امانت ضائع ہونے لگے گی… ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Monday, February 11, 2019

امانت ضائع ہونے لگے گی…


عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com

2۔ ’’لوگ امانت ضائع کرنے لگیں گے‘‘ 
امانت ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے۔ اسلام نے بھی امانت کو وسیع معنیٰ میں استعمال کیا۔ اسلام ہر اُس چیز کو امانت قرار دیتا ہے جس کا تعلق حقوق سے ہو۔ عمومی طور پر ہم امانت کا مفہوم صرف یہی لیتے ہیں کہ کوئی کسی کے پاس کوئی چیز حفاظت کے لیے رکھوائے تو یہ امانت ہے اور اس میں خیانت کرنا گناہ ہے۔ اسلام میں امانت کا تصور انسان کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ اس لیے علماء نے امانت کی کئی اقسام بیان کی ہیں۔ اللہ نے دینِ اسلام کو بھی امانت قرار دیا ہے۔ (ترجمہ) ’’ہم نے بارِ امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھالیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور بڑا جاہل ہے۔‘‘ (الاحزاب 72) 
امانت سے مراد شریعت کے وہ احکام ہیں جن کی ادائیگی پر اجر و ثواب اور اُن سے انکار پر عذاب ہوگا۔ جب یہ احکامِ شریعت آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کیے گئے تو وہ انہیں اٹھانے سے ڈرگئے، لیکن جب یہ چیزیں انسان کو پیش کی گئیں تو وہ اطاعت ِ الٰہی اور فرائض کی ادائیگی پر ملنے والے اجر وثواب اور اس کی فضیلت کو دیکھ کر اس بارِ گراں کو اٹھانے پر جلد آمادہ ہوگیا۔ احکامِ شریعت کو امانت سے تعبیر کرکے واضح کیا گیا کہ جس طرح انسان پر کسی امانت کی ادائیگی واجب ہوتی ہے، اسی طرح احکامِ شریعت پر عمل کرنا بھی لازم ہے۔
عبادت میں امانت:
عبادات میں امانت کا تصور یہ ہے کہ ایک مسلمان اللہ اور بندوں کے جتنے بھی فرائض لازم ہوتے ہیں اُن کو بجا لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کے علاوہ والدین، بہن بھائیوں، اہل و عیال، پڑوسی، راہ گیر وغیرہ کے بھی حقوق ہیں۔ جب انسان ان حقوق کو اپنے اوپر لازم سمجھ کر ادا کرے گا تو وہ اس کے لیے باعثِ اجر و نجات ہوں گے۔ 
اعضاء و جوارح:
انسان کے پاس اس کی جان اور زندگی اللہ کی ایک امانت ہے۔ اور اسی نے انسان کو یہ بھی بتادیا ہے کہ اپنے جسم کا استعمال اسی حد تک کرے جتنی اجازت دی گئی ہے۔ جہاں اعضاء و جوارح کی حفاظت کا مطلب انسانی شرم گاہ اور زبان کی حفاظت ہے وہیں حلال کاموں کے متعلق بھی ہدایت ہے کہ عبادات اور جائز کاموں میں اپنی جان کو اتنا نہ تھکاؤ کہ پورا نظام جسمانی متاثر ہوجائے۔ 
کام میں امانت:
ہماری دنیا کا نظام انسانی تعلقات کی بنا پر ہی چل رہا ہے۔ ہر انسان کو دوسرے سے کوئی نہ کوئی کام ضرور پڑتا ہے۔ اسی لیے انسان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جس حیثیت میں جو بھی کام کررہا ہو اسے بحسن و خوبی سرانجام دے۔ انسان کے حقوق میں کوتاہی کرنا درحقیقت حقوق العباد میں کوتاہی ہے۔ اور حقوق العباد کی اہمیت اتنی ہے کہ انہیں اللہ بھی معاف نہیں کرتا جب تک کہ وہ بندہ معاف نہ کردے جس کی حق تلفی ہوئی۔ اس لیے چھوٹے سے چھوٹے مزدور سے لے کر اعلیٰ افسران اور مالکان کو بھی اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے۔ 
بات چیت اور کلام میں امانت:
انسان کے پاس اس کی زبان بھی امانت ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ وہ اس سے صرٖف خیر ہی بولے۔ حدیث میں اچھی بات کو صدقہ کہا گیا ہے۔ اسلام ہمیں اچھی بات کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ مومن اگر بولتا ہے تو خیر ہی بولتا ہے یا پھر خاموش رہتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ کہیں ہمارے الفاظ اور بات سے کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں ہورہی؟ روزِ قیامت یہی زبان گواہی دے گی کہ فلاں انسان نے میرا غلط استعمال کیا۔ 
ذمہ داری امانت ہے:
اسلام مناصب و مراتب کو بھی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ امانتیں ان کے اہل افراد کے ہی سپرد کرو۔ (النساء 58) سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ ایک صحابی نے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! امانت کیسے ضائع ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: ’’جب کوئی منصب کسی نااہل کے سپرد کردیا جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرو‘‘ (صحیح بخاری)۔ آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ اکثر اہم اور اعلیٰ مناصب پر صرف رشوت اور اقربا پروری کی بنا پر نااہل افراد براجمان ہیں۔ قیامت قائم ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ ایسے نااہل افراد ہمارے حکمران ہوں۔
راز کی حفاظت کرنا:
ابوداؤد میں ایک حدیث ہے کہ جب کوئی بات کرے پھر (بات کے دوران) اپنے آس پاس دیکھے(کہ کوئی سن نہ سکے)، تو اس کی بات امانت ہے۔ اس کے علاوہ ایک حدیث میں مجالس کو بھی امانت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مومن کی بات دوسرے مومن کے پاس امانت ہوتی ہے، اس بات کا افشاء جہاں خیانت کے زمرے میں آتا ہے وہیں غیبت کے اضافی بوجھ کا بھی باعث بنتا ہے۔
خرید و فروخت میں امانت:
اسلام نے اپنے نظام معیشت میں ’خیار‘ کی ایک اصطلاح استعمال کی ہے کہ جب کوئی لین دین کا معاملہ کرے تو اپنے لیے چیز کو رد کرنے کا اختیار بھی لے لے۔ اس کا بنیادی مقصد کسی کو دھوکے اور نقصان سے بچانا ہے۔ اسی طرح لین دین کے معاملات میں ایک چیز دکھا کر دوسری فروخت کرنا بھی منع ہے۔ معلوم ہونے کے باوجود خراب چیز کو اچھا بناکر فروخت کرنا بھی ناپسندیدہ ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ مسلمان کسی کو دھوکا نہیں دیتا، نہ دھوکا کھاتا اور نہ خیانت کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا، آپؐ نے اپنا ہاتھ غلہ کے ڈھیر میں ڈالا، تو آپؐ نے اسے گیلا پایا، آپؐ نے اس سے دریافت کیا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ اس آدمی نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول خراب چیز کو بارش ہوئی، اس لیے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم نے اسے اوپر کیوں نہیں کیا کہ لوگ دیکھ لیں؟ جس نے دھوکا دیا وہ ہم سے نہیں‘‘۔ (مسلم)
امانت کا بہت وسیع مفہوم ہے۔ ہر وہ چیز امانت ہے جس کے ساتھ کسی دوسرے کا حق منسلک ہو اور اس کی حفاظت اور مالک کی طرف اس کی ادائیگی ہر حالت میں انسان پر لازم ہے۔ اسی لیے عالمِ دین کے پاس علمِ شریعت امانت ہے۔ استاذ کے پاس طلبہ، ان کی محنت وذہانت اور وقت ِتدریس امانت ہیں۔ والدین کے پاس اولاد امانت ہے۔ حکومت اور مناصب امانت ہیں۔ اربابِ اختیار مناصب و عہدے دیتے وقت دیانت داری کا مظاہرہ کریں۔ رعایا بھی حکمرانوں کے پاس امانت ہے۔ وقت امانت ہے۔ رائے امانت ہے۔ کسی کی راز کی بات امانت ہے۔ ووٹ امانت ہے۔ زندگی خود امانت ہے۔ الغرض زندگی کا ہر گوشہ امانت ہی امانت ہے۔ 
اسلام امانت داری کو مومن کی نشانی اور جنت میں دخول کا ذریعہ بتاتا ہے۔ خیانت کو نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آج کا مسلمان امانت کے مفہوم سے واقف ہونے کے باوجود بھی اس پر عمل کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔ امانت کے ختم ہونے کو علامتِ قیامت بتانا کوئی معمولی بات نہیں۔ امانت دین کی اساس ہے، اس کے بغیر انسانی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔ جس معاشرے سے احساسِ امانت اور جوابدہی ختم ہوجائے وہ معاشرہ ترقی تو کجا، قائم بھی نہیں رہ سکتا۔ آج ہماری ذاتی زندگی سے لے کر پیشہ ورانہ زندگی تک کہیں بھی امانت کا تصور نظر نہیں آتا۔ تصورِِ امانت کے فقدان کا مطلب انسان کے اپنے رب سے تعلق میں کمزوری ہے۔ اگر انسان کو ہر وقت یہ بات ذہن نشین رہے کہ میرا ہر لمحہ امانت ہے، جسم امانت ہے، میری رائے امانت ہے، کسی کی بات امانت ہے، میرے پاس مناصب و اختیارات امانت ہیں اور ان تمام افعال کی جواب دہی ہونی ہے تو ممکن نہیں کہ وہ کسی غلط کام کی طرف قدم اٹھائے۔ 
اس وقت ہمارے معاشرے سے امانت عملاً اٹھ گئی ہے، اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ راہِ راست پر لانے کے لیے مختلف ہلکی پھلکی نشانیاں دکھا رہا ہے لیکن آج کا انسان ہے کہ اس بات کی طرف دھیان دینے کے لیے تیار ہی نہیں۔ آج کے انسان کے لیے دنیا ہی سب کچھ ہے۔ اس لیے وہ اِس دنیا میں اتنا مگن ہوگیا ہے کہ اپنے رب کو بھول گیا ہے۔ عجیب امر ہے کہ انسان‘ جسے یہ دنیا اتنی پسند ہے کہ وہ اس کے لیے ہر جائز و ناجائز کام کرنے سے نہیں کتراتا، لیکن اس انسان کی یہی بداعمالیاں اس کی پسندیدہ دنیا کے اختتام اور تباہی کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ 

0 comments: