متحدہ مجلس عمل نے خواتیں ڈے کی آڑ میں قابل اعتراض سرگرمیوں کے معاملے پر قومی اسمبلی میں تحریک التواء اور توجہ مبذول کروانے کا نوٹس جمع کرواد دئیے
اسلام آباد(این ٹی ایس رپورٹ)دینی جماعتوں کے اتحادمتحدہ مجلس عمل نے خواتیں ڈے کی آڑ میں اسلام آباد اور بعض دوسرے بڑے شہروں میں قابل اعتراض سرگرمیوں کے معاملے پر قومی اسمبلی میں تحریک التواء اور توجہ مبذول کروانے کا نوٹس جمع کرواد دئیے،متحدہ مجلس عمل کے ارکان قومی اسمبلی نے اپنے شدیدردعمل میں کہا ہے کہ اسلام آباد میں عورت مارچ کے نام پر بے شرمی کے مظاہرے کے گئے ، ایم ایم اے نے عورت مارچ کی آڑ میں فحاشی وبے شرمی کا فروغ دینی و معاشرتی ا قدار اورفیملی سسٹم کو تباہ کرنے کی سازش قراردے دیا ہے ۔ دینی جماعتوں کے اتحاد کے ارکان قومی اسمبلی نے عورت آزادی مارچ کے آرگنائزرکے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا ہے ۔رکن قومی اسمبلی شاہدہ اخترعلی نے دیگر ارکان اسمبلی کے دستخطوں سے تحریک التواء پیرکوجمع کروائی ہے اور اس معاملے پر اسمبلی میں بحث کا مطالبہ کردیا گیا ہے ۔تحریک التواء میں کہا گیا ہے کہا گیا ہے کہ معاملہ یہ ہے کہ عورت آزادی کے نام پر پاکستان کے چند بڑے شہروں میں فحاشی بے شرمی کو جو فروغ ملا ہے ۔ جس قسم کے پوسٹر اور بینرز چھاپے گئے اور حقوق نسواں کے نام پر جس مذموم ارادے کا پرچارکیا گیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس قسم کے مظاہروں کی اجازت دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس طرح کے افکار سے سب کو معلوم ہوگیا ہے کہ اس ایشو کا مقصد ہمارے دینی ومعاشرتی اقدار اور فیملی سسٹم کو تباہ کرنا ہے۔ مارچ کے آرگنائزر اورذمہ دارانہ کیخلاف فوری کارروائی کی جائے ۔سپیکرقومی اسمبلی سے درخواست کی گئی ہے اس معاملے کی ہائوس میں بحث کیلئے منظور ی دی جائے ۔شاہدہ اخترعلی کے ساتھ مولانا عصمت اللہ ،مولاناکما ل الدین، مولانا محمد انور اورملک آفرین خان نے مشترکہ توجہ دلا نوٹس بھی جمع کروایا ہے۔ ایم ایم اے کے ارکان نے قراردیا ہے کہ پاکستان میں اس طرح کے مظاہرے قراردادمقاصدکے خلاف ہے ۔ شاہدہ اخترعلی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پلے کارڈز مہم میں مغلظات کا استعمال اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے خلاف طبل جنگ اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے کی سازش ہے ۔یہ مغربی فنڈڈ این جی اوز کا ایجنڈا ہے جو معاشرے کو تباہ کرنے کے درپے ہیںریاست مدینہ کے نام نہاد دعویداروں کے چھتری تلے اسلام کے آفاقی تعلیمات کے خلاف نفرت انگیزمہم نے ان کی حقیقت کھول دی ۔
0 comments:
Post a Comment