عابد علی جوکھیو
اسلام انفرادیت سے زیادہ اجتماعیت پر زور دیتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد ہے کہ اسلام میں رہبانیت نہیں۔ اسلام انسان کو دنیا کے اجتماعی معاملات میں اپنا کردار ادا کرکے اپنی عاقبت سنوارنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام کا یہ تصور نہیں کہ لوگ آبادیوں سے نکل کر کہیں دور جنگلوں میں بسیرا کرلیں یا گھر کے کونے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کا ورد کرکے صرف اپنی عاقبت کی فکر کریں۔ بلکہ اسلام کا تصورِ عبادت اس سے یکسر مختلف ہے۔ اس حوالے سے ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، جو تمام اجتماعی معاملات میں نہ صرف شریک ہوتے تھے بلکہ خود مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی قیادت کرتے… دن میں اسلام کی تبلیغ و ترویج اور مسلمانوں کے دنیوی معاملات کے حل کے لیے کوشاں ہوتے تو رات اللہ کی عبادت میں بسر کرتے۔ اسلام اسی طرزعمل کی تعلیم دیتا ہے کہ انسان اس معاشرے کا جزوِ لاینفک ہے، اس لیے اسے لازماً اس معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہے۔ جب انسان کو اسی معاشرے میں اپنے شب و روز گزارنے ہیں اور اس دوران پیش آنے والے تمام حالات و واقعات کا بھی سامنا کرنا ہے تو لامحالہ اس بات کی اشد ضرورت پڑتی ہے کہ انسان ایک ضابطے اور طریقے کے مطابق اس دنیا میں زندگی گزارے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اِس دنیا میں زندگی گزارنے کے تمام بنیادی اصول وضاحت کے ساتھ بیان کردیے ہیں۔ اب اگر انسان ان اصولوں کے مطابق زندگی گزارے گا تو لازماً اس کی زندگی پُرسکون اور خوشگوار گزرے گی، اور اگر اس کے بتائے ہوئے طریقوں کے برخلاف زندگی گزارے گا تو پوری زندگی پریشان اور غیر مطمئن رہے گا۔
چونکہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے اور دوسرے انسانوں سے ربط و تعلق قائم کیے بغیر زندگی کا تصور محال ہے، اس لیے اس بات میں تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے ایک معاشرہ قائم کیا جائے۔ اسی لیے اسلام میں اجتماعیت کے قیام کو واجباتِ دین میں شمار کیا گیا ہے۔ جہاں انسانوں کی اجتماعیت ہوگی وہاں انہیں اس اجتماعیت کو چلانے کے لیے ایک نظام کی ضرورت ہوگی۔ ایک مسلم معاشرے کے لیے تو اس کے سوا اور کوئی راستہ نہ ہوگا کہ وہ نظمِ اجتماعی کو چلانے کے لیے اللہ کے نظام کے علاوہ کوئی اور نظام منتخب نہ کرے۔ اسلام اجتماعی نظام چلانے کے لیے انسانوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنا کوئی امیر مقرر کریں تاکہ وہ ان کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ہو۔ تاریخِ اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدینؓ اس کی واضح اور روشن مثال ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی باگ ڈور اللہ کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق سنبھالی اور اس کا حق ادا کیا۔ اسی طرح رہتی دنیا تک جہاں بھی انسانوں کی اجتماعیت ہوگی وہاں انہی اصولوں کے مطابق ایک فرد نظمِ اجتماعی کا ذمہ دار ہوگا جو معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرے گا۔
اسلام امیر کے انتخاب کے لیے بھی انسانوں کو تعلیم دیتا ہے کہ وہ کسی کو اپنا امیر منتخب کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس فرد میں امیر کی مطلوبہ تمام صفات موجود ہیں۔ ان صفات میں امیر کی بہادری، امانت داری، عدل، انصاف پسندی، خیر خواہی، دینی اور دنیوی معاملات میں اچھی گرفت اور فراست وغیرہ شامل ہیں۔ جب لوگ کسی شخص میں یہ اور دیگر اوصافِ حمیدہ دیکھ کر اسے اپنا امیر منتخب کریں تو دونوں یعنی رعایا اور امیر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مل کر اس نظام کو چلانے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ ایسا نہیں کہ امیر تو اپنی طرف سے خوب محنت سے کام کر رہا ہو لیکن عوام اُس کا ساتھ نہ دیتے ہوں، یا پھر عوام اجتماعی معاملات کو بہتر طرز پر چلانے کے خواہاں ہوں لیکن ان کا امیر عوامی امنگوں کے برخلاف معاشرے کے بگاڑ کا باعث بن رہا ہو۔ اسلام امارت کو خیر خواہی سے تعبیر کرتا ہے۔ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دین خیر خواہی ہے‘‘۔ ہم نے پوچھا: ’’کس کے لیے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے سرداروں اور ان کے عام آدمی کے لیے‘‘ (مسلم)۔ حدیث کے آخری الفاظ کے مطابق اجتماعی معاملات کے ذمہ داران اور عام لوگوں‘ دونوں کے لیے خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے دین کے متعلق خیر خواہی کا معاملہ کریں۔ امیر یا سردار عام لوگوں کی خیر خواہی کرتے ہوئے ان کی بھلائی کا کام کرے، اور عام افراد اپنے امیر کی خیر خواہی کرتے ہوئے نیک کاموں میں اُس کا ساتھ دیں، اور جہاں کہیں وہ راہِ راست سے بھٹک رہا ہو اسے متنبہ کریں۔ اسلام اجتماعی معاملات کے ذمہ داران کو راعی (نگہبان)، اور اس کے ساتھ لوگوں کو اس کی رعیت تصور کرتا ہے۔ یعنی امیر ان تمام افراد کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ہے۔ راعی کے لفظ سے امیر کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے کہ راعی اپنے زیراثر تمام افراد کی ذاتی زندگی کی اصلاح سے لے کر ان کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس طرح امیر پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کرے جہاں فرد کی ذاتی اصلاح کے تمام مواقع موجود ہونے کے ساتھ ساتھ وہ تمام راستے بند ہوں جہاں سے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔
اگر امیر اپنے فرضِ منصبی کے برخلاف خود ایسے کام کرنے لگ جائے جو معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتے ہوں تو آپ خیال کیجیے کہ وہ معاشرہ کس قدر تباہ حال ہوگا۔ اسی لیے علاماتِ قیامت میں امراء یا سرداروں کے ظالم ہونے کو شامل کیا گیا ہے کہ جب معاشرے میں امن قائم رکھنے اور انصاف فراہم کرنے کے ذمہ دار خود ظالم بن جائیں گے تو معاشرہ کس طرح قائم رہ سکتا ہے! اللہ تعالیٰ نے ظلم کی خوب مذمت کی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ) ’’برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پھر جو کوئی معاف کردے اور اصلاح کرے اُس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الشوریٰ۔ 40)
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ) ’’ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ (الشوری۔ 42)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ ظالموں کو دردناک عذاب کی وعید سنا رہے ہیں کہ جو لوگ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے کسی دوسرے کا حق مارتے اور ظلم کرتے ہیں، اللہ اُن کو ہرگز معاف نہ کرے گا۔ احادیث میں بھی ظلم اور مظلوم کی بددعا سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ظلم، قیامت کے دن کئی اندھیرے ہوگا‘‘ (متفق علیہ)۔ مطلب یہ کہ ظالم اس روز کئی مصیبتوں اور پریشانیوں میں گھرا ہوا ہوگا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
’’مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص کسی کی ایک بالشت زمین ظلم سے ہتھیا لیتا ہے تو اس کی وجہ سے قیامت کے دن سات زمینیں طوق بناکر اُس کے گلے میں ڈالی جائیں گی۔‘‘ (متفق علیہ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص پر بھی اپنے بھائی کا اُس کی عزت یا اُس کی کسی چیز کے متعلق حق تلفی کا کوئی بوجھ ہو اسے چاہیے کہ وہ آج ہی اس سے عہدہ برآ ہوجائے، اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جب کوئی دینار ہوگا نہ درہم۔ اگر اس شخص کے نیک عمل ہوئے تو وہ (صاحبِ حق کو دینے کے لیے) اس کے ظلم کے مطابق لے لیے جائیں گے، اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں تو پھر صاحبِ حق کی برائیاں لے کر اس پر لاد دی جائیں گی۔‘‘ (بخاری)
آج کل لوگ اجتماعی معاملات کا ذمہ دار بننا جتنا آسان سمجھتے ہیں حقیقت میں یہ اتنا ہی سخت اور بھاری معاملہ ہے۔ اجتماعی معاملات کا ذمہ دار بن کر اپنا فرضِ منصبی ادا نہ کرنا اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال ایک ایسی آزمائش ہے جو انسان کو سراسر تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے اللہ! میری امت میں جو شخص امیر یا ذمہ دار بنایاگیا اور اُس نے لوگوں کو مشقت میں مبتلا کیا تُو بھی اُس پر مشقت ڈال دے۔ اور جس نے نرمی برتی تُو بھی اس سے نرمی برت۔‘‘ (مسلم)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ’ ’اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو امیر بنایا اور اُس نے اپنی رعیت کے ساتھ دھوکا کیا تو اُس پر جنت حرام ہوگی۔‘‘ (مسلم)
ان دونوں احادیث ِمبارکہ سے امارت کی اہمیت اور مقام کی سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر انسانوں کے اجتماعی معاملات کے ذمہ داران اپنی رعایا کے ساتھ ظلم کریں تو پورا نظام بگڑ جائے گا۔ سربراہان کے طرزِعمل اور ناانصافی کو دیکھ کر رعایا میں بھی ظلم کا عنصر بڑھے گا، جس کے نتیجے میں لاقانونیت جنم لے گی جہاں سب ایک دوسرے پر ظلم کرکے اپنی دنیا اور عاقبت خراب کر رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی آزمائشوں سے محفوظ رکھے۔ (آمین)
0 comments:
Post a Comment