خائن کو امین اور امین کو خائن سمجھا جائے گا ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Saturday, February 16, 2019

خائن کو امین اور امین کو خائن سمجھا جائے گا

عابد علی جوکھیو

ازل سے فطرتِ انسانی کے مطابق ہر معاملے میں چند معیار مقرر ہیں۔ یعنی سچ ایک مسلّم حقیقت ہے اور معیار یہی کہتا ہے کہ سچ کا ہی بول بالا ہونا چاہیے، اور اس کے مقابل جھوٹ ہمیشہ سے ناپسندیدہ رہا ہے اور جھوٹے کو معاشرے میں کوئی اہمیت و مقام نہ ملنا بھی معیار کے عین مطابق ہے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ خیانت کرنے والا اور امانت دار برابر نہیں ہوسکتے۔ خائن ذلیل اور امانت دار عزیز ہے۔ لیکن جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے کہ معاشرے کے خائنین کو امانت دار، اور امانت داروں کو خائن سمجھا جائے تو معاشرے کا توازن برقرار نہیں رہ سکے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ معاشروں میں افراد کے ذاتی اختلافات کے باوجود امانت داروں کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ اگر ایک فرد کسی دوسرے کے خیال و افکار کو پسند نہیں بھی کرتا یا اُس سے کسی اور طرح کے اختلافات ہوں، لیکن اپنے ذاتی اختلافات کے باوجود امانت دار کو اس کی حیثیت اور مقام دینا اس کے لیے لازم تھا۔ اس کی واضح مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ذاتِ اقدس ہے کہ کفار، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے نظریات پر اختلاف رکھنے کے باوجود ان کو نہ صرف امانت دار مانتے تھے بلکہ ان کے پاس اپنی قیمتی اشیاء بطور امانت بھی رکھواتے تھے۔ امانت رکھواتے ہوئے ان کو اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنے مخالف کے پاس امانتیں رکھوا رہے ہیں۔ 
 آج کل ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ ہمارے معاشرے کے معیار تبدیل ہوچکے ہیں۔ اچھے برے کی تمیز اور شعور ہونے کے باوجود لوگ صرف اپنی دنیا بنانے کے لیے جھوٹ کو سچ، حلال کو حرام اور جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹے بنانے اور ماننے میںکوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا… اور کون امین ہے اور کون خائن… لیکن اس کے باوجود انسان ان حقیقتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف اپنے دنیوی فائدے کو دیکھتا ہے۔ 
ووٹ ایک امانت ہے، علماء کے فتوے بھی اس حوالے سے موجود ہیں، لیکن ہمارے معاشرے میں ووٹ دیتے وقت اس کی اہمیت اور تقاضوں کو بالکل بھی مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ ووٹ کے حوالے سے فتویٰ ہے کہ ایسے شخص کو ووٹ دیا جائے جو امین ہو، سچا ہو، دیندار ہو… لیکن ہم ووٹ دیتے وقت ان باتوں کا بالکل بھی خیال نہیں رکھتے۔ ہمارے سامنے اہل اور ایماندار افراد بھی موجود ہوتے ہیں اور ہم ان کی امانت اور صداقت کے بھی قائل ہوتے ہیں، ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کھرے انسان ہیں، دین دار ہیں، راست باز ہیں… لیکن ان تمام صفات کے باوجود ہم ایک ایسے فرد کو ووٹ دیتے ہیں جس میں یہ صفات موجود نہیں ہوتیں۔ ہم جان بوجھ کر ایسے شخص کو ترجیح دیتے ہیں جو ہمارے دنیوی مفادات کو حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہو، جو برائی میں ہماری معاونت کرسکتا ہو، جس کے ذریعے ہمارے دو نمبر کام بھی ہوجائیں۔ 
ایسے میں ہم قیامت کی اسی علامت کے مطابق ہی کررہے ہوتے ہیں کہ ایک خائن کو ایماندار اور ایماندار کو خائن تصور کررہے ہوتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ ہم اپنے ووٹ کے ذریعے خائن کو امانت داری کی سند دے رہے ہوتے ہیں اور دوسری جانب ایماندار شخص کو ووٹ نہ دے کر خائن کو اس پر ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایماندار شخص کو ان معنوں میں بھی خائن تصور کررہے ہوتے ہیں کہ اس سے تو ہمیں کوئی دنیوی فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ خائن اس لیے بھی ہوگا کہ دنیا کے چلن اور تصور کے مطابق کام کرنے کا اہل نہیں، وہ خائن اس لیے بھی ہوگا کہ میرے ناجائز دنیوی مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتا، وہ خائن اس لیے بھی ہے کہ مجھ سے وفادار نہیں۔ 
اگر دنیا کے معیار اسی طرح تبدیل ہوجائیں تو بتائیے کہ یہ دنیا کیسے قائم رہ سکتی ہے؟ اس معیار کے مطابق ہر حقیقت جھوٹ بن جائے گی۔ ہر اچھا کام برا اور برا اچھا بن جائے گا۔ بلکہ برائی کا ہی بول بالا ہوگا، برائی کا ہی راج ہوگا۔ فاسق و فاجر ہی اس دنیا پر حکمرانی کررہے ہوں گے۔ معاشرے کے بدترین افراد ہی معاشرے کے معزز افراد بن جائیں گے۔ جو جتنا زیادہ برا اور اللہ کا باغی ہوگا وہ اتنا ہی معزز قرار پائے گا۔ اگر دنیا اسی معیار کے مطابق چلے تو یہ چلن زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا۔ کیونکہ فطرت ہی حقیقت ہے، سچ ہی اعلیٰ و ارفع ہے، صادق و امین ہی معزز ہیں، اور ایسے ہی معیار اور افراد سے نظامِ زندگی عدل و انصاف کے ساتھ چل سکتا ہے۔ اگر نظامِ دنیا کی ڈوریں فاسق و فاجر افراد کے ہاتھوں میں ہوں گی تو اس دنیا کا نظام تباہ و برباد ہوجائے گا۔
جیسا کہ ہم گزشتہ مضامین میں بیان کرچکے ہیں، امانت ایک وسیع مفہوم کی حامل اصطلاح ہے۔ اس میں انسان کے پاس جسم، وقت اور رائے سے لے کر حکمرانی تک شامل ہے۔ اس لیے اس کی اہمیت کے پیش نظر امانت کے ضیاع اور خائنین کی حکمرانی کو علاماتِ قیامت میں شامل کیا گیا ہے۔ امانت کے حوالے سے ہم پہلے بھی احادیث بیان کرچکے ہیں، یہاں مختصراً دو احادیث تذکیراً بیان کی جارہی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں کچھ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی آیا اور پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گفتگو جاری رکھی اور فوری جواب نہ دیا۔ بات مکمل کرنے کے بعد پوچھا: وہ سائل کہاں ہے؟ اعرابی نے کہا: میں یہاں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ اعرابی نے پوچھا: ’’امانت کا ضیاع کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب معاملات، مناصب غیر اہل لوگوں کے سپرد کردیے جائیں۔‘‘ (صحیح بخاری)
اس حدیثِ مبارکہ میں امانت کے وسیع مفہوم کو سامنے رکھ کر بیان کیا گیا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بھی امانت سے تعبیر کیا ہے اسی طرح اللہ نے اس دنیا میں انسانوں کو عطا کی ہوئی حکمرانی کو بھی امانت قرار دیا ہے۔ معاملات، مناصب اور امارت کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اہل اور دیندار افراد کو دیئے جائیں۔ اگر انسان اللہ کے بنائے ہوئے اس نظام سے بغاوت کرکے خود نااہل افراد کے ہاتھوں میں مناصب اور امارتیں دیں گے تو نتیجتاً یہ نظام بگڑ جائے گا اور دنیا اپنے اختتام کی طرف چلی جائے گی۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک اور حدیث مروی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو ہلاکت میں ڈالنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے حیا چھین لیتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ لوگوں میں نفرت و بیزاری کا نشانہ بنتا ہے۔ جب وہ نفرت کا نشانہ بن جاتا ہے تو اس سے امانت چھین لیتا ہے۔ پھر وہ خائن بن جاتا ہے، اور جب خائن بن جائے تو اس سے ’’رحمت‘‘ کی صفت چھین لی جاتی ہے جس کے سبب وہ دھتکارا ہوا اور ملعون شخص بن جاتا ہے، اور جب ایسا ہوجائے تو اُس کے گلے سے اسلام کا ہار نکال لیا جاتا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
اس حدیث میں لطیف نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ خائن سے اللہ رحمت کی صفت چھین لیتا ہے، یعنی خائن کبھی بھی رحیم نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ انسانوں اور اللہ کے ساتھ بغاوت کا مرتکب ہورہا ہے، انسانوں کی حق تلفی کررہا ہے۔ وہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا فرق نہیں کرتا، اس لیے اس سے لطف و رحم کا مادہ چھین کر اسے انسانوں کی نظروں میں دھتکارا ہوا اور ملعون بنادیا جاتا ہے۔ 
کسی بھی چیز کو اس کے اصل مقام اور مرتبے پر نہ رکھنا ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی لیے جب انسانوں کو بھی اُن کے اصل مقام و مرتبے کے مطابق حیثیت نہ دی جائے تو یہ بھی ظلم ہوگا۔ اسی ظلم کو قیامت کی نشانی بھی بتایا گیا ہے۔ مذکورہ علامتِ قیامت میں خائن کو امین اور امین کو خائن سمجھنا بھی ظلم کی ہی مثال ہے۔ اگر کوئی شخص حقیقتاً امین ہے، اس کا ہر فعل اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ہے لیکن پھر بھی ہم ایک خائن کو اُس پر ترجیح دیں تو یہ ظلمِ عظیم کہلائے گا۔ ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم وہ باتیں جان لو جو میں جانتا ہوں تو زیادہ رویا کرو اور کم ہنسا کرو۔ نفاق ظاہر ہوجائے گا۔ امانت اٹھا لی جائے گی۔ رحم کا مادہ چھین لیا جائے گا۔ امانت دار لوگوں پر الزام لگائے جائیں گے اور خائن کو امین بنایا جائے گا۔ ایسے وقت میں تم پر فتنے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے۔‘‘ (ابن حبان)
مطلب یہ کہ ظلم کا نظام اپنے عروج پر ہوگا۔ ہر طرف نفاق ہی نفاق ہوگا۔ لوگوں کے دلوں میں ایک بات ہوگی اور زبانوں پر دوسری۔ امانت و امارت کا جو تصور اسلام نے دیا ہے وہ ناپید ہوجائے گا۔ مناصب نااہل لوگوں کو دیے جائیں گے۔ انسانوں کے دلوں سے رحم و الفت کا مادہ چھین لیا جائے گا۔ لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں گے۔ کسی کے دل میں دوسرے کے لیے خیرخواہی کا جذبہ نہ ہوگا۔ جو لوگ حقیقتاً معاشرے کے نیک لوگ ہوں گے، امانت دار ہوں گے اُن پر جھوٹے الزامات لگا کر دنیا کو اُن سے بدظن کیا جائے گا، اور ایسے لوگوں کو مناصب سے ہٹاکر یہ مناصب خائنین اور نااہل افراد کے حوالے کیے جائیں گے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا کا نظام بگڑ جائے گا، ہر طرف حیوانیت اور فساد نظر آئے گا، اور حق پرستوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں گے۔ ہر طرف سے کوئی نہ کوئی فتنہ سر اٹھاتا نظر آئے گا۔ ایسے حالات میں جان تو اپنی جگہ، اپنا ایمان تک بچانا مشکل ہوجائے گا۔ ان حالات میں دنیا کا وجود خطرے میں پڑجائے گا۔ مسلمانوں کو بتایا گیا کہ جب تم ایسے کام ہوتے ہوئے دیکھو تو قیامت کا انتظار کرو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں، آمین۔

0 comments: