وقاص معین
احمد اور علی ایک ہی گاوں میں،ایک ہی سکول میں اور ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ احمد کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ احمد کا گھرانہ جتنا زیادہ غریب تھا احمد اتنا ہی پڑھائی میں اور اخلاق میں سب سے آگے تھا۔ وہ ہر ایک کا ہمدرد اور پڑھائی میں دوسرے بچوں کی مدد کرنے والا بچہ تھا۔ وہ اپنے بڑوں کی عزت کرتا اور چھوٹوں سے پیار کرتا تھا غرض یہ کہ احمد ہر ایک کی آنکھ کا تارہ بنا ہوا تھا۔ جب کہ علی اس کے برعکس تھا۔علی کے گھر میں پیسہ جائیداد کی کوئی کمی نہیں تھی، کمی تھی تو علی کی اچھی تربیت اور اخلاق کی۔ وہ ا سکول میں بچوں کو تنگ کرتا، طرح طرح کی شرارتوں سے دوسروں کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتا اور امتحان میں بھی نقل کرکے بمشکل ہی پاس ہوتا تھا جب کہ احمد ہرامتحان میں اول آتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے علی احمد سے حسد کرنے لگا تھا جب کہ احمد کے دل میں ایسی کوئی بات نہ تھی وہ علی کو بھی ویسے ہی سمجھتا تھا جیسے دوسرے لڑکوں کو سمجھتا تھا۔
وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ میٹرک کے امتحان شروع ہوگئے احمد نے دل لگا کر خوب محنت کی۔ علی ہر وقت نقل کرنے کے منصوبے بناتا رہتا اور امتحان میں پاس ہونے کے لیے طرح طرح کی ترکیبیں سوچنے میں سارا وقت ضائع کرتا۔ بالآخر اللہ اللہ کر کے امتحان ختم ہوئے اب دونوں کو رزلٹ کا انتظار تھا۔ رزلٹ آیا تو احمد اچھے نمبر لے کر پاس ہو گیا جب کہ علی بری طرح سے فیل ہو گیا۔ علی کے باپ نے علی کو خوب ڈانٹا اور اپنے گھر کے جانوروں کی دیکھ بھال پر لگا دیا، اس کے والد نے اس کا آگے پڑھنا بند کر دیا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ جانوروں کی دیکھ بھال کرے اسی وجہ سے وہ تھوڑا باغی ہو گیا تھا۔ گھر سے رات دیر تک غائب رہنا اور غلط لوگوں سے اٹھنا بیٹھنا اس کا معمول بن چکا تھا۔ جب کبھی اس کا باپ اس کی اصلاح کرنے کی بات کرتا تو الٹا اسی کو برابھلا کہنے لگ جاتا۔ وہ اپنے باپ کی قدر و منزلت بھول چکا تھا اسے باپ کی عزت کا کوئی خیال نہ تھا۔ بے خبر کیا جانتا تھا کہ جو وہ اپنے باپ کے ساتھ کر رہا ہے وہیں کچھ کل اس کے بچے اس کے ساتھ کرنے والے ہیں۔
ادھر احمد جو سب گھر والوں کی آنکھ کا تارہ بنا بیٹھا تھا قسمت نے احمد کا ساتھ دیا اور وہ ترقی کی بلندیوں کو چھو تا چلا گیا۔ ارے نہیں نہیں قسمت نہیں اس کی محنت لگن اور اعلی اخلاق نے اسے اس منزل تک پہنچایا ہے۔ احمد کے والدین نے ایک اچھے گھرانے میں احمد کی شادی کردی لڑکی بھی خوب اچھے اخلاق کی مالک تھی۔ اس نے احمد کے والدین کی خوب خدمت کی غرض یہ کہ جیسا احمد تھا ویسے ہی اسے لڑکی ملی۔
دوسری طرف علی کے باپ نے بھی سوچا کی شاید علی کی شادی کرنے سے یہ سدھر جائے۔ علی کے باپ نے علی کے لیے لڑکی ڈھونڈنا شروع کر دی مگر قدرت تو بدلہ لے کر ہی رہتی ہے۔ علی کی بدتمیزی والدین سے دن بہ دن بڑھنے لگی۔ روز اپنے باپ کو گالیاں دینا بدتمیزی سے پیش آنا اس کے روز کا معمول بن چکا تھا۔ اب تو اس کے والدین بھی علی سے ڈرنے لگے تھے۔آخرکار اس کے والدین نے علی کی شادی کروادی اور کچھ زمین جائیداد اس کے نام کروا دی تاکہ وہ کچھ ذمے داری بھی سنبھال سکے اور یہاں علی دن بدن بگڑتا چلا گیا۔ اب تو اس نے شراب پینا بھی شروع کردی طرح طرح کے نشہ میں ڈوبا علی آئے دن گھر سے غائب رہنے لگا۔ رات کو گھر آکر بیوی سے لڑتا جھگڑتا اسے مارتا پیٹتا۔ کبھی کبھی اس کا باپ سمجھانے آجاتا تو اس پر بھی ہاتھ اٹھا دیتا۔ علی نے اپنی زمین تھوڑی تھوڑی کرکے بیچنا شروع کردی اور پیسہ سارا نشے پہ اڑا دیا۔ اب اس کے پاس صرف ایک گھر بچا تھا اور چند ایک جانور جس کا دودھ اس کی بیوی محلہ داروں کے ہاں بیچ دیتی اور اپنے گھر کا خرچہ چلاتی تھی۔ شادی کے ایک سال بعد اللہ نے ان کو چاند سا بیٹا عطا کیا جس کا نام انہوں نے رضاعلی رکھا ماں اپنا سارا غم بھلا کر بیٹھے کی پرورش میں لگ گئی۔اس نے باپ کا سایہ بھی اس پر پڑنے نہ دیا جبکہ علی کی عادتیں ویسی ہی تھی جیسی پہلے تھی۔ ان کا بیٹا بڑا ہوتا گیا اور اپنی ماں پر ہوتے ستم برداشت نہ کر پاتا ماں کو روتا دیکھ کر باپ کو دل ہی دل میں برا بھلا کہتا۔ چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے باپ کے آگے کچھ بولے۔
وقت بڑی تیزی سے آگے جا رہا تھا کہ ان کے بیٹے نے اچھی تعلیم حاصل کر لی اور ایک اچھی کمپنی میں سپروائزر کی جاب مل گئی۔ کمپنی نے رضا علی کو رہنے کے لیے اچھا گھر اور آفس آنے جانے کے لیے اچھی گاڑی بھی آفر کی۔اب رضا جلد از جلد اپنی ماں کو اپنے باپ سے بچا کر اپنے پاس لانا چاہتا تھا۔ کئی بار تو اس کے باپ نے منع کیا مگر رضا اپنے باپ کے مخالف کھڑا ہوگیا اورخوب لعن طعن کے بعد آخر رضا نے اپنے باپ پر ہاتھ اٹھا دیا۔ اس کا باپ سہم گیا کہ اس کے اولاد نے اس پر ہاتھ کیسے اٹھایا؟ وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہوا کے دیکھو دیکھو اپنی پرورش کا نتیجہ کیسے اپنے باپ پر ہاتھ اٹھایا ہے اس نے۔ ایسی پرورش کی تو نے اس کی؟ ایسی اولاد سے تو بے اولاد ہونا زیادہ بہتر تھا۔ ابھی علی اپنی بیوی کو ڈانٹ ہی رہا تھا کہ علی کا باپ آ گیا اور اس نے اپنے بیٹے علی سے کہا بیٹا اس میں تیری بیوی کا کوئی قصور نہیں ہے اور نہ ہی رضا کا کوئی قصور ہے۔ کبھی آپ نے نوٹ کیا کہ ہم فصلوں میں کیا اگاتے ہیں اور کیا کا ٹتے ہیں؟ کبھی ایسا ہوا ہے کہ تم نے کبھی کپاس کا بیج ڈالا ہو فصل میں اور اس میں سے گندم کاشت کی ہو؟ یا کبھی تم نے باجرہ کا بیج ڈالا ہو اوراس میں سے مکئی کاشت کی ہو؟
نہیں نا ایسا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔ ذرا سوچو یہ تمہارے اپنے ہی کرتوت ہیں جو تمہیں اس منزل تک کھینچ لائے ہیں۔ جو تم نے میرے ساتھ کیا تھا دیکھو تمہاری اولاد تمہارے ساتھ بھی ویسا ہی کر رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان وہی کچھ کاٹتا ہے جو اس نے بویا ہوتا ہے۔ قدرت تو اپنا بدلہ لے کر ہی رہتی ہے۔ اب علی کو اپنے باپ کی باتوں کی سمجھ آ گئی تھی اس نے اسی وقت اپنے باپ کے قدموں میں گر کر معافی مانگی اور اپنے کیے کی توبہ کی اپنی بیوی اور اپنے بیٹے کو گلے سے لگا لیا۔ اب علی اپنے باپ،بیٹے اور بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگاتھا۔ سچ کہتے ہیں کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment