April 2020 ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Wednesday, April 29, 2020

Irrfan Khan, one of India's best crossover actors, dies at 53


Khan, who fought a long battle with cancer, carved out a stellar career in Bollywood, Hollywood and other Western films.

Acclaimed Indian actor Irrfan Khan, whose international movie career included hits such as Slumdog Millionaire, Life of Pi and The Amazing Spider-Man, has died aged 53, his publicist said.

Khan, who was diagnosed with a neuroendocrine tumour in 2018, died on Wednesday after he was admitted in a Mumbai hospital for colon infection. He was 53.
"Irrfan was a strong soul, someone who fought till the very end and always inspired everyone who came close to him," his publicist said in a statement.
He spent his final hours "surrounded by his love, his family for whom he most cared about," a statement released by his family said.
The actor had spent several months last year in the United Kingdom undergoing cancer treatment.
His mother Saeeda Begum died four days ago on April 25.





He is survived by his wife, TV producer Sutapa Sikdar, and sons Babil and Ayan. 

One of the best crossover actors

Born Sahabzade Irfan Ali Khan in the Indian desert state of Rajasthan on January 7, 1967, Khan discovered an early passion for acting and studied at the elite National School of Drama.
But his training in Shakespeare and Chekhov did little to ease his entry into the Hindi film industry, which was largely focused at the time on churning out formulaic song-and-dance blockbusters.


Even as he landed a role in 1988's Salaam Bombay - directed by first-timer Mira Nair - his part was slashed to a cameo.
He sobbed for hours when he found out about the cuts, he told India's Open magazine. "It changed something within me. I was prepared for anything after that," he said.
Television roles followed, along with a handful of bit parts in Bollywood, where producers routinely dismissed him as looking too unconventional to play the lead.
By the time British director Asif Kapadia cast him as a mercenary in The Warrior, he was ready to quit acting, frustrated over the direction of his career.
But, in a sign of the global success that lay in wait, the 2001 film racked up awards and won Khan praise - including in India, where a new generation of directors was eager to experiment with fresh storylines.
His drama school training came in handy when he was cast in Maqbool and Haider - contemporary Hindi adaptations of Macbeth and Hamlet.
But he also charmed audiences in lighter fare such as Piku, featuring Bollywood superstars Amitabh Bachchan and Deepika Padukone, and The Lunchbox, in which he played a lonely accountant in love with a housewife.

'An incredible talent'

The tall and lanky actor won India's national award for his performance in Paan Singh Tomar. He was also awarded with Padma Shri, one of the country's highest civilian honours.


Khan was among the first Indian actors to make a consistent mark in Western cinema, following earlier crossover pioneers like Saeed Jaffrey, Roshan Seth and Om Puri.
He featured in several award-winning international films such as The Warrior, Slumdog Millionaire and Life of Pi. In Hollywood, he worked in The Amazing Spider-Man, Inferno and Jurassic World.
Khan consciously sidestepped traditional Bollywood tropes, focusing on the subtleties of his craft.
This allowed him to carve out a stellar career in Hollywood as well, where he collaborated with Oscar-winning directors such as Danny Boyle and Ang Lee and appeared in the HBO show In Treatment.
The actor was last seen in Bollywood comedy, Angrezi Medium, which was released in March.
"An incredible talent," said Amitabh Bachchan in one of many Twitter tributes.
"A gracious colleague. A prolific contributor to the world of cinema... left us too soon creating a huge vacuum," said the veteran actor.


Filmmaker Karan Johar said, "Thank you for raising the bar as an artist ... Thank you for enriching our cinema... We will miss you terribly, Irrfan."


Saturday, April 25, 2020

’وائی فائی‘ اپ گریڈیشن کے بعد مزید تیز اور قابل اعتماد ہونے کو تیار



تیز تر اور بلاتعطل انٹرنیٹ استعمال کرنے کے خواہش مندوں کے لیے خوش خبری ہے کہ وائی فائی کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے جس کے بعد صارفین بغیر رکاوٹ کے سبک رفتار نیٹ استعمال کرسکیں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق فیڈرل کمیونی کیشنز کمیشن نے وائی فائی کے نئے بینڈ 6GHz اسپیکٹرم کا ایک پلاٹ کھولنے کے حق میں ووٹ دے دیا ہے جو صارفین کے روٹرز کو 2.4GHz اور 5GHz بینڈ پر نشر کرنے کے قابل بنا دے گا۔
نیا اسپیکٹرم راؤٹرز اور دیگر آلات کے لئے پیش کردہ جگہ کی مقدار کو چار گنا بڑھاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ زیادہ بینڈوتھ دستیاب ہے اور وہ بھی کسی مداخلت کے بغیر۔ توقع کی جا رہی ہے کہ رواں برس کے آخر تک وائی فائی 6GHz مارکیٹ میں “Wi-Fi 6E” کے نام سے فروخت کے لیے موجود ہوگا۔
اس موقع پر مارکیٹنگ لیڈر کیون رابنسن نے کہا کہ نئے بینڈ اسپکٹرم کے آنے سے جدید ترین آلات پر تیز تر اور قابل اعتماد کنکشن کی توقع کی جاسکتی ہے۔ 20 برسوں کے بعد وائی فائی اسپیکٹرم کے بارے میں تاریخ کا یہ سب سے اہم فیصلہ ہے۔
واضح رہے کہ وائی فائی ایئر ویوز کو نشر کرنے کے ذریعہ کام کرتا ہے اور اس وقت دو بینڈز 2.4GHz اور 5GHz موجود ہیں اور اب 1989 کے بعد پہلی بار تیسرے بینڈ 6GHz کی اجازت دیدی گئی ہے۔

Wednesday, April 22, 2020

غیر ملکی سرمایہ کار دوبارہ پاکستان کا رخ کر رہے ہیں،میاں زاہد حسین

کراچی(کامرس رپورٹر) آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ توقعات کے برعکس شرح سود میں کمی کے باوجود ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ خوش آئند ہے جس سے درآمدات سستی ہو رہی ہیں اور عوام کو ریلیف ملے گاجبکہ درآمدی بل میں کمی سے ملک پر قرضوں کے بوجھ میں بھی کمی آ رہی ہے، کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے ملک سے اربوں ڈالر کا عارضی سرمایہ نکالنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اب بعض غیر ملکی سرمایہ کار دوبارہ اپنا سرمایہ پاکستان میں لگا رہے ہیں۔ ایک بیان میںمیاں زاہد حسین نے کہا کہ درآمدات سستی ہونے سے مقامی کمپنیوں پر اپنی پیداوار اور اسکے معیار کو بہتر بنانے کے لئے دبائو بڑھے گا جس سے عوام کو فائدہ ہو گاجبکہ مقامی پیداواری شعبہ کو مستحکم کرنے کے لئے انھیں سستے قرضوں کی فراہمی ضروری ہو گی ۔ 

سوئی سدرن کمپنی کے اپریشن گرفت جاری، ایک گیس چور گرفتار

 کراچی(کامرس رپورٹر)سوئی سدرن گیس کمپنی کی گیس چوری کے خلاف کاروائی جاری ہے، سوئی سدرن کی گیس چوری کے کلعہ قمعہ کرنے کیلئے تشکیل دئے گئے ٹاسک فورس کائونتر گیس تھیفٹ ٓپریشن سی جی ٹی او نے سی ٓرڈی کے عملداروں کے ہمراہ کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں واقع پائوڈر کوٹنگ اسٹیل کے کارخانے پر چھاپہ مارا۔ جہاں پر کارخانے کے مالکان ایس ایس جی سی کی ڈسٹریبیوشن لائین سے گیس چوری کرر ہا تھا۔ ٹاسک فورس نے گیس چوری میں ملوث پائوڈر کوٹنگ اسٹیل ورکس کے مالکان ذیشان احمد کوگیس چوری کرتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ملزم 900 سی ایف ٹی فی گھنٹے کے حساب سے گیس چوری کر رہے تھے۔سوئی سدرن کی ٹیم نے جائے وقوعہ سے گیس چوری میں استعمال ہونے والا پائپ اور دیگر سامان اپنی تحویل میں لیے لیا۔ گیس چور کے خلاف ایف آئی آر درج کرکہ مزید قانونی کاروائی کا آغاز کردیا ہے۔سی جی ٹی او چیف برگیڈئر (رٹائرڈ) محمد ابوذر نے کہا کہ گیس چوری یو ایف جی کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ گیس چوروں کو کسی بھی صورت میں نہیں بخشا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گیس چوروں کے خلاف جاری آپریشن مزید تیز کیا جائے گا۔

کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی بے قدری کا سلسلہ جاری ہے

 یوروکی قیمت خرید169 سے گھٹ کر168روپے ہو گئی

کراچی ( کامرس رپورٹر )انٹر بینک اورمقامی اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی بے قدری کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے روپے کی قدر مستحکم ہو رہی ہے ۔ بدھ کو فاریکس مارکیٹ میں روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر1.50روپے تک کم ہوئی ہے ۔ بدھ کو انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت76پیسے کمی سے 160.36روپے پر بند ہوئی جب کہ مقامی اوپن کرنسی مارکیٹ میں روپے کے مقابلے ڈالر کی قیمت خرید1.50روپے کی کمی سے160.50روپے سے گھٹ کر159روپے اور قیمت فروخت161.50روپے سے گھٹ کر160روپے ہوگئی۔ فاریکس رپورٹ کے مطابق دیگر کرنسیوں میں یوروکی قیمت خرید169روپے سے گھٹ کر168روپے اور قیمت فروخت171روپے سے گھٹ کر170روپے ہوگئی جبکہ برطانوی پاؤنڈ کی قیمت خرید3روپے کی کمی سے191 سے گھٹ کر188روپے اور قیمت فروخت193روپے سے گھٹ کر190روپے ہوگئی۔سعودی ریال کی قیمت خرید40.40روپے سے گھٹ کر40روپے اور قیمت فروخت40.80روپے سے گھٹ کر40.40روپے ہوگئی جب کہ یواے ای درہم کی قیمت خرید41.50روپے اور قیمت فروخت42روپے مستحکم رہی۔

اسٹاک ایکس چینج میں انڈیکس32464.23پوائنٹس کی سطح پر پہنچ گیا

مارکیٹ میں51.19فیصد کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا

کراچی(کامرس رپورٹر)پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں بدھ کو اتار چڑھائو کے بعد معمولی تیزی کا رجحان رہا جس کے نتیجے میںکے ایس ای100انڈیکس41.40پوائنٹس کے اضافے سے32464.23پوائنٹس کی سطح پر پہنچ گیا جب کہ51.19فیصد کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ،تیزی کے سبب مارکیٹ کے سرمایے میں2ارب روپے سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا،تاہم کاروباری حجم بھی پیر کے مقابلے میں41.38فیصد کم رہا ۔نمایاں کاروباری سرگرمیوں کے لحاظ سے میپل لیف ،حیسکول پٹرو ل،ڈی جی خان سیمنٹ ،فوجی سیمنٹ ،ہم نیٹ ورک ،یونٹی فوڈز،حبیب بینک ،پاور سیمنٹ ،پاک پٹرولیم اورپاک الیکٹران کے شیئرز سرفہرست رہے ۔تفصیلات کے مطابق پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بدھ کو ٹریڈنگ کا آغاز منفی زون میں ہوا اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں بحرانی کیفیت اور اس کے نتیجے میں عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی رجحان کے زیر حصص فروخت کا رجحان دیکھنے میں آیا جس کے باعث ٹریڈنگ کے دوران ایک موقع پر کے ایس ای100انڈیکس31892.20پوائنٹس کی نچلی سطح پر آگیا،تاہم بعد ازاں سستے ہونے والے شیئرز کی خریداری سے ریکوری آئی اور انڈیکس 32636پوائنٹس کی بلند سطح پر پہنچ گیا، بعد میں ایک بار پھر پرافٹ ٹیکنگ رجحان کے سبب مذکورہ سطح برقرار نہ رہ سکی لیکن تیزی کا رجحان غالب آگیا اور مارکیٹ کے اختتام پر کے ایس ای100انڈیکس41.40پوائنٹس کے اضافے سے32464.23پوائنٹس پر بند ہوا ،تاہم کے ایس ای30انڈیکس بھی7.19پوائنٹس کی کمی سے 14226.04پوائنٹس اور کے ایس ای آل شیئرز انڈیکس5.02پوائنٹس کے اضافے سے22886.89پوائنٹس پر بند ہوا ۔گزشتہ روز مجموعی طور پر336کمپنیوں کے حصص کا کاروبار ہوا جن میں سے172کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ136کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میںکمی اور28کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں استحکام رہا ،بیشتر کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتیں بڑھنے کے باعث مارکیٹ کی سرمایہ کاری مالیت 2ارب2کروڑ44لاکھ روپے کے اضافے سے61کھرب 5ارب79کروڑ39لاکھ روپے ہوگئی۔بدھ کوحصص کی لین دین کے لحاظ سے کاروباری حجم 23کروڑ98لاکھ73ہزار شیئرز رہا جو منگل کے مقابلے میں9کروڑ92لاکھ81ہزارشیئرز کم ہے ۔قیمتوں میں اتارچڑھاؤ کے لحاظ سے انڈس ڈائنگ کے حصص کی قیمت36.75روپے کے اضافے سے 526.75روپے اوررفحان میظ کے حصص کی قیمت24.43روپے کے اضافے سے6560روپے ہوگئی جب کہ نمایاں کمی کے لحاظ سے باٹا پاک کے حصص قیمت 101.75روپے کمی سے1448.75روپے اورسفائر ٹیکسٹائل کے حصص کی قیمت49.99روپے کمی سے750.01روپے ہوگئی ۔

سیمنٹ کی مجموعی فروخت میں 7فیصد برآمد

 کراچی(کامرس رپورٹر)رواں مالی سال کے دوران سیمنٹ کی مجموعی فروخت میں 7فیصد جبکہ برآمد میں 25فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جولائی تا مارچ 2019-20 کے دوران سیمنٹ کی مجموعی فروخت 37.03ملین ٹن تک بڑھ گئی جبکہ برآمد کا حجم 6.45ملین ٹن تک پہنچ گیا۔ سیمنٹ کی مقامی صنعت کے اعداد وشمار کے مطابق جاری مالی سال میں شمالی ریجن کی صنعت کی مقامی فروخت 25.98ملین ٹن اور برآمدات 1.92ملین ٹن رہی ہے جبکہ جنوری ریجن کے کارخانوں کی مقامی فروخت 4.60ملین ٹن اور برآمد 4.53ملنی ٹن رہی ہے۔اس طرح جولائی تا مارچ 2019-20 کے دوران مجموعی فروخت 7 فیصد اضافہ سے 37.03ملین ٹن تک پہنچ گئی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ میں شمالی ریجن کی مقامی فروخت 23.21ملین ٹن اور برآمد 1.99ملین ٹن رہی تھی۔اس طرح جنوری ریجن کی صنعت کی مقامی فروخت 6.25ملین ٹن اور برآمدات 2.14ملین ٹن رہی تھی۔ گزشتہ مالی سال کے ابتدائی نو مہینوں کے دوران سیمنٹ کی مقامی فروخت اور برآمد کا حجم 34.59ملین ٹن رہی تھی۔اس طرح گزشتہ مالی سال کے مقابلہ میں جاری مالی سال کے پہلے 9مہینوں کے دوران سیمنٹ کی مقامی فروخت میں 30.58ملین ٹن جبکہ برآمدات 6.45ملین ٹن رہی ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں مقامی فروخت کا حجم 29.46 ملین ٹن اور برآمدات 4.13ملین ٹن رہی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے مقابلہ میں جاری مالی سال میں جولائی تا مارچ 2019-20 کے دوران سیمنٹ کی مجموعی فروخت میں 2.44 ملین ٹن کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

مرکنٹائل ایکس چینج میں 7ارب روپے کے سودے

مکئی کی ایک لاٹ جس کی مالیت 2.493ملین روپے تھی کے سودے ہوئے

کراچی(کامرس رپورٹر)پاکستان مرکنٹائل میں گزشتہ روز پی ایم ای انڈیکس 3,371کی سطح پر بند ہوا۔ میٹلز، ا نرجی اور کوٹس کے7ارب روپے مالیت کے سودے ہو ئے جن کی مجموعی تعداد 29,049 رہی۔سب سے زیادہ سود ے سونے کے ہو ئے جن کی مالیت 3.068 ارب روپے رہی جبکہ ڈبلیو ٹی آئی خام تیل کے سودوں کی مالیت 2.213 ارب روپے ، ا ین ایس ڈی کیو کے سودوں کی مالیت 593.344 ملین روپے، کرنسیز کے بذریعہ کوٹس ہونے والے سودوں کی مالیت 446.764 ملین روپے، چاندی کے سودوں کی مالیت 392.421 ملین روپے ، قدرتی گیس کے سودوں کی مالیت 167.602 ملین روپے، ایس پی 500 کے سودوں کی مالیت 116.329 ملین روپے ، پلاٹینم کے سودوں کی مالیت 73.526 ملین روپے، ڈی جے کے سودوں کی مالیت 44.725 ملین روپے اور کاپر کے سودوں کی مالیت 9.632 ملین روپے رہی۔ ایگریکلچرل کموڈٹیز میں گندم کی ایک لاٹ جس کی مالیت 4.463ملین روپے اور مکئی کی ایک لاٹ جس کی مالیت 2.493ملین روپے تھی کے سودے ہوئے۔

درازکا صارفین کے لئے dMart کا آسان حل

 کراچی(کامرس رپورٹر)گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ای کامرس پلیٹ فارمز پر صارفین کی تیزی سے متحرک ہونے والی اشیاء (ایف ایم سی جیز) کی طلب میں نمایاں اضافہ ہوا ہے کیونکہ صارفین سماجی فاصلے کی مشق کر رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کیلئے اپنی کوششوں کے حوالے سے ممتاز ای کامرس پلیٹ فارم دراز نے ایک گروزری چینل ڈی مارٹ کا آغاز کیا ہے جو صارفین کو ضروری اشیاء کی وسیع رینج تک رسائی فراہم کرتا ہے۔



24 اپریل تک جاری رہنے والی ڈی مارٹ سیل کے دوران تمام مصنوعات رعایتی نرخوں پر پیش کی جا رہی ہیں۔ اس چینل میں ہینڈ واشز، ہینڈ سینی ٹائزرز، صابن، چائے، سیریل، بے بی فارمولہ، چائے کا پائوڈر، ڈیٹرجنٹ، اور سرفیس کلینرز شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ڈی مارٹ میں ڈی فریش سروس بھی شامل ہے جو کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دستیاب ہے جس کے ذریعے تازہ پھل اور سبزیاں براہ راست منڈی سے صارفین کو پہنچائی جاتی ہیں۔ سیل کے دوران صارفین کھانا پکانے کے لوازمات اور صحت مند اور خوبصورتی سے متعلق مصنوعات پر بیشتر خصوصی ڈیلز، بنڈل ڈیلز اور رعایت حاصل کر سکتے ہیں۔ دراز کے اندرونی اعداد و شمار پر مبنی نئے لانچ ہونے والے ای کامرس انڈیکس کے مطابق مارچ میں ایف ایم سی جیز کی طلب دوگنا ہوگئی جبکہ ہینڈ سینی ٹائزرز اور ہینڈ واشز کے آرڈرز میں 18 گنا اضافہ ہوا۔ دراز پاکستان کے ڈائریکٹر کمرشل عمران سلیم نے کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہم نے ایف ایم سی جی مصنوعات کی طلب میں اضافہ دیکھا ہے اور اس وقت ہماری ترجیح یہ ہے کہ نہ صرف وبائی مرض کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کے نتیجہ میں ہمارے صارفین کو ان کی بنیادی ضروریات زندگی تک رسائی حاصل ہو بلکہ ہم رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی اپنی رسائی کو بڑھا رہے ہیں۔ ہم ڈلیوری کو ہر ممکنہ حد تک محفوظ طریقے سے انجام دینے کے عمل کو یقینی بنانے کے لئے سخت اقدامات اٹھا رہے ہیں جس میں ہمارے صارفین کی صحت اور تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ دراز نے ملازمین اور صارفین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ویئرز ہائوسز اور حب پر سخت پروٹوکولز نافذ کئے ہیں۔ ملازمین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے درمیان زیادہ سے زیادہ فاصلہ برقرار رکھیں۔ علاوہ ازیں تمام اسٹاف ممبران کا ٹمپریچر ہر روز چیک کیا جاتا ہے اور ملازمین سے کہا گیا ہے کہ اگر انہیں اپنی صحت ٹھیک محسوس نہ ہو تو وہ گھر پر رہیں۔ پلیٹ فارم ڈلیوری ایجنٹس DEX ہیروز کو حفاظتی گیئر بشمول دستانے اور ماسکس فراہم کئے گئے ہیں اور ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صارفین کو ان کا سامان حوالے کرنے سے پہلے پیکٹس کو جراثیم کش کریں۔ 

سندھ حکومت کے خلاف بے بنیاد مہم کی مذمت کرتے ہیں، ایس ایم منیر

 وزیر اعلیٰ اورمرتضی وہاب کے فعال کردار پرخراج تحسین پیش کرتے ہیں، شیخ عمر ریحان 

کراچی(اسٹاف رپورٹر) کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری(کاٹی) کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم منیر، صدر شیخ عمر ریحان، چیئرمین و سی ای او کائٹ زبیر چھایا، سینئر نائب صدر محمد اکرام راجپوت اور نائب صدر سید واجد حسین نے حکومت سندھ کے خلاف صنعتیں کھلوانے کے لیے رشوت طلب کرنے جیسی گمراہ کُن افواہوں پر مبنی سوشل میڈیا پر جاری بے بنیاد اور گمراہ کُن مہم کی سخت مذمت کی ہے۔ ایس ایم منیر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے کورونا وائرس سے مقابلے اور اس بحران معاشی سرگرمیوں سے متعلق لائق تحسین کردار ادا کیا ہے، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے ہمیشہ صنعتوں کے تحفظات پر فوری اقدامات کیے ہیں۔ صدر کاٹی شیخ عمر ریحان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کی طرح پاکستان بھی اس وقت ایک انتہائی مشکل وقت سے گزر رہا ہے، ایسے حالات میں حکومت اور اس کے اداروں کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ پھیلانے والے عناصر ملک دشمن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے صنعت کاروں سے ہمیشہ تعاون کیا ہے اور کورونا وائرس کے بعد ہونے والے حالات میں ہمارے تحفظات اور تجاویز پر عمل درآمد بھی کیا ہے۔ صوبے میں کورونا وائرس وبا کی روک تھام اور معاشی سرگرمیاں بحال کرنے کے لیے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے جو مثالی کردار ادا کیا ہے اس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صنعتوں کے ایس او پی یا بندش کے حوالے سے جب صنعت کاروں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے ترجمان حکومت سندھ مرتضی وہاب نے فوری رابطہ کرکے انھیں دور کروانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ انہوں نے صنعت کار برادری سے اپیل کی کہ سندھ حکومت کے خلاف جاری کسی منفی پراپیگنڈے پر کان نہ دھریں، ہمیں جھوٹی اور گمراہ کُن اطلاعات پھیلانے والوں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور ایسے عناصر کے خلاف قانون کو حرکت میں آنا چاہیے۔ 

رمضان المبارک میں قیمتوں کو کنٹرول کے لیے مجسٹریٹ مقرر کیے جائیں

 صارفین یوٹیلیٹی اسٹورز پر کم قیمت اشیاء کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں

کراچی(اسٹاف رپورٹر) رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی منافع خور سرگرم ہوگئے انہیںنا ہی کرونا وائر سے ڈر و خوف ہے اور نہ ہی اللہ کے عذاب سے منافع خوری عروج پر ہے پورے سندھ خصوصاً حیدرآباد اور کراچی ڈویژن میں صارفین کی کہیں شنوائی نہیں اعزازی مجسٹریٹ مقرر کیئے جائیں کیونکہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن پرائس کنٹرول کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی یا وہ کرونا وائرس کو کنٹرول کرنے میں لگی ہے۔ یہ بات صارفین کی نمائندہ تنظیم کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین کوکب اقبال نے میڈیا کے نمائندوں سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کی آمد میں چند دن ہیں جبکہ ابھی تک کمشنر کراچی افتخار شلوانی کے آفس میں پرائس کنٹرول کرنے کے حوالے سے کوئی میٹنگ نہیں بلوائی گئی انہوں نے کہا کہ اجناس کی قیمتوں سمیت گائے ، بکرے اور پھل کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کردیا گیا ہے۔ کراچی سمیت پورے سندھ میں کسی بھی علاقے میں صارفین کو حکومتی نرخوں پر چیزیں دستیاب نہیں ہیں وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر بے شمار اشیاء پر اربوں کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا مگر ابھی تک صارفین یوٹیلیٹی اسٹورز پر کم قیمت اشیاء کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کی کم تعداد کی وجہ سے چیئرمین یوٹیلیٹی اسٹور نے کچھ دن پہلے یہ بتایا تھا کہ یوٹیلیٹی اسٹور کے موبائل یونٹ پورے پاکستان میں رمضان المبارک پر دی ہوئی سبسڈی اشیاء لیکر ہر علاقے میں جائینگے مگر ابھی تک ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آئی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صارفین کو رمضان پیکیج سے ریلیف حاسل ہوگا۔ کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین کوکب اقبال نے ایک سوال کے جواب میں بتایاکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تاجروں کے ساتھ تو مشاورت کرتی ہیں مگر ابھی تک صارفین کی نمائندہ تنظیم سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور صارفین کی دادرسی کیلئے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔کوکب اقبال نے مزید کہا کہ اب جب کے عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں انتہائی کم سطح پر آگئی ہیں تو حکومت کو چاہیئے کہ پیٹرول ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں کم از کم 70 فیصد کمی کرے تاکہ صارفین کو براہ راست فائدہ ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافہ ہوتا تھا حکومت فوری طور پر اضافہ کردیتی تھی مگر اب تنی تیزی اور پھرتی نہیں دیکھائی جارہی۔ کوکب اقبال نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی سے نہ صرف بجلی کی قیمتوں میں واقع کمی کی جانی چاہیئے بلکہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں خصوصاً ہوئی جہاز اور ٹرین کے کرایوں میں عالمی سطح پر کمی کے تناسب سے کمی کی جائے۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی حالیہ میں ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کے حوالے سے آرڈیننس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس بہترین آرڈیننس کے نفاز سے ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی ہوگی ضرورت اس امر کی ہے کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے اور ذخیرہ اندوزی آرڈیننس کے تحت قانونی کارروائی کی جائے۔ 


انہوں نے کہا کہ ٓرڈیننس کو پاس ہوئے کئی دن ہوچکے ہیں مگر ابھی تک پورے ملک میں کہیں پر بھی کوئی کارروائی دیکھائی نہیں دی ۔کوکب اقبال نے کہا کہ قوانین سازی ہوجاتی ہے مگر اس پر عمل درآمد ہی اصل مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی اور وفاقی سطح پرپرائس کنٹرول کیلئے ٹاسک فورس قائم کی، اسے مکمل اختیارات دیئے جائیں تاکہ پرائس کنٹرول کا مکنیزیم صحیح کام کرسکے۔ انہوں نے موجودہ نظام پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کچھ کارروائی صرف دیکھاوے کی حد تک کی جاتی ہے جب ہی منافع کور بے خوف و خطر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ مہینے سے لاک ڈائون کی وجہ سے غریب غریب تر ہوگیا اور جو سفید پوش تھے انکا بھی بھرم ٹوٹ گیا،ان کے پاس جمع پونجی ختم ہوگئی لوگوں کی قوت خرید ختم ہوگئی ہے۔ کوکب اقبال نے کہا کہ اب جبکہ دودھ کی ڈیمانڈ نچلی سطح پر آگئی ہے مارکیٹ میں ہول سیل کی قیمت تقریباً چودہ سو 1400روپے سے1600 روپے من پر آگئی ہے یعنی 40 روپے کلو سے 50روپے کلو تک دودھ فروخت کیا جاسکتا ہے مگر ان حالات میں بھی شہر کراچی میں دودھ کم از کم سو روپے اور کچھ دکانوں پر 110 روپے اعلان کے ساتھ فروخت ہورہا ہے جس کی اطلاع کمشنر کرچی اور ڈپٹی کمنشر کو واٹس ایپ کے ذریعے دوکانوں کی نشاندہی کرکے دی گئی مگر کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی اس کا مطلب ہے کہ منافع خوروں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور صارفین مجبوراً مہنگی اشیاء خریدنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے اپیل کی کہ وہ پرائس کنٹرول کمیٹی کا اجلاس طلب کریں تاکہ منافع خوروں کو لگام دی جاسکے۔

اے سی سی اے کی شفافیت کی فراہمی کیلئے ایکروئل اکاؤنٹنگ اختیار کرنے کا مشورہ

کراچی(اسٹاف رپورٹر) دی ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاؤنٹنٹس(اے سی سی اے) اورانٹرنیشنل فیڈریشن آف اکاؤنٹنٹس(آئی ایف اے سی) کی جاری کردہ مشترکہ رپورٹ حکومتوں پرزور دیا گیا ہے کہ وہ شہریوں کو شفافیت کی فراہمی کے لیے ایکرووئل اکاؤنٹنگ اختیار کر یں۔ ایک رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ پبلک سیکٹر کی ایکوروئل اکاؤنٹنگ( accrual account) پر منتقلی سے ہی عوامی مفاد ات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ میں 30 ایسی اہم سفارشات بھی شامل کی گئی ہیں جن پر عملدرآمد کے ذریعے ایکرووئل (accrual) پر عمل درآمد بہتر بنایا جا سکتاہے۔عمدہ فیصلہ کرنے کے لیے درست معلومات درکار ہوتی ہیں۔ سرکاری فیصلوں کے مالی اثرات بھی ہوتے ہیں، لہٰذا حکومتی سرگرمیوں کے حقیقی اقتصادی پہلوؤں کو سمجھنے سے فیصلوں کے معیار میں اضافہ کیا جا سکتاہے۔ رپورٹ میں اس بات کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے کہ سال 2023ء تک اپنی مالی حالت کی رپورٹنگ ایکروئلز (accruals) کی بنیاد پرکرنے والے ممالک کی تعداد 37 سے بڑھ کر98 ہو جائے گی، یعنی 25 فیصد سے بڑھ کر 65 فیصد ہو جائے گی۔ یہ تخمینہ 150 ممالک کا سروے کرنے کے بعد لگایاگیا ہے۔

دوکمپنیوں کے درمیان ہائی اسپیڈ براڈ بینڈ فراہم کرنے کا معاہدہ

کراچی(اسٹاف رپورٹر)یونیورسل سروس فنڈ (یو ایس ایف) نے کرم لاٹ (خیبر پختونخوا) میں ہائی اسپیڈ براڈ بینڈ فراہم کرنے کے لئے جاز کے ساتھ 92 ملین کا معاہدہ طے کیا ہے۔ وفاقی سیکرٹری آئی ٹی شعیب احمد صدیقی نے وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام میں منعقدہ ایک تقریب میں کرم (ایف آر کرم، لوئر کرم اور بالائی کرم کی تحصیل) میں پائیدار ترقیاتی منصوبے کے لئے نیکسٹ جنریشن براڈبینڈ کا افتتاح کیا۔ اس معاہدے پر سی ای او یونیورسل سروس فنڈ، حارث محمود چوہدری نے چیف کارپوریٹ اینڈ ریگولیٹری امور آفیسر جاز، سید فخر احمد نے دستخط کیے۔کرم میں اس منصوبے کے ذریعے 224 موضع میں براڈ بینڈ کوریج فراہم کی جائے گی جس کا رقبہ 2,980 مربع کلومیٹر ہے۔

ملازمین کی برطرفی روکنے کے لیے ا سٹیٹ بینک کا اعلان

 اضافی سہولتوں سے شرح میں مزید کمی، اجرتوں کی واپس ادائیگی آسان ہو گی

کراچی(اسٹاف رپورٹر)اسٹیٹ بینک نے 10 اپریل 2020 کو ’’کاروباری اداروں کے کارکنوں اور ملازمین کو اجرتوں اور تنخواہوں کی ادائیگی کی ری فنانس اسکیم ‘‘ کے عنوان سے ترغیباتی اسکیم کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت ان کاروباری اداورں کو پے رول فنانس کے لیے رعایتی قرضے فراہم کیے جائیں گے، جو یہ اقرار کریں کہ وہ اپنے ملازمین کو آئندہ تین مہینوں تک ملازمتوں سے نہیں برطرف نہیں کریں گے۔ اب اسٹیٹ بینک نے اسی اسکیم کے تحت ملک میں روزگار کو تقویت دینے اور برطرفیوں کو روکنے کے لیے مزید سہولتوں کا اعلان کیا ہے۔ ان اضافی سہولتوں میں ضمانت کے تقاضوں میں نرمی، حتمی صارف کی شرح میں مزید کمی، اجرتوں کی واپس ادائیگی، اجرتیں وصول کرنے کے لیے ملازمین کے خصوصی کھاتوں، پے رول برقرار رکھنے کے علاوہ بینکوں سے قرض لینے، ایس ایم ایز کے لیے درخواست فارم کو آسان بنانے اور بینکوں کے ایکسپوژرکی حد میں رعایت دینا شامل ہیں۔ یہ اضافی اقدامات فوری طور پر نافذالعمل ہوں گے۔ اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے فیڈبیک کی بنیاد پر وینڈرز اور ڈسٹری بیوٹرز سمیت ایس ایم ایز کو خاص طور پر سیکورٹی/ضمانت کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے اب بینکوں کو اجازت دی ہے کہ وہ قرض گیروں سے ویلیو/سپلائی چین روابط رکھنے والی کمپنیوں کی کارپوریٹ ضمانتوں پر فنانسنگ فراہم کریں، مزید برآں بینکوں کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے کہ وہ کسی ضمانت کے بغیر قرضے فراہم کریں یعنی 5 ملین روپے تک کا کلین ایکسپوژر لے سکتے ہیں۔اسٹیٹ بینک نے اسکیم کا دائرہ ایسے کاروباری اداروں تک وسیع کر دیا ہے جو فعال ٹیکس دہندگان ہیں اور ان کے لیے پہلے مقرر کی گئی مارک اپ شرح کو 4 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد کر دیا گیا ہے۔ اب اسٹیٹ بینک بینکوں کو صفر شرح پر ری فنانس فراہم کرے گا ، اس طرح فعال ٹیکس دہندگان اور ٹیکس نادہندگان کاروباری اداروں سے چارج کی جانے والی شرح کے فرق کو بڑھا دیا گیا ہے کیونکہ مؤخرالذکر سے 5 فیصد اینڈ یوزر مارک اپ ریٹ چارج کیا جا سکتا ہے۔اسکیم کے تحت ملازمین کو براہ راست اجرتیں وصول کرنے میں سہولت دینے کے لیے بینکوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ ان کے کھاتے آجرین کی جانب سے فراہم کردہ معلومات اور دستاویزات کی بنیاد پر کھولیں بشمول حلف نامہ جس میں یہ درج ہو کہ یہ افراد حقیقی ملازمین/کارکن ہیں۔ بینک ایسے کھاتوں کو فعال کرنے سے قبل نادرا سے ملازمین کی توثیق یقینی بنائیں گے، تاہم ان کھاتوں کو صرف تنخواہیں دینے اور نکالنے کے مقصد سے ہی استعمال کیا جاسکے گا۔کاروباری اداروں کو بھی سہولت دی گئی ہے کہ وہ کسی بھی بینک سے اسٹیٹ بینک کی ری فنانس اسکیم کے تحت قرضے حاصل کریں اور وہ بینکوں سے پے رول کا انتظام کرنے کے علاوہ دیگر قرضے بھی حاصل کر سکتے ہیں، مزید برآں کاروباری ادارے اپریل 2020 کے مہینے کی تنخواہوں کی رقم واپس حاصل کر سکیں گے جو انہوں نے اپنے مالی وسائل سے دی ہیں بشرطیکہ وہ رقم کی ادائیگی سے قبل فنانسنگ کے لیے درخواست دے چکے ہوں اور بعد ازاں بینک اس کی منظوری دیں۔ 


ایس ایم ایز اسکیم کے تحت اسٹیٹ بینک کے مجوزہ سادہ درخواست فارم پر فنانسنگ حاصل کرنے کی درخواست دے سکتے ہیں۔اسکیم کے تحت قرض دینے میں بینکوں کی مزید حوصلہ افزائی کے لیے اسکیم کے تحت بینکوں کے exposure کو فی فریق یا فی گروپ قرضی جاتی اکتشاف اس کی حد سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ اس طرح وہ ان قرض گیروں کو قرضے دے سکیں گے جو اپنی حدود استعمال کر چکے ہیں۔یہ تمام فوائد ایسے کاروباری اداورں کو بھی حاصل ہوں گے جو اسلامی بینکاری اداروں کی اسکیم کے تحت فنانسنگ سے استفادہ کر رہے ہیں۔

کراچی میںسخت لاک ڈاؤن کیوں؟ صنعتکار

صنعتکاروں کا، سندھ حکومت کی پالیسیوں پرکڑی تنقید ، متفقہ قراردار منظور کر لی ،زبیر موتی والا
اسمارٹ لاک ڈاؤن میں بدل کرتجارتی وصنعتی سرگرمیاں بحال کی جائیں، سلیمان چاؤلہ 
 ہنگامی اجلاس میں سینئر نائب صدر سلیم ناگریا، نائب صدر فرحان اشرفی، یونس ایم بشیر، جاوید بلوانی کی شرکت
طارق یوسف، سلیم پاریکھ، انور عزیز، عارف لاکھانی کے علاوہ صنعتکاروں نے بڑی تعداد ہنگامی اجلاس میں شرکت کی


کراچی(اسٹاف رپورٹر)سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے سرپرست زبیرموتی والا اور صدر سلیمان چاؤلہ نے کراچی کی تجارتی و صنعتی سرگرمیوں کی بحالی کے حوالے سے امتیازی سلوک پر احتجاج کیا ہے اورسندھ حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے موجودہ لاک ڈاؤن کو اسمارٹ لاک ڈاؤن میں تبدیل کرنے کی اپیل کی ہے۔ سائٹ ایسوسی ایشن کے صدرسلیمان چاؤلہ کی جانب سے موجودہ حالات میں صنعتوں کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کے لیے بلائے گئے ہنگامی اجلاس میں سینئر نائب صدر سلیم ناگریا، نائب صدر فرحان اشرفی، یونس ایم بشیر، جاوید بلوانی،طارق یوسف، سلیم پاریکھ، انور عزیز، عارف لاکھانی کے علاوہ صنعتکاروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ہنگامی اجلاس میں صنعتکاروںنے کاروبار وصنعتوں کی بندش پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور درپیش مسائل پر رائے دیتے ہوئے متفقہ طور پرقرار منظور کی جس میں سندھ حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤکو روکنے کے لیے جاری لاک ڈاؤن اور غیر یقینی صورتحال میں کراچی کی صنعتکار برادری کی مشکلات کو سمجھے اور موجودہ لاک ڈاؤن کو اسمارٹ لاک ڈاؤن میں تبدیل کرے تاکہ تجارتی وصنعتی سرگرمیاں بتدریج بحال ہوسکیں۔قرارداد میں سندھ حکومت سے مطالبہ کیا گیاکہ ایس او پیز پر عملدرآمد کے ساتھ تھوک فروشوں، ریٹیل مارکیٹوں کو کھولنے کی اجازت دی جائے اور ساتھ ہی تمام صنعتوں کو فوری طور پر پیداواری سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دی دے۔اجلاس میں صنعتکاروں نے حکومت کو باور کروایاکہ ملک کے دیگر حصوں کی نسبت کراچی کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہاہے کیونکہ صرف کراچی میں ہی سخت لاک ڈاؤن ہے۔

صنعتکاروں نے اس بات پر زور دیا کہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہو نے کوہے اور یہ تاجربرادری کے لیے کاروباری سرگرمیوں کے لحاظ سے سب سے اہم مہینہ ہوتا ہے کیونکہ ماہ رمضان میں کاروباری سرگرمیاں بند ہونے کا مطلب سال بھر کا نقصان ہے لہٰذ اکاروباری سرگرمیاں بدتریج بحال کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔قرارداد میںکارکنوں اور صنعتی ورکرز کو بے روزگاری سے بچانے کے لیے اسٹیٹ بینک کی ’’ ری فنانس اسکیم فار پیمنٹ آف ویجز اینڈ سیلریز ٹو دی ورکرز اینڈ ایمپلائز آف بزنس کنسرنس‘‘ کی طویل شرائط پر شدید تنقید کی گئی اور یہ بتایا گیا کہ 70فیصد کاروبار سود کی بنیاد پر نہیں چلائے جاتے لہٰذا یہ وقت کی ضرورت ہے کہ شرح سود صفر کیاجائے اور اور شرائط کی طویل فہرست کو ایک کیا جائے نیز بینکس بعداز تاریخ کے چیک بھی قبول کریں جس سے تاجربرادری کوفوائد حاصل ہوں گے۔

صنعتکاروں کو احتیاطی تدابیرپر سختی سے عمل کرنا ہو گا،ممتاز علی شاہ

 سیسی کے پاس دستیاب فنڈز کو ورکرز کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے وزیرمحنت سعید غنی سے رجوع کیا جائے
کے الیکٹرک کے یوٹلیٹی بلز اور سیسی، ای او بی آئی کی شراکت داری کو ایک سال کے لیے مؤخر کیا جائے، مجید عزیز

کراچی(اسٹاف رپورٹر)چیف سیکریٹری سندھ ممتاز علی شاہ نے کہاکہ سندھ حکومت کو فیکٹریوں کی بندش کے معاشی اثرات کا ادراک ہے اور وہ صنعتوں کو بتدریج کام کرنے کی اجازت دینے کے لیے پرعزم ہے تاہم صنعتکاروں کو یہ یقین دہانی کروانی ہوگی کہ وہ تمام طے کردہ احتیاطی تدابیر ( ایس او پیز ) پر سختی سے عمل کریں گے تاکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو ممکن حد تک روکا جاسکے۔ یہ بات انہوں نے ایمپلائز فیڈریشن آف پاکستان ( ای ایف پی ) کے صدر مجید عزیز، ای ایف پی کے ڈائریکٹر خالد جونیجو اور سیکریٹری جنرل فصیح الکریم سے اپنے دفتر میں ملاقات کے موقع پرتبادلہ خیال کرتے ہوئے میں کہی۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری عثمان چاچڑ،سیکریٹری محنت عبدالرشید سولنگی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ممتاز علی شاہ نے ای ایف پی کے صدر مجید عزیز کی جانب سے ورکر ویلفیئر فنڈز اور سیسی کے پاس دستیاب فنڈز کو ورکرز کی اجرت اور تنخواہوں کے لیے استعمال کرنے کے مطالبے کواہمیت دیتے ہوئے سیکریٹری محنت کو ہدایت کی کہ وہ اس حوالے سے ڈبلیو ڈبلیو ایف اور سیسی کے بورڈ کے ساتھ فوری اجلاس بلانے کے لیے وزیرمحنت سعید غنی سے تبادلہ خیال کریں اور سود سے پاک قرضے دینے کے طریقہ کار کو حتمی شکل دیں یا پھر ان فنڈز سے کم ازکم 50 فیصد سبسڈی دی جائے۔

چیف سیکریٹری نے مشکل کی اس گھڑی میں ای ایف پی کی جانب سے سوئی سدرن گیس، کے الیکٹرک کے یوٹلیٹی بلز اور سیسی، ای او بی آئی کی شراکت داری کو ایک سال کے لیے مؤخر کرنے کی تجویز کو سراہتے ہوئے کہاکہ ایسے وقت میں جب صنعتوں کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے حقیقتاً یہ ایک جائز مطالبہ ہے اور اس حوالے سے انہوں نے وفد کو یقین دہانی کروائی کہ وہ وفاقی حکومت سے صنعتوں کو ریلیف دینے کے لیے بات کریں گے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 55سال عمر کی حد انتظامیہ کے لیے نہیں بلکہ صرف ورکرز کے لیے ہے۔انہوں نے اس مطالبے سے بالکل اتفاق نہیں کیا کہ اقرار نامہ جس پر آجروں نے دستخط کرنا ہو اس شرط کو واپس لیا جانا چاہیے۔ممتاز شاہ نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ ایس ایم ایز کا استحکام برقرار رکھنے اور انہیں مالی بحران سے ہونے سے بچانے کے لیے مکمل تعاون کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں حکومت نے متعلقہ اقدامات کیے ہیں۔حکومت برآمدی صنعتوں سے جڑے کاروباری اداروں کو کام کرنے کی اجازت دینے کو ضروری سمجھتی ہے کیونکہ ان کے تیار کردہ سامان کی مسلسل فراہمی کے بغیر برآمدی صنعتیںنہیں چل سکتیں۔چیف سیکریٹری نے حالیہ بحران میں آجروں سے حکومت کی مدد کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہاکہ انہیں امیدہے کہ نجی شعبہ ملک کے بہتر ترین مفاد میں قانونی چارہ جوئی سے گریز کرے گا۔ انہوں نے موجودہ بحران کے دوران ای ایف پی کے مثبت کردار کو سراہتے ہوئے کہاکہ ان کا دفتر ای ایف پی کے ساتھ مستقل بنیاد پر مشاورت جاری رکھے گا۔

ایک سال کے لیے شرح سود کو صفرکردیا جائے،کراچی چیمبر

 پالیسی ریٹ موجودہ9.0 فیصد سے 4.0 فیصد پرلانے کا مطالبہ کردیا ،چھوٹے کاروبارکو ریسکیو پیکیج دیا جائے
 ڈاکٹر رضا باقر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ٹکڑوں میں پالیسی ریٹ میں کمی کے معیشت کو فوائدحاصل نہیں ہوگا،، آغا شہاب

کراچی(اسٹاف رپورٹر)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی ) کے صدر آغا شہاب احمد خان نے غیر معمولی حالات اور دنیا بھر میں جاری معاشی بحران کے مدنظر رکھتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک سے پالیسی ریٹ موجودہ9.0 فیصد سے کم کرکے 4.0 فیصد پرلانے کا مطالبہ کردیا کیونکہ عالمی اقتصادی بحران کے یقینی طور پر پاکستان کی معیشت پر بھی طویل عرصے تک منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔کے سی سی آئی کے صدر نے گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کو لکھے گئے ایک خط میں اس بات پر زور دیا کہ ٹکڑوں میں پالیسی ریٹ میں کمی کے معیشت کو مطلوبہ فوائدحاصل نہیں ہوپارہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ موجودہ غیرمعمولی بحران میں کاروباری اداروں کی مدد کرنے کے لیے شرح سود میں ایک ہی بار نمایاںکمی کردی جائے۔انہوں نے کہاکہ پالیسی ریٹ میں کمی کا اب کافی جواز موجود ہے کیونکہ خام تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی، اجناس اور خام مال کی قیمتیںکم ہونے اور مانگ بھی رکنے سے افراط زر میں بھی تیزی سے کمی آرہی ہے۔کے سی سی آئی کے صدر نے کرونا وائرس کے پھیلاؤکو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کے باعث مالی بحران ودیگر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اسٹیٹ بینک کی جانب سے صنعت وبرآمدکنندگان کی مدد کے اقدامات کو سراہاجبکہ فائلرز کے لیے 4 فیصد اور نان فائلرز کے لیے 5 فیصد شرح سود کے اقدام کی تعریف کرتے ہوئے تجویز دی کہ موجودہ سنگین صورتحال کے پیش نظر کم ازکم ایک سال کے لیے اس شرح سود کو صفرکردیا جائے تاکہ معیشت کا استحکام ممکن ہوسکے اور صنعتیں اپنی بقا قائم رکھ سکیں۔انہوں نے تاہم اس بات پر بھی زور دیا کہ چھوٹے کاروباری اداروں اور ایس ایم ایز کو تباہی سے بچانے کے لیے ریلیف پیکیج کی انتہائی ضرورت ہے جن کی جی ڈی پی میں شراکت40 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ بدقسمتی سے چھوٹے کاروباری اداروں اور ایس ایم ایز کے لیے اب تک ریلیف کا اعلان نہیں کیا گیا جو بڑے پیمانے کے کاروبار کے مقابلے میںشدید مالی بحران کا شکار ہیں اور ان کی بقا کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔انہوں نے کہاکہ قرضوں کے حصول کے لیے نچلی سطح پر اور چھوٹے کاروباری اداروں کے بینکوں کے ساتھ تعلقات کچھ خاص نہیں ہوتے اور ان کے وسائل بھی انتہائی محدود ہیں اس کے باوجود یہ شعبہ بڑی تعداد میں ہنر مند اور غیر ہنر مند افراد کو روزگار فراہم کررہاہے۔ سپلائی چین کی اہم کڑی ہونے کی وجہ سے ایس ایم ایز کی مدد بہت ضروری ہےجو اپنی بقا قائم رکھنے کی جدوجہد تو کررہے ہیں تاہم انہیں مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے ورکرز کو نکال دیں لہٰذا اس طرح کے شعبوں کو دیگر شعبوں کی نسبت زیادہ مدد اور بچانے کی ضرورت ہے۔انہوںنے اسٹیٹ بینک سے درخواست کی کہ ایس ایم ایز کی مدد کے لیے خصوصی ریسکیو پیکیج ترتیب دیا جائے اور کمرشل بینکوں کے ذریعے ایک لاکھ سے پندرہ لاکھ تک قرضے دیے جائیں۔ اس ریسکیو پیکیج کے تحت شرح سود صفر ہونا چاہیے اور ضرورت سے زیادہ دستاویزات طلب کئے بغیر فوری قرضوں کی فراہمی یقینی بنانا چاہیے۔بینکوں کو صرف مالک کے شناختی کارڈ کی ضرورت ہونی چاہیے اورکاروباری مقام کے تصدیق کی جانی چاہیے۔بینکوں کو کسی بھی قسم کی ضمانت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے اور ذاتی ضمانت پر قرضوں کی منظوری دینی چاہیے۔آغا شہاب نے درآمدکنندگان کی حالت زار اور مشکلات کو اجاگر کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ لاک ڈاؤن اور مارکیٹوں کی بندش کی وجہ سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران پوری سپلائی چین کی وصولیاں رک گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں درآمدکنندگان کو سرمائے کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ بینکوں کو ادائیگیوں کے کے درآمدی دستاویزات کو ریٹائر کروانے اور بندرگاہوں سے درآمدی کنسائمنٹس کلیئر کراوانے سے قاصر ہیں۔ وہ درآمدی مرحلے پر ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتے۔ درآمدی مال کے ہزاروں کنٹینرز بندرگاہ پر پڑے ہیںجن پر بھاری بھرکم پورٹ چارجز اور ڈیمرج لگ رہا ہے۔انہوں نے خدشے ظاہر کیا کہ اگر موجودہ صورتحال برقرا رہی تو درآمدکنندگان کی بڑی تعداد دیوالیہ ہوجائے گی اور وہ قومی خزانے کو واجب الادا ٹیکس اور ڈیوٹیز بھی جمع نہیں ہوسکیںگی۔ درآمدی مال کا بیشتر حصہ صنعت اور برآمدکنندگان کا ہے جس میں خام مال اور ضروری سامان ہے۔کے سی سی آئی کے صدر نے گورنر اسٹیٹ بینک سے درخواست کی کہ تمام درآمدکنندگان کو ری فنانس اسکیم کے تحت فوری طور پر ریلیف فراہم کیا جائے۔ درآمدی بل جو واجب لادا ہیں اس کے لیے اسٹیٹ بینک کے ذریعے ایک سال کی مدت تک 4فیصد کی شرح سود پر مالی اعانت فراہم کی جاسکتی ہے۔کمرشل بینکوں کو درآمدی مال کی ضمانت پر غیر ملکی سپلائز کو درآمدی بلوں کی ادائیگی کا اختیار دیا جاسکتا ہے۔ بینکوںکو یہ ہدایت بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی ادائیگی کے لیے 4فیصد کی شرح پر رننگ فنانس کو منظورکریں۔آغا شہاب نے کہاکہ ان اقدامات سے درآمدکنندگان کو بندرگاہ پر رکھے مال کو کلیئر کروانے اور بھاری بھرکم پورٹ چارجز کی ادائیگی میں مدد ملے گی۔موجودہ غیر معمولی حالات میں چھوٹے کاروباری ادارے،ایس ایم ایز اور درآمدکنندگان کو بچانا بہت ضروری ہے جو سپلائی چین کا لازمی حصہ ہیں اور مقامی صنعتوں، تھوک فروشوں، ریٹیل مارکیٹوں سمیت برآمدکنندگان کو سپورٹ کرتے ہیں۔

Tuesday, April 14, 2020

استقبال رمضان


Ramadan Clipart - Free Clip Art Images - FreeClipart.pw | Ramadan ...
تحریر: مریم صدیقی، کراچی

ماہ رمضان کی آمدکے ساتھ ہی عموما استقبال رمضان کے کلمات سن کر جو ذہن میں ایک خاکہ تیار ہوتا ہے وہ اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے ہوتا ہے۔ خواتین کی بات کریں تو نت نئی ریسیپیز اور مختلف پکوان بنانے کے حوالے سے تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں۔ کیامعاشرے میں رائج استقبال رمضان کا یہ طریقہ درست ہے؟ کیا ماہ رمضان کا استقبال ایسا ہی ہونا چاہیے؟ کیا یہ ماہ رحمت اسی لیے آتا ہے کہ اسے بازاروں میں شاپنگ کرتے اور انواع و اقسام کے کھانے پکاکر گزارا جائے۔ یہ ماہ مبارک سال میں فقط ایک بار آتا ہے اور خوش نصیب ہے وہ شخص جو اس ماہ کو پائے اور اللہ تبارک و تعالی کو راضی کرلے۔
نبی اکرم ﷺ پورے سال اس ماہ کا انتظار فرماتے۔ آپﷺ رجب کے مہینے سے اپنی دعاو ¿ں میں اس کا اضافہ فرماتے کہ، ”اے اللہ! ہمارے لیے رجب و شعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان کے مہینے تک ہمیں پہنچا۔ (مسند احمد:2257) آپﷺ یہ دعا بھی فرماتے تھے، ”اے اللہ! مجھے رمضان کے لیے اور رمضان کو میرے لیے صحیح سالم رکھیے اور رمضان کو میرے لیے سلامتی کے ساتھ قبولیت کا ذریعہ بنادیجیے۔ (الدعاءالطبرانی، حدیث نمبر:839) 





ماہ صیام کا استقبال نہ صرف نبی اکرم ﷺ خود فرمایا کرتے بلکہ اپنے اہل و عیال اور صحابہ کرام ؓ کو بھی تلقین فرماتے۔ ماہ رمضان اسلامی سن ہجری کانواں مہینہ ہے۔ اس کو ”سید الشہور“ یعنی تمام مہینوں کا سردار بھی کہا گیا ہے۔ یہ مہینہ بے شمار برکات کا مہینہ ہے۔ یہی وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا اور اسی ماہ کے روزے مسلمانوں پر فرض کیے گئے۔ جس کا ذکر رب تبارک و تعالی نے قرآن کریم میں یوں فرمایا، ”رمضان کا مہینہ، جس میں قرآن اترا، لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں، تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو، تو اتنے روزے اور دنوں میں۔ اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرواور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو“۔ (پ 2، سورة البقرہ، آیت (185 رمضان المبارک کا مہینہ وہ تحفہ الہی ہے جو اس نے امت محمدیہ کو عطا کرکے ان پر احسان عظیم کیا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہر نیکی اور عبادت کا ثواب بڑھا کر ستر گنا کردیا جاتا ہے۔
ماہ رمضان جس کی ہرساعت میں اللہ کریم نہ جانے کتنے گناہ گاروںکو جہنم سے آزادی عطا فرماتا ہے۔ روزہ اللہ کی پسندیدہ ترین باطنی عبادت ہے کیوں کہ انسان صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے ہی حلال اور طیب اشیاءسے خود کو روکے رکھتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزاءبھی میں ہی دوں گا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا، ”تمہارا رب فرماتا ہے کہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے اور روزہ کی عبادت تو خاص طورپر میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزاءدوں گا یا میں خود اس کا بدلہ ہوں“۔ (ترمذی۔ ابواب الصوم)
لیکن ہم اس سنہر ی موقع کو بھی غفلت میں گزار دیتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں تو بھی برائے نام، وقت گزاری کے لیے فلموں ڈراموں اور گانے باجوں سے دل بہلاتے ہیں۔ گویا روزے میں فقط کھانے پینے سے رکنا مقصود ہو۔ روزے کا مقصد تقوی کا حصول اور تزکیہ نفس ہے لیکن جب یہ روزہ لہو و لعب میں گزرے گا تو اس کا مقصد کیوں کر حاصل ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ”جو بری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اس کا بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ کو حاجت نہیں“۔ (صحیح بخاری، جلد:2، ص: (279 معلوم ہوا کہ روزہ صرف فاقہ کرنے کا نام نہیں بلکہ تمام اعمال بد سے رکنے کا نام ہے۔ یہ تیس ایا م کے روزے انسان کو پورے سال صبراور تحمل سے رہنے کا درس دیتے ہیں۔ لغو اور بری عادات سے چھٹکار ا دلانے میں معاونت کرتے ہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ: ”جو بندہ خدا کی راہ میں ایک دن روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے سے آگ دور کردیتاہے“۔ (صحیح مسلم و ابن ماجہ) روزہ اس کے تمام آداب کے ساتھ رکھا جائے تو اس کا اجر اللہ تعالی ہمارے گمان سے بھی کہیں زیادہ عطا فرمائے گا۔
زکوة یوں تو سارا سال ادا کی جاسکتی ہے لیکن چوں کہ رمضان المبارک میں ہر نیکی کا ثواب بڑھادیا جاتا ہے تو عموما لوگ اس ماہ میں ہی زکوة ادا کرتے ہیں۔ کوشش کریں کہ اپنی زکوة ماہ رمضان کے پہلے عشرے میں ہی ادا کردیں تاکہ مستحقین اپنے رمضان اور عید کا اہتمام مناسب انداز سے کرسکیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اگلے سال جب ماہ رمضان آئے گا تو ہم اس کی رحمتیں اوربرکتیں اپنے دامن میں سمیٹنے کے لیے موجود ہوں گے بھی کہ نہیں۔ اس لیے ہمیںجو موقع میسر ہے اسے غفلت کی نذر نہ کرتے ہوئے اس ماہ رمضان عبادات کا اہتمام کرنا چاہیے، غریب اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔ حسب توفیق صدقات کرکے رضائے الہی حاصل کرنے کی تگ و دو کرنی چاہیے۔





اس ماہ مبارک میں رب تعالی کے حضور خصوصی دعا کیجیے کہ وہ ہمیں اس عالمی وبا سے نجات عطا فرمائے۔ یہ وبا جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے اپنوں کو نگل رہی ہے اور عالم تو یہ ہے کہ ہم کوئی دلاسہ کوئی تسلی کے دو حروف ان کو نہیں دے سکتے۔ یہ وبا ہے جو نہ امیر غریب دیکھ رہی ہے نہ بچہ بوڑھا۔ ہمیں اس کے شر و آفت سے فقط خدائے پروردگار کی رحمت محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اس ماہ مبارک میں اپنے رب کو منالیجیے، گڑگڑا کر، ہاتھ اٹھا کر، سجدے میں گر کر، رو رو کر اس کی رضا طلب کرنی چاہیے تاکہ وہ ہمارے اعمال کے سبب آنے والی اس آزمائش کو ہم سے دور فرمادے۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین