مظفرآباد(این ٹی ایس رپورٹ)لائن آف کنٹرول پر جاری بھارتی جارحیت ،شہری آباد ی پر گولہ باری ، فائرنگ اور ملک میں ہنگامی صورتحال کے تناظر میں آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کا اہم اجلاس سپیکر شاہ غلام قادر کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدرخان ، لیڈر آف دی اپوزیشن چوہدری محمد یاسین ، مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمدخان ، جماعت اسلامی کے سابق امیر عبدالرشید ترابی، سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، تحریک انصاف کے رکن اسمبلی عبدالماجد خان نے علیحدہ علیحدہ قراردادیں پیش کیں ۔ وزیر اعظم آزادکشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے اپنی قرارداد پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ نومبر 1947میں جموں میں دو لاکھ مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ 1971,1965اور 1989کے بعد ہزاروں افراد کو بالخصوص پونچھ ،بارہ مولا ، مقبوضہ کشمیر سے جان بچا کر آزادکشمیر آنا پڑا، مہاراجہ نے دونوں حکومتوں کو معاہدہ قائمہ کی پیشکش کی پاکستان نے تجویز مان لی لیکن بھارت نے نہ مانی ، بھارت طاقت سے آزادکشمیر حاصل کرنا چاہتا تھا۔ 27اکتوبر کو مہاراجہ سے زبردستی الحاق ہندوستان کی دستاویز پر دستخط کرائے گئے، اس پر بھی لکھا گیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہوگا۔ 5جنوری 1949کو باضابطہ جنگ بند ہوئی۔ پاکستان کو نامساعد حالات میں کشمیریوں کو بچانے کے لیے مداخلت کرنا پڑی، 1971میں بھارت کی سازش سے پاکستان کو دولخت کیا گیا۔ دہشت گردی کی جنگ میں 75ہزار سویلین شہید ہوئے ۔ اتنے مشکل حالات کے باوجود وطن عزیز قائم ودائم ہے۔ پاکستان کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مزاحمت کے مختلف ادوار ہیں۔ ایک دور1947 والا ہے جب شیخعبداللہ کو وزرات عظمی سے برطرف کیا گیا پھر 1987میں مقبوضہ کشمیر میںانتخابی اتحاد قائم ہوا جس کے نتیجہ میں الیکشن لڑا گیا لیکن بھارتی الیکشن کمیشن اپنی غیر جانبداری برقرار نہ رکھ سکا اور جیتے ہوئے اتحاد کو ناکام کیا گیا۔افغانستان میں روس کی ناکامی کے بعد کشمیریوں میں بھی خواہش ہوئی کہ منحوس لکیر کو ختم کیا جائے اور اس طرح یہاں پر بھی مزاحمتی تحریک شروع ہوئی ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق محکوم قوموں کو مسلح جدوجہد کی اجازت ہے۔ اس کے بعد بھی کشمیر بھر میں بھارت کو موقع دیا اور بندوق کو نیچے رکھا ،2016میںپھر برہان وانی کی شہادت کے بعدمزاحمتی تحریک میں نیا فیز آیا۔ اس سے قبل مقبول بٹ کو تہاڑ کی جیل میں شہید کیا گیا ۔ اس کے بعد افضل گوروکو شہید کیا گیا۔ افضل گورو کی سزائے موت کے متعلق بھارتی سپریم کورٹ نے لکھا کہ اسے بھارت کے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے پھانسی دی گئی۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد یہ تحریک کشمیر کے نوجوانوں کے ہاتھ منتقل ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا وجہ ہے پی ایچ ڈی، ایم فل ، اور انجینئرزکے ہاتھوں میں بندوق ہے۔اس پر بھی دنیا کو توجہ دینا ہوگا۔ سی آر پی ایف کے ذریعہ کشمیریوں کی تذلیل کی جار ہی ہے۔ ،خواتین کی عصمت دری کی جاری ہے۔ پلوامہ واقع میں پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کی گئی اور اس حوالہ سے بھارت کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ بھارت جھوٹ بول رہا ہے۔ مودی کے دور اقتدار میں کوئی اقلیت محفوظ نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ہندوستانی وزیر خارجہ کو او آئی سی میں بلانا غلط اقدام تھا۔ بھارت نے نہ صرف ایل او سی بلکہ انٹرنیشنل بارڈر کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ اب شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی بھارت نے کی ہے۔ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو حق دیا ہے کہ پاکستان کی فوج آزادکشمیر میں کشمیریوں کی حفاظت کے لیے ہے جبکہ بھارت کی فوج قابض فوج ہے۔پاکستان پر جب بھی کوئی الزام لگایا جاتا ہے تو کشمیریوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ آزادکشمیر حکومت کو او آئی سی میں مبصر کا درجہ دیا جائے۔ ۔فلسطین کوبھی دیا گیا تھا۔ آزادکشمیر کی حکومت اور حریت کانفرنس پر مشتمل تحریک کو مبصر کا سٹیٹس دیا جائے۔ پاکستان کے خلاف بہت سی سازشیں ہورہی ہیںجن کے متعلق وزیر خارجہ سے ملاقات کر کے آگاہ کر وں گا۔ او آئی سی نے جو قرارد اد پاس کی ہے اس پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔انہوں نے کہاکہ آرمی چیف کے دورہ لائن آف کنٹرول کے دوران چڑی کوٹ سیز فائر لائن پر بھارت فائرنگ سے شہیدہونے والوں کیلئے معاوضوں کی رقم تین لاکھ سے بڑھا کر10لاکھ کرنے کی بات کی تھی جس سے انہوں نے اتفاق کیا تھا مگر ا س پر عملدرآ نہ ہو سکا۔ وزیر اعظم نے کہاکہ پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا اور آزادکشمیر کی عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کی جان ومال کی حفاظت کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے۔ وطن عزیز کے موجودہ حالات کے تناظر میں حکومت کو چاہیے کہ مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف اور پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے خلاف جھوٹے الزامات اور کیس واپس لیے جائیںتاکہ ملک میں قومی اتفاق کی فضا برقرار رہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے وطن کے خلاف باہر کی دنیا میں سازشیں ہورہی ہیں ان سے بچنے کی پوری کوشش کی جانی چاہیے۔ اس وقت وطن عزیز کو یکجہتی کی ضرورت ہے۔ ہم کوئی رعایت نہیں مانگ رہے ، یہ ملکی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ نواز شریف ایک محب وطن رہنما ہیں۔ وفاقی وزراء کو غیر ذمہ دارانہ اگفتگو سے گریز کر نا چاہیے۔ اگر مشرف ،واجپائی ملک سکتے ہیں تو عمران خان ، شہباز شریف اور آصف زرداری ہاتھ نہیں ملا سکتے ۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں قوم میں کمزوری پیدا کرتی ہیں۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر وطن کی خاطر چوہدری مجید،چوہدری یاسین، سردار عتیق احمد ، عبدالماجد خان ہم سب ایک ہیں۔ آزادکشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل کانفرنس کا انعقاد کیا جائے ۔ جس میں لائحہ عمل بنایا جائے اور کشمیر کے حوالہ سے حکومت پاکستان کو مشترکہ تجاویز دی جائیں ۔ سفارت کاری میں جارحانہ رویہ اپنایا جائے۔ ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل وفود باہر بجھوائے جائیں۔ نارتھ امریکہ سے لیکر یونان تک تمام Diaspora کو متحرک کیا جائے تاکہ وہ کشمیر کے حوالہ سے کام کریں۔ انہوں نے کہاکہ یہاں جو لوگ شہید ہوئے ان کے حوالہ سے بھی بات کی جانی چاہیے۔ اپنی کمزوریوں کو دور کرنا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک کشمیریوں کی اپنی تحریک ہے۔ بھارت نے سیز فائر لائن پر جو باڑ لگا رکھی ہے اور اتنی بڑی باڑ لگا رکھی ہے ، ایسے حالات میں یہاں سے کیسے کوئی مقبوضہ کشمیر داخل ہو سکتا ہے۔ حکومت پاکستان کو عالمی برادری سے بات کرنی چاہیے۔ conflict Managment میں پاکستان اور بھارت فریق ہیں۔ دو طرفہ بات چیت سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ آزادکشمیر ، گلگت اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کو یقین دلاتا ہوں ،پاکستان کے 22کروڑ عوام کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔وزیر اعظم نے کہاکہ صحافی ندیم صدیقی کے خاندان کی مالی معاونت کی جائے گی۔ لیڈر آف دی اپوزیشن چوہدری محمد یاسین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اوآئی سی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف بروقت قراردادپاس کرنے پر مشکور ہیں۔ حکومت پاکستان کو او آئی سی وزیر خارجہ اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کی کوئی منطق نہ تھی اس اجلاس میں پاکستان وزیر خارجہ کو شرکت کرنی چاہیے تھی۔ تمام جماعتیں مشاورت کر کے لندن میں بھارت کے خلاف مظاہرہ کریں تاکہ بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرسکیں۔
0 comments:
Post a Comment