیوں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسجد میں لایا جاتا تھا اور صف میں کھڑا کردیا جاتا تھا‘‘۔ (مسلم)
احادیث میں نماز کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے، ذیل میں چند احادیث بیان کی جارہی ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تمہارے گھر کے سامنے کوئی نہر بہتی ہو اور تم میں سے کوئی ہر روز پانچ بار اس میں غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی بچے گا؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: نہیں! اس کے بدن پر کوئی میل نہیں ہوگا‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری)
’’جو نمازوں کی حفاظت کرے تو پانچوں نمازیں اور جمعہ کے بعد دوسرا جمعہ پڑھنا گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہ نہ کیے جائیں۔‘‘ (صحیح مسلم)
’’جب تک نمازی اپنے مصلے پر ہو اُس وقت تک فرشتے رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ نمازی بے وضو نہ ہوجائے۔‘‘ (صحیح مسلم)
’’جو شخص عشاء کی نماز باجماعت پڑھے تو گویا وہ آدھی رات تک قیام کرتا رہا۔ جو شخص صبح کی نماز باجماعت پڑھتا ہے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
’’جب کوئی شخص مسجد میں نماز پڑھتا ہے تو اس کو گھر کے لیے نماز کا حصہ رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰٰ نے اس کے گھر کی نماز کے حصے میں بڑی خیر رکھی ہے‘‘ (صحیح مسلم)۔ یعنی گھر میں نوافل پڑھنے سے گھر والے بھی نمازی بن جائیں گے، اس سے بڑھ کر اور کیا خیر و برکت ہو گی۔
’’جو شخص مسلسل چالیس روز تک تکبیر اُولیٰ کے ساتھ نماز پڑھتا رہا تو اللہ تعالیٰٰ اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دیتا ہے: ایک جہنم سے آزادی، اور دوسری منافقت سے آزادی‘‘۔ (ترغیب و ترہیب)
’’جو شخص فجر کی نماز باجماعت ہوکر پڑھتا ہے، پھر بیٹھ کر ذکرِ الٰہی کرتا ہے، حتیٰ کہ سورج طلوع ہوجائے، پھر دو رکعت نفل پڑھتا ہے تو اسے حج و عمرے کا ثواب مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکمل، مکمل یعنی مکمل اجر و ثواب ملے گا‘‘۔ (ترغیب)
’’جو شخص ہر روز بارہ رکعت نفل (یعنی سنتیں) پڑھے گا تو اللہ تعالیٰٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
’’جو شخص اللہ کے لیے ایک سجدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰٰ اُس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے، ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور ایک درجہ بلند فرماتا ہے۔ سو تم کثرت سے سجدے کرو۔‘‘ (ترغیب)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف نماز ادا کرنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ قرآن کے حکم کے مطابق نماز کو قائم کرنے کی ترغیب دی۔ احادیث میں باجماعت نماز کی ادائیگی کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے گھر پر نماز پڑھے تو صرف ایک نماز کا ثواب اس کو ملتا ہے، اور محلے کی مسجد میں پچیس گنا ثواب ملتا ہے، اور جامع مسجد میں پانچ سو گنا ثواب زیادہ ملتا ہے، اور بیت المقدس کی مسجد میں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور میری مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں پچاس ہزار کا ثواب ہے اور مکہ مکرمہ کی مسجد میں ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: آدمی کی نماز باجماعت گھر یا بازار کی نماز سے پچیس درجہ بڑھ کر ہوتی ہے (یعنی ثواب کے اعتبار سے) کیونکہ جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کرکے مسجد کی طرف صرف نماز کے ارادے سے نکلتا ہے تو ہر قدم پر ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوجاتا ہے، پھر جب نماز سے فارغ ہوکر اسی جگہ بیٹھا رہتا ہے تو جب تک باوضو بیٹھا رہتا ہے، فرشتے اس کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا کرتے ہیں، اور جب تک وہ نماز کے انتظار میں رہتا ہے، نماز کا ثواب پاتا رہتا ہے۔‘‘ (بخاری)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک جماعت کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی کو بھی گھر میں انفرادی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک نابینا شخص نے حاضر ہوکر دریافت کیا کہ مجھے کوئی مسجد پہنچانے والا نہیں ہے (یعنی کیا ایسی حالت میں اس عذر کی وجہ سے تنہا نماز پڑھ سکتا ہوں؟) یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، مگر جب وہ شخص جانے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلاکر دریافت فرمایا کہ کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب تو تم کو جماعت میں حاضر ہونا چاہیے۔‘‘ (مشکوٰۃ)
حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جماعت سے پیچھے رہنے والے کو اگر جماعت کی طرف جانے کا ثواب معلوم ہوجائے تو وہ اپنے ہاتھوں اور پیروں پر گھسٹتا ہوا آئے۔‘‘ (الترغیب)
اُم المومنین سیدہ عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے آخری ایام میں بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہراتؓ سے اجازت چاہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمارداری میرے گھر میں کی جائے، چنانچہ سب نے اجازت دے دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اسی بیماری کی حالت میں) دو شخصوں کے سہارے (یعنی) حضرت عباسؓ اور ایک دوسرے شخص کے ہمراہ زمین پر پاؤں گھسیٹتے ہوئے (جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے) تشریف لے گئے‘‘۔ (بخاری)
آج ہم نماز کے حوالے سے مسلم معاشرے کا مجموعی جائزہ لیں تو مثالی صورت حال نظر نہیں آتی۔ اگرچہ اس وقت اسلام میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں خوب اضافہ ہورہا ہے لیکن پیدائشی مسلمانوں کی حالت دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰٰ ہمیں خلوصِ دل کے ساتھ نماز پنجگانہ باجماعت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
0 comments:
Post a Comment