کمینے لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں گے ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Monday, February 25, 2019

کمینے لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں گے


عابد علی جوکھیو

اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کا خالق اور مالک ہے، اسی لیے تمام انسانوں کو اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے، چاہے کوئی اس کو مانے یا اس کا انکار کرے، کوئی اس کے ساتھ کسی کو شریک کرے یا اس کے احکامات پر عمل کرنے میں کوتاہی کرے، اللہ تعالیٰ ان تمام کو اِس دنیا میں زندگی گزارنے کا سامان فراہم کررہا ہے۔ دیگر نعمتیں تو اپنی جگہ، اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے مطابق ہر انسان کو اُس کی مقرر عمر پوری کرکے ہی اس دنیا سے اٹھاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی اللہ کا باغی ہوگیا اور اللہ نے اسے موت دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کو اس جہاں اور آخرت میں تقسیم کیا ہے۔ کسی کو دونوں جہانوں میں تمام نعمتیں میسر آتی ہیں، تو کسی کو کسی ایک جہاں میں۔ کافروں اور اللہ کے باغیوں کے لیے اِس زندگی کو باغ و بہار بنادیا گیا ہے اور متقین کو اِس دنیا میں کچھ ملے یا نہ ملے، ان سے آخرت کی نعمتوں کا وعدہ ضرور کیا گیا ہے، اور متقین کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اُس جہاں کی نعمتوں سے بہرہ ور فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے رزق کی کنجیاں اپنے پاس رکھی ہیں۔ یہ اللہ ہی کی ذات ہے جو اپنے نافرمانوں کو بھی رزق فراہم کررہی ہے۔ اگر رزق کا معاملہ انسانوں کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ دنیا کے تمام وسائل پر اپنا قبضہ جماتے اور کسی کو اس میں سے ذرہ برابر بھی نہ دیتا۔ ایسے ہی انسانوں کے لیے اللہ فرماتا ہے: 
(ترجمہ) ’’تباہی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے، جس نے مال جمع کیا اور اُسے گن گن کر رکھا، وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال ہمیشہ اُس کے پاس رہے گا۔ ہرگز نہیں، وہ شخص تو چکناچور کردینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ (الھمزہ 1،4) 
چونکہ شیطان انسان کے ساتھ ہر وقت لگا ہوا ہے اور اُس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح انسان کو بہلا پھسلا کر برائی کی طرف لے جائے، اس لیے وہ انسان کو مال جیسی مرغوب چیز کا دھوکا دینے میں بہت جلد کامیاب ہوجاتا ہے۔ مال کے حصول کے لیے انسان یہ بھی نہیں سوچتا کہ وہ کہاں سے حاصل ہورہا ہے۔ اور جب مال حاصل ہوجاتا ہے تو وہ اسے اپنا مال سمجھ کر صرف اپنے اوپر خرچ کرتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو یہ بتایا ہے کہ تہمارے پاس جو بھی رزق ہے وہ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے، اس لیے اس مال میں سے غریبوں، ناداروں، یتیموں اور رشتہ داروں کا حق ضرور ادا کرو۔ انسان کی مال اور اِس دنیا سے محبت اُسی وقت بڑھتی ہے جب وہ اِس دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: 
’’تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے، کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟ بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو، کبھی اُس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جسے ہم نے صرف حیاتِ دنیا کا سروسامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے روز سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟‘‘ (القصص 60،61)
ایک اور مقام پر ارشادِ ربانی ہے: 
’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس، عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں… بڑی خوش آئند بنادی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے، وہ تو اللہ کے پاس ہے۔ کہو: میں تمھیں بتاؤں کہ ان سے زیادہ اچھی چیز کیا ہے؟ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں، اُن کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہو گی، پاکیزہ بیویاں اُن کی رفیق ہوں گی اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔ اللہ اپنے بندوں کے رویّے پر گہری نظر رکھتا ہے۔‘‘ (آل عمران 14،15)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اِس دنیا کی حقیقت انسانوں کے سامنے کھول کر بیان کردی ہے۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ جو اِس دنیا کو سب کچھ سمجھے گا وہ اسی کا ہوکر رہ جائے گا، اور ایسے شخص کے لیے سراسر بربادی ہے۔ اور جو اِس دنیا کے بعد کی زندگی پر یقین رکھتے ہوتے ایسے اعمال کرے گا جو اسے وہاں کامیاب کردیں ایسا شخص ہمیشہ کی کامیابی پائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان کا جس چیز کے متعلق پختہ عقیدہ و یقین بن جائے، اس کی زندگی پر اسی عقیدے کے مطابق اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر انسان اس دنیا کو ہی اپنی منزل سمجھ لے اور اسی کے حصول کے لیے ہر وقت کوشاں رہے تو اس کے تمام اعمال کا دائرہ اسی دنیا اور اپنی ذات تک ہی محدود ہوگا۔ اس میں انفاق کا جذبہ پیدا نہ ہوگا، وہ کسی کے ساتھ خیرخواہی نہیں کرے گا، وہ کسی کی مدد نہیں کرے گا، کسی کی خوشی اور غمی سے اسے کوئی سروکار نہ ہوگا۔ اُس کے لیے سب سے مقدم اپنی ہی ذات ہوگی، وہ صرف وہی عمل کرے گا جو اسے اِس دنیا میں فائدے پہنچائے۔ ایسے رویّے سے یقینا معاشرہ بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ کا ارشاد ہے:
’’جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اُس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں، اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اُسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اُس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘ (الشوریٰ 20)
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: 
’’آخرت اور دنیا، دونوں کے لیے سعی و عمل کرنے والوں کو اس آیت میں کسان سے تشبیہ دی گئی ہے جو زمین تیار کرنے سے لے کر فصل کے تیار ہونے تک مسلسل عرق ریزی اور جاں فشانی سے کام کرتا ہے اور یہ ساری محنتیں اس غرض کے لیے کرتا ہے کہ اپنی کھیتی میں جو بیج وہ بو رہا ہے اس کی فصل کاٹے اور اس کے پھل سے متمتع ہو۔ لیکن نیت اور مقصد کے فرق، اور بہت بڑی حد تک طرزعمل کے فرق سے بھی، آخرت کی کھیتی بونے والے کسان اور دنیا کی کھیتی بونے والے کسان کے درمیان فرقِ عظیم واقع ہوجاتا ہے، اس لیے دونوں کی محنتوں کے نتائج و ثمرات بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف رکھے ہیں، حالانکہ دونوں کے کام کرنے کی جگہ یہی زمین ہے۔
آخرت کی کھیتی بونے والے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دنیا اسے نہیں ملے گی۔ دنیا تو کم یا زیادہ، بہرحال اس کو ملنی ہی ہے، کیونکہ یہاں اللہ جل شانہٗ کے لطفِ عام میں اس کا بھی حصہ ہے اور رزق نیک و بد سبھی کو یہاں مل رہا ہے۔ لیکن اللہ نے اسے خوش خبری دنیا ملنے کی نہیں بلکہ اس بات کی سنائی ہے کہ اُس کی آخرت کی کھیتی بڑھائی جائے گی، کیونکہ اسی کا وہ طالب ہے اور اسی کے انجام کی اسے فکر لاحق ہے۔ اس کھیتی کے بڑھائے جانے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ مثلاً جس قدر زیادہ نیک نیتی کے ساتھ وہ آخرت کے لیے عملِ صالح کرتا جائے گا اسے اور زیادہ نیک عمل کی توفیق عطا کی جائے گی اور اس کا سینہ نیکیوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ پاک مقصد کے لیے پاک ذرائع اختیار کرنے کا جب وہ تہیہ کرلے گا تو اس کے لیے پاک ہی ذرائع میں برکت دی جائے گی اور اللہ اس کی نوبت نہ آنے دے گا کہ اُس کے لیے خیر کے سارے دروازے بند ہوکر صرف شر ہی کے دروازے کھلے رہ جائیں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ دنیا میں اُس کی تھوڑی نیکی بھی آخرت میں کم از کم دس گنا تو بڑھائی ہی جائے گی، اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے، ہزاروں لاکھوں گنا بھی اللہ جس کے لیے چاہے گا بڑھا دے گا۔
رہا دنیا کی کھیتی بونے والا، یعنی وہ شخص جو آخرت نہیں چاہتا اور سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتا ہے، اُسے اللہ تعالیٰ نے اُس کی محنت کے دو نتائج صاف صاف سنا دیے ہیں۔ ایک یہ کہ خواہ وہ کتنا ہی سر مارے، جس قدر دنیا وہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ پوری کی پوری اسے نہیں مل جائے گی، بلکہ اس کا اتنا حصہ ہی ملے گا، جتنا اللہ نے اُس کے لیے مقرر کردیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اُسے جو کچھ ملنا ہے بس دنیا ہی میں مل جائے گا، آخرت کی بھلائیوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن)
یہاں تک تو معاملہ صرف رزق کے حصول اور سوچ کا تھا، لیکن آج ہمارے معاشرے میں یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ وہ لوگ جن کی کل تک معاشرے میں کوئی حیثیت اور مقام نہ تھا، اچانک راتوں رات امیر بن جاتے ہیں۔ امیر بنتے ہی ان کی زندگی کے طور طریقے بدل جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو کل تک دو وقت کی روٹی کے حصول میں ہی لگے ہوتے تھے، دولت آتے ہی عیش و عشرت کی زندگی اور لغویات میں مال خرچ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ چھوٹے بڑے کی تمیز، رشتہ داروں کے حقوق وغیرہ سب بھول جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر وہ اعلانیہ اللہ کی بغاوت کے بھی مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔ ان تمام افعال کا معاشرے پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ لوگوں کے درمیان محبت کے بجائے نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ معاشرے کے دیگر افراد ایسے راستوں کی تلاش میں لگ جاتے ہیں جن سے وہ بھی راتوں رات امیر بن جائیں۔ یہ رویہ یقینا معاشرتی بگاڑ کا باعث بن رہا ہوتا ہے۔ اس سے اُن تمام حرام ذرائع کی طرف انسان کی رغبت بڑھنے لگتی ہے جن سے اللہ نے روکا ہے۔ اس طرزِعمل سے انسانیت ختم ہوجائے گی اور وہی ہوگا جو آج کل ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔

0 comments: