February 2020 ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Friday, February 28, 2020

عمرہ زائرین کی آمد پر پابندی کے فیصلے کا خیر مقدم

   

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)، عرب پارلیمنٹ، (جی سی سی) سمیت مختلف اداروں اور ممتاز شخصیات نے عمرہ، زیارت اور سیاحت پر سعودی پابندی کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی قیادت نے یہ فیصلہ زائرین کی سلامتی کی خاطر کیا ہے۔

سعودی عرب نے گذشتہ روز 27 فروری کو کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کے خدشے کے باعث عمرے یا مسجد نبوی کی زیارت کے لیے آنے والے افراد کا مملکت میں داخلہ عارضی طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 

(ذرائع ہیلپ لائن 786 نیوز) کے مطابق اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے اپنے بیان میں کہا کہ ’وہ زائرین، مقامی شہریوں اور یہاں مقیم  غیر ملکیوں کی سلامتی کے لیے انتہائی حفاظتی تدبیر کے طور پر عمرہ، زیارت اور سیاحت پر پابندی کے سعودی فیصلے کو معقول اور مناسب سمجھتی ہے۔ وہ اس احتیاطی تدبیر کی تائید و حمایت کرتی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’سعودی عرب کا یہ فیصلہ صحت کے حوالے سے عالمی اداروں اور تنظیموں کے مقرر کردہ معیار کے عین مطابق ہے۔‘


عمرہ ویزہ پر آنے والوں کے لیے سعودی عرب کی پابندی نئی نہیں ہے، اس سے قبل (ایبولا کی وبا) کے پیش نظر کانگو سمیت کئی ملکوں کے زائرین پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔

اقوام متحدہ کی عہدیدار ڈاکٹر سلایا نویا کا کہنا ہے کہ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو سعودی عرب کی طرح حج موسم میں انسانوں کے جم غفیر کو نہایت مربوط شکل میں اعلیٰ معیار کے ساتھ منظم کرتا ہو۔

'سعودی عرب یہ کام ہر سال کر رہا ہے۔
جنوبی افریقہ نے ورلڈ کپ کی میزبانی کے دوران سعودی عرب کے اسی تجربے سے فائدہ اٹھایا تھا۔
سعودی خبررساں ادارے (ایس پی اے) کے مطابق عمرہ زائرین کے سعودی عرب میں داخلے پر پابندی کے حوالے سے سعودی عرب سمیت مختلف ممالک کے علما نے واضح کیا ہے کہ یہ زائرین کی سلامتی اور حفظان صحت کے حوالے سے ضروری احتیاطی تدبیر ہے، اس کی تائید کی جاتی ہے۔

پابندی عائد کیے جانے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ عمرہ  اور زیارت پر آنے والوں کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھا جا سکے، جو لوگ عمرہ یا زیارت پر سعودی عرب آتے ہیں وہ مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں حاضری دیتے ہیں۔
ان دونوں مقامات پر دنیا بھر کے ملکوں سے آنے والے زائرین کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔
کورونا وائرس سے متاثر بعض افراد کو خود پتہ نہیں ہوتا کہ وہ اس عارضے میں مبتلا ہیں، ایسے میں خدشہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب نے مذکورہ پابندی اسی تناظر میں لگائی ہے تاکہ زائرین کی سلامتی یقینی ہو سکے۔

سعودی حکام بار بار اعلان کر چکے ہیں کہ ابھی تک مملکت میں کورونا وائرس کا کوئی مریض ریکارڈ پر نہیں آیا تاہم احتیاطی تدبیر کا تقاضا ہے کہ عمرہ موسم میں دنیا بھر سے آنے والے زائرین کے ذریعے ممکنہ طور پر کورونا وائرس کی منتقلی کا سدباب کیا جائے۔

سعودی حکومت اور عوام زائرین کی سلامتی کو اپنی بھرپور ذمہ داری سمجھتے ہیں وہ زائرین کو اس آفت میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لیے جملہ اقدامات کو ضروری قرار دے رہے ہیں۔

الشرق الاوسط کے مطابق عرب وزرائے صحت آئندہ ماہ قاہرہ میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کا فیصلہ کرنے کے لیے خصوصی اجلاس کریں گے۔

مصر کے وزیر اوقاف ڈاکٹر محمد مختار جمعہ نے کہا کہ یہ فیصلہ نقصان سے بچاو اور زائرین کے مفاد کی خاطر کیا گیا ہے۔

اسکینڈی نیویا کونسل کے چیئرمین حسین الداودی نے کہا کہ سعودی حکام نے یہ فیصلہ سب کے مفاد میں کیا ہے، اس پر وہ ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں۔

Friday, February 14, 2020

غربت ایک سنگین مسئلہ

تحریر: مریم صدیقی

غربت انسانی زندگی سے خوشیاں اور سکون کسی دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ جب سر پر بھوک منڈلائے اور بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے معقول وسائل نہ ہوں تو خوشحال زندگی کسی دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کے کئی مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ غربت ہے جس سے دیگر کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ جرائم، جہالت، معاشرتی و اقتصادی پسماندگی ان کی جڑ غربت ہی ہے۔ غربت پر قابو پائے بغیر کسی بھی معاشرے کا ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ممکن نہیں۔ 
 غربت زدہ معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ بچے ہیں جو زندگی کی بنیادی ضروریات اور والدین کی عدم توجہ کے باعث شخصیت سازی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جس کا اثر نہ صرف ان کے آنے والے کل پر ہوتا ہے بلکہ معاشرہ اور آنے والی نسلیں بھی اس سے متاثر ہوتی ہیں۔آپ نے اکثر اپنے ارد گرد ایسے کئی چہرے دیکھے ہوں گے جن کی آنکھوں میں یہ سوال ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ ہم سے امتیازی سلوک کیوں کرتا ہے؟ وہ سراپا سوال چہرے یہ جاننا چاہتے ہیں کے کیوں ان کی آنکھیں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننے کا خواب نہیں دیکھ سکتیں۔ وہ اپنے گھر کے بڑے کب تک گیراجوں اور ہوٹلوں کے چھوٹے بن کر زندگی گزاریں گے؟ انہیں کیوں بے فکر بچپن، سکون کی نیند اور کھیلنے کودنے کے لیے سہہ پہریں میسر نہیں؟ان کی آنکھیں ہر راہ گیر سے یہ سوال کرتی ہیں کے ان میں اور ان شان دار گاڑیوں میں بیٹھے بچوں میں کیا فرق ہے؟ ان کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب اور ہمارے ہاتھوں میں مزدوری کے اوزار کیوں ہیں؟ ہم بھی تو بچے ہیں، ہمارا بھی تو بچپن ہے۔ ہم بھی خواب دیکھنے والی آنکھیں اور خواہشات کرنے والا دل رکھتے ہیں پھر اس معاشرے میں ہمارا کوئی پرسان حال کیوں نہیں۔
ہمارے معاشرے میں غربت و امارت کی اس تقسیم نے کئی معصوموں کا بچپن چھین لیا ہے۔ ہمیں روز اپنے ارد گرد کبھی کسی فٹ پاتھ پر تو کبھی کسی ہوٹل یا شاہراہ پر ننھے ننھے معصوم مزدور دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کچرا چنتے نظر آتے ہیں تو کبھی رزق حلال کی تلاش انہیں ادھ موا کردیتی ہے۔ ہماری بے حسی ہے کے روز ایسے کئی مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیتے ہیں۔ ہم چائلڈ لیبر کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے کیوں کے در پردہ اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ بچے ان ننھی کلیوں اور کونپلوں کی مانند ہوتے ہیں جومستقبل میں کسی بھی ملک و قوم کے لیے شجر سایہ دار بنتے ہیں۔ یہی ہمارے مستقبل کا معمار ہیں جن سے ہم نے ان کا آج چھین لیا ہے۔ یہی بچے کل کو حقوق کی عدم دست یابی و استحصال کے سبب غلط راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کے ہم ہماری آنی والی نسلوں کوغربت و جہل زد ہ معاشرہ وراثت میں سونپ کر جا رہے ہیں۔ یہ بچے جہاں رزق، تعلیم و صحت جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہیں وہیں جبری مشقت، اغواءبرائے تاوان اور جنسی تشدد جیسے مظالم کا بھی شکار ہیں۔ 
دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے آئین میں بھی بچوں کے حقوق کے حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن ان کی ضروریات کی طرح ان کے تحفظات کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ہر سال لاکھوں بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں، اغوا کرکے ان کے جسمانی اعضاءفروخت کیے جاتے ہیں لیکن اہل اقتدار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کے برعکس اگر کسی امیر شخص کا بچہ اغوا ہوجائے تو اس کی بازیابی کے لیے تمام ادارے حرکت میں آجاتے ہیں۔ ان بچوں کے حقوق کا استحصال صرف اس لیے کے ان کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے جہاں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ یہ طبقہ حکمرانوں کی ترجیحات کا کبھی حصہ نہیں رہا۔ 
یہی بچے جو آنے والے کل میں اس ملک و قوم کا مستقبل ہیں طبی سہولیات کی عدم فراہمی اورخوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ گزشتہ چند سال کے دوران پاکستان کے ریگستانی علاقے تھرپارکر اور چولستان میں خوراک کی کمی کے باعث سینکڑوں بچوں کی ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔دیگر بنیادی سہولیات کی طرح اس طبقے میں شرح خواندگی بھی صفر ہے۔ صحت و خوراک کے ساتھ تعلیم کا حصول بھی ان بچوں کی پہنچ سے دور ہے۔ غریب والدین تعلیمی اخراجات برداشت نہ کرنے کے باعث انہیں تعلیم دلوانے کا تردد نہیں کرتے بلکہ انہیں چھوٹی عمروں سے ہی محنت و مشقت کی بھٹی میں جھونک دیا جاتا ہے۔
 اس طبقے میں بچوں سے محنت مشقت اور مزدوری کروانا معمول کی بات ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریبا ڈھائی کڑوڑ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے۔ اس کے برعکس امراءو وزراءکے بچوں کو پر تعیش زندگی بسر کرنے کے لیے نہ صرف ہر آسائش میسر ہے بلکہ جدیدو معیار ی تعلیم کی فراہمی کے لیے باقاعدہ غیر ملکی تربیت یافتہ اساتذہ کا تقرر کیا جاتا ہے۔ یہ معاشرتی سطح پر کھلا تضاد نہیں تو کیا ہے۔ 
یہ بچے تعلیم، خوراک، کھیل کود، تفریح ہر شے سے محروم کردیے گئے ہیں۔ غریب ہونا گویا گناہ عظیم ہوگیا ہے۔ وسائل کی کمی کے سبب یہ پسماندہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن سماجی و معاشرتی رویے انہیں جنسی، جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ غربت سے بر سر پیکار ہونے کے ساتھ ساتھ جنسی و نفسیاتی بقا کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ ان بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت، صحت و خوراک کی فراہمی ان کے حقوق کا تحفظ ریاستی فرائض میں شامل ہے۔ امراءکے بچوں کی طرح پر آسائش زندگی نہ سہی لیکن بنیادی حقوق سے آراستہ پر سکون زندگی گزارنا ان کا حق ہے آخر یہ بھی تو بچے ہیں ۔