عالم اور قاری بد کردار ہوں گے … ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Tuesday, March 19, 2019

عالم اور قاری بد کردار ہوں گے …


عابد علی جوکھیو

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی اور ان کی قیادت کے لیے ایک پورا نظام تیار کیا ہے۔ اسی نظام کے تحت اللہ نے انسانوں کی بھلائی اور رہنمائی کے لیے بعثتِ انبیاء ؑ کی ایک طویل سلسلہ جاری کیا۔ انبیاء کی بعثت کا اصل مقصد یہی تھا کہ وہ انسانوں کو ان کے مقصد وجود سے آشنا کریں، انہیں اپنے رب سے جوڑیں، بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر ایک اللہ کی غلامی میں لائیں، انسانوں کو اس جہاں میں زندگی گزارنے کا طریقہ بتائیں، انسانوں کو حلال و حرام سے آگاہ کریں، ان کے اخلاق کو بہترین بنائیں۔ انسانوں اور جانوروں کے طرز زندگی اور نظام میں فرق واضح کریں، انسانوں پر عائد ہونے والے فرائض سے آگاہ کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ 
اللہ تعالیٰ نے ان کاموں کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو مبعوث فرمایا۔ ان سب کی اصل تعلیم یہی تھی کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور ان کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ تاریخ انسانی میں ہمیں یہ بات واضح طور پر ملتی ہے کہ انبیاء کی وفات کے بعد اس عظیم کام کو ان سے تربیت حاصل کرنے والے افراد نے ہی سرانجام دیا۔ ان لوگوں کو مختلف ادوار میں مختلف ناموں مثلاً احبار، ربی وغیرہ سے موسوم کیا جاتا رہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا وارث یا جانشین علماء کو قرار دیا۔ امت محمدیہ کے علماء بھی دراصل اسی کام میں ذمہ دار ہیں جس کے پچھلی امتوں کے احبار اور ربیوں ذمہ دار تھے۔ اب چونکہ سابقہ تمام شریعتیں منسوخ ہوگئیں اس لیے احبار یا رِبی کی اصطلاح کو بھی ترک کردیا اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے وارثین کو علماء کا لقب دیا اسی لیے شریعتی محمدیؐ میں عالم کا درجہ انتہائی قدر و منزلت کا حامل ہے۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں۔  اور انبیاء کسی درہم و دینار کے وارث نہیں بناتے، وہ تو بس علم کا وارث بناتے ہیں جس نے یہ علم حاصل کرلیا اس نے بھرپور حصہ پایا۔‘‘ (ابوداؤد) اس حدیث سے معاشرے میں علماء کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ علماء کو انبیاء کو وارث بنانے کی اصل وجہ وہ علم ہے جو ان کو انبیاء کے ذریعے پہنچا ہے تاکہ وہ اس علم کے ذریعے اپنی اور عامۃ الناس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اس لیے معاشرے میں علماء کی بھاری ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے مقام اور مرتبے کو سمجھتے اور اس کا احساس کرتے ہوئے معاشرے میں بہترین تبدیلی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ انہی علماء کی مثال اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی بیان کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کیا علم رکھنے والا اور علم نہ رکھنے والا برابر ہو سکتے ہیں۔‘‘ (الزمر 9) یعنی جو لوگ شریعت کا علم رکھتے ہیں وہ مقام اور مرتبے کے لحاظ سے بھی ان لوگوں سے کئی گنا اعلیٰ ہونگے جو علم نہیں رکھتے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبر دار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے ) پرہیز کرتے۔‘‘ (التوبہ 122) اس آیت میں بھی علماء کی ذمہ داری بتائی گئی ہے کہ وہ علم سیکھ کر واپس اپنی بستیوں میں جائیں اور وہاں کے عوام کو دین سے آشنا کریں۔ انہیں عبادت کا طریقہ بتائیں، حلال و حرام کی تمیز سکھائیں، اسلامی طرز معاشرت سکھائیں اور سب سے اہم کہ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کا فن سکھائیں۔ یہ اور اس طرح کی کئی آیات اور احادیث علماء کی ذمہ داریاں بتاتی ہیں۔ یہ ذمہ داریاں دیکھ کر ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیا گیا۔ بلاشبہ دنیوی انسانی مراتب میں سب سے بڑا اور اہم مرتبہ انبیاء کا ہی ہے جن پر براہ راست اللہ کا کلام اترا اور ان میں سے بعض نے اللہ سے کلام بھی کیا۔ ان کو جنت اور جہنم کی سیر کرائی گئی اور انہیں مافوق الفطرت امور کا بھی علم دیا گیا۔ کسی کا اتنی بڑی اور اعلیٰ و ارفع مقام کی حامل ہستی کا جانشین ہونا خود ایک اعزار اور مرتبے کی بات ہے۔ ہم خود اپنی زندگی کی ہی مثال لے لیں، ہمارے دفتر، گھر یا کسی بھی اجتماعی معاملے میں اگر ہمیں کسی کا نائب یا خلیفہ بنایا جائے تو ہماری اپنی کیا کیفیت ہوتی ہے، حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ حیثیت محض تھوڑی دیر یا چند دن کے لیے ہی ہوتی ہے۔ اب ذرا اندازہ کیجیے کہ انبیاء کی نیابت خود کتنے بڑے فضل کی بات ہے۔  
ہم اپنے گزشتہ مضامین میں اس بات تذکرہ کر چکے ہیں کہ انسان کا جتنا بڑا مقام اور مرتبہ ہوتا ہے اس کے مقابلے میں اسے اسی قدر آزمائشوں اور تکلیفوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ جہاں علماء کا مقام اور مرتبہ ہے اسی طرح آزمائش کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو حق کے ساتھ ادا نہ کرنے پر ان کے لیے سخت وعیدیں بھی سنائی گئیں ہیں۔ اگر علماء اپنی اصل ذمہ داریاں ادا نہ کریں اور وہ بھی علم رکھنے کے باوجود ایسے کام کرنے لگیں جن سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو تو ان سے بدتر کوئی نہیں۔ ایسے علماء کو علمائے سوء سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت احوص ابن حکیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی شخص نے سوال کیا کہ شر کیا ہے؟ آپؐ نے تین بار ارشاد فرمایا: شر کے متعلق نہ پوچھو بلکہ خیر کے متعلق سوال کرو۔ پھر آپؐ نے فرمایا: جان لو! سب سے بڑا شر برے علماء ہیں اور سب سے بڑی خیر اچھے علماء ہیں۔ (الدارمی) یہ حدیث علماء کی حیثیت اور مقام کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ ظاہر ہے جب وہ لوگ جن کے ذمے معاشرے کی اصلاح تھی، ایسے کام کرنے لگیں کو شریعت کے خلاف ہوں، یا ان کے قول اور فعل میں تضاد ہو، جب علماء بھی رشوت، سفارش، زمینوں پر قبضے، دین کے نام پر مساجد و مدارس پر قبضے، مسلکی اختلافات کی بنا پر کسی پر طعن و تشنیع، طنز و مذاق، حتی کی کسی کی جان لینے کو جائز سمجھیں، اپنا طرز زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے برخلاف اپنائیں، ٹھاٹھ بھاٹھ اور متکبرانہ طرز عمل اپنائیں، رحیمیت کا بجائے شدت پر اتر آئیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز زندگی کو صرف زبان کی حد تک اسوہ حسنہ مانیں، اپنے گھروں میں اس کے برخلاف طرز زندگی اپنائیں تو ان کو دیکھ کر معاشرے کے عام لوگ بھی ان تمام کاموں کو اپنے لیے جائز سمجھنے لگیں گے۔ ان کے دل سے جہاں علماء کی قدر و منزلت کم ہوگی وہیں آہستہ آہستہ ان کے دلوں سے اسلام کی محبت کی ختم ہوجائے گی۔ اس لیے جب علماء ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں تو ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر کام کرنے سے پہلے اس بات کو ضرور دیکھیں گے کہ اس کے متعلق شریعت کیا کہتی ہے، قرآنی تعلیمات کیا ہیں، نبی کریمؐ کا طرز عمل کیا تھا اور صحابہؓ نے ایسے مواقع پر کیا کیا تھا۔ کیونکہ اصل ماخذ دین تو قرآن، حدیث ہی ہیں، اس کے بعد اجماع اور قیاس کا درجہ ہے۔ لیکن جہاں صریح قرآن و حدیث کے احکامات موجود ہوں وہاں تو دوسری کوئی رائے کی گنجائش تک نہیں۔ 
علامات قیامت میں علماء اور قُراء کے بدکار ہونے کا ذکر اس بات کی سنگینی بتا رہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا قرآن مجید ہے، جن کا کام ہی دین کی خدمت اور تبلیغ ہے، لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنا ہے، لوگوں کو دین سکھانا ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ قائم کرنے میں علماء کا اہم کردار ہے۔ اسلاف کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے کہ انہوں نے دین اور دنیا کے معاملے میں ہمیشہ دین کو ہی مقدم رکھا ہے۔ کسی کو پابند سلاسل کیا گیا، کسی کو کوڑے مارے گئے، کسی کو جلا وطن کیا گیا لیکن کسی نے بھی حق کو نہیں چھوڑا۔ اسلاف کا یہ اصول تھا کہ وہ کبھی بھی دنیوی معاملات، اعزارات، مراتب اور مال و دولت کو اہمیت نہیں دیتے، حتیٰ کہ امام ابو حنیفہ اور دیگر اسلافؒ نے دین کے خدمت کی اجرت تک کو جائز نہ سمجھا۔ وہ صرف اس لیے کہ کہیں مال و دولت کو دیکھ کر کسی کی نیت خراب نہ ہوجائے یا وہ اپنے اصل مقصد سے ہٹ کر دنیا کے حصول کے لیے تمام کوششیں کرنے لگے۔ جہاں اسلاف کی جانب سے دین کے معاملے میں اتنی سختی اور احتیاط تھی وہیں بعد میں یہ چیز کم ہوتی دکھائی دی۔ اللہ کا فضل ہے کہ آج بھی ہمارے معاشروں میں نیک اور خدا ترس علماء موجود ہیں لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دیگر علامات قیامت کے طرح یہ علامت بھی معاشرے میں پائی جاتی ہے۔ 
آج ہم اپنے معاشرے میں ایسے علماء ضرور دیکھتے ہیں جن کا طرز زندگی شاہانہ ہے، جن کا مطمع نظر دنیا اور پیسہ ہے، دنیوی فوائد کے حصول کے لیے ہر حد کو جانے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ (معذرت کے ساتھ) ایک چھوٹے مدرسے مسجد کے مہتمم کے پاس بھی بڑی بڑی گاڑی یا گاڑیاں ہیں، مسلح محافظ رکھنا ایک فیشن اور معاشرتی مقام و مرتبے کی علامت  بن چکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض علماء تک تو عام افراد کی رسائی بھی ممکن نہیں۔ چند تو ایسے بھی دیکھے جن میں رحماء بینھم کی ذرا بھی رمق نظر نہ آئی۔ سیدھے منہ بات کرنا تک گوارا نہیں، چہرے سے ہی تکبر جھلتا نظر آتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تمام علماء ایسے ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے لوگ علماء کی صفوں کی شامل ہو چکے ہیں جن کا مقصد دین نہیں بلکہ صرف دنیا ہی ہے۔ اور ایسے ہی علماء کے متعلق ایک قول ہے کہ طالب دنیا کو علم پڑھانا راہزن کے ہاتھ تلوار فروخت کرنا ہے۔ ایک اور مقام پر اسے خنزیر کے گلے میں ہار ڈالنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قاری حضرات کے متعلق علامات قیامت میں یہ بھی ذکر ہے کہ وہ قرآن تو بڑی خوش الحانی سے پڑیں گے لیکن یہ قرآن ان کے گلوں تک ہی محدود ہوگا۔ یعنی صرف زبان تک ہی قرآن کا تعلق ہوگا ان کی زندگیوں میں کہیں بھی قرآن نظر نہیں آئے گا۔ یہ تمام احادیث علماء کے مرتبے کو واضح کر رہی ہیں۔ اسی لیے علماء اور قراء کے بدکار ہونے کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ جب معاشرے کی اصلاح کے ذمہ دار بھی بدکار اور دنیا پرست ہوجائیں گے تو ان کا یہ عمل عامۃ الناس کے لیے سند کی حیثیت اختیار کرجائے گا۔ اور لامحالہ معاشرے کی منزل تباہی ہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے علم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق اور علماء سوء سے محفوظ فرمائے۔ آمین

0 comments: