عابد علی جوکھیو
اللہ تعالیٰ نے انسان کو معزز اور اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ مطلب یہ کہ جہاں انسان کو کائنات کی تمام مخلوقات پر فوقیت حاصل ہے، وہیں اس کائنات میں اس کی عزت بھی سب سے زیادہ ہے۔ یہ صرف انسان ہی ہے جس کو اللہ نے فرشتوں جیسی عظیم مخلوق سے سجدہ کروا کر اس کے مقام کو واضح کیا۔ اب جہاں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا وہیں اس کے مقام و مرتبے کے مطابق اس پر بھاری ذمہ داریاں بھی عائد کی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ذمہ داریوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:
(1) بحیثیت بندہ اللہ کے حقوق، اور (2) انسانوں کے باہمی حقوق۔
پہلی قسم کے حقوق تو بحیثیت خالق سمجھ میں آتے ہیں کہ چونکہ وہ ہمارا اور اس پوری کائنات کا خالق ہے اس لیے اس کی عبادت کرنا اور احکامات کی پابندی کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ لیکن اللہ کی جانب سے دوسری قسم کے حقوق کی اضافی ذمہ داری ڈالنا اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ یہ بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح اللہ کی عبادت کرنا۔ بلکہ اللہ اپنے حقوق میں کوتاہی کو معاف کرسکتے ہیں لیکن بندے کے حقوق کا اختیار بندے کو ہی دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مراتب طے کرنے کے لیے تقویٰ کا فارمولا دیا ہے۔ یعنی جس کے تقویٰ کا معیار جتنا بلند ہوگا وہ اللہ کے ہاں اتنا ہی معتبر اور اعلیٰ مرتبے کا حامل ہوگا۔ اور جو شخص تقویٰ کے معاملے میں جتنا کمزور ہوگا اللہ کے ہاں اس کا درجہ اتنا ہی کم ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (ترجمہ) ’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ (الحجرات 13)
مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
’’یعنی یہ بات اللہ ہی جانتا ہے کہ کون فی الواقع ایک اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور کون اوصاف کے لحاظ سے ادنیٰ درجے کا ہے۔ لوگوں نے بطور خود اعلیٰ اور ادنیٰ کے جو معیار بنا رکھے ہیں یہ اللہ کے ہاں چلنے والے نہیں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ جس کو دنیا میں بہت بلند مرتبے کا آدمی سمجھا گیا ہو وہ اللہ کے آخری فیصلے میں کم ترین خلائق قرار پائے، اور ہوسکتا ہے کہ جو یہاں بہت حقیر سمجھا گیا ہو، وہ وہاں بڑا اونچا مرتبہ پائے۔ اصل اہمیت دنیا کی عزت و ذلت کی نہیں بلکہ اُس ذلت و عزت کی ہے جو خدا کے ہاں کسی کو نصیب ہو۔ اس لیے انسان کو ساری فکر اس امر کی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اندر وہ حقیقی اوصاف پیدا کرے جو اُسے اللہ کی نگاہ میں عزت کے لائق بناسکتے ہوں۔‘‘ (تفہیم القرآن)
مولانا شفیع عثمانیؒ اس آیت کی شانِ نزول میں لکھتے ہیں:
’’یہ آیت فتح مکہ کے موقع پر اُس وقت نازل ہوئی جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال حبشیؓ کو اذان کا حکم دیا تو قریشِ مکہ جو ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے اُن میں سے ایک نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے میرے والد پہلے ہی وفات پاگئے، ان کو یہ روزِ بد دیکھنا نہیں پڑا۔ اور حارث بن ہشام نے کہا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کالے کوے کے سوا کوئی آدمی نہیں ملا کہ جو مسجد حرام میں اذان دے! ابوسفیان بولے کہ میں کچھ نہیں کہتا کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ میں کچھ کہوں گا تو آسمانوں کا مالک ان کو خبر کردے گا۔ چنانچہ جبریل امین تشریف لائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تمام گفتگو کی اطلاع دی۔ آپؐ نے ان لوگوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے کیا کہا تھا؟ انہوں نے اقرار کرلیا۔ اسی پر یہ آیت نازل ہوئی، جس نے بتلایا کہ فخر و عزت کی چیز درحقیقت ایمان اور تقویٰ ہے جس سے تم لوگ خالی اور حضرت بلال آراستہ ہیں، اس لیے وہ تم سب سے افضل و اشرف ہیں۔‘‘ (معارف القرآن)
اللہ نے عزت اور مرتبے کا اصل معیار تقویٰ بنایا ہے، یعنی تقویٰ ہی حقیقت ہے، فسق و فجور میں کوئی عزت نہیں۔ متقی ہمیشہ عزت دار رہے گا اور فاجر و فاسق ذلیل و رسوا۔ انسانوں کے مقام کو جاننے کا یہی اصل ذریعہ ہے۔ اب جو بھی اس کے برخلاف کرے گا وہ درحقیقت اللہ کے اصول سے انحراف کا مرتکب ہوگا، اور اللہ کے بیان کردہ اصولوں سے انحراف فرد کی ذات اور پوری کائنات کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ جب معاشرے میں عزت کے معیار تبدیل ہوجائیں گے تو معاشرے کا توازن بگڑ جائے گا۔ مال و دولت، رنگ، نسل اور نسب کی بنیادوں پر انسان کے مان و مرتبے کو دیکھا جائے تو یہی ہوگا کہ عزت دار ذلیل اور ذلیل مکرم بن جائیں گے۔ ایسے میں معاشرے کے بدکردار لوگ اپنی طاقت اور زور کے بل بوتے پر ہر ناجائز کام کرنے اور عزت داروں کی بے عزتی سے ذرا بھی دریغ نہیں کریں گے۔ نتیجتاً شریف لوگ اپنی عزت بچانے کے لیے معاشرے سے کٹ کر رہ جائیں گے۔ معاشرے کی سربراہی بدکرداروں کے ہاتھ میں آجاتی ہے اور وہ پورے معاشرے کے لیے تباہی کا باعث بنتے ہیں۔
حدیث کے الفاظ کے مطابق یہ رذیل اور شریر لوگ شریف لوگوں کی ناک میں دم کردیں گے‘ اس سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ یہ معاملہ خیر اور شر کی کشمکش کا ہوگا، جہاں شریر اپنے حواریوں کے ساتھ اپنی شرارتوں اور بداعمالیوں کو روز بروز بڑھاوا دے رہے ہوں گے وہیں ان کے مقابلے میں معاشرے کے شریف اور عزت دار لوگ کھڑے ہوں گے۔ اس مقابلے میں چونکہ شریروں کا غلبہ ہوگا اس لیے یہ لوگ شریف لوگوں کو ہر طرح سے ستانے کی کوشش کریں گے۔ ان کی جان، مال، عزت و آبرو پر حملہ کریں گے تاکہ یہ شریف لوگ ان کے راستے سے ہٹ جائیں۔ ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں قرآن اور سیرتِ طیبہ سے یہ درس ملتا ہے کہ شرفاء کو ثابت قدمی سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ اور حدیث کے مطابق برائی کو ہاتھ سے ختم کرنے یا زبان سے اس برائی کو برا کہہ کر اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایسے میں معاشرے کے نیک افراد کا معاشرے سے کٹ جانا مزید خرابی کا باعث بنے گا اور اس سے بدکردار لوگوں کو کھلا میدان مل جائے گا جہاں وہ ظلم و ستم کرتے رہیں گے۔
آج ہمارا معاشرہ بھی اسی طرف جا رہا ہے، گلی محلے سے لے کر ایوان تک ہر طرف ہمیں بدمعاش اور بدکردار لوگ ہی نظر آتے ہیں جو اپنی طاقت کے زور پر معاشرے کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں برائی پھیلتی اور نیکی سمٹتی جاتی ہے۔ چونکہ انسان کے ساتھ شیطان ہر وقت لگا ہوا ہے اسی لیے وہ ان برائیوں کو ہمارے سامنے دلفریب بنا کر پیش کرتا ہے۔ چونکہ برائی بڑی تیزی سے پھیلتی ہے اس لیے بہت سے لوگ اپنی اصل کو چھوڑ کر ان برائیوں کے راستے پر چلنا شروع کردیتے ہیں۔ آج ہم اس کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ معاشرے کے نیک اور شریف لوگوں کی اولاد اپنے آباء کی روایات کے برخلاف ایسے کاموں میں لگ گئی ہے جو انہیں زیب نہیں دیتے۔ وہ اپنے والدین کا نام اونچا کرنے کے بجائے ذلت کا باعث بن رہے ہیں۔ ایسے میں معاشرے کے نیک کردار افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سامنے آئیں اور معاشرے سے ان برائیوں کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو امتِ وسط بنایا ہے اور فرمایا: ’’اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ’’اُمّتِ وَسَط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔‘‘ (البقرہ 143)
مولانا مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’امت وسط کا لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دوسرے لفظ سے اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے، جو عدل و انصاف اور توسّط کی روش پر قائم ہو، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو، جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور ناحق، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔ ‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’اس طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی درحقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے لیے خدا ترسی، راست روی، عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے، اسی طرح اِس امت کو بھی تمام دنیا کے لیے زندہ شہادت بننا چاہیے، حتیٰ کہ اس کے قول، عمل اور برتاؤ، ہر چیز کو دیکھ کر دنیا کو معلوم ہو کہ خداترسی اس کا نام ہے، راست روی یہ ہے، عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری بڑی سخت تھی، حتیٰ کہ اگر وہ اِس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے، اُسی طرح دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت، جو تیرے رسول کے ذریعے سے ہمیں پہنچی تھی، تیرے بندوں تک پہنچا دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے، تو ہم بہت بری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں لے ڈوبے گا۔ ہماری امامت کے دَور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں، اُن سب کے لیے ائمۂ شر اور شیاطینِ انس و جِن کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دنیا میں معصیت، ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا، تو تم کہاں مرگئے تھے۔‘‘ (تفہیم القرآن)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حصے کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
0 comments:
Post a Comment