عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جس طرح انسان اِس دنیا میں آیا ہے اسی طرح اسے ایک دن اِس دنیا سے جانا بھی ہے۔ موت کا سامنا بہرحال انسان کو کرنا ہی ہے۔ یہی دستورِ کائنات ہے۔ موت ایک فطری عمل ہے، جب سے دنیا قائم ہوئی ہے اُس وقت سے انسان کو موت واقع ہوتی رہی ہے، لیکن جب اموات کی شرح غیر معمولی حد تک بڑھ جائے تو یہ کسی بڑے حادثے کا عندیہ بن سکتی ہے۔
قربِ قیامت کی علامات میں سے ایک علامت ناگہانی اموات کا عام ہونا ہے۔ ہم اس وقت دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں اچانک اموات کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے۔ دل کا دورہ، بلڈ پریشر، دماغی عارضہ وغیرہ ایسی بیماریاں ہیں جن سے فوراً ہی اموات واقع ہوجاتی ہیں۔ بظاہر صحت مند نظر آنے والا شخص دل کا دورہ پڑنے، دماغ کی شریان پھٹنے اور بلڈ پریشر کی وجہ سے اچانک ہی اس دنیا کو خیرباد کہہ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹریفک حادثات، زلزلہ، آگ اور عمارتوں کے منہدم ہونے سے بھی اموات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں چند دن رہنے کے لیے بھیجا ہے اور اسے یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اسے اس جہاں میں کتنا عرصہ رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے اس دنیا کی حقیقت کو بھی بیان کررکھا ہے، اللہ نے دنیا کو دھوکے کے سامان سے تعبیر کیا ہے، امتحان گاہ قرار دیا ہے، انسان کو بتایا گیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے، اس میں کسی کو ہمیشہ نہیں رہنا، انسان چاہے اس دنیا میں کتنا ہی بڑا آدمی بن جائے، جاہ و جلال اور مناصب حاصل کرلے، جتنی بھی ترقی کرلے، اسے بہرحال یہ دنیا چھوڑنی ہی پڑے گی۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی نے بڑی ترقی کرلی ہے لیکن اس کے باوجود انسان اس بات پر قادر نہیں کہ وہ کسی کی سانس کی ڈور کو قائم رکھ سکے۔ اگرچہ اس وقت مصنوعی تنفس کے ذریعے کچھ وقت تک زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی مالی اور دنیوی وسائل ہونے کے باوجود اپنے عزیز کو اس طرح زیادہ عرصے تک زندہ رکھنا نہیں چاہتا۔ یہ بھی فطرت کا قانون ہے کہ انسان مصنوعیت کے ذریعے نہ تو اِس دنیا کی راحت اور سکون حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی اس مصنوعیت کے ذریعے زیادہ دیر تک زندہ رہنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
خالقِ کائنات نے دنیا کو انسان کے لیے بنایا ہے، نہ کہ انسان کو دنیا کے لیے۔ اسی لیے جب یہ معلوم ہوگیا کہ انسان کا مقصدِ تخلیق کچھ اور ہے تو انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اصل مقصدِ تخلیق کی طرف دھیان دے نہ کہ کسی اور طرف بھٹکتا پھرے۔ اس وقت بحیثیتِ مجموعی انسان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ اپنے اصل مقصدِ تخلیق کو بھول چکا ہے، اس نے اپنا مقصد دنیا کو بنالیا ہے۔ اور اس کی تمام تر سوچ، کوششیں اور کاوشیں اسی دنیا کے حصول کے لیے رہ گئی ہیں۔ جب انسان اپنے اصل مقصدِ تخلیق سے انحراف کرتا ہے تو خالق اپنی نشانیاں دکھا کر اسے اپنی طرف لوٹنے کا اشارہ کرتا ہے، لیکن یہ انسان ہی ہے کہ اپنے مالک کی بڑی سے بڑی نشانی دیکھنے کے بعد بھی سبق، نصحیت اور عبرت حاصل نہیں کرتا۔ انسان اللہ کی عظیم مخلوق ہے۔ اللہ نے قرآن اور شریعت کا بار جب دیگر مخلوقات پر ڈالنا چاہا تو انہوں نے اس بار کو اٹھانے سے معذرت کرلی، حتیٰ کہ آسمان و زمین اور بڑے بڑے پہاڑوں تک نے اپنی کمزوری کا عذر پیش کیا۔ لیکن یہ انسان ہی کی عظمت تھی کہ اس نے اس عظیم بار کو اٹھانے کی ہامی بھرلی۔
کہتے ہیں کہ کسی اونچی عمارت پر کھڑے شخص نے زمین پر کام میں مصروف اپنے ملازم کو آواز دے کر پکارا۔ کئی بار پکارنے کے باوجود بھی ملازم تک اس کی آواز نہیں پہنچی۔ ملازم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے وہ ایک نوٹ پھینکتا ہے، جیسے ہی وہ نوٹ ملازم کے قدموں میں گرتا ہے تو ملازم اپنے دائیں بائیں دیکھ کر خاموشی سے وہ نوٹ اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے۔ مالک یہ عمل دو تین مرتبہ کرتا ہے اور ملازم بھی اپنے عمل کو دوہراتا رہتا ہے۔ اس کے بعد اوپر کھڑا شخص ایک چھوٹا سا کنکر اٹھا کر ملازم کی طرف پھینکتا ہے۔ جونہی وہ کنکر ملازم کے سر پر پڑتا ہے، ملازم فوراً اوپر دیکھتا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ بھی ہمیں اکثر نواز نواز کر اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے لیکن ہم بھی اُس ملازم کی طرح ان نعمتوں سے خاموشی سے لطف اندوز ہونا شروع کردیتے ہیں اور اس بات کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے کہ ہمیں یہ نعمت کس کی طرف سے ملی ہے۔ اس کے برخلاف جب اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کوئی چھوٹا سا کنکر سر پر مارتے ہیں تو ہمیں فوراً اللہ یاد آجاتا ہے کہ کوئی اوپر ہے جس کو ہم رب مانتے ہیں، جس سے ہم ہر مشکل میں مدد مانگتے ہیں، جس کو ہم مشکل کشا مانتے ہیں، اسی لیے ہم فوراً رب کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی اس کنکر کا اثر ختم ہوتا ہے ہم اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ کبھی ہمارے سر پر کوئی کنکر بھی پڑا تھا اور ہم نے کسی ہستی سے رجوع بھی کیا تھا۔
اچانک موت کے حوالے سے مختلف احادیث ملتی ہیں۔ بعض میں ناگہانی موت سے پناہ مانگنے کو کہا گیا ہے اور بعض میں اسے مومن کے لیے راحت بتایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دعا مروی ہے کہ ’’اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں، تیری نعمت کے زوال (چھن جانے) سے، تیری دی ہوئی عافیت کے ختم ہو جانے سے، تیرے اچانک انتقام اور پکڑ سے، اور تیری ہر طرح کی ناراضی سے۔ عبید بن خالد سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اچانک موت افسوس کی پکڑ ہے۔‘‘ یعنی اللہ کے غضب کی علامت ہے، کیونکہ اس میں بندے کو اس بات کی مہلت نہیں ملتی کہ وہ اپنے سفرِ آخرت کا سامان درست کرسکے، توبہ واستغفار، وصیت یا کوئی عملِ صالح کرسکے۔
مولانا عبدالرحمن محدث مبارک پوری اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’ناگہانی موت کے بارے میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔ بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اچھی نہیں۔ ابودائود میں عبید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ناگہانی موت غضب کی پکڑ ہے‘‘۔ اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ناگہانی موت اچھی ہے۔ ابن ابی شیبہؒ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ہے کہ ناگہانی موت مومن کے واسطے راحت ہے اور فاجر کے واسطے غضب ہے۔ علمائے حدیث نے ان حدیثوں میں اس طرح جمع و توفیق بیان کی ہے کہ جو شخص موت سے غافل نہ ہو اور مرنے کے لیے ہر وقت تیار، مستعد وآمادہ رہتا ہو اُس کے لیے ناگہانی موت اچھی ہے، اور جو شخص ایسا نہ ہو اُس کے لیے ناگہانی موت اچھی نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
اچانک موت بھی انسان کے لیے ایک علامت اور عندیہ ہے کہ وہ دنیا میں اس طرح منہمک نہ ہوجائے کہ اپنی موت کو ہی بھول جائے اور اُسے ایسی حالت میں موت آئے کہ وہ عملاً و ذہناً اس کے لیے تیار نہ ہو۔ اچانک موت کے حوالے سے اصل یہی ہے کہ اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے تاکہ انسان کو اتنی مہلت مل سکے کہ وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگ سکے، حقوق العباد کے حوالے سے اگر کوئی کوتاہی ہو تو وہ اسے معاف کروائے، کوئی وصیت کرنی ہو تو وہ کرسکے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جو لوگ ایک عمر پاکر بیماری وغیرہ کے سبب اس دنیا کو چھوڑتے ہیں اُن کے پاس ان کاموں کے لیے اچھا خاصا وقت ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور بندوں سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ سکیں، اور اگر کوئی وصیت اور دیگر معاملات کرنے ہوں تو وہ بھی انجام دے سکیں۔ اس کے علاوہ اچانک موت کا غم لواحقین کے لیے بھی انتہائی شدید ہوتا ہے۔ چلتے پھرتے انسان کی موت کے مقابلے میں ایک بیمار یا عمر رسیدہ انسان کی موت کا غم بہرحال کم ہوتا ہے… کیوں کہ عمر رسیدہ یا بیمار کو دیکھ کر اُس کے لواحقین کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ بیماری یا درازیٔ عمر کے سبب وہ اس دنیا کو چھوڑ سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ جب انسانوں سے اُن کی بداعمالیوں کے سبب ناراض ہوتے ہیں تو انہیں سیدھی راہ پر لانے کے لیے مختلف اشاروں سے متنبہ کرتے ہیں۔ اس وقت ہم خود اپنا جائزہ لیں تو اس بات کو تسلیم کریں گے کہ آج کل جس طرح ہمارے معاشرے میں ناگہانی اموات کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے وہ ہماری بداعمالیوں کا ہی نتیجہ اور علامتِ قیامت ہی ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نیک اعمال میں اضافہ کریں اور برے اعمال سے بچنے کی کوشش کریں۔ اللہ اور اس کے بندوں کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کریں اور ایسے اعمال کریں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہو۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی موت کی تیاری کرنی چاہیے اور ایک نفسِ مطمئنہ کی طرح اپنے رب سے ملاقات کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ یہی اُس حدیث کا مطلب ہے کہ جب کوئی نفسِ مطمئنہ اِس دنیا کو چھوڑتا ہے تو وہ اس دنیا کے امتحان اور آزمائشوں سے آزاد ہوکر اپنے رب کے ہاں اس کے اجر کا مستحق ٹھیرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ناگہانی آفتوں اور اموات سے محفوظ رکھیں۔ (آمین)
0 comments:
Post a Comment