عابد علی جوکھیو
انسان اللہ کی وہ مخلوق ہے جس میں اس نے خیر اور شر دونوں کا مادہ رکھا ہے۔ اسی لیے ہم دیگر مخلوق کے مقابلے میں انسانوں میں زیادہ فرق اور تفاوت دیکھتے ہیں۔ اگر انسان خیر کا راستہ اپناتا ہے تو فرشتوں سے بھی اعلیٰ مخلوق بن جاتا ہے، اور اگر یہی انسان شر کے راستے پر چلتا ہے تو ابلیس کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا ارشادِ گرامی ہے:
(ترجمہ) ’’پھر اُس (نفسِ انسانی) کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اس پر الہام کردی۔‘‘ (سورہ الشمس 8)
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خیر اور شر کا مادہ نفسِ انسانی میں اس کی خلقت کے وقت ہی ودیعت کردیا گیا تھا۔ خیر اور شر کا مادہ نفسِ انسانی میں ودیعت کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کو دونوں راستوں کا اختیار دیا گیا ہے، اگر وہ چاہے تو خیر کا راستہ اپنائے اور اگر چاہے تو شر کا۔ ان دونوں راستوں کے انتخاب میں وہ بااختیار ہے، اس پر کسی کا زور اور جبر نہیں۔ حتیٰ کہ خالقِ کائنات نے بھی اس معاملے میں انسان کو آزاد چھوڑ دیا ہے کہ وہ جو راستہ بھی چاہے اپنائے۔ ایک اور مقام پر ارشادِ خداوندی ہے:
(ترجمہ) ’’صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے۔‘‘ (سورۃ الکہف 29)
ان آیات سے بات واضح بات ہوجاتی ہے کہ دینِ اسلام میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ اگرچہ اسلام کا مطلوب خیر ہی ہے اور اسلام شر کی مذمت اور بیخ کنی کرنا چاہتا ہے، لیکن چونکہ یہ دونوں فطری ہیں اسی لیے اسلام نے اس معاملے میں انسان کو آزاد چھوڑا ہوا ہے۔ اللہ کے لیے یہ مشکل نہ تھا کہ وہ تمام انسانوں کو اپنا مطیع و فرماں بردار بناتا لیکن یہ بھی مشیتِ الٰہی ہے کہ انسانوں کے اپنے اعمال کے نتیجے پر ہی ان کے لیے جنت اور جہنم کا فیصلہ کیا جائے۔
اسلامی تعلیمات میں انسانی معاملات کی اہمیت پر ہم گزشتہ مضامین میں بات کرچکے ہیں۔ اس علامت میں انسانی تعلقات کو ہی ہدف بنایا گیا ہے۔ اس علامت کا تعلق بھی گزشتہ علامت سے ہے کہ لوگ جانوروں کی کھالوں سے بنے اعلیٰ درجے کے لباس پہنیں گے لیکن ان کے دل ایلوہ سے بھی زیادہ کڑوے ہوں گے۔ یعنی لوگوں کا ظاہر پر زیادہ زور ہوگا اور وہ باطن کو بھول ہی جائیں گے، حتیٰ کہ ان کے دلوں میں انسانوں کے لیے مانوسیت ہی نہ رہے گی۔ وہ سخت دل ہوں گے۔ انسانیت نام کی کوئی چیز ان میں نہ ہوگی۔ وہ انسانوں سے نفرت کریں گے۔ ان کے دلوں سے احساس اور درد ختم ہوجائے گا۔ اُن کے لیے بس اُن کی اپنی ذات ہی مقدم ہوگی۔ ان کی ہر بات اور سوچ کا تعلق ان کی ذات تک ہی محدود ہوگا۔ اجتماعیت، اجتماعی معاملات اور مفادات سے وہ بالکل لاتعلق ہوکر اپنی ہی ایک الگ دنیا بنالیں گے۔
دل کی نرمی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بتایا ہے۔ سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(ترجمہ) ’’(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔‘‘ (آیت159)
یعنی یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت اور رحمت ہے کہ لوگ آپس میں محبت کریں، نرم مزاج ہوں اور ایک دوسرے کی عزت اور وقار کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے دکھ درد اور تکلیف کو سمجھیں، کمزور اور پریشان حال کی مدد کریں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ خود رحمن و رحیم ہیں کہ وہ بھی انسانوں کے گناہوں اور لغزشوں کو معاف کرکے ان کو مہلت اور رزق عطا کرتے رہتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ انسانوں سے بھی اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ ’رحماء بینھم‘ کے مصداق آپس میں محبت و الفت کے جذبے کو پروان چڑھائیں، اپنے دلوں کو دوسروں کے لیے صاف کرلیں، اپنے دلوں کو وسیع اور کشادہ کریں، انسانوں کی تکلیف اور درد کو محسوس کریں، ان کی مدد کریں، اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اُس کے دیے ہوئے میں سے دوسروں کے ساتھ تعاون کریں۔
مذکورہ اور ماقبل علامتِ قیامت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی ظاہری شان و شوکت کے مقابلے میں انسانی دل کو بیان کیا ہے، یعنی انسانوں کا لباس تو بہت اعلیٰ ہوگا لیکن ان کے دل مُردار، بدبودار اور کڑوے ہوں گے۔ یہاں دل کا خاص طور پر ذکر کرنا بھی اہمیت سے خالی نہیں۔ دل انسانی جسم کا وہ حصہ ہے جہاں سے پورے جسم کو ہدایات اور پیغام ملتے ہیں۔ انسان کے تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے، اور علماء لکھتے ہیں کہ نیت کا محل اور مقام دل ہے۔ اس طرح دل مرکزی حیثیت کا حامل ہوا۔ حدیث میں بھی اصلاح قلب کو اصلاح جسم اور فسادِ قلب کو فسادِ جسم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ درست ہوجائے تو تمام جسم کی اصلاح بھی خودبخود ہوجائے گی، اور اگر وہ فاسد و خراب ہوجائے تو سارے جسم میں فساد برپا ہوجاتا ہے۔ خبردار! وہ دل ہے۔‘‘ (بیہقی)
علامہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ’’تہذیب الایمان‘‘ میں دل کی تین اقسام بیان کرتے ہیں: قلبِ سلیم (زندہ دل)، قلبِ میت (مُردہ دل)، قلبِ مریض (بیمار دل)۔
قلبِ سلیم: زندہ دل وہ ہوتا ہے جو ہر اُس خواہش سے پاک ہو جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو۔ یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو اللہ رب العزت کی بندگی کے سوا ہر کسی کی بندگی سے محفوظ ہو۔ جس میں اللہ تعالیٰ سے محبت اور ڈر، اسی سے امید اور اسی پر بھروسا پورے اخلاص کے ساتھ پایا جائے، جو ہر حالت میں اسی کے حضور جھکے، اسی کی رضا کو ترجیح دے۔ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے دور بھاگے۔ اگر کسی کو پسند کرے تو خدا کے لیے، اور اگر ناپسند کرے تو بھی خدا کے لیے۔ اگر کسی کو دینے کا جذبہ پیدا ہو تو اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے، اور اگر کسی کو نہ دینے کا ارادہ ہو تو بھی اسی کی مرضی کے مطابق۔ زندہ دل میں یہ اوصاف بھی پائے جاتے ہیں مثلاً حیا، پاکیزگی، صبر و تحمل، شجاعت، غیرت، خودی، نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت۔ جس دل میں یہ خوبیاں پائی جائیں، اس میں ایک نور، ایک چمک پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسا دل درحقیقت تجلیاتِ الٰہی کا مرکز ہوتا ہے۔ ایسے دل پر انوارِ الٰہیہ کی بارش ہوتی ہے۔ اس حالت میں یہ محض گوشت کا ایک لوتھڑا نہیں ہوتا بلکہ نورانیت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بن جاتا ہے، جس سے محبت و الفت، امن و آشتی، صبر و تحمل اور ہمت و شجاعت کے بخارات اٹھتے ہیں اور رفعت و سربلندی کے بادل بن کر ہر سو پھیل جاتے ہیں، جن سے علم و حکمت اور عقل و دانش کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ مُردہ دلوں کے لیے حیاتِ نو کا پیام لاتی ہے اور پیاسے دلوں کو سیراب کرتی ہے۔ چنانچہ زندگی کا صحیح معنوں میں لطف اُس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اپنے سینے میں ایسا دل رکھتا ہے جو مذکورہ بالا خوبیوں سے متصف و مشرف ہو۔
مُردہ دل: یہ ایک بہترین تشبیہ ہے، اس لیے کہ ان کے بدن ان کے دلوں کی قبریں ہیں۔ دل مرگئے ہیں اور انہیں ان کے ابدان میں دفن کردیا گیا ہے۔ یہاں پر مُردہ دلی سے مراد یہ نہیں کہ ان دلوں کی حرکت یا دھڑکن بند ہوگئی ہے، بلکہ اس سے مراد وہ دل ہیں جن میں مذکورہ چیزوں میں سے کوئی چیز نہ پائی جائے، جن پر جہالت و نحوست کی تہیں جمی ہوں اور جن میں زندگی پیدا کرنا صرف اسی طور ممکن ہے کہ مذکورہ اوصاف ان میں بتدریج پیدا کیے جائیں۔
مریض دل: وہ دل جس میں نہ تو زندہ دل کے مکمل اوصاف پائے جائیں اور نہ ہی ان کی کیفیت مُردہ دل کی سی ہو۔ یہ ایسا دل ہے جس کو وقتی طور پر زنگ لگ گیا ہو، اور اس زنگ کو صاف کرکے اسے دوبارہ زندہ دل بنایا جاسکتا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جس طرح لوہا زنگ آلود ہوجاتا ہے بعینہٖ انسانی دل بھی زنگ آلود ہوجاتا ہے‘‘۔ آپؐ سے دریافت کیا گیا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! دل کو صیقل کرنے یا اسے جِلا بخشنے کا طریقہ کیا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ ربّ العزت کا تصور اور ہر آن اُس کی یاد دلوں کو جِلا بخشتی ہے اور ان میں نورانیت پیدا کرتی ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)
تصوف کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد صفائے قلب بھی ہے۔ جب انسان کا نفس گناہ کی آلودگیوں اور برے اخلاق سے ناپاک ہوجاتا ہے تو اس کے اثرات سے قلبِ انسانی پر سیاہی چھا جاتی اور اس کا باطن تاریک ہوجاتا ہے۔ اسلام انسانی دل کی صفائی اور درستی کا تقاضا کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ انسان کا دل صاف رہے تاکہ اسے معرفتِ الٰہی نصیب ہوسکے۔ اور جب انسان کا نفس گناہ کی آلودگیوں اور رذائلِ اخلاق سے پاک ہوجاتا ہے تو اس کے اثرات انسان کے قلب و باطن پر بھی مرتب ہونے لگتے ہیں۔ جب انسان اپنے غصے پر قابو پاکر اس کے بدلے رحم اور درگزر کا معاملہ کرنے لگتا ہے تو اس سے اس کی شخصیت میں ایک نکھار پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سے غرور و تکبر کا خاتمہ ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں انسان کے دل میں نرمی اور رقت پیدا ہوتی ہے جو قلب کی صفائی و چمک اور اعلیٰ مراتب کا باعث بنتی ہے۔
بلاشبہ اللہ تعالیٰ انسانوں پر رحیم ہے، اس لیے وہ آخرت میں جنت کا وعدہ اور ساتھ ساتھ انسانوں کے لیے اِس دنیا کو بھی جنت بنانا چاہتا ہے۔ لیکن اِس دنیا کا جنت بننا انسانوں کے اپنے اعمال پر ہی موقوف ہے۔ وہ چاہیں تو اپنے اچھے اعمال کے ذریعے اسے جنت بنالیں، یا اس میں فساد برپا کرکے اسے جہنم بنالیں۔ اس کے علاوہ انسان کی اپنی سوچ کا بھی فرق ہے، کسی فقیر کے لیے یہ دنیا جنت بن جاتی ہے اور شاہ کے لیے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دوزخ… مسئلہ صرف سوچ کا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قلبِ سلیم عطا فرمائے۔ (آمین)
0 comments:
Post a Comment