2016 ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Monday, October 24, 2016

قضا نمازوں کے حوالے سے سعودی مفتی اعظم الشیخ

عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتوٰی ملاحظہ کیجیے:
“علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر اس کی قضا واجب نہیں ہے۔ کیونکہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا کفر ہے جو آدمی کو اسلام سے نکال کر زمرہ کفار میں داخل کر دیتا ہے۔ اور کافر پر حالت کفر میں چھوڑے ہوئے کاموں کی قضا نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے:
“آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز کو چھوڑ دینے (کا فرق) ہے۔
(صحيح مسلم الإيمان (82),سنن الترمذي الإيمان (2620),سنن أبو داود السنة (467
,سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (107,مسند أحمد بن حنبل (3/370),سنن الدارمي الصلاة (1233).

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام قبول کرنے والوں سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ وہ سابقہ نمازیں دہرائیں جو ان پر حالتِ کفر میں فرض تھیں نہ ان کے بعد صحابہ نے ان لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جو مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوئے۔

بھول جانے،سوئے رہنے کی وجہ سےاور بے ہوشی کی وجہ سے رہ جانے والی نمازوں کو قضا کیا جائے گا۔
بہت سے لوگ سابقہ نمازوں کی قضا کے خوف سے نماز کی باقاعدہ ادائیگی شروع نہیں کرتے۔دین آسان ہے، اسے اسی طرح رہنا چاہیے جیسے اللہ کے نبی ﷺ  نے پیش کیا تھا۔ ادھر تو یہ حال ہے کہ کوئی مسجد میں چلا جائے تو آسانی پیدا کرنے کی بجائے اسے کہا جاتا ہے کہ میاں پچھلے بیس تیس برس کدھر تھے، سابقہ نمازوں کی گنتی پوری کرو، پھر آگے چلنا۔ یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے کہ توبہ کرنے والے انسان کو حوصلہ دینے کی بجائے الٹا پچاس سال کی نمازوں کی قضا کا مژدہ سنا دیا جائے۔

فرمان رسول ﷺ ہے:
"بَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا
“خوشخبری سناؤ اور نفرت نہ دلاؤ”
"يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا
“لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو مشکلات نہ بناؤ”
صحيح بخارى:69
قضا نمازوں کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا مسئلہ کفر اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ صحیح قول یہی ہے کہ ان کی ادائیگی ضروری نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّل اللَّه سَيِّئَاتهمْ حَسَنَات (الفرقان:70)
“ الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرے اور ایمان لا کر عملِ صالح کرنے لگے، ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکی سے بدل دے گا”۔
اور فرمایا:
وَإنّي لَغَفَّار لمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَملَ صَالحًا ثُمَّ اهْتَدَى (طہ:82)
“ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں”

اگر كسى شخص نے شرعى عذر كى بنا پر نماز ترک كى مثلا نيند يا بھول كر تو اس كا كفارہ يہ ہے كہ جب اسے ياد آئے اور سويا ہوا بيدار ہو تو اسى وقت نماز ادا كر لے، اس كے علاوہ كوئى اور كفارہ نہيں.

‎جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

‎" جو كوئى بھى نماز بھول جائے يا اس سے سويا رہے تو جب اسے ياد آئے وہ نماز ادا كر لے، اس كا كفارہ يہى ہے "
‎صحيح بخارى حديث نمبر :572  صحيح مسلم:1564

کوئی فدیہ چھوڑی ہوئی نماز کے لیے نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ یہ بات دین میں ثابت نہیں ہے۔
جس نے ايک يا زيادہ فرض نمازيں بغير كسى عذر كے ترک كرديں اسے اللہ تعالى كے ہاں سچى توبہ كرنى چاہيے، اور اس كے ذمہ كوئى قضاء اور كفارہ نہيں، كيونكہ فرضى نماز جان بوجھ كر ترک كرنا كفر ہے.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

‎" ہمارے اور ان كے مابين عہد نماز ہے، جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "
مسند احمد حديث نمبر ( 22428 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 462 ).

‎اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
‎" آدمى اور شرک اور كفر كے مابين نماز كا ترك كرنا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 242 ).

‎اور اس ميں سچى اور پكى توبہ كے علاوہ كوئى كفارہ نہيں.

والله اعلم بالصواب

Wednesday, October 19, 2016

پیاری سی دْنیا۔ ام سعد

Image result for  world clipart
ڈھا۔۔۔۔ ڈھا ڈھا۔۔۔ ڈھز۔۔۔ بڑی آنکھ سے نکلتی سرخ روشنی سے انسان بے بس ہو کر گر گئے۔۔۔ منا ڈرا سہما دیکھ رہا تھا۔۔۔ روز کی طرح کارٹون لگا کر مما مصروف تھیں۔۔۔ ‘‘یہ کھا لو نا‘‘ اْسے ڈانٹ پڑی۔۔۔ مما گندی۔۔۔ پھر کارٹون میں شیر اور شیرنی گانا گانے لگے۔۔۔ آلو کا خشک چپس گلے میں پھنس رہا تھا مگر اس کی آواز اچھی تھی۔۔۔ کڑ۔۔۔ کڑ کڑ۔۔۔ اس نے چپس چورا کر دیے۔ ‘‘اْف! سارا قالین گندا کر دیا‘‘ نرم گال پر تھپڑ مارا۔۔۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے وہ بھوکا ہی سو گیا تھا۔۔۔ ماموں آئے تو کرسمس کہانی چل رہی تھی۔۔۔ ‘‘بچے ان فلموں سے جانے کیا سیکھتے ہیں؟‘‘ وہ سر جھٹکتے ہوئے ٹی وی بند کر رہے تھے جب منا ڈر گیا، شاید خواب میں بھی ڈراؤنے کارٹون تھے۔۔۔
ماموں کی بات پر منے کے ابو ہنسنے لگے ‘‘ارے ہم منا کیسے بن سکتے ہیں؟‘‘
ماموں بولے: ‘‘منے والی کام کر کے۔‘‘
آپا نے منہ بنایا ‘‘لو بھلا۔۔۔ منے کو کام ہی کیا ہے۔۔۔ سارا دن کارٹون دیکھنا۔‘‘
‘‘ہم بھی کارٹون دیکھیں گے۔ پتا تو چلے منا کیا دیکھتا ہے، کیا اثر لیتا ہے؟‘‘ ماموں ذرا رک کر بولے‘‘ بچے وہی کچھ سیکھتے ہیں، جو وہ دیکھتے ہیں۔ مجھے وہ حدیثِ پاک یاد آ رہی ہے کہ اللہ نے سب انسانوں کو اسلام کی فطرت پر پیدا کیا ہے، لیکن ماحول کے اثر سے وہ یہودی اور عیسائی بن جاتے ہیں۔
وہ کارٹون دیکھ رہے تھے۔۔۔ کبھی انسان، کبھی بلا بن جانے والی مخلوق، مار دھاڑ، انسانی کمزوری، دیوتاؤں کی طاقت، جادو، شیطانی شکلیں، دجالی اشارے، ناچ گانے، نامناسب لباس، بے حیائی کی باتیں۔۔۔ کون سی گندی چیز بچوں کے چینل پر نہیں تھی۔۔۔ سب چپ تھے، آخر آپا بے چینی سے بولیں: ‘‘حد ہو گئی‘‘ مجھے تو شرم آ رہی ہے یہ دیکھ کر۔۔۔ ماموں اداسی سے کہنے لگے۔ ‘‘یہ سب دیکھ کر بچوں کی شرم و حیا اْڑتی جا رہی ہے۔۔۔ حیا کے بغیر ایمان نہیں اور کارٹون بچوں کا ایمان خراب کر رہے ہیں‘‘۔
ابو بھی چپ نہ رہ سکے، ‘‘سارا دن ٹی وی لگا کر بچے کو چھوڑنا تو شیطان کو کھلی چھٹی دینا ہے کہ لے جیسے تیرا دِل کرے تو اس بچے کو برباد کر۔‘‘
ماموں کہنے لگے آپ ٹھیک کہتے ہیں، یہ ہماری اپنی کوتاہی ہے ورنہ اللہ پاک کہتے ہیں کہ ‘‘شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘ موت پر اللہ کا اختیار ہے، اس لیے شیطان ہمیں مار نہیں سکتا مگر کوشش کرتا ہے کہ انسانی زندگی برباد ہو۔ کارٹون لڑائی، جنگ اور غصے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں تا کہ برداشت ختم ہو جائے اور انسان، انسان کو مار ڈالے۔ میں نے پڑھا تھا کہ کارٹون خاص تکنیک سے بنائے جاتے ہیں تا کہ بچے جلدی بڑے ہو جائیں۔
آپا فوراً بولیں ‘‘یہ تو اچھا ہے نہ‘‘۔
‘‘میری بھولی آپا! انسان، جانور، پودے یہ جراثیم سب کی زندگی کا لائف سائیکل (Life Cycle) ہوتا ہے۔ مثلاً پیدا ہونا، بڑھنا وغیرہ۔ اگر یہ سائیکل تیز کر دیا جائے تو؟‘‘
‘‘بھئی ظاہر ہے لائف سائیکل تیزی سے ختم ہو گا تو مخلوق جلدی مرے گی۔‘‘ منے کے ابو بولے ‘‘جی بھائی جان! جب بچپن ختم ہو تو انسانی عمر بھی کم ہو گی۔‘‘
‘‘اوہ! یہ تو انسانوں کے خلاف شیطانی سازش ہے‘‘ آپا نے پریشانی سے کہا تو ماموں مسکرائے۔ وہ بات سمجھانے میں کامیاب ہو گئے تھے، لیکن آپا بہت سنجیدہ تھیں۔
‘‘ہم اپنے منے کو پیارا سا بچپن دیں گے جیسا ہمارا تھا۔۔۔ قدرتی ماحول، سادہ کھانا، اللہ رسول کا ذکر اور کتنی بہت سی اچھی باتیں۔‘‘
تینوں بچپن یاد کرنے لگے۔۔۔ ابو نے بتایا کہ ایک دفع میں نے کلو آلو مٹی میں ڈال دیے تھے۔۔۔ ‘‘پھر تو پٹائی ہوئی ہو گی‘‘
ارے کہاں، اماں بولیں ‘‘کھیتی باڑی پیغمبروں نے بھی کی تھی، پھر آلو نکالے کہ آج بیٹے کے کھیت کے آلو پکائیں گے۔ اْن کی یہی محبت ہے، اسی لیے تو ان کے پاؤں دبائے بغیر چین نہیں آتا‘‘
‘‘آپا یاد ہے کہ ہم نے چاول پکائے تھے، مٹھی بھر نمک اور گڑ ڈال کر۔‘‘ ماموں کی بات سن کر سب ہنس پڑے۔
‘‘پھر تو ڈانٹ پڑی ہو گی؟‘‘
‘‘نہیں تو، امی نے بتایا کہ رزق خراب نہیں کرتے اور پاس بٹھا کر پکانا سکھایا۔ ڈانٹ اور مار تو جھوٹ بولنے، گالی دینے یا چوری کرنے پر پڑتی تھی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہیں منے کو بے بات ڈانٹنے پر دکھ ہوا تھا۔
‘‘بابا جان یسین شریف پڑھتے تھے اور میں ان کی گود میں سر رکھ کر سنتا تھا تو مجھے بھی سورت یاد ہو گئی تھی۔ ان کی ہر بات میں نیکی کا درس تھا۔‘‘
‘‘کتنی محبت دی ہمیں ماں باپ نے‘‘
‘‘اسی لیے تو ہم بھی ان سے پیار کرتے ہیں‘‘
‘‘ہمارا منا بھی ہم سے بہت محبت کرے گا، ہم اس کی اچھی تربیت کریں گے انشاء￿ اللہ‘‘
‘‘بیٹے! بسم اللہ کر کے کھاؤ‘‘ مما نے مزے دار چوری کھلائی تو منا سوچنے لگا، اللہ جی اچھے، مما اچھی۔
میرا بیٹا اللہ کی نعمت ہے۔ اللہ زندگی دے، ایمان سلامت رکھے، مما نے دعا دی۔
آج منا جب سو کر اٹھا تو دنیا ہی بدل گئی تھی۔۔۔
گندے کارٹون ‘‘گم‘‘ ہو گئے تھے۔۔۔ ابا چوزے لے آئے تھے اور منا ہنستا کھلکھلاتا صحن میں پھدکتے ننھے منے چوزوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
پھول، تتلیاں، درختوں پر چہکتی چڑیاں، ہوا اور بادل۔۔۔ اللہ نے انسان کے لیے بڑی پیاری سی دنیا بنائی ہے۔ منا اس پیاری سی دنیا کا حصہ بن کر بہت خوش تھا۔۔۔
٭٭٭

کرو مہربانی تم، رومیصاء حسن

ایک عورت کی چیخ نے مجھے چونکا دیا۔ ساحلِ سمندر کی تیز و تند ہوائیں میرے کمزور بدن کو چیرتی ہوئی گزر رہی تھیں جس سے میرے کپڑے اور بے ترتیب بال مسلسل ہوا میں لہرا رہے تھے، میں شائد آج راستہ بھٹک کر یا اس بے رحم زمانے کے ظلم سے تنگ آ کر یہاں آ نکلا تھا۔ میرا دل اس زمانے کی سختی اور بے وفائی سے سخت بیزار اور مایوس تھا، جس میں غریبوں اور بیروزگاروں کا کوئی حصہ نہیں اور جہاں پر انہیں جینے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ دو سال کی مسلسل بے روزگاری نے مجھ جیسے ہنس مکھ انسان کو کیا سے کیا بنا دیا تھا۔
اس مہنگائی کے دور میں جہاں پورے دن میں ایک روٹی کھانی نصیب نہیں ہوتی، اس سے تو مرجانا بہتر ہے۔ کم از کم اس جان لیوا فاقوں سے تو نجات مل جائے گی۔ بے روز گار جوانوں کی لائن سے ایک نوخیز کلی بغیر کھلے مرجھا جائے گی۔ میں بہت کچھ سوچتے ہوئے اس ساحل کی طرف آیا تھا اور سمندر کے کنارے کھڑا تھا۔ میرے دل کو ایک عجیب سی بیچینی تھی۔ پتہ نہیں اس بیچین قلب کا اطمینان کب اور کہاں رخصت ہو چکا تھا، جہاں اب صرف اداسی اور مایوسی نے ڈیرے جمائے ہوئے تھے۔
میں نے ایک نظر ساحل پر دوڑائی۔ اکثر لوگ اپنی فیملیوں کے ساتھ اپنی مصروف زندگیوں سے وقت نکال کر یہاں پکنک منانے آئے تھے۔ کہیں کہیں نوجوانوں کی ٹولیاں مٹر گشت کر رہی تھیں اور دنیا کے غموں کو بھلا کر زندگی کے مزے لوٹ رہی تھیں، تو کچھ لوگ ہوا خوری کے لیے ساحل پر آئے تھے۔ جگہ جگہ بچے دنیا کے غموں اور مصیبتوں سے انجان اپنے کھیلوں اور ریت کے گھروندے بنانے میں مصروف تھے۔ میری طرح بے دل اور بیچین تو کم از کم کوئی بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔
سمندر میں پانی اپنے معمول کے مطابق نظر آ رہا تھا، آسمان پر بادل بھی چھائے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھ مچولی جاری تھی کہ آہستہ آہستہ بادل گہرے ہونے لگے جس سے ہوا ٹھنڈی ہونے لگی۔ موسم بہت خوشگوار ہو گیا اور ساحل پر لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ ہوا کی تیزی کی وجہ سے سمندر کی سطح پر لہریں اْٹھنے لگی تھیں۔ میں کنارے پر کھڑا اس منظر میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک دائیں طرف سے ایک چیخ سنائی دی۔ میں نے لپک کر وہاں دیکھا، تو ایک درمیانی عمر کی عورت کو چیختے چلاتے ہوئے بالکل کنارے پر کھڑے ہوئے پایا اور پانی میں تھوڑے سے فاصلے پر ایک ہاتھ اْٹھائے چیختا ہوا بچہ نظر آیا۔ جسے سمندر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی لہریں اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ کچھ لوگ متوجہ ہو چکے تھے جبکہ اکثریت انجان تھی۔ میں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر پانی میں چھلانگ لگا دی۔ رونگٹے کھڑے کرنے والے ٹھنڈے پانی نے میرا استقبال کیا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میرا بدن جم گیا ہو مگر میں نے ہمت نا ہاری اور ہاتھوں پیروں کو حرکت دینے لگا اور تیزی سے اس بچے کی طرف بڑھنے لگا جس کا صرف سر اور اس سے اوپر اٹھتے ہوئے ہاتھ نظر آ رہے تھے پیچھے سے اس کی ماں کی چیخ و پکار اب تھوڑی مدھم سنائی دے رہی تھی۔ میں تیزی سے اس بچے کی طرف بڑھنے لگا اور ہاتھوں کے ذریعے پانی کو پیچھے دھکیلنے لگا۔ مجھے کافی مشکل پیش آ رہی تھی، کیوں کہ کافی عرصے سے تیرنے کا تجربہ نہیں تھا، اوپر سے پانی کی لہریں بڑھ بڑھ کر میرا راستہ روک رہی تھیں۔ میں کوشش کرتے کرتے آخر کار اس ڈوبتے بچے تک پہنچ گیا، جو ہاتھ پیر مار رہا تھا۔ لپک کر اسے ہاتھ سے پکڑ کر میں نے مڑ کر جو دیکھا تو سٹی گم ہو گئی، کیونکہ میں ساحل سے کافی دور تھا، خیر اللہ کا نام لے کر میں واپس مڑا۔
واپسی میں ایک اور بوجھ بھی میرے اوپر آ چکا تھا، لیکن یہ شاید اللہ کے نام کی برکت تھی، میرے کاندھوں اور رانوں میں ایک نئی طاقت پیدا ہو گئی تھی۔ میرا جسم تیزی سے کنارے کی طرف بڑھنے لگا۔ تھوڑا نزدیک ہونے پر مجھے ایک پریشان حال ماں دوپٹے کو سختی سے ہاتھوں میں لیے اپنے دل کے قریب ہاتھوں کو پکڑے ہوئے نظر آئی۔ لڑکے کے ہاتھ پر میری گرفت ڈھیلی ہونے لگی، لیکن پوری ہمت جمع کرتے ہوئے میں زور لگانے لگا۔ جیسے ہی میں ساحل کے انتہائی قریب پہنچا تو لڑکے کا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا لیکن خوش قسمتی سے ساحل کے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی ماں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
میری آنکھوں کے سامنے ساحل کی دھندلاتی تصویر چھانے لگی۔۔۔۔ ساحل پر موجود لوگوں کو اپنی طرف متوجہ پایا۔۔۔۔ متاثرہ بچہ اپنی ماں کا ہاتھ تھامے سہما کھڑا تھا اور اس کی ماں اپنے رب کے حضور میرے لیے دامن پھیلائے کھڑی تھی۔۔۔ میرے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے، تھکن کی وجہ سے میرے کندھے مجھے گرتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔۔۔ میرا دم گھٹنے لگا۔۔۔ اور جسم ڈھیلا پڑنے لگا۔۔۔ مجھے میری زنگی کا آخری نظارہ بڑا بھایا۔۔۔ کسی کی مدد کرنے میں مجھے دل کا اطمینان نصیب ہوا۔۔۔ ایک انجانی خوشی محسوس ہونے لگی۔۔۔ بے شک اللہ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ میں یہاں بے مقصد آ گیا تھا مگر یہاں تو اللہ کو مجھ سے ایک عظیم کام لینا تھا۔۔۔ ایک انسانی جان بچانے میں مجھے خوشی اور فرحت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ یہ تو شاید روزگار ملنے پر بھی نہ ملتی۔۔۔ آہستہ آہستہ میرا ذہن تاریکیوں میں ڈوبنے لگا۔۔۔
میری آنکھ کھلی تو خود کو ایک بستر پر پایا۔۔۔ پاس ہی بیٹھے ایک با رعب مگر شفیق صورت آدمی نے میرا حال دریافت کیا۔۔۔ میں ذہن پر زور دینے لگا۔۔۔ یہ چہرہ کچھ جانا پہچانا لگا۔۔۔ ارے ہاں یہ تو سمندر کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے۔۔۔ شاید پاس ہی سیکورٹی گارڈ بھی تھا۔۔۔ میرا حال دریافت کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے کام وغیرہ کے بارے میں پوچھا۔ میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔۔۔ انہوں نے کہا ’’نوجوان میری فیکٹری میں ایک خالی جگہ ہے۔۔۔ اس پتے پر کل آ جانا‘‘۔ انہوں نے ایک کارڈ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ‘‘ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق تم شام تک چلنے پھرنے کے قابل ہو جاؤ گے‘‘ پھر مسکراتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملا کر دروازے کی طرف مڑ گئے اور اللہ کی طرف سے فوری طور پر اس دنیا میں اس نیکی کے بدلے ملنے والے انعام سے میری آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔
٭٭٭ 

فل اسٹاپ، فائزہ طارق

بیٹا! آپ نے پھر مضمون لکھتے ہوئے فل اسٹاپ نہیں لگائے۔ ہر لائن ختم کرنے کے بعد فل اسٹاپ لگاتے ہیں نہیں تو آدھا نمبر کٹ جاتا ہے۔ زینب نے بڑے پیار سے بیٹے حنظلہ کو سمجھایا۔ ساتھ ساتھ ہنڈیا بھوننے کا کام بھی جاری رہا۔ حنظلہ کے چھوٹے چھوٹے سوال بھی جاری تھے۔
’’امی جی! ایک نقطہ ہی تو ہے اگر میں نا لگاؤں؟‘‘
زینب بڑی ملائمت سے اس بتانے لگی کہ ہر زبان کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور ان کے مطابق ہی چلنا پڑتا ہے۔ ’’چلیں ٹھیک ہے میں ادھر بیٹھ کر کام مکمل کرتا ہوں‘‘ حنظلہ کا ہوم ورک ہوتا رہا اور زینب کے ہاتھ تیزی سے گھر کے کام نمٹاتے رہے۔ ساتھ ساتھ وہ اپنے بیٹے پر ممتا بھری نظر بھی ڈالتی رہی۔ آخر حنظلہ نے ایک نعرہ لگایا کہ مضمون مکمل ہو گیا ہے، گویا ہوم ورک سے چھٹی مل۔ پھر وہ کہنے لگا:
’’امی جی! پندرہ فل اسٹاپ لگائے ہیں۔ اب خوش‘‘
اس معصومانہ بات پر زینب بے ساختہ ہنس پڑی۔ مگر اچانک ہی ایک خیال نے اس مسترب کر دیا۔ کھانے کے بعد تھوڑی دیر سونے کی نیت سے لیٹی تو پھر اس سوچ نے اعصاب کو تھکا ڈالا۔
’’میں نے اپنی خواہشوں کے آگے فل اسٹاپ کیوں نہ لگایا؟ زندگی گزارنے کے اصول جو رب نے متعیّن کیے ہیں میں ان سے انحراف کیوں کر بیٹھی۔ میں تو خواہش اور ضرورت کے فرق کو اچھی طرح جانتی تھی۔ مادی خواہشیں مجھ پر اتنی حاوی ہو گئیں کہ میں اپنے بچپن کے دوست اپنے غمگسار اپنے اللہ کو بھول بیٹھی۔ میں تو سارا دن اپنے خوبصورت گھر، اس کی چیزوں کی صفائی ستھرائی میں ہی لگی رہتی ہوں۔ اور ہاں اب تو فخریہ مسکراہٹ بھی اکثر چپکے سے میرے لبوں پر آ جاتی ہے۔ جسے روکنے کی کوشش بھی میں نہیں کرتی اور۔۔۔ اور اب تو کسی کام کو کرتے ہوئے اللہ کی رضا کی نیت بھی نہیں ہوتی۔‘‘
آنسوؤں سے زینب کا دم گھٹنے لگا مگر ضمیر کا احتجاج جاری تھا۔ دو سال غفلت کی زنگی گزارنے کے بعد آج احتساب کی عدالت لگی تھی جس نے مجرم بھی وہی تھے اور منصف بھی وہی۔ وہ رو رو کر اعترافِ جرم کر رہی تھی اور اللہ سب سن رہا تھا، دیکھ رہا تھا۔
’’میں نے طلحہ کو کمانے کی مشین بنا ڈالا۔ پہلی جاب کی تنخواہ ہی ماشاء￿ اللہ اتنی آتی تھی کہ شام کی جب کی ضرورت ہی نا تھی مگر میں نے ہی اسے دوسری جاب کرنے پر مجبور کیا۔ دو سال پہلے کتنی سکون آور ہماری شامیں ہوتی تھیں۔ ہم تینوں مل کر بیٹھتے پسند کی چیزیں بنائی جاتیں۔ پندرہ منٹ کے لیے درسِ قرآن بھی ہوتا۔ جس میں ننھا حنظلہ بھی سامع ہوتا۔ فجر سے لازم طور پر آدھا گھنٹہ پہلے اٹھ کر تلاوت کیا کرتے تھے۔ قرابت داری کی نیت کر کے ہم کبھی کبھار رشتے داروں کے گھر بھی چلے جاتے یا فون پر رابطہ ضرور رکھتے۔ یوں رشتے داروں کے احوال کا پتہ چلتا رہتا اور مالی مدد کی توفیق بھی ہو جاتی۔ پھر طلحہ کو لکھنے کی عادت تھی۔ چھوٹے چھوٹے موضوع کو کہانیاں بنا کر یا کالم کی شکل دے کر اخباروں میں ارسال کرنا یہ طلحہ کا شوق تھا۔ مغرب کے بعد طلحہ کو طویل نوافل کی عادت تھی۔ مگر پھر طلحہ کے یہ سلسلے بھی موقوف ہوئے اب وہ رات کو دیر سے گھر آتے ہیں۔ ہم ایک ڈیڑھ بجے سوتے ہیں اور سات بجے اٹھتے ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ بچے کو سکول بھیجنا ہے۔ ہائے میں کتنے خسارے کا سودا کر بیٹھی؟‘‘
کوڑے زینب پر برس رہے تھے اور آنسوؤں نے زینبے کی آنکھوں کا راستہ دیکھ لیا تھا۔
’’میں کیسے فرمانبرداری کی راہ سے ہٹ گئی۔ اپنے اللہ سے واجبی سا تعلق رکھ کر میں خوش رہی تو کیسے؟ اللہ سے دوری کے بعد میں سانس بھی لیتی رہی۔ جیتی بھی رہی۔ میں جو سوچا کرتی تھی کہ پتہ نہیں کہ لوگ اللہ کو بھلا کر کیسے جی لیتے ہیں؟ ان مادی چیزوں کے سحر نے خود مجھے میرے رب سے دور کر دیا۔ بالکل غیر محسوس طریقے سے ان چیزوں کی محبت نے میرے دل کو اسیر کر لیا۔ پھر ہولے ہولے میں مناجات سے محروم ہوئی۔ ذکرِ اللہ سے محروم ہوئی اور پھر اللہ سے میرا تعلق واجبی رہ گیا۔ مگر اللہ مجھے نوازتا رہا۔ میری کج ادائی کے باوجود وہ مجھے بھولا نہیں مگر۔۔۔ مگر وہ دل سے تو چلا گیا‘‘
بے بسی سے زینب پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی۔ دو نفل توبہ کے پڑھ کر دعا کے لیے ہاتھ جو پھیلائے تو آنسوؤں سے گلا رندھ گیا۔ توبہ استغفار کرتے ہوئے ہچکیوں سے لفظ بار بار ٹوٹے مگر آمین کہتے ہوئے جب زینب اْٹھی تو بہت آسودہ تھی۔ اس کے دل کے اندر چھائے سکون نے اسے بتا دیا تھا کہ اس نے اپنے رب کو منا لیا ہے۔
٭٭٭

Tuesday, October 18, 2016

غذائیت سے بھرپور ناشتہ ، موٹاپے سے بچاﺅ کا آسان حل ۔

Image result for ghizaiat
لندن (قدرت روزنامہ18اکتوبر2016) دن کا آغاز بھر پور ناشتے سے کرنا چاہیے ، ایک صحت مند ناشتہ سے پورے دن کے امور انجام دینے کے لئے قوت ملتی ہے متوازن خوراک سے مراد وہ غذا ہے جس میں مکمل نشونما کے لئے مناسب مقدار میں غذائیت موجود ہو ، بہت سی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ متوازن ناشتہ سے ناصرف وزن کم ہوتا ہے ، اس سے نزلہ ،زکام اور فلو کے جراثیم سے مدافعت کی صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے ۔اس لئے ایسے افراد جو مناسب ناشتہ نہیں کرتے آسانی سے بیمار ہو جاتے ہیں ۔ ایک مکمل ناشتہ میں فائبر ،کاربو ہائڈریٹس ،پروٹین اور کچھ ضروری چکنائی بھی ہونی چاہیے۔ وزن میں کمی کا کوئی جادوئی حل نہیں بلکہ طرز زندگی میں تبدیلی ہی سے آپ اپنی شخصیت میں جادوئی تبدیلی لاسکتے ہیں ۔
1 ۔ پھلوں کا ناشتہ ۔ *دن بھر کی کیلوریز میں 25 فیصد حصہ فائبر ہونا چاہئے ،جو کہ پھلوں سے با آسانی مل جاتا ہے ۔
* ناشتے میں کیلے کا کوئی ثانی نہیں ۔اس کو کھانے سے کا فی دیر تک بھوک نہیں لگتی ۔ یہ کاربو ہائڈریٹس کا بہترین ذخیرہ ہے۔اسے کاٹ کر سیر یل کے ساتھ کھانے سے نہ صرف اس کا ذائقہ بہتر ہوتا ہے بلکہ یہ ایک صحت بخش غذا بن جاتی ہے ۔
* بیریز کو سپر فوڈ بھی کہا جاتا ہے۔ کیوںکہ ان میں اینٹی آکسیڈنٹس بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں اور یہ وزن نہیں بڑھاتیں ۔ ایک کپ اسٹرابیریز میں پورے دن کی ضرورت پوری کرنے جتنا وٹامن ،فائبر اور فولک ایسڈ ہوتا ہے۔
* ناشتہ میں گریپ فروٹ کھانے سے بھی دبلے ہونے میں مدد ملتی ہے ۔ کیوںکہ اس میں چربی پگھلانے والے اجزاء شامل ہوتے ہیں یہ خون میں شکر کی تعداد کو بہتر بنانے میں مددگار ہوتے ہیں ۔
* پھلوں کو پیوری کی شکل میں بھی لیا جا سکتا ہے ۔ فروٹ پیوری بنانے کے لئے فروٹ کو پانی کے ساتھ پکا کر نرم کر لیا جاتا ہے اور بلینڈر میں ڈال کر مکس کر لیا جاتا ہے اور أوپر سے لیموں کا رس اور دار چینی ڈال دی جاتی ہے ۔ ایک اُبلا ہوا انڈہ ایک براؤن بریڈ اور اس کے ساتھ فروٹ پیوری غذائیت سے بھر پور ناشتہ ہے۔
2 ۔ دلیہ کا ناشتہ ۔
سیریل یا دلیہ ناشتہ کے لئے چکنائی میں کم اور نشاستہ سے بھر پور ہوتے ہیں ۔ صبح سویرے توانائی کا اچھا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ اچھے دلیہ کے لئے فورٹی فائڈ ود ایکسٹرا منرلز کا انتخاب کرنا چاہئے۔ جس میں موجود آئرن خون صاف کرتا ہے اور وٹامن بی میٹا بو لزم کے لئے ضروری ہے۔ دلیہ کو عام طور پر دودھ کے ساتھ لیا جاتا ہے جس میں موجود کیلشیم پروٹین ہڈیوں کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے اور اگر ساتھ میں ایک گلاس اورنج جوس لیا جائے تو وہ فولاد کو جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے علاوہ دلیہ میں بھی فروٹ ڈالا جا سکتا ہے۔ اس طرح اس ناشتہ سے 50 گرام کاربو ہائڈریٹس اور 8 گرام فائبر حاصل ہو گا ۔
3 ۔ پروٹین کا ناشتہ ( انڈہ ،گوشت ، دودھ )
* ناشتہ کی کیلوریز کا15 سے 20 فیصد حصہ پروٹین پر منحصر ہونا چاہئے۔ صبح کے اوقات میں اگر پروٹین لیا جائے تو وہ پورے دن بھوک کے احساس کو بڑھنے نہیں دیتا ۔ ماہرین کے مطابق ناشتہ میں 20 گرام پروٹین جسم کو توانا رکھنے کے ساتھ ساتھ وزن بھی کم کرتا ہے۔
* پروٹین کا بہترین ذریعہ انڈہ ہے یہ ہی وجہ ہے کہ انگریزی ناشتہ میں گرل کئے ہوئے ٹماٹر ،پانی میں پکا ہوا انڈہ ،ٹوسٹ ،اور ایک گلاس دودھ شامل ہوتا ہے * پروٹین حاصل کرنے کے لئے گرل کی ہوئی مچھلی یا گائے کا گوشت (اسٹیک وغیرہ)بھی لیا جا سکتا ہے۔
4 ۔ دہی اور سیب
یوں تو دہی اور سیب ایک ساتھ کم ہی ڈشز میں استعمال ہوتے ہیں مگر دونوں غذائیت سے بھرپور ہیں۔ دہی کیلشیم اور پروٹین فراہم کرتا ہے اس میں چکنائی کی مقدار بھی کم ہوتی ہے جب کہ سیب سے پیٹ بھر جاتا ہے۔ کیوںکہ اس میں فائبر ہوتا ہے اس ناشتے کے ساتھ اگر ایک گلاس جوس پی لیا جائے تو یہ ارتکاز کی کمی ،چڑچڑ اہٹ اور بے چینی کو کم کرتا ہے۔
5۔ سبزیوں کا ناشتہ
گندم کی روٹی بنا کر اس میں انڈے کا خاگینہ, ابلے ہوئے پالک کے پتے, بند گوبھی، شملہ مرچ نمک ،کالی مرچ اور کو ٹیج چیز کی فلنگ کر دیں ۔ اس رول سے325کیلوریز ملیں گی جس میں 35 گرام کاربو ہائڈریٹس 10 گرام فائبر 18 گرام پروٹین حاصل شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ایک گلاس دودھ یا ایک مٹھی خشک میوہ ایک مکمل ناشتہ ہے۔
6 ۔ بادام او ر مونگ پھلی کا مکھن
* بریڈ یا ڈبل روٹی میں موجود کاربو ہائڈریٹس توانائی کا اچھا ذریعہ ہیں ۔ اگر ڈبل روٹی بنا چھنے آٹے کی بنی ہو تو اس میں موجود ریشہ دن بھر فٹ رکھنے کے لئے کافی ہیں ۔اگر بریڈ کو بادام اور مونگ پھلی کے مکھن (پینٹ بٹر)کے ساتھ کھایا جائے تو پروٹین بھی حاصل ہو گی اس کے ساتھ گرین ٹی یا کم چکنائی والے دہی کی لسی لی جا سکتی ہے۔
7 ۔ ملک اسموتھیز
کم چکنائی والے دودھ کے ساتھ کوئی بھی فروٹ اورآدھا کپ دہی ڈال کر بلینڈ کر لیں ۔

Saturday, October 15, 2016

💢مسلمانو سنبھل جاؤ ایک اور دجالی فتنہ آنے والا هے💢

💢مسلمانو سنبھل جاؤ ایک اور دجالی فتنہ آنے والا هے💢
_____________________________
مکمل پڑھنا دوستو

مسلمانوں سے گزارش ہے

کہ انڈیا میں بننے والی Film

Allaah Banday

جوکہ release ہو چکی ہے

اسے انڈیا میں روکا جائے.

پوسٹر پہ اللہ کے نام کے ساتھ ساتھ

گندی لڑکیوں کی تصویر ہوں گی

CD ،، DVD اسے روکا جائے

اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے

اگر تم اپنے لوگوں کے سامنے مجھے

رد کرو گے

تو میں تمہیں اپنی نظروں میں

رد کرونگا

دوستوں کی خوشی کے لئے بہت

Sms کرتے ہو
دیکھتے ہیں اللہ پاک کی

رضا کے لئے کتنے لوگ اسے

آگے پہنچاتے ہیں

اسکوPlease جتنی جلدی ممکن ہوmsg کو پھیلا دیں

copy کر کے دوستو کو send کریے

Film میں ہمارے پیارے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار

ادا کرنے والے لعنتی

شخص کی تصویر آنے

والی ہے

جو کہ ہمارے آقا کی بہت بڑی توہین ہے

پوری دنیا کے مسلمانوں سے گزارش کی جاتی ہے

کہ یہ Film نہ دیکھیں

یہ ایک پلان ہے جس کا مقصد ہے کہ جب کبھی بھی

مسلمان Hazrat MOHAMMAD Sallallahu Ta'ala Alaihi Wasallam کے بارے

میں سوچیں تو فورا یہ تصویر

ان کے دماغ میں آجائے

Please جتنی جلدی ممکن ہو اس msg کو پھےلادے

Please میرے کہنے سے نہیں تو

اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اس پوسٹ کو

پھیلا دینا میرے بھائیو
______________________________
نوٹ👉: بالی ووڈ کے مسلم نام والے آرٹسٹ اگر کوئی بات ان کے خلاف بول دے تو یہ لوگ سنیما گھروں  کو پھوڑتے ہے، انکے فلمو کے پوسٹر جلاتے ہے، فلم چلنے نہیں دیتے .....
🌟 جس طرح اللہ کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے، اسی طرح نبی کریم صلی الےيهي علیہ وسلم کے جیسا کسی کو اور کو سمجھنا بھی شرک ہے ..!
⭕ اگر یہ فلم اس بات سے بے خبر کسی مسلمان نے دیکھ لی تو، اس کے شرک کے ذمہ دار ہم ہوں گے، کیونکہ یہ بات ہمیں معلوم تھی مگر ہم نے دوسروں تک نہیں پہنچائی۔

-

جنگ ہوتی کیا ہے؟"*

اگر آپ بھی ان لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں کہ جن کی پچھلے چند دنوں سے ایک بڑی خواہش بن چکی کہ "ہند و پاک جنگ ضرور ہونی چاہیے" تو یہ کالم ضرور پڑھیں ۔

*"جنگ ہوتی کیا ہے؟"*

پورے ملک میں توپوں کی دھنا دھن‘ جنگی طیاروں کی چنگھاڑ اور ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ تھی‘ سڑکوں پر دور دور تک لاشیں پڑی تھیں‘ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں‘ سڑکیں ختم ہو چکی تھیں‘ بجلی اور پانی بند تھا‘پبلک ٹرانسپورٹ دم توڑ چکی تھی‘ خوراک سپلائی ٹوٹ چکی تھی اور ہر گلی‘ ہر محلے سے گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور زخمیوں کی دہائیوں کے سوا کوئی آواز نہیں آتی تھی‘ پندرہ لاکھ زخمیوں کا علاج ممکن نہیں تھا چنانچہ ملک میں محب وطن شہریوں کے دو اسکواڈ بن گئے‘ ایک اسکواڈ شہر میں نکلتا تھا‘ اسے جہاں کوئی معمولی زخمی ملتا تھا‘ وہ زخم پر مرہم پٹی کے بجائے زخمی کی آنکھیں بند کرتا تھا اور اس کا پورا عضو کاٹ کر پھینک دیتا تھا‘ دوسرا اسکواڈ سنگین زخمی تلاش کرتا تھا اور انھیں گولی مار کر زندگی کے عذاب سے رہائی دے دیتا تھا‘ یہ پولینڈ کی صورتحال تھی‘ جرمن فوج نے یکم ستمبر 1939ء کو پولینڈ پر حملہ کیا‘ یہ دوسری جنگ عظیم کا آغاز تھا‘ یہ حملہ ستمبر کمپیئن کہلاتا ہے۔
یہ کمپیئن ایک مہینہ چھ دن چلی‘ پولش فوج کی تعداد ساڑھے نو لاکھ تھی‘ جرمنی‘ سلواکیہ اور سوویت یونین کی بیس لاکھ فوج نے پولینڈ پر حملہ کر دیا‘ جارح فوج کو 4959توپوں‘ 4736 ٹینکوں اور 3300 جنگی طیاروں کی سپورٹ حاصل تھی‘ یہ آئے اور پولینڈ میں مہینے میں ایک لاکھ 99 ہزار 700 لاشیں بچھا دیں اور یوں آرٹ‘ کلچر اور موسیقی کا مرکز پولینڈ ایک مہینے میں راکھ کا ڈھیر بن گیا‘ ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک لاشیں ہی لاشیں تھیں اور انھیں اٹھانے والا کوئی نہیں تھا‘ میں چھ بار پولینڈ گیا‘ میں جس شہر میں بھی گیا مجھے وہ وار میوزیم لگا‘ اس کی دیواروں پر 75 سال بعد بھی جنگ کے زخم تھے‘ آپ کو آج بھی وارسا اور کراکوف شہر کی گلیوں‘ بازاروں اور محلوں سے خون کی بو آتی ہے۔
جنگ کیا ہوتی ہے آپ پولینڈ کے لوگوں سے پوچھیں‘ یہ آپ کو بتائیں گے جنگیں ہوتی کیا ہیں اور انسان کو ان سے کیوں نفرت کرنی چاہیے‘ آپ پولینڈ نہیں جا سکتے تو آپ یورپ کے کسی شخص‘ کسی خاندان سے پوچھ لیں ’’جنگ کیا ہے؟‘‘ آپ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھیں گے‘یورپ نے یکم ستمبر 1939ء سے دو ستمبر 1945ء تک مسلسل چھ سال جنگ بھگتی‘ ان چھ برسوں میں یورپ‘ امریکا اور جاپان کے 6 کروڑ لوگ ہلاک ہو گئے‘ امریکا نے آخر میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر دو ایٹم بم گرائے‘ ہیرو شیما میں دو منٹ میں ایک لاکھ 40 ہزار لوگ جب کہ ناگاساکی میں 75 ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور جو زندہ بچے وہ عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے‘ جنگ عظیم دوم میں یورپ کا کوئی شہر سلامت نہیں رہا تھا‘ بجلی‘ پانی‘ سڑکیں‘ ریل کا نظام‘ اسکول‘ کالج اور خوراک ہر چیز مفقود ہو گئی تھی۔
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی یورپ میں عالمی جنگوں سے قبل سور نہیں کھایا جاتا تھا‘ لوگ پورک سے نفرت کرتے تھے لیکن جب جنگوں کے دوران خوراک کی قلت ہو گئی تو لوگوں نے سور کھانے شروع کر دیے اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے پورک اب پورے یورپ کی خوراک بن چکا ہے‘ جنگ کے بعد یورپ سے مرد ختم ہو گئے تھے چنانچہ یورپ شادی کا سسٹم ختم کرنے پر مجبور ہوگیا‘ عورت صرف عورت اور مرد صرف مرد بن کر رہ گیا‘ آپ جنگوں کے دوران یہودیوں کی داستانیں پڑھیں‘ آپ اندر سے دکھی ہو جائیں گے‘ سیکڑوں ہزاروں یہودی خاندان دو دو برس گٹڑوں میں رہے‘ ان کی ایک پوری نسل گٹڑوں میں پیدا ہوئی اور اس نے سیوریج کا پانی پی کر کھڑا ہونا سیکھا‘ آپ یورپ کی پہلی جنگ عظیم بھی دیکھئے‘ یہ جنگ 28 جولائی 1914ء سے 11 نومبر 1918ء تک چار سال تین ماہ چلی‘ یورپ نے ان سوا چار برسوں میں ساڑھے چار کروڑ لوگوں کی قربانی دی۔
یہ جنگ آسٹریلیا اور نیوزی کی ہر ماں کی گود اجاڑ گئی‘ ترکی کا جزیرہ گیلی پولی قبرستان بن گیا‘ آپ آج بھی جزیرے کے کسی کونے سے مٹی کی مٹھی بھریں‘ آپ کو اس میں انسان کے جسم کی باقیات ملیں گی‘ آپ ان باقیات سے پوچھیں‘ جنگ کیا ہوتی ہے؟ یہ آپ کو جنگ کا مطلب سمجھائیں گی اور آپ کو پھر بھی پتہ نہ چلے تو آپ ویتنام‘ افغانستان اور افریقہ کے جنگ زدہ ملکوں سے پوچھ لیں‘ ویتنام کے لوگوں نے ساڑھے 19 سال جنگ بھگتی‘ افغانستان پچھلے 35 برسوں سے لاشیں اٹھا رہا ہے جب کہ افریقہ کے ملکوں نائیجیریا‘ لائبیریا‘ سیرالیون‘ایتھوپیا‘ صومالیہ‘ یوگنڈا ‘ گنی اورسوڈان میں جنگ نے قحط پڑ گیا۔
افریقہ کے ہر شخص کی آنکھوں میں لکھا ہے‘ آپ ان آنکھوں سے پوچھ لیں جنگ کیا ہوتی ہے؟ یہ آپ کو بتائیں گی انسان جب اپنے والد‘ اپنے بچے اور اپنی بیوی کا گوشت ابال کر کھانے پر مجبور ہو جاتا ہے یا یہ جب اپنے لخت جگر کو زخموں سے رہائی دلانے کے لیے گولی مارتا ہے تو اس کا دل‘ اس کی روح کہاں کہاں سے زخمی ہوتی ہے‘ یہ باقی زندگی کیسے زندہ رہتا ہے؟ یہ لوگ آپ کو بتائیں گے!
ہم برصغیر پاک و ہند کے لوگوں نے بدقسمتی سے اصلی اور مکمل جنگ نہیں دیکھی‘ ہندوستان کی تمام جنگیں محدود تھیں‘ ہم پنجابی سینٹرل ایشیا کے ہر حملہ آور کا اٹک کے پل پر استقبال کرتے تھے‘ اسے ہار پہناتے‘ سپاہیوں کو خوراک اور گھوڑوں کو چارا دیتے تھے اور سیدھا پانی پت چھوڑ کر آتے تھے‘ یہ ہماری تاریخ تھی‘ تاریخ نے ایک بار پلٹا کھایا اور انگریز پانی پت سے لاہور آ گیا‘ ہم نے اسے بھی ہار پہنائے اور سیدھا جلال آباد جھوڑ کر آئے‘ انگریز باقی زندگی افغانوں سے لڑتے رہے اور ہم ان کے سہولت کار بنے رہے‘ ہم 1857ء کی جنگ آزادی کو ہندوستان کی عظیم جنگ کہتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے‘ یہ جنگ دہلی سے 75 کلو میٹر کے فاصلے پر میرٹھ میں شر وع ہوئی اور دہلی پہنچ کر ختم ہو گئی۔
یہ پوری جنگ دہلی کے مضافات میں لڑی گئی تھی اور پنجاب‘ سندھ‘ ممبئی‘ کولکتہ اور ڈھاکا کے لوگوں کو جنگ کی خبر اس وقت ہوئی جب ملبہ تک سمیٹا جا چکا تھا اور بہادر شاہ ظفر رنگون میں ’’ کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں‘‘ لکھ رہا تھا‘ ہم اگر 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کا تجزیہ بھی کریں تو یہ جنگیں ہمیں جنگیں کم اور جھڑپیں زیادہ محسوس ہوں گی‘ 1965ء کی جنگ چھ ستمبر کو شروع ہوئی اور 23 ستمبر کو ختم ہو گئی‘ پاکستان اور ہندوستان  17 دن کی اس جنگ کو جنگ کہتے ہیں‘ یہ دونوں ملک ہر سال اس جنگ کی سالگرہ مناتے ہیں‘ 65ء کی جنگ میں چار ہزار پاکستانی ہلاک  اور  تین ہزار ہندوستانی ہلاک  ہوئے تھے‘ یہ جنگ بھی صرف کشمیر‘ پنجاب اور راجستھان کے بارڈر تک محدود رہی تھی‘ ہندوستان اور پاکستان کے دور دراز علاقوں کے عوام کو صرف ریڈیو پر جنگ کی اطلاع ملی جب کہ 1971ء کی جنگ تین دسمبر کو شروع ہوئی اور 16 دسمبر کو ختم ہو گئی۔
اس جنگ میں میں 9 ہزار پاکستانی شہید ہوئے اور 26 ہزار بھارتی اور بنگالی ہلاک ہوئے‘ آپ کسی دن ٹھنڈے دل کے ساتھ 13 اور 17 دنوں کی ان جنگوں کو یورپ کی چار اور چھ سال لمبی جنگوں اور ان تین ہزار‘ چار ہزار‘ 9 ہزار اور 26 ہزار لاشوں کو یورپ کی ساڑھے چار کروڑ اور چھ کروڑ لاشوں کے سامنے رکھ کر دیکھیں‘ آپ لاہور اور ڈھاکا پر حملے کو دیکھیں‘ آپ 1965ء کے پٹھان کوٹ اور چونڈا کے حملوں کو دیکھیں اور پھر ہیرو شیما‘ ناگا ساکی‘ پرل ہاربر‘ نارمنڈی‘ ایمسٹرڈیم‘ برسلز‘ پیرس‘ لندن‘ وارسا‘ برلن اور ماسکو پر حملے دیکھیں اور پھر اپنے آپ سے پوچھیں ’’جنگ کیا ہوتی ہے؟‘‘ آپ کے جسم کا ایک ایک خلیہ آپ کو جنگ کی ماہیت بتائے گا‘ ہم دونوں ملک جنگ سے ناواقف ہیں‘ ہم جانتے ہی نہیں ’’جنگ کیا ہوتی ہے؟‘‘ چنانچہ ہم ہر سال چھ ماہ بعد ایٹم بم نکال کر دھوپ میں بیٹھ جاتے ہیں‘ بھارت ممبئی کے حملوں‘ پارلیمنٹ پر دہشت گردی‘ پٹھان کوٹ اور اڑی بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر حملے کے بعد جنگ کی دھمکی دیتا ہے اور پاکستان معمولی واقعات پر ’’ہم نے یہ ایٹم بم شب برات پر چلانے کے لیے نہیں بنائے‘‘ کا اعلان کر دیتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ دونوں نہیں جانتے جنگ کیا ہوتی ہے‘ ایٹم بم کیا ہے اور یہ جب پھٹتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟۔
میں بعض اوقات سوچتا ہوں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑی جنگ ہو جانی چاہیے‘ یہ دونوں ملک جی بھر کر اپنے جنگی ارمان پورے کر لیں‘ یہ اپنے سارے ایٹم بم چلا لیں تا کہ یہ ایک بار برصغیر کے 110 شہروں کو موہن جو داڑو بنا دیکھ لیں‘ یہ خیر پور سے گوا تک پانچ دس کروڑ لاشیں بھی دیکھ لیں‘ یہ عوام کو دوا اور خوراک کے بغیر بلکتا بھی دیکھ لیں‘ یہ زندگی کو ایک بار بجلی‘ ٹیلی فون‘ پانی‘ سڑک‘ اسپتال اور اسکول کے بغیر بھی دیکھ لیں اور یہ پچاس سال تک معذور بچے پیدا ہوتے بھی دیکھیں‘ یہ تب جنگ کو سمجھیں گے‘یہ اس کے بعد جاپان اور یورپ کے لوگوں کی طرح جنگ کا نام نہیں لیں گے‘ یہ اس وقت یورپ کی طرح اپنی سرحدیں کھولیں گے اور بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں گے اور یہ اس وقت اڑی اور کوئٹہ کو امن کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیں گے‘ راوی اس وقت چین ہی چین لکھے گا‘ اس سے پہلے ان بے چین لوگوں کو چین نہیں آئے گا‘ یہ ہیرو شیما اور وارسا بننے تک جنگ جنگ کرتے رہیں گے۔

رسول اللہ ؐ  کا فرمان

Tuesday, October 11, 2016

Love English poetry

A loving family name
Poet: SAGAR HAIDER ABBAI
By: sagar haider abbasi, Karachi

Where there is love there is no doubt lives
Where there can not be much doubt that lives
First bet you believe in love lives
I can not believe that they can not be a
Love based on respect and trust Jaana
I can not respect that respect can not
I can not believe they can not keep up with
This is the basis of hearts Jaana
Love and trust so that fertilizers love lives
Without it you will forward Jaana tree
I am sure it will only be served scales

Love English poetry

Mansoor Dewan
Poet: Mansoor Afaq
By: nisar ahmed, uk

Shahbaz Qalandar died in pain, grief My Data
Sgnun the evening redness, night Kali Mata

Silly Matiari with a drop of red blink
Uman black hyenas sun spun around midnight on Cohn

I have left my side side back street memories
Which brings up a bed of fine wrinkle

In relation to two possible paths
It is a mistake or miss it

Beating heart of a poet has emigrated
Pakistan sings even when writing the fear of death

Madhu Lal Hussain died of heart, each beat Mansoori
It was explained to me in an additional item

Heer Waris Shah, which they do not have Ranjha
How does duhy makes photo

I lost a thug thugs from abusing
Bulleh Shah bit seduced a drunken city

I understand the character gets a first down
Erased become a personal point of Bahu

Mohammad is God forgive me ... My tree lion
DERA does not have permission or cemetery

Mohan who screams daro, I thzbyun
Filled me wrong dates, time belongs to me

Where does one end Mansoor Afaq
Remember your faithful spread in every corner of the city

Love English poetry

Wish you ...
Poet: Minister Haider Abbas
By: sagar haider abbasi, Karachi
Translated by: Nasrullah

I had time to see what we
Ufawn see our ever try

Do not you die you will leave mgrhm
If a trust once again see a play

Saba will become the opposite wall
I see no truth in the way of a deep burn

Your eyes will be on the lips of the sea
Your dream will not drown you see stacked on the eyelids

I will go so much grief you will forget
One time I see your hands Zara tutham

If you see the effectiveness of my ufawn
At that time, forgotten me, I see a heart

Sunday, October 9, 2016

When you forget to kill the pain
Poet: usmh Khan usmh
By: usmh Khan usmh, Malaysia
When you forget to kill the pain
Why did viability of your loved ones
Shiva, who is from Karachi to ufayyn
They can also get away Bliss
Candle burning, but in someone else's grief.
This aspect can burn thousands
Have some mercy on the ground concourse husband
Because it can cause the ground wires
There is also talk of civilization
Can you tell the dictates of her eyes
Whenever it tears down the beach usmh
Eye can see the river edges

Love English Poetry

It is another matter that has not reached you, but
Poet: usmh Khan usmh
By: usmh Khan usmh, Malaysia

Thus to forget the love
Names can be written off the danger on

Name these tears do not stop me
They can set a position of just her name.

It is another matter that has not reached you, but
At each time you can put your heart

I will know that I am sitting thinking
The threshold can spread to the eyelids

What is the philosophy of love go
They can make the diamond stone

Heart threshold was divided in several windows
How much you can love your are

Keep asking me all kind of authorities
How can hide his grief Adnan

She articulates the position when no usmh
In fact, it can shake Syria

Love English Poetry

Can break down the wall together
Poet: usmh Khan usmh
By: usmh Khan usmh, Malaysia

"Dhoom can just her fans are so loud."
Can break down the wall together

I did not time the right thing
My words can also teasing at stake

You take me to a bar in the city
You can also go to the world of love

I drink from the cup of life, your eye
You may want to find any poisoned

But you do not have and wish
You can set a time to chest

The feelings of grief and sobbing in the heart
I can mix it with the happy pleasures

Let's hatred of all things in life
Can extinguish the flame of love hate

Usmh a moon set on the foreheads
We went to a sun love

Don't say ok

❌Don't say "0k"
✔Say "In sha Allah"
_____
❌Don't say "wow"
✔Say "SubhanAllah"
_____
❌Don't say "great"
✔Say "Masha Allah"
_____
❌Don't say "I am fine"
✔Say"Allahamdulillah"
_____
❌Don't say "Thanks"
✔Say "Jazakallahu Khair"
_____
❌Don't say "Take care bye"
✔Say "Fee Amanillah"
_____
❌Don't say "Hello"
✔Say "Assalamu alaikkum wa rahmatullah wa barkatuhu"
_____
Don't delete the msg pls frwd to all muslims. . . .🍀🍀🍀🌙 
_____
A Beautiful Duaa for Thanking Allah for every moment:
"Allah Humma a'inni ala zikrika wa Shukrika wa husni ibadatika"
_____
Imagine How many people will Thank ALLAH   if you Forward.

Saturday, October 8, 2016

Love English Poetry

Can increase the beauty loved ones
Can be heard from the eyes of dreams

Life is no bed of flowers
If you hear a love song

Lovely night where your moon cut
Smiling face on the moon if today

Murray face on sorrow hung over the desert
The organism can still love me

Me why dwell time so far
I can never pray at the mosque

I thought you lived in Evergreen
No one can forget that you are qrarun

Why the heavy fall season at Gill
Many wound down in the evening show

Those are the words of faithfulness in times
As everyone can kill love the mix

It is better to die of loneliness
Grief can reduce braids in the sun

Those who are anxious thoughts calf.
Usmh can tell the world the pain