کرو مہربانی تم، رومیصاء حسن ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Wednesday, October 19, 2016

کرو مہربانی تم، رومیصاء حسن

ایک عورت کی چیخ نے مجھے چونکا دیا۔ ساحلِ سمندر کی تیز و تند ہوائیں میرے کمزور بدن کو چیرتی ہوئی گزر رہی تھیں جس سے میرے کپڑے اور بے ترتیب بال مسلسل ہوا میں لہرا رہے تھے، میں شائد آج راستہ بھٹک کر یا اس بے رحم زمانے کے ظلم سے تنگ آ کر یہاں آ نکلا تھا۔ میرا دل اس زمانے کی سختی اور بے وفائی سے سخت بیزار اور مایوس تھا، جس میں غریبوں اور بیروزگاروں کا کوئی حصہ نہیں اور جہاں پر انہیں جینے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ دو سال کی مسلسل بے روزگاری نے مجھ جیسے ہنس مکھ انسان کو کیا سے کیا بنا دیا تھا۔
اس مہنگائی کے دور میں جہاں پورے دن میں ایک روٹی کھانی نصیب نہیں ہوتی، اس سے تو مرجانا بہتر ہے۔ کم از کم اس جان لیوا فاقوں سے تو نجات مل جائے گی۔ بے روز گار جوانوں کی لائن سے ایک نوخیز کلی بغیر کھلے مرجھا جائے گی۔ میں بہت کچھ سوچتے ہوئے اس ساحل کی طرف آیا تھا اور سمندر کے کنارے کھڑا تھا۔ میرے دل کو ایک عجیب سی بیچینی تھی۔ پتہ نہیں اس بیچین قلب کا اطمینان کب اور کہاں رخصت ہو چکا تھا، جہاں اب صرف اداسی اور مایوسی نے ڈیرے جمائے ہوئے تھے۔
میں نے ایک نظر ساحل پر دوڑائی۔ اکثر لوگ اپنی فیملیوں کے ساتھ اپنی مصروف زندگیوں سے وقت نکال کر یہاں پکنک منانے آئے تھے۔ کہیں کہیں نوجوانوں کی ٹولیاں مٹر گشت کر رہی تھیں اور دنیا کے غموں کو بھلا کر زندگی کے مزے لوٹ رہی تھیں، تو کچھ لوگ ہوا خوری کے لیے ساحل پر آئے تھے۔ جگہ جگہ بچے دنیا کے غموں اور مصیبتوں سے انجان اپنے کھیلوں اور ریت کے گھروندے بنانے میں مصروف تھے۔ میری طرح بے دل اور بیچین تو کم از کم کوئی بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔
سمندر میں پانی اپنے معمول کے مطابق نظر آ رہا تھا، آسمان پر بادل بھی چھائے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھ مچولی جاری تھی کہ آہستہ آہستہ بادل گہرے ہونے لگے جس سے ہوا ٹھنڈی ہونے لگی۔ موسم بہت خوشگوار ہو گیا اور ساحل پر لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ ہوا کی تیزی کی وجہ سے سمندر کی سطح پر لہریں اْٹھنے لگی تھیں۔ میں کنارے پر کھڑا اس منظر میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک دائیں طرف سے ایک چیخ سنائی دی۔ میں نے لپک کر وہاں دیکھا، تو ایک درمیانی عمر کی عورت کو چیختے چلاتے ہوئے بالکل کنارے پر کھڑے ہوئے پایا اور پانی میں تھوڑے سے فاصلے پر ایک ہاتھ اْٹھائے چیختا ہوا بچہ نظر آیا۔ جسے سمندر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی لہریں اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ کچھ لوگ متوجہ ہو چکے تھے جبکہ اکثریت انجان تھی۔ میں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر پانی میں چھلانگ لگا دی۔ رونگٹے کھڑے کرنے والے ٹھنڈے پانی نے میرا استقبال کیا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میرا بدن جم گیا ہو مگر میں نے ہمت نا ہاری اور ہاتھوں پیروں کو حرکت دینے لگا اور تیزی سے اس بچے کی طرف بڑھنے لگا جس کا صرف سر اور اس سے اوپر اٹھتے ہوئے ہاتھ نظر آ رہے تھے پیچھے سے اس کی ماں کی چیخ و پکار اب تھوڑی مدھم سنائی دے رہی تھی۔ میں تیزی سے اس بچے کی طرف بڑھنے لگا اور ہاتھوں کے ذریعے پانی کو پیچھے دھکیلنے لگا۔ مجھے کافی مشکل پیش آ رہی تھی، کیوں کہ کافی عرصے سے تیرنے کا تجربہ نہیں تھا، اوپر سے پانی کی لہریں بڑھ بڑھ کر میرا راستہ روک رہی تھیں۔ میں کوشش کرتے کرتے آخر کار اس ڈوبتے بچے تک پہنچ گیا، جو ہاتھ پیر مار رہا تھا۔ لپک کر اسے ہاتھ سے پکڑ کر میں نے مڑ کر جو دیکھا تو سٹی گم ہو گئی، کیونکہ میں ساحل سے کافی دور تھا، خیر اللہ کا نام لے کر میں واپس مڑا۔
واپسی میں ایک اور بوجھ بھی میرے اوپر آ چکا تھا، لیکن یہ شاید اللہ کے نام کی برکت تھی، میرے کاندھوں اور رانوں میں ایک نئی طاقت پیدا ہو گئی تھی۔ میرا جسم تیزی سے کنارے کی طرف بڑھنے لگا۔ تھوڑا نزدیک ہونے پر مجھے ایک پریشان حال ماں دوپٹے کو سختی سے ہاتھوں میں لیے اپنے دل کے قریب ہاتھوں کو پکڑے ہوئے نظر آئی۔ لڑکے کے ہاتھ پر میری گرفت ڈھیلی ہونے لگی، لیکن پوری ہمت جمع کرتے ہوئے میں زور لگانے لگا۔ جیسے ہی میں ساحل کے انتہائی قریب پہنچا تو لڑکے کا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا لیکن خوش قسمتی سے ساحل کے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی ماں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
میری آنکھوں کے سامنے ساحل کی دھندلاتی تصویر چھانے لگی۔۔۔۔ ساحل پر موجود لوگوں کو اپنی طرف متوجہ پایا۔۔۔۔ متاثرہ بچہ اپنی ماں کا ہاتھ تھامے سہما کھڑا تھا اور اس کی ماں اپنے رب کے حضور میرے لیے دامن پھیلائے کھڑی تھی۔۔۔ میرے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے، تھکن کی وجہ سے میرے کندھے مجھے گرتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔۔۔ میرا دم گھٹنے لگا۔۔۔ اور جسم ڈھیلا پڑنے لگا۔۔۔ مجھے میری زنگی کا آخری نظارہ بڑا بھایا۔۔۔ کسی کی مدد کرنے میں مجھے دل کا اطمینان نصیب ہوا۔۔۔ ایک انجانی خوشی محسوس ہونے لگی۔۔۔ بے شک اللہ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ میں یہاں بے مقصد آ گیا تھا مگر یہاں تو اللہ کو مجھ سے ایک عظیم کام لینا تھا۔۔۔ ایک انسانی جان بچانے میں مجھے خوشی اور فرحت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ یہ تو شاید روزگار ملنے پر بھی نہ ملتی۔۔۔ آہستہ آہستہ میرا ذہن تاریکیوں میں ڈوبنے لگا۔۔۔
میری آنکھ کھلی تو خود کو ایک بستر پر پایا۔۔۔ پاس ہی بیٹھے ایک با رعب مگر شفیق صورت آدمی نے میرا حال دریافت کیا۔۔۔ میں ذہن پر زور دینے لگا۔۔۔ یہ چہرہ کچھ جانا پہچانا لگا۔۔۔ ارے ہاں یہ تو سمندر کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے۔۔۔ شاید پاس ہی سیکورٹی گارڈ بھی تھا۔۔۔ میرا حال دریافت کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے کام وغیرہ کے بارے میں پوچھا۔ میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔۔۔ انہوں نے کہا ’’نوجوان میری فیکٹری میں ایک خالی جگہ ہے۔۔۔ اس پتے پر کل آ جانا‘‘۔ انہوں نے ایک کارڈ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ‘‘ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق تم شام تک چلنے پھرنے کے قابل ہو جاؤ گے‘‘ پھر مسکراتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملا کر دروازے کی طرف مڑ گئے اور اللہ کی طرف سے فوری طور پر اس دنیا میں اس نیکی کے بدلے ملنے والے انعام سے میری آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔
٭٭٭ 

0 comments: