سونا عام ہو جائے گا… ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Thursday, April 11, 2019

سونا عام ہو جائے گا…


عابد علی جوکھیو

اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کا خالق و مالک ہے۔ اسی نے ہر شے کو پیدا کیا ہے۔ فرشتے، جنات، انسان، حیوان، حشرات، چرند پرند الغرض ہر چیز مخلوق ہے۔ انسان کو بھی دیگر مخلوق کی طرح اللہ نے پیدا کیا ہے، لیکن انسان اپنی فطرت میں کتنا خوش قسمت واقع ہوا کہ اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا۔ اللہ نے فرشتوں جیسی عظیم مخلوق سے انسان کو سجدہ کروایا اور حضرتِ انسان کو سجدے سے انکار کرنے والے ابلیس کو ہمیشہ کے لیے ملعون قرار دیا۔ جہاں اللہ کی مخلوقات بے شمار ہیں وہیں ان میں سے کچھ انسانوں کے لیے حلال ہیں اور کچھ حرام۔ کسی مخلوق کو صرف سواری کے لیے پیدا کیا گیا تو کسی کو دودھ اور گوشت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا گیا۔ کوئی مخلوق انسان کا پیٹ بھرنے کا کام کرتی ہے تو کوئی انسان کی زیب و زینت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اگر اس طرح انسانوں کے لیے دیگر مخلوقات میں موجود فوائد کا حساب لگائیں تو نہ جانے بات کہاں تک چلی جائے گی۔ الغرض اللہ نے انسان کو فضیلت دے کر دیگر کئی مخلوقات اس کے تابع بنادیں تاکہ حضرتِ انسان اپنے رب کا شکر گزار بندہ بن کر اس کے احکامات کے مطابق زندگی گزارے۔ 
بسا اوقات اللہ کی نعمت (کسی مخلوق کو انسان کے تابع بنانے یا انسان کی دسترس میں لانے) کو انسان اپنی قابلیت یا برتری کا نتیجہ قرار دے کر اس پر گھمنڈ کرنے لگتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
(ترجمہ)’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس، عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں… بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانہ ہے، وہ تو اللہ کے پاس ہے۔‘‘ (آل عمران14) 
آیت میں مذکور تمام نعمتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں، لیکن اگر انسان ان نعمتوں کے بدلے اپنے ہی خالق کے مقابلے میں کھڑا ہوجائے تو اس سے بڑا کافر کون ہوگا؟
اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت سونا ہے، جسے انسان ایک عرصے تک زر کی حیثیت سے استعمال کرتا رہا۔ سونا چونکہ کافی محدود ہے اس لیے اُس کی قدر بھی زیادہ ہے۔ اسلام نے سونے کے زیورات عورتوں کے لیے حلال اور مردوں کے لیے حرام قرار دیے ہیں، اس کے باوجود بھی مردوں میں سونا جمع کرنے کی حرص کم نہ ہوئی۔ اس کی ایک وجہ سونے کا قیمتی ہونا ہے اور دوسرا یہ کہ اصل زر تو سونا ہی ہے جو ایک اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔ روپیہ پیسہ تو کسی بھی وقت اپنی اہمیت کھوسکتا ہے لیکن سونے کی اہمیت اپنی جگہ برقرار رہے گی۔ انسان کے مال و متاع میں سونے کو ہمیشہ سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اسی لیے انسان کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سونا جمع کرے اور اپنے مال و دولت اور اثاثوں میں اضافہ کرتا رہے۔ اگر دیکھا جائے تو سونا بھی اللہ ہی کا پیدا کردہ ہے، وہی ہے جس نے سونے کے خزانے زمین میں چھپا رکھے ہیں تاکہ انسان بقدرِ ضرورت اس کو تلاش کرکے استعمال کرے۔ اسلام ضروریاتِ زندگی اور تعیشات میں واضح فرق رکھتا ہے، وہ انسان کو ضروریاتِ زندگی کے بقدرِ ضرورت استعمال کی تعلیم دیتا ہے، جبکہ تعیشات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ اسلام بلا ضرورت اخراجات کو اسراف اور بلاضرورت مال جمع کرنے کو حرصِ دنیا سے تعبیر کرتا ہے، اسی لیے اسلام تعیشات کے پیچھے پڑنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق سونا بھی تعیشات میں شامل ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سونا چاندی جمع کرنے والوں کو سخت وعید سنائی ہے۔ سورہ توبہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
(ترجمہ) ’’اے ایمان لانے والو، اِن اہلِ کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو جو سونا اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا… یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔‘‘ (آیت 34۔35)
اگرچہ جمہور علماء اس آیت کے لفظ ’ینفقون‘ سے زکوٰۃ کے اخراج کا حکم نکال کر تفسیر کرتے ہیں کہ اس وعید کے مستحق وہی لوگ ہوں گے جو سونے چاندی کی زکوٰۃ نہیں ادا کرتے، لیکن منجملہ اس آیت سے سونے اور چاندی کے جمع کرنے کی قباحت معلوم ہوتی ہے۔ یعنی انسان صرف سونا چاندی جمع کرنے کے پیچھے نہ پڑے کہ وہ اسی کو اپنا مقصدِ زندگی بنالے۔ انسان کو اللہ نے اپنی عبادت اور اطاعت کے لیے پیدا کیا ہے، اسی لیے اگر عبادت کے ساتھ ساتھ اللہ کسی پر زمین اور آسمان کے خزانوں کے دروازے کھول دے تو اس میں قباحت نہیں۔ اکثر صحابہؓ اور سلف صالحین کا طرزعمل کچھ اسی طرح کا ملتا ہے کہ وہ مال کو آزمائش تصور کرتے تھے۔ اکثر تو مال دیکھ کر اس بات کا خدشہ ظاہر کرتے کہ کہیں اللہ انہیں ان کے اعمال کا بدلہ اِس دنیا میں ہی تو نہیں دے رہا اور ان کے لیے آخرت میں کچھ نہ ہو! حضرت ابوذر غفاریؓ کا شمار اُن صحابہ میں ہوتا ہے جو اس آیت سے سونے چاندی کی حرمت کا مطلق حکم نکالتے ہیں۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ان کو خاصی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 
علماء نے سونے اور چاندی کی حرمت کے تین اسباب بیان کیے ہیں:
 (1) تکبر، (2) اسراف اور (3) دنیا پرستی 
اگر اسلامی تعلیمات کا بغور جائزہ لیا جائے تو علماء کے بیان کردہ یہ تینوں اسباب اصل میں بھی حرام ہیں اور ان تینوں کا تعلق بھی فرد سے ہے۔ یعنی ان میں سے کسی بھی عمل کا براہِ راست تعلق انسانی معاشرے پر پڑتا ہے۔ انسان کا تکبر کرنا اللہ کو ناپسند ہے۔ اللہ نے تکبر کو اپنی چادر کہا ہے۔ یعنی اگر کسی کو تکبر زیب دیتا بھی ہے تو وہ صرف اللہ ہی کی ذات ہے، جو اپنی ذات میں اکمل ہے۔ کجا کہ انسان اس کے سامنے تکبر کرے جو خود اس کی مخلوق ہے، جسے اس نے ایک گندے مادے سے پیدا کیا ہے۔ انسان تکبر اسی وقت کرتا ہے جب وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگتا ہے، اسی لیے جب انسان میں تکبر پیدا ہوتا ہے تو وہ کسی کو بھی اپنا ہمسر نہیں سمجھتا اور ہر ایک کو حقیر جاننا شروع کردیتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کے اس عمل کو ناپسند کیا ہے کہ اسے کیا اختیار کہ وہ انسانوں کو حقیر جانے اور اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا پھرے! 
اسراف بھی انسان اُسی وقت کرتا ہے جب اس کے پاس مال و دولت ہو۔ چونکہ سونا ہمیشہ سے ایک قیمتی عنصر کے طور پر دیکھا گیا ہے اور اس کی اہمیت بھی ہے، اس لیے انسان کو جہاں اسراف سے منع کیا گیا ہے وہیں اس کے سامنے اُن عوامل کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جو اسراف کا سبب بنتے ہیں۔ اگر کسی کے پاس مال ہو تو اسلام اسے یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ اسے اپنے اوپر جائز طریقے سے استعمال کرے اور غریبوں، مسکینوں پر بھی خرچ کرے، تاکہ اللہ نے اسے جو فضل دیا ہے اس سے دوسرے بھی مستفید ہوں۔ اگر انسان اللہ کے حکم کے خلاف اس مال کو صرف نمود ونمائش اور ناجائز کاموں میں خرچ کرنا شروع کردے تو جہاں یہ اللہ کی ناراضی کا سبب بنتا ہے وہیں اس سے معاشرے میں بھی بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ خودغرضی کی بنا پر اپنے ہی مال کو صرف اپنے اوپر خرچ کرنے اور کسی کی مدد نہ کرنے سے انسانوں کے باہمی تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ اس سے لوگوں کے دلوں میں نفرت، حسد، بغض اور کینہ جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں، جن کا لازمی نتیجہ خون خرابہ، معاشرتی بگاڑ، چوری، ڈاکا زنی اور لوٹ مار کی صورت میں نظر آتا ہے۔ 
اسلام انسان کو دنیا میں ایک مسافر جیسی زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام دنیا پرستی سے روکتا ہے اور انسان کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کرے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، اس دنیا کو صرف دارالامتحان سمجھ کر  زندگی گزارے تاکہ اس کے لیے دارالجزا اچھی ہوسکے۔ اسلام حُبِّ دنیا سے روکتا ہے کیونکہ دنیا کی محبت ہی برائی کی جڑ ہے۔ جب انسان کے دل میں دنیا کی محبت گھر کر جائے گی تو وہ دنیا کا بندہ ہوکر رہ جائے گا اور اس کی تمام تگ و دو دنیا کے حصول تک ہی محدود ہوجائے گی۔ انسان کا عقیدۂ آخرت کمزور ہوجائے گا۔ دنیا کو ہی سب کچھ سمجھنے سے دوسرے انسانوں سے تعلق بھی بگڑ جائے گا۔ جب دنیا کا حصول ہی سب کچھ بن جائے گا تو انسان اس کے لیے کچھ بھی کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔ حتیٰ کہ اپنے رب سے بھی منہ موڑ لے گا، جس کا لازمی نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ 
اسلام انسان کو ایسی تعلیم دیتا ہے جس کی مدد سے جہاں وہ اپنی دنیا و عاقبت کو سنوارنے کی کوشش کرے وہیں  دوسروں کے لیے بھی ایک بہترین نمونہ بنے تا کہ دوسرے لوگ بھی اسے دیکھ کر اپنی اصلاح کرسکیں۔ بلاشبہ ایک فرد کی تبدیلی سے ہی معاشرے کی تبدیلی کا آغاز ہوتا ہے۔ اور ایک فرد کی خرابی سے پورا معاشرہ خراب ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اسلام ایسے تمام اسباب کا قلع قمع کرتا ہے جو فرد کی ذات اور معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنتے ہوں۔ سونا بذاتِ خود حرام نہیں لیکن اس کی محبت اور اس کو جمع کرنے کی حرص انسان کو تباہی کی طرف لے جانے کا سبب بنتی ہے۔ اسی لیے اسلام انسان کو ان اسباب سے بھی دور رہنے کی تعلیم دیتا ہے جن سے بگاڑ کا خدشہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آزمائشوں سے محفوظ فرمائے۔ (آمین) 

0 comments: