امیر اور وزیر جھوٹ کے عادی بن جائیں گے… ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Monday, February 25, 2019

امیر اور وزیر جھوٹ کے عادی بن جائیں گے…


عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com

اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے تعلقات رکھیں۔ انسان کبھی بھی اکیلا نہیں رہ سکتا، اسے اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے دوسرے انسانوں سے لامحالہ رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کی زمام کار بھی انسانوں کے ہاتھ میں دی ہے، یعنی اس دنیا میں انسان اللہ کے بتائے ہوئے نظام کے مطابق زندگی گزاریں۔ اللہ نے ایک فرد کی ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی معاملات تک کی تعلیمات واضح طور پر بتادی ہیں۔ اب اگر انسان ذاتی یا اجتماعی زندگی میں ان تعلیمات سے انحراف کرے گا تو لازماً تباہی کی طرف جائے گا۔ اگرچہ انسان اپنی ذاتی زندگی میں کوئی ایسا فعل کر رہا ہے جس کا بظاہر اس کی ذاتی زندگی سے ہی تعلق ہے لیکن لامحالہ اس کا اثر معاشرے پر بھی پڑتا ہے۔ انسان معاشرے کے بغیر نہیں اور نہ معاشرہ انسان کے بغیر۔ دونوں ایک دوسرے کا اچھا یا برا اثر ضرور لیتے ہیں۔ 
انسانوں کے ذاتی معاملات کی بنسبت اجتماعی معاملات کو زیادہ اہمیت حاصل ہے، وہ اس لیے کہ انفرادی یا ذاتی معاملات کے مقابلے میں اجتماعی معاملات کا اثر بڑی تیزی سے اور براہ راست معاشرہ پر پڑتا ہے۔ اسی لیے اسلام میں برائی کو دیکھتے ہی ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ اس کا اثرات کو پھیلنے سے فوراً روکا جاسکے۔ جہاں بھی انسانوں کی اجتماعیت ہوگی وہاں اس اجتماعیت کے نظم کو چلانے کے لیے ایک نظام کی ضرورت ہوگی، کوئی اس اجتماعیت کا امیر ہوگا، مشیر اور دیگر ذمہ داران بھی ہونگے جو اس اجتماعیت کے معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کے ذمہ دار ہونگے۔ ہمیشہ سے رہا ہے کہ جہاں انسانوں کی بڑی اجتماعیت اور ان کے وسیع معاملات ہوں، وہاں کسی ایک فرد کے لیے اس نظام کو چلانا مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اجتماعیت کا ذمہ دار اپنے ساتھ کچھ ایسے افراد کو اپنے ساتھ ملاتا ہے جو اس اجتماعیت یا نظام حکومت کو چلانے میں اس کی  مدد کرتے ہیں۔ عرف عام میں ہم ان افراد کو مشیران یا وزراء کی حیثیت میں جانتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو نظام حکومت چلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، زمینی حقائق سے آگاہی اور ابتدائی فوری معلومات کا حصول ان کی اہم ذمہ داری ہوتا ہے تا کہ کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے میں آسانی ہو۔ پھر انہی مشیران یا وزراء کے مشوروں کے مطابق ہی فیصلہ کیے جاتے ہیں۔ امراء و وزراء کے مقام کو دیکھتے ہوئے اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ ان کا صادق و امین ہونا انتہائی ضروری ہے تا کہ اجتماعیت کے تمام فیصلے درست ہوسکیں۔ 
انفرادی اور اجتماعی زندگی میں صداقت و امانت کو بڑی اہمیت حاصل ہے، ہم میں سے کوئی بھی کسی ایسے فرد کو پسند نہیں کرے گا جو سچا اور امانتدار نہ ہو۔ جب بات ایسے فرد کے ساتھ کوئی معاملہ کرنے کی ہو تو ہم ایسے فرد کے ساتھ کوئی بھی لین دین نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ ہمیں اس بات کا پورا پورا اندیشہ ہوتا ہے کہ ہمیں اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جب بات اجتماعی معاملات کی ہو تو ہمیں مزید تشویش لاحق ہوجاتی ہے کہ کہیں اجتماعی معاملات کی ذمہ داری کسی ایسے فرد کے ہاتھ میں نہ چلی جائے جس سے ہمیں ذاتی اور اجتماعی نقصان کا اندیشہ ہو۔ ہم اپنے گھر یا محلے کی سربراہی بھی کسی ایسے فرد کے ہاتھ میں دینا چاہتے ہیں جو سچا ہو، امانتدار ہو، ہم سے مخلص ہو، ہمارے مسائل کو سمجھتا ہو، دیندار اوردیانتدار ہو، جس کی موجودگی سے ہمیں اپنی جان، مال اور عزت محفوظ محسوس ہوتی ہو۔ نظم اجتماعی میں ذمہ داری دینے سے پہلے ہم ان اوصاف کو اس لیے دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے اجتماعی نظام کو بہتر طور پر چلانا چاہتے ہیں اور یہ نہیں چاہتے کہ کوئی جھوٹا اور فاسق و فاجر ہماری رہنمائی و نمائندگی کرے۔ ویسے تو ہر برائی اور گناہ اپنی جگہ سنگین ہے لیکن اسلام میں جھوٹ کو تمام برائیوں کی جڑ کہا گیا ہے۔ جھوٹ گناہ کا وہ ابتدائی نقطہ ہے جہاں سے تمام برائیاں جنم لیتی ہیں۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو مزید جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور برائی آگ کی طرف لے جاتی ہے۔ بندہ اس قدر جھوٹ بولتا ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب (جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ (بخاری) 
چونکہ انفرادی معاملات کی مقابلے میں اجتماعی زندگی میں جھوٹ کے اثرات مزید مہلک ثابت ہوتے ہیں، اس لیے اسلام ہر اس جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرتا ہے جس کا اثر براہ راست معاشرے پر ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ’’(اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھْوٹ کے گواہ نہیں بنتے۔ اور کسی لغو  چیز پر اْن کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گْزر جاتے ہیں۔‘‘ (الفرقان 72) یہ بات تو ایک عام فرد کی ہے لیکن جہاں مقام و منصب اونچا ہو وہاں ذمہ داریاں اور اس کے تقاضے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ یعنی جب ایک عام فرد بھی جھوٹ کی گواہی نہیں دے سکتا تو کجا کہ وہ افراد جھوٹ بولیں یا جھوٹی گواہیاں دیں جو اجتماعی معاملات کے ذمہ دار ہوں۔ جن کی ذمہ داری ہی انسانوں کے خیر  و بھلائی کے لیے کام کرنا ہو اور وہی لوگ اپنی ذمہ داری سے کوتاہی برت کر اپنے آپ کو بچانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیں تو ان کے لیے جس درجے کا عذاب ہوگا اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ 
سید ابوالاعلی مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اس (جھوٹ)کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کسی جھوٹی بات کی گواہی نہیں دیتے اور کسی ایسی چیز کو واقعہ اور حقیقت قرار نہیں دیتے جس کے واقعہ اور حقیقت ہونے کا انہیں علم نہ ہو، یا جس کے خلاف واقعہ و حقیقت ہونے کا انہیں اطمینان ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ جھوٹ کا مشاہدہ نہیں کرتے، اس کے تماشائی نہیں بنتے، اس کو دیکھنے کا قصد نہیں کرتے۔ اس دوسرے مطلب کے اعتبار سے ’’جھوٹ‘‘ کا لفظ باطل اور شر کا ہم معنی ہے۔ انسان جس برائی کی طرف بھی جاتا ہے، لذت یا خوشنمائی یا ظاہری فائدے کے اس جھوٹے ملمع کی وجہ سے جاتا ہے جو شیطان نے اس پر چڑھا رکھا ہے یہ ملمع اتر جائے تو ہر بدی سراسر کھوٹ ہی کھوٹ ہے۔ لہٰذا ہر باطل، ہر گناہ اور ہر بدی اس لحاظ سے جھوٹ ہے کہ وہ اپنی جھوٹی چمک دمک کی وجہ ہی سے اپنی طرف لوگوں کو کھنچتی ہے۔ مومن چونکہ حق کی معرفت حاصل کر لیتا ہے، اس لیے وہ اس جھوٹ کو ہر روپ میں پہچان جاتا ہے، خواہ وہ کیسے ہی دلفریب دلائل، یا نظر فریب آرٹ، یا سماعت فریب خوش آوازیوں کا جامہ پہن کر آئے۔‘‘ (تفہیم القرآن)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار اہل افراد کو ہی بنائیں، یعنی ان میں وہ سب صفات ہونی چاہییں جو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اور جو سورہ الفرقان میں بیان کی گئی ہیں۔ کیونکہ کسی معاشرے کی تباہی کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ایسے افراد کو بنائیں جو سرے سے اس کے اہل ہی نہ ہوں۔ ارشاد گرامی ہے۔ ترجمہ: ’’مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سْنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ (النساء 58)
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں: ’’یعنی تم اْن برائیوں سے بچے رہنا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوگئے  ہیں۔ بنی اسرائیل کی بْنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے اپنے انحطاط کے زمانہ میں امانتیں، یعنی ذمہ داری کے منصب اور مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے مرتبے (trust of Positions) ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دیے جو نا اہل، کم ظرف، بد اخلاق، بد دیانت اور بدکار تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بْرے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی۔ مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں، یعنی جن میں بارِ امانت اْٹھانے کی صلاحیت ہو۔‘‘ (تفہیم القرآن)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب تم دیکھو کہ (اجتماعی) امور کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے سپرد کردی جائے جو اس کام کے اہل اور قابل نہیں تو بس قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ (بخاری) مذکورہ بالا قرآنی آیات اور اس حدیث سے اجتماعی معاملات کے ذمہ داران کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس دنیا کا نظام انسانوں نے ہی چلانا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ انسانوں کو یہ تعلیم دے رہا ہے کہ اگر تم اس دنیا میں امن و سکون اور اخوت و بھائی چارہ دیکھنا چاہتے ہو تو اپنی ذاتی زندگی اوراجتماعی زندگی بھی اسی کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق گزارو۔  حقیقت یہی ہے کہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں سے انحراف ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگی میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے اور جب یہ بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو پورا معاشرہ تباہی کے طرف چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک اور صالح امراء اور وزراء مملکت عطا فرمائے۔ (آمین) 

0 comments: