لوگوں کے لباس اعلیٰ اور دل مُردار ہوں گے… ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Thursday, April 11, 2019

لوگوں کے لباس اعلیٰ اور دل مُردار ہوں گے…


عابد علی جوکھیو

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس دنیا میں رہنے کے لیے ایک نظام دیا ہے۔ یہ نظام بناوٹ کے بجائے اصل فطرت پر قائم ہے، اسی لیے اللہ کے نظام یعنی اسلام کو دینِ فطرت بھی کہا جاتا ہے۔ اسی فطرت کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر معاملے میں فطرت کی ہی پیروی کرے، نہ کہ وہ فطرت کے مقابلے میں کھڑا ہو۔ انسان اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہے کہ وہ کمزور پیدا کیا گیا ہے اور اس کے بس میں نہیں کہ وہ فطرت کا مقابلہ کرسکے، اس کے باوجود اگر کوئی فطرت کے برخلاف زندگی گزارنے کی کوشش کرے تو لامحالہ اس کا نتیجہ ناکامی ہی ہوگا۔ 
جب سے انسان نے فطرت سے اپنا تعلق کمزور کرکے مصنوعیت یا مادیت کی طرف رخ کیا ہے اُس کی زندگی بھی مصائب و آلام کی آماج گاہ بن چکی ہے۔ بظاہر بہت خوش، تہذیب اور ترقی یافتہ نظر آنے والے بھی اندر سے غیر مطمئن زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب‘ جہاں سب سے پہلے اور بڑی تیزی سے فطرت کے مقابلے میں ایک نظام پیش کرکے اس پر عمل کیا گیا، اور دنیا اس نظام سے مرعوب بھی ہوئی، لیکن آج وہی مغرب اپنے غیر فطری نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ صرف اس لیے کہ انسان چاہے کتنی ہی ترقی کرلے اور اپنے آپ کو کتنا ہی طاقتور سمجھ بیٹھے، حقیقت میں خالقِ کائنات کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اسے ضرور منہ کی کھانی پڑتی ہے اور اپنے غیر فطری نظام کی ناکامی دیکھ کر وہ واپس فطرت کی طرف پلٹتا ہے۔ آج مغرب میں بھی یہی ہورہا ہے، مغرب دوبارہ فطری زندگی کی طرف آنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔ وہ مادیت سے نکل کر روحانیت کی طرف آنا چاہتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آج مغرب میں مطمئن زندگی کے حصول کے لیے سب سے زیادہ روحانیت کو پڑھا اور پڑھایا جارہا ہے۔ یہ صرف اس لیے کہ انہوں نے غیر فطری زندگی کے نقصانات کو دیکھ کر یہ جان لیا کہ انسان فطرت کے مطابق پیدا کیا گیا ہے اور فطرت کے مطابق زندگی گزارنے میں ہی اطمینان حاصل ہوسکتا ہے نہ کہ مادیت میں۔ 
اس کے مقابلے میں آج ہم مسلم معاشروں کا حال دیکھتے ہیں تو ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ اس غیر فطری نظام کا خالق خود اس سے  چھٹکارا حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے جبکہ دوسری جانب مسلمان اس ناکام اور غیر فطری نظام کو اپنانے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بھی غلامانہ ذہنیت کا ہی اثر ہے کہ ہم بغیر سوچے سمجھے ایسی ڈگر پر چلنا شروع کردیتے ہیں جس کے متعلق نہ ہی ہمیں کچھ علم ہوتا ہے اور نہ ہی ہم اس کی منزل سے آشنا ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہم ہر میدان میں ناکام ہیں۔ تعلیم سے لے کر معاشرت، رہن سہن، کھانے پینے اور اوڑھنے بچھونے تک ہم اسی بات اور طرز کو اہمیت دیتے ہیں جو ہمیں بتائی اور سکھائی جاتی ہے۔ حقیقت میں تو مسلمان کے لیے زندگی گزارنے کا طریقہ اسوۂ حسنہ میں پنہاں ہے، لیکن آج کا مسلمان اپنی اصل کو چھوڑ کر ایسے راستے پر چل نکلا ہے جس کی منزل سوائے آگ کے گڑھے کے کچھ نہیں… آج مسلمانوں کی ناکامی اور پریشانی کا واحد سبب یہی ہے کہ انہوں نے اسوۂ حسنہ کو چھوڑ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے قرآن مجید میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے لیے اسوۂ حسنہ کی جامع ترین اصطلاح پیش کرنا خود ہم سے تقاضا کررہا ہے کہ ہمارے نبیٔ مہربان کا اسوہ ہم سب کے لیے احسن اور قابلِ تقلید ہے۔ لہٰذا اس سے انحراف ہمیں اسی طرح بربادی کی طرف دھکیل دے گا جیسے اس پر عمل کرنے والے کو انسانیت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز کرتا ہے۔ 
اگر اسلامی تعلیمات کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یہ بات واضح طور پر ملتی ہے کہ اسلام میں انسانی معاملات کو انتہا درجے کی اہمیت دی گئی ہے۔ توحید کے بعد انسانوں کے باہمی تعلقات پر ہی زور دیا گیا ہے۔ سورہ البقرہ میں اللہ کا ارشاد ہے:
 ’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلامو ں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔‘‘ (البقرہ 177)
اس میں اللہ نے عقائد کے فوراً بعد انسانی تعلقات کا ذکر کیا ہے، حتیٰ کہ نماز کو بھی مؤخر کیا کہ حضرتِ انسان اپنے باہمی تعلقات کی اہمیت کو سمجھ سکے۔ انسانوں کے تعلقات میں ایک امر مراتب کا بھی ہے، یعنی ایک انسان کو دوسرے انسان پر کسی معاملے میں فضیلت حاصل ہو۔ یہ فضیلت دنیوی بھی ہوسکتی ہے اور دینی بھی۔ جیسا کہ اللہ  تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں رسولوں کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کی ہے (سورہ البقرہ)، اسی طرح عام انسانوں کو بھی ایک دوسرے پر بعض معاملات میں فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ ہم یہاں جس فضیلت کا ذکر کررہے ہیں اس سے مراد دنیوی لحاظ سے مال و متاع، صحت و تندرستی اور دیگر نعمتیں ہیں۔  لیکن اسلام ان تمام نعمتوں کو انسان کی ذات تک ہی محدود رکھتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اگر کسی کو یہ دنیوی نعمتیں حاصل ہیں تو وہ ہر لحاظ سے برتر ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اس بات کو واضح کردیا کہ کسی انسان کو کسی (مرتبے) کی وجہ سے کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے، نہ کسی گورے کو کالے پر، یا کالے کو گورے پر فضیلت حاصل ہے۔ ہاں! اللہ کے ہاں اگر کسی کو کوئی فضیلت حاصل ہے تو اس کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ اب اگر کوئی انسان ایسی چھوٹی یا بڑی دنیوی نعمتوں کے بل بوتے پر کسی کو حقیر جانے تو اس کے لیے بربادی کا مقام ہے کہ وہ اللہ کی جانب سے عطا کی ہوئی نعمت پر اترا کر اسی کے کسی بندے کو حقیر جان رہا ہے۔ حالانکہ اللہ کے نزدیک تو اعلیٰ و ادنیٰ کا معیار دنیوی اسباب نہیں بلکہ تقویٰ ہے۔ اور اس تقویٰ کا تعلق بھی صرف اللہ سے ہے کہ وہی بہتر جانتا ہے کہ کون حقیقی متقی ہے اور کون دکھاوے کا مرتکب ہورہا ہے۔ 
کچھ لوگ انہی دنیوی نعمتوں کو اللہ کی عطا و کرم کے بجائے اپنی قابلیت اور لیاقت تصور کرتے ہیں۔ اس طرزفکر کی وجہ سے ایسے لوگوں میں اپنی برتری اور دوسروں کو حقارت سے دیکھنے کا مرض پیدا ہوجاتا ہے۔ یہی مرض انسانی تعلقات میں خرابی کا باعث بنتا ہے۔ انسان دنیوی نعمتوں پر اترا کر ایسا طرزِ زندگی اختیار کرتا ہے جو فطرت کے خلاف ہوتا ہے۔ وہ نمود و نمائش، ریا، تکبر و غرور اور احساسِ برتری جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ ان بیماریوں میں انسان وہ وہ افعال کرنے لگتا ہے جو اسے کبھی تو نعوذ باللہ اللہ کا منکر بنادیتے ہیں یا اس کے مقابلے میں کھڑا کردیتے ہیں۔ یعنی وہ شخص اپنے آپ کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے حتیٰ کہ فرعون کی طرح کسی کی موت اور زندگی کا فیصلہ کرنے لگتا ہے۔ یہ تمام بیماریاں صرف اس بنیادی غلطی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ انسان دنیوی نعمتوں کے حصول پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا، پھر اس کی یہی ناشکری اسے تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ 
انسانوں میں منفرد نظر آنے کے لیے طرح طرح کی حرکتیں کرنے کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنا نام بنانے کے لیے کبھی کبھی ایسے کام کرتے ہیں جو فطرت اور انسانیت کے بالکل خلاف ہوتے ہیں۔ انہی افعال کی طرح ایک نمود و نمائش بھی ہے۔ نمود و نمائش کے لیے انسان کبھی اعلیٰ اور فخریہ لباس پہنتا ہے تو کبھی اپنی آواز و لہجے اور چال ڈھال سے اپنے مقام و مرتبے کا احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے۔ نمود ونمائش کے انہی لباسوں میں سے ایک لباس جانوروں کے چمڑوں کا لباس ہے، جس کا تذکرہ ہم گزشتہ مضمون میں کرچکے ہیں۔ یہاں اگلی علامتِ قیامت میں اس لباس کے ساتھ یہ اضافہ کیا گیا ہے کہ ’’لوگ جانوروں کی کھالوں سے بنے اعلیٰ درجے کے لباس پہنیں گے لیکن ان کے دل مُردار سے بھی زیادہ بدبودار ہوں گے‘‘۔ مطلب یہ کہ لوگوں میں سے انسانیت ختم ہوجائے گی، ان کی زندگی کا مرکز و محور ان کی اپنی ذات ہی ہوگی، اس لیے دوسرے انسانوں کا درد محسوس کرنے کے لیے اُن کے دل بالکل مُردار ہوچکے ہوں گے، ان کو خیر کی کوئی بات اثر نہیں کرے گی، نہ ہی وہ کوئی خیر کا کام کریں گے۔ یہ درحقیقت شداد، ہامان اور فرعون کے پیروکار ہوں گے۔ جب انسانیت کا ایک بڑا طبقہ ایسی سوچ کا حامل ہوجائے گا تو اندازہ کیجیے کہ اُس معاشرے کا کیا حال ہوگا! ہر کوئی اپنی اپنی ذات میں شداد، ہامان اور فرعون بنا بیٹھا ہوگا، جن کے دلوں میں انسانیت کے لیے ذرا بھی رحم نہ ہوگا، وہ انسانیت کے قتل کے مرتکب ہورہے ہوں گے۔ اگر ہم اس علامت کے تناظر میں اپنے معاشروں کا جائزہ لیں تو ایسے لوگ جابجا نظر آئیں گے جو نمود و نمائش کے لیے فخریہ لباس پہنتے ہیں، اور دوسری جانب انسانیت کے درد کو محسوس کرنے سے ان کے دل مُردہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ یہی طرزعمل جب اپنی انتہا کو پہنچے گا تو لامحالہ یہ معاشرہ بھی اپنا استحکام کھودے گا اور دنیا تباہی کے دہانے تک پہنچ جائے گی۔  

0 comments: