معمولی باتوں پر خون ریزی کریں گے… ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Monday, February 11, 2019

معمولی باتوں پر خون ریزی کریں گے…


عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com

ہماری دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ جس میں واحد ذی شعور مخلوق انسان کا امتحان چل رہا ہے۔ انسان وہ واحد مخلوق ہے جسے اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہوگا۔ کیونکہ یہ دنیا بھی انسانوں کے لیے ہی بنائی گئی ہے۔ اس دنیا میں رہنے کے لیے خالق نے انسانوں کو زندگی گزارنے کا پورا طریقہ بھی بتادیا کہ انسان کن اصولوں کی بنیاد پر اس دنیا میں زندگی کر کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ چونکہ اس کائنات کی عظیم ہستی انسان ہی ہے جس کے لیے یہ کائنات وجود میں آئی اس لیے انسان پر بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد کی گئیں ہیں۔ انسان ان پابندیوں کی پاسداری کرکے ہی خالق کے مطلوبہ نظام کو قائم رکھ سکتا ہے۔
انسان کی فطرت میں یہ چیز رکھی گئی ہے کہ وہ کبھی بھی اکیلا نہیں رہ سکتا، اسے اجتماعیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس اجتماعیت میں انسان ایک دوسرے کے لیے جہاں ممد و معاون کا کردار کرتے نظر آتے ہیں وہیں بشری تقاضے کے مطابق ان کے درمیان تعلقات میں گرمی اور سرد مہری بھی نظر آتی ہے۔ خالق کائنات نے انسان کو مل جل کر رہنے کا حکم دیا ہے۔ خالق کائنات انسانوں سے ایک ایسی اجتماعیت کا تقاضا کرتے ہیں جہاں وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ رہیں، ایک دوسرے کے کام آئیں، اخوت کا مظاہرہ کریں، ایثار کا عملی نمونہ پیش کریں، مشکل وقت میں اپنے بھائی کی دادرسی کریں۔ خالق کائنات نے ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسانی جان کے بچانے کو پوری انسانیت کو بچانے سے تعبیر کیا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی قرار دیا ہے اور اسی رشتے کی بنیاد پر مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے کی عزت کی حفاظت کرے، اس کی غیبت نہ کرے، تجسس نہ کرے۔ احادیث میں ہمیں مسلمانوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے بڑی تفصیل ملتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ایک جسم کے مانند قرار دیا ہے۔  حدیث مبارکہ ہے کہ ’’مسلمان ایک شخص کی مانند ہیں، اگر اس کی آنکھ کو تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر اس کے سر کو تکلیف ہو تب بھی تمام جسم تکلیف محسوس کرتا ہے‘‘۔ تم مومنوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے پر مہربانی کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھو گے، جب کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو تمام جسم کے اعضاء ایک دوسرے کو بلاتے ہیں اور سب اعضاء  بیدار اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘‘۔ (مشکوۃ) ایک اور حدیث میں مسلمانوں کو ایک عمارت کے تعبیر کیا گیا ہے۔ ’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے، اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔ آپؐ نے اس بات کو اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر سمجھایا‘‘۔ (مشکوۃ) ایک اور حدیث مین مسلمانوں کے باہمی تعلقات کو بیان کیا ہے کہ ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر ظلم نہیں کرتا نہ اسے بے یار ومددگار چھوڑتا ہے نہ اسے حقیر سمجھتاہے۔ نبی اکرمؐ نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے۔ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے‘‘۔ (مشکوۃ) ارشاد نبویؐ ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے دوسرے مسلمان کے جان و مال اور عزتیں محفوظ رہیں‘‘۔ (بخاری)
ایک طرف اسلام اپنے ماننے والوں کو پیار و محبت سے رہنے کا درس دیتا ہے اور دوسری جانب آج مسلمانوں کی حالت اس سے یکسر مختلف ہے۔ آج مسلم معاشرہ انتشار و افتراق کا شکار ہے۔ مسلمانوں کے باہمی تعلقات انتہا درجے تک کمزور ہو چکے ہیں۔ آج ہمیں گھر، گلی، محلے اور سڑکوں پر روزانہ مسلمان دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ معاشرے سے برداشت کا مادہ ختم ہوچکا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑا معمول بن چکا ہے۔ گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہوکر لڑائی جھگڑا کرنا معمول بن چکا ہے۔ ایک ہی گھر کے افراد آپس میں بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ بچوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑوں کا لڑنا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ وہی بچے کچھ دیر بعد آپس میں کھیل رہے ہونگے لیکن بڑے تب تک اپنے درمیان ایک خلیج قائم کر چکے ہونگے۔ سڑک پر اگر ایک گاڑی دوسری سے ذرا سی ٹکرا جائے تو بیچ سڑک ہنگامہ ہوجاتا ہے، چھوٹی سی بات کی وجہ سے جہاں دو افراد دست و گریباں ہوتے ہیں، وہیں ان افراد کی وجہ سے باقی لوگوں کو بھی تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹی وی پروگرام کے ذریعے سیاستدانوں کے جھگڑوں سے قوم روز ہی محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ سیاسی جلسے اور پروگرامات کے ذریعے مدمقابل کو زچ کرنے کے طریقے سکھائے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں انسانی ہمدردی اور روداری کہاں نظر آئے گی۔ 
جب انسان خود اپنا دشمن بن بیٹھے اور ایسے کام کرے جن سے اس کا اپنا گزارا مشکل ہوجائے، اس کی حرکات سے پورا معاشرہ کرب میں مبتلا ہو، انسانی تعلقات کمزور ہوتے ہوتے نفرتوں کی حد تک پہنچ جائیں، بھائی بھائی سے ملنے کو تیار نہ ہو، بہن بھائی کے گھر ملنے نہ جائے، پڑوسی ایک دوسرے کا منہ دیکھنا پسند نہ کریں، ایک جگہ کام کرنے والے افراد دلوں میں بغض رکھے بیٹھے ہوں، دل میں کچھ اور زبان میں کچھ کا معاملہ ہو۔ ایسے میں معاشرہ کیسے قائم رہ سکتا ہے، معاشرے کی رونق کیسے نظر آسکتی ہے؟ بالآخر جب معاشرے سے صبر اور برداشت کا مادہ ختم ہوجائے گا تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ معاشرہ تباہ ہ برباد ہو جائے۔ جب صبر اور برداشت کے بغیر معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا تو یہ دنیا کیسے اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔ 
سیدنا عبد اللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور لڑنا جھگڑنا کفر ہے‘‘۔ (متفق علیہ) اس حدیث میں مسلمانوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرنے والے بنیادی عناصر کا ذکر ہے۔ انسان جب غصے میں آتا ہے تو شیطان اس پر غالب آجاتا ہے اور وہ اس حالت میں اپنی زبان سے ایسے کلمات ادا کرتا اور کام کرتا ہے جو اس کے لیے باعث شرمندگی ہی ہوتے ہیں۔ گالی وہ بنیادی عنصر ہے جس سے انسانی تعلقات خراب ہونے شروع ہوتے ہیں اور اس کا لازمی نتیجہ جھگڑنا ہی ہے۔ اس لیے حدیث میں ایسے افعال کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے تا کہ مسلمان ان افعال کی قباحت کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اس سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔
 ایک حدیث میں ہے کہ پہلوان وہ نہیں جو بدلہ لینے میں زیادہ سخت ہو بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔ (سنن ابی داؤد) انسان کے اکثر مسائل غصے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔انسان غصے کی حالت میں اکثر قابو سے باہر ہوجاتا ہے۔ قرآن نے اس کے مقابلے میں صبر، عفو ودرگزر اور احسان کی تعلیم دی ہے اور لوگوں کو ترغیب دی ہے کہ اگر وہ غصہ کی حالت میں انتقامی کاروائی نہ کریں تو یہ بات اللہ کو بات پسند آتی ہے۔ سورۃ النحل آیت 126 میں اللہ کا ارشاد گرامی ہے کہ۔ ترجمہ: ’’اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر تم صبر کرو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔‘‘ سورہ نور آیت 22 میں ارشاد خداوندی ہے کہ، ترجمہ: ’’کیا تم پسند نہیں کرتے کہ (تم لوگوں کو معاف کرو اور) اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے۔‘‘ 
نبی کریمؐ نے فرمایا کہ شیطان اس بات سے تو مایوس ہوگیا ہے کہ اس کی پوجا کی جائے لیکن یہ لوگوں کو آپس میں بھڑکائے گا۔ فرمایا کہ شیطان اپنے کارندوں کو بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بھڑکائیں اور اس کے نزدیک سب سے بڑا مقرّب وہ کارندہ ہوتا ہے جو لوگوں کو بھڑکاتا ہے۔ اس کے کارندے اس کے سامنے اپنی اپنی کارگزاری پیش کرتے ہیں اور جن جن جرائم کا ارتکاب انہوں نے لوگوں کو اکسا کر کروایا ہوتا ہے ان کا ذکر کرتے ہیں لیکن بڑا شیطان لڑائی کے لیے بھڑکانے والے کارندے پر سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔ (بخاری)
ابوداؤد کی ایک حدیث میں نبی کریمؐ نے صحابہؓ کو نصحیت فرمائی کہ خوشخبری دینا، نفرت پیدا نہ کرنا۔ آسانیاں پیدا کرنا، مشکلات اور دقتیں پیدا نہ کرنا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ جس نے باطل چیز (جس پر اس کا حق نہیں تھا) کے لیے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا، اللہ اس کے لیے جنت کے کنارے محل تیار کرے گا اور جس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے اجتناب کیا تو اللہ جنت کے وسط میں اس کے لیے محل تیار کرے گا اور جس نے (نہ صرف جھگڑا کرنے سے اجتناب کیا بلکہ) حسن خلق کا مظاہرہ کیا تو اس کے لیے جنت کے اعلی درجے میں محل تیار کردیا جائے گا۔‘‘ (ترمذی)
معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑا کرنے کو علامات قیامت میں شامل کرنے کی وجہ بھی ہے کہ جب انسانوں میں باہمی ہمدردی اور اخوت ختم ہوجائے گی اور وہ معمولی معمولی باتوں پر لڑنا شروع کردیں گے تو اس سے اسلامی معاشرے کی بنیادیں کمزور ہوجائیں گی، مسلمانوں میں خود غرضی کا عنصر پروان چڑھے گا، مسلمانوں میں سے خیر خواہی کا جذبہ ختم ہوجائے گا۔ ان تمام امور کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاشرے میں فساد برپا ہوجائے گا، جس جاہلیت کو ختم کرنے کے لیے اسلام آیا تھا اگر وہی جاہلیت اسلام کے پیروکاروں میں رچ بس جائے تو پھر اسلام کیسے قائم رہ سکتا ہے؟

0 comments: