بارشوں کے باوجود گرمی ہوگی… ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Monday, February 25, 2019

بارشوں کے باوجود گرمی ہوگی…


عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com

اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کے لیے ایک ضابطہ و قانون مقرر کیا ہے۔ اس ضابطہ و قانون سے معمولی انحراف بھی کسی بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ جس طرح انسان کے اعمال کو علامات قیامت میں شامل کیا گیا ہے اسی طرح قدرتی تبدیلیاں بھی قیامت کی علامات کے طور پر بتائی گئی ہیں۔ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیاں اہم علاماتِ قیامت میں شمار ہوتی ہیں۔ انسانی بداعمالیاں اس کائنات کے نظام میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔ یہی بگاڑ ہمیں ماحولیاتی، موسمی، سورج اور چاند گرہن کی کثرت وغیرہ کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالی نے ان تبدیلیوں کو بے مقصد نہیں بنایا بلکہ انہیں انسان کے لیے ایک علامت بتایا ہے کہ اگر تم اس طرح کی قدرتی تبدیلیاں دیکھو تو اپنے اعمال کی طرف توجہ دو۔ اسی لیے اسلام میں چاند اور سورج گرہن اور بارش وغیرہ کے لیے نمازوں کی تعلیم دی گئی ہے کہ اس نماز کے ذریعے تم لوگ اللہ سے اس کے عذاب کی پناہ اور رحمت طلبگار بنو۔ 
گزشتہ برسوں میں پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 15میں سے 14 گرم ترین سال 21 ویں صدی میں رونما ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بارشوں اور سیلاب کے باوجود عالمی سطح پر گرمی میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ صرف پاکستان کے گزشتہ چند سالوں کے اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ موسلادھار بارشوں کے باوجود ملک میں گرمی کی شدت میں کمی نہیں ہوئی۔ جولائی 2012 ، جون 2013 اور 2014 میں بارشوں کے باوجود گرمی کا زور نہیں ٹوٹا۔ امسال ملک میں گرمی کی شدید لہر کے نتیجے میں صرف کراچی میں ہزاروں اموات ہوئی ہیں۔ یہ سب اعداد و شمار صرف اس لیے بیان کیے ہیں کہ ان سے اندازہ کیا جاسکے کہ ہر طرح کی علامات قیامت ہمیں پوری ہوتی نظر آرہی ہیں، اس کے باوجود اپنی بداعمالیوں سے توبہ نہ کرنا اپنے ساتھ ہی ظلم ہوگا۔ 
اللہ تعالی نے  اس زمین میں فساد کو انسانی بداعمالیوں کا نتیجہ بتایا ہے۔ جہاں انسان کی ان بداعمالیوں کا اثر اس کی اپنی ذات، دوسرے انسانوں اور معاشرے پر پڑتا ہے بعینہ اس کا اثر قدرت کے نظام پر بھی پڑتا ہے۔ اللہ تعالی انسانوں کو ان کی بداعمالیوں پر متنبہ کرنے کے لیے ان پر چھوٹی چھوٹی آزمائشیں اور مصیبتیں نازل کرتا رہتا ہے تا کہ انسان ان آزمائشوں کو اللہ کی ناراضگی سمجھتے ہوئے گناہوں سے باز رہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزّہ چکھائے اْن کو اْن کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔‘‘ (الروم۔41)
مفتی شفیع عثمانیؒ معارف القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یعنی خشکی اور دریا میں سارے جہاں میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اعمال بد کی وجہ سے، تفسیر روح المعانی میں ہے کہ فساد سے مراد قحط اور وبائی امراض اور آگ لگنے اور پانی میں ڈوبنے کے واقعات کی کثرت اور ہر چیز کی برکت کا مٹ جانا، نفع بخش چیزوں کا نفع کم ہوجانا وغیرہ آفات ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان دنیوی آفات کا سبب انسانوں کے جذبات اور اعمال بد ہوتے ہین جب میں شرک و کفر سب سے زیادہ اشد ہیں، اس کے بعد دوسرے گناہ ہیں۔
یہی مضمون دوسری ایک آیت میں اس طرح آیا ہے وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم و یعفوا عن کثیر، یعنی تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تہمارے ہی ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے ہے۔ یعنی ان معاصی کے سبب جو تم کرتے رہتے ہو اور بہت سے گناہوں کو تو اللہ تعالی معاف ہی کردیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اس دنیا میں جو مصائب اور آفات تم پر آتی ہیں ان کا حقیقی سبب تمہارے گناہ ہوتے ہیں، اگرچہ دنیا مین نہ ان گناہوں کو پورا بدلہ دیا جاتا ہے اور نہ ہر گناہ پر مصیبت و آفت آتی ہے، بلکہ بہت سے گناہوں کو تو معاف کیا جاتا ہے، بعض بعض گناہوں پر ہی گرفت ہوتی اور آفت و مصیبت بھیج دی جاتی ہے۔ اگر ہر گناہ پر دنیا میں مصیبت آیا کرتی تو ایک انسان بھی زمین پر زندہ نہ ہوتا۔ 
دنیا کی بڑی بڑی آفتیں اور مصائب انسانوں کے گناہوں کے سبب سے آتے ہیں۔ اسی لیے بعض علماء نے فرمایا کہ جو انسان کوئی گناہ کرتا ہے وہ ساری دنیا کے انسانوں، چوپایوں اور چرند و پرند جانوروں پر ظلم کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے گناہوں کے وبال سے جو بارش کا قحط اور دوسرے مصائب دنیا میں آتے ہیں اس سے سب ہی جاندار متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے قیامت کے روز یہ سب بھی گناہگار انسان کے خلاف دعوی کریں گے۔
اور شقیق زاہد نے فرمایا کہ جو شخص حرام مال کھاتا ہے وہ صرف اس پر ظلم نہیں کرتا جس کا مال ناجائز طور پر حاصل کیا ہے، بلکہ پورے انسانوں پر ظلم کرتا ہے۔ کیونکہ اول تو ایک کے ظلم سے دوسرے لوگوں میں ظلم کرنے کی رسم پڑتی ہے، اور یہ سلسلہ ساری انسانیت کو محیط ہوجاتا ہے۔ دوسرے اس ظلم کی وجہ سے دنیا میں آفتیں اور مصائب آتے ہیں جو سے سب ہی انسان متاثر ہوتے ہیں۔‘‘ (معارف القرآن)
یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان کے اعمال کا تعلق صرف اس کی ذات تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات دوسرے انسانوں، معاشرے حتی کہ قدرت کے نظام میں بھی در و بدل کا باعث بنتے ہیں۔ جس طرح کوئی فرد کسی کا حق غضب کرتا ہے تو اس سے جہاں متاثرہ شخص پریشان ہوتا ہے وہیں اس کا یہ عمل معاشرے میں برے کام کی ترویج، معاشرتی بگاڑ اور عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔ معاملہ یہیں رک نہیں جاتا بلکہ ظالم کے اس عمل پر اللہ تعالیٰ بھی اس شخص کو سزا دیتے ہیں۔ اس کے لیے آخرت کی سزا تو اپنی جگہ مقرر ہے لیکن یہاں دنیا میں بھی انسانی بداعمالیوں کی وجہ سے اس فرد کو انفرادی اور بحیثیت قوم بھی سزا اور عذاب کا مزا چکھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ عذاب کبھی قحط کی صورت میں ہوتا ہے تو کبھی بارشوں میں کمی کے ذریعے۔ کبھی گرمی میں اضافے کی صورت میں تو کبھی برکت کے مٹ جانے سے۔ الغرض اللہ تعالی انسانوں کو ان کی بداعمالیوں پر مختلف طریقوں سے تنبیہ کرتے رہتے ہیں۔ 
جب اللہ تعالیٰ کی طرف انسانوں پر عذاب، ماحولیاتی تبدیلی یا کسی بھی دوسری صورت میں آتا ہے تو اس کا اثر بھی انسانوں یعنی معاشرے پر براہ راست پڑتا ہے۔ یہ وجہ اور اثر کے عمل کی طرح ہے کہ ہر ایک عمل دوسرے کے لیے سبب بن رہا ہوتا ہے۔ ان عذابوں کا معاشرے پر اثر اس طرح سمجھیں گے کہ اگر گرمی کی شدت میں بے حساب اضافہ ہوجائے تو انسان لامحالہ ایسے علاقوں کی طرف ہجرت کرنا شروع کردیں گے جو نسبتاً سرد ہوں۔ اگر بڑے پیمانے پر لوگ ہجرت کرکے کسی نئے علاقے میں آباد ہوں تو وہاں پیدا ہونے والے معاشرتی اور معاشی مسائل کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اور نتائج پر ایک تحقیق سامنے آئی ہے جس کے مطابق گرمی میں اضافے کے سبب پوری دنیا کا نظام بگڑ جائے گا اور دنیا کسی بڑے خطرے سے لاحق ہوجائے گی۔ اس تحقیق کے مطابق صرف گرمی کی وجہ سے انسانوں اور دیگر جانداروں کے لیے رہنا مشکل ہوجائے گا۔ گرمی بڑھنے سے سمندر مزید تیزابی ہو جائے گا جس سے وہاں کے جانداروں کو نقصان پہنچے گا۔ درجہ حرارت میں اضافہ کے نتیجے میں زمین پر انسان اور جانور اونچائی کی جانب اور قطبی علاقوں کی جانب ہجرت کرنا شروع کردیں گے۔ اس کے علاوہ درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں فوڈ سکیورٹی کو بھی خطرہ لاحق ہے جبکہ 2050 تک مکئی، چاول اور گندم کی پیداوار متاثر ہوگی۔ اس وقت تک دنیا کی آبادی تقریباً 9 ارب ہو چکی ہوگی اور ان کے لیے کھانے کی فراہمی مشکل ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ مچھلیوں کی بہت سی اقسام گرم پانی کے سبب اپنی جگہ سے چلی جائیں گی جو کہ بہت سے لوگوں کے لیے خوراک کا اہم ذریعہ ہیں اور بعض علاقوں میں مچھلیوں کی تعداد میں 50 فیصد کی کمی آ جائے گی۔
علامت کے مطابق بارشوں کے باوجود گرمی میں کمی نہ ہوگی، سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ بارشیں بھی خوب ہونگیں اور ممکن ہے کہ سیلاب کی حد تک بارشیں ہوں۔ ان دونوں کا نقصان یہ ہوگا کہ لوگ گرمی اور سیلاب سے متاثر ہوں گے۔ اس سے انسانوں کے معاش، معاشرت، جذبات اور نفسیات پر گہرا اثر پڑے گا۔ خاص طور پر زرعی علاقوں میں موسمی تبدیلیاں انسانوں کے معاش پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ ہجرت کے باعث معاشرت کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ گرمی مزاج میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔  بڑھتی ہوئی گرمی کا اثر انسانی مزاجوں پر  بھی پڑسکتا ہے۔ امریکا میں کی گئی ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے تشدد کا تعلق اسی بڑھتی ہوئی گرمی سے ہے۔ سائنسدانوں کو تحقیق کے دوران سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے کہ درجہ حرارت میں معمولی تبدیلی یا بارش بھی حملوں، جنسی زیادتی، قتل، کشیدگی اور جنگ پر اثر انداز ہوتی ہے، جبکہ جس سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کا اندازہ لگایا گیا ہے اس سے لگتا ہے کہ دنیا میں پرتشدد واقعات بڑھ جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر دو سینٹی گریڈ درجہ حرارت بڑھنے سے ذاتی نوعیت کے جرائم میں 15 فیصد اضافہ ہوگا۔
اللہ تعالی کی جانب سے اپنے نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم کے ذریعے بتائی گئی علامات قیامت کوئی ایسی عمومی نہیں جن سے ہم نظریں چرالیں۔ ہر ہر علامت کا تعلق انسان اور معاشرے سے جڑا ہوا ہے۔ ہر علامت انسانی تعلقات پر قائم ہے۔ اسی لیے ان علامات کا عمیق مطالعہ ہمیں اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان اپنی زندگیوں کو خالق کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ہی گزاریں، کیونکہ اصل کامیابی اسی میں ہے۔ 

0 comments: