عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com
یہ کائنات انسانوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس طرح انسان ہی اس کائنات کی اہم مخلوق ہیں جن کو ایک مقصد کے لیے پیدا کیا گیا، اور اس دنیا کے اختتام کے بعد یہی انسان وہ واحد مخلوق ہے جس سے اس کے اعمال کے متعلق پوچھ گچھ کی جائے گی۔ خالقِ کائنات کی جانب سے انسان کو اس دنیا میں رہنے کے لیے ایک نظام اور ضابطہ دیا گیا ہے، انسان اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنے خالق کے نظام اور ضابطے کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ وہ جب بھی اس نظام سے روگردانی کرے گا انسانی معاملات میں بگاڑ پیدا ہوتا جائے گا۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں انسان اپنے خالق کے بنائے ہوئے اصولوں سے انحراف کرتا ہے وہاں اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب انسان اپنے خالق کے بنائے ہوئے نظام کی کلی طور پر مخالفت کا مرتکب ہوگا اُس وقت اس کائنات کا وجود بھی خطرے میں پڑجائے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم انسانوں کو ان علامات سے آگاہ کیا جو اس دنیا کے اختتام کا باعث بنیں گی۔ ان علامات میں سے ایک علامت ریشم کا لباس پہننے کی ہے۔ اسلام میں مردوں کا ریشمی لباس پہننا حرام جبکہ عورتوں کے لیے حلال و جائز ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ریشم اور سونا میری امت کی عورتوں کو (پہننا) حلال ہے اور مردوں کے لیے (پہننا) حرام ہے۔‘‘ (ترمذی)
سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم کو اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا اور سونے کو بائیں ہاتھ میں پکڑا، پھر فرمایا: ’’یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں اور عورتوں کے لیے حلال ہیں‘‘۔ (ابودائود، نسائی، ابن ماجہ)
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں سرخ دھاری دار ریشمی جوڑا پیش کیا گیا۔ آپؐ نے وہ مجھے عنایت فرمادیا۔ میں نے اسے پہن لیا تو میں نے رُخِ انور پر غصے کے آثار دیکھے۔ آپؐ مجھے فرمانے لگے: ’’میں نے یہ تمہارے پہننے کے لیے نہیں بھیجا، بلکہ اس لیے بھیجا تھا کہ پھاڑ کر عورتوں کے درمیان اوڑھنیاں تقسیم کردو۔‘‘ (مسلم شریف)
ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص دنیا میں ریشم پہنے وہ آخرت میں نہیں پہنے گا‘‘۔ (مسلم)
حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سونے اور چاندی کے برتنوں میں پینے سے اور ان میں کھانے سے، موٹا اور باریک ریشم پہننے سے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ (متفق علیہ)
لباس کیسا ہونا چاہیے؟ اس میں کوئی خاص پابندی نہیں، لیکن ایسا نہ ہو کہ جسے پہن کر ریا کاری یا تکبر پیدا ہو… نہ ہی عورتوں کا لباس مردوں جیسا ہو اور نہ ہی مردوں کا لباس عورتوں جیسا ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جبہ دیکھا جس میں ریشم کی جیب لگی ہوئی تھی، فرمایا: قیامت میں یہ آگ کا طوفان ہوگا (طبرانی)۔ جس نے ریشمی کپڑا پہنا قیامت میں اللہ تعالیٰ اس کو آگ (جہنم) کا کپڑا پہنائے گا۔ (طبرانی)
یہ تمام احادیث مردوں کے لیے ریشمی لباس کی حرمت کو واضح بیان کررہی ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو دنیا میں ریشم کا لباس پہنے گا وہ جنت میں اس لباس سے محروم کردیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جنت میں داخل ہی نہ ہوگا۔ ریشمی لباس پہننا اسی طرح حرام ہے جس طرح باقی محرمات ہیں۔ اکثر لوگ ریشم کے حرام ہونے کے اسباب اور وجوہات کے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔ علامہ ابن قیمؒ ’زاد المعاد‘ میں مخلتف علماء کی جانب سے ریشم کے حرام ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہیں:
٭شریعت نے اسے حرام اس لیے کیا ہے تاکہ انسان اس سے اپنے آپ کو دور رکھے، صبر کرے اور اسے اللہ کے لیے ترک کردے۔ اگر انسان محض اللہ کی رضا کی خاطر ریشمی لباس کو ترک کرتا ہے تو اسے اس پر ضرور اجر وثواب ملے گا۔
٭یہ ریشم اصل میں عورتوں کے لیے پیدا کیا گیا ہے، جس طرح سونے کے زیورات ہیں، یہ مردوں کے لیے اس لیے حرام ہیں کہ اس میں عورتوں سے مشابہت ہوتی ہے۔
٭ریشم کا لباس اس لیے حرام کیا گیا ہے کہ یہ فخر و تکبر اور اپنے آپ کو اعلیٰ وارفع سمجھنے کا باعث بنتا ہے۔
٭ریشم اس لیے حرام کیا گیا ہے کہ ریشم جسم کے ساتھ لگنے سے مردانگی کے بجائے عورت پن اور ہیجڑا پن پیدا کرنے کا باعث ہے، اور یہ مردانگی کی ضد ہے، کیونکہ ریشم پہننے سے دل میں نرمی اور عورتوں کی صفات پیدا ہوتی ہیں، جو کسی پر مخفی نہیں۔ چاہے وہ لوگوں میں سب سے زیادہ مردانگی والا ہی کیوں نہ ہو، ریشم کا لباس پہننے سے اس کی مکمل مردانگی چاہے ختم نہ بھی ہو لیکن اس میں کمی ضرور آئے گی۔‘‘ (زاد المعاد (4 / 80)
علامہ ابن قیم ؒ نے زادالمعاد میں ریشم کے حرام ہونے سے متعلق علماء کی چار آراء بیان کی ہیں جن میں سرفہرست انسان کو اپنے نفس پر قابو رکھنے کی مشق کراکر اجر و ثواب سے نوازنا ہے۔ علماء نے صبر کی تین اقسام بیان کی ہیں:
1۔ صبر علی المصیبۃ: اللہ کی جانب سے آنے والے مصائب اور آزمائشوں پر صبر کرنا۔
2۔ الصبر علی الطاعۃ: اللہ کے احکامات کی بجا آوری کرنا اگرچہ اس حکم کی بجا آوری میں انسان کو چاہے کتنی ہی تکلیف اٹھانی پڑے۔
3۔ الصبر علی المعصیۃ: گناہ سے بچنا۔ اگرچہ انسان گناہ کرنے پر قادر ہو اور اسے کوئی انسان دیکھنے والا بھی نہ ہو لیکن پھر بھی وہ خالص اللہ کے حکم کو سامنے رکھتے ہوئے اس گناہ سے اپنے آپ کو بچاتا اور اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے۔
اب اگر کوئی انسان محض اللہ کی رضا کے لیے ریشمی لباس پہننا ترک کرتا ہے تو اس کا یہ عمل اس کے اجر میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کے درجات کو بلند کرنے کا بھی سبب ہوگا۔
دوسری وجہ عورتوں سے مشابہت بیان کی گئی ہے کہ زیورات اور ریشمی لباس زیب تن کرنا عورتوں کا ہی خاصہ ہے، اس سے مردوں کا کوئی تعلق نہیں۔ عورتوں کا مردوں سے اور مردوں کا عورتوں سے لباس میں مشابہت کرنا حرام ہے، کیونکہ بخاری کی حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے مشابہت کرنے والے مردوں، اور مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ چوتھی وجہ میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ نرم اور شوخ لباس مردانہ خصائل پراثر انداز ہوتے ہیں۔
تیسری وجہ فخر و تکبر بیان کی گئی ہے۔ درحقیقت فخر و تکبر کا عنصر ہی لباس میں اہمیت کا حامل ہے۔ اکثر اوقات انسان اپنے لباس سے ہی اپنا مرتبہ اور مقام جتلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لباس کا قرآن مجید میں ذکر کیا ہے اور اسے اپنی نعمتوں میں سے ایک نعمت شمار کیا ہے۔ لیکن انسان دوسری نعمتوں کی طرح اس نعمت کو بھی اپنی شان و مرتبے کو بلند کرنے اور فخر و تکبر کے اظہار کا ذریعہ بناتا ہے۔ اسلام میں اس لباس کو پسند کیا گیا ہے جس سے انسان کی ستر پوشی کے ساتھ ساتھ عاجزی کا اظہار بھی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لباس کے متعلق واضح تعلیمات دی ہیں۔ لباس ہی وہ عنصر ہے جس سے انسانی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے دنیا میں شہرت کا لباس پہنا، اللہ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا، پھر اس میں آگ کا شعلہ بھڑ کا دے گا‘‘ (ابوداؤد)۔ شہرت کا لباس ضروری نہیں کہ قیمتی ہی ہو، بعض لوگ کسی مخصوص ہیئت کا لباس پہن کر اپنے آپ کو اُن لوگوں میں سے ظاہر کروانا چاہتے ہیں جن کا وصف ان میں حقیقتاً موجود نہیں ہوتا۔
صحابہ نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دنیا کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’کیا تم نہیں سنتے؟ کیا تم نہیں سنتے؟ سادگی ایمان سے ہے، سادگی ایمان سے ہے‘‘ (ابوداؤد)۔ اس سے آپؐ کی مراد تکلفات اور زیب وزینت کی چیزوں کا ترک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سادہ لباس کو پسند کیا کرتے تھے، ایسا لباس جس میں نمود و نمائش کا شائبہ نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ انسان اپنے مرتبے و مقام کے مطابق ہی رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ یہ پسند کرتا ہے کہ نعمت کا اثر اس کے بندے پر نظر آئے۔‘‘ (سنن ترمذی)
سمالک بن نضلہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حال میں آیا کہ میں نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: کیا تمہارے پاس کچھ مال ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا: کس قسم کا؟ میں نے کہا: اونٹ، گھوڑے، بکریاں، غلام ہر طرح کا مال اللہ نے مجھے دے رکھا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: جب اللہ نے تمہیں مال دے رکھا ہے تو پھر اس کی نعمت اور احسان کا اثر تم پر نظر آنا چاہیے۔ (ابوداؤد)
اسلام ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جہاں مصنوعیت اور مادیت نہ ہو۔ اسلامی معاشرہ ایمان، تقویٰ، اخلاص اور باہمی ہمدردی کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اس لیے اسلام اپنے ماننے والوں سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایسے تمام افعال سے گریز کریں جو اللہ کی ناراضی اور انسانوں کے لیے باعثِ تکلیف ہوں۔
0 comments:
Post a Comment