عابد علی جوکھیو
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اِس دنیا میں رہنے کے لیے ایک پورا نظام دیا ہے، وہ نظام عین فطرت کے مطابق ہے، اسی لیے اس نظام سے انحراف کی صورت میں انسان مختلف مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے دیے گئے اس نظام میں چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً اللہ کی عبادت سے لے کر گھر کی زندگی، اور پھر اس گھر کی زندگی میں پیش آنے والے معاملات کا بھی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ مجلس، گفتگو، کھانے پینے، حتیٰ کہ رفع حاجت کے مسائل کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اسلام انسان کے باطن کے ساتھ ساتھ اس کے ظاہر پر بھی خاص توجہ دیتا ہے۔ اسلام نہ صرف انسان کے باطن بلکہ ظاہر کو بھی خوشنما بنانا چاہتا ہے، کیونکہ جو تعلق انسانی روح اور جسم کا ہے وہی تعلق انسان کے ظاہر اور باطن کا ہے۔ باطن کا معاملہ تو انسان اور اس کے رب کے درمیان ہوتا ہے، لیکن انسان کے ظاہر کا تعلق اس کی ذات اور دیگر انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس طرح اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تعلیم دیتا ہے اسی طرح یہاں بھی جس چیز کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے اللہ اُسے اپنی حد تک ہی رکھنے کی تعلیم دیتا ہے، اور جس چیز کا تعلق انسانوں کے ساتھ ہے اس چیز کی تعلیم انسانی معاملات کے معیار کے مطابق دیتا ہے۔
انسان کے ظاہر میں اس کے جسم کے بعد سب سے پہلے اس کا لباس آتا ہے۔ چونکہ لباس انسان کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے اس لیے اسلام نے انسان کو موزوں لباس زیب تن کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اسلام انسان کے ظاہر اور باطن دونوں کو فطرت کے مطابق بنانا چاہتا ہے، اس لیے وہ انسان کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے لیے ایسا لباس منتخب کرے جو فطرت کے عین مطابق ہو۔ لباس کے حوالے سے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(ترجمہ) ’’اے اولادِآدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اِس سے سبق لیں۔ اے بنی آدم، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اُسی طرح فتنے میں مبتلا کردے جس طرح اُس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور اُن کے لباس اُن پر سے اُتروا دیے تھے تاکہ اُن کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے۔ وہ اور اُس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم اُنھیں نہیں دیکھ سکتے۔ ان شیاطین کو ہم نے اُن لوگوں کا سرپرست بنادیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔‘‘ (المائدہ 26)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں انسانی لباس اور اس کی اہمیت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’اوّل یہ کہ لباس انسان کے لیے ایک مصنوعی چیز نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم پر حیوانات کی طرح کوئی پوشش پیدائشی طور پر نہیں رکھی، بلکہ حیا اور شرم کا مادہ اس کی فطرت میں ودیعت کردیا۔ اس نے انسان کے لیے اُس کے اعضائے صنفی کو محض اعضائے صنفی ہی نہیں بنایا بلکہ سَواۃ بھی بنایا جس کے معنی عربی زبان میں ایسی چیز کے ہیں جس کے اظہار کو آدمی قبیح سمجھے۔ پھر اس فطری شرم کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اس نے کوئی بنا بنایا لباس انسان کو نہیں دے دیا بلکہ اس کی فطرت پر لباس کو الہام کیا (اَنزَلنَا علَیکْم لِبَاسًا) تاکہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر اپنی فطرت کے اِس مطالبے کو سمجھے اور پھر اللہ کے پیدا کردہ مواد سے کام لے کر اپنے لیے لباس فراہم کرے۔
دوم یہ کہ اس فطری الہام کی رو سے انسان کے لیے لباس کی اخلاقی ضرورت مقدم ہے، یعنی یہ کہ وہ اپنی سَواۃ کو ڈھانکے۔ اور اس کی طبعی ضرورت موخر ہے، یعنی یہ کہ اس کا لباس اس کے لیے رِیش (جسم کی آرائش اور موسمی اثرات سے بدن کی حفاظت کا ذریعہ) ہو۔ اس باب میں بھی فطرتاً انسان کا معاملہ حیوانات کے برعکس ہے۔ اُن کے لیے پوشش کی اصل غرض صرف اس کا ’’ریش‘‘ ہونا ہے، رہا اس کا ستر پوش ہونا تو اُن کے اعضاء صنفی سرے سے سَواۃ ہی نہیں ہیں کہ اُنھیں چھپانے کے لیے حیوانات کی جبلت میں کوئی داعیہ موجود ہوتا اور اس کا تقاضا پورا کرنے کے لیے ان کے اجسام پر کوئی لباس پیدا کیا جاتا۔ لیکن جب انسانوں نے شیطان کی رہنمائی قبول کی تو معاملہ پھر الٹ گیا۔ اس نے اپنے ان شاگردوں کو اس غلط فہمی میں ڈال دیا کہ تمہارے لیے لباس کی ضرورت بعینہٖ وہی ہے جو حیوانات کے اعضاء سَواۃ نہیں ہیں اسی طرح تمہارے یہ اعضاء بھی سَواۃ نہیں، محض اعضاء صنفی ہی ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن)
آیتِ مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے لباس کو اتارنے (نازل کرنے) کے دو اہم مقاصد بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ لباس جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے، اور دوسرا انسانی جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بنے۔ پہلے مقصد کا سطور بالا میں تفصیلی ذکر ہوگیا ہے۔ دوسرا مقصد ’انسانی جسم کی حفاظت اور زینت‘ ہے۔ ترتیب کے لحاظ سے شرم گاہ کی حفاظت کے مقصد کو مقدم کرکے انسانوں کو یہ بتایا گیا کہ اس لباس کا اصل مقصد ستر پوشی ہے۔ یہی ستر پوشی انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ دوسرے مقصد میں بھی حفاظت کو زینت پر مقدم رکھا گیا ہے کہ لباس کا دوسرا اہم مقصد انسانی جسم کو موسمی اثرات وغیرہ سے محفوظ رکھنا ہے۔ اور سب سے آخر یہ کہ یہ لباس انسان کی زیب و زینت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس تربیت کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو زیب وزینت کو سب سے کم اہمیت دی گئی ہے۔ چونکہ زیب وزینت انسان کا فطری تقاضا ہے اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں نماز کے وقت زینت کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ ان نصوص سے اسلام میں زیب و زینت کا جواز ملتا ہے۔ لیکن اسلام میں زیب وزینت کے بھی احکام تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں کہ مرد کو کیسی زیب وزینت کرنی چاہیے اور عورت کو کیسی۔ ان احکامات کو سامنے رکھ کر ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسلام اس زینت کی بالکل نفی کرتا ہے جس سے معاشرے میں خرابی پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ اسلام عورت کو اپنے شوہر کے لیے ہی زیب وزینت کی تعلیم دیتا ہے، اسلام میں زینت کا تقاضا یہ نہیں کہ عورت دیگر مردوں کے لیے سامانِ تفریح بنے۔ اس کے علاوہ اسلام ایسے لباس سے بھی منع فرماتا ہے جس سے فخر وتکبر اور نمود ونمائش کا اظہار ہو۔ فخر وتکبر کے لباس میں جانوروں کے چمڑے سے بنے لباس کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ گزشتہ زمانوں میں لوگ جانوروں کے چمڑے سے بنا لباس فخر وتکبر کے علاوہ شجاعت وبہادری کو ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال کیا کرتے تھے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ بہادری کی شدت کے اظہار کے لیے حلال جانوروں کے چمڑوں کے بجائے درندوں کے چمڑوں سے بنا ہوا لباس پہنا جاتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کے چمڑوں کو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے (ترمذی)۔ اگرچہ اس طرح کے لباس کا تعلق چند مخصوص علاقوں کی اقوام سے ہے، لیکن وقت کے ساتھ اور فیشن کی دنیا میں تیزی سے ہونے والی ترقی میں یہ لباس مستقبل میں ایک معاشرتی مقام و مرتبے کی علامت بن کر سامنے آئے گا۔
مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’انسان کے لیے لباس کا صرف ذریعۂ ستر پوشی اور وسیلۂ زینت و حفاظت ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ فی الحقیقت اس معاملے میں جس بھلائی تک انسان کو پہنچنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کا لباس تقویٰ کا لباس ہو، یعنی پوری طرح ساتر بھی ہو، زینت میں بھی حد سے بڑھا ہوا یا آدمی کی حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو، فخر وغرور اور تکبر و ریا کی شان لیے ہوئے بھی نہ ہو، اور پھر اُن ذہنی امراض کی نمائندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بنا پر مرد زنانہ پن اختیار کرتے ہیں، عورتیں مردانہ پن کی نمائش کرنے لگتی ہیں، اور ایک قوم دوسری قوم کے مشابہہ بننے کی کوشش کرکے خود اپنی ذلت کا زندہ اشتہار بن جاتی ہے۔ لباس کے معاملے میں اِس خیر مطلوب کو پہنچنا تو کسی طرح اُن لوگوں کے بس میں ہے ہی نہیں جنہوں نے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لاکر اپنے آپ کو بالکل خدا کی رہنمائی کے حوالے نہیں کردیا ہے۔ جب وہ خدا کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں تو شیاطین ان کے سر پرست بنا دیے جاتے ہیں، پھر یہ شیاطین ان کو کسی نہ کسی غلطی میں مبتلا کرکے ہی چھوڑتے ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن)
علامات ِقیامت میں جانوروں کی کھالوں کے لباس کے ذکر کو فطرتِ انسانی سے انحراف، نمود ونمائش اور فخر وتکبر کے زمرے میں لیا جاسکتا ہے۔ درحقیقت یہ تینوں اسباب فطرتِ انسانی کے خلاف ہیں اس لیے ان کے اثرات بھی گہرے اور زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ انسان کا فطرت سے انحراف ہی اس کی ذاتی اور پوری دنیا کی تباہی کا اصل سبب ہے۔ اللہ ہم سب کو فطرت کے عین مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
0 comments:
Post a Comment