March 2019 ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Saturday, March 30, 2019

کراچی کی سڑکیں

عظمی ظفر

کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے ضمیر جعفری کی اس نظم نے سچائی پر سو فیصد اترتے ہوئے تاحال مقبولیت حاصل کی ہے، مگر آج درد دل رکھتے ہوئے اس میں جزوی ترمیم نثر میں موجود ہے کہ، کراچی کی سڑکوں پر سفر ہو رہا ہے۔بس آپ تصور کرتے جائیے اور سفر کرتے جائیے۔ اپنی پتلی گلیوں کے اونچے نیچے رستوں پر بمشکل گزر کر ہم بڑی سڑک پر آتے ہیں اگر تو آپ کی چپل دوپٹی والی سروس یا ایرو سوفٹ کی ہے پھر تو ٹھیک ہے وگرنہ لاہوری چپلوں میں بہت ہی زیادہ سنبھل کر چلنا پڑتا ہے۔ اب خدا جانے عمر کا تقاضا ہے کہ ہم سے چلا نہیں جاتا ان پتھروں پر، ورنہ تو ایسی حسینائیں بھی دیکھیں ہیں جو پینسل ہیل پہن کر ان ہی ٹوٹی پھوٹی اونچی نیچی سڑکوں پر کھٹ کھٹ چلتی چلی جاتی ہیں خدا جانے کون سی نادیدہ قوت انھیں خراماں خراماں کراچی کی سڑکوں پر چلاتی ہے وللہ عالم۔
بڑی سڑک یا چوڑی سڑک کہنے میں تو پورا نام لے کر کہا جاتا ہے ورنہ دن کے بارہ بجے سے رات کے دوبجے تک وہ سڑک فٹ پاتھ مافیا ،ٹھیلے والوں، خوانچہ فروشوں، فقیروں سے آگے تک اوور لوڈ ہوتی ہے۔ مزید برآں موٹر سائیکل حضرات، گاڑی والوں کی گاڑیاں اور رکشہ برادران کے پارکنگ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ بڑھتے بڑھتے وہ چوڑی سڑک پتلی گلی ہی نظر آتی ہے البتہ صبح صادق میں دیکھیں تو سڑک کی چوڑائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ بڑی شاہراہوں کے موڑ کاٹیں کنارے کنارے ٹھیلے والے آج ہر شے سجائے کھڑے ہیں آپ کو بازار جانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔
لنڈا بھی سڑک پر
برگر بھی سڑک پر
ہے سامان زندگی
میسر ہی سڑک پر
ایک زمانہ تھا جب نوجوان طبقہ سائیکلوں پر چند کتابیںکیرئر میں دبائے صبح کالج اور شام میں لائبریری کو جاتے نظر آتے ،آفس جانے والے مرد حضرات ٹفن بکس ہاتھ میں لٹکائے بس اسٹاپ پر نظر آتے، اکا دکا ڈبو کی دکانیں تھیں یا پان والوں کے کیبن تھے۔ جس کے آس پاس ناکام عاشق سوٹے مارتے نظر آتے ۔موٹر سائیکلیں بھی کم تھیں۔ فضائی آلودگی بھی ایسی نہ تھی کہ اب تو سگریٹ کے دھوئیں سے زیادہ گاڑیوں اور ٹرکوں کے دھوئیں ہی ٹی بی کا مریض بنا ڈالتے ہیں۔ اب تو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے پاس موٹر سائیکل ہے گویا گیم شو میں ملنے والے موٹر سائیکلوں کی کراچی میں بارش برس گئی ہو اور ہر گلی سے پانی کے کین لے کر واٹر پلانٹ کی دکانوں پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ پانی والوں کے کاروبار ٹینکر مافیا سے زیادہ چمک اٹھے ہیں۔ اب اتنے پنکچر ٹائروں میں نہیں ہوتے جتنے جوانوں کے پانی سے بھرے کولر گیلن اٹھا اٹھا کر ہوگئے ہیں۔
کس کی کمر میں چک آتی ہے، کسی کی ناف ٹلی تو کسی کا گردہ گیا۔سڑک پر طائرانہ نظر ڈالیں تو دور دور تک دھول مٹی، روڑے کنکر، کچرا تھیلیاں ہی تھیلیاں جا بجا بکھری ہوتی ہیں پہلے پہل تو ہم ”پچی کاری“ کو ہی وہ نادر نمونے سمجھتے تھے جو پان والے حضرات سڑکوں کو اگلدان سمجھ کر نقش ونگار بناتے ہیں مگر جب مطالعہ رواں ہوا تو معلوم ہوا کہ پچی کاری تو لکڑی کے فرنیچر میں کی جاتی ہے جب کہ جو سڑکوں پر کی جاتی ہے وہ ”پچ کاری“ ہوتی ہے۔ کھڈے تو اتنے ہیں کہ جہاں سڑک ہموار ہو تو وہ دکھنے میں اچھی نہیں لگتی اور خوامخواہ ہچکولے لینے کا دل کرتا ہے یا کھودنے کا دل کرتا ہے۔ شاید یہاں سے پانی نکل آئے مگر کچرے اور تھلیوں کے سوا کچھ نہیں نکلنے والا،کبھی کبھی دل یہ بھی کرتا ہے کہ !
بندر روڈ سے کیماڑی
میری چلی رے گھوڑا گاڑی
والے دور میں چلے جائیں جہاں سڑکیں کشادہ تھیں البتہ پرفیوم والوں کی اتنی دکانیں نہیں تھیں کہ ہم ایسی سڑکوں پر گزر بسر کرتے ۔جہاں جگہ جگہ ٹم ٹم والے گھوڑے اپنا جانوری حق رکھتے ہوئے سڑک پر گندگی کرتے جائیں اور ہمارا سانس لینا محال ہو جائے۔ ویسے یہ کام اب جگہ جگہ مچھلی فروشوں نے ٹھیلے کھڑے کرکے شروع کردیا ہے یا پھر اگر کچرے سے بھرا ٹرک ٹریفک میں ہمارے ساتھ ہی پھنس جائے تو جہان فانی سے قبل از وقت کوچ کرنے کا دل کرتا ہے۔
سڑکوں پر کھمبے کم اور زیادہ نظر آتے ہیں جن جھنڈوں کی بہار ہو ہم مہینے کا اندازہ انہی سے لگا لیتے ہیں۔ کسی عقلمند نے پیشن گوئی کی ہے کہ اگر یہ ملک کبھی کھدائی میں دریافت ہوا تو موہن جوداڑو اور ہڑپہ کی طرح تہذیب وتمدن کی چیزوں برتن ہتھیار اور زیورات کے بجائے وال چاکنگ کے نمونے نکلیں گے جس سے یہ یقین آجائے گا کہ اس قوم کے جوان باہر ملک کے اقامے، ویزوں، گرین کارڈ کے انتظار میں اور مرد مردانہ کمزوریوں میں ختم ہوئے جب کہ عورتیں بنگالن مائی،عامل جادوگر کے ایک تعویز سے سوکن کا کام تمام کرنے اور محبوب کو اپنے قدموں میں کرنے کے چکر میں گزر گئیں۔ کچھ عورتیں نئی ریسپیز اور فیشن کی دوڑ میں آگے نکل گئیں، جب کہ بچے پولیو کے قطرے ہی پیتے رہے اور بڑے نہ ہوسکے۔
ستم ظریفی تو یہ ہے صاحب کہ اب بچوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ چلو راستے میں دیواروں پر لکھے اشتہار پڑھ کر سناو اردو اچھی ہوگی، مگر آہ،آگے سے وہ سوال پوچھ بیٹھتے ہیں کہ نارمل ڈیلیوری پیکیج انتہائی سستا ہے آپریشن سے تو ایک پیکج میں بھی لوں گا! کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟بس یہ سفر ختم ہو جائے یہی اچھی بات ہے دعا مانگنی پڑتی ہے کہ اگلی دیوار پر کچھ نا لکھا ہو۔ اگر پیٹرول ختم ہو جائے تو ادھر آپ پمپ پہ کھڑے ہوتے ہیں کہ ادھر ما نگنے والے اور مانگنے والیوں کا رش لگ جاتاہے غلطی سے کسی کو خیرات دے دیں تو لڑائی شروع ہو جاتی ہے کہ ”تو نے اس کو دیا مجھے بھی دے“ اور یوں سب کو دیتے دلاتے خود دوسروں سے ماگنے کی نوبت آجاتی ہے اور فقیروں سے بچے تو لٹیروں میں پھنسے والی بات ہوتی ہے۔
جن دنوں آفس جانے کے لیے بس کا بے زاری سے انتظار صبح اور بے چینی سے انتظار شام میں کرتے تھے وقت گزاری کے لیے اخبار کے اسٹال کے قریب کھڑے ہوجاتے اور گنتی کے چند اخبار تھے جن کی شہ سرخیاں پڑھ لیا کرتے تھے۔ دنیا جہان والوں کی خیر خبر وہاں سے مل جاتی، بقیہ صفحہ نمبر والی خبروں کو بقیہ زندگی کے لیے چھوڑ دیتے۔ ورنہ مفت میں اتنی خبریں کون دیتا ہے پڑھنے کو۔ اب تو اخبارات کی تعداد اتنی زیادہ کہ ان کے نام ہی پڑھتے پڑھتے متعلقہ چنگ چی آجاتی ہے جس میں ہم ٹھس کر پھنس کر بیٹھ جاتے ہیں اور اب تو پیسے خرچ کرکے بھی اپنی دسترس میں موجود پنڈورا باکس کو ایک ٹچ سے کھولنے پر بھی خبریں نہیں پڑھتے باقی سب کچھ پڑھ لیتے ہیں۔
خدا خدا کرکے کنٹینروں کی رکاوٹوں، دھرنوں کے احتجاجیوں سے بچ بچا کر منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں اور چٹھی لکھ دیتے ہیں کہ میں یہاں خیریت سے پہنچ گیا ہوں شام میں سلامتی سے واپس آجاوں دعا کیجیے گا۔ اگر شہر بھر کے نیٹ سروس بند نہ ہوں تو میسج مل جاتا ہے باقی رہے نام اللہ کا! ہم تو گزر ہی جائیں گے جانے سڑکوں کی قسمت اور حالت کب بدلیں گیں؟

تہوار اپریل فول اور اسلام

علی احمد ساگر

 بد قسمتی سے اس وقت یہ ہما را خاصہ بن چکا ہے کہ جو کام بھی اہل مغرب کریں چاہے وہ صحیح ہو یا غلط ہم اسے من وعن تسلیم کرکے اپنے اوپر رائج کرلیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں اپنے ذہنوں پر سوار کر رکھا ہے۔ گو کہ وہ ہم سے زیادہ معاشی طور پر مستحکم اور ترقی یا فتہ ہیں لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم اپنی روایات، تہذیب و تمدن، طور طریقوں اور معاشرتی اصولوں کو ترک کرکے دوسروں کی سنی سنائی باتوں پر عمل پیرا ہو جا ئیں۔ کہتے ہیں کہ جو قومیں اپنی تہذیب و تمدن اور روایات کو کھودیتی ہیں اور دوسروں کی تہذیب و تمدن اور طور طریقوں کو اپنالیتی ہیں وہی قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں۔ حالاں کہ ہمیں مغرب سے سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہم مسلما ن ہیں اور اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اخلاقی زندگی ہو، سیاسی یا معاشرتی زندگی اسلام ہمیں ان کی واضح ہدایا ت مہیا کرتا ہے اور انہی میں ہماری نجات ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے، ”اے ایمان والو !اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاﺅ اور شیطا ن کے قدم پر مت چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے“۔
اس کے باوجود بھی یہود و نصاری کی شیطانی رسوما ت ہمارے اندر رائج ہو تی جا رہی ہیں۔ انہی میں سے ایک تہوار”اپریل فول“ بھی ہے۔ لفظ اپریل لاطینی زبا ن کے لفظ اپریلس ((Aprilis یا اپرائر((Aprire سے ما خوذ ہے جس کا مطلب کو نپلیں پھوٹنا، پھولوں کا کھلنا ہے جب کہ لفظ فول سے مراد نادان ،سادہ لوح اور بے حماقت جیسے معانی میں مستعمل ہے۔ بطور تہوار اپریل فول سے مراد جھوٹ بول کر ایک دوسرے سے مذاق کرنا اور بےوقوف بناناہے۔ یکم اپریل کو رومی قوم اپنے شراب کے دیوتا کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے اور عجیب و غریب حرکات کرتے تھے۔انسائیکلوپیڈیا انٹرنیشنل کے مطا بق یکم اپریل کو جھوٹ کے عالمی دن کے طور پر منا یا جا تا ہے۔ یہ یورپ سے شروع ہوا اور اب تقریبا ساری دنیا میں کینسر کی طرح پھیلا ہوا ہے۔1508 سے1539کے دلندیزی اور فرانسیسی ذرائع ملتے ہیں جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ یورپ کے ان علاقوں میں یہ تہوار پا یا جا تا تھا۔برطانیہ میں اٹھارہویں صدی کے شروع میں اس کاعام رواج ہوا۔ کہاجا تا ہے کہ یہ تہوار سب سے پہلے بہادر شاہ ظفر سے منا یا گیا۔ بہادر شاہ ظفر جب انگریزوں کی قید میں تھا تو انگریزوں نے انہیں صبح ناشتے کا کہہ کر بلایا لیکن جب اس نے دیکھا تو اس کے بیٹے کا کٹا ہوا سر اسے پیش کیا گیا جس پر اسے شدید صدمہ ہوا جس پر انگریزوں نے اس کا مذاق اڑیا۔پہلے یہ تہوار صرف انگریزوں تک محدود تھا لیکن اب یہ تہوار مسلمانوں میں بھی رائج ہوچکا ہے۔ اسلام میں جھوٹ بولنے کی بڑی سخت ممانعت ہے جبکہ قرآن پاک میں واضح ارشاد ہے کہ، ”جھوٹ بولنے والے پر اللہ کی لعنت ہے “
اسی طرح رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرما یا، ”سچائی طمانیت ہے اور جھوٹ عدم اطمینان ہے“۔ یعنی سچ کے اندر اطمینا ن اور سکون ہے اور جھوٹ میں بے چینی ہے۔ ہمیں یہ تلقین کی گئی ہے کہ ہمیشہ سچ بو لو۔ سچ انسان کو نیکی کی طرف لے جا تا ہے اور نیکی انسان کو جنت میں لے جا ئے گی جب کہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جا تا ہے اور گنا ہ جہنم کی طرف لے جائے گا ۔مومن سچائی کا دوسرا نا م ہے ۔آپ ﷺنے ارشاد فرمایا، ”اے صحابہ تمہیں بڑے بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں۔ صحابہؓ نے عرض کیا کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا 1۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا2۔ کسی انسان کا قتل کرنا 3۔ اپنے والدین کی نا فرمانی کرنا پہلے آپﷺ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے تو آپﷺنے ٹیک چھوڑ کر فرمایا، 4۔ سن لو جھوٹی بات کرنا“۔ 
یعنی جہنم میں لے جانے والے گنا ہوں میں یہ گناہ ان سے بھی بڑا ہے۔ ہمیں ہمیشہ جھوٹ سے اجتناب کرنا چاہیے اور سچ بو لنا چاہیے کیونکہ اسی میں ہماری راحت ہے۔ ایک بزرگ ابن خراش کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ ایک دن ان کے دوبیٹے جنگ میں شریک ہو ئے۔ حجاج کے دور میں انہیں شکست ہو گئی تو ان کے بیٹے چھپتے چھپاتے گھر پہنچ گئے ۔حجاج نے اپنے جاسوسوں سے پتاکروایا تو علم ہوا کہ ابن خراش کے بیٹے گھر میں موجود ہیں ۔تو اس نے ابن خراش کو روک کر پوچھاکہ، ”بتا تیرے دو بیٹے کہاں ہیں ؟“تو انہوں نے کہا کہ، ”زندگی مو ت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے میرے دونوں بیٹے میرے گھر میں موجود ہیں“۔ سچ بولنے کی وجہ سے حجاج نے کہا جاﺅ میں تمہیں تمہارے دونو ں بیٹے ہدیہ کرتاہوں۔
اسی طرح ایک اور واقعہ ہے جب انگریزوں کا زمانہ تھا کہ زمین پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیا۔ اس زمین پر ہندو مندر بنانا چاہتے تھے اور مسلمان اس پر مسجد بنانا چاہتے تھے۔ جج نے ہندﺅں سے پوچھا کہ کو ئی ایساہے کہ جو گواہی دے کہ یہ زمین ہندﺅں کی ہے یا مسلمانوں کی تو ہندﺅں نے مفتی مظفر حسین کا نام لیا اور مسلمان بھی خوش تھے کہ اپنے ہی عالم دین ہیں اور یہ ہمارے حق میں ہی بات کریں گے۔ جب مفتی مظفر حسین کو عدالت میں بلایا گیا اور ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہ سچ تو یہ ہے یہ زمین ہندﺅں کی ہے ۔تو اس وقت کے جج نے کہا آج مسلمان ہار گئے لیکن اسلام جیت گیا۔ سچ تو ایک عالمی صفت ہے اگر کو ئی اللہ کو نہ بھی مانے لیکن سچ کو پسند کرتا ہے اورسچ تومومن مسلمان کی پہچان ہے۔ ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان اس مناسبت سے حکومت وقت اپیل ہےکہ اس اسلام مخالف تہوار کو پاکستان میں نہ منانے کے احکامات صادر فرما کر ایک غلط رسم کی اور اس کے پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ پاکستان کی عوام کو بھی فرداً فردا ًاس رسم کے خلاف سخت موقف اختیار کرنا چاہیے بلکہ ہمیں اس دن جھوٹ کی بجائے سچ اور سچائی کی اہمیت کے حوالے سے سیمینار ز منعقد کروانے چاہییں۔

وٹامن سی وینٹی لیٹر سے جلد چھٹکارا دلائے

سائنسدانوں نے کہا ہےکہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ٹھہرنے والے مریضوں کی جلد بحالی اور ان کو وہاں سے باہر نکالنے میں وٹامن سی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
نارنجی، کینو، لیموں اور دیگر کھٹے رسدار پھلوں میں پایا جانے والا وٹامن سی بعض مریضوں کو آئی سی یو سے باہر نکالنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کا انکشاف آسٹریلیا اور فن لینڈ کے ماہرین نے کیا ہے جن میں جامعہ فِن لینڈ کے ڈاکٹر ہیری ہیمیلیا اور سڈنی یونیورسٹی کی ایلزبتھ چاکر شامل ہیں۔
انہوں نے درجنوں مطالعوں کے بعد کہا ہے کہ اگر انتہائی بیمار اور تشویشناک کیفیت میں مبتلا مریضوں کو وٹامن سی دیا جائے تو آئی سی یو میں ان کے وقت میں 8 فیصد تک کمی ہوسکتی ہے۔ تاہم انہوں نے آئی سی یو مریضوں اور وٹامن سی کے براہِ راست اثرات پر مزید تحقیق پر زور دیا ہے۔
ماہرین نےکہا ہے کہ وٹامن سی ایک جادوئی شے ہے جس کے فوائد سائنسی طور پر ثابت شدہ ہیں۔ یہ جسم میں کئی کام کرتا ہے جن میں خلیات میں توانائی کی پیداوار بڑھانا، بلڈ پریشر کو برقرار رکھنا، دل کو بحال رکھنا ، اچھے جینیاتی افعال میں اضافہ اور ناقص جینیاتی عمل کو کم کرنا شامل ہے۔
وٹامن سی عام سردی لگنے کی شدت اور مدت کم کرتا ہے، ذیابیطس کے مریضوں میں گلوکوز کی سطح کم  رکھتا ہے اور سانس کی نالیوں کو ہمواربنانے میں مدد دیتا ہے۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے مریض وٹامن سے بحال ہوتے ہیں اور شدید مرض کی کیفیت سے جلد باہر آجاتے ہیں۔
ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ حادثوں، سرجری، انفیکشن، دماغی تناؤ اور دیگر کیفیات میں جسم میں وٹامن سی تیزی سے کم ہونا شروع ہوجاتا ہے اور یوں تمام جسمانی افعال شدید متاثر ہونا شروع ہوجاتےہیں۔
اسی بنا پر ڈاکٹروں نے انتہائی بیمار افراد کو روزانہ 4 گرام وٹامن سی دینے کی تجویز پیش کی ہے جبکہ صحتمند فرد کو روزانہ0.1  گرام وٹامن سی درکار ہوتا ہے۔ دوسری جانب سائنسدانوں نے 18 مطالعات میں 2004 ایسے مریضوں کو دیکھا جو آئی سی یو میں منتقل کئے گئے تھے اور ان میں سے 13 افراد دل کی جراحی سے گزرے تھے۔
اس مطالعے سے معلوم ہوا کہ جن مریضوں نے وٹامن سی کی مناسب مقدار کھائی ان کے آئی سی یو میں رہنے کے اوقات میں 8 فیصد کمی واقع ہوئی۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ وٹامن سی استعمال کرنے والے مریض وینٹی لیٹر پر رہتے ہوئے بھی جلد ہی بہتر ہوئے اور وینٹی لیٹر کی ضرورت سے آزاد ہوئے۔

ہیروشیما بم سے دس گنا طاقتور شہابیے کے بھڑکنے کی تصویر جاری


 واشنگٹن: ناسا نے حال ہی میں ایک ایسے آتشیں گولے کی تصویر جاری کی ہے جو ایک شہابِ ثاقب کے زمینی کرہ ہوائی میں بھڑکنے سے بنا اور کہا جارہا ہے کہ اس عمل میں کئی ایٹم بموں کے برابر توانائی خارج ہوئی تھی۔
گزشتہ سال 18 دسمبر کو بحیرہ بیرنگ کے اوپر ایک شہابیہ بھڑک اٹھا تھا جس سے 1945 میں ہیروشیما پرگرائے جانے والے ایٹم بم سے بھی 10 گنا زائد توانائی پیدا ہوئی تھی۔ زمین سے 26 کلومیٹر بلندی پر بادلوں کے اوپر شہابیہ زمینی فضا کی رگڑ سے  جل اٹھا جس سے 173 کلوٹن توانائی پیدا ہوئی تھی۔ ناسا کے ٹیرا سیٹلائٹ نے اس منظور کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا۔
ماہرِ طبعیات سیلب شارف کا خیال ہے کہ یہ شہابیہ چند میٹر بڑا تھا جو زمین کا رخ کررہا تھا لیکن زمین فضا میں داخل ہوتے ہی رگڑ سے بھڑک اٹھا اور اس کی رفتار بہت تیز تھی ۔ اسی لیے یہ بہت بلندی میں ہی جل بھن کر ختم ہوگیا تھا۔
اس سے قبل 15 فروری 2013 میں روسی علاقے میں ایک بہت بڑا شہابیہ آتشیں گولے کی مانند نمودار ہوا تھا جس کی روشنی سے بہت سارے افراد عارضی طور پر نابینا بھی ہوگئے تھے لیکن بعد میں ان کی بینائی بحال ہوگئی تھی۔ یہ شہابیہ بھی بہت بلندی پر ہی بھڑک اٹھا تھا ورنہ اس سے بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوسکتا تھا۔
کورنیل یونیورسٹی کے مطابق زمین پر ہرسال 84 ہزار سے زائد شہابئے گرتے ہیں جن کا وزن لگ بھگ دس گرام ہوتا ہے۔ تاہم ایک صدی میں بڑے شہابئے کے زمین پر گرنے سے ایک یا دو واقعات ہوتے ہیں۔

اپریل فول اور ہمارا معیار خوشی

ام محمد عبداللہ 

اپریل فول دوسروں کے ساتھ عملی مذاق کرنے اور بے وقوف بنانے کا تہوار ہے۔ یہ تہوار دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ یکم اپریل کو ہنسی مذاق، دل لگی اور خوشی منانے کے نام پر دوست احباب اور عزیز و اقارب کے ساتھ قصداً جھوٹ بولنا جائز سمجھا جاتا ہے۔ بندہ مومن کے لیے چونکہ یہ زندگی محض کھیل تماشا نہیں بلکہ ایک عظیم کامیابی کے حصول کے لیے ودیعت کردہ نعمت ہے۔ پس وہ اس زندگی میں خوشی تفریح اور تہوار کے نام پر بھی غلط موڑ مڑنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ 
حضور ﷺکا ارشاد ہے ”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ اسی میں سے ہے“۔ اس لحاظ سے یورپی اقوام کے اس تہوار کو منانا انتہائی غیر مناسب اور ہماری اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ہمارے پاس الحمدللہ، دنیا کے ہر تہوار سے بڑھ کر دو خوبصورت تہوار عیدالفطر اور عیدالاضحی موجود ہیں۔قرآن مجید میں ارشاد ہے،”جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے“۔ (آل عمران)
 ایک اور جگہ ارشاد ہے: ”اور جھوٹی بات سے پرہیز کرنا چاہیے“۔ (الحج ) مختلف احادیث مبارکہ میں بھی جھوٹ کی مذمت کی گئی ہے۔ اپریل فول کے تہوار کی روح ہی چونکہ جھوٹ بول کر ایک دوسرے کا مذاق اڑانا ہے اس لیے بندہ مومن کے لیے اس تہوار کو منانے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مغرب سے مرعوبیت کی نفسیات میں جی رہے ہیں۔ ہمیں ان کی زندگی ان کے شب و روز اور ان کے تہوار پرکشش محسوس ہوتے ہیں۔ وہ یقین و اعتماد جو ہمیں ہماری اپنی شناخت اپنے دین پر ہونا چاہیے ہمیں ان کے کردار و افعال پر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس مرعوبیت کی نفسیات سے باہر آ کر اپنے معیار کے مطابق خوش ہونا سیکھیں۔ دیکھیے آج تخریب کی لپیٹ میں آئی اس دنیا میں امن و محبت کو فروغ دیتا خوشی کا کیا اعلی معیار اس فرمان نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں عیاں ہے، ”اللہ عزوجل کے ہاں تمام اعمال سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ خوشی بھی ہے کہ جو تم کسی دوسرے مسلمان کو دو“۔ 
اپریل فول کے اوچھے طریقے جس میں ایک فریق دوسرے فریق کی دل آزاری اور تضحیک کا باعث بن جاتا ہے کو اپنانے کی بجائے کسی کو خوشی دے کر خود بھی زیادہ پائیدار خوشی وصول کی جا سکتی ہے اور اللہ رب العزت کی رضا پا کر جنت کی دائمی خوشیوں کا حق دار بھی بنا جا سکتا ہے۔آئیے اپریل فول کے نام پر کوئی جھوٹ نہ بولیں، کسی کو اپنی زبان اور ہاتھ سے اذیت نہ دیں بلکہ ہر دن اپنے پیارے رسولﷺکی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کو خوشی دینے والے بن جائیں۔ 

Friday, March 29, 2019

خیبر پختونخوا، قبائلی عوام اورخطہ کشمیر کے لوگوں کے درمیان برادرانہ تعلقات صدیوں پرانے ہیں،سردار مسعود خان

کے پی کے اور قبائلی عوام نے مشکل کی ہر گھڑی میں کشمیریوں کی مدد کی جس کے لئے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔
 صدر آزاد جموں وکشمیر کی کے پی کے کے گورنر شاہ فرمان سے ملاقات کے دوران گفتگو 

پشاور(این ٹی ایس رپورٹ) آزاد جموں وکشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا، قبائلی عوام اورخطہ کشمیر کے لوگوں کے درمیان برادرانہ تعلقات صدیوں پرانے ہیں اور کے پی کے اور قبائلی عوام نے مشکل کی ہر گھڑی میں کشمیریوں کی مدد کی جس کے لئے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کے پی کے کے گورنر شاہ فرمان سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آزادکشمیر کی موجودہ حکومت صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے ساتھ نئے جذبے سے معاشی اور تجارتی تعلقات قائم کرنے کی خواہشمند ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ مانسہرہ، مظفرآباد، میرپور شاہراہ پر جلد از جلد تعمیراتی کام شروع کیا جائے تاکہ اس اہم منصوبے سے دونوں خطوں کے عوام یکساں طور پر مستفید ہو ں۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے کہا کہ پاکستان اور ریاست جموں وکشمیر کے عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر اٹھاتا رہے گا۔صدر آزادکشمیر اور گورنر کے پی کے نے کشمیری مہاجرین مقیم خیبر پختونخوا کے مسائل سمیت مختلف باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ قبل ازیں پشاور پریس کلب ’’میٹ دی پریس‘‘ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے بھارتی حکومت کی طرف سے جماعت اسلامی اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ پر پابندی کو ایک نیا فسطائی ہتھکنڈہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ رکاوٹیں اور پابندیاں کشمیر کا رواں حریت کا راستہ نہیں روک سکتیں۔ صدر نے کہاکہ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم، مورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں جس کا عالمی برادری اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کو سخت نوٹس لینا چاہیے انہوں نے کہا کہ پلوامہ واقعہ کے بعد کئی بے گناہ کشمیریوں کو شہید اور ان کے کاروبار کو تباہ کرنے کے علاوہ خواتین کی بے حرمتی کی گئی تاکہ وہ پلوامہ واقعہ کا انتقام لے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو آزادی اور اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کے جرم میں گرفتار کر کے انہیں جیلوں اور اذیت خانوں میں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا اب معمول بن گیا ہے۔ صدر سردار مسعود خان نے ہندوہ مذہبی انتہاء پسند تنظیمیں جنہیں حکمران جماعت بی جے پی کی حمایت حاصل ہے کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور کشمیری عوام کی زندگی اجیرن کرنے میں ملوث ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں دیگر بھارتی مظالم کی تفصیلات بتاتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارتی فوج نے آزادی کی صبح کا خواب دیکھنے والے ہزاروں نوجوانوں کو پیلٹ گنوں سے نشانہ بنا کر بصارت سے محروم کر دیا ہے۔ جبکہ وادی کے مختلف علاقوں میں چھ ہزار ایسی قبریں دریافت ہوئی جہاں بے گناہ نوجوانوں کو اذیت خانوں میں تشدد کے بعد شہید کر کے دفن کر دیا گیا۔ بھارت کے یہ وہ جرائم ہیں جن کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے۔ سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت کے تمام تر مظالم اور جبری ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیریوں کی اپنی جائز اور منصفانہ جدوجہد جاری ہے اورانشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر کے عوام غیر ملکی تسلط سے آزاد ہوں گے۔ بین الاقوامی سطح پر تنازعہ کشمیر کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ برطانیہ اور یورپی پارلیمنٹ میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی سفارشات کی حمایت اور توثیق ایک بہت بڑا اہم قدم اور پیش رفت ہے۔ صدر سردار مسعود خان نے حالیہ دنوں میں بھارت کی حکومت کی طرف سے آزادکشمیر اور پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی پر حملے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی افواج نے نہایت بہادری اور جرات مند ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی اشتعال انگیزی کا منہ توڑ جواب دیا اور ساتھ ہی بھارت سمیت دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان اپنی جغرافیائی سرحدوں کے ایک ایک انچ کا مکمل دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صدر آزادکشمیر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بننے والا مسئلہ کشمیر ابھی تک حل طلب ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں بلکہ دنوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ پر امن سیاسی و سفارتی طریقوں سے کشمیر سمیت اپنے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ آزادکشمیر میں تعمیر و ترقی کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ آزادکشمیر کے بنیادی ڈھانچے میں کافی وسعت آچکی ہے نئی سڑکوں کی تعمیر تعلیمی اور صحت کے ڈھانچے کی ترقی کے علاوہ سیاحت کے وسیع مواقعوں کو بروئے کار لانے کے لئے رہائشی سہولتوں کی فراہمی کے لئے کئی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ 

بھارت کی استعماری پالیسیوں کے نتیجے میں جاری کشمیریوں کا قتل عام ایک منظم نسل کشیُ

فوجی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کو اپنی جدوجہد آزادی جاری رکھنے سے روکا نہیں جاسکتا، مشترکہ حریت قیادت 
سرینگر۔ 29 مارچ (این ٹی ایس رپورٹ) مقبوضہ کشمیرمیں سیدعلی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک پر مشتمل مشترکہ حریت قیادت نے پورے مقبوضہ علاقے میں بھارت کی استعماری پالیسیوں کے نتیجے میں جاری کشت و خون کو کشمیری نوجوانوں کی منظم نسل کشیُ قراردیتے ہوئے کہاہے کہ بھارت فوجی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کو اپنی حق پر مبنی جدوجہد آزادی جاری رکھنے سے روک نہیں سکتا۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق حریت قائدین نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کہاکہ فوجی طاقت کے استعمال کی بھارتی پالیسی سے جموں وکشمیر کی پہلے سے سنگین صورتحال مزید ابتر ہوجائیگی ۔ انہوں نے کہاکہ آئے روز مقبوضہ علاقے میں نہتے کشمیریوں کے قتل کے واقعات انسانی حقوق کی سنگین پامالی، حریت قائدین اور کارکنوں کیخلاف کریک ڈاؤن ، نوجوانوں کی گرفتاریاں اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کمزور کرنے کیلئے فوجی طاقت کا وحشیانہ استعمال نہ صرف بین الاقوامی برادری خاص طور پر انصاف پسند اقوام و ممالک اور حقوق بشر کی عالمی تنظیموں کیلئے چشم کشا ہے اور اس سے بھارت کے خوفناک عزائم کی عکاسی ہوتی ہے۔انہوں نے کہاکہ مسئلہ کشمیر ایک زندہ حقیقت ہے اوربھارت اپنی ہٹ دھرمی اور جارحانہ پالیسی کے ذریعے نہ تو ماضی میں اس دیرینہ تنازعے کی حساسیت ختم کرسکا ہے اور نہ آئندہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہو گا ۔حریت قائدین نے بیج بہاڑہ اور کولگام میں بھارتی فورسز کے مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والے دکانداروں پر فورسز کی طرف سے طاقت کے وحشانہ استعمال،کشمیری نوجوانوں فیضان احمد اور سہیل نذیر بٹ کو بلا جواز فائرنگ کر کے زخمی کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاکہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فورسز کو نہتے کشمیریوں کے قتل عام کی کھلی چھوٹ حاصل ہے ۔ سیدعلی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے شوپیاں اور پلوامہ میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں گزشتہ روز شہید ہونیوالے کشمیری نوجوانوں عاقب احمد، بشارت احمد،اور سجاد کھانڈے کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نہتے کشمیر ی نوجوانوں کوانسانی سوز مظالم اور بدترین ذہنی و جسمانی اذیتوں کا نشانہ بنا کر مسلح جدوجہد شروع کرنے پر مجبور کر رہا ہے ۔ انہوں نے بھارتی حکومت پر زوردیا کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی پر مبنی انتقامی پالیسی ترک کرتے ہوئے کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عملی اقدامات کرے۔

دھوکے کی قیمت

بلال شیخ

عثمان کافی لیٹ ہو گیا تھا اس کو انٹرویو کے لیے جلدی پہنچنا تھا وہ بھاگتا ہوا باہر اسٹاپ تک پہنچا مگر بس بھی نکل چکی تھی اور وہ یہ نو کری کسی حال میں بھی کھونا نہیں چاہتا تھا۔ لاہور شہر میں لیٹ ہونا جرم ہے اور اس کی سزا سڑکوں کی ٹریفک کی شکل میں ملتی ہے موقعے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے عثمان نے رکشہ لینا بہتر سمجھا اور ایک رکشے والے کو رکوایا۔ رکشے والے نے عثمان کے قدموں کے قریب آ کر بریک لگائی رکشے والا صحت مند ا اور چہرے کے نقوش سے عمر کا اندازہ لگایا جائے تو چالیس کے قریب قریب لگتا تھا۔ رکشے والا مسکراتے بولا۔ جی بھائی جان؟ ماڈل ٹاﺅن جانا ہے، عثمان نے کہا۔
لے چلوں گا، رکشے والے نے شیشے میں بالوں کو درست کرتے ہوئے کہا۔ کتنے پیسے لیں گے؟ عثمان نے ٹائم دیکھتے ہوئے پوچھا۔ دو سو روپے ، رکشے والے نے جواب دیا۔ عثمان جلدی میں تھا اس وقت وہ پانچ سو بھی مانگتا تو شاید عثمان مان جاتا۔ اس نے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور رکشے میں بیٹھ گیا۔ چلو بھائی ذرا جلدی چلنا ہے دیر ہو گئی ہے پہلے ہی، عثمان نے اندر بیٹھتے ہوئے کہا۔ جناب وقت سے پہلے پہنچا دوں گا ، رکشے والے نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔ موبائل پر کچھ بٹن دبائے گیر ڈالا اور رکشہ چلانا شروع کر دیا۔ 
رکشے کی سواری کا بھی اپنا مزا ہے لیکن جن رکشوں میں رکشے والوں نے گانا سننے کے لیے اسپیکر لگائے ہوتے ہیں۔ ان رکشوں میں سواریوں کو کمر سیدھی کرنا نصیب نہیں ہوتا پیچھے عثمان بیٹھا اپنی کمر جھکائے بار بار ٹائم دیکھ رہا تھا۔ عثمان ایک خوش سیرت اور خوش اخلاق لڑکا تھا۔ 15 منٹ باقی تھے اورلیٹ ہونے کا خوف تنگ کر رہا تھا۔ رکشے والا منہ میں گانا گنگنا رہا تھا اور بار بار عثمان کو شیشے سے پیچھے کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کے موبائل پر رنگ ہوئی اور اس نے موبائل کان کو لگالیا۔
 بھائی جان السلام علیکم، رکشے والے نے اونچی آواز میں بولا۔ عثمان اپنی فائل کو سیٹ کر رہا تھا کہ اچانک چونکا۔ رکشے والا کچھ لمحے خاموش رہا اور اپنے نچلے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولا، جناب بس ایک ہفتہ دے دیں میں کچھ کرتا ہوں مہربانی ہوگی، آپ کو پتا تو ہے پچھلے مہینے میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس کی وجہ سے لیٹ ہوگیا، رکشے ولا ایک دم خاموش ہوگیا اور پھر رونا شروع کردیا۔ جناب میں کہا جاﺅں گا میرے پاس کوئی جگہ بھی نہیں ہے، بھائی صاحب میں کیسے مکان خالی کر دوں ہیلو ہیلو۔۔ رکشے والے نے کہتے ہوئے موبائل کو دیکھا اور موبائل ایک سائڈ پر رکھ دیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ 
عثمان بیٹھا پیچھے دیکھ رہا تھا وہ سمجھ کر بھی بات سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اس نے رکشے والے کو روتا دیکھا تو اس کے اندر ہمدردی پیدا ہوئی اس نے نہ نہ کرتے بھی پوچھ لیا۔ کیا ہوا بھائی جان سب خیریت تو ہے؟ عثمان نے سامنے لگے شیشے میں رکشے والے کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ جی جناب! پچھلے مہینے میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ جتنا پیسہ تھا وہاں لگ گیا یہ میری ناک پر چوٹ بھی لگی ہے یہ دیکھ رہے ہیں، رکشے والے نے انگلی سے ناک پر لگے نشان کو دکھاتے ہوئے کہا اور اپنی بات جاری رکھی ”مکان کا کرایہ نہیں دے سکا اِس مہینے بھی حالات تنگ ہے میری چار بیٹیاں ہیں، مکان مالک نے کہا ہے کل مکان خالی کر دو۔ اب آپ ہی بتاو میں کہا ںجاوں؟ اِس مہنگائی کے دور میں دو ٹائم کی روٹی مشکل سے پوری ہوتی ہے اور اوپر سے مکان کے کرائے سکول کی فیسیں“،رکشے والا کہتے کہتے رو پڑتا اس کی آواز میں لرزا تھا۔ عثمان نے سنا تو اس کو بہت افسوس ہوا کہ لوگ کتنے ظالم ہے دوسروں کی مجبوریوں کو نہیں سمجھتے۔
”چلیں آپ فکر نہ کریں سب ٹھیک ہو جائے گا“، عثمان نے کہا اور وہ اِس وقت شاید اِس سے زیادہ کچھ کہ بھی نہیں سکتا تھا۔ رکشے والا بار بار رومال سے اپنی آنکھوںکے آنسو صاف کرتا اس کا چہرہ دنیا کی ظلم کی نمائندگی کر رہا تھا۔ عثمان کو اندر ہی اندر رکشے والے پر بہت رحم آ رہا تھا وہ ا ±س کی مدد کرنا چاہتا تھا اس نے دل میں سوچا کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اِس کا کرایہ بھر دیتا مگر۔ اس نے نیت کی کہ وہ سفر ختم ہونے کے بعد اس کی ضرور مدد کرے گا۔ رکشے والا عثمان کو اس بلڈنگ کے باہر لے آیا جہاں عثمان کا اِنٹرویو تھا عثمان رکشے سے اترا اور جیب میں ہاتھ ڈالا کچھ دیر جیب میں ہاتھ گھومانے کے بعد اس کی جیب میں سے ہزار روپے نکلے تھے اور اس کے پاس صرف یہ اکلوتا نوٹ تھا جو اسے کل اپنی امی سے ملے تھے ا ±س نے سوچے سمجھے بغیر ہزار روپے رکشے والے کو پکڑا دیے رکشے والے نے ہزار روپے پکڑے اور عثمان کا شکریہ ادا کیا اور آنکھوں کو ملنے لگ گیا۔
”بھائی یہ رکھو اور دعاوں میں یاد رکھنا“، عثمان کہ کر تیز قدموں کے ساتھ اندر چلا گیا۔ رکشے والا عثمان کو اندر جاتا دیکھ رہا تھا وہ ابھی بھی وہی کھڑا تھا اس نے عثمان کے جانے کے بعد ہزار کا نوٹ نکالا اور اس کا پورا معائنہ کیا اور بولا، ”واہ صبح صبح ہی بہت اچھی دیہاڑی لگ گئی، چل ایک کپ چائے پیتے ہیں“، رکشے والے نے رکشہ ایک طرف کھڑا کیا اور چائے والی دکان پر جا کر بیٹھ گیا۔ ”خان صاحب ایک کپ چائے لاو“، رکشے والا کہ کر بیٹھ گیا کچھ دیر بعد چائے پیش کی گئی اور وہ چائے کے مزے لینے لگا۔ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ اس نے آج صبح ہی ایک لڑکے کو بیوقوف بنا کر اپنی دیہاڑی پوری کی ہے اب وہ پورا دن آرام سے کام کر سکتا ہے اور اگر نہ بھی کرئے تو کوئی بات نہیں کیونکہ جو پیسے اس نے تین چار سواریوں سے کمانے تھے وہ ایک لڑکے نے ہی دے دیے ۔ابھی وہ اِن خیالوں میں مگن گرم گرم چائے کے مزے لوٹ رہا تھا کہ اچانک ایک ٹھاہ کر کے زور دار آواز آئی، چائے کا گرم گھونٹ اس کی زبان کو لگا اور اس کی زبان سڑ گئی۔ 
رکشے والے نے جب دیکھا تو ایک تیز رفتار گاڑی رکشے میں آ کر زور سے لگی۔ ڈرائیور کم عمر تھا اِس لیے ڈر کر موقع واردات سے بھاگ گیا۔رکشے والے کا رکشہ جو کچھ دیر پہلے چمک رہا تھا اب وہ کباڑ کی شکل اِختیار کر گیا تھا۔ رکشے کی باڈی کی حالت اب بہت بری ہو گئی تھی۔ رکشے کا ایک پہیہ ایک طرف کو گرا ہوا تھا۔ رکشے والے نے دیکھا تو چیختا ہوا بھاگا،” ہائے میرا رکشہ میں لٹ گیا برباد ہو گیا“۔ اس نے رکشے کا ٹائر اٹھایا اور رکشے کی طرف بھاگا اور رکشے کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ وہ رکشے کو دیکھ کر رو رہا تھا حتی کہ اس کو ہچکی لگ گئی ۔کافی لوگ اس کے قریب آکر کھڑے ہو گئے۔ کچھ تماشائی بن گے اور کچھ تسلی دینے لگ گئے۔ تب اس نے آنکھوں کے آنسو صاف کیے تو کچھ دیر پہلے کے لمحات اس کے سامنے آئے ۔صبح کی گئی حرکت جو کہ اس کے باعثِ فخر تھی اب باعثِ شرمندگی بن گئی تھی اور اس کو اندازہ ہوا کہ دھوکے کی قیمت کیا ہوتی ہے چاہے وہ کسی انسان کے ساتھ ہو یا اپنی روزی کے ساتھ۔
عثمان بلڈنگ سے باہر نکلا اس نے ہاتھ کی مٹھی بنائی اور ہاتھ کو ہوا میں لہرا کر زور سے کہا ”یس“اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اس نے باہر نکلتے ہی اپنی جیب سے موبائل نکالا اور نمبر ڈائل کیا اور کانوں کو لگا لیا۔ وہ اِس خوشخبری کو کسی کے ساتھ بانٹنا چاہتا تھا ”ہیلو امی! مجھے نوکری مل گئی ہے“۔ عثمان نے موبائل جیب میں ڈالا اور ایک رکشے والے کو آواز دینے لگا پھر اس کو یاد آیا کہ میری جیب تو خالی ہے مگر جیب خالی ہونے کے باوجود اس کے چہرئے کی مسکراہٹ پر کمی نہیں آئی تھی اس نے راستے کی فکر کیے بغیر پیدل سفر کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ آج اس کی خوشی انتہا پر تھی اور جب دل مطمئن اور نیت صاف ہو تو انسان اپنے ارادوں میں مضبوط ہو جاتا ہے۔ 

بھارتی فوج نے پاکستانی طیارہ سمجھ کر اپنا ہیلی کاپٹر مارگرایا تھا





نئی دہلیبھارت نے 27 فروری کو پاک فضائیہ سے جھڑپ کے دوران گھبراہٹ میں اسرائیلی ساختہ میزائل داغ کراپنا ہیلی کاپٹر خود ہی مارگرایا تھا،
پاکستان سے جنگ کے خوف کے باعث بھارتی فوج گھبراہٹ میں دوست اور دشمن کی پہچان ہی کھو بیٹھی اورپاک فضائیہ سے جھڑپ کے دوران غلطی سے میزائل داغ کر اپنا ہیلی کاپٹر خود ہی مارگرایا تھا۔
27 فروری کو پاکستان سے جھڑپ والے دن سری نگر کے قریب انڈین ایئرفورس کا ایم آئی 17 وی فائیو ہیلی کاپٹر گرا تھا جس میں 6 اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ پہلے تو بھارتی ایئر فورس نے اس ہیلی کاپٹر کو تکنیکی حادثہ قرار دیا تھا۔

پاکستان کا بھارت کو کرارا جواب، پاک فضائیہ نے 2 بھارتی طیارے مارگرائے

تاہم اب بھارتی حکام کی تحقیقاتی رپورٹ میں پتہ چلا ہے کہ اس ہیلی کاپٹر کے گرنے سے تھوڑی دیر قبل بھارتی فضائی دفاعی نظام سے میزائل داغا گیا تھا اوروہی میزائل ممکنہ طور پر ہیلی کاپٹر کی تباہی کی وجہ بنا۔
میزائل فائرکرنے سے قبل شناخت کے نظام (آئی ایف ایف) سے معلوم کیا جاتا ہے کہ یہ دشمن کا جہاز ہے یا اپنا کوئی طیارہ ہے۔ اب بھارتی تحقیقاتی ادارے یہ معلوم کرنے میں مصروف ہیں کہ میزائل داغنے سے قبل آئی ایف ایف نظام فعال تھا یا نہیں اور کس جگہ غلطی سرزد ہوئی۔
بھارتی میڈیا اکنامک ٹائمزنے انڈین ائرفورس کے باوثوق ذرائع سے بتایا کہ اگراس واقعے میں ثابت ہوگیا کہ اپنے ہی میزائل سے ہیلی کاپٹر تباہ ہوا تو ذمہ دار افسران کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کی جائے گی۔
27 فروری کو پاک فضائیہ نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر بھارتی ائر فورس کے 2 طیارے مار گرائے تھے جس کے علاوہ ایک بھارتی ہیلی کاپٹر بھی مقبوضہ کشمیر کے علاقے بڈگام میں گرکر تباہ ہوا تھا۔ ہیلی کاپٹر گرنے کے واقعے پر بھارتی ایئر فورس اپنے ہی عوام کو دھوکا دینے میں مصروف رہی اور اسے حادثہ قرار دیتی رہی تھی، تاہم اب اس رپورٹ کے نتیجے میں بھارتی حکومت کے ایک اور جھوٹ کا پردہ چاک ہوگیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق واقعے کی تحقیقات میں یہ معلوم کیا جارہا ہے کہ فرینڈلی فائر سے اپنے اثاثوں کو بچانے کے متعدد حفاظتی اقدامات کیسے ناکام ہوگئے اور انہیں کیسے بہتر بنایا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے کسی واقعے سے بچا جاسکے۔ بھارتی میڈیا نے بتایا کہ جس میزائل کے ذریعے ہیلی کاپٹر تباہ ہوا وہ اسرائیلی ساختہ تھا، 27 فروری کی صبح ایل او سی پر پاک فضائیہ کے طیاروں کی نقل و حرکت کی اطلاع ملتے ہی جموں و کشمیر میں فضائی دفاعی نظام الرٹ ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی میزائل کو بھی ایکٹویٹ کردیا گیا تھا۔
بھارتی فضائیہ کو پاکستانی مسلح ڈرونز کا بھی ڈر تھا کہ وہ بھارتی اہداف کو نشانہ بناسکتے ہیں، اب بھارت کی بدقسمتی کہ ایسے موقع پر اس کا ایک ہیلی کاپٹر بھی فضا میں موجود تھا اور ممکنہ طور پر  بھارتی افواج کے نااہل اہلکاروں نے کم رفتار سے سفر کرتے اپنے ہیلی کاپٹر کو پاکستانی ڈرون سمجھ کر نشانہ بنایا۔
بھارتی ایئرفورس کا اعلیٰ افسر واقعے کی کورٹ آف انکوائری کررہا ہے اور بتایا گیا کہ پاک فوج سے صرف 10 منٹ کی جھڑپ کے دوران ہی یہ واقعہ پیش آیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ملک کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز شدید دباؤ اور ہیجانی کیفیت میں تھا اور اسی دوران ان سے یہ سنگین غلطی سرزد ہوئی۔
اسی روز پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے نیوز بریفنگ میں بتایا تھا کہ پاک فضائیہ کے شاہینوں نے دراندازی کرنے والے دو بھارتی طیارے مارگرائے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں ایک اور طیارہ گرنے کی بھی اطلاع ہے تاہم اسے پاک فضائیہ نے نہیں گرایا۔ بھارتی حکومت نے بھی اسی روز ہیلی کاپٹر کی تباہی کی تصدیق کردی تھی تاہم اسے محض ایک حادثہ قرار دیا گیا تھا۔
واقعے کے عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ فضا میں ایک زوردار دھماکا ہوا جس کے بعد دھویں کی لکیر چھوڑتا ہوا زمین پر آگرا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس واقعے میں یقینا کوئی تباہ کن بیرونی عنصر کارفرما ہے۔


کانگو میں ایبولا کی وبا پھوٹنے سے سیکڑوں افراد ہلاک




کانگوڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو (ڈی آر سی) میں گزشتہ آٹھ ماہ سے جاری ایبولہ وائرس کی وبا ہولناک صورتحال اختیار کرچکی ہے جس میں اب تک 1000 سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں اور ان کی دو تہائی تعداد لقمہ اجل بھی بن چکی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ڈاکٹروں اور طبی عملے پر عوام کے عدم اعتماد اور جھوٹی افواہوں کی وجہ سے ایبولہ کو قابو کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہورہی ہیں جس سے ڈی آر سی میں یہ مہلک وبا پھوٹ پڑی ہے۔ اس ضمن میں کانگو کے دو شہروں بینی اور بیوٹیمبو میں ایک سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ تین میں سے ایک فرد ہی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ حکومت اس بیماری سے لڑنے میں اس کی کوئی مدد کرسکتی ہے جبکہ 25 فیصد افراد نے کہا کہ ایبولہ وائرس کا کوئی وجود نہیں۔
اس سروے میں 36 فیصد لوگوں نے کہا کہ یہ ایک خود ساختہ بیماری ہے جس کا مقصد کانگو کو غیرمستحکم کرنا ہے۔ جبکہ 1000 میں سے 961 افراد نے کہا کہ انہوں نے اس مرض کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں سن رکھی ہیں۔ یہ تحقیق ممتاز طبی جریدے لینسٹ میں شائع ہوئی ہے۔
مطالعے کے سربراہ اور ہارورڈ میڈیکل اسکول سے تعلق رکھنے والے اسکالرپیٹرک ونک نے یہ بھی کہا کہ کانگو میں ایبولہ سے متاثرہ افراد کسی ڈاکٹر کی بجائے اپنے محلے اور برادری میں ہی اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’اس طرح مریض ایبولہ کے مصدقہ مراکزی کی بجائے عطائی ڈاکٹروں کے پاس جارہے ہیں جس سے انفیکشن تیزی سے پھیل رہا ہے،
سال 2014 سے 2016 تک ایبولہ وائرس پہلے مغربی افریقہ میں نمودار ہوا تھا جس میں 11 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور اب کانگو میں اس کے حملہ دوسری بڑی مہلک وبا کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ 2014 میں ایبولہ کی وبا پھوٹنے کے بعد اس کی ویکسین پر کروڑوں ڈالر خرچ کئے گئے۔
کانگو میں جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ آیا وہ اس بیماری کی ویکسین آزمانا چاہیں گے تو صرف 60 فیصد لوگوں نے ہی ایبولہ ویکسین استعمال کرنے کی حامی بھری۔
1974 میں پہلی مرتبہ کانگو میں ایبولہ وائرس دریافت ہوا تھا اور ایبولہ نامی دریا کے پاس دریافت ہونے کی وجہ سے اس کا نام ایبولہ وائرس رکھا گیا تھا۔


خود شناسی سے خدا شناسی تک

 راحیلہ چوہدری

خود شناسی ایک ایسا موضوع ہے جسے ہر دور میں ہی اہمیت حاصل رہی ہے۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ انسان کی خود شناسی سے نا آشنائی نے انسان کو ایک درندہ بنا دیا ہے۔ زندگی کی سمجھ آنے کے بعد بھی اگر زندگی وزنی معلوم ہواور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذات میں ایک گھٹن محسوس ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ زندگی اس کام کے لیے استعمال نہیں ہوئی جس کام کے لیے بنائی گئی تھی بلکہ کہیں اور استعمال ہورہی ہے۔
معاشرے میں بڑ ھتے ہوئے مسائل اور خا ص طور پر نوجوان نسل کے نفسیاتی مسائل کی ایک بڑی وجہ خود شناسی سے لا علمی اور لا تعلقی ہے۔جس کی وجہ سے وہ بھٹک رہا ہے اور بے راہ روی کا شکار ہے۔ خود شناسی کیا ہے؟ خود شناسی سے مراد ہے ”انسان کا اپنے مقام، اپنی صلاحیتوں اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا“۔ یعنی میں دنیا میں کیوں آیا اللہ نے مجھے ایسی کونسی صلاحیت سے نوازا ہے جو تمام عالم سے مجھے ممتاز کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے خود شناسی کس طرح ممکن ہے۔ تاریخ ہمیںبتاتی ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے جنہیں اس سوال کا جواب مل گیا تھا۔ اس کی بڑی وجہ محبت میں ناکامی تھی اورپھر وہ عشق مجازی سے عشق حقیقی میں مبتلا ہو گئے۔ کچھ شخصیات کسی وجہ سے غم کے ایک لمبے دور سے گزرے اس وجہ سے انہیں خود شناسی حاصل ہوئی او رکچھ شخصیات کو صحبتِ صالحہ میں بیٹھنے سے خود شناسی حاصل ہوئی اور کچھ لوگوں نے تمنا سے، دعا سے اور اللہ کے سامنے باربار التجا کرنے سے خود شناسی کو ممکن بنایا۔
یاد رکھیے اس سوال کا جواب ہر انسان نے خود تلاش کرنا ہے۔ انسان کی ساری ڈیو لپمینٹ، انسان کی ساری ترقی صرف اور صرف اسی سوال کے گرد گھومتی ہے کہ میں کون ہوں۔اللہ نے مجھے ایک خاص حالات میں کیوں پیدا کیا ۔دنیا میں میری اسا ئنمٹ کیا ہے۔ اس مقصد کو تلاش کرنا انسان کا اصل کام ہے۔ خود شناسی ایک ایسا سوال ہے جو زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ہر انسان کے ذہن میں ضرور ابھرتا ہے۔ انسان پیدا ئش سے موت تک خود شناسی کی کھوج میں سر گرداں رہتا ہے مگر ہر انسان کو خود شناسی نصیب نہیں ہوا کرتی۔ بقول شاعر : 
یہ بڑے نصیب کی بات ہے 
جسے چا ہا نواز دیا۔
خود شناسی کے لیے شرط یہ ہے کہ دل میں سچی لگن اور دعا میں تڑپ ہونی چاہیے۔ کبھی کبھی خالص ہو کر پوری یکسوئی کے ساتھ تہجد کے وقت میں اللہ سے بار بار یہ دعا کرنی چاہیے اور خودشناسی کا راستہ طلب کرنا چاہیے۔خود شناسی سے تعلق رکھنے والی اہم چیز خدا شناسی ہے۔ خدا شناسی کے بغیر خود شناسی ممکن نہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ خود شناسی اور خدا شناسی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ خدا کی معرفت تک رسائی کی جستجو انسان کے اندر ہمیشہ سے موجود ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کی ذات کو جاننے کے وسیلے کیا ہیں۔
 خدا کو جاننے کا وسیلہ خدا خود ہی ہے۔ جتنی فکر اللہ کو انسان کی ہے ۔کسی کو کسی کی نہیں۔ روٹی، کپڑا، مکان کی طرح خدا کی ذات بھی انسان کی ایک اہم ضرورت ہے۔ جب خدا دیکھتا ہے کہ انسان کو میری ضرورت ہے تو وہ خود ہی راستے دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ اس راستے کے کئی ذریعے ہو سکتے ہیں۔ خدا کی ذات کی معرفت حاصل کرنا انسان کی زندگی کا اہم اور آخری ہدف ہے۔ یہ ہدف کثرت ِ عبادات سے نہیں بلکہ عباداتِ کے با طن اور اسرار سے حا صل ہوتا ہے۔ عبادات کا باطن اپنی تطہیر کر کے کمالات کو حاصل کرنا ہے۔ انسان اپنے عمل کے ذریعے جتنا پا کیزہ اور باکمال ہوگا اتنا ہی ذاتِ خدا سے قریب تر ہو گا۔عربی ادب میں ایک مشہور مقولہ ہے”جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا“۔ خدا کی طرف پاکیزہ نفوس ہی بلند ہوتے ہیں اور ان کے بلند کرنے کا وسیلہ انسان کے اعمالِ صالحہ ہیں۔
(روزہ خود شناسی سے خدا شناسی تک کا سفر کرنے کی ایک مشق ہے۔ اس لیے فرض کے ساتھ ساتھ نفلی روزوں کا بھی خاص اہتمام کریں۔)جب انسان خدا کو پا لیتا ہے ےعنی اس کا یقین اللہ کی ذات پہ پختہ ہو جاتا ہے تو انسان کی زندگی میں امید آنے لگتی ہے۔ رحمت آنے لگتی ہے۔ طبیعت میں نرمی بڑھ جاتی ہے۔ بنیادی طور پر انسان کی پوری زندگی کا مقصد دو چیزوں میں ہے۔نمبر ایک آپ کی ذات سے کسی کا نقصان نہ ہو رہا ہو۔ دوسرا آپ کی ذات سے کسی کا فائدہ ہو رہا ہو۔ اگر آپ کی زندگی میں یہ سفر شروع ہوگیا، آپ نے بے ضرر ہونا شروع کر دیا اور آپ فائدہ دینے کی طرف آ گئے ہیں تو یقین کریں کہ آپ نے زندگی کے معنی کو پالیا ہے۔ ”اللہ کو راضی کرنا یا اس کو پانا مخلوق کو راضی کرنے سے جُڑا ہوا ہے۔ مخلوق کی خدمت اور مخلوق سے محبت اصل میں خدا سے محبت ہے“۔
عبادات سے انسان کو پارسائی ملتی ہے۔ مخلوق کی خدمت سے ہی اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔جو انسان مخلوق سے محبت کرتا ہے اسے اللہ کی محبت ضرور ملتی ہے اور خدا انہی لوگوں پر مہربان ہوتا ہے جن کو اپنی غلطیاں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر آپ کی آنکھوں میں نمی اور بے بسی ہے اور دل میں کچھ کرنے اور پانے کی تڑپ ہے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ آپ اللہ کی مہربانی وصول کرنے لگ پڑے ہیں۔

Thursday, March 28, 2019

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں چار کشمیری نوجوان شہید

سرینگر۔ 28 مارچ (این ٹی ایس رپورٹ) مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی تازہ کارروائیوں کے دوران شوپیان اور کپواڑہ کے اضلاع میں چار اور کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق شہید ہونیوالے تین نوجوانوں میں سجا د کھانڈے ، عاقب احمد ڈار اور بشارت احمد میرشامل ہیں جنہیں فوجیوں نے ضلع شوپیاں کے علاقے یارون میں تلاشی اور محاصرے کی ایک کارروائی کے دوران شہید کیا۔ فوجیوں نے ایک اور نوجوان کو کپواڑہ کے علاقے لنگیٹ میں شہید کیا۔ نوجوانوں کے قتل کے خلاف شوپیاں، پلوامہ اور ہندواڑہ کے علاقوں میں مکمل ہڑتال کی گئی جبکہ پلوامہ ، شوپیاں، کولگام ، بیج بہاڑہ ، سوپور اور ہندواڑہ کے علاقوں میں بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کئے گئے۔ بھارتی فورسز نے مظاہرین پر پیلٹ گنز اور آنسو گیس سمیت طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا جس سے متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ گورنمنٹ ڈگری کالج کولگام کے طلباء نے بھی کالج کیمپس میں بھارت مخالف مظاہرے کئے۔ فوجیوں نے ضلع کولگام کے علاقے ٹنگ بل کجر میں ایک مکان کو آگ لگا دی۔قابض انتظامیہ نے سوپور ، ہندواڑہ اور کپواڑہ کے علاقوں میں موبائیل انٹرنیٹ سروس معطل کر دی جبکہ تعلیمی ادارے بند کرنے کا حکم جاری کیا۔ادھرمقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شہید نوجوانوں کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ بڑی تعداد میں خواتین اور مرد آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے بلند کرتے ہوئے پلوامہ کے علاقے بھٹ نورہ میں شہید عاقب احمد کی آخری جھلک دیکھنے کیلئے انکے گھر کے باہر جمع ہو گئے۔ سوگواران نے آزادی کے نغمے گاتے ہوئے شہید کی میت کے ہمراہ قبرستان کی طرف مارچ کیا۔ اس دوران مجاہدین کے ایک گروپ نے نمودار ہو کر فضائی فائرنگ کر کے شہید نوجوان کو سلام پیش کیا۔سرینگر کے علاقے آلوچی باغ میں واقع بھارتی فوجی بنکر کے قریب ایک زوردھماکے میں ایک مکان اور ایک گاڑی کو نقصان پہنچاہے۔ایک سرکاری سکول ٹیچر کی لاش پراسرار حالت میں ضلع پونچھ کے علاقے بلنوئی سے برآمد ہوئی۔ ضلع بانڈی پورہ کے علاقے سنبل میں دریائے جہلم سے ایک نامعلوم خاتون کی لاش ملی ہے۔ مسلم دینی محاذ نے ایک بیان میں پارٹی کے غیر قانونی طورپر نظربند چیئرمین ڈاکٹر محمد قاسم فکتو کی جموں کی اودھمپور جیل میں تیزی سے گرتی ہوئی صحت پر شدید تشویش ظاہرکی ہے۔دریں اثناء50یورپین اراکین پارلیمنٹ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک خط میں مقبوضہ کشمیرمیں نہتے شہریوں پر مہلک پیلٹ گن کے استعمال پر پابندی عائد کرنے پر زوردیا ہے۔ لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے یورپی رکن پارلیمنٹ واجد خان نے بھارتی وزیراعظم کے نام یہ خط تحریر کیا ہے۔خط میں خاص طورپر کہاگیا ہے کہ پیلٹ گن کا استعمال ظلم و بربریت کی انتہا اور بین الاقوامی انسانی حقو ق کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی فوجیوں کو حاصل استثنیٰ ناقابل دفاع ہے جو مسلسل جاری نہیں رہ سکتا۔

آئندہ ماہ نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبہ شروع کیا جائے گا،کامیاب ’’سونامی ٹری منصوبے‘‘ کی طرح اپنا گھر سکیم میں بھی اہداف حاصل کر لیں گے ،

وفاقی دارالحکومت میں کثیر المنزلہ عمارتوں کے لئے سنگا پور اور دبئی ماڈل اپنایا جائے گا ،کچی آبادیوں کو ریگولرائز کر کے انھیں گھر ، فلیٹس اور کمرشل سینٹرز فراہم کرینگے،
وزیر اعظم عمران خان کا پاکستان ہاؤسنگ کانفرنس سے خطاب

اسلام آباد  (این ٹی ایس رپورٹ) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ تمام تر رکاوٹیں دور کر کے معاشرے کے کم آمدنی والے طبقات کے لئے آئندہ ماہ نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبہ شروع کیا جائے گا ،گھر بنانے کے لئے پرائیویٹ سیکٹر اور نوجوانوں کو مواقع فراہم کیے جارہے ہیں ،مالیاتی اداروں فاٹا اور قبائلی علاقوں میں بھی گھر بنانے کے لئے فنانسنگ کریں گے ،کامیاب ’’سونامی ٹری منصوبے‘‘ کی طرح اپنا گھر سکیم میں بھی اہداف حاصل کر لیں گے ، وفاقی دارالحکومت میں کثیر المنزلہ عمارتوں کے لئے سنگا پور اور دبئی ماڈل اپنایا جائے گا ،صرف اسلام آباد میں500ارب مالیت کی سرکاری اراضی پر قبضہ واگذار کرایا گیا ہے،قبضہ کرنے والوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے جائیں گے ، کچی آبادیوں کو ریگولرائز کر کے انھیں رہنے کے لئے گھر ،فلیٹس اور کمرشل سینٹرز فراہم کرینگے۔وہ جمعرات کو یہاں پاکستان ہاؤسنگ کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔ ہاؤسنگ ٹاسک فورس کے چیئرمین ضیغم رضوی ،ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر الینگوپیچ ہموتو ، پنجاب کے وزیر ہاؤسنگ محمودالرشید کے علاوہ مختلف بینکوں ، کنسٹریکشن کمپنیوں ، رفاعی اداروں کے نمائندوں،انجینئرنگ یونیورسیٹوں کے شعبہ انفراسٹرکچر ،انجنیئرنگ کے شعبہ کے سربراہان اور پی ایچ ڈی کے طلباء اور غیر ملکی وفود بھی تقریب میں شریک تھے ۔وزیراعظم عمران خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم عالمی بینک کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے پاکستان تحریک انصاف کے نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم میں تعاون کے لئے پاکستان سے رابطہ کیا ہے اور فنڈز فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 50لاکھ گھروں کی تعمیر ایک بڑا ہدف ہے ،آج سے پہلے کسی حکومت نے عملی طور پر اس طرز کا منصوبہ شروع نہیں کیا ،اسوقت بھی پاکستان میں ایک کروڑ گھروں کی کمی ہے جسے مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے 50لاکھ گھروں کا منصوبہ پیش کیا ہے جو کہ ایک شاندار منصوبہ ہے ،اس میں مشکلات تو ضرور آئیں گی لیکن ان تمام مشکلات کو دور کر کے یہ منصوبہ لانچ کیا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک نے موٹگیج اور مالی وسائل پیدا کرنے کے حوالے سے اقدامات اٹھائے ہیں ،کم آمدن گھروں کی تعمیر کے لئے کم ترین شرح سود پر آسان قرضہ کی سہولت کے علاوہ سٹیٹ بینک اس بارے قانون سازی کے لئے بھی حکومت کی مدد کر رہا ہے ۔انہوں نے ایک مثال دی کہ جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے خیبر پختونخواہ میں ایک ارب درخت لگانے کی بات کی تو اس کے لئے پہلے دو سالوں میں نرسریاں اور انفراسٹرکچر بنایا گیا اور اسکے بعد تین سال مسلسل درخت لگائے گئے ،عالمی اداروں نے اعتراف کیا کہ کے پی کے میں ایک ارب 18کروڑ درخت لگائے گئے ہیں جو ہمارے منصوبے کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے اسی طرح ہماری کوشش ہے کہ ہاؤسنگ سکیم کے اجراء سے قبل انفراسٹرکچر مکمل کیا جائے اور تمام تر رکاوٹیں اور مشکلات دور کیں جائیں ۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ نئی کنسٹریکشن کمپنیاں بنیں اور اس ہاؤسنگ سکیم میں اپنا بھر پور کردار اداکر یں تا کہ ان کی ملکیت بھی شامل ہوسکے ،جب گھر بنیں گے تو 40صنعتیں اس سے ترقی کرینگی ۔انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد ہے کم آمدن اور سستے گھر بنا نے کے لئے عام آدمی کو آسان طریقے سے قرض فراہم کیا جائے ،آج سے پہلے عام آدمی کے قرض کا تصور ہی نہیں تھا ،صرف اشرافیہ طبقے کو قرض سمیت تمام سہولیات ملتی رہیں ہیں اس وجہ سے یہ ملک طبقہ اشرافیہ کا ملک بن چکا ہے ،یہاں پر تعلیم ، پراؤیٹ ہسپتال ،انگلش میڈیم سکول ،یونیورسٹیاں صرف اشرافیہ طبقے کے لئے ہی ہیں اور جب کسانوں کو سبسڈی دی جاتی تو وہاں بھی با اثر اور بڑے کسان فائدہ اٹھا لیتے اور چھوٹے کسان کی حالت بہتر نہیں ہوسکی ۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کم آمدن رکھنے والے لوگوں کے لئے ایک اور سہولت رکھی گئی ہے جتنی قسط وہ برداشت کرسکتے ہیں وہ ادا کریں باقی قسط سپانسرڈ کرانے کی کوشش کی جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں خیرات سب سے زیادہ اکٹھی ہوتی ہے لیکن ٹیکس اکٹھا نہیں ہوپاتا ،اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کو حکومت پر اعتماد نہیں تھا ،جب عوام کا حکومت پر اعتماد قائم ہو جائے گا تو پھر ٹیکسز بھی زیادہ اکٹھے ہونے شروع ہوجائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ کچی آبادیوں کے بارے میں کبھی کسی حکومت نے نہیں سوچا ، اسلام آباد میں بھی کچی آبادیاں ہیں ،یہ لوگ اپنا گھر بنانے کی استطاعت نہیں رکھتے ،کچی آبادیوں میں کسی قسم کی منصوبہ بندی،سہولیات اور بنیادی حقوق تک نہیں اور گندگی ہے ،ہماری حکومت کچی آبادیوں کو ریگولرائزکرنے کے ساتھ ساتھ کچی آبادیوں کے لوگوں کو گھر ،فلیٹس اور کمرشل سینٹرز فراہم کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی سے بات ہو گئی ہے ، ائیر پورٹس کے اردگرد کے سوا ہر جگہ کثیر المنزلہ عمارتیں بنانے کی اجازت ہوگی کیونکہ شہروں کے پھیلاؤ کی وجہ سے کئے قسم کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں ہماری فوڈ سکیورٹی کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے لینڈ بینک بنانے کی کوشش کی ،سرکاری اداروں کی بے شمار اراضی ایسی ہے جو کسی استعمال میں نہیں ہے اور صرف اسلام آباد میں قبضہ مافیا سے 500ارب کی زمین واگذار کرائی گئی ہے، تجاوزات کے خلاف آپریشن میں یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ غریبوں کی گھروں کو مسمار نہ کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے پاکستان کے پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ ساتھ چین ،ملائیشیا کی کنسٹریکشن کمپنیاں اور اوورسیز پاکستانیز بھی نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے تحت گھر بنانے میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔ انہوں نے نیا پاکستان ہاؤسنگ ٹاسک فورس کے چیئرمین ضیغم رضوی کو خراج تحسن پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضیغم رضوی رضاکارانہ طور پر یہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔قبل ازیں ہاؤسنگ ٹاسک فورس کے چیئرمین ضیغم رضوی نے نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے حوالے سے جبکہ ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر الینگوپیچ ہموتو نے نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے میں تعاون کے حوالے سے شرکاء کو آگاہ کیا ۔اس موقع پر پاکستان اور عالمی بینک کے درمیان رہائشی شعبے میں تعاون کے لئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی کئے گئے۔

خلاء میں اینٹی میزائل تجربہ امریکہ نے بھارت کو تنبیہ جاری کردی

بھارت خلاء کو آلودہ نہ کرے ،خلا تمام انسانوں کی مشترکہ ملکیت ہے جس کو اینٹی میزائل تجربے جیسے اقدامات سے آلودہ نہیں کیا جانا چاہئے، پیٹرک شیناہن

واشنگٹن ، نئی دہلی( این ٹی ایس رپورٹ )مودی سرکار نے الیکشن جیتنے کیلئے اینٹی میزائل تجربے کا تھیٹر تو لگا لیا لیکن امریکہ نے خلا کو گندا کرنے پر بھارت کو تنبیہ کی ہے اور ساتھ ہی ناسا نے بھی خبردار کیا ہے کہ اس تجربے کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابات سے پہلے اینٹی میزائل ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا ایک اور شوشہ تو چھوڑ دیالیکن امریکہ کی طرف سے نہ صرف تجربے پر تشویش ظاہر کی گئی بلکہ اس کے نتائج سے خبردار بھی کیا ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک شیناہن نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ خلا کو آلودہ نہ کرے۔ خلا تمام انسانوں کی مشترکہ ملکیت ہے جس کو اینٹی میزائل تجربے جیسے اقدامات سے آلودہ نہیں کیا جانا چاہئے۔پیٹرک شیناہن کا کہنا تھا کہ انسانوں کا خلا پر انحصار بڑھ رہا ہے اس لئے بین الاقوامی سطح پر قانون سازی کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔دوسری جانب امریکی ائیر سپیس کمانڈ کے وائس کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ڈیوڈ تھامسن نے ایوان نمائندگان کی کمیٹی کو آگاہ کیا ہے کہ بھارتی تجربے کے نتیجے میں ملبے کے 270 ٹکڑے وجود میں آئے ہیں اور ان کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ ناسا کے سربراہ نے کمیٹی کو بتایا کہ خلائی ملبہ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک دفعہ ملبہ پھیل جائے تو اس کو سمیٹنا ناممکن ہوتا ہے۔یاد رہے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم کے سلسلے میں کئے گئے ایک جلسے کے دوران اسپیس ٹیکنالوجی میں انقلاب برپا کرنے کا دعوی کیاہے۔بھارتی وزیراعظم نے خطاب کے دوران کہا کہ امریکا روس اور چین کے بعد بھارت چوتھا ملک ہے جس نے میزائل کے ذریعے اسٹیلائٹ کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔

Wednesday, March 27, 2019

توانائی سے بھرپور ناشتہ صحت مند دل کی ضمانت

ایتھنزطبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دن کا آغاز اگر توانائی سے بھر پور ناشتے سے کیا جائے تو دل کے امراض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک تازہ تحقیقی مقالے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ توانائی سے بھرپور ناشتہ کرنے والے افراد کا دل ناشتہ نہ کرنے والے یا نسبتاً کم ناشتہ کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ صحت مند رہتا ہے۔ یہ تحقیق یونان کی ایتھنز یونیورسٹی کے ماہرین امراض قلب کے شعبے کی جانب سے کی گئی جس کے لیے 2 ہزار افراد کا انتخاب کیا گیا۔

ماہرین قلب نے ان 2 ہزار افراد کے قلب کی صحت مندی کا جائزہ لیا، جس سے ثابت ہوا کہ معمول کی خوراک کے دوران پانچواں حصہ توانائی سے بھرپور ناشتہ کرنے والے افراد کے دل کی دیواریں اور شریانیں زیادہ مضبوط و صحت مند ہوتی ہیں۔ صحت مند دل والے افراد کے ناشتے میں دودھ، پنیر، زرعی اجناس، روٹی اور شہد شامل ہوتا ہے۔

ریسرچ کے نتائج سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ناشتہ نہ کرنے والے افراد میں سے 15 فیصد کی دل کی شریانوں میں غیر معمولی تبدیلی رونما ہوگئی تھی اور ایسے افراد میں دل کی دیواریں کمزور ہوگئی تھیں۔ اسی طرح ناشتہ سے گریز کرنے والے افراد میں گردن سے گزرنے والی شہہ رگ کے گرد چربی کی زیادہ مقدار جمع ہوجاتی ہے جو دل کے عارضہ کا سبب بن سکتی ہے۔

ریسرچ ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر سوتیریوس نے بتایا کہ تحقیق کے مکمل نتائج آئندہ ہفتے امریکن کالج آف کارڈیالوجی (اے سی سی) کے سالانہ اجلاس کے دوران پیش کیے جائیں گے۔ ڈاکٹر سوتیریوس دل کے امراض سے محفوظ رہنے کے لیے توانائی سے بھرپور ناشتہ تجویز کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق صحت مند خواتین کو 2 ہزار جب کہ مردوں کو ڈھائی ہزار یومیہ کیلوریز درکار ہوتی ہیں جس کا بیشتر دن کے پہلے کھانے میں لیناچاہیئے۔



فائیو جی ٹیکنالوجی کے مضر اثرات زیادہ بھیانک ہوسکتے ہیں

 جے موبائل فون نیٹ ورک کی پانچویں نسل یعنی ’فائیو جی‘ کی آمد آمد ہے جس سے صارفین ہائی فریکوئنسی اور بینڈ ویتھ کے ذریعے تیز ترین انٹرنیٹ سے لطف اندوز ہوں گے اور  ڈیٹا ڈاؤن لوڈ اور اپ لوڈنگ کی رفتار فی سیکنڈ 10 گیگا بائٹ تک ہوگی تاہم یہ ٹیکنالوجی اپنے مضر اثرات کے باعث احتیاطوں کی متقاضی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق فائیو جی جہاں تیز ترین نیٹ فراہم کرے گی وہیں اس کے مضر اثرات بھی ہولناک ہوسکتے ہیں کیوں کہ اب تک کے ’جی نیٹس‘ میں 7 سو میگا ہرٹس سے 6 سو گیگا ہرٹس کی فریکوئنسی استعمال ہوتی ہے لیکن فائیو جی میں یہ فریکوئنسی 28 سے 100 گیگا ہرٹس کے درمیان ہوگی اور یہ فریکوئنسی انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں۔
انٹرنیٹ کا بڑھتا ہوا استعمال اور بے لگام فریکوئنسی پر تشویش کے شکار سائنس دانوں نے متنبہ کیا ہے کہ کسی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ سے اس کے انسانی صحت اور ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد اجازت دینی چاہیئے۔ حال ہی میں دنیا بھر سے 250 سائنسدانوں نے اقوام متحدہ میں ایک پٹیشن دائر کی ہے جس میں اسمارٹ فون سے نکلنے والی شعاعوں سے کینسر کا مرض لاحق ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ میں جمع کرائی گئی اس پٹیشن پر عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی دستخط کیے تھے۔ ماہرین نے مزید خبردار کیا ہے اسمارٹ فون یا پھر ریڈیو انٹینا سے نکلنے والی شعاعیں برقی مقناطیسی میدان پیدا کرتی ہیں جو انسانی صحت اور ماحول کے لیے نہایت مضر ثابت ہوسکتی ہے جن میں کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرات، سیلولر اسٹریس، خطرناک مالیکیولز کا اخراج، جینیاتی نقصانات، تولیدی نظام کی فعالیت میں تبدیلیاں، سیکھنے اور یادداشت کرنے کے عمل میں کمزروی شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فریکوئنسی انسان کے اعصابی نظام پر اثر انداز ہوں گی جس سے حواس خمسہ میں خرابی کا اندیشہ ہے اور یہ انسانی رویوں میں تبدیلی کا شاخسانہ بھی ثابت ہوسکتی ہیں جیسے جھنجھلاہٹ، پریشانی یا غصے میں اضافہ ہونا ہے۔ ان میں سے کئی امراض فور جی کے ساتھ ہی نمودار ہوچکے ہیں تو فائیوجی میں ان کی ہلاکت خیزی اور زیادہ ہوگی کیوں کہ فور جی، تھری جی سے 10 گناہ تیز تھا تو فائیو جی فور جی سے ایک ہزار گنا تیزی سے کام کرے گا۔

پاک روس تعلقات میں بہتری آ رہی ہے پاک بھارت کشیدگی کم کرنے میں روس نے اہم کردار ادا کیا، سیکرٹری خارجہ

باہمی تجارت میں اضافہ اور عوام کے درمیان رابطے سے پاک روس تعلقات مزید مضبوط ہونگے ،تہمینہ جنجوعہ
پاکستان روس کا اہم اتحادی ہے دونوں ممالک کے درمیان بینکنگ معاہدے کی وجہ سے تجارت میں اضافہ ہو گا، روسی سفیر  
تاریخ میں پہلی بار پاکستان نے 23 مارچ پر روسی جنگی ہیلی کاپٹرز پریڈ میں شامل کییالیگزے وائی ویدوف
 پاک روس تعلقات کی مضبوطی کے لیے باہمی تجارت بڑھنا انتہائی ضروری ہے ظفراقبال چیمہ
افغان امن عمل میں روس کا کردار اہم ہے،دونوں ممالک کو ایک ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے مقررین

اسلام آباد(این ٹی ایس رپورٹ)سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا ہے کہ پاک روس تعلقات میں بہتری آ رہی ہے پاک بھارت کشیدگی کم کرنے میں روس نے اہم کردار ادا کیا۔باہمی تجارت میں اضافہ اور عوام کے درمیان رابطے سے پاک روس تعلقات مزید مضبوط ہونگے روسی سفیر الیگزے وائی ویدوف نے کہا کہ پاکستان روس کا اہم اتحادی ہے دونوں ممالک کے درمیان بینکنگ معاہدے کی وجہ سے تجارت میں اضافہ ہو گا ۔تاریخ میں پہلی بار پاکستان نے 23 مارچ پر روسی جنگی ہیلی کاپٹرز پریڈ میں شامل کیے۔مقررین نے کہا کہ پاک روس تعلقات کی مضبوطی کے لیے باہمی تجارت بڑھنا انتہائی ضروری ہے۔افغان امن عمل میں روس کا کردار اہم ہے۔دونوں ممالک کو ایک ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔بدھ کو اسٹریٹجیک ویژن انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام پاکستان روس دفاعی تعلقات کے حوالے سے عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا کانفرنس سے پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ ،روسی سفیر الیگزے وائی ویدوف صدر ایس وی آئی ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ و دیگر نے خطاب کیا۔سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ تنائو کم کرنے میں روس نے اہم کردار ادا کیا ہے۔وقت کے ساتھ روس کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوں گے ۔دونوں ممالک میں تجارت بہت کم ہے اس کو بڑھنے کی ضرورت ہے۔دونوں ممالک کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ کی ضرورت ہے۔عوام کے درمیان رابطے کو بڑھایا جائے اور سکالر شپ دی جائے۔دفاعی معاہدوں کے ساتھ بھارت کو محصوض جنگی سامان نہ دیا جائے جو کہ پاکستان کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے سی پیک میں روس کو شامل ہونا چاہیے اور شنگھائی کارپوریشن کے تحت رابطوں کو مزید موثر بنایا جائے انہوں نے کہا کہ روس کا افغانستان کے حوالے سے نمائندہ خصوصی جلد پاکستان آئیں گے اور پاکستانی اعلیٰ حکام بھی روس کا دورہ کریں گے پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے تین مشترکہ فوجی اور دو نیوی کے ساتھ مشقیں کی گئی ہیں پاکستان روس سے ہیلی کاپٹرز اور دیگر جنگی سامان خریدتا ہے پاکستان وسطیٰ ایشیاء کے لیے گیٹ وے کا درجہ رکھتا ہے ہمیں اپنی باہمی تجارت مزید بڑھانی ہوگی ۔روسی سفیر الیگزے وائی ویدوف نے کہا کہ پاکستان اور روس اہم اتحادی ہیں اور دونوں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں شنگھائی تعاون تنظیم کے جون میں کرغستان میں ہونے والے اجلاس میں دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام ملیں گے۔سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا روس کے اعلیٰ حکام سے ملے ہیں۔پاکستان ہمارے لیے اہم ملک ہے افغان امن عمل کے حوالے سے دونوں ممالک میں مسلسل رابطہ ہے 2017ء میں سندھ حکومت کے ساتھ تجارت کے مختلف معاہدے کیے پاکستان بھارت ایران گیس پائپ لائن یہ بھی کام ہو رہا ہے پاکستان کو جنگی ہیلی کاپٹرز اور صوبہ پنجاب اور بلوچستان کو بھی ہیلی کاپٹرز فروخت کیے ہیں جنگی ہیلی کاپٹروں پہلی بار 23مارچ کی پریڈ کا حصہ بھی بنے ہیں۔انہوں نے کہا کہ روس اور پاکستان کے درمیان بینکنگ کے حوالے سے سے معاہدہ 2018ء میں ہوا ہے جس سے دونوں ممالک کے بینکوں کے ذریعے رقم منتقل کی جا سکتی ہے۔معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں میں بہت زیادہ رکاوٹ تھی جو اب ختم ہو گئی ہے روس اور پاکستان کے درمیان تجارتی حجم بہت کم ہے اس کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔روس پاکستان میں توانائی،ریلوے انفارمیشن ٹیکنالوجی،سٹیل مل،ادویات سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کا خواہش مند ہے۔صدر اسٹریٹجیک ویژن انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ نے کہا کہ روس افغانستان میں امن کے حوالے سے مذاکرات میں اہم کردار ادا کررہا ہے روس کے ساتھ پاکستانی تجارت کم ہے مگر ان قریب پاکستان روس کے ساتھ 50 ارب ڈالر کی گیس خریدنے کا معاہدہ کررہا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھے گی تو تعلقات مزید مضبوط ہوںگے۔روس کی اکیڈمی آف سائنس ماسکو کی ڈاکٹر آرین نیلو لیوینہ سیرینکو(Dr. Lvina Nikolaevna)  نے کہا کہ روس پاکستان کو باہمی تعلقات سے مکمل فائدہ حاصل کرنا چاہیے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کے بعد روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے روس جلد پاکستان میں 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا پلوامہ حملے کے بعد پاک بھارت کشیدگی کو کم کرنے میں روس نے اہم کردار ادا کیا۔ سابق سفارت کار عارف کمال نے کہا کہ روس اور پاکستان کے تعلقات درست سمت میں جانا شروع ہو گئے ہیں۔روس خطے میں اپنے آپ کو دوبارہ فعال کر رہا ہے۔روس کے ایران اور عرب ممالک دونوں کے ساتھ تعلقات ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ کے صرف عرب ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں روس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط ہونگے جبکہ دوسری طرف بھارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھے گا۔سینٹر فار پولیٹیکل سٹڈیز آف رشیا ڈاکٹر یولیا(Dr. Yulia Sveshnikova) نے کہا کہ حالیہ دنوں میں روس پاکستان تعلقات میں بہتری آئی ہے سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان اور ملائیشیاء کے وزیر اعطم مہاتیر محمد نے روس کے دورے کیے ۔روس خطے کے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کررہا ہے۔افغانستان میں امن عمل کے حوالے سے روس اور پاکستان ایک طرف تھے جبکہ امریکہ طالبان سے مذاکرات کے خلاف تھا مگر بعد میں اس کو بھی طالبان سے مذاکرات کے لیے آنا پڑا۔سابق رابطہ کار نیکٹا حامد علی خان نے کہا کہ امریکہ کو پتہ چل گیا کہ افغانستان میں جنگ کرنے سے فتح حاصل نہیں ہوگی اب وہ بھی مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔نائن الیون کے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔دہشت گردی کے خلاف پاکستان فرنٹ لائن ملک تھا جس کی وجہ سے معیشت کو نقصان ہوا اور ہزاروں بے گناہ شہری شہید ہوئے مگر آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد قوم نے فیصلہ کیا کہ دہشت گردی کو ہر حال میں ختم کرنا ہے اور نیشنل ایکشن پلان کے نام سے 22 نکات بنائے اوردہشت گردی کی جنگ میں ہم کامیاب ہوئے ہم نے خون دے کر اپنی سرزمین کا ایک ایک انچ دہشت گردوں سے صاف کیا امریکہ نے اپنی پالیسی تبدیل کر کے افغان طالبان سے مذاکرات شروع کیے۔اب بھی کچھ لوگ اس کی کامیابی کے حوالے سے زیادہ پر امید نہیں ہے کیونکہ ہر پاور اور خطے کے ممالک کے درمیان عدم تعاون ہے اگر امریکہ افغانستان میں امن کے بغیر نکل جائے تو یہ اس سے زیادہ خطرناک ہوگا وہاں پر خانہ جنگی ہو سکتی ہے اس سے طالبان کو مزید طاقت ملے گی اور امریکہ میں بھی حملہ ہو سکتا ہے افغان طالبان دن بدن طاقت حاصل کررہے ہیں ۔چین افغانستان میں امن چاہتا ہے تاکہ سی پیک کے حوالے سے افغانستان میں معاشی سرگرمیاں شروع ہوں۔روس اور پاکستان کے درمیان منشیات کی روک تھام ،دہشت گردی،دفاعی سازو سامان میں مزید تعاون کی ضرورت ہے۔افغانستان میں امن عمل کے لیے دیگر ممالک کو سہولیات دینی چاہیے۔

پاکستان میں تیل کا بڑا ذخیرہ جلد دریافت ہونے کا امکان ہے، یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا اورخلیجی ممالک کیلئے بھی اچھی خبر ہوگی، چین کے ممتاز جریدے گلوبل ٹائمز کی رپورٹ

بیجنگ ۔ 27 مارچ (گلوبل ٹائمز رپورٹ) چین کے ممتاز جریدے گلوبل ٹائمز نے کہا ہے کہ پاکستان میں تیل کا بڑا ذخیرہ جلد دریافت ہونے کا امکان ہے اور یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا اور خلیجی ممالک کیلئے بھی اچھی خبر ہوگی۔ جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سمندر میں تیل کا بڑا ذخیرہ دریافت ہونے کے واضح امکانات ہیں اور اگر اس سلسلے میں اندازے درست ثابت ہوئے تو یہ دریافت پاکستان کو اقتصادی مسائل سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ امریکی کمپنی ایگزم موبل اور اٹلی کی کمپنی ای این آئی سمیت جوائنٹ ونچر جنوری سے سمندر میں ڈرلنگ کررہا ہے، اگر تیل کا یہ بڑا ذخیرہ دریافت ہوتا ہے تو اس سے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھ سکتی ہے، کئی بین الاقوامی کمپنیاں تیل اور گیس کی تلاش، تیل صاف کرنے اور تیل کی ترسیل جیسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں اور اس سرمایہ کاری سے پاکستان کو اپنی ترقی کا مقصد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ چین پاکستان کے ساتھ توانائی کے شعبہ میں بھرپور تعاون کررہا ہے اور تیل کا ذخیرہ دریافت ہونے سے پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے چینی کمپنیوں کی دلچسپی مزید بڑھے گی۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت سنکیانگ، اوغر خود مختار علاقے اور گوادر پورٹ کے درمیان تیل اور گیس کی پائپ لائن کا سٹریٹیجک منصوبہ بھی شامل ہے، پاکستان میں اتنے بڑے پیمانے پر تیل دریافت کے بعد ہمسایہ ممالک کے لئے بھی پاکستان پائپ لائن نیٹ ورک بڑھانے میں مدد ملے گی اور پاکستان سعودی عرب جیسے خلیجی ممالک کے ساتھ توانائی کے شعبہ میں تعاون کو فروغ دے گا۔ تیل کے ذخائر کی دریافت سے بنیادی ڈھانچے کے شعبہ میں سرمایہ کاری بیرون ملک سے سرمایہ کاری ، توانائی کی تجارت اور عوام کی سطح پر رابطے فروغ پائیں گے اور خطہ تیل کے ذخائر کی ترقی اور استعمال اقتصادی رابطے اور استحکام کے ستون کے طور پر استعمال کرے گا اور پاکستان میں تیل کے متوقع ذخائر خطے میں گیم چینجر ثابت ہوسکتے ہیں۔

Tuesday, March 26, 2019

سب کی رائے بس چائے

 فاطمہ خان

آج چائے تمام مشروبات کی سردار کہلائی جاتی ہے۔ پاکستان کا قومی مشروب گنے کا رس ہے لیکن شاذونادر ہی تمام گھروں میں میسر آتا ہے جبکہ چائے گھر گھر کی کہانی ہے۔ مہمان آئے تو چائے، مینہ برسے تو چائے، خوشی ہو تو چائے، رنج والم کا موقع ہو تو چائے، دوست یار جب ملیں تو چائے، صبح ہو تو چائے، شام ہو تو چائے، تھکن ہو تو چائے، میزبان بنوں تو چائے، مہمان بنوں تو چائے، اف چائے نہ ہوئے آکسیجن ہوگئی جہاں بھی گئی ہمنوائی پائی۔ 
آئیے تاریخ پہ اگر نظر دوڑائیں تو چائے سے متعلق دلچسپ معلومات سامنے آئیں گی۔ چائے کو مختلف زبانوں میں جن ناموں سے پکارا جاتا ہے وہ یہ ہیں۔ عربی: الشائی، فارسی: چائے خطائی، سندھی: چانھ، انگریزی: Tea، اردو: چائے۔ چائے دو قسم کی ہوا کرتی تھی سبز اور سیاہ۔ لیکن اب تو ہر رنگ میں ہر ذائقے میں پائی جاتی ہے۔ جب چھوٹی پتیوں کو جمع کر کے بھونا جاتا ہے تو وہ سبز چائے کہلاتی ہے۔ جب کہ سیاہ چائے بڑی پتیوں کو بھوننے سے حاصل ہوتی ہے۔ سبز چائے بہ نسبت سیاہ کہ زیادہ خوشبو دار ہوا کرتی ہے۔ چائے کا مزاج گرم ہوتا ہے اور خوراک کی مقدار تین ماشہ ہوتی ہے۔
پاکستان دنیا میں چائے استعمال کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔پاکستان کینیا سے چائے درآمد کرتا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مشروب چائے ہے۔حکومتِ پاکستان چائے کی پیداوار کے سلسلے میں 1995 میں تجربہ کر چکی ہے جس پہ کام ہو رہا ہے اور چائے کی اس پیداوارکا علاقہ chinkiyari خیبر پختون خواہ ہے۔2003 کے اعداداو شمار کے مطابق پاکستان میں 109,000ٹن چائے استعمال ہوئے۔ جس کی بعد پاکستان چائے استعمال کرنے والا ساتواں بڑا ملک بن گیا۔
سبز چائے ہزاروں سال سے قدیم تہذیب کا حصہ تھی جبکہ سیاہ چائے انگریزوں کی آمد کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک و ہندمیں متعارف ہوئی۔ پھر چائے ناشتے کا لازمی جزو بن گئی۔ دوپہر کے کھانے سے پہلے ”ٹی بریک“ Tea Break میں چائے لازمی پی جانے لگی۔ شام کی چائے اور پھر رات دیر تک جاگنے کے لیے چائے بنانے کا رواج عام ہو گیا۔ شام کی چائے قابلِ ذکر ہے وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ مرد حضرات جب کام کاج سے تھک کر گھروں کا رخ کرتے ہیں تو خاتونِ خانہ چائے کا خاص اہتمام کرتی ہیں۔ یہ چائے گرما گرم پکوڑوں، سموسوں، کیک، بسکٹ یا پیسٹریز کے ساتھ سرو کرتی ہیں۔ کام کرنے والے مزدور ہوں یا چوکیدار سب ہی تھکن کا احساس کم کرنے کے لیے چائے کا استعمال کرتے ہیں۔امرا ءچائے کے لیے ہوٹلوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ خصوصاً بوفے اسٹائل کھانے اور اسنیکس کے ساتھ سرو کی جاتی ہے۔ 
چائے بنانے کے بھی مختلف طریقے ہیں۔ عموماً پانی میں چینی اور پتی(چائے) ڈال کر ابال آنے کا انتظار کیا جاتا ہے،جب ابال آجائے تو حسبِ خواہش دودھ اور الائچی ڈال کرپکا لیا جاتا ہے۔ یوں آسان چائے تیار ہو جاتی ہے۔ دوسرے طریقوں میں صرف قہوہ بغیر چینی کے تیار کیا جاتا ہے اور دودھ، چینی الگ سے پیش کر دی جاتی ہے۔ تیسرے طریقے کو دیہات میں رہنے والے سادہ لوح افراد تعویز والی چائے کہتے ہیں۔ اس میں صرف پانی ابال کر” ٹی بیگ“ استعمال کیا جاتا ہے دودھ اس کے ساتھ بھی الگ سے پیش کیا جاتا ہے۔
چائے پاکستان کے مختلف علاقوں میں مختلف انداز میں پسند کی جاتی ہے۔ کراچی میں کالی چائے اور مسالے والی چائے پسند کی جاتی ہے۔ پنجاب میں زیادہ تر جو چائے پسند کی جاتی ہے اسے ”دودھ پتی“ کہا جاتا ہے ۔شمالی اور جنوبی علاقوں خیبر پختون خواہ، بلوچستان اور کشمیر میں سبز چائے پسند کی جاتی ہے جِسے ”قہوہ“ کہتے ہیں۔ کشمیر میں کشمیری چائے جِسے ”نون چائے“ بھی کہا جاتا ہے پسند کی جاتی ہے۔ کشمیر میں خاص مواقع پر کشمیری چائے بنائی جاتی ہے۔ کشمیری چائے پستہ، بادام اور الائچی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے یہ خاص قسم کی چائے گلابی رنگ کی ہوتی ہے جو ہر عمر کے افراد کو پسند آتی ہے۔ 
امریکی کوہ پیما گریگ مونٹینسن نے اپنی کتاب "Three Cups of Tea" میں ایک بلتی ضرب المثل کو بیان کیا ہے کہ، ”پہلی بار جب آپ نے ایک بلتی کے ساتھ چائے پی تو آپ ایک اجنبی ہیں، دوسری بار جب آپ نے چائے ساتھ پی تو آپ ایک معزز مہمان ہیں جب کہ تیسری بار جب آپ نے ساتھ چائے پی تو آپ گھر کے فرد ہیں“ یعنی چائے رشتے مضبوط بنانے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ چائے کے نقصانات اپنی جگہ لیکن چائے کی بڑھتی ہوئی مانگ اس کی افادیت کو ظاہر کرتی ہے۔ 

جو بویا وہی کاٹا

وقاص معین 

احمد اور علی ایک ہی گاوں میں،ایک ہی سکول میں اور ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ احمد کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ احمد کا گھرانہ جتنا زیادہ غریب تھا احمد اتنا ہی پڑھائی میں اور اخلاق میں سب سے آگے تھا۔ وہ ہر ایک کا ہمدرد اور پڑھائی میں دوسرے بچوں کی مدد کرنے والا بچہ تھا۔ وہ اپنے بڑوں کی عزت کرتا اور چھوٹوں سے پیار کرتا تھا غرض یہ کہ احمد ہر ایک کی آنکھ کا تارہ بنا ہوا تھا۔ جب کہ علی اس کے برعکس تھا۔علی کے گھر میں پیسہ جائیداد کی کوئی کمی نہیں تھی، کمی تھی تو علی کی اچھی تربیت اور اخلاق کی۔ وہ ا سکول میں بچوں کو تنگ کرتا، طرح طرح کی شرارتوں سے دوسروں کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتا اور امتحان میں بھی نقل کرکے بمشکل ہی پاس ہوتا تھا جب کہ احمد ہرامتحان میں اول آتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے علی احمد سے حسد کرنے لگا تھا جب کہ احمد کے دل میں ایسی کوئی بات نہ تھی وہ علی کو بھی ویسے ہی سمجھتا تھا جیسے دوسرے لڑکوں کو سمجھتا تھا۔
وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ میٹرک کے امتحان شروع ہوگئے احمد نے دل لگا کر خوب محنت کی۔ علی ہر وقت نقل کرنے کے منصوبے بناتا رہتا اور امتحان میں پاس ہونے کے لیے طرح طرح کی ترکیبیں سوچنے میں سارا وقت ضائع کرتا۔ بالآخر اللہ اللہ کر کے امتحان ختم ہوئے اب دونوں کو رزلٹ کا انتظار تھا۔ رزلٹ آیا تو احمد اچھے نمبر لے کر پاس ہو گیا جب کہ علی بری طرح سے فیل ہو گیا۔ علی کے باپ نے علی کو خوب ڈانٹا اور اپنے گھر کے جانوروں کی دیکھ بھال پر لگا دیا، اس کے والد نے اس کا آگے پڑھنا بند کر دیا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ جانوروں کی دیکھ بھال کرے اسی وجہ سے وہ تھوڑا باغی ہو گیا تھا۔ گھر سے رات دیر تک غائب رہنا اور غلط لوگوں سے اٹھنا بیٹھنا اس کا معمول بن چکا تھا۔ جب کبھی اس کا باپ اس کی اصلاح کرنے کی بات کرتا تو الٹا اسی کو برابھلا کہنے لگ جاتا۔ وہ اپنے باپ کی قدر و منزلت بھول چکا تھا اسے باپ کی عزت کا کوئی خیال نہ تھا۔ بے خبر کیا جانتا تھا کہ جو وہ اپنے باپ کے ساتھ کر رہا ہے وہیں کچھ کل اس کے بچے اس کے ساتھ کرنے والے ہیں۔
 ادھر احمد جو سب گھر والوں کی آنکھ کا تارہ بنا بیٹھا تھا قسمت نے احمد کا ساتھ دیا اور وہ ترقی کی بلندیوں کو چھو تا چلا گیا۔ ارے نہیں نہیں قسمت نہیں اس کی محنت لگن اور اعلی اخلاق نے اسے اس منزل تک پہنچایا ہے۔ احمد کے والدین نے ایک اچھے گھرانے میں احمد کی شادی کردی لڑکی بھی خوب اچھے اخلاق کی مالک تھی۔ اس نے احمد کے والدین کی خوب خدمت کی غرض یہ کہ جیسا احمد تھا ویسے ہی اسے لڑکی ملی۔ 
دوسری طرف علی کے باپ نے بھی سوچا کی شاید علی کی شادی کرنے سے یہ سدھر جائے۔ علی کے باپ نے علی کے لیے لڑکی ڈھونڈنا شروع کر دی مگر قدرت تو بدلہ لے کر ہی رہتی ہے۔ علی کی بدتمیزی والدین سے دن بہ دن بڑھنے لگی۔ روز اپنے باپ کو گالیاں دینا بدتمیزی سے پیش آنا اس کے روز کا معمول بن چکا تھا۔ اب تو اس کے والدین بھی علی سے ڈرنے لگے تھے۔آخرکار اس کے والدین نے علی کی شادی کروادی اور کچھ زمین جائیداد اس کے نام کروا دی تاکہ وہ کچھ ذمے داری بھی سنبھال سکے اور یہاں علی دن بدن بگڑتا چلا گیا۔ اب تو اس نے شراب پینا بھی شروع کردی طرح طرح کے نشہ میں ڈوبا علی آئے دن گھر سے غائب رہنے لگا۔ رات کو گھر آکر بیوی سے لڑتا جھگڑتا اسے مارتا پیٹتا۔ کبھی کبھی اس کا باپ سمجھانے آجاتا تو اس پر بھی ہاتھ اٹھا دیتا۔ علی نے اپنی زمین تھوڑی تھوڑی کرکے بیچنا شروع کردی اور پیسہ سارا نشے پہ اڑا دیا۔ اب اس کے پاس صرف ایک گھر بچا تھا اور چند ایک جانور جس کا دودھ اس کی بیوی محلہ داروں کے ہاں بیچ دیتی اور اپنے گھر کا خرچہ چلاتی تھی۔ شادی کے ایک سال بعد اللہ نے ان کو چاند سا بیٹا عطا کیا جس کا نام انہوں نے رضاعلی رکھا ماں اپنا سارا غم بھلا کر بیٹھے کی پرورش میں لگ گئی۔اس نے باپ کا سایہ بھی اس پر پڑنے نہ دیا جبکہ علی کی عادتیں ویسی ہی تھی جیسی پہلے تھی۔ ان کا بیٹا بڑا ہوتا گیا اور اپنی ماں پر ہوتے ستم برداشت نہ کر پاتا ماں کو روتا دیکھ کر باپ کو دل ہی دل میں برا بھلا کہتا۔ چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے باپ کے آگے کچھ بولے۔
 وقت بڑی تیزی سے آگے جا رہا تھا کہ ان کے بیٹے نے اچھی تعلیم حاصل کر لی اور ایک اچھی کمپنی میں سپروائزر کی جاب مل گئی۔ کمپنی نے رضا علی کو رہنے کے لیے اچھا گھر اور آفس آنے جانے کے لیے اچھی گاڑی بھی آفر کی۔اب رضا جلد از جلد اپنی ماں کو اپنے باپ سے بچا کر اپنے پاس لانا چاہتا تھا۔ کئی بار تو اس کے باپ نے منع کیا مگر رضا اپنے باپ کے مخالف کھڑا ہوگیا اورخوب لعن طعن کے بعد آخر رضا نے اپنے باپ پر ہاتھ اٹھا دیا۔ اس کا باپ سہم گیا کہ اس کے اولاد نے اس پر ہاتھ کیسے اٹھایا؟ وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہوا کے دیکھو دیکھو اپنی پرورش کا نتیجہ کیسے اپنے باپ پر ہاتھ اٹھایا ہے اس نے۔ ایسی پرورش کی تو نے اس کی؟ ایسی اولاد سے تو بے اولاد ہونا زیادہ بہتر تھا۔ ابھی علی اپنی بیوی کو ڈانٹ ہی رہا تھا کہ علی کا باپ آ گیا اور اس نے اپنے بیٹے علی سے کہا بیٹا اس میں تیری بیوی کا کوئی قصور نہیں ہے اور نہ ہی رضا کا کوئی قصور ہے۔ کبھی آپ نے نوٹ کیا کہ ہم فصلوں میں کیا اگاتے ہیں اور کیا کا ٹتے ہیں؟ کبھی ایسا ہوا ہے کہ تم نے کبھی کپاس کا بیج ڈالا ہو فصل میں اور اس میں سے گندم کاشت کی ہو؟ یا کبھی تم نے باجرہ کا بیج ڈالا ہو اوراس میں سے مکئی کاشت کی ہو؟
نہیں نا ایسا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔ ذرا سوچو یہ تمہارے اپنے ہی کرتوت ہیں جو تمہیں اس منزل تک کھینچ لائے ہیں۔ جو تم نے میرے ساتھ کیا تھا دیکھو تمہاری اولاد تمہارے ساتھ بھی ویسا ہی کر رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان وہی کچھ کاٹتا ہے جو اس نے بویا ہوتا ہے۔ قدرت تو اپنا بدلہ لے کر ہی رہتی ہے۔ اب علی کو اپنے باپ کی باتوں کی سمجھ آ گئی تھی اس نے اسی وقت اپنے باپ کے قدموں میں گر کر معافی مانگی اور اپنے کیے کی توبہ کی اپنی بیوی اور اپنے بیٹے کو گلے سے لگا لیا۔ اب علی اپنے باپ،بیٹے اور بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگاتھا۔ سچ کہتے ہیں کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔