جھوٹ کو حلال سمجھا جائے گا… ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Monday, February 11, 2019

جھوٹ کو حلال سمجھا جائے گا…


عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com

اس کائنات کا وجود سچائی اور حقیقت پر قائم ہے۔ توحید، رسالت، آخرت کا تصور سچ اور حق ہے۔ اس کے خلاف جو بھی بات ہوگی وہ جھوٹ ہوگی۔ اس لیے قرآن میں بھی سچ اور حق کو جھٹلانے والوں کو کذاب کہا گیا ہے۔ انسان کے ہر اُس عمل کو جھوٹ کہا جاتا ہے جو خلافِ واقعہ ہو۔ جھوٹ دھوکا و فریب ہے۔ جھوٹ کے ذریعے خلافِ امر شے کو حقیقت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چونکہ جھوٹ میں حقیقت نہیں ہوتی اس لیے اس ایک عمل کی وجہ سے خلافِ حقیقت نظریات اور رسوم و رواج کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ آج ہمیں دنیا میں جتنے بھی باطل نظریات، رسوم و رواج اور خرافات نظر آرہی ہیں ان سب کے پیچھے کوئی نہ کوئی جھوٹ ضرور موجود ہے۔ چونکہ جھوٹ کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اس لیے اس بنیاد پر قائم ہونے والی ہر عمارت عدم پختگی کے باعث انہدام کے خطرے سے دوچار ہوتی ہے، اور چونکہ جھوٹ کو کبھی کامیاب نہیں ہونا اس لیے اس عمارت کا ایک نہ ایک دن منہدم ہونا اس کا مقدر ہی ٹھیرے گا۔ 
آج انہی باطل نظریات کی وجہ سے ہمارے معاشروں میں جھوٹ کا رواج عام ہوچکا ہے۔ جھوٹ کو عقل مندی کی نشانی سمجھا جانے لگا ہے۔ جھوٹ کو حلال سمجھا جانے لگا ہے۔ اس کے حلال ہونے کی یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس کے بغیر گزارا نہیں ہے۔ اس سے کیا ہوتا ہے! سب جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ زمانہ ہی ایسا ہے۔ اگر جھوٹ نہ بولوں تو میرا نقصان ہوجاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ جھوٹ کو ایک فیشن کا روپ دے دیا گیا ہے۔ ٹوپی پہنانا، ماموں بنانا، چونا لگانا، گولی فٹ کرنا وغیرہ جیسے جملے اسی لیے تخلیق کیے گئے ہیں کہ اس سے جھوٹ کی قباحت کو ختم کیا جائے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں اس طرح کے جملوں کا استعمال اتنا عام ہوگیا ہے کہ کوئی بھی اس کو برا محسوس نہیں کرتا کہ میں کتنا بڑا گناہ کررہا ہوں۔ 
اس دنیا کے تمام جھوٹے دعووں، نظریات و افکار اور رسوم و رواج کو ختم، اور حقیقت (آخرت) کو قائم ہونا ہے۔ اس لیے جب دنیا میں جھوٹ کا رواج اتنا عام ہوجائے گا کہ اسے حلال سمجھا جانے لگے، اس کو زندگی گزارنے کا لازمی جز سمجھا جانے لگے تو اس دنیا کو ختم ہونا ہی پڑے گا۔ کیوں کہ جب دنیا کی تمام سچائیوں اور حقیقتوں کی جگہ جھوٹ اور فریب لے لے گا تو اس دنیا کا قائم رہنا بھی مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔ اس لیے علاماتِ قیامت میں جھوٹ کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ اگر دنیا میں جھوٹ عام ہوجائے اور حق و سچ کا کوئی داعی نہ ہو تو اس دنیا کا قیام چی معنی دارد؟
جھوٹ ایک ایسا فعل ہے جس کو ہر زمانے اور معاشرے میں ناپسند کیا گیا ہے۔ جھوٹ بظاہر ایک معمولی فعل نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں اس کے اثرات بہت گہرے اور وسیع ہوتے ہیں۔ ہر برے کام کا آغاز جھوٹ سے ہی ہوتا ہے۔ بظاہر چھوٹا نظر آنے والا جھوٹ ہمارے اور پورے معاشرے کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سچائی (صدق) کو لازم کرلو! کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور برائی آگ کی طرف لے جاتی ہے۔ بندہ اس قدر جھوٹ بولتا ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب (جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری) 
جھوٹ گناہ کی اُن اقسام میں سے ہے جنہیں چھپانے کے لیے مسلسل گناہ کرنا پڑتا ہے، کہتے ہیں ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، اور یہ حقیقت بھی ہے۔ جب کہ دوسری جانب دیکھا جائے تو یہی ایک گناہ چھوڑنے سے آدمی کئی گناہوں سے بچ سکتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص کو شراب پینے کی عادت تھی اور وہ اُس سے چھوٹ نہیں رہی تھی، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپؐ سے درخواست کی کہ اسے کوئی ایسا عمل بتائیں جس سے اس کی شراب کی عادت چھوٹ جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نصحیت کی کہ وہ جھوٹ نہ بولے۔ بظاہر تو شراب اور جھوٹ کا کوئی تعلق نہیں، لیکن حقیقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو ایک برائی سے چھٹکارا دلانے کے بجائے کئی گناہوں سے بچنے کا فارمولا بتادیا۔ اب جب بھی وہ شخص شراب پینے کا ارادہ کرتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصحیت یاد آجاتی کہ اسے جھوٹ نہیں بولنا، اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ اب کبھی بھی جھوٹ نہ بولے گا۔ یہ بات یاد آتے ہی وہ شراب نہ پیتا کہ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے شراب پینے کے متعلق پوچھ لیا تو وہ کیا جواب دے گا؟ اس طرح وہ شخص شراب کے علاوہ بہت ساری دیگر برائیوں سے بچ گیا۔
اسی طرح اگر ہم بھی یہ تہیہ کرلیں کہ جھوٹ نہیں بولنا، تو کوئی بعید نہیں کہ ہم بھی بہت سی برائیوں اور دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بن کر اُن کی بددعائوں اور گناہ کا بار اٹھانے سے بچ جائیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک خاص مہم کے ذریعے برائیوں کو اتنی خوبصورتی سے پیش کیا جاتا ہے کہ ناسمجھ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ تو کوئی برائی ہی نہیں۔ ٹی وی ڈراموں کے ذریعے ہمارے معاشرے کو فحاشی کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ خواتین کا پردہ، ساتر لباس، دوپٹا وغیرہ مسلمان ہونے کے ناتے ہمارے معاشرے کی پہچان تھے۔ چھوٹے بڑوں سے بات کرنے کے آداب کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تھا۔ لیکن اب یہ چیزیں بہت کم ملتی ہیں۔ خواتین کا پردہ تو دور کی بات، اب سر پر دوپٹا رکھنا، ساتر لباس پہننا بھی قدامت پسندی اور دقیانوسی کی علامت بن چکا ہے۔ میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو یہ سکھایا جارہا ہے کہ وہ سرعام یوم محبت کے ذریعے بے حیائی کا پرچار کریں، اور والدین کو بھی یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ نوجوانوں کو ان حرکتوں سے نہ روکیں کہ یہ ان کا ’’حق‘‘ ہے۔ 
اسی طرح یکم اپریل کو جھوٹ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس کی تاریخ سے قطع نظر، کوئی بھی مذہب اور معاشرہ ایسا دن منانے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ جھوٹ بولنا فطرتاً ناپسند کیا جاتا ہے، کوئی بھی شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ جھوٹ بولا جائے، دھوکا کیا جائے، اسے جھوٹ کے ذریعے اذیت میں مبتلا کیا جائے۔ پھر کوئی دوسرا کیوں اور کیسے یہ برداشت کرسکتا ہے کہ اس کے ساتھ ایسا جھوٹ بولا جائے جو اس کے لیے باعثِ تکلیف ہو؟ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہوجاتا ہے۔ مزید فرمایا کہ بڑی خیانت کی بات یہ ہے کہ تُو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس میں سچا جان رہا ہے اور تُو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔ آپؐ کا فرمان ہے کہ مومن کی طبیعت میں تمام خصلتیں ہوسکتی ہیں مگر خیانت اور جھوٹ نہیں۔ یعنی دونوں چیزیں ایمان کے خلاف ہیں۔
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر عرض کیا گیا: کیا مومن بخیل ہوسکتا ہے؟ فرمایا ہاں۔ پھر پوچھا گیا: کیا مومن کذاب (جھوٹا) ہوسکتا ہے؟ فرمایا: نہیں۔ 
ہمارے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ کسی بھی بات اور کام کو سوچ سمجھ کر نہیں کرتے، بس جس طرف ہوا چل رہی ہو اسی طرف اپنا رخ کردیتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم ذہنی طور پر ابھی بھی غلام ہی ہیں، جو قوم بھی طاقت کے ذریعے ہمیں اپنا غلام بنانا چاہے ہم بآسانی اُس کے غلام بن جاتے ہیں۔ اس وقت ہم ذہنی طور پر مغرب کے غلام بن چکے ہیں… ہماری سوچ کا دائرہ بھی مغرب طے کرتا ہے، ہمارے قلم کاروں کے قلم بھی مغربی افکار کے مطابق چلتے ہیں، ہمارے ذرائع ابلاغ بھی اسی خبر کو اہمیت دیتے ہیں جس کی اہمیت کا فیصلہ استعمار کرے، حتیٰ کہ ہم اپنے ملک کے داخلی معاملات میں بھی وہی مؤقف اپناتے ہیں جو استعمار ہمیں بتاتا ہے۔ حکمران تو اپنی جگہ، میں یہاں عوام کی بات کررہا ہوں جو کبھی یہ سمجھتے تھے کہ ہمارا ملک اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے، لیکن آج وہ بھی اس کے منکر ہوگئے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا ترک نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑ دینے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔ جھوٹ اللہ کو اتنا ناپسند ہے کہ اللہ جھوٹے شخص کا روزہ بھی قبول نہیں کرتے۔ اور اگر ہمارے اس ’’چھوٹے‘‘ سے مذاق (جھوٹ) سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی اور تکلیف پہنچے تو ہمیں کیا ملے گا؟ صرف چند لمحوں کے سرور کے لیے آخر کیوں ہم اپنی دنیا اور آخرت برباد کریں…! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک مذاق میں بھی جھوٹ بولنا اور جھگڑا کرنا نہ چھوڑدے‘‘۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’ہلاکت ہے اُس کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔‘‘
 آئیے! خود بھی جھوٹ سے بچیں اور اپنے دوستوں کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ (جھوٹ) باطل ہے تو اس کے لیے جنت کے کنارے مکان بنایا جائے گا۔ جس نے جھگڑا کرنا چھوڑ دیا اور وہ حق پر ہے، یعنی حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہیں کرتا، اس کے لیے جنت کے وسط میں مکان بنایا جائے گا، اور جس نے اپنے اخلاق اچھے کیے، اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجہ میں مکان بنایا جائے گا۔

0 comments: