کابل (این ٹی ایس رپورٹ)افغان طالبان نے کہا ہے امریکا کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہو رہی ہے تاہم تاحال فریقین کے درمیان کسی معاہدے یا معاہدے کے مسودے پر اتفاق نہیں ہوا ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان اور امریکا کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کا دور دو دن کے وقفے کے بعد ہفتہ کو شروع ہوا تھا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں فریقین کے درمیان بات چیت قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ زیرِ بحث معاملات انتہائی اہم اور حساس نوعیت کے ہیں اس لیے مذاکرات کو بہت دیکھ بھال کے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی کہا ہے کہ جنوری میں ہونے والی بات چیت میں افغانستان سے ’قابض طاقتوں‘ کے انخلا اور اس ملک کو دوبارہ دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے دینے پر اتفاقِ ہوا تھا اور مذاکرات کے اس دور میں ان دونوں معاملات کی نوعیت اور تفصیلات پر بات چیت جاری ہے۔انھوں نے واضح کیا کہ تاحال فریقین کے درمیان کسی معاہدے کی دستاویز یا معاہدے پر کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہوا ہے۔خیال رہے کہ ہفتہ کو شروع ہونے والے مذاکرات سے قبل گذشتہ پیر سے مذاکرات کا تین روزہ دور منعقد ہوا تھا۔مذاکرات کے دوبارہ آغاز پر امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد نے اپنیٹویٹ میں کہا تھا کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ہونے والی یہ بات چیت سست روی سے مگر مستحکم طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اتفاقِ رائے اور حتمی طور پر افغانستان میں امن کے لیے آہستگی سے قدم بڑھائے جا رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فریقین چار کلیدی معاملات پر توجہ مرکوز رکھیں گے جن میں افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا، القاعدہ اور داعش کے خلاف جنگ میں طالبان کا تعاون، جنگ بندی اور افغان حکومت سمیت تمام دھڑوں کی بات چیت میں شمولیت شامل ہیں۔طالبان نے اب تک کابل میں افغان حکومت کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنے سے انکار کیا ہے اور اْن کا موقف ہے کہ افغان حکومت صرف ایک کٹھ پتلی حکومت ہے۔اس ماہ کے آغاز میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ وہ طالبان کے ملک کے کسی بھی شہر میں دفتر کھولنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم طالبان نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ عالمی برادری دوحہ میں موجود طالبان کے دفتر کو تسلیم کرے۔کابل میں کچھ حلقوں میں اس حوالے سے ناراضگی پائی جاتی ہے کہ افغان طالبان افغان حکومت سے بات چیت کرنے پر راضی نہیں بلکہ وہ صرف امریکا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ذرائع کے مطابق طالبان اور امریکا کے درمیان جس معاہدے پر بات ہو رہی ہے اس کے تحت غیر ملکی افواج ایک مقررہ مدت (18 ماہ) کے اندر افغانستان سے نکل جائیں گی، افغان طالبان کو بلیک لسٹ سے ہٹا لیا جائے گا جس سے ان پر عائد سفری پابندیاں ختم ہو جائیں گی اور قیدیوں کا تبادلہ بھی ہو گا۔نیز طالبان اس بات کی ضمانت بھی دیں گے کہ افغانستان میں داعش یا القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا نہیں ہوں گی۔خیال رہے کہ 2014 میں بین الاقوامی فوجوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد سے اس ملک میں طالبان کے اثر و رسوخ اور زیرِ کنٹرول علاقے میں اضافہ ہوا ہے اورایک اندازے کے مطابق افغانستان کی تقریباً نصف آبادی، یعنی ڈیڑھ کروڑ لوگ طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں آباد ہیں۔
0 comments:
Post a Comment