عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتوٰی ملاحظہ کیجیے:
“علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر اس کی قضا واجب نہیں ہے۔ کیونکہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا کفر ہے جو آدمی کو اسلام سے نکال کر زمرہ کفار میں داخل کر دیتا ہے۔ اور کافر پر حالت کفر میں چھوڑے ہوئے کاموں کی قضا نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے:
“آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز کو چھوڑ دینے (کا فرق) ہے۔
(صحيح مسلم الإيمان (82),سنن الترمذي الإيمان (2620),سنن أبو داود السنة (467
,سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (107,مسند أحمد بن حنبل (3/370),سنن الدارمي الصلاة (1233).
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام قبول کرنے والوں سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ وہ سابقہ نمازیں دہرائیں جو ان پر حالتِ کفر میں فرض تھیں نہ ان کے بعد صحابہ نے ان لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جو مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوئے۔
بھول جانے،سوئے رہنے کی وجہ سےاور بے ہوشی کی وجہ سے رہ جانے والی نمازوں کو قضا کیا جائے گا۔
بہت سے لوگ سابقہ نمازوں کی قضا کے خوف سے نماز کی باقاعدہ ادائیگی شروع نہیں کرتے۔دین آسان ہے، اسے اسی طرح رہنا چاہیے جیسے اللہ کے نبی ﷺ نے پیش کیا تھا۔ ادھر تو یہ حال ہے کہ کوئی مسجد میں چلا جائے تو آسانی پیدا کرنے کی بجائے اسے کہا جاتا ہے کہ میاں پچھلے بیس تیس برس کدھر تھے، سابقہ نمازوں کی گنتی پوری کرو، پھر آگے چلنا۔ یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے کہ توبہ کرنے والے انسان کو حوصلہ دینے کی بجائے الٹا پچاس سال کی نمازوں کی قضا کا مژدہ سنا دیا جائے۔
فرمان رسول ﷺ ہے:
"بَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا
“خوشخبری سناؤ اور نفرت نہ دلاؤ”
"يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا
“لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو مشکلات نہ بناؤ”
صحيح بخارى:69
قضا نمازوں کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا مسئلہ کفر اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ صحیح قول یہی ہے کہ ان کی ادائیگی ضروری نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّل اللَّه سَيِّئَاتهمْ حَسَنَات (الفرقان:70)
“ الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرے اور ایمان لا کر عملِ صالح کرنے لگے، ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکی سے بدل دے گا”۔
اور فرمایا:
وَإنّي لَغَفَّار لمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَملَ صَالحًا ثُمَّ اهْتَدَى (طہ:82)
“ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں”
اگر كسى شخص نے شرعى عذر كى بنا پر نماز ترک كى مثلا نيند يا بھول كر تو اس كا كفارہ يہ ہے كہ جب اسے ياد آئے اور سويا ہوا بيدار ہو تو اسى وقت نماز ادا كر لے، اس كے علاوہ كوئى اور كفارہ نہيں.
جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو كوئى بھى نماز بھول جائے يا اس سے سويا رہے تو جب اسے ياد آئے وہ نماز ادا كر لے، اس كا كفارہ يہى ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر :572 صحيح مسلم:1564
کوئی فدیہ چھوڑی ہوئی نماز کے لیے نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ یہ بات دین میں ثابت نہیں ہے۔
جس نے ايک يا زيادہ فرض نمازيں بغير كسى عذر كے ترک كرديں اسے اللہ تعالى كے ہاں سچى توبہ كرنى چاہيے، اور اس كے ذمہ كوئى قضاء اور كفارہ نہيں، كيونكہ فرضى نماز جان بوجھ كر ترک كرنا كفر ہے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے مابين عہد نماز ہے، جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "
مسند احمد حديث نمبر ( 22428 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 462 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" آدمى اور شرک اور كفر كے مابين نماز كا ترك كرنا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 242 ).
اور اس ميں سچى اور پكى توبہ كے علاوہ كوئى كفارہ نہيں.
والله اعلم بالصواب