جب انصاف ناپید ہوجائے گا… ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Wednesday, February 13, 2019

جب انصاف ناپید ہوجائے گا…


عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com

اللہ تعالیٰ نے پورے جہان کو عدل و انصاف کے ساتھ بنایا ہے۔ ہر چیز کو اس کے مقام پر ہی رکھا ہے۔ عدل کسی چیز کو اُس کے اصل مقام پر رکھنے کو کہتے ہیں۔ اس طرح عدل کی ضد ظلم ہوگا۔ مطلب: کسی چیز کو اُس کے مقام و مرتبے کے خلاف رکھنا۔ جب اللہ تعالیٰ نے کائنات کو عدل و انصاف کے ساتھ بنایا ہے تو وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ اس جہاں میں عدل و انصاف ہو۔ یہاں بسنے والے آپس میں عدل وانصاف کا ضرور خیال رکھیں۔ کہتے ہیں کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں عدل کا نظام قائم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰٰ نے قرآن مجید میں ایمان والوں کو عدل کا نظام قائم کرنے کی تلقین کی ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے عَلم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو، فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے، لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو، اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی، یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔‘‘ (النساء 135)
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
 ’’یہ فرمانے پر اکتفا نہیں کیا کہ انصاف کی روش پر چلو، بلکہ یہ فرمایا کہ انصاف کے عَلم بردار بنو، تمہارا کام صرف انصاف کرنا ہی نہیں ہے بلکہ انصاف کا جھنڈا لے کر اٹھنا ہے۔ تمہیں اس بات پر کمربستہ ہونا چاہیے کہ ظلم مٹے اور اُس کی جگہ عدل و راستی قائم ہو۔ عدل کو اپنے قیام کے لیے جس سہارے کی ضرورت ہے، مومن ہونے کی حیثیت سے تمہارا مقام یہ ہے کہ وہ سہارا تم بنو۔‘‘ (تفہیم القرآن)
مولانا شفیع عثمانیؒ معارف القرآن میں مذکورہ آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں: 
’’قرآن حکیم نے ایک طرف تو دنیا کے سارے نظام کا منشا ہی قیام عدل و انصاف بتلایا، دوسری طرف اس کا ایک بے مثال انتظام ایسا عجیب و غریب فرمایا کہ اگر اس کے پورے نظام کو اپنایا جائے اور اس پر عمل کیا جائے تو آخرت کی جنت سے پہلے نقد جنت ہو۔‘‘ مزید لکھتے ہیں:
 ’’عدل و انصاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر صاحبِ حق کا حق پورا پورا ادا کیا جائے، اس کے عموم میں اللہ تعالیٰٰ کے حقوق بھی داخل ہیں اور سب قسم کے انسانی حقوق بھی، اس لیے ’’قیام بالقِسط‘‘کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی کسی پر ظلم نہ کرے، اور یہ بھی داخل ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکا جائے، مظلوم کی حمایت کی جائے، اور یہ بھی داخل ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکنے اور مظلوم کا حق دلوانے کے لیے شہادت کی ضرورت پیش آئے تو شہادت دینے سے گریز نہ کیا جائے، اور یہ بھی داخل ہے کہ شہادت میں حق اور حقیقت کا اظہار کیا جائے خواہ کسی کے موافق پڑے یا مخالف، یہ بھی داخل ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت اور انتظام ہے جب دو فریقوں کا کوئی مقدمہ ان کے سامنے پیش ہو تو فریقین کے ساتھ برابری کا معاملہ کریں، کسی ایک طرف میلان نہ ہونے دیں، گواہوں کے بیانات غور سے سنیں، معاملے کی تحقیق میں اپنی پوری کوشش خرچ کریں، پھر فیصلے میں پورے پورے عدل و انصاف کا معاملہ رکھیں‘‘۔
عدل کسی بھی معاشرے کی اساس و بنیاد ہے۔ اس کے بغیر معاشرے کا قیام ناممکن ہے۔ عدل و انصاف کا نام سنتے ہی ہمارے اذہان میں یہی آتا ہے کہ یہ تو حکومتوں اور اربابِ اختیار کا کام ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عدل کا تعلق ہماری ذات سے شروع ہوتا ہے۔ جو انسان اپنی ذات کے ساتھ عدل نہیں کرسکتا وہ بھلا کسی اور کے ساتھ کیا عدل کرے گا! مولانا شفیع عثمانیؒ مذکورہ آیت کی تفسیر میں ہی لکھتے ہیں:
 ’’آج کی دنیا میں جاہل عوام کو چھوڑیے، لکھے پڑھے تعلیم یافتہ حضرات بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انصاف کرنا صرف حکومت و عدالت کا فریضہ ہے، عوام اس کے ذمہ دار نہیں ہیں، اور یہی وہ سب سے بڑی وجہ ہے جس نے ہر ملک ہر سلطنت میں حکومت اور عوام کو دو متضاد فریق بنادیا ہے، راعی اور رعیت کے درمیان اختلاف کی وسیع خلیج حائل کردی گئی ہے۔ ہر ملک کے عوام اپنی حکومت سے عدل و انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن خود کسی انصاف پر قائم رہنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اسی کا نتیجہ ہے جو دنیا آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ قانون معطل ہے، جرائم کی روزافزوں ترقی ہے، آج ہر ملک میں قانون سازی کے لیے اسمبلیاں قائم ہیں، ان پر کروڑوں روپیہ خرچ ہوتا ہے، ان کے نمائندے منتخب کرنے کے لیے الیکشن میں خدا کی پوری زمین ہل جاتی ہے، اور پھر یہ پورے ملک کا دل و دماغ ملک کی ضروریات اور لوگوں کے جذبات و احساسات کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی احتیاط کے ساتھ قانون بناتا ہے جسے قابل تنفیذ سمجھا جاتا ہے، پھر اس کے نفاذ کے لیے حکومت کی لاتعداد مشینری حرکت میں آتی ہے، جس کے ہزاروں بلکہ لاکھوں شعبے ہوتے ہیں، اور ہر شعبے میں ملک کے بڑے بڑے آزمودہ کار لوگوں کی محنتیں بروئے کار آتی ہیں۔ لیکن چلی ہوئی رسوم کی دنیا سے ذرا نظر کو اونچا کرکے دیکھا جائے اور جن لوگوں کو خواہ مخواہ تہذیب اور شائستگی کا ٹھیکہ دار مان لیا گیا ہے تھوڑی دیر کے لیے اُن کی کورانہ تقلید سے نکل کر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو ہر شخص بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ ؎
نگاہِ خلق میں دنیا کی رونق بڑھتی جاتی ہے
مری نظروں میں پھیکا رنگِ محفل ہوتا جاتا ہے
اب سے سو سال پہلے کا ہی موازنہ کریں… اعداد و شمار محفوظ ہیں، وہ گواہی دیں گے کہ جوں جوں قانون سازی بڑھی، قانون میں عوام کی مرضی کی نمائش بڑھی اور تنفیذِ قانون کے لیے مشینری بڑھی، ایک پولیس کے بجائے مختلف اقسام کی پولیس بروئے کار آئی، اتنے ہی روز بروز جرائم بڑھے، اور لوگ انصاف سے ہوتے چلے گئے، اور اسی رفتار سے دنیا کی بدامنی بڑھتی چلی گئی۔‘‘ 
اگر دنیا میں عدل و انصاف قائم ہوجائے تو پوری دنیا جنت بن جائے گی۔ دنیا میں اکثر فسادات ناانصافی اور ظلم کے باعث ہوتے ہیں۔ مظلوم کی دادرسی نہ کرنا اور اسے انصاف نہ دلانا معاشرے کو تباہ کردیتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں عدل و انصاف کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جس کی وجہ سے اسلامی معاشرہ ایک عرصے تک قائم رہا۔ جب مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈالا اسی وقت سے مسلمانوں کا زوال شروع ہوگیا۔ عدل و انصاف اسلام کا ہی خاصا تھا اسی لیے اسلامی ریاست کا ذمی باشندہ بھی بغیر کسی خوف و خطر کے خلیفۂ وقت تک کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کردیتا تھا۔ عدل کا معاملہ اس لیے بھی عجیب ہے کہ جس معاشرے میں بھی عدل و انصاف کا بولا بالا رہا وہ معاشرہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ قائم و دائم رہا۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی وہی معاشرے اپنی اصل روح کے ساتھ قائم ہیں جہاں انصاف سستا ہے، ہر فرد کی فریاد سنی جاتی ہے اور مظلوم کی دادرسی کی جاتی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں مسلمان معاشرہ اس حوالے سے انتہائی ابتری کا شکار ہے۔ مسلم معاشرے میں ظلم و جبر کا دور دورہ ہے۔ عدل و انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ حاکموں کی بالادستی و استثنا، کرپشن اور بیمار عدالتی نظام کے باعث عام فرد کو انصاف ملنا ناممکن نظر آرہا ہے۔ 
عدل و انصاف کا فقدان معاشرے میں بدامنی اور فساد کو جنم دیتا ہے۔ لازمی امر ہے کہ جب مظلوم کو انصاف نہیں ملے گا اور انصاف اس کے لیے بہت مہنگا ہوجائے گا تو وہ مظلوم، تمام قوانین کو اپنے ہاتھ میں لے کر خود ہی فیصلہ کرنے لگے گا۔ آج ہمارے معاشروں کا بیمار عدالتی نظام فرد کو اس بات پر مجبور کردیتا ہے کہ وہ بھی قانون شکنی کا مرتکب ہو۔ ایسا نظام جہاں افراد کو انصاف دینے سے قاصر ہے وہیں معاشرے میں بگاڑ اور فساد کا بھی باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انصاف کرنے والے حاکم کے لیے خوشخبری سنائی ہے کہ اللہ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے تلے رکھے گا۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرنے والا حاکم قیامت کے دن اللہ کو دوسرے سب لوگوں سے زیادہ محبوب اور پیارا ہوگا، اور اس کو اللہ تعالیٰٰ کا سب سے زیادہ قرب حاصل ہوگا، اور (اس کے برعکس) وہ اربابِ حکومت قیامت کے دن اللہ کو سب سے زیادہ مبغوض اور سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے جو ظلم کے ساتھ حکومت کرنے والے ہوں گے۔‘‘ (الترمذی)
ایک اور حدیث میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قاضی (جج) تین قسم کے ہیں۔ ان میں سے ایک جنت کا مستحق ہے اور دو دوزخ کے مستحق ہیں۔ جنت کا مستحق وہ حاکمِ عدالت ہے جس نے حق کو سمجھا اور فیصلہ کیا۔ اور جس نے حق کو سمجھنے کے باوجود ناحق فیصلہ کیا وہ دوزخ کا مستحق ہے، اور اسی طرح وہ بھی دوزخ کا مستحق ہے جو بے علم اور ناواقف ہونے کے باوجود فیصلے کرنے کی جرأت کرتا ہے۔‘‘ (سنن ابنِ ماجہ)
سمرقند کے ذمیوں نے عمر بن عبدالعزیزؒ کی خدمت میں ایک وفد بھیجا، اس وفد کے سربراہ نے آپ سے شکایت کی کہ مسلم سپہ سالار نے اسلامی شریعت کے اصولوں سے انحراف کیا ہے اور ہم سے کوئی بات چیت کیے بغیر ہمارے شہر پر دھاوا بول دیا ہے اوراس پر قبضہ کرلیا ہے۔ لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ آپ ہمیں انصاف دلائیں۔ آپ نے سمرقند کے گورنر سلیمان ابن ابی سریٰ کو لکھا کہ سمرقندکے شہریوں نے مجھ سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی شکایت کی ہے۔ میرا خط ملتے ہی ان کا مقدمہ سننے کے لیے کوئی قاضی مقرر کرو، اگر اس قاضی نے ان کے حق میں فیصلہ کردیا تو وہ لوگ دوبارہ اپنا اقتدار سنبھال لیں گے اور مسلمان پہلے والے مقام پر واپس آجائیں گے۔ گورنر نے آپ کے حکم کی تعمیل میں ایک قاضی کا تقرر کردیا۔ قاضی صاحب نے اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ذمیوں کے حق میں فیصلہ دیا اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ شہر اور چھاؤنی خالی کردیں اور اپنے پہلے والے مقام پر واپس چلے جائیں اور وہاں جاکر اہلِ سمرقند سے مصالحت کی کوشش کریں، اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو پھر بیشک جنگ کا راستہ اختیار کریں۔ عدل وانصاف کے اس مظاہرے کو دیکھ کر اہلِ سمرقند بہت حیران ہوئے، انھیں توقع نہ تھی کہ ایک مسلمان قاضی، مسلم لشکر کو علاقہ خالی کرنے کا حکم دے گا۔ انھوں نے متفقہ طور پر طے کیا کہ ہم پہلی والی حالت میں ہی ٹھیک ہیں۔ ہم نے مسلمانوں کا اقتدار دیکھ لیا ہے، وہ کوئی ظلم وستم نہیں کرتے اور ہمارے ساتھ امن وامان کی زندگی بسر کرتے ہیں، جنگ کی صورت میں قتل وخون ہی ہوگا اور نہ جانے کامیابی کس کی ہوگی، لہٰذا ہمیں بخوشی مسلمانوں کا اقتدار قبول ہے۔ (تاریخ طبری)
انسانوں کے باہمی تعلقات کے استحکام کے لیے بھی عدل و انصاف ضروری ہے۔ انصاف نہ ہونے کی صورت میں انسانوں کے تعلقات بھی قائم نہیں ہوسکتے۔ اسلام انسانوں کے تعلقات اور معاشرے کے قیام کے لیے عدل و انصاف کو ضروری قرار دیتا ہے، اس کے بغیر معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔ جب دنیا سے عدل و انصاف ختم ہوجائے گا تب اس دنیا کا وجود بھی خطرے میں پڑجائے گا۔ اسی لیے حدیث میں انصاف کے فقدان کو علاماتِ قیامت میں شامل کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰٰ ہمیں اپنی ذات اور معاشرے میں عدل وانصاف قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) 



0 comments: