میں نے ان سے پوچھا’’ خواجہ صاحب پورا عالم اسلام زوال کاکیوں شکار ہے ، ہم دنیا کے ہر کونے، ہر خطے میں مار کھا رہے ہیں‘‘ خواجہ صاحب مسکرائے اور ذرا سے توقف سے بولے’’ فرعونیت کی وجہ سے ‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا، ، انہوں نے فرمایا’’ فرعون کے بے شمارمعانی ہیں، ان معنوں میں ایک مطلب بڑے گھر والا بھی ہوتا ہے ، فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا، اس کی اس جسارت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے ناپسند فرمایا ‘جب اللہ تعالیٰ کسی کو ناپسند فرماتے ہیں تو وہ اس شخص کی ہر ادا ، ہر عادت کو خرابی بنا دیتے ہیں اور آنے والے زمانوں میں جو بھی شخص اللہ کے اس مشرک کی پیروی کرتا ہے ، جو بھی اس کی عادات اپناتا ہے اللہ اسے بھی اس زوال، اس انجام کا شکار بنا دیتا ہے ‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا، انہوں نے فرمایا’’ فراعین مصر کو بلند و بالا اور وسیع و عریض عمارتیں بنانے کا شوق تھا، ان کا خیال تھا محلات، دربار، قلعے اور دروازے طاقت اور اختیار کی علامت ہوتے ہیں ، اگر انہوں نے خود کو خدا ثابت کرنا ہے تو انہیں پہاڑوں سے بلند عمارتیں بنانی چاہیں چنانچہ وہ اس خبط میں مبتلا ہو گئے‘‘ وہ ذرا دیر کیلئے رکے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اس کے بعد بولے’’ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے لئے دنیا کی سب سے بڑی قبریں تیار کیں، آپ اہرام مصر دیکھیں، یہ کیا ہیں یہ وسیع و عریض قبریں ہیں، سائنس آج تک حیران ہے یہ لوگ اتنے بڑے بڑے پتھر کہاں سے لائے، انہوں نے یہ پتھر ایک دوسرے کے ساتھ کیسے جوڑے اوران لوگوں نے کرینوں کے بغیر یہ پتھر ایک دوسرے کے ا وپر کیسے رکھے، یہ مقبرے دراصل ان کی سوچ اور فکر کے آئینہ دار ہیں ،یہ ثابت کرتے ہیں فرعون حقیقتاً بڑے گھروں والے لوگ تھے اور وہ اپنے بڑے بڑے گھروں، قلعوں اور قبروں سے خود کو خدا ثابت کرنا چاہتے تھے‘‘۔ خواجہ صاحب مکمل طور پر خاموش ہو گئے۔میں نے عرض کیا’’ لیکن فرعون کے گھروں کا ہمارے زوال کے ساتھ کیا تعلق ‘‘ وہ مسکرائے’’ بڑاگہر ا تعلق ہے ، فرعون اللہ کا دشمن تھا اوراللہ اپنے دشمن کی عادتوں کو پسند نہیں کرتا چنانچہ دنیا کے تمام بڑے گھروں والے لوگ جلد یا بدیر فرعون جیسے انجام کا شکار ہوتے ہیں، وہ ، ان کی خدائی اور ان کے بڑے بڑے گھر زوال کا شکار ہو جاتے ہیں‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا ، وہ بولے’’تم دنیا میں ترقی اورپستی پانے والے لوگوں ، معاشروں ، قوموں اور ملکوں کا جائزہ لو تو تمہیں چھوٹے گھروں،چھوٹے دفتروں اورچھوٹی گاڑیوں والے لوگ، ملک اورمعاشرے ترقی پاتے نظر آئیں گے جبکہ ہر وہ ملک جس کے بادشاہ، حکمران، وزیر، مشیر ، بیوروکریٹس اور تاجر بڑے گھروں، بڑے دفتروں میں رہتے ہیں وہ ملک وہ معاشرہ زوال پذیرہوگا‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا، انہوں نے فرمایا’’پورا عالم اسلام بڑے گھروں کے خبط میں مبتلا ہے، اس وقت دنیا کا سب سے بڑا محل برونائی کے سلطان کے پاس ہے ، عرب میں سینکڑوں ہزاروں محلات ہیں اور ان محلات میں سونے اورچاندی کی دیواریں ہیں، اسلامی دنیا اس وقت قیمتی اور مہنگی گاڑیوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے ‘‘ وہ خاموش ہوئے،ذرا دیر سوچا اور پھر بولے’’ تم پاکستان کو دیکھو، تم ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز، کور کمانڈر ہاؤسز، آئی جی ، ڈی آئی جی ہاؤسز، ڈی سی اوز ہاؤس اور سرکاری گیسٹ ہاؤسز کو دیکھو، یہ سب کیا ہیں؟ یہ سب بڑے گھر ہیں، پاکستان کے ایک ضلع میں18ویں گریڈ کے ایک سرکاری عہدیدار کا گھر106کنال پر مشتمل ہے، اسلام آباد کے وزیراعظم ہاؤس کا رقبہ قائد اعظم یونیورسٹی کے مجموعی رقبے سے چار گنا ہے، لاہور کا گورنر ہاؤس پنجاب یونیورسٹی سے بڑا ہے اورایوان صدر کا سالانہ خرچ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہے ‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا’’ تم لوگ اپنے حکمرانوں کے دفتر دیکھو، ان کی شان و شوکت دیکھو، ان کے اخراجات اور عملہ دیکھو، کیا یہ سب فرعونیت نہیں، کیا اس سارے تام جھام کے بعد بھی اللہ تعالیٰ ہم سے راضی رہے گا جبکہ اس کے برعکس تم دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کا لائف سٹائل دیکھو، بل گیٹس دنیا کا امیر ترین شخص ہے دنیا میں صرف18 ممالک ایسے ہیں جو دولت میں بل گیٹس سے امیر ہیں باقی192 ممالک اس سے کہیں غریب ہیں لیکن یہ شخص اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا ہے ، وہ اپنے برتن خود دھوتا ہے ، وہ سال میں ایک دو مرتبہ ٹائی لگاتا ہے اور اس کا دفتر مائیکروسافٹ کے کلرکوں سے بڑا نہیں، وارن بفٹ دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص ہے اس کے پاس 50برس پرانا اورچھوٹا گھر ہے ، اس کے پاس 1980ء کی گاڑی ہے اور وہ روز کوکا کولا کے ڈبے سٹورز پر سپلائی کرتا ہے ، برطانیہ کے وزیراعظم کے پاس دو بیڈروم کا گھر ہے ، جرمنی کی چانسلر کو سرکاری طور پر ایک بیڈ روم اور ایک چھوٹا سا ڈرائنگ روم ملا ہے ، اسرائیل کا وزیراعظم دنیا کے سب سے چھوٹے گھر میں رہ رہا ہے ، اس کی بجلی تک کٹ جاتی ہے ، بل کلنٹن کو لیونسکی کیس کے دوران کورٹ فیس ادا کرنے کے لئے دوستوں سے ادھار لینا پڑا تھا، وائیٹ ہاؤس کے صرف دو کمرے صدر کے استعمال میں ہیں، اوول آفس میں صرف چارکرسیوں کی گنجائش ہے اور جاپان کے وزیراعظم کو شام چاربجے کے بعد سرکاری گاڑی کی سہولت حاصل نہیں چنانچہ تم دیکھ لو چھوٹے گھروں والے یہ لوگ ہم جیسے بڑے گھروں والے لوگوں پر حکمرانی کررہے ہیں، یہ آگے بڑھ رہے ہیں اور ہم دن رات پیچھے جا رہے ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔میں نے عرض کیا’’گویا آپ کا فرمانا ہے ہم ترقی نہیں کر سکتے ؟‘‘ انہوں نے غور سے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر بولے’’ ہاں جب تک ہم فرعون کے دربار سے نکل کر موسیٰؑ کے خاک ساروں میں شامل نہیں ہوتے ، جب تک ہم بڑے گھروں سے نقل مکانی کر کے چھوٹے گھروں میں نہیں آتے اور جب تک ہم قلعوں، ایوانوں اور محلوں سے نکل کر مکانوں، گھروں اور فلیٹوں میں شامل نہیں ہوتے ‘ہم اس وقت تک ترقی نہیں کریں گے، ہم اس وقت تک بڑی قوم نہیں بنیں گے‘‘ وہ رکے ، انہوں نے کچھ سوچا اور مسکرا کر بولے ’’اللہ نے جو قانون اپنے نبیوں کیلئے نہیں بدلہ تھا وہ یہ قاعدہ ہمارے لئے کیوں تبدیل کرے گا‘‘۔
0 comments:
Post a Comment