May 2019 ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Saturday, May 25, 2019

بھارت کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کے 17 ویں انتخابات کے غیر حتمی نتائج کا اعلان

 بی جے پی نے واضح برتری حاصل کرلی،350 نشستیں حاصل کرکے تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی

 لوک سبھا کے لیے زیادہ سے زیادہ 25 مسلمان امیدواروں کے کامیاب ہونے کا امکان، تاہم اب تک 22 مسلمان امیدواروں کی غیر حتمی تصدیق کی جا چکی ہے، بی جے پی کی سیٹ سے انتخاب لڑنے والا کوئی مسلمان امیدوا ر کامیاب نہیں ہوسکا

 نئی دہلی( این ٹی ایس نیوز )بھارت کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کے 17 ویں انتخابات کے غیر حتمی نتائج کا اعلان کردیا گیا ہے جن کے تحت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) نے واضح برتری حاصل کرلی۔اب تک غیر حتمی نتائج کے مطابق بی جے پی نے 350 تک نشستیں حاصل کرلی ہیں اور وہ اس بار تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔بی جے پی کی شہرت میں گزشتہ انتخابات کے مقابلے اس بار اضافہ دیکھنے میں آیا، تاہم حیرت کی بات ہے کہ بی جے پی کا ایک بھی مسلم امیدوار تاحال کامیاب نہیں ہوسکا۔علاوہ ازیں اس بار لوک سبھا کے لیے 2014 کے مقابلے بھی کم مسلمان امیدوار منتخب ہوئے ہیں، تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ حتمی اعلانات تک مسلمان امیدواروں کی تعداد میں کچھ اضافہ ہوسکتا ہے۔اس بار لوک سبھا کے لیے زیادہ سے زیادہ 25 مسلمان امیدواروں کے کامیاب ہونے کا امکان ہے، تاہم اب تک 22 مسلمان امیدواروں کی غیر حتمی تصدیق کی جا چکی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے کم ہے، بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 14 فیصد سے زائد ہے اور لوک سبھا میں ان کی نمائندگی آبادی کے تناسب کے حوالے سے بھی 5 فیصد کم ہے۔اس سے دلچسپ بات یہ ہے کہ لوک سبھا کے انتخابات میں واضح برتری حاصل کرنے والی بی جے پی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والا کوئی بھی مسلمان امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا۔بی جے پی نے مجموعی طور پر بھارت بھر اور زیر تسلط جموں و کشمیر میں 6 مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دیے تھے، تاہم ان کے تمام امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔بی جے پی نے مغربی بنگال میں 2 مسلمان امیدواروں اور وفاقی علاقے لکشادیپ میں ایک امیدوار جب کہ زیر تسلط جموں و کشمیر میں 3 مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دیے تھے اور ان جن حلقوں سے ان امیدواروں کو کھڑا کیا گیا تھا ان میں مسلمانوں کی آبادی ہندوں سے زیادہ ہے، تاہم اس کے باوجود مسلمانوں کو شکست کا سامنا رہا۔رپورٹ کے مطابق اب تک بھارت بھر سے 22 مسلمان امیدواروں کی کامیابی کے غیر حتمی نتائج سامنے آ چکے ہیں، جن کے مطابق سب سے زیادہ 6 مسلمان امیدوار ریاست اترپردیش سے منتخب ہوئے ہیں جب کہ وہاں سے مزید ایک یا 2 امیدواروں کی کامیاب کا امکان ہے۔اسی طرح دوسرے نمبر ریاست مغربی بنگال سے زیادہ مسلمان امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔انتخابات میں کامیاب ہونے والے 22 مسلمان ارکان میں سے صرف 2 خواتین ہیں اور دونوں خواتین ریاست مغربی بنگال سے کامیاب ہوئی ہیں۔کامیاب ہونے والی خواتین میں ماڈل و اداکارہ نصرت جہاں روحی اور ساجدہ احمد شامل ہیں اور دونوں خواتین آل انڈیا ترینیمول کانگریس (اے آئی ٹی سی) کی ٹکٹ سے میدان میں اتریں تھیں۔ریاست ہریانہ کے حلقے حیدرآباد سے مسلمان رہنما اسدالدین اویسی مسلسل چوتھی بار لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے ہیں، ان کے علاوہ جموں و کشمیر سے فاروق عبداللہ بھی منتخب ہوئے ہیں۔دیگر منتخب ہونے والے مسلمان امیدواروں میں آسام سے بدرالدین جمال، عبدالخالق، اتر پردیش سے کنور دانش علی، افضل انصاری، حاجی فیض الرحمن، ڈاکٹر ایس ٹی حسن، ڈاکٹر شفیق الرحمن برق، محمد اعظم خان، مہاراشٹر سے امتیاز جلیل سید، کیرالا سے ایڈوکیٹ اے ایم عارف، ای ٹی محمد بشیر، جموں و کشمیر سے حسین مسعودی، محمد اکبر لون، بہار سے ڈاکٹر محمد جاوید، چوہدری محبوب علی قیصر، مغربی بنگال سے ابو طاہر خان، ابو حاسم خان چوہدری اور پنجاب سے محمد صدیق شامل ہیں۔

جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں، تمام اطراف سے خطے کو تصادم سے دور رکھنے کی کوششوں کی ضرورت ہے،جنرل قمر جاوید باجوہ

 آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایران کے وزیرخارجہ جاوید ظریف کی جی ایچ کیو راولپنڈی میں ملاقات
 باہمی دلچسپی کے امور اور خطے کی صورتحال پر بات چیت … ایرانی وزیر خارجہ نے خطے میں امن و استحکام کیلئے پاکستان کے مثبت کردار کو سراہا۔آئی ایس پی آر

 راولپنڈی(این ٹی ایس نیوز)پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہاہے کہ تمام اطراف سے خطے کو تصادم سے دور رکھنے کی کوششوں کی ضرورت ہے۔ جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں،آرمی چیف جمعہ کو ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف سے گفتگو کررہے تھے ،پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایران کے وزیرخارجہ جاوید ظریف نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں ملاقات کی، ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور اور خطے کی صورتحال پر بات چیت کی گئی، اور ایرانی وزیر خارجہ نے خطے میں امن و استحکام کیلئے پاکستان کے مثبت کردار کو سراہا۔اس موقع پر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمرجاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے، خطے کو تمام اطراف سے تصادم سے دور رکھنے کی کوششوں کی ضرورت ہے۔

بے نامی اکائونٹس کیس: ملزم کی بریت سے متعلق ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف نیب کی ایک اور درخواست مسترد

نیب ڈیل کرتا ہوگا ہم ڈیل نہیں فیصلے کرتے ہیں، ٹرائل کورٹ نے محمد نواز نامی ملزم کوسات سال کی سزا سنائی تھی مگر ہائیکورٹ نے ملزم کو بری کرنے کا حکم دیا تھا،چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ

 اسلام آباد( این ٹی ایس نیوز )سپریم کورٹ نے بے نامی اکاونٹس کیس کے ملزم کی بریت سے متعلق ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی ایک اور درخواست مسترد کردی ہے ۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ نیب ڈیل کرتا ہوگا ہم ڈیل نہیں فیصلے کرتے ہیں۔عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے یہ اہم ریمارکس نیب کی جانب سے بے نامی اکاونٹس کیس کے ملزم کی بریت کے خلاف درخواست کی سماعت کے دورن دیے ۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ٹرائل کورٹ نے محمد نواز نامی ملزم کوسات سال کی سزا سنائی تھی مگر ہائیکورٹ نے ملزم کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔عدالت نے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نیب کی درخواست مسترد کر دی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہائیکورٹ نے شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا۔چیف جسٹس پاکستان نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ نیب نے اپنے ریفرنس میں لکھا کہ محمد نواز نے کوئی اکانٹ نہیں کھولا۔ دو اکانٹس محمد نواز کے بھائیوں کے تھے۔ایڈیشنل نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اکاونٹ میں18 لاکھ 90 ہزار کی رقم کیش کی صورت میں جمع کرائی گئی۔ قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا دستاویزات میں کوئی شواہد نہیں جس سے معلوم ہو کہ محمد نواز کے اکانٹ تھے یا اس نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔اس پر ایڈیشنل نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایک ڈیل کرتے ہیں میں پیرا گراف پڑھتا ہوں اگر جرم ثابت نہ ہوا تو میں چپ کر جاں گا۔چیف جسٹس پاکستان نے نیب پراسیکیوٹر کی یہ دلیل سن کر ریمارکس دیے کہ نیب ڈیلیں کرتا ہوگا ہم ڈیلیں نہیں فیصلے کرتے ہیں۔یاد رہے دوروزقبل بھی سپریم کورٹ نیب کیسز میں سزا یافتہ 2ملزمان کی بریت کے خلاف نیب کی درخواستیں مسترد کرچکی ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے یہ بھی بتایا کہ اگلے ہفتے سے انشا اللہ سپریم کورٹ میں ای ویڈیو لنک سسٹم شروع ہو جائے گا۔ اکیسویں صدی شروع ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ کراچی اور لاہور سے وکلا حضرات ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوں گے۔ انشا اللہ سوموار کو ویڈیو لنک کے ذریعے کیسز کی سماعت کے بعد ہم فیصلے کریں گے۔

پہلے دن سے نیب پر شک تھا، اب اس کی کڑیاں ملنا شروع ہوگئی ہیں۔حقائق عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔ شاہد خاقان عباسی

سارے معاملہ کی کڑی وزیراعظم ہاوس تک جا پہنچی کہ اس کے پیچھے وزیراعظم ہیں۔۔ ہم چاہتے ہیں قومی اسمبلی قاعدہ244-A کے تحت اس معاملہ پر خصوصی کمیٹی بنائیں

پارلیمنٹ قانون بناتی ہے، اس کا حق ہے کہ قومی نوعیت کے اتنے بڑے ایشو پر بحث کرے،پریس کانفرنس

اسلام آباد(این ٹی ایس نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے مرکزی رہنما و سابق وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے دیگر پارٹی رہنمائوں کے ہمراہ نیشنل پریس کلب اسلا م آبادمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ چیئر مین نیب کی جاوید چوہدری سے ملاقات کامعاملہ ابھی تک چل رہا ہے۔چیئرمین نیب نے کہا مجھ پر بہت سے دبا وہیں کہ حکومت کی کرپشن کے خلاف کاروائی نہ کروں۔ چیئر مین نے کہا کہ اگر وہ حکومتی کرپشن سامنے لے آئیں تو حکومت نہیں رہے گی۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کل رات ایک خاتون سے چیئر مین نیب کی گفتگو کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگز سامنے آئی ہیں۔مسلم لیگ(ن)کا نیب کے حوالے سے اصولی موقف ہے۔جس خاتون کی وڈیو کا مسئلہ ہے، اسے گرفتار بھی کیا گیا اور ضمانت بھی ہوئی۔نیب نے ان ویڈیوز کی تردید کردی اور اسے بلیک میلنگ قرار دیا۔چیئرمین نیب نے جس طرح دبا وکی بات کی اس کے کڑیاں اس سے ملتی ہیں۔جس ادارے نے یہ سب ٹیپ چلائی اس کے مالک عمران خان کے دوست اور مشیر ہیں۔سارے معاملہ کی کڑی وزیراعظم ہاوس تک جا پہنچی کہ اس کے پیچھے وزیراعظم ہیں۔وزیراعظم اور چیئرمین نیب کا اصول مختلف ہے، یہ کہتے ہیں اپنے اوپر الزامات پر بے گناہ ثابت کریں ورنہ آپ مجرم ہو۔اپوزیشن لیڈر کو جس طرح گرفتار کیا گیا، وہ حقائق بھی سامنے آئیں گے۔ہم چاہتے ہیں چیئرمین نیب کو انصاف ملے۔ہمیں پہلے دن سے نیب پر شک تھا، اب اس کی کڑیاں ملنا شروع ہوگئی ہیں۔حقائق عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔اس مسئلہ میں نیب، وزیراعظم، چیئرمین نیب، وزیراعظم ہاوس ملوث ہیں۔ہمارے پاس پارلیمنٹ کا فورم ہے، ہم چاہتے ہیں قومی اسمبلی قاعدہ244-A کے تحت اس معاملہ پر خصوصی کمیٹی بنائیں۔پارلیمنٹ قانون بناتی ہے، اس کا حق ہے کہ قومی نوعیت کے اتنے بڑے ایشو پر بحث کرے۔قائد حزب اختلاف نے فیصلہ کیا ہے کہ مسلم لیگ(ن)کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف خصوصی کمیٹی کی تشکیل کے لئے قرارداد پیش کریں گے۔وزیراعظم اور چیئرمین نیب کا کام ہے کہ کمیٹی کے سامنے اپنی صفائی رکھیں۔اگر حکومت کمیٹی سے بھاگتی ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ہم تو پہلے بھی کہہ چکے ہیں یہاں پوری دال ہی کالی ہے۔

6 ارب ڈالر پروگرام سے پاکستان اقتصادی طور پر مستحکم ہوگا، آئی ایم ایف

پاکستان میں معاشی اصلاحات چاہتے ہیں،پروگرام کا مقصد پاکستان کے مالی معاملات کی بہتری، قرضوں میں کمی اور پاکستان کو پائیدار ترقی کے راستے پر ڈالنا ہے، ترجمان جیری رائس

واشنگٹن ( این ٹی ایس نیوز )عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت میں بہتری کا عندیہ دے دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ترجمان آئی ایم ایف جیری رائس کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان میں معاشی اصلاحات چاہتے ہیں، آئی ایم ایف پروگرام کے بعد پاکستان پر قرضوں کا دبا کم ہو جائے گا۔ آن لائن میڈیا بریفنگ کے دوران جیری رائس کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرے گا۔انہوں نے پاکستان میں معاشی اصلاحات پر زور دیا۔ جیری رائس نے امید ظاہر کی کہ 6 ارب ڈالر قرضے کا پروگرام طے پانے سے پاکستان میں اقتصادی ترقی بڑھے گی۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کا مقصد پاکستان کے مالی معاملات کی بہتری، قرضوں میں کمی اور پاکستان کو پائیدار ترقی کے راستے پر ڈالنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ اس پروگرام سے سماجی شعبے پر زیادہ اخراجات ممکن ہو سکیں گے، انفرا اسٹرکچر اور انسانی وسائل کی بہتری ممکن ہوگی۔جیری رائس نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام سے پاکستان میں سماجی شعبوں کے لئے زیادہ فنڈز میسر آئیں گے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو دئے جانے والی بیل آٹ پیکج کی تصدیق بھی کی اور کہا کہ آئی ایم ایف منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لوگارڈ نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی جس کے بعد پاکستان اور آئی ایم ایف حکام کے درمیان 12 مئی کو 6 ارب ڈالر کے 3 سالہ پروگرام پر اسٹاف لیول مذاکرات ہوئے۔خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے بعد ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا لیکن ملک کی خراب معاشی صورتحال کے باعث حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا جس پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ تاہم اب پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات طے پا چکے ہیں۔ اس حوالے سے مشیر خزانہ ڈاکٹرعبدالحفیظ پاشا نے بتایا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرضے کے لئے ایف اے ٹی ایف سے کلئیرنس لینا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ 6 ارب ڈالرز حجم کا قرضہ دراصل تین ارب ڈالرز ہے کیونکہ باقی تین ارب ڈالرز تین سال میں آئی ایم ایف کو واپس ادا کرنا ہوں گے۔

چین کے نائب صدر وانگ کی شان 26 مئی سے پاکستان کا دورہ کریں گے،دورے کے دوران مختلف شعبوں میں مفاہمت کی دستاویزات اورمعاہدوں پردستخط ہوں گے،ترجمان دفتر خارجہ

اسلام آباد (این ٹی ایس نیوز) عوامی جمہوریہ چین کے نائب صدر وانگ کی شان 26 مئی سے پاکستان کا دورہ کریں گے۔ چین کے نائب صدر وانگ کی شان 13 ویں نیشنل پیلزکانگریس اورمرکزی فارن افئیرز کمیشن کے رکن ہیں۔ مرکزی فارن افئیرز کمیشن چین کی کمیونست پارٹی کا اہم ادارہ ہے۔ترجمان دفترخارجہ کے مطابق عوامی جمہوریہ چین کے نائب صدر وانگ کی شان کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے درمیان سدابہارسٹریٹجک تعاون اوراشتراک کار کے عزم کی عکاسی ہوتی ہے۔ان کادورہ دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے دوطرفہ رابطوں کی ایک کڑی ہے جس میں وزیرعظم عمران خان کے نومبر2018ء کے دورہ چین اورپھر اپریل 2019 ء میں دورہ چین اوردوسری بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کے بعد تیزی آئی ہے۔ ترجمان نے کہاکہ اپنے دورے کے دوران نائب صدر وانگ کی شان صدرمملکت عارف علوی اوروزیراعظم عمران خان سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔ان کے دورے کے دوران مختلف شعبوں میں دونوں ممالک کے مابین مفاہمت کی دستاویزات اورمعاہدوں پردستخط ہوں گے۔چینی نائب صدر کے دورہ سے پاکستان اورچین کے درمیان سدبہاراورآزمودہ دوستی کی اہمیت اجاگرہوتی ہے۔ ان کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے مابین مختلف شعبوں میںکثیرالجہتی تعلقات کو مزید فروغ حاصل ہوگا۔

حکومت کا آئندہ بجٹ میں 7 کھرب 75 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا ارادہ

 ریونیو منصوبے کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے آخری دور میں بھی پیش کیا گیا،پاکستان میں 300 کمپنیاں 85 فیصد ٹیکس ادا کرتی ہیں۔رپورٹ

اسلام آباد(این ٹی ایس نیوز) ٹیکس بیوروکریسی کے تشکیل دیے گئے آمدن (ریونیو) کے تفصیلی منصوبے کے مطابق حکومت مالی سال 20-2019 کے آئندہ آنے والے بجٹ میں 7 کھرب 75 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔اس ریونیو منصوبے کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے آخری دور میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ریونیو پلان پر نظر ڈالنے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سینئر حکام سے تفصیلی بات چیت کے بعد اس کا سیاق و سباق واضح ہوا جس کے تحت اسے تیار کیا گیا تھا۔مذکورہ پلان کو وفاقی کابینہ سے منظور کروانا ابھی باقی ہے جو مئی کے پہلے ہفتے میں کیا جانا تھا لیکن اہم ترین عہدوں پر تبدیلیوں کے باعث ایسا نہیں ہوسکا۔اس حوالے سے جب چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی سے بات کی گئی تو انہوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ آئی ایم ایف کو فراہم کیا جانے والا ریونیو پلان ان کی نظر سے گزرا یا نہیں البتہ انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے یہ ضرور کہا کہ ’ہم آئندہ سال کے لیے مالی اہداف کو پورا کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کررہے ہیں اور اس جانب توجہ دے رہے ہیں کہ اس ہدف میں سے کتنا ٹیکس کے ذریعے پورا ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے‘۔تاہم انہوں نے مالی اہداف یا نئے ٹیکس کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا البتہ ان کا کہنا تھا کہ ’ان اعداد و شمار کو آئندہ چند روز میں حتمی شکل دے دی جائے گی، آپ کو جلد معلوم ہوجائے گا‘۔شبر زیدی نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر سختی نہیں کی جائے گی، انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں 300 کمپنیاں 85 فیصد ٹیکس ادا کرتی ہیں‘ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس نیٹ میں ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی اور کسی اور کے ٹیکس کی ذمہ داری اٹھائے۔واضح رہے کہ ا?ئی ایم ایف کو فراہم کردہ ریونیو پلان کے مطابق حکومت دوسرے بجٹ (21-2020) میں 16 کھرب 40 ارب 30 کروڑ کے ریونیو اقدامات متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کے بعد مالی سال(22-2021) 26 کھرب 4 ارب 50 کروڑ کے ٹیکس اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ا?ئی ایم ایف نے حکومت کو مالی سال 20-2019 کے لیے 50 کھرب 50 ارب روپے کا ریونیو ہدف دیا تھا تاہم ایف بی ا?ر نے اسے کم کر کے 50 کھرب یا 50 کھرب 20 ارب تک کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔تاہم ریونیو اقدامات کے یہ ابتدائی تخمینے ہیں اور 11 جون کو متعارف کروائے جانے والے بجٹ سے قبل اس میں تبدیلی آسکتی ہے۔آمدن کا یہ تخمینہ اس اندازے پر قائم کیا گیا ہے کہ ملکی معیشت 4 فیصد سالانہ کے اعتبار سے ترقی کرے گی اور مہنگائی کی شرح 9.4 فیصد جبکہ ریونیو کی شرح نمو 13.4 فیصد سالانہ رہے گی۔اگر ان اقدامات پر عمل کیا گیا تو سال 22-2021،جس سال ا?ئی ایم ایف پروگرام ختم ہوگی، تک مجموعی ملکی پیداوار میں ملک کے ٹیکس کی شرح 15.4 فیصدتک بڑھ جائے گی جبکہ حکومت نے ٹیکس دہندگان کی تعداد 19 لاکھ سے بڑھا کر 26 لاکھ کرنے کا تخمینہ لگایا ہے۔

سونے کے ذرات جمع کرنے والی پھپھوندی دریافت


 پرتھ : آسٹریلیا میں ایک مقام پر انوکھی پھپھوندی (فنگس) دریافت ہوئی ہے جو سونے کے ذرات کو گھلا کر انہیں ایک مقام پر جمع کرتی رہتی ہے۔
پرتھ شہر سے 130 کلومیٹردور بوڈنگٹن کے ایک گاؤں کی مٹی میں گلابی رنگت کی فنگس ملی ہے جس کے بارے میں ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ دریافت سونے کی کان کنی اور تلاش میں بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
آسٹریلیا کے مشہور ادارے سی ایس آئی آر او سے وابستہ ارضی خرد حیاتیات (جیو مائیکروبائیالوجی) کے ماہرین نے اس علاقے کی مٹی کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔ بوڈنگٹن کا یہ علاقہ سونے کے ذخائر کی وجہ سے مشہور ہے۔ ان سائنسدانوں میں ڈاکٹرسنگ بوہو بھی شامل ہیں جنہوں نے معلوم کیا ہے کہ سپرآکسائیڈ نامی ایک کیمیکل اس فنگس سے خارج ہوتا ہے جس میں سونا گھل جاتا ہے۔ اگلے مرحلے میں فنگس پگھلے ہوئے سونے میں ایک اور کیمیکل ملاتا ہے جس سے سونا دوبارہ ٹھوس ہوجاتا ہے اورفنگس کی سطح پر اس کے باریک باریک ذرات ابھر آتے ہیں۔
ماہرین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ فنگس سونے کے ذخائر کو اوپری سطح تک لاتی ہے اور اس طرح سونا تلاش کرنے والی کمپنیوں کو بہت رہنمائی مل سکتی ہے۔ توقع ہے کہ اس سے کان کن کمپنیاں فائدہ اٹھاسکیں گی۔ تاہم یہ فنگس اتنی چھوٹی ہے کہ یہ عام انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتی اور ماہرین اسے دیکھنے کےلیے ایک نیا نظام تیار کررہے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سونے کی تلاش کے روایتی طریقوں میں ماحول متاثر ہوتا ہے اور اس پر اخراجات بھی بہت آتے ہیں۔ لیکن فنگس کے ذریعے سونے کی نشاندہی سے کم خرچ اور ماحول دوست انداز میں سونے کی تلاش کا مشکل کام کیاجاسکتا ہے۔

Friday, May 24, 2019

شہادت علی رضی اللہ عنہ



 پروفیسر زید حارث

رمضان المبارک کی مبارک گھڑیوں میں آج لڑکھڑاتے قلم اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ان کی سیرت پہ کچھ الفاظ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ جن کو انسانیت کے افضل ترین قبیلے میں ولادت کا شرف نصیب ہوا ۔ آپ رضی اللی عنہ کے حصے میں کونین کے تاجدار کی خونی و نسبی رشہ داری آئی۔ آپ کا بچپن تو اہل مکہ کی اذیتوں کے باوجود ایمان پہ بے مثال استقامت کے ساتھ گزرا۔ علی رضی اللہ عنہ کی جوانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ متعدد غزوات میں ایک کامیاب، بہادر جرنیل کی حیثیت سے گزری۔ علی رضی اللہ عنہ کا بڑھاپا شرق و غرب اور شمال و جنوب میں اسلام کی فتوحات کے جھنڈے گاڑتا ہوا اور خلافت راشدہ کی سنہری داستاں رقم کرتے ہوئے گزرا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی عفت وپاکدامنی کی علامت فاطمہ الزہراء جیسی بابرکت ہستی قرار پائی۔ علی کی صلب اطہر سے جنت کے دو سرداروں کو منتخب کرلیا گیا۔ علی رضی اللہ عنہ کو ہجرت کے وقت صادق و امین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت ودیانت والی نیابت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کو اہل ایمان کا مولی قرار دیا گیا۔ علی کے ساتھ محبت ایمان کا معیار اور ان سے بغض نفاق کی علامت ٹھہرا۔علی کو ہارون علیہ السلام کی موسی کے ساتھ رفاقت والا شرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوازا۔ علی کا ذکر احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کیا تو فرمایا:خلافت نے علی کو مزین نہیں کیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے خلافت کو مزین کر دیا۔ جو نثر بولتے تو کلمات باادب لائن میں لگ جاتے کہ نجانے کس کو شرف گویائی مل جائے ۔جو شعر کہتے تو قافیہ کو چار چاند لگا دیتے ۔
أنا الذي سمتني أمي حيدره.
كليث غابات كريه المنظره
جن کی قائدانہ صلاحیت پہ امام المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا یقین تھا کہ جنگ سے پہلے ہی کہہ دیا کہ آج جھنڈا اس کے ہاتھ میں دوں گا جس کو اللہ میدان میں فتح دے گا۔ جن کی تواضع و عاجزی اتنی خوبصورت تھی کہ رسولوں کے سردار نے کنیت ہی ابو تراب (مٹی والا) رکھ دی۔ جن کے زہد کی داستان کا ذکر آیا تو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جیسے زہد و ورع کے امام نے بھی کہہ دیا، لوگوں میں  سب سے زیادہ زہد کے مالک علی بن ابی طالب ہیں۔ جن کی صلہ رحمی کا تذکرہ ہو تو تاریخ یہ واقعہ روشن الفاظ میں دکھاتی ہے کہ وہ اپنے چچا عباس کے ہاتھوں کے بوسہ لینے کے بعد فرماتے "ارض عنی " آپ مجھ سے خوش ہیں؟ آپ مجھ سے راضی اور خوش رہا کریں ۔
علی رضی اللہ عنہ کے صبر کا ذکر ہو تو ان کا قول اس باب میں جامع و شامل ہے۔
"إن الصبر من الإيمان بمنزلة الرأس من الجسد ' ولا خير في جسد لا رأس له ".
یقینا ایمان میں صبر کی حیثیت جسم میں سر کی طرح ہے۔ اور جس جسم میں سر نہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔اگر عفو و درگزر پہ امت کی تربیت کی تو جامع اور شامل الفاظ کے ساتھ کمال کر دیا ۔
إذا قدرت على عدوك فاجعل العفو عنه شكرا للمقدرة عليه۔
جب تو اپنے دشمن پہ تسلط وکنٹرول رکھتا ہو۔ تو اس پہ کنٹرول و تالط کو اپنے لئے نعمت سمجھتے ہوئے اس سے در گزر کر دے۔
 یہی اس نعمت کا شکر ہے۔بے شمار اوصاف حسنہ اور خصال جمیلہ کا یہ پیکر دشمن کو ایک لمحہ بھی نہیں بھاتا تھا۔دشمن حکمت ودانائی کے اس بے مثال موتی کو تاج اسلام میں دیکھنا گوارہ نہیں کرتے تھے۔ وہ ایک طویل عرصہ سے اس مضبوط چٹان کو اپنے رستے سے ہٹانے کے جال بچھا رہے تھے لیکن اللہ کے اس شیر کا خوف دشمن کو قریب بھی نہی پھٹکنے دیتا تھا۔
لیکن وہی ہوا جو اسلام کی تاریخ کا لازمی حصہ ہے۔ وہی ہوا جو دشمنوں کا مضبوط ترین ہتھیار ہے۔ وہی وار ہوا جو وار کم ہی بے سود جاتا ہے۔ پھر سے عبداللہ بن ابی کی تاریخ رقم کی گئی۔
آستین کے سانپ اپنا ڈنگ تیز کرتے رہے ۔
صوم و صلوۃ کی پابندی کا اظہار کر کے لوگوں کو اپنے ایمان کا جھانسہ دیتے رہے ۔نیکی وتقوی کا مظاہرہ کر کے اپنے دل میں تاج امت کے قیمتی موتی کو توڑنے اور دلیری و بہادری کی بے مثال شخصیت کو خرم کرنے کا مذموم ارادہ لے کر اہل اسلام کی صفوں میں ہی گھومتے رہے۔ وہ ابن ملجم جس نے کوفہ کی عورت سے نکاح کا مہر داماد رسول اور مسلمانوں کے خلیفہ کے قتل کو طے کر لیا تھا جو خارجی فکر کا حامل اور وحدت اسلامیہ کا دشمن  تھا اور یہی خوارج کا شعار ہے کہ وہ وحدت و اتحاد کو ختم کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ اس خبیث کو کیا خبر تھی کہ وہ مہر نہیں بلکہ جہنم کی ٹکٹ طے کر رہا ہے۔ وہ ناپاک ارادے کے ساتھ زہر آلود تلوار لے کر نکلا تو فجر کی نماز کے لئے جاتے ہوئے امت مسلمہ کے روشن چراغ پر حملہ کر دیا کہ جس حملے کی شدت اور زخم کی گہرائی نے بالآخر شہادت کے رتبے پر فائز کروا دیا اور شہادت فی سبیل اللہ کے تاج کو سر پہ سجائے اپنے محبوب اور خالق و مالک سے جا ملے۔لیکن اس امت پہ غم کا وہ پہاڑ ٹوٹا اور ملت کی بنیادوں میں وہ شگاف پڑ گیا کہ جس کو پر کرنا ناممکن ہے۔
غم و پریشانی کا اظہار کسی نے نثر میں کیا اور کسی نے شعر میں کیا ۔
صرف ایک ہی پہ اکتفاء کرنا مناسب سمجھوں گا۔
قل لابن ملجم والأقدار غالبة.
ابن ملجم سے کہہ دو کہ قسمت و تقدیر کا فیصلہ غالب ہے۔
هدمت ويلك للإسلام أركانا
تیرے لئے بربادی ہو تو نے اسلام کا ایک ستون گرا دیا ہے۔
 قتلت أفضل من يمشي على قدم.
تو نے زمین پہ ایک بہترین انسان کو قتل کر دیا ہے۔
وأول الناس إسلاما وإيمانا.
اس کو جو سب سے پہلے اسلام لانے والے اور سب سے پہلے تصدیق کرنے والے تھے۔
وأعلم الناس بالقرآن ثم بما. سن الرسول لنا شرعا وتبيانا
اور اس کو جو لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن کے بارے ميں علم رکھنے والے اور سب سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو جاننے والے تھے۔

بچوں کی تربیت کے لیے خود کو بدلیں



نمرہ فرقان

جس طرح کسی عمارت کی پختگی اور مضبوطی کا اندازہ اس کی بنیاد سے لگایا جاتا ہے اسی طرح معاشرے کی ترقی کا انحصار بھی اس کی آنے والی نسل پر ہے۔ گویا کسی معاشرے کی بنیاد اس کے بچے ہیں اور بچوں کی بہترین تربیت کر کے ہی ہم معاشرے میں سدھار پیدا کر سکتے ہیں اور اس کی بنیاد کو بھی مضبوط کر سکتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ماں کی گود بچے کے لیے پہلی درسگاہ ہے اور زندگی کے بہت سے اسباق بچہ اپنی ماں سے ہی سیکھتا ہے لیکن بچوں کی اچھی تربیت کے لیے صرف ماں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا بلکہ ماں اور باپ دونوں کو ہی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 
ہر ذی شعور والدین کے دل میں یہ خواہش ضرور موجود ہوتی ہے کہ ان کی اولاد بہترین انسان بنے اور ہر میدان میں سرخرو ہو۔ ہمیشہ یاد رکھیے کہ والدین اپنی اولاد کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں لہذا کوشش کیجیے کہ آپ اپنے بچے کے اس بھروسے اور عقیدت کو ٹوٹنے نہ دیں۔ اس سلسلے میں گھر میں رہنے والے افراد پر بھی ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بچوں کے سامنے کبھی بھی ان کے والدین کو برا نہ کہیں۔ ایسے بچے کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ دوہری سوچ کا شکار ہو جاتا ہے۔ کوشش کریں کہ گھر میں ایک خوشگوار ماحول بنا رہے تاکہ بچوں کی شخصیت بہتر طور پر نشوونما پا سکے۔ 
جو آپ اپنے بچے کو سکھانا چاہتے ہیں اس پر سب سے پہلے آپ خود عمل کریں۔ ایک اہم عنصر جو بچوں کی تربیت میں انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے، وہ برداشت اور درگزر ہے۔ اپنے بچے کی غلطیوں کو درگزر اور برداشت کیجیے۔ انھیں نرمی اور محبت سے سمجھائیے تاکہ وہ بھی نرمی اور محبت سے اپنا نکتہ نظر پیش کرنا سیکھیں۔اپنے بچے کو ڈانٹنے یا سزا دینے سے پہلے اسے بتائیے کہ آپ اس سے کیا امید رکھتے ہیں۔ یاد رکھیے کورے کاغذ پر تحریر کا آغاز جیسا ہو گا انجام بھی ویسا ہی ہو گا۔
ابک اور اہم عنصر جو تمام عناصر کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے وہ ہے حسن اخلاق۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے سب سے اچھا ہو اور میں تم سب میں اپنے گھر والوں کے لئے زیادہ اچھا ہوں“۔
اس موقع پر حدیث کا سہارا لینے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر آپ اپنے بچے کو اچھے اخلاق اپناتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے اخلاق کی خود تصحیح کیجیے۔ تلخ لہجے اور گالی گلوچ سے پرہیز کریں۔ اپنے رویے کے ذریعے اپنے بچے کو رشتوں کی عزت کرنا سکھائیں۔ اپنے گھر والوں سے خاص طور پر اپنے والدین اور بیوی سے اچھا سلوک رکھیے۔ بچہ جو دیکھتا ہے وہی سیکھتا ہے اور زندگی کے یہی چند ایسے رشتے ہیں جو ہمیشہ ساتھ نبھاتے ہیں۔ بچوں سے ہمیشہ شفقت سے پیش آنا بھی سنت رسول ہے لہٰذا کوشش کیجیے کہ آپ کا رویہ اور سلوک آپ کے بچے کو ایک بہتر طرز زندگی کی جانب گامزن کر سکے۔ 
عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ سختی سے کام لیتے ہیں۔نتیجتاً بچے بھی ضدی اور خودسر ہو جاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے رویے میں اعتدال پیدا کریں۔ کوشش کریں کہ جب آپ کا بچہ آپ کو دیکھے تو اسے اپنا ایک ایسا دوست نظر آئے جس سے وہ اپنی تمام باتیں کر سکتا ہو, اپنے دکھ سکھ بانٹ سکتا ہو, اپنے مسائل بتا سکتا ہو۔ سختی کے وقت ڈانٹ لیجیے لیکن کوشش کریں کہ معاملات پیار محبت سے دوست بن کر سمجھانے سے ہی سلجھ جائیں۔ جیسے ہر انسان کو ایک بہترین دوست کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کوشش کریں کہ وہ بہترین دوست گھر کے اندر ہی آپ کی صورت اسے ہر دم میسر ہو۔ 
زندگی ایک بہت مختصر سا وقفہ ہے۔ اپنی زندگی کی تمام تر مصروفیات میں سے اپنے بچوں کے لیے وقت ضرور نکالیے۔ یہ وقت آپ کے لیے بھی اتنی ہی خوشی اور مسرت کا باعث ہو گا جتنا ان کے لیے ہے۔ ایک سائنسی تحقیق کے مطابق ایسے بچے جن کے والدین انہیں وقت دیتے ہیں اور ان کے دوست بن کر رہتے ہیں, ان میں خوداعتمادی کا عنصر دیگر بچوں کے مقابلے میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ ایسے بچے چیزوں کو بہت جلدی سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ معاشرتی زندگی بھی بہتر طریقے سے گزارنے کی خوبی رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس جن بچوں کے والدین اپنی مصروفیات کی بنا پر انہیں وقت نہیں دے پاتے، غم و غصے کا شکار رہتے ہیں۔
اولاد ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کی ایسی پرورش کریں کہ اس دنیا کو ایک بہتر انسان فراہم ہو اور روز محشر ہم اپنے پروردگار کے سامنے سرخرو ہوں۔

چوری کی سزا



سارہ عمر، ریاض ، سعودی عرب


عمران اور چنگیز ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔عمران کی تربیت میں کوئی کمی نہیںچھوڑی تھی۔ چنگیز کو گھر کے لاڈ پیار نے بگاڑ دیا تھا۔ وہ کسی کا کہا نہیںمانتا۔ اپنی مان مانیاں کرتا تھا۔ ایک دن عمران لنچ میں سموسے لے کر آیا جس کا چنگیز کو علم ہوگیا۔ اس کا دل مچلا کہ وہ بھی سموسے کھائے گا مگر کیسے یہ بات وہ سوچنے لگا۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ عمران کا لنچ باکس چرا کر لنچ کھا لیا جائے بس اسی سوچ کی وجہ سے وہ موقع کے انتظار میں رہا۔ جیسے ہی بریک کی گھنٹی بجی۔ عمران ہاتھ دھونے گیا۔ اس نے موقع دیکھتے ہی عمران کا لنچ باکس نکالا اور کلاس کی کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ وہ کھڑکی پچھلے میدان میں کھلتی تھی جہاں پہ زیادہ لوگ نہیں جاتے تھے۔ ادھر اسکول کا کچھ پرانا سامان بھی پڑا ہوا تھا اس لئے اس طرف صرف خاکروب ہی جاتے تھے۔

 عمران واپس آیا تو کلاس خالی تھی اور لنچ بکس غائب۔ عمران یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ اس نے وہ دن بغیر لنچ کے ہی گزار دیا وہ بہت افسردہ تھا تو اس کا لنچ باکس چوری ہو گیا ہے۔ چنگیز لنچ میں انڈا پراٹھا لایا تھا مگر اس نے نہ وہ خود کھایا نہ ہی پریشان پھرتے عمران کو دیا۔ اس کا دماغ تو سموسے کھانے میں لگا ہوا تھا۔ بریک کے بعد عمران نے ٹیچر کو اپنا مسئلہ بتایا۔ ٹیچر نے سب بچوں کے بیگ میں تلاشی لی لیکن کسی بچے کے بیگ میں لنچ بکس نہیں تھا۔ عمران بہت پریشان ہوا لیکن اس نے خاموشی سے وقت گزار لیا۔ 

 چھٹی کے وقت وہ بس میں چلا گیا لیکن چنگیز سب بچوں کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ جیسے ہی سب گئے وہ پچھلے میدان کی طرف چلا گیا۔ وہ چاہتا تھا کہ لنچ بکس اپنے بیگ میں ڈال کے گھر چلا جائے اور امی سے چھپ کر سموسے کھا لے۔ پھر کل لنچ بکس واپس رکھ دے گا۔ کھڑکی سے کود کر باہر جانے کا راستہ نہ تھا سو اسے پچھلے میدان میں جانے کے لیے کافی چلنا پڑا۔ بس جانے کے لیے تیار کھڑی تھی ۔ وہ لنچ بکس بیگ میں ڈال کر میدان میں آگیا۔ 

لیکن یہ کیا۔۔۔ بس تو چلی گئی تھی۔ چوکیدار نے بھی اسکول خالی دیکھ کر دروازہ بند کردیا تھا۔ چنگیز وہاں بیٹھ کر دھاڑے مار مار کے رونے لگا۔ اس کو چوری کی سزا مل گئی تھی۔ اس نے نہ خود لنچ کیا تھا اور نہ ہی عمران کو کرنے دیا تھا۔ اس لنچ بکس کو اٹھانے کے چکر میں اس کی بس بھی نکل گئی تھی ۔ چنگیز بہت پریشان ہوا اس نے اللہ سے توبہ کی کہ آئندہ وہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔ 

روتے روتے وہ سوگیا۔ جب چنگیز گھر نہیں آیا تو اس کی امی نے عمران کے گھر فون کیا۔ اس نے کہا کہ وہ مجھے بس میں بھی نہیں دکھائی دیا البتہ وہ اسکول میں تھا۔ انہوں نے اس کے ابو کو فون کیا اور وہ آفس سے گھر آئے اور سب مل کے اسے ڈھونڈنے کے لیے اسکول گئے۔ جب وہ اسکول پہنچے اور انہوں نے چوکیدار سے دروازہ کھلوایا تو وہ لیٹا ہوا تھا اس کے ہاتھ میں عمران کا لنچ باکس بھی تھا۔ چنگیز کے ابو نے اسے اٹھایا اور گھر لے آیا۔ چنگیز نے عمران اور سب سے معافی مانگی۔ عمران نے بھی اسے معاف کردیا اور پھر دونوں نے مل کر سموسے کھائے۔


بچوں پر کارٹون کے منفی اثرات

 محمد نفیس دانش

بلا شبہ اولاد والدین کے پاس ایک عظیم نعمت، قیمتی سرمایہ اور ایک اہم ترین امانت ہے، اگر اس کی حفاظت کی جائے، خیر و بھلائی اور اخلاق حسنہ کا عادی بنایا جائے، اچھی تعلیم وتربیت سے ہمکنار کیا جائے تو وہ فرشتہ صفت انسان، والی کامل اور وقت کے قطب بن سکتے ہیں، لیکن اگر اسے نظر انداز کیا جائے اور جانوروں کی طرح صرف اس کی جسمانی ساخت کی فکر کی جائے تو وہ بہیمانہ صفات کے حامل، سماج کے لیے ایک ناسور، والدین کے لیے درد سر اور ملت اسلامیہ کے لیے عظیم خسارہ بن سکتے ہیں اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا“۔

یہی وجہ ہے کہ ان دشمنان اسلام نے اسلام کو مٹانے کے لیے نسلِ نو کو ہی نشانہ بنایا جس کے لیے انہوں نے میڈیا کا سہارا لیا، اس میڈیا نے نسل نو کے جذبات کو غلط رخ دینے کے لیے طرح طرح کے حربے آزمائے اور فحاشی و عریانیت کا وہ طوفان برپا کیا کہ الامان الحفیظ! اور سیٹلا ئٹ چینلز کی شکل میں ایسا جال بچھایا گیا جس نے بےحیائی اور بے شرمی کے تمام دروازے کھول دیے، بد کرداری، فحاشی و عریانیت کو ایک حسین شکل میں پیش کیا گیا اور مستزاد یہ کہ نسل نو کی عقلوں کو بگاڑنے، دلوں میں فساد پیدا کرنے، آنکھوں سے حیا کا پردہ ہٹانے اور دینی اقدار کو ختم کرنے کے لیے کارٹون چینلز کو ایجاد کیا گیا، جس میں بظاہر بچوں کے لیے تفریح طبع کا سامان ہے لیکن پس پردہ اپنے اندر فساد عظیم لیے ہوئے ہیں اور والدین نے بھی اسے بچوں کے لیے بے ضرر اور بچپن کی ضرورت سمجھ لیا ہے، والدین یہ سوچ کر کہ بچے کے گلی میں کھیلنے سے بہتر ہے کہ وہ ہماری نظروں کے سامنے رہ کر گھر میں کاٹون دیکھے، جب کہ اس سے بچے کے ذہن وجسم پر اور اسلامی تہذیب وثقافت اور اخلاق پر کا فی منفی اثر مرتب ہورہے ہیں۔

1۔ کارٹونس کے ذریعہ بچوں کے عقائد پر حملے ہو رہے ہیں کیوں کہ اکثر کارٹون میں باطل مذہب کی ترجمانی ہوتی ہے مثلاً کسی میں جادو گروں کی جادو گری اور اس کی اثر انگیزی کو دکھلایا جاتا ہے، کسی میں یہ دکھلایا جاتا ہے کہ کسی بت کی پوجا کرنے سے وہ مشکل دور ہو گئی کسی کا رٹون میں درخت وغیرہ کو آفات وحوادث سے حفاظت کرنے والے کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے کسی میں صلیب اور بت وغیرہ کے ذریعہ قلبی طما نینت اور راحت حاصل ہوتے ہوئے دکھلایا جاتا ہے، کسی میں گرجا گھروں اور بت کدوں میں کیے جانے والے شرکیہ اعمال اور پس پردہ اس کے فوائد بھی دکھلائے جاتے ہیں، بچوں میں چونکہ صفت انفعالیت غالب ہوتی ہے اس لیے وہ بہت جلد وہ اس سے اثر کو قبول کر لیتے ہیں، اور اسلا می تعلیمات کے متعلق منفی رجحانات پیدا ہو نے شروع ہو جاتے ہیں۔

2۔ بہت سے کارٹونس میں لڑتے جھگڑتے، مار پیٹ کرتے دکھایا جاتا ہے جس سے جہاں بچوں میں سختی، تند خوئی پیدا ہوتی ہے تو وہیں دوسری طرف ہمدردی اور خدمتِ خلق کا مادہ، دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر مدد کرنے کا مزاج ختم ہوجاتا ہے۔

3۔کارٹونس کو ایسے لباس میں پیش کیا جاتا ہے جو بالکل غیر اسلامی  اور شرم وحیائ سے عاری ہوتے ہیں اور ایسے نازیبا حرکات کو دکھایا جاتا ہے جو حیائ سے فرو تر ہوتے ہیں جنھیں دیکھ کر بچہ بھی ان کی نقالی کرنے لگتا ہے۔

4۔ بہت سے کارٹونس میں جرائم کرنے اور ان کے برے انجام سے بچنے، اسی طرح جھوٹ بول کر بچنے کے مناظر دکھلائے جاتے ہیں جن سے بچے میں جرم کرنے اور جھوٹ بولنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

5۔ وقت کا ضیاع؛ بچوں کا جو وقت زبانی، تخلیقی، فنی، اور سماجی صلا حیتوں کے پروان چڑھنے کا تھا، اب اس کا یہ وقت بے کار کارٹونوں کی نذر ہو جاتا ہے۔

6۔ "American acadmy of child" نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں یہ پیش کیا کہ ایسے بچے جو کارٹون دیکھتے ہیں وہ بے حس ہو جاتے ہیں، دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر انہیں کوئی احساس تک نہیں ہوتا، نیز ایسے بچے جو مسلسل تشدد کا مشاہدہ کرتے ہیں ان کا رویہ انتہائی متشدد اور وہ ضدی ہوجاتے ہیں اپنے مسائل کا حل تشدد کی راہ ہی میں مضمر سجھتے ہیں۔

7۔ ایسے بچے جسمانی، ذہنی، اور تعلیمی نشو نمائ میں پیچھے رہتے ہیں۔

8۔ بعض کارٹونس ایسے ہوتے جن میں بڑوں کی اور والدین کی توہین اور ان کے ساتھ بیہودہ مذاق وبد تمیزی کرتے دکھایا جاتا ہے جس سے بچوں میں اکرامِ مسلم اور عظمتِ والدین کے بجائے نا فرمانی اور ہٹ دھرمی ان کے ذہن میں پیوست ہوجاتی ہے۔

البتہ آج کل عبد الباری کے نام سے بھی کارٹون تیار کیے جا رہے ہیں، جو اسلامی تعلیمات پر مبنی ہوتے ہیں مذکورہ بالا کے بجائے اپنے بچوں کو یہ دکھا دینے چاہیے تا کہ بچے اسلامی تعلیمات کے ساتھ آداب بھی سیکھتے رہیں۔ اس لیے اب والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ اللہ کے فرمان کو مدنظر رکھ کر اپنے بچوں کی تربیت اور ان کی شخصیت سازی کی فکر کریں انہیں احکام الٰہی، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے قصے بتائیں۔

والدین کو چاہیے وہ بچوں کے ساتھ مناسب وقت گزاریں، ٹی وی کے سپرد کرکے خود کو بری الذمہ نہ سمجھیں، اور ان پر کڑی نظر رکھی جائے۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان حیا سوز اور مخرب اخلاق چینلز پر سرکاری طور پر پا بندی عائد کردے۔خطبا اپنے خطبوں میں، علماءاپنے علمی مواعظ میں اور مضمون نگار اپنے اپنے مضامین میں اس کے نقصانات کو امت کے سامنے پیش کریں۔ اس لیے کہ جس قوم کی نسل نو تباہ ہوجائے اور ان سے روح ایمانی ختم ہوجائے تو وہ قوم اپنی ظاہری ترقی کے باوجود مردہ ہوجاتی ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ


نفع بخش سودا

(افسانہ)
تحریر: آسیہ پری وش، حیدرآباد


مجھے سمجھ نہیں آتا کہ تمہارے ماں باپ نے یوں صاف انکار کیسے کردیا۔ تمہیں پتا ہے گھر آکر ماما پاپا نے میری کتنی بے عزتی کی ہے۔ کتنی مشکلوں سے تو انہیں تمہارے گھر آنے کے لیے راضی کیا تھا صرف تمہاری خوشی کے لیے۔ لیکن تم نے شاید اپنے ماں باپ کو اچھی طرح نہیں سمجھایا تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے کتنی محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے سو انہوں نے ماما پاپا کو کسی صورت بھی انکار نہیں کرنا۔ شمع کے والدین کے اپنے رشتے سے یوں صاف انکار پہ وہ جتنا غصے میں تھا اتنا ہی بدلحاظ بھی ہورہا تھا۔

رات کی خاموشی کا وہ پہر جو وہ دونوں فون پہ محبت کی باتیں کرتے گزارتے تھے آج وہی پہر دانش کے غصے کی نذر ہورہا تھا۔ دانش! اس انکار کی وجہ تو تمہارے ماما پاپا ہی ہیں۔ ایک تو اتنے روکھے انداز میں بات کررہے تھے بلکہ بات کیا کررہے تھے لگ رہا تھا کہ جیسے پتھر مار رہے ہوں۔ صاف ظاہر ہورہا تھا کہ میرے رشتے کے لیے آکے انہوں نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ اوپر سے امی اور بابا سے یہ بھی کہہ دیا کہ جب آپ کی لڑکی اور ہمارا لڑکا آپس میں سب باتیں طے کرچکے ہیں تو ہمیں اور آپ کو ایک دوسرے سے ملنے کی بھلا کیا ضرورت تھی۔

تمہیں پتا ہے ناں تمہارے والدین کی طرح میرے والدین بھی اس رشتے پہ کسی صورت راضی نہیں تھے۔ تمہاری طرح میں نے بھی انہیں بہت مشکل سے راضی کیا تھا لیکن تمہارے ماما پاپا کی اس بات نے سارا معاملہ بگاڑ دیا۔شمع روتے ہوئے دانش کا غصہ برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اس کے والدین کا قصور بھی بتا رہی تھی۔

ہاں ہاں سارا قصور تو میرے ماں باپ کا ہے۔ تمہارے ماں باپ تو بڑی خوشدلی سے ان سے ملے تھے۔ ان کے سامنے بچھے بچھے جارہے تھے۔شمع کی وضاحت پہ دانش اور زیادہ بپھرا تھا۔

یہ سچ تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے جتنی زیادہ محبت کرتے تھے اتنے ہی ان دونوں کے والدین اس رشتے کے خلاف تھے اور ان دونوں نے ہی بڑی مشکلوں اور منت سماجت کے بعد اپنے اپنے والدین کو منایا تھا لیکن رشتہ مانگنے کے وقت معاملہ یوں بگڑا تھا کہ اب وہ دونوں کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ ایسے میں دانش کا اس کے اور اس کے والدین کے لیے اتنا ہتک آمیز رویہ شمع کو تھکا بھی رہا تھا۔ ویسے بھی تمہارے ماں باپ لڑکی کے ماں باپ ہی تو تھے۔ سو کیا ہوجاتا جو وہ اتنی چھوٹی سی بات پہ اکڑنے کے بجائے ماما پاپا کے سامنے تھوڑا سا ج ±ھک جاتے اور ان کی بات برداشت کرجاتے۔ اس طرح سے ہماری شادی تو ہوجاتی۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کی محبت تو مل جاتی۔ اتنا مہنگا سودا۔ عزت کے بدلے محبت؟ وہ سوچ کر رہ گئی۔ 

چلو دانش مان لیا کہ میرے والدین نے ہی تمہارے والدین کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ اب یہ بتاو ¿ کہ اب اس کا حل کیا نکلنا ہے؟ شمع کی اس ہار نے دانش کے اندر ا ±بلتے لاوے پر ٹھنڈے پانی کے چھڑکاو ¿ کا کام کیا۔ وہ یکلخت ٹھنڈا ہوگیا۔ اب اس کا صرف ایک ہی حل ہے۔ کون سا؟ کورٹ میرج۔ کورٹ میرج؟ دانش کے لہجے کی سنسناہٹ شمع کے پورے وجود میں پھیل گئی۔

ہاں کورٹ میرج۔ میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہا تھا کہ ہماری محبت کا ملن کورٹ میرج پہ ہی ہوگا پر تم ہی نہیں مان رہی تھیں کہ نہیں۔ گھر والوں کو ہر صورت میں منا کر عزت سے شادی کریں گے۔ دیکھ لیا اس کوشش کا انجام۔ اب بتاو ¿ کب کررہی ہو کورٹ میرج؟ دانش اتنے یقین سے کہہ رہا تھا جیسے اسے یقین ہو کہ شمع کورٹ میرج کے لیے اب کوئی تاریخ دے ہی دے گی۔ آخر کیوں نا اس کے لہجے سے یہ یقین بولتا۔ یہ یقین اسے اسی کا دیا ہوا ہی تو تھا۔

تمہیں پتا ہے دانش! جس طرح تمہارے ماما پاپا ہم پر احسان عظیم کرنے والے انداز میں بیٹھے ہوئے تھے اور باتیں کررہے تھے اور ان کے سامنے بیٹھے میرے امی بابا جس طرح سے ان کا ہر توہین آمیز انداز اور ہر بات صرف میری ضد کی خاطر جس صبر، تحمل اور ضبط سے برداشت کررہے تھے مجھے ان کو دیکھ کر ان کی حالت پر ترس آرہا تھا اور اپنی محبت اور ضد پر رونا آرہا تھا۔ پتا نہیں کیوں؟ حالانکہ یہ سب میری ایما پہ ہی تو ہورہا تھا۔ سو مجھے تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ میرے والدین میری ضد اور خوشی کی خاطر یہ سب برداشت کررہے تھے پھر میرا اندر کیوں رو رہا تھا؟ موبائل کان سے لگائے شمع اس وقت کے منظر میں کھوئی دکھ سے بول رہی تھی جبکہ دانش خاموشی سے شمع کا دکھ سن رہا تھا۔

 اس پہ مجھ پر مزید ستم یہ ہوا کہ وہاں پر بیٹھے بیٹھے ہی میری نظروں کے سامنے میری آئندہ شادی شدہ زندگی کی فلم بھی چلنے لگی جس میں اپنے ماں باپ کی جگہ میں نے خود کو بیٹھے پایا۔ بس فرق صرف اتنا تھا کہ ان کے چہرے ضبط اور برداشت کی سرخی کے باوجود سپاٹ تھے جبکہ میرے چہرے پر صبر اور برداشت کی سرخی کے ساتھ ساتھ ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی سجی ہوئی تھی۔ میں اپنی پوری سچائی، خوش اخلاقی، صبر اور عزت سے تمہارے گھر والوں کے دل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کر کر کے اب تھکنے لگی تھی لیکن تمہارے گھر والوں کے ماتھے کے بل کسی طور کم ہی نہیں ہورہے تھے۔ ہاں تو کم ہوں بھی کیوں۔ میرا جرم تھا بھی تو اتنا بڑا۔ تم سے محبت پلس میں ضد کی یہ شادی۔ کوئی چھوٹا جرم تو نہیں ہے ناں اور اگر ساتھ میں والدین کی نافرمانی بھی ہو تو سوچو جرم کس نوعیت کا ہوجاتا ہے۔

اور تم۔۔۔؟ جو میرے اس جرم میں میرے ساتھ ساتھ تھے اپنی محبت اور غرض حاصل کرکے اپنی محبت کی رتی برابر عزت بھی اپنے گھر والوں کی نظروں میں پیدا نہیں کروا سکے تھے۔ الٹا تم بھی مجھے صرف اپنی محبت سے بہلاتے رہتے۔ یہ جانے بغیر کہ محبت کے ساتھ اگر عزت نہ ہو تو محبت بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ اور میرے دل میں اب تمہاری کتنی محبت بچی ہے اس پیمائش سے بچنے کے لیے میں تم سے بھی چھپتی پھر رہی تھی۔اور وہ میرا پیارا بابل کا آنگن ! جو ہر شادی شدہ لڑکی کے لیے اپنے دکھ سکھ، آنسو، ہنسی اور خوشیاں بانٹنے کے لیے اور کچھ دیر سستانے کے لیے ایک بہترین لگژری جگہ ہوتی ہے وہاں چند گھنٹے سستانے تو جاتی لیکن وہاں پہ اپنے آنسو اور دکھ چھپا کے صرف جھوٹی مسکراہٹیں اور خوشیاں بانٹ آتی کیونکہ اپنے آنسو اور دکھ بانٹنے کا حق تو میں خود اپنی ضد کے ہاتھوں خود سے چھین چکی تھی۔

نہیں نہیں۔۔۔ میں بے اختیار جھرجھری لے کر حال میں لوٹ آئی۔ جہاں پر وہی منظر میرا منتظر تھا۔ تمہارے ماں باپ کا کروفر بھرا انداز اور میرے ماں باپ کا ضبط کی آخری حدوں کو چھوتا خاموش انداز۔ شمع سانس لینے کو رکی تو دانش کو اپنا سانس رکتا محسوس ہوا۔ شمع کی بات و انداز میں اسے کچھ غیرمعمولی سا محسوس ہورہا تھا جسے وہ محسوس نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔

اتنا کڑا سودا۔۔۔؟ کچھ دیر کی تکلیف دہ صبرآزما خاموشی کے بعد شمع دوبارہ بولنا شروع ہوئی۔ یعنی محبت کے بدلے عزت کا سودا؟ اتنا کڑا سودا؟ کیا میں اس کڑے سودے کو نبھانے کے قابل ہوں؟ جبکہ مجھے پتا بھی ہے کہ اس سودے کے بعد تمہاری محبت بھی میرے اندر سے ختم ہوجائے گی۔ پھر۔۔۔؟

حال میں لوٹ کر سامنے کے منظر پر نظریں جمائے میں ابھی اپنی ان سوالات بھری سوچوں میں ہی تھی کہ تمہاری ماں کی اس بات پر کہ جب آپ کی لڑکی اور ہمارا لڑکا آپس میں سب باتیں طے کرچکے ہیں تو ہمیں اور آپ کو ایک دوسرے سے ملنے کی بھلا کیا ضرورت تھی۔ اس تمسخرانہ انداز میں کہی بات پر میرے باپ کے ٹوٹتے ضبط کے ساتھ اس رشتے سے صاف انکار نے ایک دم سے میرے اندر کے رونے اور ان سوالیہ سوچوں کو تھپکی دے کر خاموش کرادیا۔ میرے اندر میں اچانک سے ایک اطمینان بھری خاموشی چھاگئی۔

بابا کے اس صاف انکار پہ تمہارے ماما پاپا میرے گھر والوں کے خلاف اور میرے کردار پر نجانے کیا کیا بول کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد امی بابا نے بھی مجھے کھری کھری سنائی۔ لیکن پتا نہیں کیوں دانش! ان کی وہ باتیں مجھے اس وقت غصہ نہیں دلا رہی تھیں بلکہ میرے اندر سکون بخش رہی تھیں۔ مجھے امی بابا پر بہت پیار آرہا تھا جنہوں نے بروقت اپنا حکمت بھرا فیصلہ سنا کر مجھ ناسمجھ کو اتنا مہنگا سودا کرنے سے بچالیا۔ شمع نے اپنے اندر گھٹی سانس کو تازہ ہوا میسر کروانے کے لیے پھر چند لمحوں کا توقف کیا جبکہ شمع کے انداز و بات میں وہ غیرمعمولی پن جسے دانش محسوس نہیں کرنا چاہ رہا تھا اب وہ ک ±ھل کر اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔

 باقی دانش! جہاں تک بات کورٹ میرج کی ہے تو وہ تو مکمل عزت کی خواری ہے۔ ایسی صورتحال میں سسرال میں تو جگہ کیا ملنی لڑکی کے لیے اپنے آنسو اور دکھ چھپا کر جھوٹا ہنسنے اور کچھ دیر سستانے کے لیے وہ پیارا بابل کا آنگن بھی نہیں رہتا۔

سو سوری دانش۔ بابا کے ساتھ ساتھ اب میرا بھی اس رشتے سے صاف انکار ہے۔ شمع نے مضبوط لہجے میں دانش تک اپنا انکار پہنچایا جسے سن کر دانش بھڑکنے کے بجائے گھبرا گیا۔ لیکن شمع! میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا اور میں عزت کے بغیر نہیں رہ سکتی جو کہ مجھے تمہارے گھر میں بالکل نہیں ملے گی۔ بولو کیا مجھے عزت دلا سکو گے؟ شمع کے مضبوط لہجے کے سامنے دانش کو اس کو عزت دلانے کا اپنا ہر دعوا بودا لگا تبھی شمع کے اس سوال پہ وہ بےبسی سے خاموش ہوگیا۔

دانش کی بے بس خاموشی محسوس کرکے شمع نے بھی بےبسی سے اپنے آنسوو ¿ں کو صاف کیا۔ حالانکہ دانش کی بے بس خاموشی پہ وہ چاہتی تو ہنسنا تھی لیکن اس وقت ہنسی نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا ۔ میں نے تمہیں یہ بھی بتانا تھا کہ بابا نے میرا رشتہ خالہ کے بیٹے سے طے کردیا ہے۔ جنہوں نے بہت محبت اور عزت سے میرا رشتہ مانگا تھا۔ امی اور بابا تو پہلے ہی اس رشتے کے مکمل حق میں تھے۔ صرف میری ضد کی خاطر ان کو ٹالا ہوا تھا۔ اب انہوں نے میری ضد کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہاں ہاں کردی ہے اور میں بھی ثاقب کے لیے اب راضی ہوں۔ اپنی سسکیوں کو روکتے وہ دانش کی سسکی پر خاموش ہوگئی۔ دانش اور اپنی محبت کی اس بےبسی اور ماتم پر وہ تڑپ تو سکتی تھی لیکن یوں اپنی اور اپنے ماں باپ کی عزت کا سودا نہیں کرسکتی تھی۔

میں مانتی ہوں دانش کہ میں ثاقب سے محبت نہیں کرتی لیکن میرا اس بات پر بھی پورا یقین ہے کہ جہاں صرف محبت ہو عزت نہ ہو وہاں سے محبت بھی آہستہ آہستہ چلی جاتی ہے اور جہاں صرف عزت ہو محبت نہ ہو وہاں پر آہستہ آہستہ محبت بھی اپنی جگہ بنالیتی ہے۔

اور مجھے ثاقب سے محبت نہ سہی پر وہ میری عزت کرنے والا ضرور ہے۔ باقی آگے میری قسمت۔ یوں آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے سے تو بہتر ہے کہ قسمت وہاں آزمائی جائے جہاں کچھ حاصل ہونے کا امکان ہو۔ نہیں تو' کم از کم میری پشت پہ میرے د ±کھ س ±کھ سننے والا میرا پیارا بابل کا آنگن تو ہوگا۔ یہ کہہ کر شمع نے کال کاٹ دی اور ہاتھوں کے پیالے میں منہ چھپا کر رونے لگی۔


وہ بزرگ صورت لوگ

 محمد عارف خلجی

سفرکے ابتدائی دو روز بخیرو عافیت گزرے مگرتیسرے روز گردو غبار کے بگولوں سے ہمارا سامنا ہوا۔ اُڑتی خاک نے ہمارے چہروں کو ایک دوسرے کے لیے نا آشنا بنا دیا۔ہمارے سر مٹی کے ذرات سے اَٹے ہوئے تھے۔اس خاک آلود فضا میں آلودہ پانی ہمارے وضو کا واحد سہارا تھا۔چنانچہ اسی سے وضو کرتے رہے۔چہرے پر آلودہ پانی اور خاک پاشی کے اثرات جلد کے پھٹنے کی صورت میں نمودار ہوئے۔ہونٹ دو لخت ہوگئے۔آسمان ابر آلود ہوچکا تھا۔ سیاہ ابر پارے ہمارے سروں پر منڈلارہے تھے۔خدشہ تھا کہ اگر یہاں ہمیں موسلادھار بارش نے گھیر لیا تو گاڑیوں کا اِس گوند نما زمین سے اخراج بے حد مشکل ہوجائے گا۔ گاڑیوں کے ٹائر کیچڑ میں دھنس جائیں گے اور ہماری مصیبتوں میں ایک اور مصیبت کا اضافہ ہوجائے گا۔

یہ حالات سفر کے تیسرے روز پیش آئے۔ ابھی اس سے ایک اور بڑی مصیبت ہماری منتظر تھی اور ہم اِس پیش آئندہ مصیبت سے قطعی ناآشنا اورلاپرواہ تھے۔دن ختم نہیں ہو ا تھا۔عصر کی نماز کا وقت قریب آپہنچا تو سب وضو کرکے نماز کے انتظار میں بیٹھ گئے۔بزرگوں کے باہمی مشورے سے عصر کی نماز کے بعد اختتامی دعا ہوئی۔نہایت رقت آمیز لہجے میں کسی سفید ریش اور عمر رسیدہ بزرگ نے دعا کرائی۔تمام حاضرین کو گھر جانے کی اجازت مل گئی۔ہر چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے۔افسردگی کے بادل آہستہ آہستہ چھٹنے لگے۔مگر گردوغبار کا عالم بدستور قائم رہا۔

ہم اسی طوفانی ماحول میں اپنی گاڑی کو کھوجنے لگے۔ تلاشِ بسیار کے بعد ایک خاک آلود خیمے کے قریب کھڑی پائی گئی۔ بڑی مشکلوں سے آدمیوں اور سواریوں کے سیلاب سے ہم اپنی گاڑی نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ ہم کل سولہ افراد تھے۔ساتھیوں کی عددی گنتی شروع کی تو اِس عالمِ بے سروسامانی میں ہمارے محلے کے مولوی صاحب کہیں غائب ہوگئے تھے۔ باقی ساتھی ان کی تلاش میں سرگرداں پھرتے رہے۔ چند ایک تو مولوی صاحب کو ڈھونڈتے ہوئے خود انسانوں اور گاڑیوں کے اس سمندر میں کھوگئے۔دس پندرہ منٹ کی سر توڑ کوششوں کے بعد مولوی صاحب مجسم مٹی کا پتلا بنے ہمارے درمیان اپنا افسردہ چہرہ لے کر پہنچ گئے۔پہلے پہل تو ان کی صورت پہچاننے میں نہیں آرہی تھی ۔ بعد میں کچھ نشانیاں اور آثار موجود پاکر مبینہ شخص کے ”مولوی صاحب“ ہونے کی تصدیق ہوگئی۔ اس عرصے میں امیرِ سفر کا پارہ چڑھ گیا۔اُن کے غضب آلود چہرے کا رخ مولوی صاحب کی طرف تھا جوسراپابے چارگی کی تصویر بنے امیرِ مذکور کی کڑوی باتوں کے گھونٹ نہایت بردباری سے پی رہے تھے۔

جب تمام ساتھی اپنے گرد آلود چہروں، خاک آلود سروں اور داڑھیوں کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئے تو ڈرائیور نے اللہ کا نام لے کر واپسی کے سفر کا آغاز کردیا۔ہم ہر طرف سے گاڑیوں کے نرغے میں آگئے تھے۔ ایک گھنٹے سے گاڑی سبک خرامی سے چلتی رہی۔مگر پکی سڑک اب تک ہماری نگاہوں سے بہت دور تھی۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ رات کے اندھیرے میں ہماری سست رفتار گاڑی یکدم ایک کٹے ہوئے درخت کے باقی ماندہ جڑوں میں پھنس گئی۔ چند ساتھی نیچے اُترے تاکہ گاڑی کو اپنے زورِ بازوسے قدرے اوپر اٹھا کر درخت کے اس موذی تنے کی گرفت سے آزاد کرواسکیں مگر ان کی کوششیں بارآور نہ ہوسکیں۔ ڈرائیور مرحوم نے (جو کہ اب دارِ فنا سے کوچ کرچکا ہے) اپنی فن کاری کے تمام جوہر دکھائے مگر گاڑی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ 

ہمارے پیچھے گاڑیوں کی ایک طویل قطار ساکن حالت میں کھڑی ہارن کی متواتر آوازوں سے ہماری سمع خراشی کررہی تھی۔ ڈرائیور نے تمام سوار حضرات کو نیچے اُتر جانے کا حکم دیا۔ حکم کی فوری تعمیل کی گئی۔ ہم سب نے اپنی مجموعی قوت کو یکجا کرکے گاڑی کو دھکیلنے کی آخری کوشش کی مگر گاڑی کے پایہءثبات میں ایک انچ کی لغزش نہ آئی۔ اپنے قدیم مقام پر مضبوطی سے جم کر کھڑی رہی۔ ہماری بیچارگی ملاحظہ کرتے ہوئے چند خدا ترس حضرات اس ”دھکم پیل“ میں ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔ اِس بیرونی امداد کے باوجود ہماری گاڑی اپنی جگہ سے نہ ہلی۔ہم سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ چنانچہ آخرکار گاڑی کے نیچے جیک لگا کر بڑی مشکلوں سے اس کو تنے کے آخری دندانوں کی قید سے آزاد کروایا۔

ریت کی بارش بدستور جاری رہی۔ خاک پاشی کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے ہم سب گاڑی کے پچھلے حصے میں چادریں اوڑھے گم سم بیٹھے رہے۔ چند منٹ تک گاڑی اسی خاموشی میں سفر کرتی رہی ۔ اچانک ایک ساتھی کی تیز آواز نے خاموشی کا سینہ چیر کر ہم سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ ہماری حیران نظریں ان کے حواس باختہ چہرے پر ٹک گئیں۔اُن کا موبائل غائب ہوگیا تھا۔ دراصل جن لوگوںنے رضاکارانہ طور پر گاڑی دھکیلنے میں ہماری مدد کی تھی ، یہ انہی کی کارستانی تھی۔ ایک دو منٹ بھی گزرنے نہ پائے تھے کہ ایک اور ساتھی کی تیز آواز نے ہم سب کو چونکا دیا۔ ان حضرت کے دو موبائل اور تین ہزار روپے چور اُڑا کر لے گئے تھے۔ مجھے اپنے موبائل اور پیسوں کے بارے میں تشویش لاحق ہوئی۔ جیبوں کو بے چینی سے ٹٹول کردیکھا تو تمام اشیا کو حسبِ سابق موجود پایا۔

اگر چہ آج اس واقعے کو گزرے چار برس کا عرصہ بیت چکا ہے ۔مگر میرے ذہن کی تختی پر آج بھی ان بزرگ نما حضرات کی تصویریں نقش ہیں جنہوںنے سبی کے اس بیابان میں ہماری طرف مدد کا ہاتھ بڑھایا تھا اور ہمارے دلوں میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے تھے۔


Thursday, May 16, 2019

خصلت نہیں بدلتی

تحریر: مغیثہ خالد، کراچی

عربی کی ایک کتاب میں ایک واقعہ لکھا تھا جس کا ترجمہ پیش ہے۔ ایک بڑھیا نے ایک بکری پال رکھی تھی ۔ وہ بکری اسے اپنی اولاد کی طرح عزیز تھی۔ ایک دن وہ بڑھیا جنگل سے لکڑی لینے گئی تو وہاں ایک نو مولود بھیڑیے کا بچہ ملا جو بھوک کی شدت سے بے چین تھا اور قریب تھا کہ اگر وہ بھوک کی شدت سے نہ بھی مرتا تو کوئی اور جنگلی جانور اسے چیر پھاڑ کر کھا جاتا ۔ بڑھیا کو اس پر بہت ترس آیا اور اسے اٹھا کر گھر لے آئی اور اپنی بکری کا دودھ پلایا پھر وہ بچہ وہیں پلنے لگا یہاں تک کہ جسمانی اعتبار سے اپنی مضبوطی کو پہنچ گیا۔ 

ایک دن صبح جب بڑھیا اپنی بکری کو چارہ ڈالنے گئی تو اسے وہاں نہ پایا پریشان ہو گئی اور ڈھونڈنے کے لئے باہر نکل گئی تو کچھ دیر تلاش کے بعد معلوم ہوا کہ جس بھیڑیے کو اس نے پالا تھا وہی اسے کھا کر بھاگ گیا۔ بڑھیا یہ جان کر نہایت غم کی حالت میں خود سے گویا ہوئی کہ کاش میں یہ بات سمجھ لیتی کہ خصلت نہیں بدلتی اور اسی خصلت ہی کی وجہ سے بھیڑیے نے اس بکری کو بھی نہ چھوڑا جس کے دودھ پر وہ پلا تھا۔ 

ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو اپنی خصلت سے اس قدر مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے فائدے کے لیے کسی کے ساتھ بھی ہاتھ کر جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اپنی بوٹی کی خاطر دوسرے کا بکرا بھی ذبح کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ اب تو لوگ معصوم اور سادہ زندگیوں سے کھیلنے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔ علم و شعور اور دین اسلام کی مضبوطی اور اس کے شعار کو اپنانا وہ واحد نعمت خداوندی ہے جس کے ذریعے نہ صرف ایسے بھیڑیا صفت لوگوں کا ادراک کیا جا سکتا ہے بلکہ ان سے بچاو ¿ کی تدابیر بھی اختیار کی جا سکتی ہیں۔ اللہ تبارک تعالی ہم سب کو ایسے لوگوں سے محفوظ فرمائیں اور اپنے حفظ و امان میں رکھیں، آمین

غم کا علاج

 بلال شیخ، لاہور
ظلم، دھوکے بازی، فتنہ فساد، قتل و غارت ہمیشہ سے انسانوں میں عام رہے ہیں اور انسانیت کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ جو محبت کرے وہ معصوم اور جو بے وفائی کے زخم سہے وہ مظلوم کہلاتا ہے۔ ایک انسان اپنے رشتوں،دوستوں اور عزیزوں سے نیکی کر کے بھی ان کی بے رخی کا نشانہ بن جاتا ہے اور یہ بے رخی وہ اپنے دل میں دبالے تو غم پیدا ہوتا ہے جو اسے دنیا کے ہر معاملے میں باغی کر دیتا ہے اور باغی انسان پھر نہ تو اپنی زندگی کی پروا کرتا ہے اور نہ کسی کی۔ جب میرے ایک عزیز کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا تو میرے دل میں اس واقعے کی تکلیف بھی تھی اور سوال بھی تھا اور میں نے یہ سوال اپنے محسن اپنے استاد کے سامنے رکھ دیا۔

ہر بار کی طرح سوالوں نے مجھے جکڑا ہوا تھا میں نے ان سے پوچھا ”انسان جب محبت کرتا ہے تو وہ اگلے کے دل کا حال نہیں جانتا، انسان جب نیکی کرتا ہے تو اس نیکی کا اجر نہیں مانگتا اور انسان جب بھی کوئی اصلاح کا کام کرتا ہے تو وہ اس کے بدلے میں کبھی ایسا نہیں مانگتا کہ اسے غم ملے یا اسے بے وفائی ملے مگر جب دنیا اچھے کو نچوڑ کر اس کی اچھائی سے فیض حاصل کر لیتی ہے تو اس کو غم کی بوری میں ڈال کر قبرستان میں پھینک دیتی ہے، انسان کا اس غم سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے مگر میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کیسے اس سے چھٹکارا حاصل کرے کہ وہ زندگی میں واپس آ سکے“ میں خاموش ہوا تو وہ ایک لمبی سانس لے کر بولے۔

”دنیا داری میں جہاں اچھائی ہے وہاں برائی بھی ہے یہ دوںوں ہر انسان میں پائے جاتے ہیں اور یہ دنیا میں اپنی اپنی جگہ احسن طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ ہر عمل کا صلہ آخرت میں ضرور ملتا ہے اچھائی کا ہو یا برائی کا غم میں انسان اپنا غم دوسروں کو بتا کر کم کر سکتا ہے مگر ختم نہیں کر سکتا“ وہ رکے تو میں نے فوراً کہا ”تو وہ غم کیسے ختم کر سکتا ہے“ اس سوال کے بعد مجھے ایسا لگا کہ مجھے ایسا جواب ملے گا جو کہ دنیا کے سارے غموں کو دھو دے گا اور ایک ایسا ہتھیار میرے ہاتھ لگنے والا ہے جو میں ساری دنیا میں سپلائی کروں گا۔ 

وہ بولے”جب بھی غم آ کر تمہیں اپنی گرفت میں لے لے اور بیان نہ کر سکو، ظالم اپنا ہو، درد دینے والا قریبی ہو، دوستی کا دعویٰ کرنے والا دشمنی پر اتر آئے، ہاتھ سے لے کر کھانے والا آنکھیں دکھانے لگے تو میرے بچے صبر کرنا“ میں صبر کا لفظ سن کر حیران ہوا اور حیرانگی سے ان کا چہرہ دیکھ رہا تھا اور وہ اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھے“۔ صبر کوئی چھوٹی چیز نہیں ہے یہ بہت بڑا ہتھیار ہے اور صابر کو صبر تب ہی ملتا ہے جب وہ طلب کرتا ہے اپنے پروردگار سے تب اس کے غموں کے بدلے صبر جیسی نعمت سے نوازا جاتا ہے۔ قران میں بار بار صبر کی تلقین کی گئی ہے جب انسان صبر حاصل کر لیتا ہے تو اللہ اس کے ساتھ ہو جاتا ہے اور جب اللہ صابر کے ساتھ ہو جاتا ہے تو اس کے معاملے اس کے نہیں اللہ کے ہو جاتے ہیں اور پھر اس کے اندر برداشت کی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور صابر کے لیے قران میں خوشخبری بھی ہے۔ اولاد کا غم، رشتوں کے چھوٹ جانے اور معاشرے کے ظلم و ستم ان سب حالات میں انسان اگر کچھ نہ کر سکے تو صبر کرے اور یہی اس کے لیے بہتر ہے اور اسی میں اس کی فلاح ہے“ میں نے ان کی بات کو اپنے ذہن کی لائبریری میں محفوظ کیا اور ان کو سلام کر کے وہاں سے چلا آیا۔

اس دن کے بعد میں صبر کے فلسفے کو سمجھ گیا تھا اور یہ جان گیا تھا کہ زندگی کے ہر امتحان میں کامیابی نہیں ملتی، شاباشی نہیں ہوتی، نتیجہ خوش نہیں ہوتا مگر صبر آپ کو آگے جانے اور نئے راستے تلاش کرنے میں مدد ضرور کرتا ہے۔ یقین مانیے جب انسان کو صبر کا نظریہ سمجھ آجائے تو اس کے لیے زندگی بہت بڑی کامیابی بن جاتی ہے۔ غم اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ صبر ایک دولت ہے ایک ایسا ہتھیار ہے جو زندگی کے ہر معاملے میں اس کے دل کی حفاظت کرتا ہے۔ جب بھی انسان صبر کو دوست بنا لے گا تو وہ اللہ کا دوست بن جائے گا ہر دکھ درد تکلیف کے بعد ایک نئی زندگی شروع کرے گا۔


Wednesday, May 15, 2019

انعام کا حقدر کون؟


سعد فاروق

سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹویٹر معمول کے مطابق جیسے ہی کھولی سامنے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کا پیغام نظر آیا " ساتھیو تیار ہو جائیں۔ جلد ایک انعام جیتنے والے مقابلے کا اعلان ہوگا" پیغام میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال پوچھا کہ کسی کو اندازہ ہے کہ یہ کیسا مقابلہ ہوگا ؟ جواب میں ہزاروں لوگوں کے پیغامات تھے جو سب پڑھنے ممکن نہیں تھے صرف چند پر نظر ڈال سکا۔ پاک فوج سے پاکستانیوں کی والہانہ محبت کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا لوگوں نے کسی انعام کی بجائے صرف ایک پیغام / رپلائی کی خواہش کا اظہار کیا، کوئی فالو بیک کی درخواست کر رہا تھا ، کوئی سلیفی کی لیکن یہ پاک فوج کے خلاف بےبنیاد پروپیگنڈہ کرکے نمک حرامی کرنے والوں کے لیے پیغام تھا کہ پاکستانی چاہے وہ سوشل میڈیا پر ہوں ، چاہے روڈ پر ، چاہے گاؤں میں ہوں یا شہر میں ، پاک فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ دشمن ازل سے ناکام رہا ہے اور ابد تک ناکام رہے گا ان شاءاللہ۔ میجر جنرل آصف غفور کی انعام والی بات سے میرا ذہن پاک فوج ہزاروں شہدا کی طرف چلا گیا۔ وطن کے تحفظ کی قسم کھانے والے، مٹی سے وفا نبھانے والے ، ماوں کے ہاتھوں تیار ہوکر مقتل جانے والے عظیم افراد یقینا ہر انعام / ایوارڈ کے مستحق ہیں۔ اپنی دنیا وطن پر قربان کرنے والے شہدا یقینا اللہ کی جنتوں میں خوش وخرم ہوں گے۔ انہیں کسی چیز کا لالچ نہیں تھا۔ منہ میں سونے کا چمچہ لیکر پیدا ہونے والے پاک فوج میں آئے تو کئی کئی وقت بھوکے، پیاسے وطن کی خاطر صبر سے ڈٹے رہے۔ مخملی بستروں پر سونے والے پاک فوج میں آئے تو نوکیلی پتھروں والے پہاڑوں کی چٹان پر سر کو تکیہ بنا کر لیٹے رہے۔ کیپٹن قدیر شہید جو تین سو ایکڑ زمین کے مالک تھے مگر وطن کی مٹی نے پکارا تو چلے آئے، لاڈ اور نازو سے پرورشِ کرنے والے جوان کو وطن کی خاطر سالوں کوڑا کرکٹ اٹھانے پڑا، بلوچستان کے امن کا جب بھی تذکرہ آئے گا کیپٹن قدیر شہید کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ شہدا کا تذکرہ لکھنے لگوں تو کئی کتابیں لکھی جائیں لیکن اپنے لہو میں نہانے والے جوان مکمل نہ ہوں۔ نیلم وادی پر شدید سردی میں ڈٹے جوان ہوں یا نکیال سیکٹر پر بھارتی اشتعال انگیزی سے شہید ہونے والی سپاہی ، سیاچن میں برفوں تلے ڈب کر وطن کی محبت میں ابد تک زندہ رہنے والے افیسر ، دشمن کے بزدلانہ وار میں افغان بارڈر پر ڈٹے افسر و جوان سب وطن کی خاطر استقامت کی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ اس موقعے پر ہر شہری اپنی بہادر افواج کے ساتھ کھڑا ہے۔ دشمن کو کوئی بھی جارحانہ قدم اٹھانے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچنذ ہوگا۔ میجر جنرل آصف غفور نے بلاشبہ ایک اعلی دماغ کے مالک ہیں انکی بصیرت کے باعث آج دشمن بھی پاک فوج کے اقدامات کی نقل کرنے پر مجبور ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا منصب سنبھالنے کے بعد سے عام شہریوں میں مسلسل گھل مل کر کام کر رہے ہیں۔ آصف غفور نے دشمن کو اپنی حکمت و دانشمندی سے وہ پیغام دیا جو وہ صدیوں تک یاد رکھے گا۔ جنرل صاحب بلاشبہ اس ففتھ جنریشن وار کے دور میں سوشل میڈیا اہم محاذ ہے۔ آپ اس پلیٹ فارم استعمال کرنے والوں کے لیے انعامات دے رہے ہیں تو سب سے پہلے ان افراد کو انعام دیجیے جنہوں نے ملک میں ٹی ٹی پی کے زور کے وقت بھی دشمن کا سوشل میڈیا پر ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ جن کے خلاف دشمن کا میڈیا مسلسل صف آرا رہا۔ جنہیں دشمن ایجنسیوں کی بیرون ملک سے دھمکیاں بھی متزلزل نہ کر سکی۔ جن کے اکاؤنٹس بند کروانے میں دشمن نے زور لگایا۔ جو دشمن کے وار سہہ کر بھی ڈٹے رہے۔ آج وہ اس چمک دمک والے سوشل میڈیا میں زندگی کی تلخیوں کے باعث کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ انکو ساتھ ملائیے انکو سپورٹ کیجیے۔ لاکھوں فالورز کی بجائے چند سو والوں کی جانب بھی نظر دوہرائیں۔ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ کے تحت سب سے پہلا حق انہی کا ہے اور ہیرے کی قدر جوہری ہی بہتر جانتا ہے۔
پاکستان زندہ باد
پاک فوج پائندہ باد

ماہ رمضان کے تقاضے،

 تحریر: پروفیسر زید حارث

رمضان مسلمانوں کی جسمانی و روحانی تربیت کا مہینہ ہے۔ اس مبارک اور مقدس مہینے کا ایک اہم تربیتی پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو حقوق العباد کی ادائیگی کے 
لئے مخلص کرے اور یہ اخلاص اس کے دل میں موجود ہو۔
محترم قارئین: ہم درج ذیل سطور میں ان احادیث کا جائزہ لیتے ہیں جو اس پہلو کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہارے ساتھ کوئی جھگڑا کرے تو کہہ دو کہ "میں روزے سے ہوں "۔ ایک مسلمان روزے کی حالت میں اپنے آپ کو اس قدر متواضع بنا لے اور دوسرے انسان کے حق میں ایسا نرم ہو۔
اور حدیث مبارکہ میں یہ ذکر نہیں کہ کوئی مسلمان گالی دے بلکہ فرمایا; فإن شتمه أحد " اگر اس کو کوئی بھی گالی دے تو وہ کہے : میں روزہ دار ہوں۔ بلکہ بعض روایات میں فرمایا کہ " اگر اس سے کوئی لڑائی بھی کرے یعنی معاشرے میں رہنے والا ہر فرد صرف اس کی برائی اور زیادتی سے محفوظ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو بھی جواب مسکراہٹ میں ملے گا۔ایک انسانی معاشرے کو ایسا شاندار حسن فراہم کرنے والی عبادت روزہ ہے کہ روزہ رکھنے والا پورا مہینہ اس بات پہ اپنی تربیت کرے کہ زیادتی گالی کا جواب پتھر سے نہیں بلکہ اخلاق کی اعلی اقدار کا مظاہرہ کرکے دیا جائے۔دنیا میں اس کردار سے بڑھ کر اعلی کردار کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن افسوس کہ زندگی کے کئی رمضان گزارنے کے باوجود ہم اس کردار سے عاری اور ہمارا معاشرہ ان اقدار سے محروم نظر آتا ہے۔ دوسری حدیث میں تو روزہ ایک مسلمان کی زندگی کو صداقت و اخلاص کے اعلی معیار پہ لے جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة أن يدع طعامه و شرابه ".
روزہ ایک مسلمان کی زندگی کے قول و فعل میں صداقت و سچائی پیدا کر دیتا ہے اور اگر ایک روزے دار اپنے اقوال یا اعمال میں سچائی کا رنگ پیدا نہیں کرتا تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔کیا ہم اپنے اقوال میں ہمیشہ سچ بولتے ہیں؟
ہم تکلفا کہہ دیتے ہیں کہ نہیں جی مجھے بھوک نہیں میں نے کھانا کھا لیا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہم مشورہ دینے میں بھی بہت زیادہ جھوٹ کا استعمال کر جاتے ہیں۔ بالخصوص دفاتر میں یا آفس میں افسر اور ذمہ دار کو مشورہ دینے کا وقت ہو تو ہم اپنا قیمتی اور خیرخواہی کا مشورہ نہیں بلکہ اس کے مزاج اور اس کی پسند کا خیال کرتے ہوئے اس کی رائے کا موافقت کرتے رہتے ہیں حالانکہ ہم جانتے بوجھتے ہوئے ایسا کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح عدالتوں کے دروازے اور کچہریوں کے ٹیبل گواہوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ہماری گواہی کا اثر کیا ہو گا۔ ہمیں صرف پیسہ کمانے سے غرض ہے۔
اس طرح کی کئی ایک مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ہمیں رمضان کی ابتدا ہی سے اپنے نفس کی تربیت پہ محنت کرنا ہو گی تاکہ رمضان کے آخر میں عبادات میں واضح تبدیلی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں بھی تبدیلی کا واضح اثر ہمارے تعاملات اور سلوک میں موجود ہو۔ رمضان کا مقدس مہینہ حقوق العباد کی ادائیگی پہ ترغیب دیتے ہوئے ہمیں اس بات کا بھی درس دیتا ہے کہ ہم اپنے ارد گرد غرباء اور فقراء مساکین کا مالی تعاون کریں ۔صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں تیز آندھی سے بھی زیادہ رفتار سے سخاوت کرتے تھے۔
تو اس سخاوت سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ بہت زیادہ مال ودولت کی ملکیت کے بعد ہی اس پہ عمل ہو سکتا ہے۔
بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کی حالت تو واضح ہے کہ بہت زیادہ وافر غذا یا مال میسر نہیں تھا ۔ اس کے باوجود جو کچھ موجود ہو اس میں سے اللہ کے رستے میں دیتے رہنا اور اپنے مال کو پاک کرنا اور اللہ کے بندوں کی پریشانی کو خوشی اور مسرت میں بدل دینا رمضان کا شعار ہے۔اسی طرح روزے دار کو افطاری کروانا بھی ایک روزے دار کے اجر کی مقدار کے برابر ہے۔
اس میں بھی اس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ ان لوگوں کو افطاری کروائی جائے جو مستحق ہیں۔ اس طرح رمضان کے مقدس مہینے میں ہم لوگوں کی بھوک دور کر کے اس معاشرے میں عدل اور اخوت کا ایک خوبصورت منظر پیش کر سکتے ہیں ۔ یہ مہینہ حقوق اللہ میں مسابقت اور حقوق العباد کی ادائیگی میں اپنی کمی و کوتاہی کو دور کرنے کا ایک سنہری موقع ہے۔