عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com
یہ کائنات اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے بنائی ہے۔ اسی لیے انسان کو اس کائنات کی عظیم مخلوق بھی قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی بھی ایک عمر یا میعاد مقرر کی ہے، جس کے بعد اس کائنات کو ختم ہونا ہے۔ اسی اختتام کو ہم قیامت کہتے ہیں۔ کائنات کی تکمیلِ میعاد کے لیے ضروری ہے کہ اُس وقت تک یہاں انسان بھی بستے ہوں، یعنی ایسا نہ ہوگا کہ یہاں کوئی انسان باقی نہ ہو اور پھر بھی یہ دنیا چلتی رہے۔ اس دنیا کے نظام زندگی کو چلانے کے لیے انسان کا وجود ضروری ہے۔ اب وجودِ انسانی کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کوئی ایک باقاعدہ نظام موجود ہو جس کے تحت انسان اس دنیا میں آئیں۔ اس نظام کے وجود کے لیے زوجین (میاں، بیوی) کا ہونا ضروری ہے جو باقاعدہ ایک نظام کے تحت ایک دوسرے سے حلال طریقے سے متعلق ہوں۔ اس نظام کو ہم خاندانی نظام کہتے ہیں۔ خاندانی نظام کا آغاز اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ایک مرد اور ایک عورت کے باہمی رشتے سے ہوتا ہے۔ یہی زوجین ایک نیا خاندان تشکیل دیتے ہیں۔ اسلام چاہتا ہے کہ یہ نظام مضبوط سے مضبوط تر ہو، تاکہ اسی نظام کے ذریعے جہاں نسلِ انسانی میں اضافہ ہو وہیں یہ نظام انسانوں کی تربیت کا بھی ذریعہ بنے۔
اس وقت پوری دنیا میں یہ صرف اسلام ہی کی خصوصیت ہے کہ اس کے پاس باقاعدہ خاندانی نظام موجود ہے، جہاں رشتے اور ان رشتوں کی قدر موجود ہے۔ یہی نظام انسان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اسی نظام کے تحت انسان باہمی الفت و محبت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ نظام اپنے اندر بے حساب خصوصیات کا حامل ہے، اس نظام کے تحت زندگی گزارنے والے کبھی بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس نہیں کرتے۔ ہر خوشی اور غم کے موقع پر ان کے رشتے دار و احباب ان کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اگر کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو یہی خاندانی نظام انسان کی ڈھارس بندھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن میں اولوالارحام کے ذریعے خاندانی نظام کی اہمیت کا ذکر کیا ہے۔ خاندانی نظام کی مضبوطی اصل میں معاشرے کی مضبوطی ہے، اور بعینہٖ اس نظام کی کمزوری پورے معاشرتی نظام کی کمزوری ہے۔ اس لیے دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے انسانوں کو چاہیے کہ وہ اس نظام کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ اور اس نظام کو مضبوط کرنے کی خواہش رکھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی ذات کے ساتھ سمجھوتا کرلیں کہ انہیں کئی مواقع پر اپنی ذات کو مارنا پڑے گا۔
اسلام کے پیش کردہ اس خاندانی نظام میں نکاح اور طلاق کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ نکاح سے یہ نظام وجود میں آتا اور طلاق سے بکھر جاتا ہے۔ اس لیے اسلام نکاح کی ترویج اور طلاق کی مذمت کرتا ہے۔ طلاق ایک ایسا معاملہ ہے جس سے صرف دو انسان ہی نہیں بلکہ دو خاندانوں کے افراد متاثر ہوتے ہیں۔ یہ اثرات کوئی معمولی نوعیت کے نہیں بلکہ انتہائی سنگین ہوتے ہیں۔ کثرتِ طلاق کی وجہ سے انسانی نفس اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ طلاق کے سبب اولاد کی تربیت متاثر ہوتی ہے۔ طلاق کا عنصر بڑھنے سے بے حیائی کو فروغ ملتا ہے۔ طلاق سے دو خاندانوں کے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔ طلاق خاندانی نظام کو تباہ و برباد کردیتی ہے اور معاشرتی اقدار کی قاتل ثابت ہوتی ہے۔
اسلام طلاق کی پُرزور مذمت کرتا ہے، اللہ کے حلال کردہ امور میں سے سب سے ناپسندیدہ طلاق ہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے معاشرے میں بھی طلاق ایک گالی سمجھی جاتی تھی، لوگ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ ان کے خاندان میں طلاق کا کوئی واقعہ ہو۔ لوگ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے خاندان میں طلاق نہیں ہوتی۔ یہ صرف اسلامی خاندانی نظام کی مضبوطی کے باعث تھا۔ جس طرح کسی زمانے میں اخبار میں یہ خبر پڑھنے کو ملتی تھی کہ فلاں جگہ گولی چل گئی، اور یہ خبر لوگوں کے لیے باعثِ اضطراب ہوتی تھی، لیکن آج ہم کئی افراد کی ہلاکت کی خبر بھی اس طرح پڑھتے ہیں جیسے گاجر مولی کے بھاؤ کی خبر ہو۔ اسی طرح پہلے زمانے میں طلاق کی خبر کو بھی اہمیت دی جاتی تھی، جہاں طلاق واقع ہوئی ہو اُس گھر کے افراد لوگوں سے ملنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے۔ کتنے ہی دنوں تک یہ موضوعِ زیربحث رہتا تھا۔ لیکن اب تو ہر روز طلاق کی خبریں سننے کو ملتی ہیں اور کسی کو کچھ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ طلاق کا مطلب کیا ہے۔
مغرب کا خاندانی نظام تو اپنی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا، لیکن مسلم معاشرے جو ابھی تک خاندانی نظام کی حفاظت کیے ہوئے ہیں، وہاں بھی یہ نظام کمزور ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم معاشروں میں اس نظام کی کمزوری کے اسباب بھی وہی ہیں جن کے باعث مغرب تباہ ہوکر دوبارہ اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ لیکن ہم غلامانِ مغرب اسی ڈگر پر چلنے کو ترجیح دیے ہوئے ہیں۔ عالمی سروے کے مطابق اس وقت مسلم معاشروں میں طلاق کا رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے۔ صرف پاکستان میں 2014ء میں 7294 طلاقیں ہوئیں۔ یہ صرف اُن طلاقوں کا ذکر ہے جو ریکارڈ ہوئی ہیں، اصل اعداد و شمار اس سے کئی گنا زیادہ ہوں گے۔ مزید یہ کہ اس میں خلع کے کیسز کی تعداد شامل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، سوڈان، تھائی لینڈ اور بھارت وغیرہ میں بھی طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مغرب بھی طلاق کے مسائل سے بچا ہوا نہیں۔ وہاں بھی شادی کی شرح کم اور طلاق کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ صرف برطانیہ اور ویلز میں شادی کے رجحان میں کمی اور طلاق اور ناجائز بچوں کی ولادت میں اضافے کے حوالے سے ہفنگٹن پوسٹ، برطانیہ کے 11 اپریل 2012ء کے شمارے میں رپورٹ دیکھی جا سکتی ہے۔
اسلام طلاق کی صرف باَمرِ مجبوری اجازت دیتا ہے، اسلام بلاوجہ یا چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق کی مذمت کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’جائز کاموں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے‘‘ (ابوداؤد بحوالہ مشکوٰۃ)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ’’روئے زمین پر اللہ تعالیٰ نے طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ چیز پیدا نہیں فرمائی‘‘ (دارقطنی بحوالہ مشکوٰۃ)۔ ایک روایت میں ہے کہ جو ’’عورت کسی سخت پریشانی یا تکلیف کے بغیر اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اُس پر جنت کی خوشبو حرام ہے‘‘ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی بحوالہ مشکوٰۃ)۔ اسلام کسی انسان پر ظلم اور زبردستی نہیں کرتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بسا اوقات یہ رشتہ طرفین یا کسی ایک کے لیے عذاب بن جاتا ہے، ایسے میں زوجین کو زبردستی جوڑے رکھنا بھی معاشرتی فساد کا باعث بن سکتا ہے، اسی لیے اسلام نے طلاق کو ناپسندیدہ ہونے کے باوجود جائز قرار دیا ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ علماء نے درج ذیل اسبابِ طلاق بیان کیے ہیں:
1۔ میاں بیوی کے مزاج میں ہم آہنگی نہ ہو، دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں، اور اختلاف اس قدر شدید ہو کہ حل کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔
2۔ دونوں معیشت میں تنگی محسوس کرتے ہوں، شوہر کھانا، خرچہ اور مکان نہ دے سکتا ہو۔
3۔ شوہر عورت کے حقوق کی ادائیگی پر قادر نہ ہو۔
4۔ زوجین میں سے کوئی ایک انتہائی بے وقوف یا کم عقل ہو، جو دوسرے کے لیے ناقابلِ برداشت ہو۔
5۔ بیوی کسی وجہ سے قابلِ جماع نہ ہو یا اس سے اولاد کی امید ختم ہوگئی ہو اور وہ سوکن کو برداشت کرنے پر راضی نہ ہو۔
یہ وہ صورتیں ہیں جن میں زوجین کا زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہے۔ ان صورتوں میں بھی شوہر کو خوب سوچ سمجھ کر طلاق کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
طلاق کو برا نہ سمجھنا اور اس کے رواج سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں ، یہ مسائل فرد کی ذات اور پورے معاشرے کو متاثر کرتے ہیں، جس کا لازمی نتیجہ معاشرتی بگاڑ ہی ہے۔ طلاق کے رواج سے سب سے پہلے انسان خود بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کو یوں دیکھیے کہ ایک انسان جب اس کا عادی ہوجائے گا تو وہ صرف اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے نکاح اور طلاق کا کھیل کھیلتا رہے گا۔ شادی اس کے لیے محض نفسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہوگی۔ اس کی نظر میں خاندانی یا معاشرتی نظام کی کوئی وقعت نہ ہوگی۔ یہ معاملات فریقین کے ساتھ یکساں ہیں، دونوں میں یہی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ آج کل ہم اپنے معاشرے میں ایسے مردوں اور خواتین کو دیکھتے ہیں جو صرف اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کے لیے شادی کرتے ہیں۔ جیسے ہی ان کو اپنا مفاد کہیں اور نظر آیا پہلے کو چھوڑ کر دوسرے کے پیچھے پڑگئے، یہی انسانیت کی تذلیل ہے جو ایک انسان کو حیوان بنا دیتی ہے۔ ایسے لوگ نکاح اور زنا میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے لیے حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ چکھنے والے مرد اور چکھنے والی عورتوں کو پسند نہیں فرماتے۔(کنزالعمال)
طلاق کے اثرات معاشرے پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ جب دو انسانوں کے تعلقات خراب ہو کر نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے تو اس سے ان کے خاندانوں کے تعلقات بھی خرابی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ دونوں خاندانوں کے افراد کے دلوں سے محبت و الفت اور ہمدردی و مروت کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے۔ ایک دوسرے کی تقلید میں معاشرے میں طلاق کا رواج عام ہوجاتا ہے اور معاشرہ ناہمواری کی طرف چلا جاتا ہے۔
طلاق کا براہِ راست اثر اولاد پر پڑتا ہے۔ خصوصاً طلاق یافتہ افراد کی اولاد ذہنی اور نفسیاتی طور پر متاثر ہوتی ہے۔ اولاد میں والدین کے متعلق نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ایسی اولاد بغاوت کی طرف جاتی ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت بھی متاثر ہوتی ہے ۔ اور بسا اوقات ایسے بچے غلط ہاتھوں میں استعمال ہوتے اور جرائم کی طرف چلے جاتے ہیں۔
طلاق کی کثرت کی وجہ سے بے حیائی کوفروغ ملے گا۔ جب مردوں اور عورتوں کا مزاج اس طرح کا بن جائے کہ نکاح صرف مزہ چکھنے کے لیے ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ معاشرہ کس طرف جا نکلے گا۔ ہر ایک صرف اس انتظار میں ہوگا کہ کوئی طلاق ہو اور میں نکاح کرلوں ۔ اس طرزِ فکر کا لامحالہ نتیجہ یہی نکلے گا کہ ہر فرد کی نگا ہ خیانت کی راہ پر چل پڑے گی۔
جس معاشرے میں بھی طلاق کا رواج عام ہوا ہے وہ قائم نہیں رہ سکا۔ دنیا میں جتنے بھی مذاہب اور قومیں آباد ہیں تقریباً سب طلاق کو ناپسند کرتی ہیں کیونکہ اس کا براہِ راست اثر معاشرے پر پڑتا ہے۔ درحقیقت معاشرے کا بگاڑ اس دنیا کے نظام کا بگاڑ ہے اور یہی علامت ِقیامت ہے۔
0 comments:
Post a Comment