امین خیانت کرنے لگیں گے… ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Saturday, March 16, 2019

امین خیانت کرنے لگیں گے…


عابد علی جوکھیو

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دوسرے سے مختلف پیدا کیا ہے، اسی اختلاف کی بنیاد پر انسانوں کے رنگ، صورت، رویے، سوچنے کا انداز، کام کرنے کا طریقہ، گفتگو کا انداز وغیرہ دوسروں سے مخلتف ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ نے اس دنیا میں انسانوں کے مراتب اور فضائل کی بھی ایک ترتیب رکھی ہے۔ لیکن یہاں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسلام میں مرتبے اور فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے۔ جو جس قدر اللہ کے نزدیک ہوگا اس کا مقام و مرتبہ بھی اتنا ہی بلند ہوگا۔ انسانوں میں انبیاء کا مقام اور مرتبہ سب سے بالا ہے لیکن انہی انبیاء میں بھی اللہ نے فضیلت کے مراتب رکھے ہیں جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نبی ہونے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بننے کی خواہش کی۔ اسی طرح یہ مراتب عام انسانوں میں بھی ہیں۔ انسان اپنے عمل کے مطابق ہی اللہ کے ہاں مقام اور مرتبے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ لیکن اسلام میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ جس کا جتنا بلند مقام ہوگا اس کو اتنی کی سخت آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے اسلام میں ایمان اور ابتلاء کی ایک تاریخ رقم ہے۔ 
جہاں اللہ نے انسانوں کے مراتب مقرر کیے ہیں وہیں دستور کے مطابق ان کی ذمہ داریاں بھی بیان کردی گئی ہیں۔ جتنا بڑا مقام اور مرتبہ ہوگا اتنی ہی زیادہ اور سخت ذمہ داری ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء پر یہ ذمہ داری عائد کی کہ وہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔ انہیں خیر کی طرف بھلائیں اور شر (شیطان) سے بچنے کی تلقین کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ انبیاء کو اس ذمہ داری کے بدلے کتنے جتن جھیلنے پڑے۔  مقام اور مرتبے کے مطابق انسان پر پڑنے والی آزمائشیں کبھی مخالفین کی طرف سے ایذاء رسانیوں کی صورت میں ہوتی ہیں تو کبھی انسان کے اپنے نفس کی جانب سے دنیوی فوائد کے لالچ میں اپنی ذمہ داری کے برخلاف کام کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ اس دوسری قسم کا تعلق براہ راست انسان کے نفس (اپنے آپ) سے ہے۔ انسان کا نفس بھی اس کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے وہ اسے ایسے ایسے کام کرنے پر اکساتا ہے جو اس لیے سراسر تباہی کا ذریعہ ہوتے ہیں، لیکن انسان نفس کی باتوں میں آکر اپنی دنیا و آخرت برباد کردیتا ہے۔ علماء نے نفس کی کئی اقسام بیان کی ہیں، لیکن ان میں سے مشہور یہ تین ہیں۔ 1۔ نفس امارہ 2۔ نفس لوامہ 3۔ نفس مطمئنہ۔ نفس امارہ: گناہوں کی طرف مائل کرنے والا اور دنیاوی رغبتوں کی جانب کھینچ لے جانے والا ہے۔ نفس لوامہ: جب کوئی انسان کسی گناہ یا زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس کا جو نفس اسے فوری طور پر سخت ملامت کرنے لگتا ہے  اسے لوامہ یعنی سخت ملامت کرنے والا کہتے ہیں۔ نفس مطمئنہ: نفس مطمئنہ والا انسان بری خصلتوں سے بالکل پاک و صاف اور مطمئن ہوتا ہے۔ چونکہ انسان کے ساتھ یہ تمام نفوس لگے ہوتے ہیں اس لیے انسان کی اصل آزمائش یہی ہے کہ وہ نفس امارہ پر قابو پاکر نفس لوامہ کو زندہ رکھ کر نفس مطمئنہ کی سی زندگی گزارے۔ 
نفس امارہ انسان کو ہمیشہ برائیوں کی طرف کھینچتا اور دھکیلتا ہے، اور اس کے لیے برائیوں کو بڑا خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے اس لیے انسان کے لیے یہ بڑی آزمائش کا مقام ہوتا ہے کہ وہ اس نفس پر قابو پائے۔ یہی نفس انسان کو اچھے سے برا انسان بنا دیتا ہے۔ انسان پر ایک وقت ایسا گزرتا ہے کہ اسے گناہ کرنے کی طاقت نہیں ہوتی تو اس لیے وہ گناہ کے کاموں سے بچا ہوا ہوتا ہے لیکن انسان پر ایک ایسا وقت بھی ضرور آتا ہے جب اسے گناہ کرنے کی قدرت و طاقت حاصل ہوتی ہے۔ انسان کا اصل امتحان اور آزمائش اسی وقت ہوتی ہے جب وہ گناہ پر قادر ہو لیکن وہ اپنے آپ کو اس سے بچائے۔ استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے گناہ سے بچنا کوئی کمال نہیں۔ اسی حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود اپنے غصے پر قابو پالیا اللہ تعالی قیامت کے روز تمام خلقت کے سامنے اسے بلائیں گے اور خوبصورت آنکھوں والی حوروں کے بارے میں اسے اختیار دے دیں گے کہ جس قدر چاہو پسند کر لو۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
انسان کو جب قدرت حاصل ہوتی ہے تو اس کے لیے اس طاقت یا منصب کی وجہ سے گناہ کے کام کرنا بھی آسان ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پر ایک افسر کے لیے رشوت لینا، اپنے فائدے کے لیے کام کرنا، اپنے ذاتی کام کروانا وغیرہ۔ اسی طرح علامات قیامت میں مذکور ’امین کا خیانت کرنا‘ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ جب لوگ کسی کو امین سمجھ کر اس کے پاس اپنی امانتیں رکھوائیںاور وہ ان کے بھروسے کے توڑ کر خیانت کا مرتکب ہو تو یہ بھی گناہ کبیرہ ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے کے مضامین میں بھی امانت کی اقسام کا ذکر کر چکے ہیں، اس لیے یہاں ان اقسام کا دوبارہ تذکرہ نہیں کر رہے۔ امانت کی مذکورہ اقسام کے مطابق انسان کے پاس اس کی جان، مال، اختیارات، اسلام (قرآن) وغیرہ سب امانت ہیں۔ ان تمام میں کوتاہی یا حق تلفی کرنا خیانت کے زمرے میں آئے گا۔ خاص طور پر جب کسی انسان پر بھروسہ کرکے اسے  کچھ اختیارات دیے جائیں اور وہ ان اختیارات کا غلط استعمال کرے تو یہ بھی خیانت ہے۔ علامات قیامت میں امانت کے ضیاع کے حوالے سے جو علامت بیان کی گئی ہے اس کا تعلق عام ہے یعنی کوئی بھی شخص کسی کی بھی امانت میں خیانت کرے۔ لیکن یہاں خاص طور پر کسی کو امین بنانے کا ذکر ہے، یعنی کسی پر اعتماد کرکے اسے کسی چیز یا اجتماعی معاملات کا امین بنایا جائے اور وہ اس کے برخلاف کام کرے۔ 
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں بھی وہ چاروں جمع ہو جائیں وہ خالص منافق اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہے اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی او ر وہ اسی حال میں رہے گا جب تک کہ اس عادت کو نہ چھوڑدے۔ وہ چاروں عادتیں یہ ہیں: جب اس کو کسی امانت کا امین بنایا جائے تو اس میں خیانت کرے، جب باتیں کرے تو جھوٹ بولے، جب عہد معاہدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب کسی سے جھگڑا اور اختلاف ہو تو بد زبانی کرے۔ (بخاری ومسلم) اس حدیث میں بھی امین بنانے کا ذکر ہے یعنی جس کو کوئی ذمہ داری دی جائے اور وہ اس ذمہ دار کا حق ادا نہ کرے بلکہ اس کے برخلاف اپنی ذات کے لیے کام کرے تو وہ منافق ہے۔ اسی بات کی طرف اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں ارشاد فرمایا، ترجمہ: ’’مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سْنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ (النساء 58) یہاں اللہ تعالیٰ انسانوں کو یہ تعلیم دے رہا ہے کہ وہ اپنے معاملات کا ذمہ دار اہل امانت کو بنائیں۔ جب انسان اپنی دانست کے مطابق کسی کو اپنے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار بنائیں اور وہ شخص اپنے منصب کا غلط اور ناجائز استعمال کرے تو اس کا وبال اسی شخص پر ہوگا۔ لیکن اس صورت میں پھر معاشرے پر ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ ایسے بددیانت سے ذمہ داری لیکر اللہ کے حکم کے مطابق اسے اہل فرد کے سپرد کریں۔ اسی طرح سورہ اعراف کی آیت68  میں اللہ تعالیٰ حضرت ھودؑ کا تذکرہ کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ’’اور میں  تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘ اس آیت میں خیر خواہی کے لیے امین کا لفظ استعمال ہوا ہے: ’’انی لکم ناصح امین‘‘۔ یعنی اجتماعی معاملات کے ذمہ دار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اجتماعیت اور رعایہ کے مفادات کا خیر خواہ ہو نہ کہ وہ اپنی ذات کے فوائد کے لیے کچھ کرے۔  
جو بھی انسانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں اجتماعی مفاد کے لیے خرچ کرے نہ کہ وہ اس مقام و مرتبے کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنائے۔ حکومت سے لے کر سرکاری افسران یا کسی بھی اجتماعیت کے ذمہ دار کا اصل فرض منصبی خدمت ہے نہ کہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال۔ اس لیے ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ جب اجتماعیت کے ذمہ داران، حکومت یا سرکاری افسران اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتتے ہیں تو اس کا براہ راست اثر معاشرے پر پڑتا ہے۔ اجتماعیت کے ذمہ داروں کی جانب سے غفلت کے نتیجے میں لوگ غلط راستوں کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ خصوصاً رشوت، سفارش اور بدعنوانی کے باعث نوجوان نسل جرائم کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ اسلام بھی ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک ایسا ماحول مہیا کرنے کی تعلیم دیتا ہے جو خود لوگوں کو جرائم کی طرف بڑھنے سے روکے۔ اگر لوگوں کے لیے حلال ذرائع کا حصول مشکل بنادیا جائے گا تو لامحالہ لوگ برائی اور حرام کی طرف جائیں گے۔ یقینی طور پر ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کی ذمہ داری سب سے پہلے ارباب اختیار کی ہوتی ہے۔ اس لیے ان کی کوتاہی پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ 

0 comments: