March 2017 ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Thursday, March 30, 2017

Cars submerged in flood waters on the Gold Coast

Monday, March 27, 2017

A Beauty full lovely girl


me when I get dragged to a party I ain't wanna go to but I still end up ...

Me listening to Khalid

Saturday, March 25, 2017

Friday, March 24, 2017

Chief of Air Staff, Air Chief Marshall Suhail Aman leading

F-16 display excites the audience at the Pakistan Day flypast held in Ka...

World's tallest building Burj al Khalifa illuminated in Pakistani nation...

Wednesday, March 22, 2017

U.S. and U.K. Issue Bans on Most Devices on Flights from Some Airports

Kidnap Attempt Caught On Camera

Saturday, March 18, 2017

Morad Ali Sha Says I'm not Know About Farooq Sattar

Moula Mera Ve Ghar In Female Voice

Friday, March 17, 2017

نکاح اور جنازہ



شادی اور جنازہ میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ایک نظم میں خوبصورتی کا ساتھ منظر کشی کی گئی ہے ۔
فرق صرف اتنا سا تھا
فرق صرف اتنا سا تھا
تیری ڈولی اٹھی
میری میت اٹھی
پھول تجھ پہ برسے،
پھول مجھ پر بھی برسے
فرق صرف اتنا سا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو سج گئی!
مجھے سجایا گیا
تو بھی گھر کو چلی
میں بھی گھر کو چلا
فرق صرف اتنا سا تھا
تو اٹھ کے گئی
مجھے اٹھایا گیا 
محفل وہاں بھی تھی
لوگ یہاں بھی تھے
فرق صرف اتنا ہے
ان کو ہنسنا وہاں
ان کو رونا یہاں
قاضی ادھر بھی تھا
مولوی ادھر بھی تھا
دو بول تیرے پڑھے
دو بول میرے پڑھے
تیرا نکاح پڑھا
میرا جنازہ پڑھا
فرق صرف اتنا سا تھا۔
تجھے اپنایا گیا
مجھے دفنایا
موت کی فکر نہ کرتا تھا۔۔۔۔
گناہ کو گناہ نہ سمجھتا تھا
دل چاہتا تھا کہ پڑھوں نماز
پر مسجد تک،  جسم نہ لے جاتا تھا۔
دنیا کی رونق میں مگن تھا۔
وقت دوستی میں  برباد کرتا تھا۔
پر ایک دن اچانک اندھیرا چھا گیا
آنکھ کھلی تو خود کو قبر میں پایا
پھر اللہ نے پوچھا، کہ کیا لے کر آیا۔
گھر جانا چاہا لیکن جا نہ پایا۔
قبر کی تنہائی نے بہت ڈرایا ۔
آواز دی اپنوں کو تو کوئی نہ آیا
وقت ہے سنبھل جا؟
قرآن کا ایک رکوع روزانا پڑھنے سے سال میں تین قرآن مکمل ہو جاتے ہیں ۔
جب آپ اس پیغام کو آگے بھیجنے لگیں گے تو شیطان آپ کو روکے گا ۔
????????
یہ سوالیہ نشان ہے
دیکھتے ہیں، آپ کیا کرتے ہیں ۔
ایک سیکنڈ نہ سوچیں۔ صرف کاپی اور پیسٹ کر کے اپنے تمام نمبرز کو بھیج دیں۔۔
۔

Thursday, March 16, 2017

Mardum shomaray 2017 Census staff can fill out the form pencil.

Wednesday, March 15, 2017

رات کو سونے سے پہلے ایک مچھر کو ضرور مار دیا کرو (Night so must killed a mosquito before bedtime)

رات کو سونے سے پہلے ایک مچھر کو ضرور مار دیا کرو
کیوں کہ
باقی سارے مچھر اس کے جنازے پر چلے جائیں اورآپ مزے سے سو جائیں گے

Night so must killed a mosquito before bedtime 

because

The rest of the mosquito go to the funeral and you'll be sleeping with relish

Veiled Muslim girl View 10 heroism of the young gangsters saving crusade

رخسار کا پتہ نہیں آنکھیں تو خوب ہیںدرشن ابھی نقاب سے آگے بڑھے نہیں  💕




رخسار کا پتہ نہیں آنکھیں تو خوب ہیں
درشن ابھی نقاب سے آگے بڑھے نہیں  💕

Tuesday, March 14, 2017

Brilliant Laugh

Amazing ౩d drowning

Monday, March 13, 2017

جہانگیر کا گھناونا کردار تاریخ کے کچھ اوراق



۱۹۸۳ء میں مشتاق راج نامی ایڈووکیٹ، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ قادیانی ہے، نے 'آفاقی اشتمالیت' کے نام سے کتاب تحریر کی۔ اس کتاب میں انبیائے کرام علیہم السلام کی ذواتِ مقدسہ کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی اور انتہا یہ کہ حضور رسالت مآب ﷺ کی شانِ اقدس میں بھی گستاخانہ جسارت کی گئی تھی۔ ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قرار داد کے نتیجے میں حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرنے کے احکامات جاری کئے۔ مشتاق راج کے خلاف توہین مذہب کے جرم میں زیر دفعہ ۲۹۵۔ الف تعزیراتِ پاکستان مقدمہ درج کر لیا گیا، کیونکہ تعزیراتِ پاکستان میں 'توہین ِرسالت' جیسے سنگین اور انتہائی دل آزار جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی۔ اسی لئے مشتاق راج کی گرفتاری عمل میں نہ آئی جس سے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ تمام اسلامی مکاتب ِ فکر کے علماء اور ممتاز قانون دانوں نے کانفرنس منعقد کی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اسلام میں توہین رسالت کی سز ا ، سزائے موت مقرر کی جائے!
مشتاق راج کی گستاخانہ جسارت کے خلاف مسلمانوں کے جذبات ابھی گرم ہی تھے کہ عاصمہ جہانگیر کی طرف سے ۱۷؍مئی کو پیغمبر اسلام کی شان میں سخت بے ادبی کا مذموم واقعہ پیش آیا۔اس حیا باختہ عورت نے معلم انسانیت ﷺ کو (اس کی منہ میں خاک)'اَن پڑھ' کہہ دیا۔ یہ ہفواتی بکواس عاصمہ نے افرنگ زدہ،آوارگی ٔ نسواں کی علمبردار عورتوں کے اسلام آباد میں منعقد کردہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کی۔ روزنامہ جسارت کی رپورٹ کے مطابق :
'خواتین محاذِ عمل اسلا م آباد کے ایک جلسے میں صورتِ حال اس وقت سنگین ہو گئی، جب ایک خاتون مقرر عاصمہ جیلانی نے شریعت بل کیخلاف تقریر کرتے ہوئے سرورِ کائنات ﷺ کے بارے میں غیر محتاط زبان استعمال کی۔
اس پر ایک مقامی وکیل نے احتجاج کیا اورکہا کہ رسولِؐ خداکے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔جس پر دونوں کے درمیان تلخی ہو گئی اور جلسے کی فضا کشیدہ ہو گئی۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنی تقریر میں 'تعلیم سے نابلد' اور 'ان پڑھ' کے الفاظ استعمال کیے تھے۔'' (جسارت ،کراچی ۱۸؍مئی ۱۹۸۴ء)
عاصمہ جہانگیر ا س وقت عاصمہ جیلانی کہلاتی تھی۔ اس سیاہ بخت عاصمہ ڑی نے محسن انسانیت ﷺ کے لیے جان بوجھ کر وہی لفظ استعمال کیا جو یورپی مستشرقین، اسلام او ر پیغمبر اسلام ﷺ کی تحقیر اور اہانت کی غرض سے جان بوجھ کر استعمال کرتے ہیں۔جس سیمینار میں عاصمہ ڑی نے یہ الفاظ ادا کیے، وہ شریعت بل کی مخالفت میں ہو رہا تھا ا ور ظاہر ہے ایسی مخالفانہ فضا میں ان الفاظ کی کوئی دوسری تاویل یا تعبیر نہیں کی جاسکتی۔ اور نہ ہی سیمینار کے حاضرین کے مطابق عاصمہ ڑی کی تقریر کاسیاق وسباق ایسا تھا جس میں اس کا کوئی اور مفہوم لیا جاسکتا ہو۔ اس سیمینار میں سب 'پڑھے لکھے'. لوگ تھے۔۔                       ابھی پچھلے ہفتے ایک بار پھر اسلام کے مقدس نام پر قائم ھمارے دارالخلافے اسلام آباد کی سب سے بڑی عدالت عالیہ میں اس عاصمہ جہانگیر بدبخت نےعدالت عالیہ کے احاطے میں چیف جسٹس شوکت صدیقی کونہ صرف کو سخت برا بھلا کہا، بلکہ مسلمانوں کی مقدس ترین عبادت گاہ مسجد کو بھی غلط مفہوم میں استعمال کیا حد تو یہ کہ وہاں موجود مسلمان وکلاء نے خاموشی سے سن بھی لیا اور افسوس کہ نہ تو عدالت عالیہ نے کوئی سوموٹو ایکشن لیا نا ہی معزز مسلمان وکلاء نےکوئی پٹیشن داخل کی اور دکھ اس بات کا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پربڑے بڑے مظاہرے کرنےوالی اسلامی و سیاسی جماعتوں کی خاموشی  بھی سمجھ سے بالاتر افسوس اس واقعے کے وقت کوئی ترکھان کا بیٹا غازی علم الدین شہید تھا ، نہ ہی کو ئی ممتاز قادری یا تنویر عطاری، جو اس گستاخِ رسول  عورت نما خسرے عاصمہ ڑی کی زبان کو بند کرانے کے لیے عملی اقدام کر گزرتا۔۔ ....................
لوگوں نہیں  نہیں یہ ھر آدمی کا کام نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ عاشقوں............... اب وقت آگیا ھے کہ ھم میں سے ھر شخص جو سچّاعاشق رسول صلی علیہ وآلہ وسلم ھونے کا دعوے دار ھے ھم میں سے ھرعاشق ایک خط نوازشریف ایک خط صدر ممنون اور ایک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے کہ عاصمہ جہانگیر قادیانی اور گستاخ بلاگرز کے خلاف فوری ایکشن لے لیں اور صاف صاف کھلے لفظوں میں ان ذمہ داروں کولکھا جائے کہ یا آپ خود کاروائی کریں یا پھر عوام کو کاروائی کا اختیار دےدیں ھم ایک ھفتے میں بھینسہ گروپ کو بھوسہ اور موم بتی گروپ کی میک اپ زدہ وطن دشمن آنٹیز کاجسم ، دماغ انکی اپنی پسندیدہ این جی او مینٹل ھسپتال کے ذریعے درست کراکے ان کے پریشان شوہروں کو درستئی  اخلاق کا میڈیکل فٹ نیس سرٹیفیکٹ بھی فراھم کرنے کی پوری کوشش کرینگے ۔۔    ھم اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق ہیں اور پیروکار  ھیں گستاخوں کے سر قلم کرنے والوں کے........ خاصں کر موجودہ دور کے ملک ممتاز حسین قادری شہید اور غازی تنویر قادری کے .........اگر ھمارے پیارےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس پرکسی نے بھی، کسی طرح کی گستاخی کی اور اسکو ذمہ دار حکمرانوں نے سزا نہ دی تو ھم پھر وہی کرینگے جو صحابہ رضی اتعالیٰ عنہ کرتے رہے یعنی....................
"گستاخ رسول کی ایک سزا  سر تن سے جدا سر تن سے جدا

Sunday, March 12, 2017

چکن گونیا (Chikengonya)

"چکن گونیا (Chikengonya) نامی وائرس سے پھیلنے والا بخار جس میں جوڑوں اور ھڈیوں میں درد کی شفا کیلئے نیم گرم پانی میں لاہوری نمک حل کرکے دیر تک سکائی یا غُسل کریں اور دو انجیر روز کھائیں تین سے چار روز میں یہ وائرس بخار ختم ھو رھا ھے.."
صدقہ جاریہ کےطور پر شئیرکیجئے...
Talub E Dua
M Zeeshan

Saturday, March 11, 2017

*ہماری اولاد نافرمان کیوں ہے .......؟؟؟*

بہت سے لوگ ایک بہت بڑا شکوہ لیے ہوئے پریشان ہیں، اپنی اولادوں کا شکوہ، کہ نافرمان ہیں، ہمارا کہنا نہیں مانتے ...
مہربانی فرما کر اس کا علاج تجویز کیا جائے، کوئی تعویذ دے دیا جائے، کوئی پانی دم کر دیا جائے یا کوئی ذکر بتا دیں ...........؟؟؟
کیا ایسا ممکن ہے کے تعویذ دے دینے سے، پانی دَم کر دینے سے یا ذکر بتا دینے سے اولاد فرماں بردار ہو جائے گی .....؟
کیا یہ ممکن ہے ......؟
کیا یہ اللہ کے سسٹم کا حصہ ہے .......؟
ہرگز نہیں ہے،  دھوکا دیا جا سکتا ہے اس طرح، علاج نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا علاج اُُس بندے کے اپنے پاس ہوتا ہے جو یہ ڈیمانڈ لے کر آتا ہے .......
پہلے نمبر پر وہ یہ دیکھے کہ میں نے اولاد کو پالا کس طرح ہے ........؟
تربیت کیسی دی ہے .........؟
موسیقی کی اجازت تو نہیں دی ...........؟
فلمیں اور گانے سننے، دیکھنے کی اولاد کو چھوٹ دی یا قرآن سیکھنے، سمجھنے پر بھی مجبور کیا ........؟
نماز نہ پڑھنے پر ڈانٹا یا نرمی کرتے رہے ........؟
اسکے دوستوں اور اسکی تنہائی پر نظر رکھی ........؟
کس دولت پر اس کو پروان چڑھایا ہے ..........؟
کیا اُس میں استحصال کا پیسہ ہے ............؟
کیا اُس میں حرام کا پیسہ ہے ..........؟
لوٹ مار کا پیسہ ہے ...........؟
رشوتوں کا پیسہ ہے ............؟
نمبر دو کاروبار کا پیسہ ہے .............؟
پہلے اِس کو کھوجیے گا، وہ اپنی آمدن کو تلاش کرے گا ........!!!
اگر وہ واقعی چاہتا ہے کہ اُسکی اولاد فرماں بردار ہو ..........
دوسری بات وہ یہ سوچے کہ اُس کا اپنا رویہ والدین سے کیا رہا ہے .........؟
اُس نے والدین سے کیسا سلوک اختیار کیا ........؟
کیا اُنکی فرماں برداری کرتا رہا یا بے ادبی کرتا رہا .......؟
تو میں اُن سے یہ کہتا ہوں کہ اگر آپکے  والدین زندہ ہیں تو آج سے اُنکی فرماں برداری شروع کر دیں اور اگر آپکے والدین گزر گئے ہیں تو اُنکے لیے مغفرت کی دعائیں کریں کثرت کے ساتھ .........!!!
آپکے گزرے ہوئے والدین کا آپ کا اُن کے پیچھے رہ جانے والوں سے اچھا سلوک اُنکی مغفرت کا باعث بنتا ہے۔ تو جو یہ چاہے کے میری اولاد فرماں بردار ہو جائے تو ایک تو اگر والدین زندہ ہیں تو اُنکی فرماں برداری ٹُوٹ کر کرے، اور اگر وہ دنیا سے گزر گئے ہیں تو اُنکے لئے اللہ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے .......!
اور جو تیسری سب سے اہم بات ہے، جو میں دوستوں کو بطورِ فارمولا عرض کر رہا ہوں کہ جس خالق نے آپ کو  پیدا کیا ہے، آپ اُس کے کتنے فرماں بردار ہے ...........؟؟؟
اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بطن سے نکلے ہوئے بچے، جن کے آپ خالق نہیں ہیں، بلکہ ایک ذریعہ ہیں ایک Source ہیں، وہ آپ کے  فرماں بردار ہوں جائیں، تو جس نے آپ کو  پیدا کیا ہے وہ بھی چاہتا ہے کہ آپ  اُس کے فرمانبردار ہو جائیں، آپ  اپنی فرماں برداری پروردگار کے لیے بڑھا دیں تاکہ آپ کی  اولاد آپ کی فرماں بردار ہو جائے اور زندگی کا صحیح سکون اور راحت آپ کو نصیب ہو .........!!!
یہ بہت بڑا المیہ ہے ہمارا ......!
اس کے ہاتھوں بڑے بڑے صاحبِِ حیثیت لوگ بھی پریشان ہیں، لیکن اسکا فارمولا وہی ہے جو اوپر بتا دیا گیا ہے۔ نیازیں اور تعویذ اس کا فارمولا نہیں ہیں، اس میں مت پھنسیں کیونکہ آپکی اولاد کو صرف اللہ ہی فرماں بردار بنا سکتا ہے، کوئی اور کوئی نہیں بنا سکتا .......!!!
اللہ پاک مجھ سمیت ہم سب کو پہلے اپنے والدین کی خدمت کرنے کی بھرپور توفیق عطا فرمائے اور پھر ہم سب کو نیک اور فرمانبردار اولاد نصیب عطا فرمائے ...
آمین ثم آمین ..... 
طالب_دعا 

For the money they are able to do so much, Shame

Old Women say something to you

Smart wish

Friday, March 10, 2017

khan-e-kaba main barish ka khoobsurat manzar

Jinnaat say honay walay noqsaanat or in say Bachnay ki dua

Thursday, March 9, 2017

Pakistani friends of friends and enemies enemy

Samsung chief faces trial over corruption charges

No stars on earth, not in heaven grave, not patient man, do not lie in t...

Great targets military

Careful when you eat oranges, be sure to check that these bugs so far

Careful when you eat oranges, be sure to check that these bugs so far

Careful when you eat oranges, be sure to check that these bugs so far

Wednesday, March 8, 2017

*خواتین کا عالمی دن اور لسبیلہ تحریر *خلیل رونجھو وانگ*

آٹھ مارچ کو پوری دنیا میں خواتین کا دن بڑے روز و شور سے منایا جاتاہے پاکستان میں بھی ان دن کے حوالے سے مختلف تقریبات ،سیمینار،کانفرنسز کا انعقاد کیاجاتاہے ،جو معاشرے میں خواتین کے حقو ق کی آگاہی کے حوالے سے ایک مناسب کوشش ہے جس میں ملکی ترقی میں خواتین کے کردارکی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنا اورتسلیم کرنا ہے ۔
سماجی ترقیاتی عمل میں مجھے لسبیلہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں خواتین کی ترقی کے حوالے سے مختلف پروجیکٹ میں کام کرنے کا موقع ملا اس دوران مجھے خواتین کی ترقی کے حوالے موجود مواقعوں اور درپیش مسائل و چیلنجز کو سمجھنے کا موقع ملا ہے ،موجودہ ترقی یافتہ اور جدید دور میں خواتین کی آبادی کا نصف سے زائد ہیں ان کے مسائل اور مشکلات میں اصافہ دیکھنے میں آیا ہے خاص طور پر عورت پر گھریلو اور نفسیاتی تشدد اور صنفی بنیاد پر امتیاز روارکھا جاتاہے جو ہر حال میں قابل مذمت اور انسانی حقوق کے کھلم کھلاخلاف ورزی کے زمرے میں آتاہے ہمارے ہاں عورت آج بھی ان مظالم کے خلاف اپنا دفاع کرنے اور معاشرے میں باعزت مقام حاصل کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں ،ہمارے ہاں تعلیم کی کمی کی وجہ سے عورتوں کو اپنے حقوق کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل نہیں ،ضلع لسبیلہ کی خواتین میں تعلیمی ترقی کے حوالے سے کافی مشکلات ہیں جن میں اسکولوں و کالجز کی کمی اور ساتھ موجود تعلیمی اداروں تک رسائی ایک بہت بڑا چیلنج بنتاجارہاہے ،لس بیلہ میں 50 فی صد لڑکیاں اسکول سے بایر ھیں ہمارے ہاں سکینڈری تعلیم حاصل کرنے کے بعد لڑکیاں سیکنڈٹائم  کالجز میں پڑھتی ہیں جن کی تعداد حوصلہ مند ہے مگر سکینڈری تعلیم مکمل کرنے کے بعد بہت ساری طالبات تعلیم کو خیر آباد کہہ کر گھر وں میں بیٹھ جاتی ہیں جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے ،اس کے علاوہ ہائز ایجوکیشن کی شعبہ میں لسبیلہ سے خواتین کی شمولیت میں آٹے مین نمک کے برابر ہے ،تعلیم کے اس شعبے کو حکومتی اور غیر حکومتی سطح پر بری طرح نظر انداز کیاجارہاہے جو کہ لسبیلہ میں انسانی وسائل کو فروغ نہ ہونے کا بنیادی عنصر ہے،بیلہ میں خواتین کی لیے الگ قائم ہونا والا کالج کوئی تیرا سال بعد جاکر فنکشنل ہوا ہے ،گرلز اسکولوں کے لیے فراہم کی گی بسیس کھڑی کھڑی سٹر رہی ہے مگر احکام بالا طالبات کے ان تعلیمی مسائل کو انکھیں ہوتے ہوئے بھی دیکھنے سے قاضر ہیں ۔
پاکستان میں جہاں بنیادی صحت و علاج و معالجے کا حصول عوام کے لیے بہت مشکل ہے تووہاں صحت کے شعبے میں کام کرنے والے خواتین کارکن کے حالات توجہ طلب ہیں، لسبیلہ میں خواتین کی صحت کے بے پناہ مسائل ہیں جن کو حل کرنے کی نہ تو حکومت زحمت کررہی ہے اور نہ ہی غیر حکومتی سطح پر کوئی اقدامات کیے جاتے ہیں ،ہسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹروں و اسٹاف کی کمی ،ہسپتالوں میں ادوایات کی عدم فراہمی خواتین کے استحصال کا موجب بن رہاہے ،ضلع بھر میں عطائی ڈاکٹروں کی بھر مار ہے اور صحت کے نام پر ہر طرف لوٹ مار ہے ۔
لسبیلہ میں خواتین کا سب سے زیادہ استحصال ہماری ٹرانسپورٹ کرتی ہے جہاں آپ کو بیلہ سے کراجی تک ہر جگہ خواتین سٹرک کنارے ویگنوں و بسوں کا انتظار کرتی ہوئی کھڑی نظر آئی گی مگر مجال ہے کہ سیٹ ہونے کے باجود بھی کوئی ویگن رکیں اور پورا کرایہ دینے کے باوجود اپنے منرل تک پہنچائیں ا ور نہ ہی حکومت ہی کوئی زحمت کرنے کا سوچتی ہے کہ خواتین کے لیے گاڑیوں میں علیحدہ سیٹ مختص کی جائیں تاکہ یہ انسان بھی مرودں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی کے ساتھ سفر کرسکیں۔
لسبیلہ ایک زرعی علاقہ ہے اور شعبہ زراعت دیہی معاشرے سے جڑا ہوا ہے اس شعبے میں عورتوں کی افرادی قوت مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن اس شعبے میں بھی خواتین کا استحصال اپنے عروج پر ہے کئی علاقوں میں خواتین اپنی گھریلو ذمہ داریوں نباہنے کے ساتھ کھیتوں میں بھی کام کرتی ہیں اور اس کے بدلے میں کوئی اجرت نہیں دی جاتی ۔دوسری طرف وہ کاشت کاری کے دوران فضلوں پر زہریلی دوائیں چھڑکنے کی وجہ سے شدید بیمار ہوجاتی ہیں،اس کے علاوہ دوران حمل اور زچگی کے دوران شدید تکالیف کا سامنا کرتے ہوئے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں ایسے متعد د دردناک حقائق دیہی علاقوں میں بسنے والی عورت کی مشکلات کی نشان دہی کرتے ہیں۔
میں نے اوتھل کوسٹ گارڈ کے قریب گوٹھ میں 100فٹ گہرے کنواں سے پانی بھرتے ہوئی خواتین کو اقتدار کے ایوان میں نمائندگی کرتے ہوئے عوامی لیڈروں اور اس کے حق میں قصدہ گوئی کرنے والے سے کارکنوں سے سوال کرتے پایا ہے اور اپنے قصور پوچھا ہے کہ ہمیں پینے کا پانی آسانی سے کیوں میسر نہیں میں نے لاکھڑا اور اوڑکی میں خواتین کو ایک ہی تالاب سے پانی پیتے اور جانوروں کو پلاتے ہوئے دیکھا ہے مگر میری حکومت اور میر ے عوامی نمائیدوں کو ترقی کے منصوبے بناتے ہوئے وہ خواتین کیوں نظر نہیں آتی ہیں-
ہمارے ہاں خواتین کی اکثریت کاتعلق دیہات سے ہے ان علاقوں میں زیادہ تر خواتین ان پڑھ اور بے ہنر ہوتی ہیں اس کے لیے ان کے بچے تعلیم و تربیت جیسے بنیادی حقوق سے حاصل نہیں کرپاتے ہیں ۔دیہی معاشرے میں خواتین کئی گھریلو اور سماجی پابندی میں مقید ہوتی ہیں اور س قید ووام کے لیے استحصال کو رسم و رواج سے جوڑا جاتاہے ان روایات کے تخت لڑکیاں بابل کے آنگن میں کھلتی ضرور ہیں مگر روز اول سے ان کے دماغ میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ انھیں پرائے گھر جانا ہے پھر ایک عورت کی صلاحیتوں کو بس گھریلو کام کاج اور بچوں کی پرورش تک محدود سمجھا جاتاہے اسی بنیاد پر انھیں تعلیم سے محروم رکھا جاتاہے ان گھروانوں کی لڑکیوں کے لیے واجبی تعلیم بھی نعمت کے زمرے میں آتی ہے ،رسم و روایات کے اسیر معاشرے میں عورت کو زیر دست رکھنے اور اسے کم تر درجے کی محلوق ظاہر کرنے کے لیے کئی ہتھکنڈے استعمال کے جاتے ہیں ، یہی وجہ سے ہمارے ہاں آج بھی یہ غیر انسانی تصور موجود ہے کہ عورت مرد کے پاؤں کی جوتی ہے جسے بار بار تبدیل کیاجاسکتاہے یہ سوچ قدیم زمانے سے چلتی آرہی ہے اور آج بھی نہ صرف تسلیم کیاجاتاہے بلکہ بہت سارے علاقوں میں اس پر عمل بھی کیاجاتاہے جس سے معاشرے میں مردانہ سوچ کی بالادستی نظر آتی ہے البتہ ہمارے ہاں لسبیلہ میں خواتین کی ترقی کے حوالے سے کسی نہ کسی طرح پیش رفت ہورہی ہے ،لوگوں کا رہن سہن بدل رہاہے پرانی روایات دم توڑ رہی ہیں،سماجی تبدیلی کی کوشش کی جارہی ہیں ایسے حالات خواتین کو نظر اندازیا ان کے حقوق غصب کرنے کے بجائے ان کو ترقی کے عمل میں شامل کیاجائے ،لسبیلہ میں حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو شرح خواندگی کو بڑھانے کے لیے موثر اقدامات کرئے صحت و ٹرانسپورٹ کے متعلق ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے ،اس کے علاوہ ہمارے ہاں بہت سارے علاقوں میں تعلیم اور ذرائع ابلاغ سے سوچ میں تبدیلی کے آثار دیکھائی دیتے ہیں اورر وہاں پر صنفی امتیاز کے خاتمے میں مدد ملی ہے لیکن ضرروت اس بات کی بھی ہے کہ ہم خواتین کو اعتماد دیں ان پر بھروسہ کریں صرف دو وقت کی روٹی ہی عورت کا حق نہیں آپ عورت ذات کے جس رشتے سے وابسطہ ہیں ایسے ہر زاویے سے عزت دیں تحفظ دیں اپنے رویوں پر نظر ڈالیے تو ہمیں خواتین کی ترقی اور سماجی ترقی سے کوئی روک نہیں سکتا- خلیل رونجھو

فراڈ

یہ نوجوان لندن کے ایک بین الاقوامی بینک میں معمولی سا کیشیر تھا‘ اس نے بینک کے ساتھ ایک ایسا فراڈ کیا جس کی وجہ سے وہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا فراڈیا ثابت ہوا‘ وہ کمپیوٹر کی مدد سے بینک کے لاکھوں کلائنٹس کے اکاؤنٹس سے ایک‘ ایک پینی نکالتا تھا اور یہ رقم اپنی بہن کے اکاؤنٹ میں ڈال دیتا تھا، وہ یہ کام پندرہ برس تک مسلسل کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے کلائنٹس کے اکاؤنٹس سے کئی ملین پونڈ چرا لیے، آخر میں یہ شخص ایک یہودی تاجر کی شکایت پر پکڑا گیا‘ یہ یہودی تاجر کئی ماہ تک اپنی بینک سٹیٹ منٹ واچ کرتا رہا اور اسے محسوس ہوا اس کے اکاؤنٹ سے روزانہ ایک پینی کم ہو رہی ہے چنانچہ وہ بینک منیجر کے پاس گیا‘ اسے اپنی سابق بینک سٹیٹمنٹس دکھائیں اور اس سے تفتیش کا مطالبہ کیا...
منیجر نے یہودی تاجر کو خبطی سمجھا ‘ اس نے قہقہہ لگایااور دراز سے ایک پاؤنڈ نکالا اور یہودی تاجر کی ہتھیلی پر رکھ کر بولا :
’’ یہ لیجئے میں نے آپ کا نقصان پورا کر دیا ‘‘
یہودی تاجر ناراض ہو گیا‘ اس نے منیجر کو ڈانٹ کر کہا :
’’میرے پاس دولت کی کمی نہیں‘ میں بس آپ لوگوں کو آپ کے سسٹم کی کمزوری بتانا چاہتا تھا‘‘
وہ اٹھا اور بینک سے نکل گیا، یہودی تاجر کے جانے کے بعد منیجر کو شکایت کی سنگینی کا اندازا ہوا ‘ اس نے تفتیش شروع کرائی تو شکایت درست نکلی اور یوں یہ نوجوان پکڑا گیا...

یہ لندن کا فراڈ تھا لیکن ایک فراڈ پاکستان میں بھی ہو رہا ہے‘ اس فراڈ کا تعلق پیسےکے سکے سےجڑا ہے، پاکستان کی کرنسی یکم اپریل 1948ء کو لانچ کی گئی تھی‘ اس کرنسی میں چھ سکے تھے‘ ان سکوں میں ایک روپے کا سکہ‘ اٹھنی‘ چونی‘ دوانی‘ اکنی‘ ادھنا اور ایک پیسے کا سکہ شامل تھے‘ پیسے کے سکے کوپائی کہا جاتا تھا، اس زمانے میں ایک روپیہ 16 آنے اور 64پیسوں کے برابر ہوتا تھا...
یہ سکے یکم جنوری 1961ء تک چلتے رہے‘ 1961ء میں صدر ایوب خان نے ملک میں اشاریہ نظام نافذ کر دیا جس کے بعد روپیہ سو پیسوں کا ہو گیا جبکہ اٹھنی‘ چونی‘ دوانی اور پائی ختم ہو گئی اور اس کی جگہ پچاس پیسے‘ پچیس پیسے‘ دس پیسے‘ پانچ پیسے اور ایک پیسے کے سکے رائج ہو گئے...
یہ سکے جنرل ضیاء الحق کے دور تک چلتے رہے لیکن بعدازاں آہستہ آہستہ ختم ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ آج سب سے چھوٹا سکہ ایک روپے کا ہے اور ہم نے پچھلے تیس برسوں سے ایک پیسے‘ پانچ پیسے‘ دس پیسے اور پچیس پیسے کا کوئی سکہ نہیں دیکھا کیوں...؟
کیونکہ سٹیٹ بینک یہ سکے جاری ہی نہیں کر رہا لیکن آپ حکومت کا کمال دیکھئے حکومت جب بھی پیٹرول‘ گیس اور بجلی کی قیمت میں اضافہ کرتی ہےتو اس میں روپوں کےساتھ ساتھ پیسےضرور شامل ہوتے ہیں مثلاً آپ پیٹرول کے تازہ ترین اضافے ہی کو لے لیجئے‘ حکومت نے پٹرول کی قیمت میں5 روپے 92 پیسے اضافہ کیا جس کے بعد پٹرول کی قیمت 62روپے 13پیسے‘ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 62روپے 65پیسے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت 54روپے 94پیسے ہو گئی ...
اب سوال یہ ہے ملک میں پیسے کا تو سکہ ہی موجود نہیں لہٰذا جب کوئی شخص ایک لیٹر پیٹرول ڈلوائے گاتوکیاپمپ کاکیشیر اسے87پیسے واپس کرے گا...؟ نہیں وہ بالکل نہیں کرے گا چنانچہ اسے لازماً 62کی جگہ 63 روپے ادا کرنا پڑیں گے...
یہ زیادتی کیوں ہے...؟
اب آپ مزید دلچسپ صورتحال ملاحظہ کیجئے‘ پاکستان میں روزانہ 3لاکھ 20ہزار بیرل پیٹرول فروخت ہوتا ہے، آپ اگراسےلیٹرز میں کیلکولیٹ کریں تو یہ 5کروڑ 8لاکھ 80ہزار لیٹرز بنتا ہے، آپ اب اندازا کیجئے اگر پٹرول سپلائی کرنے والی کمپنیاں ہرلیٹرپر87پیسےاڑاتی ہیں تویہ کتنی رقم بنےگی... ؟

یہ 4کروڑ 42لاکھ 65ہزار روپے روزانہ بنتے ہیں....
یہ رقم حتمی نہیں کیونکہ تمام لوگ پیٹرول نہیں ڈلواتے‘صارفین ڈیزل اور مٹی کا تیل بھی خریدتے ہیں اور زیادہ تر لوگ پانچ سے چالیس لیٹر پیٹرول خریدتے ہیں اور بڑی حد تک یہ پیسے روپوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن اس کے باوجود پیسوں کی ہیراپھیری موجود رہتی ہے، مجھے یقین ہے اگر کوئی معاشی ماہر اس ایشو پر تحقیق کرے ‘ وہ پیسوں کی اس ہیرا پھیری کو مہینوں‘ مہینوں کو برسوں اور برسوں کو 30سال سے ضرب دے تو یہ اربوں روپےبن جائیں گےگویاہماری سرکاری مشینری 30 برس سے چند خفیہ کمپنیوں کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچا رہی ہے اور حکومت کو معلوم تک نہیں...

ہم اگر اس سوال کا جواب تلاش کریں تو یہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا اسکینڈل ثابت ہوگا...
یہ بھی ہو سکتا ہے اس کرپشن کا والیم ساڑھے چار کروڑ روپے نہ ہولیکن اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ جب اسٹیٹ بینک پیسے کا سکہ جاری ہی نہیں کررہا تو حکومت کرنسی کو سکوں میں کیوں ماپ رہی ہے اور ہم ’’راؤنڈ فگر‘‘ میں قیمتوں کا تعین کیوں کرتے ہیں...؟
ہم 62روپے 13پیسوں کو 62روپے کر دیں یا پھر پورے 63روپے کر دیں تا کہ حکومت اور صارفین دونوں کو سہولت ہو جائے، حکومت اگر ایسا نہیں کر رہی تو پھر اس میں یقیناً کوئی نہ کوئی ہیرا پھیری ضرور موجود ہے کیونکہ ہماری حکومتوں کی تاریخ بتاتی ہےہماری بیوروکریسی کوئی ایسی غلطی نہیں دہراتی جس میں اسے کوئی فائدہ نہ ہو...!!!

Britain’s asylum system is a mixture of government bureaucracy

Childcare worker pushes girl, 4, down stairs

petrified trans woman plead for her life moments before being beaten to ...

Good night

Tuesday, March 7, 2017

بچاؤ کیلئے تدابیر

1۔  شھروں کے درمیان حدود واضح ھوں۔ شہر میں تمام داخلی راستہ پر چیکنگ کی جائے۔    
2۔ھر غیر شہری دوسرے شہر میں رہائش کیلئے خاص مدت کا اجازت نامہ حاصل کرے ۔بصورت دیگر شہر سے نکال دیا جائے۔
3 ۔کوئی غیر ملکی  اپنی ملکیت پر کوئی جائیداد نہ خرید سکے۔ البتہ عارضی مدت کیلئے ملکیت دی جاۓ۔
4۔پولیس چیکنگ سکواڈ میں ہر بائیک اور گاڑی میں فی میل سکواڈ لازمی ھو ۔ علاوہ ازیں ہر خطرناک جگہ پر عورتوں کی چیکنگ کے لئے فی میل سٹاف لازمی ھو کیوں کہ مجرم لوگ اپنے ساتھ لڑکیوں کو بھی واردات کے لئے صورتحال کا اندازہ لگانے میں استعمال کرتے ہیں۔
5۔اسلام میں عورت کا چہرہ ڈھاپنہ فرض نہیں۔ اِن حالات میں نقاب وغیرہ ممنوعہ قرار دیا جائے۔
6۔دن بھر میں اور کم از کم رات 11 بجے تک سڑکوں پر بڑی گاڑیوں کی آمد و رفت بلکل ممنوع ھو۔ تاکہ ٹریفک کسی صورت جام نہ ہو۔
7۔ رش والے راستوں اور چوراہوں پر وارڈن بجاۓ چالان کرنے کے ٹریفک کے بحاو کو یقینی بنائیں۔
8۔تمام بڑی مارکیٹوں کو شھر سے باہر منتقل کرنے کی کوشش کی جائے۔
9۔ دفاتر اور سکول وغیرہ کے اوقات میں واضح فرق قائم کرنے کی کوشش کی جائے تا کہ رش سے بچا جا سکے۔
10۔مارکیٹوں اور بازاروں میں ہر دوکان اور ہر رھڑی ٹھیلے والے کے لئے سکینر ڈیوائس لازم قرار دی جائے تاکہ کسی بھی انٹری کی صورت میں فوراً الارم بجنے لگیں۔ 
11۔کوئی ایسا سافٹ وئیر بنا نے کی کوشش کی جائے کہ جس سے انڈرایڈ فون بھی سکینر کا کام کریں۔ یا کوئی ایسی ڈیوائس ھو جو ھر آدمی با آسانی اپنے پاس رکھ سکے۔
12۔تمام بڑی مارکیٹوں کے داخلی دروازے پر سکینر بوتھ لگے ھوں اور اخراج کے راستوں سے انٹری ممنوع ھو۔
13۔انڈر کور فورس بنائی جاۓ جو ھر رہائشی بلاک  و محلہ میں ھر مارکیٹ اور بازار میں نئے رہائشی یا نئے دوکان دار کی فوری اطلاع انٹیلیجنس کو دے جو انکوائری کے بعد ھی رہائش یا کاروبار کی اجازت دے۔ 
14۔رضاکارانہ ٹیمیں بنائی جائیں جو اپنے علاقہ میں تحفظ کو یقینی بنائیں۔  
15۔دفاعی ٹیکنیکس سکھانے کے لئے ٹریننگ سنٹر قائم کئے جائیں۔
16۔دیگر منزم نظاموں کی تعلیم مختلف ترقی یافتہ ممالک سے حاصل کی جائے۔ جن میں چائنہ سر فہرست ھے۔
17۔مساجد میں امام مسجد کو حفاظتی انتظامات کا زمہ دار بنایا جائے اور محلہ داروں میں سے پرانے رہائشیوں کی ڈیوٹی لگائی جائے کہ جمعہ کے دن کم از کم پانچ آدمی مسجد کے دروازہ پر کھڑے ھو جائیں جاننے والوں کو بغیر انکوئری اور اجنبی کو جانچ پڑتال کے بعد اندر آنے دیں۔
18۔پبلک مقامات پر ٹاور اور راڈار لگا کر دھشت گردوں کی رےڈیانک سکرین کے ذریعے نشاندہی کی جائے۔
19۔پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ میں سکینر بار یا ڈیوائسز کی کارکردگی لازم بنائی جائے۔ 
20۔پولیس کو اعلی اخلاقیات کی تعلیم دی جائے اور اسلامی اصولوں کے مطابق عوام کا محافظ بنایا جاۓ نیز دونوں کے درمیان تعاون کو کانفرنسز کے ذریعے یقینی بنایا جائے۔
21۔خدا ناخواستہ دھماکہ کی صورت میں بجاۓ تمام فورسز ایک جگہ اکٹھا ھونے کے نازک مقامات پر موجود رہنے کی تعلیم دی جائے تاکہ مزید حادثات سے بچا جاسکے دھماکہ ھو جانے کے بعد تو صرف  جان بچانے والے عملے کی ضرورت ھے یا زیادہ سے زیادہ مقامی پولیس کی  رینجرز اور فوج کو تو نازک اور خطرناک جگہوں پر حاضر رھنا چاہیے۔
22۔تمام ھوٹلز میں ھو نے والی آمدورفت کو بھی مانیٹر کیا جانا چاہئیے۔
23۔مخالف ممالک کے ساتھ بھی ڈپلومیٹک معاعدہ جات کر کے  کشیدہ حالات کو سازگار بنانے کی کوشش کی جائے۔
24۔حالات میں بہتری کے لیے ہر ضلع میں تھنک ٹینک بناۓ جائیں۔
25۔ عوام کی تجاویز کو ضلع کونسل کی سطح پر حاصل کریں اور عملی اقدامات کریں۔ 
اپیل !
تمام احباب اس میسج کو اپنے تمام contacts کو لازماً forward کریں۔کیوں کہ 
ارشاد باری تعالی ھے 
ایک انسان کی جان بچانا گویا پوری انسانیت کی جان بچانا ھے۔

The Indian Army Holy Prophet Is praising the Video message to share as m...

Monday, March 6, 2017

Mineral water drinking men live just recovering

Meet Australia's youngest snake catcher: The one-year-old boy

What American Women Who Wear Hijab Want You to Know

ewish Communities Confront Wave of Anti-Semitic Attacks

16-year-old Naina Jaiswal becomes youngest post-graduate in Asia

Saturday, March 4, 2017

Pakistan in Karachi Kings wounded by a ball in hand, will not take part ...

فرعون اور فرعونیت

میں نے ان سے پوچھا’’ خواجہ صاحب پورا عالم اسلام زوال کاکیوں شکار ہے ، ہم دنیا کے ہر کونے، ہر خطے میں مار کھا رہے ہیں‘‘ خواجہ صاحب مسکرائے اور ذرا سے توقف سے بولے’’ فرعونیت کی وجہ سے ‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا، ، انہوں نے فرمایا’’ فرعون کے بے شمارمعانی ہیں، ان معنوں میں ایک مطلب بڑے گھر والا بھی ہوتا ہے ، فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا، اس کی اس جسارت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے ناپسند فرمایا ‘جب اللہ تعالیٰ کسی کو ناپسند فرماتے ہیں تو وہ اس شخص کی ہر ادا ، ہر عادت کو خرابی بنا دیتے ہیں اور آنے والے زمانوں میں جو بھی شخص اللہ کے اس مشرک کی پیروی کرتا ہے ، جو بھی اس کی عادات اپناتا ہے اللہ اسے بھی اس زوال، اس انجام کا شکار بنا دیتا ہے ‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا، انہوں نے فرمایا’’ فراعین مصر کو بلند و بالا اور وسیع و عریض عمارتیں بنانے کا شوق تھا، ان کا خیال تھا محلات، دربار، قلعے اور دروازے طاقت اور اختیار کی علامت ہوتے ہیں ، اگر انہوں نے خود کو خدا ثابت کرنا ہے تو انہیں پہاڑوں سے بلند عمارتیں بنانی چاہیں چنانچہ وہ اس خبط میں مبتلا ہو گئے‘‘ وہ ذرا دیر کیلئے رکے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اس کے بعد بولے’’ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے لئے دنیا کی سب سے بڑی قبریں تیار کیں، آپ اہرام مصر دیکھیں، یہ کیا ہیں یہ وسیع و عریض قبریں ہیں، سائنس آج تک حیران ہے یہ لوگ اتنے بڑے بڑے پتھر کہاں سے لائے، انہوں نے یہ پتھر ایک دوسرے کے ساتھ کیسے جوڑے اوران لوگوں نے کرینوں کے بغیر یہ پتھر ایک دوسرے کے ا وپر کیسے رکھے، یہ مقبرے دراصل ان کی سوچ اور فکر کے آئینہ دار ہیں ،یہ ثابت کرتے ہیں فرعون حقیقتاً بڑے گھروں والے لوگ تھے اور وہ اپنے بڑے بڑے گھروں، قلعوں اور قبروں سے خود کو خدا ثابت کرنا چاہتے تھے‘‘۔ خواجہ صاحب مکمل طور پر خاموش ہو گئے۔میں نے عرض کیا’’ لیکن فرعون کے گھروں کا ہمارے زوال کے ساتھ کیا تعلق ‘‘ وہ مسکرائے’’ بڑاگہر ا تعلق ہے ، فرعون اللہ کا دشمن تھا اوراللہ اپنے دشمن کی عادتوں کو پسند نہیں کرتا چنانچہ دنیا کے تمام بڑے گھروں والے لوگ جلد یا بدیر فرعون جیسے انجام کا شکار ہوتے ہیں، وہ ، ان کی خدائی اور ان کے بڑے بڑے گھر زوال کا شکار ہو جاتے ہیں‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا ، وہ بولے’’تم دنیا میں ترقی اورپستی پانے والے لوگوں ، معاشروں ، قوموں اور ملکوں کا جائزہ لو تو تمہیں چھوٹے گھروں،چھوٹے دفتروں اورچھوٹی گاڑیوں والے لوگ، ملک اورمعاشرے ترقی پاتے نظر آئیں گے جبکہ ہر وہ ملک جس کے بادشاہ، حکمران، وزیر، مشیر ، بیوروکریٹس اور تاجر بڑے گھروں، بڑے دفتروں میں رہتے ہیں وہ ملک وہ معاشرہ زوال پذیرہوگا‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا، انہوں نے فرمایا’’پورا عالم اسلام بڑے گھروں کے خبط میں مبتلا ہے، اس وقت دنیا کا سب سے بڑا محل برونائی کے سلطان کے پاس ہے ، عرب میں سینکڑوں ہزاروں محلات ہیں اور ان محلات میں سونے اورچاندی کی دیواریں ہیں، اسلامی دنیا اس وقت قیمتی اور مہنگی گاڑیوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے ‘‘ وہ خاموش ہوئے،ذرا دیر سوچا اور پھر بولے’’ تم پاکستان کو دیکھو، تم ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز، کور کمانڈر ہاؤسز، آئی جی ، ڈی آئی جی ہاؤسز، ڈی سی اوز ہاؤس اور سرکاری گیسٹ ہاؤسز کو دیکھو، یہ سب کیا ہیں؟ یہ سب بڑے گھر ہیں، پاکستان کے ایک ضلع میں18ویں گریڈ کے ایک سرکاری عہدیدار کا گھر106کنال پر مشتمل ہے، اسلام آباد کے وزیراعظم ہاؤس کا رقبہ قائد اعظم یونیورسٹی کے مجموعی رقبے سے چار گنا ہے، لاہور کا گورنر ہاؤس پنجاب یونیورسٹی سے بڑا ہے اورایوان صدر کا سالانہ خرچ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہے ‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا’’ تم لوگ اپنے حکمرانوں کے دفتر دیکھو، ان کی شان و شوکت دیکھو، ان کے اخراجات اور عملہ دیکھو، کیا یہ سب فرعونیت نہیں، کیا اس سارے تام جھام کے بعد بھی اللہ تعالیٰ ہم سے راضی رہے گا جبکہ اس کے برعکس تم دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کا لائف سٹائل دیکھو، بل گیٹس دنیا کا امیر ترین شخص ہے دنیا میں صرف18 ممالک ایسے ہیں جو دولت میں بل گیٹس سے امیر ہیں باقی192 ممالک اس سے کہیں غریب ہیں لیکن یہ شخص اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا ہے ، وہ اپنے برتن خود دھوتا ہے ، وہ سال میں ایک دو مرتبہ ٹائی لگاتا ہے اور اس کا دفتر مائیکروسافٹ کے کلرکوں سے بڑا نہیں، وارن بفٹ دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص ہے اس کے پاس 50برس پرانا اورچھوٹا گھر ہے ، اس کے پاس 1980ء کی گاڑی ہے اور وہ روز کوکا کولا کے ڈبے سٹورز پر سپلائی کرتا ہے ، برطانیہ کے وزیراعظم کے پاس دو بیڈروم کا گھر ہے ، جرمنی کی چانسلر کو سرکاری طور پر ایک بیڈ روم اور ایک چھوٹا سا ڈرائنگ روم ملا ہے ، اسرائیل کا وزیراعظم دنیا کے سب سے چھوٹے گھر میں رہ رہا ہے ، اس کی بجلی تک کٹ جاتی ہے ، بل کلنٹن کو لیونسکی کیس کے دوران کورٹ فیس ادا کرنے کے لئے دوستوں سے ادھار لینا پڑا تھا، وائیٹ ہاؤس کے صرف دو کمرے صدر کے استعمال میں ہیں، اوول آفس میں صرف چارکرسیوں کی گنجائش ہے اور جاپان کے وزیراعظم کو شام چاربجے کے بعد سرکاری گاڑی کی سہولت حاصل نہیں چنانچہ تم دیکھ لو چھوٹے گھروں والے یہ لوگ ہم جیسے بڑے گھروں والے لوگوں پر حکمرانی کررہے ہیں، یہ آگے بڑھ رہے ہیں اور ہم دن رات پیچھے جا رہے ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔میں نے عرض کیا’’گویا آپ کا فرمانا ہے ہم ترقی نہیں کر سکتے ؟‘‘ انہوں نے غور سے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر بولے’’ ہاں جب تک ہم فرعون کے دربار سے نکل کر موسیٰؑ کے خاک ساروں میں شامل نہیں ہوتے ، جب تک ہم بڑے گھروں سے نقل مکانی کر کے چھوٹے گھروں میں نہیں آتے اور جب تک ہم قلعوں، ایوانوں اور محلوں سے نکل کر مکانوں، گھروں اور فلیٹوں میں شامل نہیں ہوتے ‘ہم اس وقت تک ترقی نہیں کریں گے، ہم اس وقت تک بڑی قوم نہیں بنیں گے‘‘ وہ رکے ، انہوں نے کچھ سوچا اور مسکرا کر بولے ’’اللہ نے جو قانون اپنے نبیوں کیلئے نہیں بدلہ تھا وہ یہ قاعدہ ہمارے لئے کیوں تبدیل کرے گا‘‘۔

پاکیزہ کمائی کی صفات

کمائی کے پاکیزہ اور حلال ہونے میں کیا صفات ہونی چاہیں ، یہ ہمارےآقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل سے بیان فرمادیں۔
جس کی تجارت میں یہ باتیں شامل ہوگئیں اس کی کمائی پاکیزہ بھی ہو گئی اور حلال بھی۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جب کسی کے اندر یہ چار باتیں ہوں گی ،اس کی کمائی حلال اور پاکیزہ ہوگی:-
مفہوم حدیث؛
1-خریدےتو برائی نہ کرے، 2-بیچے تو تعریف نہ کرے ، 3-اگر چیز میں کمی یاعیب ہے تو چھپائے نہیں، 4-درمیان میں قسمیں نہ کھائے۔
 خریدے تو چیز کی برائی نہ کرے:-
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کوئی چیز بکنے کے لیے آ جائے تو اس کے عیب اور نقص اس لیے بیان کرتے ہیں کہ اگلا بندہ پریشان ہوکر گھاٹے میں/کم قیمت پر دے کر چلا جائے۔ تو نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ ایسا نہ کیا جائے، ہاں واقعتا اس میں عیب ہو تو عیب اس کو بتا دیا جائے لیکن کم پیسوں پر نہیں بلکہ اس کی جو قیمت بنتی ہو اسی کے مطابق خریدا جائے۔ عیب دار چیز کو عیب دار چیز کے حساب سے خریدا جائے اور صحیح چیز کو صحیح چیز کے حساب سے خریدا جائے۔
تو صحیح چیز کے عیب کو بیان کرنا غلط ہے اور اس کو سستا خرید لینا آپ کی تجارت کو حرام کر سکتا ہے۔
فروخت کرے تو تعریف نہ کرے:-
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان تعریف میں مبالغہ نہ کرے اتنی زیادہ تعریف نہ کرے کہ اگلا اس کی چرب زبانی سے متاثر ہوکر اس وقت چیز لے لے اور بعد میں اس کو افسوس ہو۔ ہاں اگر اس میں کوئی اوصاف ہوں تو بیان کر دے لیکن اس بات کا خیال رکھے کہ اپنی چیز کی تعریف کرتے ہوئے دوسرے کی چیز کی برائی نہ بیان کرےاور مبالغہ آرائی سے بچے۔
کیوں کہ قرآن کریم  میں آتا ہے،
مفہوم :-زبان سے جو جملہ نکلتا ہے وہ لکھ دیا جاتا ہے۔
چیز کے عیب کو نہ چھپائے:-
اگر چیز میں کوئی عیب ہو تو اس کو کھول کر بیان کر دے ،چھپائے نہیں۔ ایسا کرنا دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ نبی علیہ السلام کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ دھوکہ دینے والا ہم میں سے نہیں ہے۔
قسم نہ کھائے:-
نبی علیہ السلام کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ قسم کھانے سے مال تو بک جاتا ہے پر برکت نہیں رہتی۔ قسم کھائی بھی اللہ رب العزت کے نام کی جاتی ہے۔ اللہ کے نام کو اتنا حقیر کر دیا جاتا ہے کہ معمولی سے نفع کے لیے اللہ کا نام درمیان میں آ جاتا ہے۔ تو ایسے تاجر یا دوکاندار کی برکت اٹھالی جاتی ہے۔
معاملات صاف رکھے:-
اگر اسے کسی کا ادھار دینا ہو کہیں پےمنٹ کرنی ہو تو جس وقت کا وعدہ کیا ہو اس کے مطابق پے منٹ کرنے کی کوشش کرے، ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے وعدہ خلافی نہ کرے۔
ہاں اگرکسی وقت  حالات خراب ہو گئے یا کوئی اور پریشانی آ گئی تو محبت و عاجزی کے ساتھ معاملے کو سلجھائے۔
لیکن نیت یہی ہو کہ جلد ادائیگی کرنی ہے ورنہ رقم ہوتے ہوئے نہ ادا کرنے والے کو ایک حدیث کے مطابق ظالم کہا گیا ہے۔
مقروض سے معاملہ:-
اگر کسی کا اس کے ذمے قرض ہے تو اس پر سختی نہ کرے، گالم گلوچ اور غصہ نہ کرے بلکہ محبت و حکمت سے کام لے۔
یہ چیزیں جس تاجر میں ہوں گی تو نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ رزق حلال کمانے والا ہے۔
اللہ ہمیں بھی رزق کو جائز اور حلال طریقے سے حاصل کرنے والا بنائے اور ہماری کمائیوں میں برکتیں عطا فرمائے۔ آمین
ماخوذ از بیان
حافظ ابراہیم نقشبندی دامت برکاتہم
خلیفہ مجاز حضرت شیخ ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم

Friday, March 3, 2017

" ھم نازی جنگ ھار چُکے ھیں

دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر جرمن فوج کو فرانس خالی کرنے کا حکم ملا تو جرمن کمانڈنٹ نے افسروں کو جمع کر کے کہا " ھم نازی جنگ ھار چُکے ھیں ، فرانس ھمارے ھاتھ سے نکل رھا ھے۔ یہ سچ ھے اور یہ بھی سچ ھے کہ شاید اگلے 50 برسوں تک ھم کو دوبارا فرانس میں داخلے کی اجازت بھی نہ ملے اس لیئے میرا حکم ھے کہ پیرس کے عجائب گھروں ، نوادرات سے بھرے نمائش گھروں اور ثقافت سے مالا مال ھنر کدوں سے جو کچھ سمیٹ سکتے ھو سمیٹ لو۔ جب فرانسیسی اس شھر کا اقتدار سنبھالیں تو انہیں جلے ھوئے پیرس کے علاہ کچھ نہ ملے"
جنرل کا حکم تھا سب افسر عجائب گھروں پر ٹوٹ پڑے اور اربوں ڈالرز کے نوادرات اُٹھا لائے۔ اُن میں ڈوئچی کی مونا لیزا تھی ، وین گوہ کی تصویریں ، وینس ڈی ملو کا مرمریں مجسمہ غرض کہ کچھ نہ چھوڑا ۔ جب عجائب گھر خالی ھو گئے تو جنرل نے سب نوادرات ایک ٹرین پر رکھے اور ٹرین کو جرمنی لے جانے کا حکم دیا۔ ٹریں روانہ تو ھو گئی لیکن شھر سے باھر نکلتے ھی اس کا انجن خراب ھو گیا۔ انجئنیر آئے انجن ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ھو گئی لیکن 10 کلومیٹر طے کرنے بعد اس کے پہیے جام ھو گئے۔ انجئنیر آئے مسئلہ ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ھو گئی لیکن چند کلومیٹر بعد بوائلر پھٹ گیا۔ انجئنیر آئے بوائلر مرمت ھوا اور ٹرین پھر چل پڑی ، ابھی تھوڑی دور ھی گئی تھی کہ پریشیر بنانے والے پسٹن جواب دے گئے۔انجئنیر آئے پسٹن مرمت ھوئے اور ٹرین روانہ ھوئی ۔ٹرین خراب ھوتی رھی اور جرمن انجئنیر اسے ٹھیک کرتے رھے یہاں تک کہ فرانس کا اقتدار فرانسیسیوں نے سنبھال لیا اور ٹرین ابھی فرانس کی حد میں ھی رھی۔
ٹرین کے ڈرائیور کو پیغام ملا کہ " موسیو بہت شکریہ پر اب ٹرین جرمنی نہیں واپس پیرس آئے گی" ۔ ڈرائیور نے مکے ھوا میں لہرائے اور واپس پیرس روانہ ھو گیا ، جب وہ پیرس پہینچا تو فرانس کی ساری لیڈرشپ اس کے استقبال کے لیئے کھڑی تھی ، ڈرائیور پر گُل پاشی کی گئی پھر اس کے ھاتھ میں مائیک دے دیا گیا ، ڈرائیور بولا " جرمن گدھوں نے نوادرات تو ٹرین میں بھر دیئے لیکن یہ بھول گئے کہ ڈرائیور فرانسیسی ھے اور اگر ڈرائیور نہ چاھے تو گاڑی کبھی منزل پر نہیں پہنچا کرتی"
عرصے بعد ہالی وڈ نے اس ڈرائیور پر "دی ٹرین" فلم بنائی۔ اگر اپنے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بھی "دی ٹرین" کی سٹوری سے کم نہیں ، کبھی انجن فیل ھو جاتا ھے کبھی پہیہ جام ، کبھی پسٹن پھٹ جاتا ھے تو کبھی بوائلر ۔ پہلے دن سے اب تک بحران ھی بحران ھے۔ اس ٹرین کا ڈرائیور اصل میں کوئی اور ھے جو اس کو منزل تک نہیں پہنچنے دے رھا - ہم سب کو ملکر اس ڈرائیور کو ڈهونڈنا هے۔

نیشنل جونیئر والی بال چیمپئن شپ ،


پاکستان آرمی اور واپڈا نے فائنل کیلئے کوالیفائی کرلیا
پشاور(سپورٹس رپورٹر)پشاور میں جاری چیف منسٹر جونیئر نیشنل جونیئر والی بال چیمپئن شپ میںپاکستان آرمی اور واپڈا کی ٹیموں نے فائنل کیلئے کوالیفائی کرلیا ، فائنل آج کھیلا جائے گا۔پہلے سیمی فائنل میں پاکستان آرمی نے سنسنی خیز اور دلچسپ مقابلے کے بعد خیبرپختونخوا کو تین دو سے شکست دی جبکہ واپڈا نے پی او ایف کو تین صفر سے ہراکر فائنل تک رسائی حاصل کی ۔ اس موقع پر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے نائب صدر سید عاقل شاہ مہمان خصوصی تھے ان کے ہمراہ پاکستان والی بال فیڈریشن کے چیئرمین چوہدری محمد یعقوب‘ذوالفقار بٹ‘صوبائی سیکرٹری والی بال ایسوسی ایشن خالد وقار اور دیگر شخصیات بھی موجود تھیں ‘گزشتہ روز ہونیوالے پہلے سیمی فائنل میچ میں آرمی نے خیبر پختونخوا کو دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے کے بعد تین دو سے ہرایا ، پہلے سیٹ میں خیبرپختونخوا نے آرمی کو پچیس 19 ، دوسرے اور تیسرے سیٹ میں آرمی نے 25-23,25-18 ، چوتھے سیٹ میں خیبرپختونخوا نے 26-24 سے کامیابی حاصل کرکے مقابلہ دو دو سے برابر کیا جس کے بعد فائنل سیٹ میں آرمی نے پندرہ نو سے فتح حاصل کرکے مقابلہ تین دو سے اپنے نام کیا۔ دوسرا سیمی فائنل پاکستان واپڈا نے پی او ایف کو تین صفر سے شکست دی سکورپچیس پندرہ ‘پچیس سولہ اور پچیس انیس رہا ‘پول اے میں واپڈا اور خیبر پختونخواجبکہ پول بی سے آرمی اور پی او ایف کی ٹیمیں سرفہرست رہے ‘اس سے قبل ہونیوالے لیگ راﺅنڈکے آخری مرحلے کے میچوں میں آرمی نے پی او ایف کو ایک کے مقابلے میں تین ‘پی او ایف نے پنجاب کو صفر کے مقابلے میں تین ‘واپڈا نے پاکستان بورڈز کو صفر کے مقابلے میں تین ‘خیبر پختونخوا نے فاٹا کو صفر کے مقابلے میں تین ‘پنجاب نے آزاد کشمیر کو صفر کے مقابلے میں تین جبکہ واپڈا نے بلوچستان کو صفر کے مقابلے میں تین گیمز سے شکست دی تھی۔فائنل آج منعقد ہوگا جس کے لئے تیاریاں مکمل کی جا رہی ہیں۔

Thursday, March 2, 2017

This man lost his life in a terrible road accident

Wednesday, March 1, 2017

*جلدی سونے کے لیے اس بات کو ذہن میں رکھیں.

کہ اس طریقہ سے اللہ نے ہمیں بنایا...رات کو سوئیں اور دن میں کام کریں..

*آج مجھے کچھ نیا پتہ چلا....ایک قدرتی کینسر وکسین کا۔*

 اللہ فرماتا ہے:(ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ مشکل میں ہوں) 20:2

اللہ نے ہم سب کے دماغ میں ایک *گلینڈ* رکھا ہے جسے *پاینیل گلینڈ* کہتے ہیں,اسے *انسانی جسم کا حیاتیاتی گھڑیال* بھی کہتے ہیں اور یہ ہمارے بصری اعصاب سے منسلک ہوتا ہے.یہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے جتنا ایک مٹر.

*ہر روز عشاء کے بعد یہ گلینڈ ایک مادہ تیار کرنا شروع کر دیتا ہے جسے میلاٹونین کہتے ہیں جو خون کی نالیوں میں بہتا ہےاور جسم کو کینسر سے بچاتا ہے.*

*یہ صرف اندھیرے میں کام کرتا ہےاگر محض آنکھ ہی روشنی میں رہے تو بھی یہ کام نہیں کرتا کیوں کہ اسے لگتا ہے کہ ابھی رات نہیں ہوئی...*

پھر اگر آپ رات کو بھی روشنی میں رہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ خود کو قدرتی ویکسین سے محروم کر رہے ہیں...

اللہ فرماتا ہے:(ہم نے رات کے آثار ختم کیے اور روشن دن بنایا) 17:12

بدقسمتی سے,ہم نے آجکل رات کے آثار کو دن کی نسبت زیادہ دیدنی کر دیا ہے کہ ہم رات بھر جاگتے ہیں اور سارا دن سوتے ہیں.۔
۔
ہمارے آباواجداد جو رات کو جلد سونے اور جلدی جاگنے کے عادی تھےوہ کینسرکا شکار نہ ہوتے اور نہ ہی ایسی کسی بیماری کا جن کا آجکل ہم سنتے ہیں

*فارمی مرغیوں پر ایک تحقیق کی گئی,ایک قدرتی طور پر پلتی مرغی جو جلدی سوتی ہے اور کھانے کے لیے جلدی جاگتی ہے جبکہ مصنوعی طریقے سے رکھی گیی مرغی کو کھانا رات کو جاگتا رکھ کر کھلایا جاتا ہے*

*%30 کینسر مصنوعی طریقے سے پالی گئی مرغیوں کی وجہ سے ہوا جبکہ قدرتی طریقہ سے پالی گئی مرغیاں کسی بھی بیماری سے پاک تھیں..*

اللہ نے ہماری حفاظت کے لیے یہ قدرتی ویکسین ہمارے اندر رکھی ہے آئیں جلدی سو کر اس سے فائدہ حاصل کریں..

*یہ گلینڈ عشاء کے فوراً بعد اپنا کام شروع کرتا ہے جو فجر سے دو گھنٹے پہلے تک جاری رہتا ہے!!!*

سبحان اللہ جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ فجر سے دو گھنٹے پہلے تک جو رات کا تیسرا پہر ہے

اپنے ہدایت نامہ(قرآن) پہ عمل کریں اور ہمیشہ تندرست رہیں
ان شاءاللہ

کینسر کا علاج احادیث سے بھی ثابت ہے اور سائنس سے بھی...

اس شاندار علاج (جسے اللہ نے انسان کے اندر رکھا ہے...) کو لازمی پڑھیں اور آگے شئیر کریں