April 2019 ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Monday, April 29, 2019

پی ٹی ایم کیلئے مہلت اب ختم ہوگئی، ترجمان پاک فوج

 راولپنڈی: پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ  یہ 1971 نہیں، اب نہ وہ فوج ہے نہ وہ حالات ہیں جبکہ پی ٹی ایم کو پیغام دیا کہ اس کی مہلت اب ختم ہوچکی۔
 مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے کا فیصلہ
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے اور وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وزیراعظم نےعصر حاضرکےتقاضوں کے مطابق نصاب بنانے کیلیے  کمیٹی بنائی ہے جو مدارس کیلیے نصاب تیار کرے گی، مدارس کے نصاب میں دین اور اسلام ہوگا لیکن نفرت انگیز مواد نہیں۔
اپنا فقہ چھوڑو نہیں دوسرے کا چھیڑو نہیں
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان میں 30 ہزار سے زائد مدارس ہیں جن میں 25 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں، 1947 میں مدارس کی تعداد 247 تھی جو 1980ء میں 2861 ہوگئی اور آج 30 ہزار سے زیادہ ہے، آرمی چیف کی ہدایت ہے کہ اپنا فقہ چھوڑو نہیں اور دوسرے کا فقہ چھیڑو نہیں، مدارس کے نصاب میں تبدیلی نہیں ہوگی لیکن منافرت پھیلانے والا مواد بھی نہیں ہوگا، جہاد افغانستان کے بعد پاکستان میں مدارس کھولے گئے اور جہاد کی ترویج کی گئی، اس کے ساتھ ہی ایران میں انقلاب آیا، جس کے بعد پاکستان میں فرقہ ورانہ تصادم شروع ہوا، نائن الیون کے بعد منظر نامہ تبدیل ہوا جس کے نتیجے میں جغرافیائی معیشت پر سیاست شروع ہوئی۔
دہشت گردی سے فارغ، اب انتہاپسندی کا خاتمہ
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ عسکریت پسندی کی طرف لے جانے والے مدارس کی تعداد 100 سے بھی کم ہے، بیشتر مدارس پرامن ہیں، مدرسے کے ایک طالبعلم نے آرمی میں کمیشن بھی حاصل کیا ہے، لیکن ان مدارس کے بچوں کے پاس ملازمت کے کیا مواقع ہوتے ہیں، اسلام کی تعلیم جیسی ہے چلتی رہے گی لیکن نفرت پر مبنی مواد نہیں ہوگی، دوسرے فرقے کے احترام پر زور دیا جائے گا، نصاب میں درس نظامی کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے مضامین بھی ہوں گے، ہر مدرسے میں چار سے 6 مضامین کے اساتذہ درکار ہوں گے، اس سے متعلق بل تیار ہورہا ہے، پھر نصاب پر نظرثانی ہوگی، دہشت گردی کے مقابلے سے فارغ ہورہے ہیں، اب انتہاپسندی کا خاتمہ کرنا ہے۔
کالعدم تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے وسائل درکار
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے بہت سارے وسائل درکار ہوتے ہیں، پہلے بھی کس نے منع کیا تھا کہ کالعدم تنظیموں کو دوبارہ مرکزی دھارے میں نہ لایا جائے، کیا پرانے فیصلوں پر ہی عمل کرتے رہیں یا غلطی کی اصلاح کرلیں، طاقت کے استعمال کا اختیار صرف ریاست کا حق ہے، افواج پاکستان نے طے کرلیا ہے کہ معاشرے کو انتہا پسندی اور عسکریت پسندی سے پاک کرنا ہے۔
پی ٹی ایم سے چند سوال
میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم والے کدھر تھے جب ان کے گلے کٹ رہے تھے اور فٹ بال کھیلی جارہی تھی، جب حالات ٹھیک ہوگئے تو تحفظ کی بات آگئی، سیکیورٹی اداروں کے ان سے کچھ سوال ہیں، آپ کے پاس کتنا پیسہ ہے اور کہاں سے آرہا ہے، 22 مارچ 2018 کو افغان ایجنسی این ڈی ایس نے انہیں کتنے پیسے دیے اور وہ کہاں ہیں، اسلام آباد دھرنے کے لیے کتنے پیسے ملے اور کہاں استعمال کیے، قندھار میں بھارتی قونصل خانے میں منظور پشتین کا کون سا رشتے دار گیا اور کتنے پیسے لیے، حوالہ ہنڈی سے دبئی سے کتنا پیسہ آرہا ہے، افغانستان نے کیوں منع کیا کہ طاہر داوڑ کی میت پاکستان کو نہیں دینی، پی ٹی ایم کے خلاف کوئی اعلان جنگ نہیں، کچھ سوالات پوچھے ہیں۔
پی ٹی ایم کی مہلت ختم
میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم والے ہر پاکستان مخالف شخص سے کیوں ملتے ہیں اور فوجی کی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھتے، اس علاقے میں جو فوج کی سپورٹ میں بولے وہ ماراجاتاہے، فوج سے کیا بدلہ لینے کی بات کرتے ہیں، اگر آرمی چیف نے پہلے بات نہ کی ہوتی کہ ان سے پیار سے ڈیل کرنا ہے ورنہ ڈیل کرنا کوئی مشکل کام نہیں، پی ٹی ایم کو دی گئی مہلت اب ختم ہوگئی، انہوں نے جتنی آزادی لینی تھی لے لی، لیکن ان کے خلاف غیر قانونی راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا، جو بھی ہوگا قانونی طریقے سے ہوگا، جن لوگوں آپ ورغلارہے ہیں ان پرقابوپانا مشکل کام نہیں۔
پشتو میں پیغام
جنرل آصف غفور نے اس موقع پر پشتو میں پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہم پختونوں سے امید رکھتے ہیں آپ ملک دشمن قوتوں کا راستہ روکیں گے اور ان کی باتوں میں نہیں آئینگے، کچھ لوگ کسی کے ورغلانے پر آپ کو پاکستان اور اداروں کیخلاف اُکسانا چاہتے ہیں، خدانخواستہ پاکستان کو کوئی نقصان ہوگا تو یہ ہم سب کا نقصان ہو گا۔
پی ٹی ایم کو وہی جماعت سپورٹ کر رہی ہے راؤ انوار جس کا بچہ تھا
نقیب اللہ قتل کیس میں ملوث سندھ پولیس کے سابق افسر راؤ انوار کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پی ٹی ایم کو ایک سیاسی جماعت سپورٹ کر رہی ہے، بچہ تو راؤ انوار اسی پارٹی کا تھا۔
 ٹی وی چینلز ایک دن مجھے دیں
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہمارا دل نہیں ہوتا کہ کوئی آدمی لاپتہ ہو، لیکن جب جنگ ہوتی ہے تو اس میں بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں، پی ٹی ایم پر میڈیا پر بحث نہیں کرائیں گے، ٹی وی چینلز ایک دن مجھے دے دیں، میں موضوع دوں گا اس پر ماہرین کو بلائیں، عدالتی اور پولیس اصلاحات پر بات کریں، شام 7 سے 12 بجے تک ٹاک شور میں صرف مسائل پر بات ہوتی ہے، آپ حل بتائیں۔
یہ 1971 نہیں، نہ وہ فوج ہے اور نہ وہ حالات
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ جب بات ملکی دفاع اور سلامتی کی ہو تو پاکستان ہر قسم کی صلاحیت استعمال کرے گا، ہمارا حوصلہ نہ آزمائیں، وقت آیا تو پاک فوج عوام کی مدد سے بھرپور دفاع کرے گی اور تاریخ دہرائے گی، یہ 1971 نہیں، نہ وہ فوج ہے اور نہ وہ حالات ہیں، اگر موجودہ پاکستانی میڈیا 1971 میں ہوتا تو بھارت کی سازشیں بے نقاب کرتا اور آج مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا، بھارت کے لیے یہی پیغام ہے کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں، بھارت کچھ کرنا چاہتا ہے تو پہلے نوشہرہ اسٹرائیک اور بھارتی جہازوں کے گرنے کا حساب ذہن میں رکھے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ 27 فروری کو گزرے 2 ماہ ہوگئے لیکن بھارت ان گنت جھوٹ بولے جارہا ہے، ہم ان کا جواب دے سکتے ہیں لیکن ہم ذمہ داری کا مظاہرہ کررہے ہیں، پاک فضائیہ نے بھارت کے 2 طیارے گرائے جس کا ملبہ پوری دنیا نے دیکھا، بھارتی فضائیہ نے اپنا ہی ہیلی کاپٹر مارگرایا اور بلیک باکس چھپالیا، حالات بہتر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں بھارتی طیارے گرانے والے پاک فضائیہ کے پائلٹس کو اعزاز سے نوازیں گے۔


Saturday, April 27, 2019

No more screenshots on private WhatsApp chats?

Tech giant WhatsApp has unleashed a wave of fear and anxiousness amongst its users after buzz has been suggesting that the application will no longer enable users to screenshot private chats.
As per a report by WaBetaInfo, the messaging app will be rolling out a new test feature for the users that will be giving fingerprint access to chats due to which users will no longer be able to screenshot private chats.
Reports citing the feature state: “When enabled, fingerprint is required to open WhatsApp and conversation screenshots are blocked. You can still reply to messages from notifications and answer calls if WhatsApp is locked.”
Moreover, it was revealed that as of now, only the Beta version of the application on Android devices, is displaying the feature.


Sri Lanka police chief refusing to quit despite president's request: sources


Sri Lanka’s police chief has refused a request by President Maithripala Sirisena to step down following suicide bombings on churches and hotels, two sources at the president’s office said on Saturday, deepening the rift at top levels of government.
Sirisena, facing criticism over the failure to thwart the attacks, blamed the inspector general of police Pujith Jayasundara and defence secretary Hemesiri Fernando for not sharing advance warnings of the attacks with him.
Fernando resigned earlier in the week, but Jayasundara was holding on, the two officials said.
“He has refused to resign despite the president’s request,” one of the sources said. Under Sri Lanka’s constitution, only parliament can remove the police chief through a lengthy process designed to shield officers from political interference.
The attacks in which more than 250 people were killed have exposed the divisions between Sirisena and Prime Minister Ranil Wickremesinghe, with both saying they had not seen warnings given by India’s spy service about impending strikes on churches and the Indian embassy including one just hours before the attacks.
Jayasundara, the police chief, was handpicked for the job by Wickremesinghe. The first source at the president’s office said Sirisena was still expecting him to turn in his papers. The second source confirmed the situation.
Both sources declined to be identified as they were not authorised to speak with media.
Jayasundara did not answer his phone or email seeking comments. An officer at the police department said the police chief had not resigned but did not come to work on Saturday.


After Avengers: Endgame, will Chris Hemsworth return as Thor?

With Avengers: Endgame finally hitting theaters, fans cannot help but wonder if their favorite superhero Thor will continue as the Norse god of thunder in the Marvel Cinematic Universe (MCU).
Chris Hemsworth who had been essaying the role does not know what the future holds either as he revealed during an interview, that for now, he is also wondering much like the rest of the Marvel fans.
''There will come a day. Whether it's now or in the future, I don't know. ... Who knows what the sort of future holds. I don't know, there could be remakes, sequels, prequel -- who knows?'' he said while talking at a podcast.
 Regarding the role of Thor, Hemsworth stated: "The people I met working on these films truly became family. It's not even once in a career, or once in a lifetime, it's sort of, I don't know, once in however many careers that something like this (happens). This has been a very nostalgic kind of vibe to this press tour and all of us quite often kind of pausing going, 'Wow, this will never happen again, not for us, and who knows if it will happen again in what generation.' "I can keep talking about the kind of, how special it all is and the insanity of it but it's, I don't know, gratitude is something that I constantly feel about the whole experience.”

’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے میں توسیع: امریکا و بھارت نالاں

 چین اپنے منصوبوں کی مدد سے اور چین کی قیادت میں ایک سیاسی و تجارتی نیٹ ورک کے قیام سے ان کی علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچا رہا ہے، دونوں ممالک نے تحفظات کا اظہار کردیا
 بیجنگ حکومت چاہتی ہے کہ تمام ممالک کو بنیادی ڈھانچے میں ترقی کے منصوبے سے فائدہ حاصل ہو، چینی صدر نے تحفظات مسترد کردیئے ، کانفرنس اختتام پذیر

بیجنگ (این ٹی ایس رپورٹ) امریکا کے تحفظات اور مخالفت کے باوجود چینی صدر نے دیگر ملکوں کو دعوت دی ہے کہ وہ بنیادی ڈھانچے میں ترقی کے وسیع تر چینی منصوبے کا حصہ بنیں۔ واشنگٹن حکومت اسے عالمی سطح پر چینی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش سمجھتی ہے۔پاکستانی وزیراعظم نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے مغربی روٹ، کوئٹہ ژوب شاہراہ کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔ ملک کی قومی اقتصادی کونسل نے اس مغربی روٹ کے لیے انٹیلی جنٹ ٹرانسپورٹیشن سسٹم کے قیام کی باقاعدہ منظوری دی تھی۔صدر شی جن پنگ نے مزید ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ بنیادی ڈھانچے میں ترقی کے وسیع تر چینی منصوبہ جات کا حصہ بنیں۔ شی جن پنگ نے یہ بات ’بیلٹ اینڈ روڈ فورم‘ کے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران ہفتہ 27 اپریل کو کہی۔ چینی صدر نے ایئے تحفظات کو مسترد کیا کہ چینی منصوبہ جات سے ترقی پذیر ایشیائی و افریقی ریاستیں زیادہ مستفید نہیں ہوں گی اور واضح کیا کہ بیجنگ حکومت چاہتی ہے کہ تمام ممالک کو بنیادی ڈھانچے میں ترقی کے منصوبے سے فائدہ حاصل ہو۔بیجنگ میں دو روزہ ’بیلٹ اینڈ روڈ فورم‘ اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن بھی شریک تھے۔ یہ امر اہم ہے کہ پوٹن نے بھی چینی ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ پراجیکٹ کی حمایت میں بیان دیا۔ امریکی حکومت چینی منصوبوں کے حوالے سے تحفظات رکھتی ہے اور اس کا ماننا ہے کہ یوں چین دراصل عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ہفتے کو اجلاس کے اختتام پر اپنے خطاب میں چینی صدر نے مطلع کیا کہ پچھلے دو دنوں میں 64 بلین ڈالر مالیت کے نئے منصوبوں کو حتمی شکل دی گئی۔ شی جن پنگ کے بقول انفراسٹرکچر یا بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے منصوبوں میں تمام فریقین سے برابری کی سطح پر مشاورت کی جائے گی اور یہ منصوبے شفاف اور ماحول دوست ہوں گے۔یہ امر اہم ہے کہ امریکا سمیت جاپان اور بھارت بھی ایسے تحفظات کا شکار ہے کہ چین اپنے منصوبوں کی مدد سے اور چین کی قیادت میں ایک سیاسی و تجارتی نیٹ ورک کے قیام سے ان کی علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اگرچہ روس بھی ایسے تحفظات کا شکار ہے تاہم صدر پوٹن نے اجلاس میں کہا کہ ’بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ‘ ایک مشترکہ منڈی کے قیام کی روسی کوششوں سے مطابقت رکھتا ہے۔بیجنگ حکومت کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر دستخط کرنے والے ممالک کی تعداد پینسٹھ سے بڑھ کر اب ایک سو پندرہ ہو گئی ہے۔ رواں سال مارچ میں چین کے لیے ایک بڑی کامیابی اس وقت ممکن ہوئی جب ترقی یافتہ ملکوں کے گروپ ’جی سیون‘ کے رکن یورپی ملک اٹلی نے بھی اس منصوبے کا حصہ بننے کی تصدیق کر دی۔

افغانستان سے افواج کا انخلا، امریکا کا روس اور چین سے اتفاق

 چین اور روس بھی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے عمل میں مدد فراہم کریں گے اور طالبان سے طے پانے والے ممکنہ امن معاہدے میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا

 واشنگٹن( این ٹی ایس )امریکا افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا چاہتا ہے اور اب اس مقصد کے لیے اسے روس اور ایشیا کے طاقتور ملک چین کی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے۔ ان تینوں ممالک نے افغانستان میں امن عمل سے متعلق ایک فارمولے پر اتفاق کر لیا ہے۔ چین اور روس بھی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے عمل میں مدد فراہم کریں گے اور طالبان سے طے پانے والے ممکنہ امن معاہدے میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ افغان طالبان غیرملکی عسکریت پسندوں کو اس خطے میں خوش آمدید نہیں کہیں گے۔طالبان کے ساتھ امن مذاکرات جاری رکھنے والے خصوصی امریکی مندوب زلمے خلیل زاد نے ماسکو میں روسی اور چینی عہدیداروں سے ملاقات کی۔ ان دو ممالک کے عہدیداروں سے اتفاق رائے کو انہوں نے ایک سنگ میل قرار دیا ہے۔ زلمے خلیل زاد جلد ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اگلا دور شروع کرنے والے ہیں۔ان تینوں ممالک نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے افغان قیادت میں امن عمل کی حمایت کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، مجموعی امن عمل کے ایک حصے کے طور پر تینوں ممالک نے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کی منظم اور ذمے دارانہ واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ان تینوں ممالک نے یہ بھی کہا ہے کہ طالبان کی طرف سے انتہا پسند گروہ داعش کا مقابلہ کرنے اور القاعدہ سے روابط توڑنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ جاری ہونے والے بیان کے مطابق، طالبان نے یہ وعدہ کیا ہے کہ ان کے زیر کنٹرول علاقوں کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔زلمے خلیل زاد نے اس اعلامیے کے ساتھ ساتھ ایک ہفتہ قبل لندن میں یورپی نمائندوں سے ہونے والی ایک ملاقات کا حوالہ بھی دیا، افغان جنگ ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری میں اتفاق رائے بڑھتا جا رہا ہے اور اس یقین دہانی کے بارے میں بھی کہ دوبارہ افغانستان سے دہشت گردی سر نہیں اٹھائے گی۔

ڈاکٹری نسخے کے بغیر عوام کو اینٹی بائیوٹک دوائیں نہ دی جائیں،وزارت صحت کا مراسلہ

اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی بائیوٹک کا استعمال عوام کے لیے خطرہ اور بہت بڑا چیلنج ہے… غیر ضروری اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کی روک تھام ضروری ہے
 وزرات صحت نے تمام سرکاری اور نجی ہسپتا لوں ،بنیادی مراکز صحت اور میڈیکل اسٹورز کو مراسلہ بھیج دیا

اسلام آباد (این ٹی ایس رپورٹ) وزارت قومی صحت نے ڈاکٹری نسخے کے بغیر عوام کو اینٹی بائیوٹک دوائیں نہ دینے کی ہدایت کر دی ۔وزارت صحت نے اینٹی بائیوٹک اور اینٹی بیکٹیریل دوائیوں سے متعلق قانون پر عملدرآمد کے لیے میڈیکل سٹورز کو مراسلہ جاری کردیاہے۔مراسلے کے مطابق اینٹی بائیوٹک اور اینٹی بیکٹیریل ادویات کی فراہمی ڈاکٹری تجویز سے مشروط کردی گئیں ۔وزارت قومی صحت نے میڈیکل سٹورز سے کہا کہ کہ وہ ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخے کے بغیر اینٹی بائیوٹک اور اینٹی بیکٹیریل ادویات کسی کو نہ دیں ۔مراسلے میں کہا گیا کہ قانون کے تحت اینٹی بائیوٹک اور اینٹی بیکٹیریل ادویات ڈاکٹری نسخے پر دی جانی چاہئیں۔اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی بائیوٹک کا استعمال عوام کے لیے خطرہ اور بہت بڑا چیلنج ہے، ڈاکٹری نسخے کے بغیر میڈیکل سٹورز عوام کو یہ دوائیں دیتے ہیں۔ مراسلے میں کہا گیا کہ غیر ضروری اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کی روک تھام ضروری ہے۔ وزرات صحت نے تمام سرکاری اور نجی ہسپتا لوں کو بھی مراسلہ بھیج دیا۔بنیادی مراکز صحت،پی ایم ڈی سی،ڈریپ کے تمام محکموں کو بھی آگاہ کر دیا گیا۔ مراسلے میں اینٹی بائیوٹک اور اینٹی بیکٹیریل کے استعمال کا ریکارڈ بھی تیار رکھنے کی ہدایت کی گئی ۔یاد رہے گذشتہ برس مارچ میں سامنے آنے والی امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ گذشتہ 15 برسوں کے دوران پاکستان میں اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں 65 فیصد اضافہ ہوا ۔امریکی تحقیقی جنرل پروسیڈنگ آف نیشنل اکیڈمی آف سائنسز(پی این اے ایس)کی رپورٹ کے مطابق ایشیائی ملک بھارت میں ایسی دوائوں کے استعمال میں دگنا اضافہ ہوا جب کہ چین میں 79 اور پاکستان میں 65 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔تحقیق کے لیے 76 ممالک سے اعداوشمار جمع کیے گئے۔ نتائج میں بتایا گیا کہ 2000 سے 2015 کے دوران اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال بڑھا، ترقی یافتہ یا مالدار ملکوں کے مقابلے میں غریب اور ترقی پذیر ممالک نے ان کا زیادہ استعمال کیا۔تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی امریکی ریاست بالٹی مور کی جان ہوپکنز یونیورسٹی اور دی سینٹر فار ڈیزیز ڈائنامکس، اکنامکس اینڈ پالیسی کے سائنسدانوں نے کی۔سائنسدانوں نے کہا کہ تمام متاثرہ ممالک کو اینٹی بائیوٹکس کے متبادل علاج، صاف ستھرے ماحول اور ویکسین کے لیے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ایک ریسرچ کے مطابق اینٹی بائیوٹک کا غیر ضروری استعمال خاص طور پر خواتین کے لیے ہارٹ اٹیک اور فالج کا سبب بن سکتاہے ۔

سکیورٹی خطرا ت ،پولیو ٹیمز پر حملے، ملک بھر میں انسدادِ پولیو مہم معطل

لاہور(این ٹی ایس رپورٹ) سیکیورٹی کو لاحق سنگین خطرات اور انسدادِ پولیو مہم کی ٹیمز پر حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر وفاقی حکومت نے ملک بھر میں پولیو مہم ’غیر معینہ مدت‘ تک کے لیے معطل کردی۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت نے بہتر معیار کو یقینی بنانے کے لیے مہم کے بعد لیے جانے والے جائزے (ایل اے کیو ایس) کو بھی معطل کردیا۔قومی ایمرجنسی آپریشن سینٹر (ای او سی) برائے پولیو اسلام آباد کی جانب سے جاری  بیان میں ملک بھر میں 2 لاکھ 70 ہزار پولیو رضاکاروں کو حملوں سے محفوظ رکھنے کیلئے تمام صوبوں کے لیے انتباہ جاری کردیا جس میں انہیں انسدادِ پولیو مہم روک دینے کی ہدایت کی گئی۔ای او سی کی جانب سے جاری انتباہی بیان کے مطابق ’پشاور میں پیش آنے والے واقعے کے بعد پولیو مہم میں حصہ لینے والے کارکنان کے لیے غیر یقینی اور خوفزدہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور ہمیں اس پروگرام کو مزید نقصان سے بچانے کی ضرورت ہے‘۔بیان میں مزید کہا گیا کہ قومی تکنیکی ٹیم اور عالمی انسدادِ پولیو مہم (ایس پی ای آئی) کے شراکت داروں نے متفقہ طور پر فوری طور پر اپریل میں جاری قومی مہم کے اختتامی روز کی سرگرمیاں معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔مراسلے میں مزید کہا گیا کہ ’اب مزید کسی بھی علاقے میں کوئی ویکسینیشن یا اس قسم کی سرگرمی نہیں کی جائے گی‘۔اس ضمن میں ایک عہدیدار نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت نئی طریقہ کار کے تحت ایل کیو اے ایس کا استعمال کر رہا ہے تا کہ اعداد و شمار کے ذریعے انسدادِ پولیو مہم کے پھیلاؤ کی حیثیت اور کمزویوں کی نشاندہی کی جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پولیو ٹیمز پر ہونے والے حملوں کے باعث انسدادِ پولیو مہم کو سخت دھچکا لگا ہے جس کے باعث وفاقی حکومت ایل کیو اے ایس کی تمام سرگرمیاں بھی روکنے پر مجبور ہوگئی۔عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ پشاور واقعے میں مشتعل ہجوم کی جانب سے مرکز صحت کو نذرِ آتش کرنے اور چمن میں ایک خاتون رضاکار کے قتل کے ساتھ ساتھ سندھ، پنجاب، بلوچستان میں حالیہ دنوں میں عملے پر ہونے والے حملوں کے بعد کارروائی کی گئی ہے۔ مراسلے میں مزید کہا گیا کہ ’اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ قومی ای او سی ملک بھر میں کہیں بھی مہم کے بعد لیے جانے والے جائزہ (ایل کیو اے ایس) منعقد نہیں کرے گی۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ ای او سی نے یہ اقدام سیکیورٹی خطرات اور پولیو رضاکاروں پر حملوں کے بعد ملک بھر میں 4 کروڑ بچوں کی ویکسینیشن کے ہدف میں بری طرح ناکامی کے خوف میں اٹھایا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ 22 اپریل کو شروع ہونے والی 4 روزہ مہم کے دوران صرف پنجاب میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ 7 لاکھ بچے پولیو کے قطرے سے محروم رہے یا ان کے اہلِ خانہ نے ویکسینیشن کروانے سے انکار کردیا جس سے بچوں کو عمر بھر کے لیے معذور کردینے والی یہ بیماری لگنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ 

شمالی وزیرستان میں لیویز چیک پوسٹ پر دھماکہ‘ 3 اہلکار شہید،ایک زخمی

 بارودی مواد چیک پوسٹ کیساتھ نصب تھا،اہلکار جیسے ہی پوسٹ پر پہنچے دھماکہ ہو گیا …دہشتگرد مذموم حملوں سے حوصلے پست نہیں کر سکتے، وزیر اعلی کی دھماکے کی مذمت 

شمالی وزیرستان(این ٹی ایس رپورٹ) شمالی وزیرستان کی تحصیل شیواہ میں لیویز چیک پوسٹ پر دھماکے سے 3 لیویز اہلکار شہید جبکہ ایک زخمی ہو گیا ۔ تفصیلات کے مطابق ہفتہ کے روز شمالی وزیرستان کی تحصیل شیواہ میں جونہی لیویز اہلکار چیک پوسٹ پر پہنچے تو چیک پوسٹ کے قریب نصب بارودی مواد کے دھماکے کے نتیجے میں 3 لیویز اہلکار شہید اور ایک زخمی ہو گیا ۔ دھماکا ملک شاہی کے علاقے رغزئی میں ہوا۔ بارودی مواد چیک پوسٹ کے ساتھ نصب کیا گیا تھا۔ دھماکے سے شہید ہونے والے اہلکاروں میں امیر زمان اور عبدالولی شامل ہیں ۔ شہید اور زخمی اہلکار مقامی ہیں۔وزیر اعلی خیبرپختونخوا محمود خان نے شمالی وزیرستان میں دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگردی کی ناسور کا صفایا کر کے دم لیں گے ۔ دہشت گرد ایسے حملوں سے ہمارا حوصلہ پست نہیں کر سکتے کیونکہ کوئی بھی مذہب معصوم بے گناہ لوگوں پر حملے کی اجازت نہین دیتا ہے ۔ محمود خان نے کہا کہ شہید اہلکاروں کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔

راجن پور: دو قبیلوں کے درمیان فائرنگ تبادلہ ،6 افراد جاں بحق ،7شدید زخمی

 راجن پور (این ٹی ایس رپورٹ)تحصیل روجھان کچہ کے علاقے میں دو قبیلوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں 6 افراد جاں بحق ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کچہ کے علاقے میں دو قبیلوں کے مابین مسلح تصادم میں 6 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔پولیس کے مطابق دونوں قبیلوں کے درمیان موٹرسائیکل کے تنازعے پر تلخ کلامی ہوئی جو پہلے ہاتھا پائی اور پھر فائرنگ میں تبدیل ہوگئی جس سے موقع پر ہی 2 افراد جاں بحق اور 7 افراد شدید زخمی ہوگئے، زخمیوں اور لاشوں کو اسپتال پہنچایا گیا جہاں قتل ہونے والے افراد کی شناخت شہباز اور کریم کے ناموں سے ہوئی۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ فائرنگ کا تبادلہ تاحال جاری ہے، پولیس کی بھاری نفری بھی موقع پر پہنچ گئی ہے تاہم حالات پر قابو نہیں پایا جاسکا جب کہ دوسری جانب زخمی ہونے والے مزید 4 افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے ہیں اور فائرنگ کے تبادلے میں اب تک جاں بحق ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد 6 ہوگئی ہے۔

تنقیصی رویوں سے کیسے نمٹیں

راشد شفیق

آپ اپنے کسی دوست یا عزیز کو اپنی گاڑی میں لفٹ دیتے ہیں اور وہ اترتے وقت آپ سے کہتا ہے، یار تم اپنی گاڑی تبدیل کیوں نہیں کرلیتے کب تک اس کٹھارا سی گاڑی کو لے کر گھومتے رہو گے میرا تو دم گھٹ کر رہ گیا۔ آپ سوچیں اس لمحہ آپ پر کیا بیتتی ہے، اکثر کا تو دل کرے گا کہ اس سے دوبارہ کبھی ملاقات نہ ہو۔ اسی طرح آپ اپنے چند کولیگز کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک آپ کو مشورے دینے لگتا ہے کہ تم یہ صوفہ سیٹ تبدیل کر لو یا پھر کہتا ہے کہ یہ پردے کتنے پرانے ڈیزائن کہ ہیں اس سے بہتر اور نئے ڈیزائن کے پردے مارکیٹ میں موجود ہیں تمہیں وہ خریدنے چاہیے۔ آپ کا دل چاہے گا کہ اسے گھر سے باہر نکال دیں۔ اس قسم کے لوگ ناقدانہ رویوں کے مالک ہیں یہ اچھی صفت ہے لیکن یہ لوگ اس کا استعمال غلط وقت اور نامناسب جگہوں پر کرتے ہیں۔ 
یہ تنقید نہیں بلکہ تنقیص کرتے ہیں کیونکہ جب آپ کسی چیز کا تنقیدی جائزہ کرتے ہیں تو آپ اس چیز کی خوبیاں اور خامیاں دونوں کا عدل پر مبنی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ میں آپ کو یہ نہیں بتانا چاہتا ہے کہ ایسے لوگوں کا علاج کیسے کرنا چاہیے یا وہ کس طرح اپنی اصلاح کرسکتے ہیں۔ میرے لکھنے کا مقصد یہ ہے اگر آپ کا ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے تو آپ کو کیا کرنا چاہیے اور ان کے تنقیصی رویے سے آپ کیسے اپنے آپ کو بچائیں۔ ایسے لوگوں سے روابط ختم کرنے کے بجائے ان سے نمٹنے کے لیے آپ کو حکمت اور دانائی کا سہارا لینا چاہیے کیونکہ مشہور قول ہے کہ ”دوست گنوانے اور دشمن بنانے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے“۔ پچھلے دنوں ایک دوست ندیم اعوان، جن کا تعلق شعبہ صحافت سے ہے اور ایک جریدے کے ایڈیٹر بھی رہے لیکن سوشل میڈیا سے دور رہے، اب وی لاگ بناتے ہیں اور ان کا یوٹیوب چینل بہت تیزی سے مقبول ہورہا ہے، ان کی ویڈیوز پر کسی نے کمنٹس کیے کہ ”آپ کی وڈیوز کی کوالٹی اچھی نہیں اور آواز کا رزلٹ بھی خراب ہے“۔ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ وہ موبائل سے وڈیو بناتے ہیں اگر آپ کیمرہ اور مائیک گفٹ کر دیں تو یہ دونوں خامیاں دور ہو سکتی ہیں۔
 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ نبی کریمﷺ سے ایک شخص نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اسے اندر بلا لو، یہ اپنی قوم کا بہت ہی برا آدمی ہے، جب وہ شخص اندر آیا تو آنحضرتﷺ نے اس کے ساتھ نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی۔ مں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! آپ نے ابھی اس کے متعلق کا فرمایا تھا اور پھر اتنی نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ اللہ کے نزدیک وہ شخص سب سے برا ہے جسے لوگ اس کے شر کی وجہ سے چھوڑدیں۔ (صحیح بخاری:6131) اسی طرح اگر آپ کو علم ہے کہ ایسا شخص آپ کی کسی چیز کی تنقیص کرنے والا ہے تو آپ گفتگو کا رخ پھیر دیں، یا اس سے مشورہ کرنا شروع کردیں کہ آپ اپنا پرانا موبائل بدلنا چاہتے ہیں، مارکیٹ میں کونسا موبائل زیادہ مقبول ہے؟ اب وہ آپ کے موبائل کے نقص بتانے کے بجائے آپ کو مارکیٹ میں موجود موبائلز کی خصوصیات گنوانا شروع کردے گا۔ احمد صاحب دسمبر کے مہینے میں ٹنڈ کروا بیٹھے، اب وہ جس سے بھی ملتے وہ مضحکہ خیز جملے کستے ہوئے پوچھتا یہ کونسا موسم ہے گنج کروانے کا اور احمد صاحب اپنے عذر پیش کرنا شروع کردیتے۔ 
وہ ان رویوں سے تنگ آگئے تھے، ہوٹل پر بیٹھے اپنے ایک دوست کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا تو خیال آیا کہ سب سے پہلے میری ٹنڈ کا تذکرہ ہوگا۔ دوست جیسے ہی قریب ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی بات کرتا احمد صاحب نے سوال داغ دیا، بھائی دسمبر شروع ہوگیا ہے تم نے ابھی تک ٹنڈ نہیں کروائی؟ اب وہ اپنا دفاع کرتے ہوئے بولا، یار دسمبر میں کون ٹنڈ کرواتا ہے؟ ”بہت لوگ کرواتے ہیں، میں نے بھی کروائی ہے“، احمد صاحب نے جواب دیا۔ احمد صاحب کی حکمت کام آگئی وہ اپنے دوست پر سوال کستے رہے اور وہ اپنا دفاع کرتا رہا۔ انگریز سے ٹیبل ٹرن پالیسی کا نام دیتا ہے کہ اگر آپ کسی کو اس کی جگہ سے نہیں ہٹا سکتے تواسے اپنے میدان میں لے آئیں۔ آپ بھی اگر ایسے لوگوں کو تبدیل نہیں کرسکتے تو تعلقات ختم کرنے کے بجائے ان سے نمٹنے کے لیے حکمت و دانائی سے کام لیں اور ان سے روابط قائم رکھیں۔

بات کچھ کیمرے کی

تحریر: علی عبداللہ
دستین سپارکس کے بقول، 
Photography is the story I fail to put into words.

اک دور تھا جب لوگ اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار لفظوں کو تحریر کی صورت میں پیش کر کے کرتے تھے۔ الفاظ کے بل بوتے پر کئی نامور لکھاریوں نے قارئین کے بحر جذبات میں طلاطم پیدا کیا یہاں تک کہ بعض لکھاری اپنے فن تحریر کی بنیاد پر ہر زمانے میں زندہ رہ گئے۔ لیکن اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ابتدا سے ہی انسان الفاظ کی بجائے نقش و نگار اور تصویروں کی صورت اپنی سوچ اور خیال کو آنے والوں تک پہنچاتا رہا ہے۔ پتھروں پر نقش کئی صورتیں آج ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی حضرت انسان کو تجسس میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ قدرت بھی انسان کو کائنات کے مشاہدے کی دعوت دیتی ہے تاکہ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھے، غور کرے اور بے ساختہ کہہ سکے ”فتبارک اللہ احسن الخالقین“۔
بلاشبہ ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے لیکن جیسے بے دلی سے لکھے گئے الفاظ روح سے خالی ہوتے ہیں، اسی طرح تصویر بنانے والا اگر تصویری آلے یعنی کیمرے پر گرفت نہ رکھتا ہو اور اسے سمجھے بغیر ہی تصویر بنائے تو وہ بھی بے اثر رہ جاتی ہے۔ گزشتہ تحریر میں موبیوگرافی پر بات ہوئی تھی اور آج ہم پروفیشنل کیمرے یعنی DSLR کی بات کریں گے۔ بہت سے لوگ موبائل کیمرے کے علاوہ عام روز مرہ فوٹوگرافی کے لیے بھی پروفیشنل کیمرے خریدتے ہیں اور مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ ضرورت کم اور فیشن زیادہ بن چکا ہے۔ اس تحریر میں پروفیشنل کیمرے کے استعمال، کیمرہ لینز اور فوٹوگرافی کی چند بنیادی اصطلاحات اور طریقہ کار پر بات ہو گی۔ ڈیجیٹل سنگل لینز ریفلکس کیمرہ یعنی DSLR کیمرہ عام ڈیجیٹل کیمروں کی نسبت نہایت اعلی اور پر کشش تصاویر لینے کی صلاحیت رکھتا ہے چونکہ موبائل کی نسبت اس کے لینز کافی بڑے اور زیادہ روشنی حاصل کرنے کے حامل ہوتے ہیں۔
 لہذا ان کے کلر اور کوالٹی بھی نہایت بہترین ہوتی ہے۔ پروفیشنل کیمرہ لینے کی جب بات ہوتی ہے تو سب سے زیادہ سوال کیمرہ کمپنی کے بارے میں کیے جاتے ہیں۔ کینن یا نائکون؟ اکثر لوگ اسی کشمکش میں پھنسے رہ جاتے ہیں۔ بلاشبہ دونوں کمپنیاں بہترین کوالٹی کے کیمرے مارکیٹ میں متعارف کروا رہی ہیں، لہذا ان کے بارے حرف آخر کہنا ممکن نہیں۔ ہاں البتہ کینن کے کلر اور اس کی ویڈیو کوالٹی نائکون سے قدرے بہتر ہونے کی بنا پر اکثر پروفیشنل فوٹو گرافر اور مشہور یوٹیوبر اسی کمپنی کے کیمرے استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نائکون لینے کا مطلب پیسہ ضائع کرنا ہے بلکہ نائکون بھی ایک بہترین انتخاب ہو سکتاہے۔ اس سلسلے میں نئے کیمرہ لینے والے حضرات کینن یا نائکون کے سستے ماڈل کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ 
کیمرہ لینے کے بعد دوسری کشمکش لینز کے بارے میں ہوتی ہے کہ کونسا لینز خریدا جائے۔ جب آپ کینن یا نائکون کا کیمرہ خریدتے ہیں تو ساتھ ایک عدد لینز بھی موجود ہوتا ہے جسے کٹ لینز کہا جاتا ہے۔ یہ عموماً mm18-55 کا ہوتا ہے۔ اگر آپ پہلی دفعہ کیمرہ خرید رہے ہیں تو کیمرے کو سمجھنے کے لیے اسی لینز پر گزارہ کرنا بہتر ہوگا۔ اس لینز کے ذریعے آپ کیمرے کے مختلف موڈز استعمال کرتے ہوئے کافی بہتر تصاویر حاصل کر سکتے ہیں اور کیمرے کے مینول موڈ کو اچھی طرح پریکٹس بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد نئے لینز لینے سے پہلے آپ کو اپنی ضرورت کی جانب دیکھنا ہو گا کہ کس مقصد کے تحت آپ لینز لینا چاہ رہے ہیں۔ پورٹریٹ، لینڈ سکیپ، سپورٹس وغیرہ کی فوٹوگرافی کے لیے مختلف لینز استعمال ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے لینز کا سوچ سمجھ کر انتخاب کرنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ اکثر لینز مہنگے ہوتے ہیں اور انہیں خریدنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ یہ ہماری ضرورت پوری نہیں کر پا رہے۔
 اس سلسلے میں چند ایسے لینز کا ذکر کیا جا رہا ہے جو مختلف موقعوں کے حساب سے مناسب رہتے ہیں۔ اگر آپ پورٹریٹ بناتے ہیں یعنی کسی فنکشن یا شادی میں تو وہاں عموماً پورٹریٹ بنائے جانے کا رواج ہوتا ہے۔ بیک گراو ¿ند بلر کرنا اور سبجیکٹ کو زیادہ سے زیادہ واضح کرنا مقصد ہوتا ہے۔ اس کے لیے سب سے سستا اور بہترین لینز کینن کا 50mm ایک دانشمندانہ انتخاب ہے۔ یہ لینز سستا اور کوالٹی میں اعلی ہونے کی بنا پر مشہور و معروف ہے۔ یہ تقریباً 12000 پاکستانی روپے میں دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ اگر بجٹ زیادہ ہو تو سگما 30mm بھی ایک بہترین انتخاب ہے۔ یہ دونوں لینز شادی کی تقریبات اور عام جنرل فوٹو گرافی کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد اگر آپ اپنے علاقے کی خوبصورتی واضح کرنا چاہتے ہوں یا قدرتی مناظر قید کرنا چاہتے ہوں اس کے لیے وائیڈ اینگل لینز کا انتخاب کرنا ہو گا۔ کینن کا سستا وائڈاینگل لینز 24mm کا ایک مناسب چوائس ہے لیکن اگر مزید پروفیشنل کوالٹی درکار ہو تو پھر سگما 18-35 mm لینز خریدا جا سکتا ہے جو کہ مہنگا ہے۔ اس کے علاوہ سستے زوم لینز میں کینن کا mm 75-300 کا ٹیلی فوٹو لینز بھی کافی اچھا رزلٹ دے سکتا ہے۔
اکثر لوگ DSLR کیمرہ خرید تو لیتے ہیں لیکن عرصہ دراز تک وہ اسے آٹو موڈ پر ہی استعمال کرتے ہیں جس سے انہیں اکثر و بیشتر کچھ کمی کا احساس رہتا ہے۔ دراصل ان کیمروں کی خاص بات ان کا مینول موڈ پر ہونا ہے۔ مینول موڈ سے آپ اپنے کیمرے کو خود اپنی مرضی سے کنٹرول کر کے من چاہے نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن مینول موڈ کے لیے آپ کو شٹر سپیڈ، اپرچر اور آئی ایس او پر کافی مہارت حاصل کرنا ہو گی جو کہ مسلسل مشق سے ہی ممکن ہے۔ ایک اور اہم فنکشن جسے عموماً نئے لوگ استعمال نہیں کرتے وہ ہے شٹر پیرورٹی موڈ اور اپرچر پیرورٹی موڈ۔ یہ نہ فل آٹو موڈ ہیں نہ ہی فل مینول بلکہ شٹر پیرورٹی موڈ پر آپ شٹرکی سپیڈ کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور اپرچر پیرورٹی پرآپ کیمرہ اپرچر کو کنٹرول کریں گے باقی سیٹنگ کیمرہ خود کرے گا۔ بہتر ہے آپ انہی دو موڈز پر فوٹوگرافی کریں۔ اس سے آپ کم وقت میں زیادہ بہترین انداز میں اپنے فوٹوگرافی سکلز بڑھا سکیں گے۔ کیونکہ بعض اوقات کسی منظر کو فوری قید کرنا ہوتا ہے تو مینول سیٹنگز کے دوران ہی وہ منظر ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اگر آپ ان دونوں موڈز پرکام کر رہے ہوں تو باآسانی فوری شوٹ لے سکتے ہیں۔ 
شٹر سپیڈ سے مراد کیمرے کے اندر موجود شٹر کی رفتار ہے یعنی یہ کیمرہ سینسر میں روشنی کی مدت کا تعین کرتا ہے کہ کتنے وقت تک روشنی کیمرہ سینسر پر رہے گی۔ شٹرسپیڈ کم ہو گی تو روشنی زیادہ کیمرہ سینسر تک جائے گی اور اگر شٹرسپیڈ زیادہ ہو گی تو روشنی کم سے کم کیمرہ سینسر تک پہنچے گی۔ کم شٹر سپیڈ رات کے وقت اور کم روشنی میں فوٹو بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ جبکہ شٹرسپیڈ اگر زیادہ ہو تو وہ تیز حرکت کرتے ہوئے اجسام کو کیپچر کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اپرچر لینز کے اندر موجود سوراخ ہوتا ہے جس میں سے روشنی کیمرے تک سفر کرتی ہے۔ اپرچر جتنا کھلے گا اتنی زیادہ روشنی کیمرہ سینسر میں داخل ہو گی۔ اپرچر کو فوکل ریشو بھی کہا جاتا ہے اور اسے f سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ آئی ایس او بنیادی طور پر آپ کی تصاویر کو روشن کرتا ہے۔ لیکن آئی ایس او زیادہ بڑھانے سے تصویر بلر اور کوالٹی خراب ہو جاتی ہے کیونکہ یہ سافٹ وئیر پروسیسنگ سے تصویر کو برائٹ کرتا ہے۔
اگر آپ سیکنڈ ہینڈ لینز لے رہے ہوں تو اسے مکمل چیک کر لیجیے کہ ان میں کسی قسم کی گرد یا مٹی موجود نہ ہو اور نہ ہی ان کے شیشوں پر سکریچ یا دھبے ہوں۔ کیمرہ کوشش کیجیے سیکنڈ ہینڈ کے بجائے نیا لیں۔ لیکن اگر آپ استعمال شدہ خرید رہے ہوں تو اس کی بیرونی حالت لازمی چیک کیجیے اور اس کے بٹن چیک کرنا نہ بھولیے۔ اچھا کیمرہ اچھی فوٹو گرافی کا ضامن نہیں ہوتا جب تک اس پر بار بار مشق نہ کی جائے۔ لہذا اگرآپ نے DSLR کیمرہ خرید لیا ہے تو روزانہ کی بنیاد پر مشق کیجیے اور کوشش کریں کہ مینول موڈ یا پیرورٹی موڈز پر رہتے ہوئے ہی فوٹو گرافی کریں۔

شادی کے بعد دنیا کی دوسری عورتیں خوبصورت کیوں لگتی ہیں


ایک شخص ایک تجربہ کار عالم دین سے اپنا مسئلہ دریافت کرتے ہوئے کہنے لگا:
شروع شروع میں جب میری بیوی مجھے پسند آئی تھی تو اس وقت وہ میری نگاہ میں ایسی تھی جیسے اللہ تعالی نے اس دنیا کے اندر اس جیسا کسی کو بنایا ہی نہیں۔

اور جب میں نے اسے شادی کا پیغام دیا تو اس وقت میری نگاہ میں اس جیسی کئی ساری لڑکیاں تھیں۔

پھر جب میں نے اس سے شادی کر لی تو اس وقت اس سے زیادہ خوبصورت خوبصورت کئی لڑکیاں میری نظر سے گزریں۔ 

شادی کے چند سال گزرنے کے بعد مجھے ایسا لگنے لگا کہ دنیا کی تمام عورتیں میری بیوی سے زیادہ خوبصورت ہیں۔

شیخ نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب چیز نہ بتاؤں؟ 
اس آدمی نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں!
حضرت نے کہا:  اگر تم دنیا کی ساری  عورتوں سے  شادی کر لو پھر بھی تمہیں ایسا لگے گا  کہ گلی کوچوں میں پھرنے والے آوارہ کتے دنیا کی تمام عورتوں سے زیادہ  خوبصورت ہیں۔ 

آدمی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا: حضرت! آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟ 
حضرت نے جواب دیا: اصل پریشانی تمہاری بیوی میں نہیں بلکہ اصل پریشانی یہ ہے کہ جب انسان  کا دل لالچی ہو جائے، اس کی نگاہیں ادھر ادھر بھٹکنے لگیں اور انسان شرم و حیا سے عاری ہو جائے تو قبر کی مٹی کے سوا اور کوئی بھی چیز اس کی آنکھوں کو نہیں بھر سکتی۔

سنو! تمہاری پریشانی یہ ہے کہ تم نگاہیں نیچے نہیں رکھ سکتے۔
کیا تم اپنی بیوی کو دوبارہ دنیا کی سب سے زیادہ خوبصورت عورت بنانا چاہتے ہو؟  
اس آدمی نے جواب دیا: جی ہاں!
حضرت نے کہا: پھر تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو۔

دوستو...!!!چلتے، چلتے ہمیشہ کی طرح وہ ہی ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کہ اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ، کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سی زحمت فرما کر اپنے دوستوں اور عزیزوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریراور لوگوں کے لیئے سبق آموز ثابت ہو ....! 

جزاک اللہ خیرا کثیرا۔

Friday, April 26, 2019

گونگے افراد کو آواز دینا اب آسان

سان فرانسسكو: کسی حادثے، دماغی چوٹ، اعصابی خرابی اور دیگر عوارض سے قوتِ سماعت کھودینے والے افراد کے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری یہ ہے کہ اب دماغی سگنل کو پڑھنے والا ایک ایسا دستی سسٹم بنالیا گیا ہے جس کی بدولت وہ لوگوں تک اپنی بات پہنچاسکیں گے۔
اس آلے کو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو کے پروفیسر ایڈورڈ ایف چینگ اور ان کے ساتھیوں نے تیارکیا ہے جس کی تفصیلات ہفت روزہ سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہیں۔ وہ کہتےہیں کہ ہمیں اس کی قدر نہیں کہ ہم کتنی آسانی سے بات کرپاتے ہیں اور ان سے پوچھئے جو اپنا مدعا بیان کرنے سے قاصر ہیں اور اپنی بات سنانے کو تڑپتے رہتے ہیں۔
’مجھے امید ہے کہ یہ ایجاد ایسے لوگوں کی آواز بنے گی جن کے اعضا اور پٹھے الفاظ ادا کرتے ہوئے حرکت کی نقل کرتے ہیں،‘ ڈاکٹر ایڈورڈ چینگ نے بتایا۔ اس نظام میں برقیروں (الیکٹروڈ) کے ایک چھوٹے سے مجموعے کو کھوپڑی پر لگایا جاتا ہے اور بولنے والا آواز نہ آنے کے باوجود اپنے منہ کے عضلات اور ہونٹوں کو ہلاتا ہے۔ اس حرکت کو دماغ نوٹ کرکے ایک پروسیسر کو بھیجتا ہے اور یوں مشین سے الفاظ ادا ہوتے ہیں۔
پہلے تجربے میں پانچ افراد کو یہ آلہ لگایا گیا جنہوں نے بہت کامیابی سے 150 الفاظ فی منٹ اداکئے جو کہ اس قسم کے نظاموں کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں ہونٹوں اور منہ کے عضلات کے علاقہ حلق، زبان ، جبڑوں اور بولنے میں ضروری حرکتوں کو بھی نوٹ کیا جاتا ہے اور ان کی حرکات کو پروسیس کرکے مشین سے مصنوعی آواز آتی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی اس وقت تک کام کرتی رہتی ہے جب تک مریض بولنے کے عمل کی حرکات اپنے منہ سے انجام دیتا رہتا ہے۔ سگنل سے آواز خارج کرنے کا نظام عین اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح اسٹیفن ہاکنگ کی وھیل چیئر پر موجود کمپیوٹر سے کیا جاتا تھا لیکن وہ مشکل سے ایک منٹ میں دس الفاظ ادا کرپاتا تھا۔
جن مریضوں نے اسے آزمایا ہے وہ سب مرگی کے مریض تھے لیکن وہ درست انداز میں وہ تمام پٹھے اور عضلات کو حرکت دے پارہے تھے جوگفتگو میں استعمال ہوتے ہیں۔ مریضوں سے مکمل جملے کہلوائے گئے اور اس دوران دماغی سگنلوں سے مصنوعی آواز آتی رہی۔ اس کے بعد صرف ہونٹ ہلائے گئے اور اس سے کمپیوٹر پروگرام کی ٹریننگ کی گئی۔ اس طرح کمپیوٹر پروگرام تیزی سے سیکھنے لگا۔
اگرچہ ایسے کئی نظام پہلے بھی بنائے گئے ہیں لیکن اول ان کی رفتار بہت سست ہے تو دوم ان میں غلطی کا احتمال بھی ہوتا ہے۔


پاکستان پر امن اور خوشحال دنیا کے ویژن کو کامیاب بنانے کے لئے اپنا کردار جاری رکھے گا،

بین الاقوامی تعاون کیلئے دوسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے خطاب باعث اعزاز ہے، ایک سڑک اور ایک خطے کا نظریہ حقیقت میں بدل رہا ہے، 
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ بی آر آئی کا ایک بڑا جزو ہے،گوادر تیزی سے تجارتی مرکز بنتا جا رہا ہے، 
چین کے ساتھ پاکستان کی شراکت داری اور بھائی چارے کا رشتہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہے، 
پاکستان میں قومی سطح پر 10 ارب درخت لگانے کے منصوبے کا آغاز کیا ہے
 وزیر اعظم عمران خان کا بیجنگ میں دوسری بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے خطاب

بیجنگ ۔ 26 اپریل (این ٹی ایس رپورٹ) وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان پر امن اور خوشحال دنیا کے ویژن کو کامیاب بنانے کے لئے اپنا کردار جاری رکھے گا، بین الاقوامی تعاون کیلئے دوسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے خطاب باعث اعزاز ہے، ایک سڑک اور ایک خطے کا نظریہ حقیقت میں بدل رہا ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ بی آر آئی کا ایک بڑا جزو ہے،گوادر تیزی سے تجارتی مرکز بنتا جا رہا ہے، چین کے ساتھ پاکستان کی شراکت داری اور بھائی چارے کا رشتہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہے، پاکستان میں قومی سطح پر 10 ارب درخت لگانے کے منصوبے کا آغاز کیا ہے،عالمی شراکت داری کے فروغ کے حوالے سے اہم ایونٹ کے انعقاد پر چین کے صدر ژی جن پنگ اور عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، فورم میں شراکت داروں اور دوستوں کی شرکت سے بیلٹ اینڈ روڈ (بی آر آئی) ویژن کیلئے مستقبل کاایجنڈا تشکیل دینے میں مدد ملے گی۔ جمعہ کو بیجنگ میں دوسری بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جغرافیائی وسیاسی غیر یقینی کی عالمی صورتحال، عدم مساوات میں اضافہ اور تجارتی رکاوٹوں کے خاتمہ کے لئے بی آر آئی بین الاقوامی تعاون، شراکت داری، رابطوں کے فروغ اور مشترکہ خوشحالی کا بہترین ماڈل پیش کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی آر آئی سے گلوبلائزیشن کی موجودہ صورتحال میں دنیا کی اقوام کو ترقی کے حوالے سے ایک نئے اور اہم مرحلہ کے لئے مواقع دستیاب ہوں گے۔ فورم میں بین الاقوامی رہنمائوں کی کثیر تعداد میں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے نا امیدی کی بجائے امید اور اختلافات پر قابو پانے کیلئے باہمی تعاون کا انتخاب کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ بی آر آئی کے ویژن کے تحت تاریخی ترقی کے نظریہ پر 122 ممالک اور 49 بین الاقوامی اداروں نے دستخط کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بی آر آئی میں شرکت دار ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے اور ہم چین کے ساتھ عالمی ترقی اور خوشحالی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے بنیادی شراکت دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بی آر آئی کی ابتداء سے ہی منصوبہ میں شامل ہے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) بی آر آئی کا ایک بڑا جزو ہے اور اس ویژن کے تحت شروع کیا جانے والا پہلا منصوبہ ہے جو بھرپور ترقی کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں توانائی کی فراہمی میں جامع اضافہ ہوا ہے جبکہ ہم نے بنیادی ڈھانچے کی خامیوں پر کامیابی سے قابو پایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادر جو کبھی ایک چھوٹا سا مچھیروں کا گائوں ہوتا تھا تیزی سے تجارتی مرکز بنتا جا رہا ہے اور گوادر میں تعمیر ہونے والا ایئرپورٹ ملک کا سب سے بڑا ایئرپورٹ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین مل کر سی پیک کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں جس میں سماجی و اقتصادی ترقی، غربت کے خاتمے ، زرعی تعاون اور صنعتی ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم تعلیم، نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں بھی باہمی رابطوں کے فروغ سے پاک چین شراکت داری کو وسعت دے رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ سی پیک کے ساتھ ساتھ خصوصی اقتصادی زونز قائم کئے گئے ہیں جہاں پر پاکستانی، چینی اور بین الاقوامی اداروں کو سرمایہ کاری کے مواقع پیش کئے جا رہے ہیں۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم چین کے ساتھ پاک چین آزادانہ تجارت میں مزید اضافہ کے لئے معاہدہ کررہے ہیں۔ وزیر اعظم نے چین اور اس کی قیادت کی جانب سے پاکستان کی بھرپور معاونت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری دوستی لازوال اور پرانی ہے جبکہ چین کے ساتھ پاکستان کی شراکت داری اور بھائی چارے کا رشتہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہے جو ہر مشکل کی گھڑی میں پورا اترا ہے۔ بی آر ایف سے خطاب کے موقع کو اہم قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے فورم کے شرکاء کو دعوت دی کہ وہ پاکستان میں آزادانہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے ماحول سے استفادہ کریں اور ہماری معیشت میں شراکت دار بنیں۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری کو پاکستان کے بنیادی ڈھانچے، ریلویز، ڈیموں کی تعمیر، آئی ٹی اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی خصوصی دعوت دی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایک سڑک اور ایک خطے کا نظریہ مزید مستحکم ہو رہا ہے۔ انہوں نے کانفرنس کے شرکاء کو عالمی سطح پر عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کی دعوت دی اور کہا کہ اس سے ہم پائیدار معاشی ترقی کے مطلوبہ اہداف کے حصول کی جانب کامیابی سے سفر کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کے صدر ژی جن پنگ نے اپنے خطاب میں کچھ چیزوں کا ذکر کیا ہے جبکہ میں بھی اس حوالے سے چند ترجیحات پیش کرنا چاہتاہوں جن میں سے سب سے پہلی ترجیح موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کو کم کرنے کے حوالے سے مشترکہ منصوبے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے صوبہ خیبرپختونخوا میں گزشتہ 5 سال کے دوران ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ کامیابی سے مکمل کیا ہے جبکہ چلی کے صدر نے بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اپنے خطاب میں خصوصی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان میں قومی سطح پر 10 ارب درخت لگانے کے منصوبے کا آغاز کیا ہے اور میں تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہمیں دنیا میں آئندہ 2 سال کے دوران 100 ارب درخت لگانے کے لئے مشترکہ منصوبے شروع کرنے چاہئیں تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ رکھتے ہوئے اس سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کر سکیں۔ وزیر اعظم نے کہاکہ ہمیں بی آر آئی کے تحت سیاحت پر خصوصی توجہ دینی ہوگی، پاکستان سیاحت کی ترقی و فروغ پر خصوصی توجہ دے رہا ہے تاکہ ہم عوام کے عوام سے رابطوں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ بین الثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دے سکیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری تیسری ترجیح بدعنوانی کے تدارک کے لئے باہمی تعاون ہونا چاہیے تاکہ ہم مل کر وائٹ کالر کرائمز پر قابو پاسکیں کیونکہ وائٹ کالر جرائم سے دنیا بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بد عنوانی کے تدارک اور وائٹ کالرز کرائم پر قابو پانے کے لئے جامع اقدامات کررہا ہے جس میں عالمی برادری کی شراکت داری سے مطلوبہ اہداف کے نتائج کو آسان بنایا جاس سکتا ہے۔ وزیراعظم نے چوتھی ترجیح کے بارے میں کہا کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ غربت کے خاتمہ کے لئے مل کر اقدامات کرے۔ پاکستان نے بھی ملک میں غربت کے خاتمے اور غذائی قلت پر قابو پانے کے لئے قومی سطح پر کاوشیں شروع کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہم نے حال ہی میں غربت کے خاتمہ کیلئے احساس پروگرام شروع کیا ہے جس کا مقصد چین کے ماڈل پر لوگوں کو غربت سے نکالنا ہے کیونکہ چین نے تین دہائیوں کے دوران اپنے 800 ملین افراد کو غربت سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان کی پانچویں ترجیح کے بارے میں وزیراعظم نے کہاکہ ہم تجارت میں مزید آسانیوں اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے جامع اقدامات کررہے ہیں تاکہ مختلف مشترکہ منصوبوں میں ہماری کاروباری برادری اور نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ چین کی شاندار تہذیب نے دنیا بھر کو شعور، باہمی عزت و احترام، برداشت اور استحکام دیا ہے۔ انہوں نے کہا چینی ثقافت سے بین الاقوامی سطح پر انسانیت کو کئی تحائف دیئے گئے اور اس کے علاوہ چین نے بڑی اہم اور نمایاں ایجادات متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ آرٹ اور کلچر سمیت بین الاقوامی سطح پر اتفاق کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک مشہور چینی مقولہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’سمندر اس لئے وسیع ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی دریا کو مسترد نہیں کرتا‘‘۔ وزیر اعظم نے کہاکہ پاکستان باہمی عزت اور مساوات کی بنیاد پر اپنا عمل جاری رکھے گااور چین سمیت بی آر آئی کے دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر ہم اپنے عوام کے بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کے لئے کام جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پر امن اور خوشحال دنیا کے ویژن کو کامیاب بنانے کے لئے اپنا کردار جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہاکہ ہم مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں تا کہ مستقبل میں امید اور خوشحالی کے خواب حقیقت کا روپ دیا جاسکے۔

بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے پاکستان میں توانائی بحران میں کمی آئی،عمران خان

 موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کیلئے مشترکہ کوششیں، سیاحت کا فروغ ، کرپشن اور وائٹ کالر کرائمز کے خلاف مشترکہ حکمت عملی، غربت کے خاتمے کے لیے فنڈز کا قیام اور تجارت و سرمایہ کاری کے لیے ماحول بہتر بنانے کی کوششیں ،وزیراعظم عمران خان کے پانچ نکات

بیجنگ(این ٹی ایس رپورٹ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے پاکستان میں توانائی بحران میں کمی آئی اور چین کے تعاون سے گوادر تیزی سے دنیا کا تجارتی مرکز بن رہا ہے،چین نے گزشتہ 30 برس میں تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کیں پاکستان غربت میں کمی کیلئے چین سے سیکھنا چاہتا ہے جس کیلئے چین کی حکومت کا بھرپور تعاون حاصل ہے، پاکستان افغانستان میں امن کیلئے کرداراداکررہا ہے بھارت سے الیکشن کے بعد مذاکرات شروع ہونے کی توقع ہے۔وزیراعظم عمران خان نے چین کے میگا منصوبے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے 5 نکات پیش کردیے،چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ’’بیلٹ اینڈ روڈ فورم‘‘ 2019' کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم نے اپنے پیش کردہ پانچ نکات میں کہا، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں، سیاحت کا فروغ ، کرپشن اور وائٹ کالر کرائمز کے خلاف مشترکہ حکمت عملی، غربت کے خاتمے کے لیے فنڈز کا قیام اور تجارت و سرمایہ کاری کے لیے ماحول بہتر بنانے کی کوششیں کی جائیں، پاکستان اور چین سی پیک کے اگلے فیز کی جانب بڑھ رہے ہیں جس میں اسپیشل اکنامک زونز کا قیام ہوگا، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے پاکستان میں توانائی بحران میں کمی ہوئی اور چین کے تعاون سے گوادر تیزی سے دنیا کا تجارتی مرکز بن رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبہ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اہم ہے اور پاکستان چین کی اس بڑی کاوش کا ابتدائی شراکت دار ہے پاکستان اور چین کے درمیان آزاد تجارت کا معاہدہ اہمیت کا حامل ہوگا ہم بنیادی ڈھانچے، ریلوے ، آئی ٹی اور توانائی میں چین کے ساتھ تعاون چاہتے ہیں اس کے ساتھ زراعت، صحت اور تعلیم میں تعاون کے بھی خواہاں ہیں، وزیراعظم نے بتایا کہ غربت کے خاتمے کے لیے پاکستان میں ’احساس‘ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے اور ماحول کی بہتری کے لیے دس ارب درخت لگانے کے منصوبے کا بھی آغاز ہوچکا ہے،عمران خان نے اس موقع پر شرکاء کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان وائٹ کالر جرائم کے خاتمے کے لیے بھر پور اقدامات کر رہا ہے کیونکہ وائٹ کالر کرائم ہی ترقیاتی کاموں کو برباد کرتا ہے، پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اقتصادی ترقی کے لیے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پْرکشش مواقع فراہم کر رہا ہے، دوسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے خطاب کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے کیونکہ فورم باہمی رابطوں اور شراکت داری کا اہم ذریعہ ہے اور پاکستان کی غیر مشروط حمایت پر چین کی قیادت کا شکرگزار ہوں، پْرامن اور ترقی یافتہ دنیا کے لیے ہماری کوششیں جاری ہیں اور اس مقصد کے لیے پاکستان خطے میں امن و استحکام کے لے بھر پور کوششیں کر رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاک چین دوستی کے حوالے سے ایسوسی ایشن کی کوششوں کا معترف ہوں، چین نے گزشتہ 30 برس میں تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کیں پاکستان غربت میں کمی کیلئے چین سے سیکھنا چاہتا ہے جس کیلئے چین کی حکومت کا بھرپور تعاون حاصل ہے، پاکستانی عوام جانتے ہیں چین نے ہرمشکل وقت میں مدد کی۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن کیلئے کرداراداکررہا ہے بھارت سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت سے الیکشن کے بعد مذاکرات شروع ہونے کی توقع ہے۔

غرور کا انجام

برائے بچے
تحریر: دِیا خان بلوچ، لاہور

ببلو نے ایک پیارا سا بلا پالا، جس کا نام اُس نے چینٹو رکھا۔ چینٹو بھی ببلو کی طرح گول مٹول ساسفید رنگ کا بلا تھا، جس کی آنکھیں سبز رنگ کی تھیں، گلے میں سبز رنگ کا پٹا اور ساتھ میں سیاہ موتیوں کی مالا۔ چینٹو، ببلو کے لاڈ پیار سے بہت بگڑ چکا تھا۔ اُسے اپنی سفید رنگت پر بہت ناز تھا جس کی وجہ سے وہ بہت مغرور ہوگیا تھا۔ ببلو ہر روز اُسے پارک لے کر جاتا اور وہاں اُس کے ساتھ خوب مزے سے کھیلتا۔ چینٹو کبھی تو ببلو سے ہار جاتا لیکن کبھی جیت جاتا۔ ببلو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے پارک میں بہت مشہور تھا،پارک میں موجود سب بچوں کی خواہش ہوتی کہ چینٹو اُن کے ساتھ کھیلے لیکن جب بھی کوئی بچہ چینٹو کے قریب آنے کی کوشش کرتا چینٹو غصے سے شور کرنے لگتا۔
ایک بار توچینٹو نے حد کر دی، پارک میں دوڑ کے دوران اُ س نے ایک چھوٹے بچے کو زور سے ٹکر ماری۔ ٹکر لگنے سے بچے کو چوٹ آئی، چینٹو تو ڈر کر ایک کونے میں چھپ گیا۔ پھرجیسے ہی اُسے ببلو آتا ہوا نظر آیا وہ فوراً اُس کے پاس پہنچ کر اُس کے ارد گرد گھومنے لگا۔ ببلو جانتا تھا کہ چینٹو کی وجہ سے بچے کو چوٹ آئی ہے لیکن وہ چینٹو کو سمجھانے کے بچائے اُسے جلدی سے گھر لے آیا۔
تھوڑ ا وقت اور گزرا تو سب بچوں نے چینٹو کو توجہ دینا کم کر د ی۔ اب کوئی بھی چینٹو کے پارک میں آنے کی خبر نہ لیتا۔ بچے اپنے کھیل میں مصروف رہتے۔ کچھ دنوں سے اُن کے پارک میں ایک نیا بچہ آرہا تھا جس کا نام عزیر تھا، وہ اپنے ساتھ روئی کے گالوں جیسا بلا لاتا۔ اس کا بلا بہت اچھا تھا اُس کا نام جمپی تھا۔ جب کوئی بھی بچہ اسے پیار کرنے اُس کے قریب آتا تو وہ آرام سے اس کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتا۔ اب تو کوئی بھی چینٹو کو اہمیت نہ دیتا ۔جس سے چینٹو اور بھی غصے کا اظہار کرتا۔ وہ بچوں کو ڈرانے کے لیے غرانے لگتا۔ بچے اب اُس سے ڈر نے لگے تھے جہاں چینٹو ہوتا وہاں کوئی بھی بچہ نہ جاتا۔
ایک بار ایسا ہوا کہ چینٹو کو سڑک پار کرنی تھی۔ ببلو نے چینٹو کو سمجھایا تھا کہ وہ اُ س کا انتظار کرے وہ تھوڑی دیرتک واپس آجائے گا، لیکن چینٹو ببلو کی بات کو بھلائے سڑک کی طرف آگیا۔ پہلے وہ مزے سے یہاں سے وہاں گھومتا رہا، تب تک ہری بتی جلتی رہی اور تیز رفتار گاڑیاں گزر رہی تھیں۔ چینٹو سرخ بتی کے جلنے کا انتظار کرنے لگا۔ چینٹو کو سڑک کے کنارے دیکھ کر کچھ بچے اُس کے پاس آئے اور اُ س کی مدد کرنے کی کوشش کی تو اُس نے بچوں کوپنجے مارنے لگا، بچے چیختے ہوئے دور بھاگ گئے۔بچوں کو ڈرا کراُسے بہت مزا آیا، اتنی دیر میں سرخ بتی بجھ چکی تھی اور سبز بتی پھر سے جلنے لگی تھی، لیکن چینٹو نے غور کیے بنا ہی سڑک پار کرنا شروع کر دی۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ سڑک کے درمیان کھڑا تھا، اُس کے آس پاس زور زور سے ہارن بجاتی گاڑیاں گزر رہی تھیں، شور سے گھبرا کر اُسے سمجھ ہی نہ آیا کہ وہ کیا کرے۔ وہ نہ تو آگے کی بڑھ رہا تھا اور نہ ہی واپس جا رہا تھا۔تب ہی ایک گاڑی نے اُسے ٹکر ماری اور وہ اُچھل کر سڑک کنارے جا گرا۔بیہوش ہونے سے پہلے اُس نے ببلو کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تھا۔
چینٹو کی دائیں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی، ببلو چینٹو کو ہسپتال سے گھر لے آیا۔ ببلو اب بہت اُداس رہنے لگا تھا اب تو وہ چینٹو سے باتیں بھی نہیں کرتا تھا۔ چینٹونے بھی ببلو کا بدلا ہوا رویہ محسوس کر لیا تھا۔ اگلے روز جب ببلو چینٹو کے پاس آیا تو وہ رونے لگا۔ ببلو کو اپنے پیارے سے چینٹو پر بہت پیار آیا اس نے چینٹو کو گلے لگا لیا۔ ببلو سوچ رہا تھا کہ اگر میں نے چینٹو کو سمجھایا ہوتا اور اسے بگاڑا نہ ہوتا تو میں آج ہم دونوں یوں اکیلے نہ ہوتے۔باقی سارے بچے تو پارک میں دانیال کے ساتھ بہت خوش ہیں، بس ہم دونوں ہی۔۔۔ یہ سوچ کر ببلو خود بھی رونے لگا۔اتنے میں ببلو کے پاس اُن کے مالی بابا آئے اور بتایا کہ ببلو کے دوست آئے ہیں۔ ببلو سوچنے لگا کہ اس کے کس دوست نے آنا تھا جب اُسے کچھ یاد نہ آیا تو وہ باہر آیا۔
باہر آنے پر جو منظر اُس نے دیکھا، اسے یقین ہی نہ آیا۔پارک میں کھیلنے والے سارے بچے ہاتھوں میں رنگ برنگے غبارے پکڑے،چینٹو کے لیے Get Well Soon کے کارڈ اُٹھائے کھڑے تھے ۔عزیر کے ساتھ اس کا بلا جمپی بھی آیا تھا ۔ یہ سب دیکھ کر ببلو بہت خوش ہوا،وہ اِن سب کو چینٹو کے پاس لے گیا۔
چینٹو کو بھی شیدید حیرت ہوئی لیکن سب بچے پیار سے اُس کے بال سہلاتے رہے۔ آج چینٹو نے کسی بھی بچے نہ تو ڈرایا اور نہ نخرے دکھائے۔ کیوں کہ آج اُسے سمجھ آگیا تھا کہ غرور کرنے سے صرف نقصان ہوتا ہے، جب کہ اگر سب کے پیار سے رہا جائے تو سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں بلکہ خوش بھی رہتے ہیں۔ جس طرح آج چینٹو اِن سب بچوں کے ساتھ بہت خوش تھا۔

بے زبان پر رحم

برائے بچے
 عائشہ یاسین 

علی اپنے محلے کا سب سے شرارتی بچہ تھا۔ ہر وقت کسی نہ کسی کو تنگ کرتا رہتا تھا۔ کلاس میں بھی سب اس سے بہت پریشان رہتے تھے۔ استانی صاحبہ بھی روز اس کو کسی نہ کسی بات پر سزا دیتی تھیں۔ کبھی کرسی پر کھڑا کر دیتی تو کبھی کلاس سے باہر بھیج دیتی اور کبھی کبھی تو مرغا بھی بنا دیا کرتی تھیں لیکن علی اپنی شرارتوں سے باز نہ آتا۔ اسکول سے آتے ہی وہ دن بھر گلی میں آوارہ لڑکوں کے ساتھ گھومتا رہتا۔ کبھی کسی کے گھر کی بیل بجا کے بھاگ جاتا تو کبھی کسی بچے کی چیز چھین لیتا۔ 
آج جب علی اسکول سے واپس آیا تو کھانا کھاتے ہی باہر کھیلنے چلا گیا۔ آج محلے میں سناٹا ہورہا تھا۔کڑاکے کی سردی ہورہی تھی۔ علی راستے میں اکیلا ادھر ادھر پھر رہا تھا اور راستے میں پتھروں کو ٹھوکر مارتا ادھر ادھرٹہل رہا تھا۔کہ اچانک اس کو ایک گھر کے کونے میں ایک بلی بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ علی نے دور سے اس کو ڈرانے کی کوشش کی پر وہ بیچاری ہل بھی نہیں پائی۔ شاید اس کو بہت سردی لگ رہی تھی یا اس کی طبیعت خراب تھی پر علی کو اس پر ذرا بھی ترس نہیں آیا۔ جب اس نے دیکھا کہ بلی ہل بھی نہیں پا رہی تو اس کو ایک شرارت سوجھی۔ اس نے بہت سارے پتھر اپنے جیب میں جمع کئے اور اپنی بوریت دور کرنے کے لئے بلی پر نشانہ بازی کرنے لگا۔ جب بھی بلی درد سے کراہتی تو اس کو اور بھی مزہ آتا اور وہ زور زور سے تالی بجا کر خوش ہوتا اور نعرے لگاتا۔ 
بیچاری بلی تو بے زبان تھی اور بیمار ہونے کی وجہ سے بھاگ بھی نہیں پا رہی تھی۔ وہ وہیں روتی رہی پر علی کو اس پر رحم نہ آیا۔ کچھ دیر بعد کچھ کتوں کی بھونکنے کی آواز آئی۔ علی نے مڑ کر دیکھا تو کتے اس کی جانب ہی آرہے تھے۔ علی نے آو دیکھا نہ تاو جلدی سے دوڑ لگادی۔ وہ دو کتے تھے اور دونوں ہی علی کی طرف دوڑ رہے تھے۔ علی جیسے ہی گھر کے پاس پہنچا تو اس کو ٹھوکر لگی اور وہ زور سے وہ زمین پر گر پڑا۔ درد اور خوف سے وہ زور زور سے رونے لگا۔ ا س کی رونے کی آواز سن کر اس کے ابو باہر آگئے اور کتوں کو بھگایا۔ علی کے گھٹنوں سے بہت خون بہہ رہا تھا۔ علی کے ابو نے اس کو گود میں اٹھایا اور اندر لے جا کے مرہم پٹی کی۔ علی کو بہت تکلیف ہورہی تھی اور وہ روئے جارہا تھا۔ جب ابو نے اس کو دوا لگا دی تو اس سے سارا ماجرہ پوچھا۔ علی نے سب کچھ سچ سچ بتادیا تو اس کے ابو نے کہا، ”بیٹا کبھی کسی بے زبان جانور کے ساتھ برا سلوک نہیں کرنا چاہیے ورنہ بد دعا لگ جاتی ہے۔ دیکھو اللہ نے تم کو تمہارے کیے کی سزا دی۔ اگر میں وقت پر نہیں آتا تو وہ آوارہ کتے تمہارے ساتھ کیا کرتے؟“یہ سن کر علی اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہوااور ڈر کے مارے رونے لگا۔ 
ابو نے اس کو روتا دیکھ کر کہا، ”چلو بیٹا ہم اس بلی کو گھر لے آتے ہیں اور اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جب وہ صحیح ہوجائے گی تو تم کو دعائیں دے گی اور اللہ بھی تم کو معاف کردیں گے“۔ یہ سن کر علی بہت خوش ہوا اور ابو کے ساتھ جا کے بلی کو اپنے گھر لے ایا۔ ابو امی نے مل کر اس کو دوا لگائی اور علی فورا دودھ کا کٹورا لے آیا۔ علی دن رات بلی کی دیکھ بھال کرتا اور اس سے معافی مانگتا اور توبہ کرتا۔ آہستہ آہستہ بلی صحت ےاب ہوگئی اور علی نے اس کا نام کیٹو رکھا۔ پتا ہے بچوں اب علی اور کیٹو پکے دوست ہیں اور علی نے اب ہر برے کام سے توبہ کرلی ہے۔کلاس میں اب سب اس کے دوست ہیں کیونکہ علی اب نہ کسی کو تنگ کرتا ہے نہ کوئی شرارت کرتا ہے بلکہ وہ سب کا خیال رکھتا ہے۔ 

خطرناک بیماری

 ام محمد عبداللہ

”شاباش سائرہ صبح بہت اچھے سے باورچی خانہ صاف کیا تم نے۔ اب دادی جان کو اچھی سی چائے بھی پلا دو“، امی جان نے سائرہ کو سراہتے ہوئے دادی جان کی جانب دیکھا۔ ”ماشاءاللہ آپ کی پوتی بہت سلیقے والی ہے۔ ابھی تو چھوٹے چھوٹے کام ہی کرواتی ہوں اس سے لیکن کمال خوبی سے کرتی ہے“،, امی جان دادی جان کی جانب دیکھ رہی تھیں جب کہ دادی جان کی نگاہیں مسلسل کرن کے چہرے کے بنتے بگڑتے تاثرات پر تھیں۔ 
سائرہ چائے بنا کر لائی تو کرن نے یکدم اونچی آواز میں اس کو مخاطب کیا، ”سائرہ آپی کل آپ سے دودھ گر گیا تھا ناں آج تو دھیان سے بنائی نہ چائے دودھ تو نہیں گرایا“۔ بظاہر معصومیت سے بولتی کرن جہاں امی جان کی باتوں کی نفی کر کے انہیں شرمندہ کر گئی تھی وہیں سائرہ بھی اس بے محل غلطی آشکارہ ہونے پر پریشان ہو گئی تھی۔ کرن کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ آ گئی تھی۔ جسے دادی جان کے سوا کسی نے محسوس نہیں کیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔
”ارے دادی جان سنائیں ناں کہانی“، رات کو سب بچے دادی جان کے گرد جمع تھے۔ ”اچھا بھئی سنو کہانی“، سب بچے یکدم خاموش ہو کر جیسے فقط کان بن گئے۔ ”ایک خوبصورت وادی تھی۔ بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان سر سبز و شاداب وادی۔ سبزے سے لہلاتی، جھرنوں سے گنگناتی، رنگا رنگ پھولوں کی خوشبووں سے ہواوں کو مہکاتی اس وادی میں ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ اس گھر میں دو بہنیں رہتی تھیں۔ ندا اور ردا۔ دونوں بہت پیاری اور اچھی بچیاں تھیں۔ خوب دوستی اور محبت تھی دونوں بہنوں میں۔ دوڑ دوڑ کر سارے گھر کا کام کرتیں اور امی ابو کی ہر بات مانتیں۔ لیکن پھر اچانک“، دادی جان سانس لینے کو رکیں تو بچوں کے تو گویا سانس ہی اٹک گئے۔ ”کیا ہوا اچانک؟“ کاشف نے بے قرار ہو کر پوچھا۔ ”ندا بیمار پڑ گئی اور بیماری بھی ایسی ویسی نہیں تھی۔ بڑی خطرناک بیماری تھی“، کمرے کی مدھم روشنی اور دادی جان کے لہجے کے اتار چڑھاو نے بچوں کو اپنے سحر میں لے لیا تھا۔ ”کون سی بیماری لگ گئی اسے؟“ کرن کی آواز میں پریشانی نمایاں تھی۔ ”کیا کینسر؟“ ”نہیں بھئی کینسر سے بھی خطرناک بیماری۔ اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ لگ گیا جو کہ بے احتیاطی کی وجہ سے پھیلتا جا رہا تھا اور تو اور اس کی بیماری کے اثرات ردا پر بھی پڑ رہے تھے“۔ ”ردا بھی متاثر ہو رہی تھی ندا کی بیماری سے پھر تو واقعی میں یہ بہت خطرناک بیماری تھی“، سائرہ نے تبصرہ کیا۔
”بھئی بچو! تم لوگ بولتے بہت ہو۔ اب اگر کوئی کہانی کے درمیان بولا تو میں کہانی نہیں سناوں گی“، دادی جان نے بچوں کو دھمکی دی۔ سب بچے ایک بار پھر دم سادھے خاموش ہو گئے۔ ندا اور ردا کے والد حکیم صاحب تھے۔ ایک دن انہوں نے ردا اور ندا کو کھیل، پڑھائی اور گھر کے کاموں کے درمیان لڑتے دیکھا تو سمجھ گئے کہ ندا بیمار ہے اور ردا اس کی وجہ سے بیمار پڑ رہی ہے۔ وہ جلدی سے اپنے مطب میں گئے اور ایک سنہرا اور ایک نقرئی کیپسول اٹھا لائے۔ سنہرا کیپسول انہوں نے ندا جب کہ نقرئی ردا کو کھلا دیا۔ رات ہو چکی تھی اس لیے دونوں بہنیں جلد ہی سو گئیں۔
اگلی صبح نہایت روشن اور پاکیزہ تھی۔ دوا اثر کرنے لگی تھی۔ ندا نے ردا کی جانب دیکھا جس نے شوخ رنگ کا دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔ ردا کو جب بھی ندا اس دوپٹے میں دیکھتی تھی تو اسے دل میں بہت گھٹن محسوس ہوتی تھی اور اس کا جی چاہتا تھا کہ یہ دوپٹہ وہ اس سے چھین کر خود اوڑھ لے۔ لیکن آج جیسے ہی اسے گھٹن محسوس ہوئی ساتھ ہی اس کی نظریں اپنے دوپٹے پر آ کر ٹھہر گئیں اور وہ خود بخود اپنے دوپٹے کے لیے اللہ کا شکر ادا کرنے لگی۔ اللہ سے اپنے لیے فضل عظیم کا سوال کرنے لگی ساتھ ہی ساتھ خود بخود اس کے منہ سے ردا کے دوپٹے کے رنگ ہمیشہ قائم رہنے کے لیے دعا بھی اس کے لبوں پر جاری ہو گئی۔ 
تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ دونوں بہنیں گھر کے کام میں ماں کا ہاتھ بٹانے لگیں۔ ندا کی عادت تھی کہ کام کے دوران اگر ردا سے کچھ غلط ہو جاتا تو وہ اس غلطی کا خوب اشتہار لگاتی اور اپنے آپ کو اس سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرتی لیکن آج جب ایسی صورتحال سامنے آئی تو اس کی بولتی زبان کو جیسے یکدم کسی نے جکڑ لیا۔ اس کے سامنے ایک بڑا سا آئینہ کہیں سے آن نمودار ہوا جس میں ایک کریہہ شکل شیطان حضرت آدمؑ کا نام لے کر نعرے لگا رہا تھا۔۔ میں اس سے اعلی ہوں۔ ساتھ ہی ایک گروہ یہود کھڑا تھا جو اپنی افضلیت ثابت کرتے کرتے نبی آخر الزماں کی نبوت کو جھٹلا رہے تھے۔ شیطان اور گروہ یہود کے گرد آگ کے شعلے بلند ہونے لگے تھے اور ان شعلوں میں ندا کا عکس ابھرنے لگا تھا جو کہہ رہی تھی میں ردا سے بہتر ہوں۔ ندا نے گھبراہٹ کے عالم میں آئینہ توڑنا چاہا تو آئینہ کہیں غائب ہو گیا اور اس کے لبوں پر تعوذ جاری ہو گیا اور ساتھ ہی اس کے دل و دماغ میں یہ احساس اجا گر ہونے لگا کہ اعلی و برتر ذات صرف اللہ ہی کی ہے۔ نیکی کی توفیق اور برائی سے بچاو اللہ کی عطا ہے۔
 دنیا کی مادی چیزوں اور مادی کامیابیوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا یا آگے بڑھنے کی کوشش کرنا یا دوسرے کو شکست دینے کی ٹھان لینا کوئی کارنامہ نہیں بلکہ اصل مقابلہ تو نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کا مقابلہ ہے۔ دن آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا۔ ندا پر دوا اثر کرتی گئی اور اس کے دل کی گھٹن کم ہوتی چلی گئی۔
دوسری جانب ردا صبح اٹھتے ہی سورہ فلق اور سورہ الناس کی تلاوت کرنے لگی۔ یہ تلاوت دن بھر جاری رہی۔ جب جب ردا کی جانب سے کوئی سخت سست بات آنے لگتی ردا جو پہلے ایسی صورتحال میں لڑنے کو تیار ہو جایا کرتی تھی اب مسکرا کر محبت سے ندا کو جواب دیتی اور ہر کام میں اس کی معاونت کے لیے خود سے آگے بڑھتی۔ اس نے آج دن میں ندا کو موتیوں کے پھولوں کا گجرا بنا کر تحفتاً پیش کیا۔ دن گیا اور رات آئی۔ دوا اپنا رنگ لائی۔ ندا کے دل سے سیاہ دھبہ دور ہو گیا تھا۔ اس کا دل اب پہلے کی مانند نکھرا نکھرا شفاف ہو گیا تھا۔ ردا بھی تازہ دم محسوس کر رہی تھی“۔
کہانی ختم ہو چکی تھی۔ سب بچے مسکرا رہے تھے جب کہ کرن کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ”کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ندا کو کون سی بیماری تھی؟“ دادی جان نے بچوں سے پوچھا۔ ”جی دادی جان میں سمجھ گئی ندا کو حسد کی بیماری تھی“، سائرہ نے جلدی سے جواب دیا۔ ”ہاں بچو! ندا کو حسد کی بیماری تھی۔ یہ ایک بہت خطرناک بیماری ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ”حسد سے بچتے رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو کھا جاتی ہے“۔ (صحیح مسلم)
 لہٰذا دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے اس بیماری کو جاننا اور اس سے بچنے کی تدابیر اختیا ر کرنا ضروری ہے۔ ”جی دادی جان میں سمجھ گئی میں اس بیماری سے بچاو کی مکمل کوشش کروں گی“، کرن نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ”صرف تم کیوں ہم سب اس خطرناک بیماری کے معاملے میں ہمیشہ خبردار ہوشیار رہیں گے ان شاءاللہ“، سائرہ نے پرعزم لہجے میں کہا تو سب بچوں نے پختہ ارادے کے ساتھ اس کی تائید کی۔ 

حضرت عمر بن عبد العزیز کا دور خلافت

 احمد ذیشان

جب حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خلافت کی باگ دوڑ سنبھالی تو ملک میں اموی مارشل لاءکا نفاذ تھا۔ لسانی عصبیت، نسلی تفاخر اور مورثی حکومت جیسے بتوں کی پوجا ہو رہی تھی۔ وہ بت جوکہ سید الانبیاءصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پاش پاش کر دیے تھے دوبارہ تعمیر ہو چکے تھے۔ بیت المال خلیفہ کی ذاتی ملکیت بن چکا تھا۔ ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست جسے سید الانبیاﷺ نے قائم فرمایا تھا۔ جس میں ہر مسلم غیر مسلم کے جان مال اور عزت محفوظ تھی مگراب اموی شاہوں کہ رحم کرم پر تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ زمانہ جاہلیت پھر سے لوٹ رہا ہے۔ جسے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جڑ سے اکھاڑ دیا تھا۔ شجر اسلام جسے خلفائے راشدین نے بے شمار قربانیوں سے سینچا تھا۔ جس میں برتری کی بنیاد تقوی پر تھی اس کی جڑیں اکھڑ رہی تھیں۔ خلافت کی جگہ ملوکیت لے چکی تھی۔ خدا کے نام لیواو ¿ں کے گر د زمین تنگ کی جارہی تھی۔ انسانیت خلافت راشدہ کے خاتمے کا سوگ منارہی تھی۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے آتے ہی سب سے پہلے اپنی ساری جائداد سرکاری خزانے میں جمع کروا دی۔ انسانیت کو خلافت راشدہ کی یاد دلا دی۔ ظالم عمال کو معزول کر کے نیک پارسا اور متقی حضرات کو عہدوں پہ بٹھایا۔ اسلام کی پھر سے وہی شان و شوکت اور جاہ و جلال بحال ہو گی۔ بیت المال کو خلیفہ کی ملکیت سے نکال کر عوامی ملکیت میں دے دیا۔ موروثیت کے بجائے قابلیت اور خدا خوفی کو ترجیح دی جانے لگی۔ پوری ریاست میں امن کا بول بالا ہو نے لگا۔ آپ نے زکوة کا نظام قائم کیا اور ظالمانہ ٹیکسوں سے عوام کی جان چھڑائی۔ قبل اس سے ہر نو مسلم سے جزیہ لیا جاتا تھا۔ مگر آپ نے اسے غیر اسلامی فعل قرار دے کر منسوخ کر دیا اور ملکی معیشت کو مضبوط بنادیا۔ ملک سے غربت کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ سارا دن زکوة لے کے پھرنے کے باوجود کو ئی زکوة لینے والا نظر نہیں آتا تھا۔
اپنے دربار کو جسے اموی شاہوں نے قیصر وکسری کی طرز پر ڈھال دیا تھا۔ اسے واپس خلفائے راشدین کی طرز پہ لاکھڑا کیا۔ جہاں ہر ناکس وناتواں کی رسائی ممکن تھی۔ اموی حکومت جو کے فوجی طاقت پر مستحکم تھی۔ اس کی بنیادیں ہلانا اتنا آسان تو نہ تھا۔ کوئی داخلی یا خارجی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی تھی۔ ماضی میں بھی اس سے ٹکرانے کی دو کوششیں ہوچکی تھیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنے دلیرانہ اقدام اٹھا چکے تھے۔ مگر اموی حکومت کی ظالمانہ اقدام سے ٹکر لینا ناممکن کو ممکن بنانے کے مترادف تھا۔ انہی اصلاحات کی بدولت کفر جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگا اور جزیہ کم وصول ہو نے لگا تو خزانچی نے اس بات کا ذکر آپ سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں تو چاہتا ہوں کہ سارا کفر اسلام میں داخل ہو جائے تو تم کھیتی باڑی کرو۔
 غریب عوام کی زمینیں جائیدادیں جو کہ شاہی خاندان نے اپنی ملکیت شامل کر لی تھیں۔ انہیں واگزار کرا کے غریبوں کو واپس کروائیں اور غلام اور لونڈیاں آزاد کروا کے انہیں ان کے وطن واپس بھیجا۔ افسران اور وزراءکو تحائف لینے پہ پابندی عائد کر دی۔ پوری ریاست میں یکساں طور پر قانون کا نفاذ کیا۔ جس امیر غریب کو یکساں طور بے لاگ انصاف ملنے لگا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون اپنی موت آپ مرچکا تھا۔ خلیفہ اور دیگر عمال کی ایک مزدور کے مساوی تنخواہیں مقرر کیں۔ 
آج میرے دیس کے حالات بھی اموی شہنشاہیت سے مختلف نہیں ہیں۔ یہاں بھی سیاستی، مذہبی اور لسانی دہشت گردی عروج پہ ہے۔ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو کھا کے ڈکار مار جاتی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ اسلام پسندوں کے گر د ہر طرح کی ریاستی پابندیوں کا نفاذ ہے۔ اسلام کے نام پہ بننے والی ریاست پاکستان میں اسلام کانام لینا ہی سب سے بڑا جرم ہے۔ انصاف کے لیے عدالتوں کا چکر کاٹ کاٹ کر تین نسلیں اپنی عمر گزار دیتی ہیں۔ غریب آدمی کل جمع پونجی لٹا کر بھی انصاف سے محروم رہتا ہے۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے۔ یہاں بھی انسانیت بلک بلک کر کسی عمر بن عبدالعزیز کو پکار رہی تھی۔ جو ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔

رمضان المبارک کی اہمیت اور برکت

علینہ فاطمہ 

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ، ”جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات قید کر دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ پھر اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا اور جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں پھر اس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہتا اور فرشتہ اعلان کرتا ہے، اے بھلائی اور نیکی کے طلبگار! اللہ کی طرف متوجہ ہو جا۔ اے برائی کا ارادہ رکھنے والے! برائی سے باز آجا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس ماہ مبارک کے وسیلے سے لوگوں کو آگ سے (جہنم کی آگ) سے آزاد کرتا ہے اور ہو سکتا ہے تو بھی ان لوگوں میں شامل ہو جائے یہ اعلان رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے“۔ 
رمضان المبارک کا مہینہ اسلامی مہینوں میں نواں مہینہ ہے۔ قرآن اور حدیث میں اس مہینے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ رمضان المبارک ہی وہ مہینہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے کہ رمضان کے مہینے میں قرآن مجید نازل کیا گیا۔ (البقرہ :581) اس مہینے میں ایک رات (لیلتہ القدر) ایسی آتی ہے جو ہزار راتوں سے افضل و بہتر ہے۔ (القدر:3) حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ کو فرمایا: ”کہ تہمارے اوپر ایک مہینہ آرہا جو بڑا مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزوں کو فرض فرمایا ہے اور اس میں رات کے قیام کو ثواب کا ذریعہ بنایا ہے“۔ 
اس بابرکت مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکتوں اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غمخواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس مہینے کی برکتوں کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس مہینے میں تمام شیاطین اور جنات کو قید کر دیا جاتا ہے۔ جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ شیاطین جو کہ انسانوں کو اچھے کاموں سے روکتے ہیں اور برے کاموں کے ذریعے اس کو گمراہ کر کہ سبز باغ دکھاتے ہیں۔ وہ اس مہینے میں مکمل طور پر بے بس کر دیے جاتے ہیں تاکہ اس مہینے کی برکتوں سے فائدہ اٹھا کر تمام انسان اپنی مغفرت کروا سکیں اور اچھے کام کر سکیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو ایک ماں سے بھی ستر گنا زیادہ پیار کرتے ہیں اور اس مہینے کو نازل فرما کر وہ اپنے پیارے بندوں کے لیے نہ صرف آسانیاں پیدا کرتا ہے بلکہ وہ اس مہینے کو انسانوں کے لیے نجات کا ذریعہ بناتا ہے۔ غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں پر یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے۔ 
الحمد للہ ایک بار پھر یہ برکتوں والا مہینہ شروع ہونے کو ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس مہینے کو پا کر اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مہینے میں ہر طرف سے یہ پکار آتی ہے! ہے کوئی بخشش کا طلبگار۔ کوئی ہے جو اپنے گناہوں سے معافی مانگ کر اپنی مغفرت کرانا چاہتا ہے اور میں اس کو معاف کر دوں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بے حساب کرم ہے۔ وہ اپنے بندوں کی بخشش اور مغفرت کے بہانے تلاش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو رمضان کا تحفہ دیا۔ اس مہینے میں ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اس مہینے میں عبادت کے ذریعے اپنے نفس کو پاک کرنے کی کوشش کریں۔ گناہوں سے بچیں اور روزے کی حالت میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ 

Wednesday, April 24, 2019

سپریم کورٹ نے موبائل فون کارڈز پر تمام ٹیکس بحال

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے موبائل فون کارڈز پر تمام ٹیکسز بحال کردیے۔

سپریم کورٹ میں موبائل ٹیکس کٹوتی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تو حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور ایک بار پھر عدالتی دائرہ اختیار پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جسے ٹیکس استثنی چاہیے متعلقہ کمشنر سے رجوع کرے، ٹیکس کے نفاذ پر ازخودنوٹس کی مثال نہیں ملتی، ٹیکسز پر حکم امتناع کے باعث حکومت اپنی آمدن کے بڑے حصے سے محروم ہے۔

اب صرف ہوا پر ٹیکس لگنا باقی ہے
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہزاروں روپے وکیل کو دینے پر لوگ ٹیکس دینے کو ترجیح دیتے ہیں، لاکھوں لوگوں سے ٹیکس لیا جا رہا تھا جن پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا، ٹی وی لائسنس کا ٹیکس بھی ہر شہری سے لیا جاتا ہے، ہر ٹی وی دیکھنے پر اِنکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا لیکن وہ ٹیکس دیتا ہے، ماضی میں مشرقی پاکستان سیلاب ٹیکس نافذ ہوا تھا، مشرقی پاکستان الگ ہوگیا لیکن فلڈ ٹیکس 90 کی دہائی تک لیا جاتا رہا، پانی اور فون سے باتیں کرنے پر تو ٹیکس لگ چکا، اب ہوا پر ٹیکس لگنا باقی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو ٹیکس کے اہل نہیں ان سے پیسہ لینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ لوگوں سے ٹیکس دائرے میں نہ آنے کے باوجود ٹیکس لینا اس کیس کی بنیاد بنا۔

ماضی میں ججز سے بالاتر ہوکر افسران بھی نوٹس جاری کرتے رہے

چیف جسٹس نے کہا کہ موبائل ٹیکس کا نوٹس پانچ ججز کے حکم پر لیا گیا، پانچ معزز ججز نے حکم سوچ سمجھ کر ہی جاری کیا تھا۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سوشل میڈیا کی شکایت پر ڈی جی ایچ آر نے نوٹ لکھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پانچ ججز کا حکمنامہ آ چکا اب یہ باتیں کرنا بے فائدہ ہیں، ججز سے بالاتر کوئی حکم جاری ہو تو الگ بات ہے، ماضی میں ججز سے بالاتر ہوکر افسران بھی نوٹس جاری کرتے رہے۔

سپریم کورٹ نے از خود نوٹس نمٹاتے ہوئے موبائل فون کارڈز پر تمام ٹیکسز بحال کردیے اور حکم امتناع ختم کردیا۔

واضح رہے کہ 2018 میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی کا از خود نوٹس لیتے ہوئے حکومت اور موبائل فون کمپنیوں کو عوام سے ٹیکس وصول کرنے سے روک دیا تھا۔

Tuesday, April 23, 2019

Heartless song


Mainu tu lai ja kitey door mereya haniya
Mainu tu lai ja kitey door…

Jithe pyar diyan rahwaan
Jithe thandiyan hawawaan
Jithe ambaro’n baras da noor mere haniya

Mainu tu lai ja kitey door mereya haniya
Mainu tu lai ja kitey door…
Mainu tu lai ja kitey door mereya haniya
Mainu tu lai ja kitey door…
Mainu tu lai ja kitey door mereya haniya
Mainu tu lai ja kitey door…

Mujhe maloom hai
Mera chehra tere dil ka sukoon hai
Tu bhi meri inn ragon mein behta khoon hai
Kehne ko door hai
Dil ke kareeb hai
Paise ka nasha bhi jaan-e-jaana ik junoon hai
Tujhe kaise main bataaun
Tu kitni masoom hai
Mujhe pataa hai tu hai pareshan
Kyun ki meri pehli album
Pichle do saalon se coming soon hai

Par tu himmat naa haar
Dil chhota mat kar
Saath mere chal mera hath pakad kar
Aankhon mein tu aansu leke soya na kar
Baby Badshah ki jaan hai tu roya na kar

Mainu tu lai ja kitey door mereya haniya
Mainu tu lai ja kitey door…
Mainu tu lai ja kitey door mereya haniya
Mainu tu lai ja kitey door…
Mainu tu lai ja kitey door mereya haniya
Mainu tu lai ja kitey door…


Gaane the sunte hum
Earphone ki ek taar tere kaan mein
Ek mere kaan mein
Seene pe rakh ke sir
Sitaron ko ungli se jod jod ke
Banaati thi tasveer aasmaan mein

Yaad hai mujhe sab
Bhoola nahi hoon main
Tere se rehke door
Poora nahi hoon main
Maana hoon majboor
Bura nahi hoon main
Naa chhod aise aas
Aaunga main tere paas
Jaise registaan mein kisi pyase ko pani
Jaise marne ke baad koi aakhri nishani jaise
Saansein mile usey
Jiska nikalne waala ho dum
Aise milenge hum…

Mainu tu lai ja kitey door mereya haniya
Aise milenge hum
Mainu tu lai ja kitey door
Aise milenge hum

Mainu tu lai ja kitey door mereya haniya
Aise milenge hum
Mainu tu lai ja kitey door
Aise milenge hum

Mainu tu lai ja kitey door mereya haniya
Aise milenge hum
Mainu tu lai ja kitey door

Mainu tu lai ja kitey door mereya haniya
Mainu tu lai ja kitey door…

ٹک ٹاک، معاشرے کا ناسور

 آصف اقبال انصاری

یہ بات کوئی اتنی مشکل نہیں کہ سمجھ کو نہ چھوئے، مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جنہیں آگ سے کھیلنے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ جو بلا وجہ جلتے انگارے کو ہاتھ میں لینا بہادری خیال کرتے ہیں۔ جنہیں اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارنے کی عادت سی ہو جاتی ہے، جو تیراکی نہ جاننے کے باوجود، گہرے سمندر میں کودنا پسند کرتے ہیں۔ نتیجتا ہوتا کیا ہے؟ بالآخر وہ ہلاکت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور وہ وقت بھی دور نہیں ہوتا کہ وہ ہلاک ہی ہوجاتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ حال، ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کا ہے، یہی کچھ داستان ہماری نوجوان نسل کی ہے۔ آپ نے یہ کہتے تو سنا ہی ہوگا کہ جدید دور ہے، دنیا جدت پسندی کی طرف مائل ہے، دنیا کا سارا نظام ایک مٹھی میں سما چکا ہے اورمشکل سے مشکل کام چند لمحوں میں نمٹ جاتاہے۔ جدت کی انتہا یہ ہے کہ پاس بیٹھا تو پاس ہے ہی، مگر دنیا کے آخری کونے میں دور بیٹھا بھی اس دور جدید میں قریب آچکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہوا؟ تو کہا جائے گا انٹرنیٹ سے، یوں تو انٹرنیٹ کے جتنے فائدے ہیں، تو نقصان کا بھی کوئی احاطہ نہیں۔ پھر مزید یہ کہ سوشل نیٹ ورک جو معاشرے پر منفی اثرات مرتب کیے وہ ان گنت ہیں۔
اب تک فیس بک نے معاشرے کو جس موڑ پر لا کھڑا کیا، اس کے تصور سے بھی خوف آتا ہے، کیا ہوا؟ کئی گھرانے اجڑ گئے۔ نوجوان بیٹیوں اور بہنوں کا سہاگن لوٹ گیا۔ گھروں کے گھر تباہ ہوئے۔ سوائے کف افسوس ملنے کے کوئی چارہ نہ رہا۔ نوجوان بیٹے اور بیٹیوں نے چیٹنگ، پوسٹنگ کے ذریعے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ والدین اپنے بچوں کی راہ تکتے رہ گئے۔
گزشتہ چند سالوں میں کئی ایسے واقعات پیش نظر آئے کہ دل خون کے آنسوں رونے پر مجبور ہوا، یہ سب کچھ ہوتا رہا اور ہم اسے جدت پسندی کہتے رہے اور یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس سلسلے کی ایک کڑی ”ٹک ٹاک“ نامی ایپلی کیشن بھی ہے، جس کے وجود میں آتے ہی رہی سہی تھوڑی حیاءبھی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ سن 2016ءمیں اس ایپلی کیشن کو انگریزوں نے لانچ کیا، اس کے لانچ ہوتے ہی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس کی گرویدہ ہوگئی۔ تقریباً 150 ممالک میں 500+ ملین یوزرز ہوگئے۔ حیرت اس پر نہیں کہ اس کو لانچ کیا گیا، ظاہر ہے دشمن تو روز بروز اپنی تدبیریں استعمال کرہی رہا ہے اور کرے گا بھی مگر کیا ہوا ہم مسلمانوں کو؟ دشمن کے ہر حربے کا شکار بنتے چلے آرہے ہیں؟
 وہ اپنے مقصد میں بامراد ہوتا ہے اور ہم اپنے مقصد کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں، دشمن تدبیریں اختیار کرتا ہے اور ہم معاون بنتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنا مشن آگے بڑھاتا ہے اور ہم پیچھے سہارا بنتے ہیں، اس طرح کی چیزوں کو وجود دینے کا مقصد صرف یہی ہے کہ مسلمانوں کی ساخت کو کمزور کر دیا جائے۔ ان کی غیرت کو ان کے اپنے ہاتھوں سے بھسم کیا جائے، ان کے کردار کو داغ دار بنادیا جائے، ان کی حیاءکا جنازہ نکالا جائے، انہیں اپنے لباس میں رکھ کر ہی برہنہ کردیا جائے۔ ان کی عزتوں کو گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے نیلام کردیا جائے، ان کی عصمت کو ان کے اپنے ہاتھوں سے ختم کردیا جائے۔ یہی وہ (ٹک، ٹاک) نامی ایپلی کیشن ہے، جس نے بیٹیوں کو بند کمرے میں بھی غیر محفوظ کردیا، جس کے ذریعے ہماری بیٹیاں حسن کے جلوے دکھاتی نظر آتی ہیں۔ وہ لباس پہن کر بھی برہنہ ہوتی ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ نوجوان لڑکوں کا نامناسب، غیر اخلاقی اور بے حیائی سے بھر پور فلمی ایکٹنگ نے تو پوری نسل شباب کو سر جھکانے پر مجبور کر دیا ہے۔
لیکن ذرا سوچیں! کیا ہم ان ایکٹنگ کے لیے پیدا کیے گئے؟ کیا یہ جدید دور میں جدت کا صحیح استعمال ہے؟ کیا ان چیزوں کے استعمال سے ہم رب کے غضب کو دعوت نہیں دے رہے؟ خصوصا بیٹیاں اور بہنیں جو اس دلدل میں گھس کر خود اپنے ہاتھوں سے اپنی آبرو ریزی کررہی ہیں، کیا یہ حیاءکا تماشہ نہیں، جب کہ حیاءسے متعلق اللہ کے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ ”حیاءایمان کا حصہ ہے“۔ کیا یہ غیرت مندی کا جنازہ نہیں؟ کیا یہ تعلیمات پیغمبر سے کھلی بغاوت نہیں۔ حالانکہ شریعتِ اسلامیہ نے عورتوں کو کس حد تک غیروں کی نظروں سے اوجھل رکھا، تمھیں بولنے کی اجازت تو دی، مگر آواز پست رکھنے کا حکم دیا، حتی کہ عبادات میں بھی تمھیں چھپائے رکھا، نماز ہو تو گھر کے کونے میں اور وہ بھی خود کو سمیٹ کر، حج ہے تو تلبیہ پست آواز سے، یہ سب کچھ اس لیے کہ تمھاری عصمت و عزت پر آنچ نہ آئے۔ 
لگتا یوں ہے کہ ابن آدم اور بنت آدم، رب آدم کے فرمان کو بھلا بیٹھے ہیں، وہ فرماتا ہے، ”یقیناً تم پر نگہبان مقرر ہیں، وہ کراما کاتبین ہیں“۔ (سورة الانفطار) وہ فرماتا ہے، ”تمھارا کیا خیال ہے! کہ ہم نے تمھیں ایسے ہی بے کار پیدا کیا ہے“۔ (سورة الحج) کیا اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی یاد نہیں،کہ آپ ﷺنے فرمایا، ”آدمی کے لیے اسلام میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ فضول،لایعنی کاموں کو چھوڑ دے“۔( الحدیث) کیا اللہ کی لعنت سے ڈر نہیں لگتا، کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا،”کہ دیکھنے والے/والی اور دکھانے والے/والیاں، دونوں پر اللہ کی لعنت“۔ (بخاری)حضرت عمران بن حصین کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! کہ ”میں نے جہنم میں جھانک کر دیکھا وہاں اکثر عورتیں ہیں“۔ ( الحدیث )
میری بہنو! کیا تمھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج میں جہنم کا دیکھنا یاد نہیں کہ آپ نے فرمایا، ”میں نے جہنم میں ایک عورت کو دیکھا،اس کا جسم آگ کی قینچی سے کاٹا جارہا تھا، یہ اس عورت کی سزا تھی جو اپنا جسم اور زینت غیر مردوں کو دکھاتی تھی“۔ یاد رکھو! انسان کی عزت نفس، دوسروں سے پہلے اپنے ہاتھ میں ہے، انسان دوسروں سے پہلے خود اپنے نفس کا محافظ ہے۔ اگرچے ہم دوسروں کی آنکھوں کو نہ دیکھنے پر مجبور کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، لیکن خود کو دوسروں کے سامنے لانے سے روک تو سکتے ہیں۔ دوسروں کی نظروں میں حیاء پیدا نہیں کر سکتے، مگر خود با حیاءتو بن سکتے ہیں،اور حیاء کے بارے میں اللہ کے نبی ﷺ کا ارشاد ہے، ”حضرت عمر فاروق ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ” بے شک حیاءاور ایمان دونوں ساتھی ہیں،پس جب سن میں سے کوئی ایک اٹھایا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے“۔ اس حدیث کے تناظر میں اب ڈرنے کی بات یہ ہے کہ ”ٹک ٹاک“ اور ان جیسے دوسرے ناسوروں پر، ہماری بے حیائی، ہمیں ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے پر مجبور نہ کردے۔اللہ ان فتنوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے، آمین۔