اولاد غم اور غصے کا موجب ہوگی… ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Monday, February 25, 2019

اولاد غم اور غصے کا موجب ہوگی…


عابد علی جوکھیو

یہ انسانی کمزوری ہے کہ وہ کبھی بھی تنہا نہیں رہ سکتا۔ وہ فطرتاً اجتماعیت کا محتاج ہے۔ حضرت آدمؑ کی خلقت کے فوراً بعد ہی اللہ نے بی بی حواؑ کو پیدا فرمایا، اور یہیں سے نسلِ انسانی کا آغاز ہوا۔ حضرت آدمؑ کی اولاد کی صورت میں اس زمین پر انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا جو آج تک جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے باہمی تعلقات اور رشتوں کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو محبت و الفت کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے احکامات کثرت سے ملتے ہیں جو براہِ راست انسانی تعلقات سے متعلق ہے۔ سورۃ الحجرات میں انسانی معاشرے کے تمام خدوخال بیان کیے گئے ہیں۔ جس طرح حضرت آدمؑ کے بعد بی بی حواؑ کی خلقت اور ان دونوں کے ملاپ سے ان کی اولاد وجود میں آئی، اسی طرح آج بھی ایک مرد اور عورت کے ذریعے ایک نیا انسان اس دنیا میں وارد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان (میاں، بیوی اور اولاد) کے تعلقات کو تمام انسانوں کے تعلقات سے اہم قرار دیا ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ ان کے تعلقات آپس میں مضبوط ہوں۔ جہاں میاں بیوی کے حقوق کا تذکرہ ہے، وہیں اولاد پر والدین کے حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اولاد کو حکم دیتے ہیں: 
(ترجمہ) ’’تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُس کی، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو، اور نرمی و رحم کے ساتھ اُن کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ ’’پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح اِنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘ (بنی اسرائیل 23۔24) 
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: 
’’اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے بعد انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ اولاد کو والدین کا مطیع، خدمت گزار اور ادب شناس ہونا چاہیے۔ معاشرے کا اجتماعی اخلاق ایسا ہونا چاہیے جو اولاد کو والدین سے بے نیاز بنانے والا نہ ہو بلکہ ان کا احسان مند اور ان کے احترام کا پابند بنائے، اور بڑھاپے میں اسی طرح ان کی خدمت کرنا سکھائے جس طرح بچپن میں وہ اپنی اولاد کی پرورش اور ناز برداری کرچکے ہیں۔ یہ آیت بھی صرف ایک اخلاقی سفارش نہیں ہے بلکہ اسی کی بنیاد پر بعد میں والدین کے وہ شرعی حقوق و اختیارات مقرر کیے گئے جن کی تفصیلات ہم کو حدیث اور فقہ میں ملتی ہیں۔ نیز اسلامی معاشرے کی ذہنی و اخلاقی تربیت میں اور مسلمانوں کے آدابِ تہذیب میں والدین کے ادب اور اطاعت اور ان کے حقوق کی نگہداشت کو ایک اہم عنصر کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ ان چیزوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے کردیا کہ اسلامی ریاست اپنے قوانین اور انتظامی احکام اور تعلیمی پالیسی کے ذریعے سے خاندان کے ادارے کو مضبوط اور محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی نہ کہ اسے کمزور بنانے کی۔‘‘ (تفہیم القرآن)
مولانا شفیع عثمانیؒ معارف القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں: بیہقی نے شعب الایمان میں بروایت ابی بکرہؓ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اور سب گناہوں کی سزا تو اللہ تعالیٰ جس کی چاہتے ہیں قیامت تک مؤخر کردیتے ہیں بجز والدین کی حق تلفی اور نافرمانی کے، اس کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں بھی دی جاتی ہے۔ 
اس آیت سے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی اہمیت ہمارے سامنے واضح ہوگئی، اس کے علاوہ متعدد احادیث میں بھی ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم، فضیلت اور والدین کی خدمت نہ کرنے کی وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان فضیلتوں کا حقدار اور وعیدوں سے محفوظ فرمائے (آمین)۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے والدین کو بھی ایک دعا سکھائی ہے کہ وہ بھی جب اللہ سے دعا مانگیں تو کس طرح مانگیں۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔‘‘ (الفرقان 74)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں: 
’’یعنی ان کو ایمان اور عملِ صالح کی توفیق دے اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کر، کیونکہ ایک مومن کو بیوی بچوں کے حسن و جمال اور عیش و آرام سے نہیں بلکہ اُن کی نیک خصالی سے ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے۔ اُس کے لیے اِس سے بڑھ کر کوئی چیز تکلیف دہ نہیں ہوسکتی کہ جو دنیا میں اُس کو سب سے پیارے ہیں انہیں دوزخ کا ایندھن بننے کے لیے تیار ہوتے دیکھے۔ ایسی صورت میں تو بیوی کا حسن اور بچوں کی جوانی و لیاقت اُس کے لیے اور بھی زیادہ سوہانِ روح ہوگی، کیونکہ وہ ہر وقت اس رنج میں مبتلا رہے گا کہ یہ سب اپنی ان خوبیوں کے باوجود اللہ کے عذاب میں گرفتار ہونے والے ہیں۔
یہاں خاص طور پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ جس وقت یہ آیات نازل ہوئی ہیں، یہ وقت وہ تھا جب مکہ کے مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس کے محبوب ترین رشتہ دار کفر و جاہلیت میں مبتلا نہ ہوں۔ کوئی مرد ایمان لے آیا تھا تو اُس کی بیوی ابھی کافر تھی۔ کوئی عورت ایمان لے آئی تھی تو اُس کا شوہر ابھی کافر تھا۔ کوئی نوجوان ایمان لے آیا تھا تو اُس کے ماں باپ اور بھائی بہن، سب کے سب کفر میں مبتلا تھے۔ اور کوئی باپ ایمان لے آیا تھا تو اُس کے اپنے جوان جوان بچے کفر پر قائم تھے۔ اس حالت میں ہر مسلمان ایک شدید روحانی اذیت میں مبتلا تھا اور اس کے دل سے وہ دعا نکلتی تھی جس کی بہترین ترجمانی اس آیت میں کی گئی ہے۔ ’آنکھوں کی ٹھنڈک‘ نے اس کیفیت کی تصویر کھینچ دی ہے کہ اپنے پیاروں کو کفر و جاہلیت میں مبتلا دیکھ کر ایک آدمی کو ایسی اذیت ہورہی ہے جیسے اس کی آنکھیں آشوبِ چشم سے ابل آئی ہوں اور کھٹک سے سوئیاں سی چبھ رہی ہوں۔ اس سلسلۂ کلام میں ان کی اس کیفیت کو دراصل یہ بتانے کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ وہ جس دین پر ایمان لائے ہیں پورے خلوص کے ساتھ لائے ہیں۔ ان کی حالت اُن لوگوں جیسی نہیں ہے جن کے خاندان کے لوگ مختلف مذہبوں اور پارٹیوں میں شامل رہتے ہیں اور سب مطمئن رہتے ہیں کہ چلو، ہر بینک میں ہمارا کچھ نہ کچھ سرمایہ موجود ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن)
مفتی شفیع عثمانیؒ اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: 
’’اس میں اپنی اولاد اور ازواج کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کو میرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے سے مراد حسن بصریؒ کی تفسیر کے مطابق یہ ہے کہ ان کو اللہ کی اطاعت میں مشغول دیکھے، یہی ایک انسان کے لیے آنکھوں کی اصلی ٹھنڈک ہے۔ اور اگر اولاد و ازواج کی ظاہری صحت و عافیت اور خوشحالی بھی اس میں شامل کی جائے تو وہ بھی درست ہے۔ یہاں اس دعا سے اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ کے مقبول بندے صرف اپنے نفس کی اصلاح اور اعمالِ صالحہ پر قناعت نہیں کرلیتے بلکہ اپنی اولاد اور بیبیوں کی بھی اصلاحِ اعمال و اخلاق کی فکر کرتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اسی کوشش میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کی صلاحیت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا رہے۔‘‘ (معارف القرآن)
مذکورہ بالا دونوں آیاتِ قرآنی سے والدین اور اولاد کی ذمہ داریوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ جیسے مولانا مودودیؒ نے بیان کیا ہے کہ انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے، اس سے والدین اور اولاد کے رشتے کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ جب ایک فرد خاندان تشکیل دینے کے لیے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتا ہے تو یہ خاندان اولاد سے ہی مکمل ہوتا ہے اور بعد میں یہی اولاد ایک دوسرا خاندان بناتی ہے۔ اسی طرح معاملہ چلتا رہتا ہے۔ چونکہ اولاد کو خود ایک دن والدین کی حیثیت میں آنا ہوتا ہے اس لیے ان کو اس مقام اور مرتبے کا پہلے سے ہی احساس کرلینا چاہیے کہ اگر وہ اپنی اولاد کو اچھا دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں خود اپنے والدین کے لیے اچھا بننا ہوگا۔ جیسا کہ مولانا شفیع عثمانیؒ نے بیہقی کی ایک روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ والدین کے ساتھ زیادتی کے جرم کی سزا اولاد کو اس دنیا میں بھی دیں گے۔ اس کی واضح صورت یہ ہوگی کہ اس کی اولاد کی جانب سے اس کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو اس نے والدین کے ساتھ کیا ہوگا۔ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم کو اپنی عبادت سے متصل بیان کیا ہے کہ جس طرح اللہ کی عبادت ضروری ہے اسی طرح والدین کی اطاعت و فرماں برداری بھی ضروری ہے۔ جس طرح حقوق اللہ میں سب سے پہلے یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اسی طرح حقوق العباد میں سب سے مقدم یہ ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ 
آج ہم اپنے معاشرے کو دیکھیںتو بخوبی اندازہ ہوگا کہ آج کل کی اولاد ایسے کام کرتی ہے جو والدین کے لیے باعثِ شرمندگی اور معاشرے میں والدین کا نام اونچا کرنے کے بجائے لوگوں کے سامنے ان کی گردنیں جھکانے کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے میں جہاں اولاد کے بُرے افعال سے والدین غمگین ہوتے ہیں، وہیں بعض کے لیے غیظ و غضب کا باعث بھی بنتے ہیں۔ کوئی بری اولاد کے غم میں نڈھال ہوکر اس دنیا سے جاتا ہے، تو کوئی اولاد کے برے افعال پر کڑھ کر اور غصہ کرکے اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ بلاشبہ یہ والدین کے لیے بڑی اذیت کا موقع ہوتا ہے جب ان کی اولاد برے افعال کی وجہ سے ان کی گردنیں جھکا دیتی ہے۔ ایسی اولاد یقینا والدین کے لیے غم و غصے کا موجب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)

0 comments: