جھوٹ سچ بن جائے گا ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Wednesday, February 13, 2019

جھوٹ سچ بن جائے گا


عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@yahoo.com

دنیا کی ہر چیز کسی نہ کسی حقیقت پر قائم ہے۔ جو چیز بھی حقیقت یا امرِ واقع کے خلاف ہوگی وہ جھوٹ کے زمرے میں آئے گی۔ اس کائنات کا وجود ایک حقیقت ہے، اور اس کے صانع (بنانے والے) کا ہونا بھی عین حقیقت ہے۔ اب اگر کوئی اس کائنات اور اس کے صانع کے وجود کا انکار کرے تو دنیا اسے جاہل، اندھا یا جھوٹا وغیرہ کہے گی اور اس کی بات کو کوئی اہمیت نہ دی جائے گی۔ لیکن جب یہی جاہلیت و جھوٹ سچائی کا مصنوعی لبادہ اوڑھ کر اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش کرے تو معاملہ فساد کی طرف چلا جاتا ہے۔ اور جب دنیا اس مصنوعی حقانیت کو سچ مان لے تو کچھ بعید نہیں کہ اس کائنات کا پورا نظام ہی تباہ و برباد ہوجائے۔ اس طرح جب دنیا کے تمام جھوٹ سچائی کا روپ دھار لیں تو دنیا کا وجود بھی خطرے میں پڑجائے گا۔ جھوٹ سے مراد غلط بیانی یا جان بوجھ کر خلافِ واقعہ کوئی بات کہہ دینا ہے۔ اس کے گناہِ کبیرہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ہمیں متواتر ایسی احادیث ملتی ہیں جن میں بڑے بڑے گناہوں، یعنی کبائر کے ذکر میں جھوٹ کا ذکر بھی ہے۔ اس وقت دنیا میں اسلام کے علاوہ جتنے بھی ازم ہیں وہ سب جھوٹ پر قائم ہیں۔ سود جھوٹ (خلافِ حقیقت) ہے، بے حیائی جھوٹ ہے، خودغرضی جھوٹ ہے… الغرض دنیا میں جتنی بھی برائیاں پائی جاتی ہیں وہ سب جھوٹ پر قائم ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ تمام جھوٹ سچ (حقیقت کے مطابق) بناکر ہمارے سامنے پیش کیے جارہے ہیں۔
اس علامتِ قیامت سے پہلے بھی جھوٹ کے حوالے سے ایک علامت ذکر کی گئی ہے کہ جھوٹ کو حلال سمجھا جائے گا۔ اب یہاں ’’جھوٹ سچ بن جائے گا‘‘ کے عنوان سے دوبار جھوٹ کا ہی علامتِ قیامت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ مطلق جھوٹ بولنا اور جھوٹ کو حلال و جائز سمجھنا تو ایک عام فہم بات ہے، لیکن خاص طور پر ’جھوٹ کے سچ بننے‘ کا ایک الگ علامت کے طور پر ذکر کرنا جہاں جھوٹ کی سنگینی اور قباحت کی طرف اشارہ کررہا ہے وہیں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ یہ علامت عام جھوٹ سے ایک الگ چیز ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے، اس لیے اسلام اِس دنیا میں بھی ایک ایسا نظام چاہتا ہے جو فطرت کے مطابق ہو، کیونکہ فطرت ہی عین حقیقت اور سچ ہے۔ انسان بھی فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے اور انسان کو دلی سکون بھی فطرت کے مطابق زندگی گزارنے میں آتا ہے۔ موجودہ دنیا کی تمام رنگینیاں اور رونقیں فطرت کے خلاف مادیت پر قائم ہیں۔ اس دنیا کو حقیقت سے ہٹاکر جھوٹ کی طرف لے جایا جارہا ہے اور بدقسمتی سے انسان بھی اس جھوٹ کی طرف بڑے شوق اور مزے سے چلا جارہا ہے۔ گھریلو زندگی سے لے کر باہر کی دنیا تک ہر جگہ مادیت ہی مادیت نظر آتی ہے اور انسان بھی اپنے آپ کو مادیت کی دلدل میں پھنساتا چلا جا رہا ہے۔ عرصہ قبل مغرب نے ترقی کے نام پر مادیت پرستی کا جو ایک نیا جہان قائم کیا، اس نے دنیا کو خوب مرغوب کیا۔ مغرب کی تقلید میں پوری دنیا ایک دوسرے سے سبقت لینے میں لگی رہی۔ لیکن آج مغرب خود اپنے قائم کردہ مادہ پرستانہ نظام سے بیزار اور پریشان ہوچکا ہے۔ وہاں انسان کی کوئی اہمیت نہیں، انسانی جذبات نام کی کسی چیز کا وجود نہیں، خاندانی نظام تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ آج مغرب اپنے ہی قائم کردہ اس جھوٹ کے نظام سے تنگ آکر اس سے جان چھڑانے کی کوشش کررہا ہے، لیکن افسوس کہ ہم تیسری دنیا کے باشندے ابھی تک مغرب کے قائم کردہ جھوٹے نظام کی ’معراج‘ تک پہنچنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ تو سچ اور جھوٹ کا ایک وسیع تقابلی جائزہ تھا، لیکن آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تو ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ نظر آتا ہے۔ ہم میں سے ہر فرد جھوٹ کا عادی ہوچکا ہے۔ جھوٹ کے بغیر کوئی بات، کوئی نشست یا کوئی تقریب مکمل نہیں ہوتی۔ عجب معاملہ ہے کہ ہمارے لیے جھوٹ بولنا آسان اور سچ بولنا مشکل ہوگیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جھوٹ اس قدر پھیل چکا ہے کہ اب اسے کوئی برائی ہی نہیں سمجھا جاتا۔ جب جھوٹ انسان کی انفرادی زندگی کا حصہ بن چکا تو اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ یہ معاشرے کا بھی حصہ بن جاتا… اور ایسا ہی ہوا۔ آج ہمارا پورا معاشرہ جھوٹا بن چکا ہے۔ ہمیں اکثر مواقع پر یہ سننے کو ملتا ہے کہ ’’سچ بولنے کی کیا ضرورت تھی! جھوٹ بول لیتے۔‘‘ مطلب یہ کہ جھوٹ کوئی ایسی قبیح شے ہی نہیں کہ انسان اس سے بچنے کی کوشش کرے۔ قرآن مجید اور احادیث میں جھوٹ سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور جھوٹوں کے لیے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں، جن کا ذکر ہم کرچکے ہیں۔
اس وقت دنیا میں عالمی طاقتیں جھوٹ کو سچ ثابت کرکے ہمارے سامنے پیش کررہی ہیں۔ سابقہ طاقتور ظالم قوموں کا بھی یہی وتیرہ رہا ہے کہ وہ یا تو اپنی طاقت کی بنیاد پر ہر جھوٹ کو سچ منوا لیتیں یا پھر پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کے سامنے ہر جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرتیں۔ عصر حاضر میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد پوری دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ یہ حملہ طالبان نے کیا ہے اس لیے اُن کے مرکز (افغانستان) پر جوابی حملہ ضروری ہے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ افغانستان پر حملہ ہوا، امریکا نے پورے ملک کو تباہ و برباد کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔ آج خود امریکی اور عالمی تجزیہ نگار ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کو عالمی طاقتوں کی ایک سازش قرار دے رہے ہیں اور امریکا اور اُس کے حواری آج تک اپنے اس جھوٹ کو ثابت نہ کرسکے کہ طالبان نے ہی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا تھا۔ اسی طرح عراق پر مہلک ہتھیار رکھنے کا الزام لگا کر حملہ کیا گیا، پورے ملک کو تباہ کردیا گیا، برسوں کارروائیاں چلیں، ملک بدامنی کا مرکز بن گیا اور بالآخر بڑی ڈھٹائی سے عالمی سامراج یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکلا کہ ہمیں یہاں سے ایسے کوئی ہتھیار نہیں ملے جن کو جواز بناکر ہم نے یہاں حملہ کیا تھا۔ ان دونوں ممالک میں عالمی سامراج کے مقاصد کچھ اور ہی تھے لیکن ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ پہلے دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ ہم جو بتا رہے ہیں وہ سچ ہے… اور دنیا نے اس جھوٹ کو من و عن سچ مان بھی لیا۔ یہ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ایک مثال ہے۔
جھوٹ کے سچ بننے سے یہ بھی مراد ہے کہ دنیا کے معیارات یکسر تبدیل ہوجائیں گے۔ عالمگیر سچائی کا ایک نیا تصور جنم لے گا اور سچ کا تعین وہی لوگ کریں گے جن کے ہاتھوں میں دنیا کی حکمرانی ہوگی، جو ظالم ہوں گے، جو اللہ کے باغی ہوں گے۔ یہ لوگ اللہ کے نظام کو غلط ثابت کرکے اپنے لیے خود نظام تیار کریں گے۔ چونکہ یہ نظام خالق کے نظام کے مقابلے میں بنائے گئے ہوں گے اور ان کے بنانے والے خود انسان (مخلوق) ہوں گے تو لازمی امر ہے کہ ان میں سقم موجود ہو جو انسان اور کائنات کے نظام کے لیے ناموافق اور ناموزوں ہو… جس کا حقیقت اور فطرتِ انسانی سے کوئی تعلق نہ ہوگا، یہ نظام افراط وتفریط کا شکار ہوں گے اور ان نظاموں میں پوری دنیا کے بجائے چند مخصوص افراد اور گروہوں کے لیے فائدہ ہوگا۔ چند افراد ان نظاموں کو اپنے لیے موافق سمجھیں گے اور ان کے نفاذ کی کوشش کریں گے۔ لیکن نفاذ کے کچھ ہی عرصے بعد انہیں (بانیانِ نظام کو) یہ معلوم ہوجائے گا کہ ان کا نظام کتنا فرسودہ اور ناکام ہے۔ ایسے ہی نظاموں کے متعلق سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کہا تھا ’’ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا۔ نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پاسکے گی۔‘‘ آج یہی ہورہا ہے کہ اللہ کے نظام کے مقابلے میں بنائے گئے تمام نظام اپنی ناکامی کو بے بسی کے عالم میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ 
یہاں ہم نے ’جھوٹ کے سچ بننے‘ کا وسیع مفہوم میں تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر وہ جھوٹ یا خلافِ واقعہ امر اس علامت کے زمرے میں آتا ہے جس کو آج کی دنیا سچ بنا کر دکھا رہی ہے۔ ٹی وی ڈراموں، فلموں اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر دنیا کو فطرت کے برخلاف زندگی گزارنے کے جو طریقے سکھائے جا رہے ہیں وہ سب اس جھوٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔ جھوٹ کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ جھوٹ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس لیے جھوٹ کی بنیاد پر قائم ہونے والے تمام نظریات اس جہاں کو تباہی کی طرف ہی لے جائیں گے۔ 

0 comments: