ظلم عام ہوجائے گا… ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Saturday, February 16, 2019

ظلم عام ہوجائے گا…


عابد علی جوکھیو
abidjokhio2001@gmail.com

ظلم اسلام کی ایک ایسی جامع اصطلاح ہے جو اپنے اندر کئی مضامین اور ابواب رکھتی ہے۔ علماء نے کسی چیز کو اُس کے اصل مقام و مرتبے پر نہ رکھنے کو ظلم کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو پیار و محبت اور ایثار و قربانی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ ان اعمال کے ذریعے انسانوں کے تعلقات مضبوط اور خوشگوار رہیں۔ چونکہ خالقِ کائنات نے یہ دنیا انسانوں کے لیے بنائی ہے اس لیے وہ انسانوں سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ باہمی تعلقات کی مضبوطی کے ذریعے ایک مثالی معاشرہ قائم کریں۔ انسان میں ظلم کا عنصر اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب اس کا دل میں ہوس اور لالچ پیدا ہوجائے۔ ایسے میں وہ اپنی موجودہ مِلک پر اکتفا کرنے کے بجائے اس میں اضافے کے لیے ہر وہ راستہ اختیار کرتا ہے جو اس کی مِلک میں اضافے کا باعث بنے۔ ایسے میں جب انسان اپنی حدود سے نکل کر دوسرے کے مال، جان اور عزت کے پیچھے پڑے گا تو یہ پورا نظامِ زندگی تباہ و برباد ہوجائے گا۔ انسان سے انسانی وصف ختم ہوجائے گا۔ انسان جانوروں سے بھی ابتر حالت میں ہوگا۔ ایسے میں اس کے سامنے سے پوری دنیا اوجھل اور صرف اپنی ذات ہی مرکزِ نظر ہوگی۔ جب انسان میں خودغرضی کا عنصر پیدا ہوتا ہے تو وہ پھر کسی کو نہیں دیکھتا، اسے کسی کے حق کی فکر نہیں ہوتی، اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کے کسی فعل سے کس کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایک خودغرضانہ زندگی بالآخر انسان کو تباہی کی طرف لے جائے گی اور لامحالہ یہ تباہی صرف اس ایک شخص کی نہیں بلکہ پورے معاشرے اور دنیا کی تباہی ہوگی۔ اس لیے اللہ نے ظلم کے عام ہونے کو اِس دنیا کے اختتام کی علامت کے طور پر ہمیں بتایا ہے۔ 
عموماً ظلم کو صرف انسانوں کے ساتھ خاص کیا جاتا ہے کہ کوئی انسان کسی پر ظلم کررہا ہے۔ کسی کا حق مار رہا ہے۔ لیکن علماء نے اس کے علاوہ بھی ظلم کی درج ذیل اقسام کا ذکر کیا ہے۔ 
1۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق ظلم:
اس کی سب سے بڑی قسمیں کفر، شرک اور نفاق ہے، کیونکہ مشرک اللہ کا حق مخلوق کو دیتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ترجمہ) ’’یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ (لقمان: 31۔13)
ایک اور مقام پر ارشاد ہے: (ترجمہ) ’’اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے؟ ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور گواہ شہادت دیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ گھڑا تھا۔ سنو! خدا کی لعنت ہے ظالموں پر۔‘‘ (ہود:11/ 18)
2۔ لوگوں پر ظلم:
جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) ’’برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پھر جو کوئی معاف کردے اور اصلاح کرے اُس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الشوریٰ: 42/ 40)
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) ’’ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ (الشوریٰ: 42/42)
3۔ اپنی جان پر ظلم:
ارشادِ باری تعالیٰٰ ہے: (ترجمہ) ’’پھر ان میں بعض اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘ (الفاطر: 35/ 32) اور فرمایا: (ترجمہ) ’’میں نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کرڈالا۔‘‘ (القصص: 28/ 16)
ان تینوں قسموں میں درحقیقت انسان اپنے آپ پر ہی ظلم کرتا ہے کیونکہ ان سب کا وبال اس کی جان پر ہی پڑنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے۔‘‘ (الاعراف: 7/ 160)
ان تین اقسام سے واضح ہوگیا کہ ظلم ایک وسیع معنی اور مفہوم رکھتا ہے۔ پہلی قسم اللہ تعالیٰٰ کے ساتھ ظلم کی بیان کی گئی ہے کہ بندہ اپنے خالق کے ساتھ ظلم کرے۔ قرآن مجید میں اس ظلم کی مثال شرک اور اللہ کو جھٹلانے سے دی گئی ہے۔ ایک عام سی بات ہے کہ ملازم ہمیشہ اپنے مالک کا ہی حکم مانتا ہے، اگر وہ مالک کا حکم نہیں مانتا تو باغی قرار دے کر قابل سزا ٹھیرتا ہے۔ اسی طرح اس ہستی کا حکم نہ ماننے کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے جس نے صرف انسان ہی نہیں پوری کائنات کو پیدا کیا۔ اب اس مخلوق (انسان) کی کیا حیثیت کہ وہ اپنے خالق کے حکم کی خلاف ورزی کرے۔ اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یقینا ظلم کا مرتکب ہورہا ہے۔ اس لیے کہ اس کائنات میں اگر کوئی عبادت کے لائق ہے تو وہی خالق ہے جس نے پوری کائنات کو پیدا کیا۔ 
دوسری قسم وہ ہے جو ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں۔ ایک انسان دوسرے پر ظلم کا مرتکب ہورہا ہے۔ ایک دوسرے کا حق مارا جارہا ہے۔ کسی کی زمین پر قبضہ کرلیا، کسی کی جائداد پر۔ کسی پر جھوٹا الزام لگا کر سزا دلوا دی،کسی کو زور زبردستی اپنے حق سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ یہ وہ بڑے مظالم ہیں جو انسان اپنی طاقت اور جاہ و جلال کی بنیاد پر کرتا ہے۔ دنیوی طاقت کی بنا پر انسان یہ بات بھول جاتا ہے کہ کوئی زبردست ہستی بھی ہے جو اس کے اعمال کو دیکھ رہی ہے اور وہ انسان سے اس کے اعمال کا جواب طلب کرکے سزا اور جزا کا فیصلہ کرے گی۔ اس کے علاوہ دوسری صورت چھوٹے چھوٹے معاملات میں کسی کی حق تلفی اور ظلم کرنا ہے، چاہے وہ حق کسی معاملے میں پہل کا ہی کیوں نہ ہو۔ ہم اکثر مواقع پر ایسے چھوٹے چھوٹے مظالم کا ارتکاب کررہے ہوتے ہیں اور ہمیں اس کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔ المیہ یہ ہے کہ اب ظلم کو ظلم نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے اپنا حق سمجھ لیا جاتا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس کسی نے کسی کی ایک بالشت برابر زمین ہتھیاکر بھی اس پر ظلم کیا تو اللہ تعالیٰ کی طر ف سے روزِ حشر اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم) 
اس حدیث سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ چاہے کتنا ہی معمولی حق کیوں نہ مارا ہو، انسان کو روزِ حشر اس کا جواب ضرور دینا اور اس کا عذاب چکھنا ہوگا۔ آج ہم زمینوں کے بٹوارے یا تعمیرات کے دوران اکثر اپنی حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں، اور اس بات کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے کہ ہم کتنا بڑا گناہ کر رہے ہیں۔ اس حدیث سے اس کی سنگینی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہیں روزِ قیامت حق والوں کے حق ضرور ادا کرنے ہوں گے حتیٰ کہ بغیر سینگوں والی بکری کو سینگوں والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا‘‘ (مسلم)۔ اس حدیث سے اندازہ کریں کہ جانوروں کی مثال دے کر ظلم کی قباحت کو بیان کیا گیا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ خود مظلوم کی دادرسی کرتے ہوئے اس کو حق دلانے کے لیے موجود ہوں گے۔ بھلا اس دن کون ہوگا جو خالقِ کائنات کے سامنے کچھ کہہ سکے! 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص پر بھی اپنے بھائی کا اُس کی عزت یا اُس کی کسی چیز کے متعلق کوئی حق تلفی کا بوجھ ہو اسے چاہیے کہ وہ آج ہی اس سے عہدہ برآ ہوجائے، اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جب کوئی دینار ہوگا نہ درہم۔ اگر اس شخص کے نیک عمل ہوئے تو وہ (صاحبِ حق کو دینے کے لیے) اس کے ظلم کے مطابق لے لیے جائیں گے، اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں تو پھر صاحبِ حق کی برائیاں لے کر اس پر لاد دی جائیں گی۔‘‘ (بخاری)
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ دیوالیہ اور مفلس کون ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: ’’مفلس ہمارے یہاں وہ شخص کہلاتا ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہ کوئی سامان۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’میری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا اور اسی کے ساتھ اُس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا، تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی، پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں گھسیٹ کر پھینک دیا جائے گا۔‘‘ (مسلم)
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل ضرور دیتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جو چاہے کرے۔ اسے اِس دنیا میں بھی اپنے ظلم کا حساب دینا ہوگا اور آخرت میں کوئی راہِ فرار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مظلوم کی آہ و زاری کو انتہائی اہمیت دی ہے اور اس کے متعلق فرمایا کہ مظلوم کی بددعا اور اس کی قبولیت کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں۔ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ مظلوم کو خود ظالم سے اس کا حق دلوائیں گے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’'بیشک اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل اور مہلت دیتارہتا ہے، اور پھر جب پکڑتا ہے تو اسے نہیں چھوڑتا۔‘‘ پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی: (ترجمہ) ’’اور اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے۔ وہ بستی والوں کو پکڑتا ہے جب کہ وہ ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یقینا اس کی پکڑ نہایت دردناک ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
بلاشبہ ظلم نہایت قبیح فعل ہے۔ اس کا تعلق جہاں اللہ، بندوں اور اپنی ذات سے ہے وہیں اس کے اثرات بھی براہِ راست معاشرے کو متاثر کرتے ہیں۔ ظلم جہاں انسان کی اپنی ذات کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا وہیں معاشرے میں بھی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ ظلم بڑھنے سے عام افراد میں بھی باغیانہ روش پیدا ہوگی اور وہ معاشرہ کے نظام کو تباہ کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔ اس لیے معاشروں کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ وہاں عدل و انصاف کا نظام قائم ہو۔ اگر عدل و انصاف کی جگہ ظلم کا دور دورہ ہو تو کوئی بھی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔ 

0 comments: