July 2019 ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Friday, July 26, 2019

کیا ہم آزاد ہیں؟

 سیدہ حمیرا فاطمہ

آج سے 72 سال پہلے ہمارے بزرگوں نے ہمیں جس غلامی سے آزاد کروایا، اپنا خون پانی کی طرح بہایا، بہنوں نے اپنی عصمتوں کی قربانی دی لیکن افسوس صد افسوس ہم آج بھی اسی غلامی کے زیر اثر ہیں۔ہم نے ملک تو آزاد کروالیا، خطہ زمین تو حاصل کرلیا لیکن ذہنی وثقافتی طور پر ہم بھی بھی اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں۔مجھے یہ بات کہتے ہوئے ہوئے کوئی خوشی نہیں ہورہی لیکن کہنا پڑ رہی ہے کیوں کہ بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کرلے تو شکار ہونے سے بچ نہیں سکتا۔ ایسے ہی میں کہوں گی کہ ہم بظاہر آزاد ہیں لیکن 72 سال بعد بھی ہم ان دیکھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے تہذیب اسلام، تمدن اسلام، کلمہ حق اور تعلیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ رکھنے کے لیے، جس معاشرے کے قیام کے لیے اتنی جہدوجہد کی، اپنی نسلوں کی قربانی دی۔ان قربانیوں اور جہدوجہد کو ہم نئی نسل اپنے ہاتھوں سے اس کو نہ صرف ضائع کررہے ہیں بلکہ دشمنوں کی مدد کررہے ہیں کہ وہ ہم سے ہماری پہچان، ہماری آزادی ہم سے چھین لیں۔
ہمارے دشمن یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کبھی بھی میدان جنگ مسلمانوں سے نہیں جیت سکتے ان کو میداں جنگ میں جیتنے کے لیے اس کو سب سے پہلے ہماری اسلامی اصلاحات کو مارنا ہے جس کے لیے انہوں نے ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھا دی کہ اسلام ایک ظالمانہ نظام رکھتا ہے اور آزادی ہر ایک کا حق ہے۔ اس کے لیے سوچنے کا نظریہ بدلنا شروع کر دیا، ایسی ایسی ایجادات کردیں کہ ہماری نئی نسل دین کو اپنے نئے نظریہ سے بدلنے لگ گئی۔ لڑکیوں کے دماغ میں بٹھا دیا اور لڑکیوں نے کہنا شروع کر دیا کہ پردہ نظر کا ہوتا ہے۔ اس جملے نے آدھی امت مسلمہ کی لڑکیوں کو برہنہ کر دیا۔ سب کی اپنی ذاتی زندگی ہے اس سوچ نے امت مسلمہ کے باپ بھائیوں کو بے غیرت کردیا۔ 
آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں ہیں، زنجیریں نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دشمن نے ہمیں ہماری ذہنی صلاحیتوں، ہماری سوچوں کو جکڑا ہوا ہے اور ہم کٹھ پتلیوں کی طرح ان کے اشاروں پر اپنی مرضی سے ناچ رہیں ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں۔ بس ہمیں تو ہمارے مذہب اور روایات نے جکڑا ہوا ہے۔ 
بقول اقبال
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا
ترک خر گا ہی ہو یا عربی والا گہر!
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی

اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر!

میں بے زبان ہوں

سارہ عثمان

میں آج بھی بولنا جانتی ہوں، پر زبان کی قیمت اپنے رشتے کی دوری کی صورت چکانی پڑی۔ حیوانی جسم مجھے بھی حاصل ہے، نفس کا شور میرے اندر بھی جاگتا ہے لیکن میری زبان کے شور نے مجھے میرے رشتے سے دور کر دیا۔ خوش قسمت لگنے لگے یہ آسمان پہ اڑتے پرندے، یہ زمین پہ چلتے حیوان جو اپنے جوڑے کے ساتھ بغیر زبان کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائے بنا ساتھ نبھائے جا رہے ہوں۔ مجھے خدا نے زبان دے کر ان بے زبانوں سے ممتاز کیا تھا، مجھے اپنی خوشی کے ساتھ اپنی تکلیف کہہ دینے کے لیے زبان ملی تھی لیکن وہ زبان آج ہمارے رشتے کے بیچ حائل ہو گئی۔ غلطی کہاں ہوئی، کس سے ہوئی اور کیوں ہوئی یہ سوال یہ جان کر بھی کہ میں عورت ہوں پھر بھی بار بار کرنے کی جرات میری زبان نے کی۔
میں نے پیار بھی کیا لیکن رشتہ دور نہ ہوا، میں نے خدمت بھی کی، رشتہ تب بھی ساتھ رہا، میں نے صبر کے بارہا مراحل سال ہا سال طے کیے لیکن رشتہ قائم رہا۔ اپنی وفاداری کی اسٹیمپ لگا دی تب بھی رشتہ میرا ہی رہا۔پھر اچانک رفیقِ حیات نے مرد ہونے کے ناتے اپنے شوق کی تسکین میں مجھے دھوکہ دے دیا اور مجھے آگہی بھی دے دی اور کہا کہ لو اب تم شریک کو سہو اور خدا کی صابر بندی بھی بن کے دکھاو تو اس رشتے کے پاس آوں گا۔
بس یہاں میں ہار گئی اور میری زبان جیت گئی جو صبر نہ کر سکی۔ جو اتنا بولی کہ رشتے کو دور کرنے کا خیال تک نہ آیا کہ جیسے اگر زبان بند ہو گئی تو عدالت نہ لگے گی، جیسے زبان نہ چلی تو کچھ ثابت ہونے سے رہ جائے گا۔ جیسے زبان رک گئی تو اندر لگے دھوکے کا مداوا نہ کر پاو ¿ں گی۔ لیکن ملا کیا؟ خالی ہاتھ کر دیا میری زبان نے اور اب اپنی ہی زبان کی لگائی آگ میں جل رہی ہوں۔
وہ ہی نہیں جسے پیار دیا کرتی تھی، وہی نہیں جس کے ساتھ ہنسا کرتی تھی، وہی نہیں جس کو اپنی وفاداری دی، وہی نہیں جس کی تھپکیوں سے سویا کرتی تھی۔ میں آج بھی بول سکتی ہوں، مجھے آج بھی زبان سے زہر کے تیر چلانے آتے ہیں۔ میں اب بھی زبان کے وار سے گنہگار کو جگا سکتی ہوںلیکن اب میں نے خدا سے انسان کا شرف ملنے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس امانت کو واپس لینے کی دعا مانگ لی ہے اور اب میں بے زبان ہوں۔ تمام اذیتوں کو سہہ کر، تمام تکالیف کو مقدر کا لکھا جان کر اب میں ”بے زبان“ رہنا چاہتی ہوں۔

تمباکو نوشی کے نقصانات

محمد مبین جوئیہ 

نوجوان کسی بھی قوم کے سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں۔ اسی لیے دنیا بھر میں نوجوانوں کی کردار سازی اور صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ایک صحت مند نوجوان اپنے خاندان، ملک و قوم کے لیے مثبت اور تعمیری کام سرانجام دیتا ہے۔ دنیا بھر میں نوجوانوں کی صحت اور دیگر سماجی فرائض کے حوالے سے اسکول سے ہی تربیت شروع کردی جاتی ہے اور خاص طورپر تمباکو نوشی کے نقصانات کے حوالے سے ان کو بچپن سے ہی آگاہ کرنا شروع کردیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں تمباکونوشی کی وباءتنزلی کی جانب مائل ہے۔ عالمی صحت کو لاحق خطرات میں تمباکو نوشی کی وباءسب سے تباہ کن ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ساٹھ لاکھ افراد تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہوکر مرجاتے ہیں۔ جن میں سے چھ لاکھ سے زیادہ افراد خود تمباکو نوشی نہیں کرتے بلکہ تمباکو نوشی کے ماحول میں موجود ہونے کے سبب اس کے دھوئیں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد لوگ تمباکو نوشی کرتے ہیں جن میں سے اسی فیصد لوگ ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، فلپائن، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں تمباکو نوش لوگوں کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس اضافے کا بڑا سبب ان ممالک کا نوجوان طبقہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جاپان اور چائنہ کے ساٹھ فیصد مرد حضرات سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا ہیں۔ سگریٹ نوش آبادی میں بارہ فیصد خواتین شامل ہیں جب کہ روزانہ ایک لاکھ بچے سگریٹ نوشی شروع کردیتے ہیں۔
ایک امریکی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس کے استعمال کرنے والے لڑکوں کے اخلاق پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ ابتداء میں پینے والے کے رگ و ریشہ میں ایک خمار سا محسوس ہوتا ہے اس کے بعد ان میں سستی پیدا ہوجاتی ہے۔ اکثر طلباءکو بکثرت سگریٹ نوشی سے سیل یعنی تپ محرقہ (ٹی بی) کی بیماری ہونے لگتی ہے۔
والدین، استادوں اور سماج کے معزز لوگوں کو مل کر حقہ نوشی اور سگریٹ نوشی کے خلاف موثر اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر ہونہار اور اچھے لڑکے سگریٹ نوشی کی وجہ سے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ نیک لڑکے بزدل، ڈرپوک اور شریر بن جاتے ہیں۔ دنیا میں جس قدر مشہور عالم اور فاضل گزرے ہیں انھوں نے عمر بھر تمباکو کو ہاتھ نہیں لگایا شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی عمریں دراز تھیں، دل مضبوط تھے، دماغ سالم اور جسم توانا تھا۔ تمباکو نوشی سے دل کے امراض اور پھیپھڑوں کے سرطان جیسی خطرناک بیماریاں ہوتی ہیں اور تمباکو نوشی کرنے والا اپنی اوسط عمر سے پندرہ سال پہلے دنیا سے گزر جاتاہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ایک سگریٹ انسان کی عمر آٹھ منٹ تک کم کر دیتی ہے کیونکہ اس میں چار ہزار سے زائد نقصان دہ اجزاءموجود ہوتے ہیں۔
اگر ہمارے وطن پاکستان کو اچھا مستقبل چاہیے تو سگریٹ نوشی پر روک تھام کرنی چاہیے۔ والدین سے گزارش ہے کہ بچوں کو تمباکو نوشی جیسے لت سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں ان کی مدد کریں۔ ان پر سختی کرنے اور مار پیٹ کے بجائے انہیں اس کے نقصان سے آگاہ کریں۔ چند لمحات کی تفریح کی غرض سے پی جانے والی سگریٹ ان کے آنے والے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل سکتی ہے۔ 

حج عبادت بھی تربیت بھی‎

 پروفیسرزید حارث

حج ایک ایسی عظیم اور منفرد عبادت ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ اس کے فوائد بے شمار ہیں۔دینی و دنیاوی فوائد، مالی و معاشی فوائد،سماجی و معاشرتی فوائد،ان فوائد کو سمیٹنے کا تعلق یقینا انسان کے ارادے و محنت کے ساتھ ہے۔الله تعالی نے فرمایا۔ ليشهدوا منافع لهم ويذكروا اسم الله في أيام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الأنعام فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير. ترجمه،........
(5)حج کا سفر اور بالخصوص مناسک حج ایک مسلمان کو اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ وہ اپنے تمام معاملات کو اللہ کے آگے پیش کرے اور اسی سے ان مسائل کے حل کی دعا کرے ۔
اور دعا کو اپنی زندگی میں اپنی روزانہ کا معمول بنا لے۔ ہم غور کریں تو یہ بات بلکل واضح نظر آتی ہے کہ مناسک حج میں چھ مقامات پہ دعا مسنون ہے۔
طواف، سعی کے دوران ،صفا و مروہ پہ، عرفہ،مشعر حرام، چھوٹے اور بڑے جمرات کو کنکریاں مارنے کے بعد، اور ان کے علاوہ سارا سفر ہی دعا کی قبولیت کا وقت ہے۔
(6).حج کی عبادت درس اعتدال دیتی ہے۔ امت اسلامیہ اعتدال اور توازن کی امت ہے۔ دین اور دنیا، عبادات اور معاملات میں اعتدال ایک حسن ہے اور یہ اعتدال ہی اسلام کی ایک امتیازی خوبی بھی ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دوران حج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پہ سوار حالت میں مجھ سے فرمایا کہ میرے لئے بھی (جمرات کو مارنے کے لیے)کنکریاں اکٹھی کر لے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سات کنکریاں اکٹھی کر لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کنکریوں کو اپنی ہتھیلی مبارک میں اچھال رہے تھے اور فرما رہے تھے ان جیسی (چنے کے دانے کے برابر سائز کی)کنکریاں مارنا۔پھر فرمایا اے لوگو دین میں زیادتی و غلو کرنے سے بچ جاؤ یقینا تم سے پہلے لگوں کو دین میں زیادتی و غلو نے ہی ہلاک کیا۔ ( مسند احمد)
کنکریاں مارنے میں بھی سائز بڑا کرنا غلو ہے اور جو لوگ عبادات میں اتنا آگے گزر جاتے ہیں کہ حقوق العباد ہی بھول جاتے ہیں تو یقینا یہ بھی غلو ہے جو باعث سعادت نہیں باعث وبال ہے۔ اعتدال و میانہ روی ہی ہر کام کا حسن ہے۔
(7).حج نفوس کا تزکیہ اور دلوں کی گندگی صاف کر کے اطمینان جیسی خوبصورت دولت سے مالا مال کرتا ہے اور اس دولت کا حصول تب ہی ممکن ہے جب ایک حاجی حج کے دوران مشقت و تھکاوٹ کا،بدانتظامی کا، کسی ایجنٹ کی خیانت کا،لوگوں کی بدسلوکی کا رونا رونے کی بجائے اپنی زبان کو مسلسل اللہ کی یاد سے تر رکھے۔ اور اپنی زبان و دل کو اللہ کے ذکر کے ساتھ اتنا مضبوط جوڑ لے کہ دنیا کی ہر مصیبت اس کے لئے آسان ہو جائے۔اسی لئے جب ہم غور کرتے ہیں تو تمام مناسک حج میں ہر فرض کی ادائیگی کے ساتھ اللہ کے ذکر کا حکم قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 198سے 203 تک اس بات کی وضاحت موجود ہے۔کہ عرفات سے واپسی پہ مزدلفہ سے واپسی پہ اور حج کے اختتام پہ اور ایام تشریق میں  اللہ کا ذکر کرو۔عبادت کی فضیلت اور اس کے درجات اور اس کا اجر و ثواب اور اس کی تاثیر کا اللہ کے ذکر سے گہرا تعلق ہے۔
مسند احمد میں ایک روایت ہے معاذ بن انس الجھنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ایک بندے نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا حاجی زیادہ اجر والا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مے فرمایا اللہ کا زیادہ ذکر کرنے والا۔
(7).سفر حج وہ مبارک سفر ہے جس میں ایک مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق معاہدہ کر کے زاد راہ باندھ لیتا ہے لیکن وہ اس خطے میں رہائش اور کھانے اور سفر کی سہولیات سے بلکل ناواقف ہوتا ہے لیکن اللہ پہ توکل کرتے ہوئے اپنا مال ،جان، عزت اللہ کے سپرد کرتے ہوئے اللہ پہ بھروسہ توکل کر کے سفر کرتا ہے۔اود یہ حج ہمیں توکل کا صحیح مفہوم بھی سمجھاتا ہے اور توکل کی اصل حقیقت سے روشناس کرواتا ہےکہ توکل ہر گز یہ نہیں کہ آپ ہاتھوں پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور کوشش نہ کریں اور اسباب تلاش نہ کریں اور کہتے رہیں کہ یہ میرا توکل ہے۔
صحیح بخاری میں حدیث ہے عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ اہل یمن حج کرنے کے لیے آتے تو کوئی سامان (کھانا )وغیرہ ساتھ نہ لے کر آتے پھر وہاں لوگوں سے مانگتے  اور کہتے کہ ہم تو توکل کرنے والے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔اور تم زاد راہ لیا کرو یقینا بہترین زاد راہ تقوی ہے(البقرہ 197)
اسباب کے استعمال کے بغیر توکل کرنا خلاف فطرت اور خلاف شریعت پے۔ اپنی محنت اور اپنی صلاحیت خرچ کرنے کے بعد انسان اپنے معاملے کو اللہ کے سپرد کر دے تو یقینا پھر اللہ ضرور مدد کرتا ہے۔
سنن ترمذی میں حدیث ہے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: اگر تم اللہ پہ اس طرح بھروسہ کر لو جس طرح بھروسہ کرنے کا حق ہے تو یقینا وہ تمہیں اسی طرح رزق دے جس طرح وہ پرندوں کو رزق دیتا ہے وہ صبح کے وقت خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کے وقت پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔
تو اس حدیث میں بھی توکل کی یہ تعریف سمجھائی گئی کہ توکل پرندوں والا اور تلاش بھی ویسے ہی کرنی چاہیے۔

Tuesday, July 23, 2019

شادی کیجیے مگر۔۔۔

عارف رمضان جتوئی

عمر کے جس حصے میں ہم ہیں اس میں سوائے شادی کے اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ ہر دوشیزہ اپنی شریک حیات کے روپ میں دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح سے محتاط خیال کے تحت ہر دوشیزہ کو ہم جیسے گبھرو اور حالات کے پیش نظر تھوڑا پیٹ باہر نکلے ہونے کے باوجود خود کو ہینڈسم اور سمارٹ سمجھنے والے جوان بھی سائباں نظر آتے ہوں گے۔ 
ایسی ہی کچھ فیلنگز ایک اور جگہ بھی موجود ہوتی ہیں۔ ماﺅں کو ہر پہلی ”کڑی“ بہورانی اور ہر پہلا ”منڈا“ داماد جی نظر آرہا ہوتا ہے۔ جیسی فیلنگ شادی کی ڈبلیو 11 بس میں سوار ہونے کے لیے بے تاب لڑکوں کی ہوتی ہے ویسی فیلنگ ان کی معصوم ماﺅں کی ہوتی ہے بلکہ ”منڈے“ سے زیادہ ماں کو جلدی ہوتی ہے۔ وہ تو ڈبلیو 11کے اسٹاپ پر رکنے کا ویٹ بھی نہیں کرتیں، وہ کسی بھی طرح سے چلتی بس پر سوار کرنے کی تگ و دو میںہوتی ہیں۔ 
شادی کا لڈو جو کہ اب ناپید ہوچکا ہے کھانے کے لیے بے چین دوطرفہ نوجوان کسی بھی طرح سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دوطرفہ پر غور کرنے کے بجائے آگے بڑھا جائے۔ اس لڈو کے حصول کے لیے نوجوان طبقے کو جانے کتنے پاپڑ پیلنے پڑتے ہیں پاپڑ بیلنا تو آسان ہوگیا کہ بس یوں سمجھ لیجیے لڈو کو حاصل کرنا موجودہ حکومت چلانے جیسا ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڈو منہ تک پہنچتا ہے کہ کوئی بیچ میں بھاگتا ہوا آتا ہے اور دھکا مار کر لڈو گرادیتا ہے ساتھ ہی ”چھورے“ کو بھی اچھی خاصی چوٹ پہنچا جاتا ہے۔ یہ چوٹ ایسی ہوتی ہے جو دکھتی نہیں مگر دل کی حالت دل والا ہی جانتا ہوتا ہے۔ سلیم کوثر کے اس شعر کی طرح کی 
کبھی موسم ساتھ نہیں دیتے 
کبھی بیل منڈیر نہیں چڑھتی
لڈو کھو جانے کا غم لیے یہ دل والا پھر سے نئے لڈو کی تلاش میں جت جاتا ہے۔ پورا خاندان مل کر نیا لڈو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ شادی بھی ہوجاتی ہے۔ کچھ عرصہ بیتنے کے بعد بھاگتا لڑکا بہت شدت سے یاد آنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایک حسرت عیاں ہوتی ہے کہ اس بار وہ کیوں نہیں آیا تھا۔ بیل کے منڈیر چڑھتے ہی بیل کو اتارنے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اپوزیشن کے ساتھ کچھ بلوائی بھی ہلا بولے ہوتے ہیں جنہیں موقع خود اپوزیشن اور اتحادی دیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ شادی کرنے تک تو سب متفق ہوتے ہیں مگر جانے کیوں بعد میں اتفاق اختلافات میں بدلتا چلا جاتا ہے۔ دن رات کی ناختم ہونے والی محبتیں بھی ریت کی دیوار ثابت ہونے میں دیر نہیں لگاتیں۔ 
شادی لفظ بہت خوبصورت ہے پھر بھی اس کی خوبصورتی کچھ پلوں میں ماند پڑنے لگتی ہے۔ شادی لفظ ہی ایسا ہے کہ سنتے ہی ہرطرف ہریالی کی جگہ لالی نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جس میں بیگانہ عبداللہ بھی دیوانہ ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ دیوانگی کے سارے جذبے ملیا میٹ ہوجاتے ہیں۔ قبل از وقت جورو کا غلام بنا ہوا عبداللہ صنف نازک کے فضائل میں ایسا عظیم بیانیہ رکھتا ہوتا ہے کہ سننے والا آنا فانا فائن ہوجاتا ہے۔ بعد از شادی یہی عبداللہ اپوزیشن کی ”کھولی“ میں بیٹھا ملتا ہے۔ اپوزیشن بھی اپنا فعال کردار ادا کرتی ہے۔ زیادہ تو کچھ نہیں ہوتا مگر اتحادی اور اپوزیشن کے درمیان گھمسان کا رن پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اگرمعصوم بچوں کی صورت میں عوام ہوتو وہ رل ہی نہیں جاتی مصنوعی یتامت ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ 
تو اے دو طرفہ نوجوانو! شادی کرو مگر شادی سے قبل شادی کے مقاصد کو یاد کرلو۔ شادی کے فضائل نہیں بلکہ حقوق کا خیال رکھو۔ شادی کا لڈو کھانے کے لیے بے چین روحو! یاد رکھو کہ یہ شادی مذاق نہیں ایک اہم ترین ذمے داری ہے۔ ایک ایسی ذمے داری جسے اٹھانے کے لیے پہلے خود کو مکمل طور پر تیار کریں، پھر لازمی طور پر اس ذمے داری کو اٹھائیں اور اس کا حق ادا کریں۔ شادی کرنا مشکل ضرور ہے مگر کرنے سے زیادہ اسے لے کر چلنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ وہ جوآپ کے لیے سب کو چھوڑ کر آگئی وہ آپ کی شریک حیات ہے اسے شریک کرنے میں دقت اور دیر نہیں ہونی چاہیے۔ شراکت داری کے اس فریضے دوسری طرف سے بھی ایسا ہی جواب میسر ہو جس کے بعد زندگی مکمل لگنے لگے۔ یہ واحد تعلق ہے جس کی لگام ایک نہیں دونوں پارٹیوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ برابر لگام کھینچتی اور ڈھیل ملتی رہے تو یہ بیل گاڑی ہوائی جہاز بن کر چلتی ہے ورنہ اسے گدھا گاڑی بنتے دیر نہیں لگتی۔ 
کامیاب ازدواجی رشتے میں سب سے پہلی بنیاد احساس اور بھروسہ ہے اگر یہ دونوں نہیں تو اندھی محبت بھی بے سود ثابت ہوتی ہے۔ یہ رشتوں میں واحد رشتہ ہے جس میں شک اور عدم احساس کی ہلکی سے دراڑ کچھ ہی پلوں میں پوری عمارت کو ملیا میٹ کردیتی ہے۔ اس میں ایک اہم بات جس کا خیال رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بہت کچھ لینے سے قبل دینے کا احساس ہونا چاہیے۔ آپ کو احساس اور بھروسہ صنف مخالف سے چاہیے تو اس سے پہلے آپ خود دینے والے ہوں۔ اس تعلق میں آپ کو ہر لحاظ سے پہل کرنا ہوگی۔ چاہیے خوشی ہو یا پھر غم۔۔۔ رشتہ ازدواج میں مقابلے اور تیرے میرے سے نہ صرف دوریاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ ان دیکھی نفرت بھی اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔

پڑوسی فلم کے بڑے ہیرو کہتے ہیں کہ ”شادی کی بنیاد بے پناہ محبت ہونی چاہیے “ مگر شاید بے پناہ محبت سے بھی پہلے ان دیکھا اعتبار اور بھروسہ ہونا چاہیے۔ وہ اعتماد ہونا چاہیے جس میں دونوں ہی شامل ہوں۔ وہ بھروسہ ہونا چاہیے کہ جس میں دونوں مشترک ہوں۔ ایک دوسرے کا خیال اور احساس ہونا چاہیے اگر وہ نہ ہوا تو محبت کے خوبصورت پنجرے میں بند چڑیا احساس تنہائی اور قیدسے مرجھا جائے گی۔ کانٹوں میں کھڑے پھولوں کا اگر خیال اور باقاعدگی سے دیکھ بھال ہوتی رہے تو وہ مسکراتا ہی کھل کھلاتا رہتا ہے کبھی کانٹوں کا شکوہ نہیں کرتا۔ بات تو صرف سمجھنے کی ہے۔ شادی کریں مگر۔۔۔۔ 

کامیابی کا راز

 ناصر محمود بیگ

وہ جولائی کی ایک گرم دوپہر تھی۔ یونیورسٹی کی بس میں سوار تمام مسافر اپنے اپنے شعبوں کے ماہر اور اعلٰی دماغ کے مالک تھے مگر گرمی سے سب کا برا حال تھا۔ کوئی حکومت کو کوس رہا تھا تو کسی کی زبان پر لوگوں کے شکوے اور شکایتیںجاری تھیں۔ ہاں اگر گاڑی میں کوئی پر سکون نظر آرہا تھا تو وہ تھا صرف بس کا ڈرائیور۔ جو بہت خوشی اور اطمینان سے گاڑی چلا رہا تھا۔ بس میں سوار ایک ماہر نفسیات ڈینیل گولمین ےہ منظر دیکھ رہا تھا۔ ان مشاہدات کی بنیاد پراس نے دنیا کو ذہانت کی ایک نئی قسم ”جذباتی ذہانت“ سے متعارف کروایا۔
ڈینیل گولمین نے 1995 میں یہ تصور پیش کیا کہ انسان کی کامیابی کے لیے دماغی ذہانت سے زیادہ جذباتی ذہانت اہم ہوتی ہے۔ اس نے یہ آئیڈیا اس بس ڈرائیور سے لیا جو بس میں سوار دیگر اسکالرز اور پروفیسرز جتنا ذہین تو نہ تھا مگر اس کا اپنے جذبات پر کنٹرول سب سے اچھا تھا۔ اس نے اپنی کتاب میں دو دعوے کیے۔ پہلا ےہ کہ کسی شخص کی کامیابی میں اس کے”IQ“ (دماغی ذہانت) کا کردار صرف پندرہ سے بیس فیصد جب کہ اس کے ”EQ“ (جذباتی ذہانت) کا کردار اسی سے پچاسی فیصد ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ دماغی ذہانت کے برعکس جذباتی ذہانت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ڈینیل گولمین نے جذباتی ذہانت کو بہتر بنانے کے چار طریقے یا مراحل بھی بتائے۔
1۔ اپنی ذات سے آگاہی ےا خود شناسی: حضرت علی ؓ کا قول ہے ”جس نے اپنے آپ کو پہچانا گویا اس نے اپنے رب کو پہچانا“۔ اپنے جذبات کے دریا کو صحیح سمت میں بہانے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنی خوبیوں اور خامیوںکا درست علم ہونا چاہیے۔ آپ کو کس بات پر غصہ آتا ہے، کونسی چیز آپ کو خوش کرتی ہے، کس بات پر آپ افسردہ ہوتے ہو۔ کن کن موقعوں پر آپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور کہا ں کہاں آپ کو کامیابی ملی۔ اپنے آپ کو جاننے کے لیے ان سوالوں کے جوابات تلاش کیجیے اور اپنی ڈائری پر ےہ معلومات لکھتے جائیں۔ پھر ایک وقت آئے گا جب آپ اپنی ذات کو کافی حد تک جان چکے ہوں گے، یہ پہلا مرحلہ خود شناسی کہلاتا ہے۔
2۔ اپنی ذات کی تنظیم کی صلاحیت: انسان کو اپنی ذات کا ادراک ہو جائے، اپنی خامیوں اور خوبیوںکا علم ہو جائے تو یہ اس کی بہت بڑی خوش قسمتی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جب کسی شخص پر اللہ کا کرم ہوتا ہے تو اس کو اپنے عیب نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جس کو اپنی برائیاں نظر آنا شروع ہو جائیںپھر وہ اپنی اصلاح کی بھی کوشش کرتا ہے۔ اگر ہم دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ میں بدلاﺅ لانا ہوگا۔ جو ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں، دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کریں۔ کبھی کسی دوسرے کے محتاج نہ بنیںبلکہ اپنی خداداد صلاحیتوں پر بھروسہ کریں۔ زندگی کے تجربات سے ہمیشہ کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔ کبھی کسی بات کو حتمی نہ سمجھیں، ہمیشہ تبدیلی کی گنجائش رکھیں۔ دن ےا رات میں ایک وقت ضرور رکھیں جو خالص آپ کی اپنی ذات کے لیے ہو، جس میں اپنے آپ سے گفتگو کریں، اپنے آپ سے سوال جواب کریں اور اپنے اچھے کاموں کو یاد کریں اور برے کاموں پر اپنا محاسبہ کریں۔ اپنے احساسات، جذبات، خواہشات اور عادات کو ایک بڑے مقصد کے لیے ایک خاص سمت میں لگا دینا ذات کی تنظیم کہلاتا ہے۔ اس کو سادہ انداز میں سمجھنے کے لیے واصف علی واصف ؒ کا ایک قول ملاحظہ فرمائیں: ”غصہ بڑے انسان کو بنا جاتا ہے اور چھوٹے انسان کو کھا جاتا ہے“۔ یعنی جذبات کو دبانے سے یہ لاوے کی شکل اختیارکر لیتے ہیں اور پھرکسی اور طرف نکل کر نقصان کرتے ہیں جب کہ ان کو درست سمت میں لگانے سے انسان کے وقار میں اضافہ ہوتاہے۔
3۔ دوسروں سے ہم دلی اور دل جوئی کرنا: اپنی ذات کی تنظیم کے بعد پھرتیسرا مرحلہ آتا ہے دوسروں کی دل جوئی کا۔ ڈینیئل گولمین اس بارے کہتا ہے: ”سچی ہمدردی یہ نہیں کہ آپ کو دوسروں کے درد کا احساس ہو بلکہ اس درد کو دور کرنے کی تدبیر بھی کیجیے“۔ ہم دلی اور دل جوئی سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسرے کی جگہ رکھ کر سوچے۔ دوسروں کے درد کو محسوس کرنے کی کوشش کرے۔ یہ ہے تو بہت مشکل کام مگرایسا سوچنے سے ہمارے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہو سکتے ہیںکیوں کہ ہماری زیادہ تر ترجیحات اور توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں۔ ہمارے لیے کیا موزوں ہے، ہمارے جذبات کیا کہہ رہے ہیں لیکن اگر ہم اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے احساسات اور جذبات کا بھی خیال رکھنا شروع کر دیں تو یہ خوبی ہمیں دوسروں سے ممتاز کر دے گی۔ جذباتی طور پر ذہین لوگوں میں یہ صفت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ دنیا میں جتنے بھی کامےاب اور نامور لوگ گزرے ہیں ان سب میں یہ عادت مشترک تھی کہ وہ اپنے سے جڑے لوگوں کے جذبات کو سمجھتے تھے اوران کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔
4۔ لوگوں سے بہتر تعلقات قائم کرنا: جذباتی ذہانت حاصل کرنے کے لیے اپنے جذبات کو سمجھنا، اپنے جذبات کو صحیح سمت میں لگانا اور پھر دوسروں کے جذبات سمجھنا اور سمجھ کر ان سے بہتر تعلقات استوار کرنا بھی اہم مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔ جذباتی طور پر ذہین لوگ دوسروں سے بات چیت کرنا، اٹھنا بیٹھنا اور اچھے تعلق قائم کرنا بھی جانتے ہیں۔ اسے”سماجی ذہانت“ کہا جاتا ہے۔ جس طرح دولت اور شہرت کمائی جاتی ہے اس طرح ہمیں عزت بھی کمانی پڑتی ہے۔ اگر آپ دوسروں سے اچھا تعلق قائم کرنا نہیں جانتے تو پھر آ پ کبھی بھی اچھے منتظم، اچھے استاد یا اچھے تاجر نہیں بن سکتے، چاہے آپ جتنا مرضی تعلیم ےافتہ اور اپنے فن میں ماہر کیوں نہ ہوں۔ سماجی ذہانت سیکھنے کے لیے معروف مصنف ڈیل گانیگی کی کتب سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
ا نسان اس کائنات کی سب سے ذہین مخلوق ہے اور ذہانت کی بہت سی اقسام اس وقت دریافت ہو چکی ہیں۔ ان میں سے ”جذباتی ذہانت“ ایک اہم قسم ہے۔ انسان دنیا میں اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ ماں کا اپنے بچے کو پیار سے بوسہ دینا، آدمی کا غصے میں چیخنا چلانا اور بچوں کا بڑوں کے خوف سے چھپ جانا، جذبات کا اظہار ہی تو ہے۔ جذبات تو انسان کے اندر چھپی ہوئی توانائی ہے جو کہیں نہ کہیں نکلنے کے لیے بے چین رہتی ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان جذبات کو آزاد چھوڑنے کے بجائے ان سے مثبت کام لینا سیکھیں۔ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کس جذبے کو کہاں استعمال کرنا بہتر ہے اور کہاں نقصان دہ ہے۔ زند گی کے چھوٹے چھوٹے مسائل کا مثبت ردعمل دینا سیکھیے، یوں جذبات فائدہ دینے لگتے ہیں۔ شخصیت میں اعتماد آتا ہے اور زندگی کے مسائل سے نپٹنا آسان سے آسان تر ہوتا جاتاہے۔

وقت کی اہمیت اور اس کا استعمال

مولانا عثمان الدین

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، قدرت کی ان نعمتوں میں ایک نعمت ”وقت“ بھی ہے جو کہ ایک بہت بڑی نعمت اور انسان کی زندگی کا قیمتی اثاثہ ہے۔ وقت کی یہ نعمت دنیا میں بسنے والے ہر انسان کو بلا تفریق حاصل ہے۔ وقت انسان کی زندگی کا دوسرا نام ہے اور زندگی اسی کی مرہون منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان کادنیا میں مقررہ وقت پورا ہوتا ہے تو اسی کے ساتھ ہی اس کی زندگی کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔ 
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مختلف ارشادات میں وقت کی اہمیت کو بیان کیاہے اور اس کو غنیمت جان کر اس کی قدر کرنے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کی تاکید کی ہے۔ شریعت کے احکام مثلا نماز، روزہ، زکوٰة اور حج جیسے بڑے اعمال میں بھی وقت کی خاص رعایت رکھی گئی ہے۔ اس کا ایک مقصد لوگوں کے ذہن میں وقت کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، اس لیے اس نعمت کی قدر کرنا اور اس کا درست استعما ل کرکے اس کو ضائع ہونے سے بچانا نہایت ضروری ہے اور یہی اس عظیم نعمت کا حقیقی شکر بھی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بد قسمتی سے وقت کی اس نعمت کی ناقدری و ناشکری بہت عام ہوچکی ہے کیوں کہ اس نعمت کی سب سے بڑی ناقدری و ناشکری اس کو ضائع کرنا ہے اور ضیاع وقت کا مرض اب معاشرے اس قدر عام ہوچکا ہے کہ کوئی اس کو برائی ہی نہیں سمجھتا۔ لوگوں میں فضول و لایعنی کاموں کے لیے وقت کو ضائع کرنا معمول بن چکا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں وقت کی قدر و قیمت اور اہمیت کے بارے میں آگاہی بہت کم ہے۔ لوگوں میں ایک بہت بڑے طبقے کو یہ شعور ہی نہیں ہے کے وقت کی اہمیت کیا ہے اور اس کو استعمال کس طرح کرنا چاہیے؟ اس لیے وہ اپنے اوقات کو ضائع کرتے ہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ضیاع وقت کے اسباب بہت زیادہ ہوچکے ہیں جن سے اپنے اوقات کی حفاظت کرنا کسی بڑی جدو جہد سے کم نہیں ہے۔ مثال کے طور پر موبائل اور اس میں سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال وقت کا سب سے بڑا دشمن ہے اور یہ دشمن تقریبا ہر ایک کے ہاتھ میں ہے، یہ محض ایک مثال ہے۔ بنیادی طور پر ان دو وجوہات کی وجہ سے ہمارا معاشرہ خطرناک حد تک ضیاع وقت کی بیماری میں مبتلا ہے۔ 
انسان اپنی زندگی میں کوئی بھی کام کرے تو اس سے پہلے یہ ضرور سوچے کہ اس کام میں مےرے لیے دین یا دنیا کا کوئی فائدہ موجود ہے یا نہیں۔ اگر کسی کام میں کوئی فائدہ نہیں ہے تو وہ فضول اور لایعنی کام ہے اور اس سے اپنے وقت کی حفاظت کرنا ہی دانشمندی کا تقاضا ہے۔ اگر ہم نے ہر کام کرنے سے پہلے اس سوچ کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا تو ہمارے لیے اپنے اوقات کو ضائع ہونے سے بچا نا آسان ہوجائے گا۔ خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں ایک شخص حاضر ہوا اور ایک کرتب دکھایا کہ فرش کے بیچ میں ایک سوئی کھڑی کی اور پھر ہاتھ میں مزید سوئیاں لے کر کچھ فاصلہ پر کھڑا ہوگیا اور ان سے فرش پر کھڑی سوئی کا نشانہ لینا شروع کیا، اس نے اس طرح کئی سوئیاں پھینکی اور سب کی سب فرش پر کھڑی سوئی کے ناکے میں داخل ہوکر پار ہوگئیں۔ اس منظر نے خلیفہ سمیت تما م دربار والوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے اس کو دس دینار انعام دینے اور ساتھ ہی دس کوڑے مارنے کا حکم دیا، حاضرین نے وجہ پوچھی تو کہا کہ دس دینار انعام تو اس کی ذہانت اور تجربے کی وجہ سے ہے اور دس کوڑے اس بات کی سزا ہے کہ اس نے اپنے وقت اور صلاحیت کو ایسے کام میں ضائع کیا جس میں دین و دنیا کسی کا فائدہ نہیں ہے۔
نوجوان نسل کسی بھی قوم کا مستقبل ہوا کرتی ہے اس لیے ان کا وقت صرف ان کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے اہم ہوتا ہے اور اگر وہ اپنے اوقات کو ضائع کرتی ہے تو یہ پوری قوم کا نقصان ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری نوجوان نسل اس وقت اپنے قیمتی اوقات کو بے دریغ ضائع کرنے میں مصروف ہے جو ہمارا المیہ ہے ۔
غرض یہ کہ ہمیں من حیث القوم ضیاع وقت کی اس بیماری پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ ہم سب سے پہلے اپنے اوقات کی قدرو قیمت اپنے ذہن میں بٹھائیں اور پھر ان اوقات کا درست استعمال کرکے ان کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ ترقی وہی قوم کرتی ہے جو اپنے اوقات کی حفاظت کرتی ہے اور ان کا درست استعما ل کرتی ہے۔ جو قوم اپنے اوقات کو ضائع کرتی ہے ترقی کبھی اس کا مقدر نہیں ہوتی ہے۔ عربی کا ایک مقولہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ”وقت کی مثال تلوار کی ہے، اگر اس کا صحیح استعما ل کیا تو ٹھیک ہے ورنہ وہ تمہیں کاٹ دے گی“۔ ہمیں وقت کی اس کاٹ سے اپنی حفاظت کرنی ہے۔

اسلام میں تجارت کا معیار

حافظ سید محمد ثاقب شفیع 
شعبہ اسلامک لرننگ ( جامعہ کراچی) 

اسلام نے معاملات کے احکام کو خاص اہمیت دی ہے دنیا کے کسی مذہب نے معیشت اور تجارت کو وہ مقام اور اہمیت نہیں دی جو مذہب اسلام نے دی ہے اسلام تجارت کے ان طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس میں خریدو فروخت کرنے والوں کے درمیان کسی قسم کا دھوکا نہ ہواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تجارت کی ہے اور اسے پسند بھی فرمایا ہے قران وسنت میں تجارت اور تاجر کی کئی اعتبار سے عظمت و فضیلت بیان کی گئی ہے ۔ ارشادربانی ہے ”اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے“۔ اس آیت میں مطلق تجارت کی بات ہے اور ہر جائز چیز کی تجارت اس میں شامل ہے اور ناجائز چیزوں کی تجارت خرید و فروخت مسلمانوں کے لیے منع ہے۔ 
قرآن کریم کی مختلف آیات میں تجارت کا لفظ آیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”جنہیں کوئی تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نمازوں ادائے زکوٰة سے غافل نہیں کردیتی“۔ اس آیت میں مسلمان تاجر کی فضیلت بتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہیں تجارت یہ خرید و فروخت نماز سے نہیں روکتی۔ سورة الجمعہ میں اللہ تعالیٰ نے تجارت سے متعلق واضح ارشاد فرمایا ”اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیئے پکار جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف بڑھو اور خرید و فروخت چھوڑدو“۔ 
نماز اور تجارت دونوں فرض ہیں اللہ تعالی نے اس آیت میں نماز کے لیے تجارت کو چھوڑنے کا حکم فرمایا چونکہ نماز بڑا فرض ہے تجارت چھوٹا جب فرضوں کا ٹکراو ہوگا تو بڑا فرض پہلے ادا کیا جائے گا بڑے فرض کی ادائیگی کے بعد سورہ الجمعہ کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے تجارت اور کاروباری سرگرمیاں کرنے کا حکم فرمایا ”پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاﺅ اور اللہ کا فضل تلاش کرو“۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا کہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد کاروبار اور تجارت میں لگ جاو ¿ اور اپنے معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھو جس طرح قرآن میں تجارت اور تاجر کی فضیلت کو بیان کیا ہے اسی طرح احادیث مبارکہ کے اندر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے محدیثن نے بھی اس حوالے سے احادیث کو کتاب البیوع میں جمع کیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”دیانتدرانہ تجارت میں اللہ تعالیٰ کی مدد ہے“۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا سب سے پاکیزہ کمائی کونسی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ”اپنے ہاتھ کا کام اور صیح طریقے سے تجارت کر نے کو ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے رزق کے 10 حصہ کیے ہیں اور اکیلے 9 حصے تجارت میں ہے“۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پہلا سفرے تجارت 15سال کی عمر میں کیا جو مکہ سے شام کی طرف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا تجارتی سفر وہ تھا جو آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال لے کر ملک شام کی طرف تشریف لے گئے اور اس تجارت میں آپ کو کثیر منافع بھی ہوا اور اس موقع پر حضرت خدیجہ رضیٰ اللہ عنہا کا غلام میسرہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا ۔
 پورے سفر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت دیانت اور تجارت میں منافعے کا خود مشاہدہ بھی کیا اور سفر سے واپسی پر اس کا احوال حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بیان بھی فرمایا وہ آپ کی امانت اور دیانت سے متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کا پیغام پہنچایا۔ سچے اور امانتدار تاجر سے متعلق سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سچا امانتدار تاجرقیامت میں انبیا صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا“۔ 
ایک بہترین تاجر کو خرید و فروخت کس طرح کرنی چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بہترین کمائی ان تاجروں کی ہے جو جھوٹ نہیں بولتے امانت میں خیانت نہیں کرتے اور وعدہ خلافی نہیں کرتے“۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ سچے اور دیانتدار تاجر کی کس قدر فضیلت ہے کہ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا کہ ”ایک دیانتدار تاجر کو اللہ تعالیٰ وہی ثواب دیتا ہے جو غازیوں اور شہداو ¿ں کو عطا فرماتا ہے“۔ 
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکمل بنایا اسے ہاتھ پاو ¿ دیے تاکہ وہ محنت و مشقت سے اپنے کام کرنے کا عادی ہو اور دماغ دیا جس میں سوچنے کی صلاحیت موجود ہے اگر انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو کام میں نہیں لاتا تو اسے بیٹھ کر کھانے کی عادت ہوجاتی ہے اور ایسا انسان دوسرے تمام لوگوں کے لیے ایک بوجھ بن جاتا ہے اس کے بر عکس جو انسان محنت کرنے کا عادی ہو اسے بیٹھ کر کھانے کی عادت نہیں ہوتی اور وہ دوسروں پر بوجھ نہیں بنتا۔یہ وہ تمام دلائل ہیں جو قرآن و سنت کی روشنی میں تجارت اور تاجر کی فضیلت کو بیان کرتے ہیں۔

نہیں ہے تنگ یہ دنیا، محنت کشوں کے لیے

عبدالرزاق صالح

اللہ رب العزت نے جب سے حضرت انسان کو اس دنیا میں بھیجا ہے، تو اس کو یہاں زندگی گزارنے کے مواقع بھی میسر فرمائے ہیں۔ انسان کو زندگی گزارنے اور اپنے بدن کو باقی رکھنے کے لیے بنیادی طور جن چیزوں کی ضرورت پڑنی تھی، وہ بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمادیں۔ انسان کو اس دنیا میں زندگی کی بقا کے لیے صرف تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ کھانے کی، پہننے کی اور گھر کی۔ کھانا غذا ہے، پہننا لباس ہے اور گھر وہ ہے کہ گرمی سردی اور ہلاکت کے اسباب سے اس کو محفوظ رکھے۔ تو آدمی کو دنیا میںزندگی بسر کرنے کے لیے بنیادی طور پر ان تین چیزوں کی ضرورت ہے بلکہ یہی تین چیزیں خود دنیا کی اصل ہیں۔ جن کے لیے انسان مارا مارا پھرتا ہے۔
اب ان چیزوں یعنی ضروریات زندگی کے حصول کے مواقع بھی اللہ رب العزت نے تمام انسانوں کے لیے یکساں طور پر میسر فرمائے ہیں، یعنی یہ نہیں کہ کوئی مسلمان ہے تو اس دنیا میں اپنی زندگی گزارنے کے لیے ان مواقع سے فائدہ اٹھائے اور کوئی غیر مسلم نہیں یا کوئی امیر فائدہ حاصل کرے اور کوئی غریب نہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ رب العزت نے اس دنیا میں تمام انسانوں کے لیے محنت کر کے اپنا اپنا رزق حاصل کرنے کے مواقع یکساں طور پر رکھے ہیں۔
محنت کا میدان وسیع ہے۔ اس میں اگر کوئی امیر محنت کر کے ترقی کرتا ہے، تو وہیں ایک غریب یا غریب کا بچہ بھی محنت کر کے ترقی کے زینے چڑھ سکتا ہے۔ ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ تاریخ کی اکثر کامیابیاں معمولی حالات کے اندر سے ہی برآمد ہوتی ہیں۔ تاریخ بھری پڑی ہے کہ بڑا انسان بننے کے لیے بڑا بچہ یا بڑے کا بچہ ہونا ضروری نہیں۔ معمولی سی حیثیت سے آغاز کر کے بڑی سی کامیابیاں سمیٹی جا سکتی ہیں۔شرط یہ ہے کہ محنت کی جائے اور حالات سے مایوس ہوکر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھنا نہیں چاہیے کیونکہ یہ دنیا کا وسیع میدان تمہارے ہی لیے تو ہے۔ اس وسیع میدان میں ہمیں محنت کے لیے کوئی نہ کوئی کام کرنا پڑے گا، پھر کام کرنے کے لیے بہت سارے مواقع ہیں۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پیشوں کے بارے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں کام ان کے شان کے خلاف ہے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو بھوک اور افلاس سے تنگ آکر در بدر بھیک مانگنا گوارا کر لیتے ہیں لیکن کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ اسلام سے پہلے عربوں میں کام کرنے اور کام کو حقیر سمجھنے کی ذہنیت عام تھی۔اسلام نے آکر دنیا والوں کو آگاہ کیا کہ روزی کو حاصل کرنے کے لیے اگر چھوٹے سے چھوٹا پیشہ اختیار کرنا پڑے تو اس میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ یہ تو ہو سکتا ہے کہ پیشہ ور اچھے ہوں یا برے ہوں۔ کوئی پیشہ خواہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ سمجھا جائے، اگر اس سے رزق حلال حاصل ہوتا ہے تو وہ برا نہیں ہو سکتا۔
آپﷺ نے مختلف مواقع پر فرمایا ہے کہ، ”اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی رسی لے کر جنگل جائے، لکڑی کاٹے اور اسے اپنی پیٹھ پر لاد کر بازار میں فروخت کردے تو یہ اس کے لیے در بہ در ٹھوکریں کھانے سے بہتر ہے۔ کسی آدمی نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے زیادہ لذیذ کھانا نہیں کھایا ہوگا“۔
رزق حلال کے لیے محنت کرنا سنت انبیاءکرام علیھم السلام ہے۔ اللہ کے نبی حضرت داود علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے کام کرتے تھے۔ حضرت داو ¿د علیہ السلام زرہ ساز تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بالترتیب کاشت کاری، بڑھئی، درزی اور بکریاں چرانے کا کام کرتے تھے۔
آج کل عجیب چلن ہے کہ لوگ خصوصاً ہٹے کٹے نوجوان یا تو اعلی نوکری کے خواہاں ہوتے ہیں یا پھر بھیک مانگتے ہیں اور طرح طرح کے جرائم کے ذریعے حرام مال کما کر عیاشی کرتے ہیں یا پھر اپنا قیمتی وقت موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر بے کار کاموں میں ضائع کر رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کام اور محنت و مشقت طلب ملازمت کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
نوجوانوں کو صرف نوکری نہیں بلکہ کام تلاش کرنا چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے کاموں مثلاً سبزی منڈی میں کام کرنے، کتابوں اور تسبیحات کا اسٹال لگانے، کپڑے سلائی کرنے، موبائل کا کھوکھا لگانے، کمپیوٹر پر کمپوزنگ کرنے اور فوٹو اسٹیٹ مشین رکھنے میں بھلا کیا حرج ہے؟ بڑے مبارک ہیں وہ ہاتھ جو رزق حلال کی تلاش میں زخمی ہوتے ہیں۔ بہت اچھے ہیں وہ لوگ جو چھوٹے موٹے کام کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔ جرائم نہیں کرتے، مشکوک مال نہیں کھاتے، کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پہلاتے، نہ ہی دوسروں کے آسرے بیٹھے رہتے ہیں۔
اگر انسان محنت کرے، حلال اور پاکیزہ روزی دینے والے کام میں شرم وعار محسوس نہ کرے بلکہ حصول رزق حلال کو عین عبادت سمجھے تو لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار مل سکتا ہے۔ ہزاروں غریب افراد خوش حال ہوسکتے ہیں۔ذرا سی توجہ اور محنت درکار ہوتی ہے۔ مستقل مزاجی کے ساتھ محنت اور بے لوث خدمت دو ایسے کام ہیں جو انسان کو کامیابی اور ترقی کی دہلیز تک پہنچا دیتے ہیں۔
علاوہ اس کے ان موجودہ حالات میں تو، آدمی کو محنت کرنا ہی پڑے گی ورنہ ہماری حکومت جو غریب کو غریب تر یا سرے سے ختم کرنے اور عوام کو مہنگائی کے اس دلدل میں اتار کر ذہنی مریض بنانے کے راستے پر گامزن ہوچکی ہے۔ جس سے نکلنے کا واحد حل اور ایک ہی راستہ ہے، وہ ہے محنت، محنت اور محنت۔تو اٹھیے! اور ان مشکلات حالات کا مقابلہ کیجیے اور کسی بھی شعبے میں محنت کر کے اپنی زندگی کو مجبوری سے گزارنے کے بجائے، پرسکون ماحول میں گزارنے کے لیے اپنے آپ کو اس محنت کے زیور سے آراستہ کر کے ایک فعال اور ذمے دار شہری ہونے کا ثبوت دیں، ورنہ ان حکومتوں سے کچھ نہیں ہونے والا ہے۔ 

تبصرہ کتاب: قلم کا قرض

 مریم صدیقی

جہاد کی ایک قسم جہاد بالقلم بھی ہے کہ جب انسان میدان کارزار میں ہتھیاروں سے لیس دشمن کے مد مقابل آکر حق کے لیے نہ لڑ سکے تو اپنے قلم سے حق کا پرچار کرکے اپنے قلم کا اور قلم کا ر ہونے کا حق ادا کرے۔ ”قلم کا قرض“ بھی ایسے ہی چند قلم کاروں کی کتاب ہے جنہوں نے اپنی جانب سے قلم کا قرض ادا کرنے کی سعی کی ہے۔ کتاب کے عنوان کی بات کی جائے تو تین الفاظ پر مشتمل یہ عنوان ” قلم کا قرض“ چند الفاظ نہیں بلکہ ایک سوچ اور مقصد کو واضح کر رہا ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالی انسان کو کسی صلاحیت سے نوازتا ہے تو اس کا مثبت استعمال اس انسان پر لازم ہوجاتا ہے۔ آج کے اس دور میں جہاں جھوٹ کی فراوانی ہے، جہاں سچ کے لیے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں، جہاں مظلوم کو کوئی انصاف دلانے والا نہیں ایسے وقت میں اپنے قلم کا مثبت استعمال یعنی سچ اور حق بات بیان کرنا، درست معلومات فراہم کرنا اور اصلاح معاشرہ کے لیے لکھنا ہی دراصل قلم کا قرض ہے جس کا ادا کرنا ہر قلم کار پر لازم و ملزوم ہے۔
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا
کتاب ”قلم کا قرض“ کے سرورق کی شان بڑھاتا یہ شعر مجاہدین قلم کے خیالات کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ یہ کتاب ایک ادبی پلیٹ فارم رائٹرز کلب پاکستان کے اراکین کی اخبارات میں شائع شدہ تحریروں کا مجموعہ ہے۔ جسے بطور سالنامہ 2018 رائٹرز کلب پاکستان کی انتظامیہ نے حال ہی میں کتابی شکل میں شائع کروایا ہے۔
یہ کتاب دیگر کتب سے کئی لحاظ سے منفرد ہے، اس کتاب کو گلستان ادب کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کسی گلستان میں کھلے خوش رنگ اور خوش نما پھولوں کی مانند اس کتاب میں بھی نو آموز اور کہنہ مشق لکھاریوں کی تحریریں خوشبوئیں بکھیرتی دکھائی دیں گی۔ کہیں مسکراتی شگوفے بکھیرتی تحریریں پڑھ کر لب مسکرا اٹھیں گے تو کہیں درد و الم سے مزین داستانیں آنکھیں نم کردیں گی۔ کہیں بچوں کی کہانیاں پڑھ کر محظوظ ہونے کا موقع ملے گا تو کہیں سیاسی و مذہبی کالم پڑھ کر بے ساختہ داد دینے کو جی چاہے گا۔ اس کتاب میں کم و بیش 60 لکھاریوں کی نہ صرف تحاریر موجود ہیں بلکہ ان کا مختصر تعارف بھی شامل ہے۔ مکمل کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کتاب کے سحر سے نکل پانا قاری کے لیے یقینا مشکل ہوگا۔ کتاب کے شروع میں پیش لفظ میں محترم عارف رمضان جتوئی صاحب نے رائٹرز کلب کے آغاز سے لے کر اس کتاب کی اشاعت تک کے مراحل کا مختصر الفاظ میں کا ذکر کیا۔ 
اس کے بعدکتاب میں رائٹرز کلب کا مفصل اور جامع تعارف موجود ہے۔ کتاب کے ابتدائی صفحات پر محترم اطہر ہاشمی (چیف ایڈیٹر، روزنامہ جسارت)، محترم علیم احمد (مدیر اعلی، ماہنامہ گلوبل سائنس)، محترمہ سلمی اسد (میگزین انچارج، روزنامہ اوصاف)، محترمہ طیبہ بخاری (میگزین انچارج، روزنامہ دنیا نیوز)، محترمہ حمیرا اطہر صاحبہ کے تاثرات رقم ہیں جو کتاب کی قدر و قیمت میں اضافے کا باعث ہیں۔ علیم احمد صاحب کی تجاویز، طیبہ بخاری و سلمی اسد صاحبہ کا قلم کے مجاہدوں کو خراج تحسین اور حمیرا طہر صاحبہ کی ادارت اس کتا ب اور اس کتاب کے مصنفین کی حوصلہ افزائی کا سبب ہیں۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے لکھاریوںکی تحاریر مع مختصر تعارف شامل ہیں۔
عارف رمضان جتوئی کی ہر تحریر ان کے وسعت خیالی اور ان کی حساس طبیعت کی عکاس ہے۔ معاشرے میں پھیلتی بے حیائی، اولاد کی نافرمانی، تربیت کے فقدان کو ان کے قلم نے جس انداز سے الفاظ کے پیرائے میں پیش کیا ہے، قاری کو جھنجھوڑ کر رکھنے کے لیے کافی ہے۔ گہرے معنی لیے ہوئے سادہ سے جملے پڑھنے والے پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں اور لمحہ بھر کے لیے انسان کو اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔
رقیہ فاروقی کی تحاریر پڑھ کر ایک منجھے ہوئے لکھاری کا گمان ہوتا ہے۔ ان کے قلم میں روانی، پختگی اور شائستگی پائی جاتی ہے۔ تحریر ہم پریشان کیوں؟ صفحہ 87 پر لکھتی ہیں، ”انسان بھی عجب حیوان ہے کمی کی لکیر کو پیٹتے ہوئے نعمتوں کے انبار کو بھول جاتا ہے“۔ عاصمہ عزیز نے زعم زدہ نفس میں ایک ایسے شخص کی کہانی بیان کی جو اولاد نرینہ کے زعم میں آکر اپنی بیٹی کو گھر سے نکال دیتا ہے اور جب وہی اولاد نرینہ اس بوڑھے باپ کو اولڈ ہوم میں چھوڑ دیتی ہے تو اسے حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ اس نے ہیر ے کے عوض اپنے دامن میں سنگریزے سمیٹ کر کس قدر خسارے کا سودا کیا ہے۔
دیا خان نے اپنی تحریر ماڈل یا رول ماڈل میں دور حاضر کے اساتذہ کے رویے، نسل نو کے بگاڑ کی وجوہات اور سد باب کی طرف توجہ دلائی ہے۔ عظمی ظفر نے جہاد بالقلم میں ایک حساس موضوع کو قلم بند کیا ہے کہ ایک قلم کار جب ہمت ہار جاتا ہے، اپنے قلم کے سفر کو خیر آباد کہہ دیتا ہے تو اس کا قلم اسے جھنجھوڑتا ہے اور اسے لکھنے پر اکسا تا ہے۔ ہر لکھاری کی تحریر اپنی جگہ عمدہ شاہکارہے۔ چاہے وہ ام عبد اللہ کی بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں ہوں یا شافعہ افضل، ساحر مرزا اور آمنہ وزیر کے افسانے۔ آسیہ عبد الحمید کی شاعری ہو یا مفتی عثمان الدین کے قلم سے لکھے گئے اسلامی مضامین۔ غرض اپنی جانب سے ہر ایک نے قلم کا قرض ادا کرنے کی بھرپور سعی کی ہے۔ کتاب کے آخری صفحات پر رائٹرز کلب کے دیگر اراکین کی ایک ایک تحریر شائع کی گئی ہے۔ 
دیدہ زیب، خوش رنگ سرورق پہلی نظر میں توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ اس دور میں جب کاغذ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، لکھاری اور پبلشر دونوں پریشان نظر آرہے ہیں ڈبل کور اور بہترین کوالٹی کے صفحات کی کتاب کی اشاعت یقیناً قابل تعریف ہے۔ رائٹرز کلب انتظامیہ کا یہ احسن اقدام ادب میں سنگ میل ثابت ہوگا۔
ہر کتاب میں یقیناً بے شمار خوبیوں کے ساتھ چند خامیاں بھی ہوتی ہیں، اس کتاب میں بھی چند ایک خامیاں موجود ہیں جنہیں نظر ثانی کے بعد آئندہ ایڈیشن میں دور کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی تحریر میں املاءو رموزاوقاف کی غلطیوں سے تحریر کا حسن ماند پڑجاتا ہے۔ اس کتاب میں بھی چند ایسی ہی غلطیاں موجود ہیں۔ اسی طرح فہرست میں اعداد و شمار پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کتاب کے صفحہ اول پر کتاب و ناشر کا نام لکھا ہونا چاہیے۔
کتاب کی کوالٹی کے حساب سے اس کی قیمت نہایت مناسب ہے۔500 صفحات کی کتاب قلم کا قرض 700 روپے میں دستیاب ہے جب کہ اس کی رعایتی قیمت 500 روپے ہے۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے اس پتے پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ”جمعیت الفلاح اکبر روڈ ریگل چوک صدر کراچی“۔ مزید معلومات کے لیے رابطہ کریں: 03017886719

اختتام پر یہ کہنا چاہوں گی کہ اس کتاب میں اکثریت چونکہ نئے لکھنے والوں کی ہے تو غلطیوں کی گنجائش رہتی ہے لیکن یہ کتاب ان تمام نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گی اور مستقبل میں انہیں یہ سفر جاری رکھنے پر آمادہ کرے گی۔ اس کتاب کو ہاتھ میں لے کر ان میں ہر بار ایک نیا جذبہ، نئی امید اور حوصلہ جنم لے گا جو انہیں لکھتے رہنے اور دیے سے دیا جلائے رکھنے کی ہمت دے گا۔ محترم عارف رمضان جتوئی اور رائٹرز کلب کی انتظامیہ کو اس کاوش پر ڈھیروں مبارکباد۔

مرد مضبوط سائبان اور محافظ

اریشہ خان

کسی بھی معاشرے میں اچھے اور برے دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ مرد و زن بھی ایسے ہی 2 اہم ترین پہلو ہیں۔ اچھا اور غیر اچھا دونوں میں موجود ہے۔ صنف نازک کو اچھا اور مخالف صنف کو برا کہا جائے گا تو یہ حقیقت کے برعکس ہوگا۔ اسی طرح سے صنف نازک کو برا اور مرد کو اچھا کہا جائے گا تو یہ بھی غلط ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں دونوں طرح کا رویہ پایہ جاتا ہے لیکن میڈیا پر اس رویے کا انداز تھوڑا مختلف بھی ہے۔ میڈیا پر مرد کو عورت کی نسبت کچھ سخت جملوں اور منفی صفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
کئی بار محسوس کیا گیا کہ ہمارا میڈیا مرد کے سخت روپ کو ہی دکھاتا۔ مرد میں خامیاں ہی خامیاں نمایاں کی جاتی ہیں۔ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں جہاں معاشرے میں مرد برے ہیں وہاں کچھ عورتیں بھی ہیں۔ جہاں عورتیں دکھ سہتی ہیں ، وہاں ہمارے معاشرے میں مرد کو بھی بہت سے دکھ جھیلنے پڑتے ہیں اور مجھے مشرقی عورتوں کی نسبت مشرقی مرد کچھ اس لیے بھی زیادہ مظلوم لگتا ہے کہ اس بیچارے کو ہم رونے کا حق بھی نہیں دیتے۔ وہ جتنا مرضی ٹوٹ جائے اسے مضبوط دکھنا ہوتا شاید یہی وجہ ہے کہ عورتوں کی نسبت مردوں کو زیادہ ہارٹ اٹیک ہوتا ہے۔ وہ مرد ہی ہوتا ہے جو اپنے سے وابستہ لوگوں کے لیے صبح سے شام تک زمانے کی خاک چھانتا ہے۔ میں نے ایک مرد کو اپنے کنبے کے لیے زمانے کی جھڑکیں کھاتے دیکھا۔۔۔ ایک مرد کو گھر چلانے کے لیے دن رات ہلکان ہوتے دیکھا ہے۔ 
مرد باپ کی صورت میں دنیا کا سب سے بڑا سائبان ہے۔۔۔ جو زمانے کی گرم سرد ہوا خود برداشت کر لیتا مگر اپنے سائے میں رہنے والوں کو اس کا احساس تک نہیں ہونے دیتا ۔ جانے کیوں نام نہاد حقوق نسواں کی تنظیموں کو مرد کا یہ روپ نظر نہیں آتا۔ مرد بھائی کی صورت میں تحفظ کی ایسی دیوار جسے کوئی چھو ناسکے۔ لیکن منہ سے اظہار نہیں نا کرتے تو شاید یہ بھی زمانے کو نظر نہیں آتے۔ یہی مرد جب بیٹا ہو تو ماں باپ کے لیے سہارا اگر شوہر ہو تو ڈھال۔ مشرقی کی مرد کو اگر اس لئے دقیانوسی کہا جاتا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کے گھر کی عورت پہ کوئی بری نظر نہ پڑے۔۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی عورت زمانے کی ہر چالاکی سے بچے ، زمانے کی گرم ہواو ¿ں سے اس کا پالا نہ پڑے ۔ یقین جانئے وہ دقیانوسی مرد دنیا کا سب سے بہترین مرد ہے۔ یقین نہیں آتا تو مغربی معاشرے کی کسی بھی عورت سے پوچھ لیں۔ 
یہ لبرل ازم کے چکر میں مشرقی عورت خود ہی اپنا نقصان کر رہی ہے۔ جان بوجھ کے مرد کی برابری کے چکر میں خود کو ہلکان کر رہی ہے۔ جان بوجھ کے تحفظ کی چھت سے نکل کر جسے آزادی سمجھ کے گلے لگا رہی ہے وہ آزادی نہیں غلامی ہے۔ عورت کو گھر کی ذمے داری دی گئی ہے مرد کو باہر کی کیونکہ مرد عورت کی نسبت زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔ مرد اور عورت برابر نہیں ہیں۔ عورت مرد کے برابر سوچ بھی نہیں سکتی خاص طور پہ مشرقی مرد کے مقابلے میں۔کیونکہ اس صورت میں مجھے بھی مردوں کے ساتھ بسوں میں لٹک کر سفر کرنا پڑسکتا۔ میں اتنی مضبوط نہیں ہوں کہ اینٹیں، سیمنٹ اٹھا کر 10 گھنٹے مزدوری کروں کبھی بجلی کے کھمبوں پہ سخت گرمی میں لٹک کہ ان کی مرمت کروں۔ میں اتنی مضبوط ضرور ہوں کہ مشکل وقت میں اپنے کنبے کو پال سکتی ہوں لیکن جب میرے پاس کما کر کھلانے والا ہوگا تو پھر گھر سے نکلنا سراسر میری بے وقوفی ہوگی۔ جب خدا نے مجھے سائبان دیا ہے تو میں کیوں زمانے کی خاک چھانوں۔ اس برابری کی لڑائی میں اگر عورت سمجھے تو نقصان صرف اسی کا اپنا ہے۔ 
جو لوگ کہتے مرد سخت دل ہوتے ہیں میرے خیال سے بالکل غلط کہتے ہیں۔ سخت ہم انہیں بناتے ہیں۔ اسے سخت بنانے میں 80% ہاتھ ایک عورت کا ہی ہوتا۔ کیوں کہ ایک بچہ جب پیدا ہوتا تو اسے پتا نہیں ہوتا میں مرد ہوں ، میں سخت ہوں ، میں کچھ بھی کر لوں مجھے کوئی پوچھے گا نہیں بلکہ یہ چیزیں ہم ہی اس میں ڈالتے ہیں۔ تربیت کی بات ہو تو بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تو زیادہ ماں سے ہی سیکھتا ہے۔ باپ تو سارا دن باہر ہوتا۔ اگر ایک ماں سکھائے کہ بیٹا عورت کوئی بھی ہو عزت کے قابل ہوتی ہے۔ ہماری مائیں باہر جاتی بچی کو تو کہتی ہیں دوپٹہ سر پہ رکھنا ہماری عزت کی لاج رکھنا مگر یہ ہی بات اگر بچہ کو کہیں کہ بیٹا باہر جا رہے ہو تو نظریں نیچی رکھنا۔ باہر کی عورت کی بھی اتنی عزت کرو تو بہت سے مسائل حل کو جاتے ہیں۔ 

روزگار کے مواقع



 فاطمہ خان

اگر آپ بے روزگار ہیں تو پریشان نہیں ہوں، پڑھے لکھے بے روزگار افراد کے لیے تمام ادارے روزگار کے بہترین مواقع پیش کر رہے ہیں۔ جاب کی تلاش کے لیے اپنے گوگل اکاونٹ سے ”نیا پاکستان جاب“ لکھ کر سرچ کیجیے۔ میٹرک تا ماسٹرز افراد اپلائی کر سکتے ہیں۔ ہزاروں نوکریاں آپ سے ایک کلک کی دوری پہ ہیں۔ اب پاکستان میں بے روزگاری کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ جیسے ہی گوگل سرچ کریں لاتعداد نوکریاں ہماری قسمت کے دروازے پہ ہماری منتظر ہوتی ہیں مگر یہ کیا؟ اس کی تفصیل میں کیا ہے آئیے جانتے ہیں۔
جب آپ گوگل پہ ”نیا پاکستان جاب“ سرچ کرتے ہیں تو ہزاروں نوکریاں آپ پر کسی دشمن کی مانند حملہ آور ہوتی ہیں۔ آپ ایک لمحے کے لیے ششدرہ رہ جائیں کہ یہ کیا ہوگیا۔ پینڈورا باکس کھل گیا اور نوکریوں کی بھر مار۔ الٰہی کرم کر دے۔ یہ کیا ہو گیا۔ اب تشکر آمیز انداز سے گورنمنٹ کو دعائیں جو دیں تو سوچا اب ذرا اپنی تعلیمی قابلیت کے مطابق جاب دیکھ کر اپلائی کیا جانا چاہیے۔ 
پہلا اشتہار دیکھا تو دل باغ باغ ہو گیا۔ پاکستان آرمی کا حصہ بنیں۔ میڑک پاس نوجوان اپلائی کر سکتے ہیں مگر یہ کیا 2 سے3 سال کا تجربہ۔ ڈپلومہ ہولڈر DAE نوجوان اپلائی کر سکتے ہیں لیکن اپنے اپنے ٹریڈ میں 5 سل کا تجربہ۔ الٰہی اتنی محنت کے بعد۔ تعلیمی قابلیت کا معیار صفر۔ سرکاری ادارے بنی بنائی کھیر کھانے کے چکر میں ہیں۔ نوجوانوں کو اگر مزید چند سال دھکے کھا کہ تجربہ پانا ہے تو نوکری کا معیار بدل دیجیے۔ یا تو تعلیمی قابلیت کو معیار رکھیے یا صرف تجربہ۔ ایک تیر سے دو شکار شاید عام سے بات ہے۔
جیسے کہ آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن میں نوکریاں، AsF میں بھرتیاں، ایجوکیٹرز کی بھرتیاں، FIA میں نوکریاں،پنجاب فوڈ اتھارٹی میں بھرتیاں، پنجاب پولیس میں بھرتیاں، سرکاری اور نجی تقریباً ہر ادارے میں بھرتیاں جاری ہیں لیکن ہر ادارہ تعلیمی قابلیت کے ساتھ تجربے کے 3 سے 5 سال لکھ کر سب کی امیدیں خاک میں ملا دیتا ہے۔ بالخصوص فریش گریجویٹس اور ماسٹرز والے تجربہ نہ ہونے کی بنا پر اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ نتیجتاً ملک میں خوانچہ فروشوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ یا خودکشی کرنے والے افراد کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
نجی ادارے اس ضمن میں تھوڑی نرمی برتتے نظر آتے ہیں۔ فریش گریجویٹس کے لیے کال سینٹر ، آفس مینجمنٹ، اکاﺅنٹنٹ یا آفس اسسٹنٹ کی جاب دن بدن توجہ طلب بنتی جا رہی ہے۔ حالات سے دلبرادشتہ نوجوان یا تو انٹرنیٹ پہ مارکیٹنگ کی آن لائن جاب سے مستفید ہو رہے ہیں یا نجی اداروں کی جابز ان کی توجہ کا مرکز نظر آتی ہیں۔
پچھلے دنوں جب میں نیٹ پہ جاب تلاش کرنے نکلی تو ہزاروں کی تعداد میں اشتہارات ملے۔ کئی بار یوں لگا جیسے میں اپنی ڈگری سمیت نوکریوں کے پہاڑ تلے دب چکی ہوں۔ میں چونکہ پولیٹکل سائنس میں ماسٹرز ڈگری رکھتی ہوں تو کیا دیکھا کہ فوجی فاﺅنڈیشن میں اساتذہ کی بھرتی کے لیے اشتہار موجود ہے۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ شکر الحمداللہ کے ورد کے ساتھ جب لنک اوپن کیا تو ساری خوشی اڑن چھو ہو گئی۔ ایک پل میں جو امیدوں کے تاج محل بنا ڈالے تھے سب ریت کے گھروندے بن کر ڈھے گئے۔ نوکری موجود تھی۔ اشتہار کے مطابق میٹرک تا ماسٹرز اپلائی کر سکتے تھے لیکن یہ کیا 5سال کا تجربہ۔ بات تجربہ کی کیسے کی نہ جائے۔ میں جب ماسٹرز پارٹ 1 کی طالبہ تھی تو فکر معاش اور شوق ایک پرائیویٹ ادارے میں لے گیا۔ 6 ماہ کا کنٹریکٹ کیا اور طے یہ پایا کہ 3 ماہ بعد تنخواہ جو برائے نام تھی یعنی 6 ہزار روپے جس میں سے 2 ہزار کرایہ یعنی ”جی کے بہلانے کو غالب خیال اچھا ہے“ والی صورتحال رہی مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو۔ تنخواہ میں اضافہ ندارد۔ پھر گردش ایام ایک اور ادارے میں لے گئی۔ اسکول بڑا اچھا تھا مگر حالات وہی۔ 7 ہزار تنخواہ کے ساتھ مسائل کے انبار۔ اللہ اللہ مدت ملازمت پوری ہوئی۔ ان حالات میں تجربہ کہاں سے لایا جائے۔ اب تو معلوم پڑا کہ پرائیویٹ اسکول جہاں 2 سال پہلے 7 ہزار تنخواہ تھی، کم کر کے 2 سے 3 ہزار کر دی گئی ہے۔ اس صورتحال میں تجربہ حاصل کرنے سے بہتر ہے فاقوں مر لیا جائے۔ کوئی ایسا قانون ہونا چاہیے جو اساتذہ اور مزدور کی ماہانہ اجرت کو صرف بجٹ کی حد تک نہیں عملی زندگی میں بھی اس کا اطلاق کر سکے تاکہ تجربے کہ نام پہ غریب کا استحصال بند ہو۔ 
ایک شخص 16 سال کی تعلیمی معیاد پوری کر کے فکر معاش میں 16 سال کی تعلیم کو بھلا دیتا ہے۔ در در ٹھوکریں کھا کہ بھی چند روپے اور تجربے کے نام پہ ایک کاغذ کا ناہنجار ٹکڑا اسے خودکشی کے سوا کوئی راستہ نہیں دکھا سکتا۔ عرض یہ ہے کہ سرکاری ادارے اگر تعلیمی قابلیت کو معیار نہیں سمجھتے تو خدارا ہمیں رسوا نہ کیجیے۔ ہم کتابی باتیں نہیں کر سکتے کہ ہماری تعلیم کا مقصد صرف شعور کا حصول ہے۔ ہم اس دور میں جی رہے ہیں کہ روزی روٹی کے لالے ہیں۔ لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں۔ ایسے میں تعلیم شعور کم اور تجربہ زیادہ دے جاتی ہے۔ وہ غریب مزدور جو دہاڑی نہ لگنے اور اپنی بیماری کے باعث سوکھی روٹی بمشکل پوری کرتا ہے۔ وہ اپنے بچے کو 16 سال کیوں پڑھائے؟ پڑھائے بھی تو اگلے 5 سال تجربے کے لیے بھوکا رہے اور پھر اگر قسمت اچھی ہوئی تو نوکری ورنہ مزدوری یعنی دنیا واقعی گول ہے۔ گھوم پھر کہ مزدور کا بچہ 16 سال کی تعلیم اور تجربے کے بعد بھی مزدور رہا۔
ارباب ہنر اس بات سے متفق ہوں گے کہ تعلیمی قابلیت کے ساتھ ایک مخصوص مقابلے کا امتحان پاس کر کے آنے والے طلبہ و طالبات اس قابل ہیں کہ بہترین کام کر سکیں۔ بغیر سیکھے تجربہ کیسے حاصل کیا جائے لہٰذا سیکھنے کے لیے سرکاری اور نجی اداروں کے لیے نوکری کے قواعد وقوانین میں ترمیم کرنا ناگزیر ہے۔

Monday, July 15, 2019

قلم کا دکھ

 راحت جبین

قلم کیا ہے؟ دیکھنے میں ایک معمولی چیز مگر اس کی طاقت بہت زیادہ ہے۔ یہ طاقت اس وقت سوا ہو جاتی ہےجب سچ بھی اس کا ساتھ دے۔ قلم سے نکلے ہوئے لفظوں کے تیر برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس کے نتیجے میں کئی لوگ پابند سلاسل ہوجاتے ہیں اور کئی تختہ دار پر چڑھا دیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ قلم دانوں کی گردنیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ قلم سے نکلے ہوئے یہ لفظ اگر کسی کی زبان پر آجائیں تو زبانیں تک کاٹ دی جاتی ہیں۔ قلم کی سچائی اور طاقت کو ہر دور اور ہر جگہ دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اہل قلم تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ ایک سچائی کے پیرو کار، ایک مصلحت کا شکار اور تیسرا گروہ ہے ان اہل قلم کا جن کے قلم بک چکے ہیں۔ ان کے الفاظ دوسروں کے مرہون منت ہیں اور ان کی خواہشات کے تابع ہیں۔ ان سب کے لکھنے کے طریقوں میں اور بدلے میں لوگوں کی جانب سے ملنے والے رد عمل میں بھی بہت فرق ہوتا ہے۔
ہمارا معاشرہ اور ہم سب آ زاد ہوتے ہوئے بھی ذہنی غلامی کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ایک غلامانہ ذہنیت والے شخص کو سچائی بھی بمشکل ہضم ہوتی ہے کیوںکہ اس کا ذہن خود سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے مالا مال ہونے کے باوجود بھی اپنی صلاحیتوں کو استعمال میں لانے میں معزول ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو وہی سچ لگتا ہے جو انہیں دکھایا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ہی اس طرح کے اہل قلم مسلط کیے جاتے ہیں، جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کا لبادہ اوڑھا کر پیش کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ بھیانک سچ تویہ ہے کہ یہ لوگ اپنے ضمیر کو سودا کر چکے ہوتے ہیں۔ ہاتھ اور قلم ان کے ہوتے ہیں مگر الفاظ ان کے نہیں ہوتے۔
 افسوس تو یہ ہے کہ اس طرح کے ضمیر فروش قلمکاروں کو مختلف اعزازات سے نوازا بھی جاتا ہے مگر اس سچائی کے پیچھے ایک اور بھیانک حقیقت کار فرما ہے۔ وہ ہے قلم کاروں کی معاشی تنگدستی اور مادیت پسندی، جو کہ ایک قلم کار کو اس کے لفظوں کا سودا کرنے پر مجبور کرتاہے۔ ہمارہ معاشرہ اتنا منافقانہ رویے کا حامل ہے کہ قلم کار کو زیادہ تر مصلحت کا دامن تھامنا پڑتا ہے۔ یہی رویہ لکھاریوں کو جھوٹی کہانیاں، جھوٹے افسانے اور جھوٹی شاعری کرنے پر اکساتی ہے۔ اس سے قلم کار کو دو فائدے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو سچ وہ کھل کر نہیں لکھ سکتا۔ وہ کہانی کی آ ڑ میں کہہ جاتا ہے۔ دوم اس کو اس بات کی بھی تسلی ہو جاتی ہے کہ معاشرے کی اصلاح میں اس نے کسی حد تک اپنا حصہ ڈال لیاہے مگر لوگوں کی منافقت یہاں عیاں ہوجاتی ہے جب وہ کہانی، افسانوں اور ڈراموں کے کرداروں کے دکھ درد کے لیے تڑپتے ہیں اور آ نسو بہاتے ہیں مگر حقیقی زندگی کے ان کرداروں کو ڈرامہ باز کا خطاب دیتے ہیں۔
اگر کوئی قلم کار سچائی کو اس کے حقیقی کرداروں کی ساتھ عیاں کردے تو اسے مجرم گردانا جاتا ہے۔ لعنتوں، مزاحمتوں اور گالیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ باادب سے بے ادب گردانا جاتا ہے اور اکثر اوقات تو اس پر غداری اور بغاوت کا الزام بھی لگ جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سچ بولنے اور سننے کی خواہش تو سب کرتے ہیں مگر سچائی کو برداشت کرنا اورقلم کار کے لکھے سچ کو برداشت کرنا سب کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ نہ جانے وہ کونسا دور ہوگا جب قلم کو پابہ زنجیر سے آ زاد کیا جائے گا اور سچ کا بول بالا ہوگا۔ آج یرغمال قلم ہماری طاقت بننے کے بجائے ہمارا دکھ، ہماری کمزوری اور ہماری مجبوری بن گیا ہے۔

Saturday, July 13, 2019

کرکٹ آفیشلز کی غیر آفیشل حرکت

 عارف رمضان جتوئی
بلوچستان کو انصاف دو۔۔۔
کرکٹ کے ورلڈ کپ کا 37 واں میچ برطانیہ میں جاری تھا۔ پاکستان بمقابلہ افغانستان کا یہ میچ کئی لحاظ سے اہم بھی تھا۔ اتنے میں ہلکی سی گرج کی آواز سنائی دی۔ ایک شائق نے آواز کی سمت کان لگائے تو معلوم ہوا جہاز کی آواز ہے۔ جہاز کا تعاقب کرتا ہوا جب اس کے موبائل کا کیمرہ آسمان کی جانب گیا تو وہاں پر چھوٹا سا طیارہ گزر رہا تھا۔ اس طیارے کے پیچھے ایک بینر لٹک رہا تھا۔ جس پر لکھا تھا ”جسٹس فار بلوچستان“۔ بلوچستان کو انصاف دو۔ 
مہان ملک کے، مہان شہر کے، مہان اسٹیڈیم میں، مہان ٹورنمنٹ کے، مہان میچ کے دوران عین اوپر سے مکمل پلاننگ کے ساتھ گزرنے والے اس چھوٹے جہاز کے پیچھے لٹکتا بینر کئی سوالات چھوڑ گیا۔۔ یہ سب وہاں کے سکیورٹی اداروں کے علم کے بغیر کیسے ہوسکتا ہے۔ کیا وہ سب اس سے واقف نہیں ہوں گے اور پھر کیا تو کس نے کیا؟
یہ سب دیکھ کر آپ کو شاید ففتھ جنریشن وار یعنی نظریات اور سوچ کی جنگ کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔۔ یہ سب ایک منظم منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے۔ ہمارے کئی لوگ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر مذاق اڑا رہے تھے۔ انہیں شاید آنے والی تباہی کا ادراک ہی نہ ہو۔ یہ سب دیکھ کر اب اندازہ ہوجانا چاہیے کہ اتنا خرچہ کر کے وہ بلوچستان کو ہی کیوں انصاف دلانے لگے ہیں۔ کشمیر نظر آیا، نہ فلسطین، برما نظر آیا، نہ شام و عراق مظلوم ترین دنیا کے کئی ممالک اور بھی تھے پھر یہ بلوچستان کا دکھ ان کو کیوں ہوگیا۔
بلوچستان میں نفرت کا بیچ بویا، پھر ان نوجوانوں کو ملک کے خلاف کیا۔۔ محرومیاں ہیں مگر ان کا غلط استعمال کیا گیا۔ پھر اس کے بعد پٹھان بھائیوں میں نفرت کا بیچ بویا۔ انہیں سلطنت کے خلاف کیا۔ محرومیاں یہاں بھی تھیں مگر ان کا غلط استعمال کیا گیا۔ سلسلہ تھما نہیں ایک فتنہ ختم ہوا نہیں کہ دوسرا چالو ہوجاتا ہے۔محرومیوں کے پیچھے وردی ہے۔ یہ سب کو بتایا اور پھر اس پر اس وردی میں کھڑے جوان کو مارنے کی تربیت دی اور پھر اس کو شہید کروانے پر لاکھوں کی فنڈنگ کی۔ سندھیوں کو بھی کہا گیا تم ایک محروم قوم ہو۔۔ وہاں بھی قوم پرست کھڑے کیے۔۔ ان کو بھی ملک و قوم اور سلطنت کے خلاف کھڑا کیا۔
پنجاب میں سرائیکیوں کی محرومیاں بھی ہیں۔ ان کو بھی کہا گیا کہ تخت پنجاب کے خلاف کھڑے ہوجاﺅ۔۔۔ یوں وہاں بھی نفرت کا بیچ بونے کی کوشش کی گئی۔ پختونخوا میں پٹھانوں کے نام پر صوبہ دے کر وہاں کے ہزارویوں کو یہ کہا گیا کہ تم محروم قوم ہو۔ اس لیے ان سے لڑو اور اپنا حق لو۔۔ کئی ہزارہ کے نوجوان اس دھوکے میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ ساتھ ساتھ کچھ قومی اسمبلی کے ایکٹرز کو بھی اس میں استعمال کیا گیا۔ موٹی رقم دی گئی تاکہ وہ ایکٹرز اپنا رول ادا کرسکیں۔ فوج اور ملک مخالفت کے ہر پلیٹ فورم پر وہ ایکٹرز سرفہرست نظر آتے ہیں۔ وجہ نمایاں ہے کہ ان کے پس پردہ ان کا بیانیہ اور ان کی سوچ کو پختگی ملتی ہے۔
یہ سب ایک منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔ بلوچستان کا معاملہ کئی دہائیوں سے چلا رہا ہے۔ انڈیا اس میں ڈائریکٹ ملوث رہا ہے۔ کئی جاسوس گرفتار کیے گئے جو واضح ثبوت ہے۔ پاکستان کے خلاف چلنے والی مہمات میں بھارت تو ہے البتہ ایران اور افغانستان اس میں ملوث ہیں یا نہیں اس پر کچھ کہنا شاید بڑی بات ہوگی مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کے مخالف مہمات کی شروعات ہی ایران اور افغانستان کی سرحدوں سے ہوتی ہے۔ پاکستان کو اپنی زمین دہشت گردوں کے خلاف استعمال نہ کرنے دینے کے راگ الاپتے تھکتے نہیں مگر ہمیشہ سے یہ سب وہ خود کررہے ہیں۔ میدانوں کی ہاری ہوئی جنگ پٹے ہوئے گھوڑے اب میڈیا، سوشل میڈیا اور کھیل کے میدان میں جیتنے آگئے ہیں۔
رسوائی اور ناکامی جن کا مقدر ٹھہرے اسے ہر محاذ پر وہی سب ملتا ہے۔ پاکستان کے خلاف اس وقت ہمسائیوں کا یہ کردار نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ یہ پیغام بھی ہے کہ ہمیں اپنی تیاری کو اسی انداز سے بڑھانا ہوگا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی قیادت اور افواج پاکستان اپنے کسی بھی اندرونی اور بیرونی دشمن سے ناواقف نہیں اور نہ ہی وہ کسی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ انہیں مکمل ادراک ہے کہ کون کہاں اور کب کیا کررہا ہے۔
یہاں ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم جو میڈیا، سوشل میڈیا اور کئی دیگر جگہوں سے ملنے والی ادھوری، نامکمل اور غیر مصدقہ باتوں سے تعلیم حاصل کررہے ہیں اس سے بچیں۔ یہ تعلیم ہمارا پہلے بہت نقصان کرچکی ہے۔ آپ کا اپنا وہ ہے جو آپ کے لیے سرحد پر گولی کھانے کے لیے بھی تیار ہے۔ وہ ہرگز نہیں جو آپ کو گولی کے سامنے کھڑا کر کے پیچھے چھپ جائے اور موقع ملنے پر آپ کو قربان کر کے چل دے۔
تھوڑی سی توجہ کیجیے ان حالات کی باریکیوں کو سمجھیے۔ آپ سوچ سکتے ہیں یہ ورلڈ کپ کے اہم ترین میچ میں کھیل کی باتوں کے درمیان اچانک جہاز کا یوں اوپر سے گزارا جانا اور اس پر ایک چھوٹے سے ملک کے چھوٹے علاقے کی بات کرنا۔۔۔۔ حقیقت میں یہ ملک چھوٹا دکھتا ہے مگر ہے نہیں، اس بات کا اندازہ مشرق سے لے کر مغرب سب کو ہے۔ ایک نہیں ہے تو مجھے آپ کو نہیں ہورہا کیوں کہ ہم اس کا اندازہ لگانا ہی نہیں چاہ رہے۔ تو خدارا لگائیے یہ بات غیر معمولی ہے۔ اس کو سنجیدہ لیجیے اور سوچیے کہ یہ سب کیوں کس لیے اور کون کررہا ہے۔ اللہ سمجھ دے۔ آمین
پاکستان زندہ باد
پاک فوج زندہ باد

علم عرفان و ہدایت کا چراغ

 ام محمد عبد اللہ

تا حد نگاہ پھیلا ایک چٹیل میدان تھا۔ دریا، پہاڑ، کھائی، ٹیلے، سمندر، جنگل کچھ بھی نہ تھا۔ نہ کوئی نشیب نہ فراز۔ فقط ایک چٹیل میدان اور آگ اگلتا آسمان۔ کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ برہنہ بدن، حسرت و یاس لیے ایک ہجوم تھا جو چیخ رہا تھا چلا رہا تھا۔ تڑپ اور سسک رہا تھا۔ لیکن آہ و فغاں سننے والا کوئی نہ تھا۔ اسی بھڑکتی آگ اور شعلوں کی حدت سے بے دم ہوتے وہ ہجوم کے بیچوں بیچ آہستہ آہستہ چلنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کے ساتھ ہی منظر بدل سا گیا تھا۔
یہ معصوم بھولے بھالے نوعمر بچے تھے۔ کستوری کی مہک ان کے چاراطراف بکھری ہوئی تھی۔ بمثل خورشید نور کے تاج تھے جو انہوں نے سروں پر پہن رکھے تھے۔ آج جب سب بے لباس تھے۔ ان کا لباس اور آن بان دیدنی تھی۔ خوشی اور نور ان کے چہروں سے پھوٹ رہا تھا۔ لیکن ابھی کہاں۔ معزز اور اطاعت گزار نورانی فرشتے انہیں سلامتی اور بلند درجات کی خوشخبریاں سنا رہے تھے کہ اچانک منادی کرنے والے نے صدا لگائی۔ سانحہ پشاور اور سانحہ قندوز کے مجرموں کو بھیڑ میں سے الگ کر لیا جائے کہ آج بدلے کا دن آن پہنچا ہے۔ مجرموں کی چیخ و پکار، دہکتے شعلوں کی حدت، آسمان کی سرخی غرض ہر چیز میں یکدم اضافہ ہوا تھا۔ بھڑکتے الاو کی شدت سے بے حال ہوتے انہوں نے پلٹ کر دیکھا۔ آتش فشاں جیسی آگ تھی جو بس انہیں چھونے کو تھی۔ وہ ڈر کے مارے آگے کو دوڑنا شروع ہوئے تو دو کرخت چہروں والے فرشتوں نے انہیں آلیا۔
سانحہ قندوز اور سانحہ پشاور کے مجرموں کو پکڑا جائے۔ نہیں نہیں میرا ان سانحات سے کوئی تعلق نہیں۔ میں تو ایک عام سا پاکستانی تھا۔ میں دہشت گرد نہیں تھا۔ یہ دہشت گرد نہیں تھا۔ اس کو پروردگار عالم نے چار بچوں کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ جب پشاور میں امت کے معصوموں کا لہو بہایا گیا۔ جب قندوز میں حفاظ کے قرآن خون سے تر تھے۔ اس وقت اس کے گھر میں قرآن پاک الماری میں سجا تھا اور اس کے بچے موبائل پر گیم کھیلنے اور ٹی وی پر کارٹون دیکھنے میں مصروف تھے۔ اس نے اپنی غفلت سے چار امتی ضائع کر دیے۔ اس کے لیے آگ ہے آگ۔ پیچھے دہکتی ہوئی آگ تھی۔ دائیں بائیں آگ تھی۔ آگے آگ تھی۔ اے میرے رب۔ آج شدت سے رب یاد آیا تھا۔
آہ میرے بچو! آہ میری رعیت! آہ میں نے تمہیں دنیا میں کیا سکھایا۔ ان کے بیوی اور بچے سوالیہ نشان بنے انہیں چاروں جانب سے گھیرے ہوئے تھے۔ نہیں نہیں کی تکرار کرتے احمد صاحب ہڑا بڑا کر اٹھ بیٹھے تھے۔ دیوار گیر گھڑی رات کے ڈھائی بجا رہی تھی۔ قریب ہی پرسکون نیند سوئی ہوئی ان کی رعیت ۔ میری بیوی، میرے بچے، میرے گھر والے۔ کیسا استحقاق تھا ناں اور یہ استحقاق کچھ تقاضے کرتا تھا۔ معاشی سہولیات سے بلند تر تقاضے، تعلیم و تربیت کے تقاضے، نفع بخش علم و عمل کے تقاضے۔ جس کے سر پر ایسی بھاری ذمے داری رکھی ہو وہ کیونکر سو پائے گا۔ وہ اٹھ گئے تھے، رات کا پچھلا پہر، ہر طرف پھیلا سکوت، ستاروں سے جھلملاتا آسمان۔ میرا رب آسمان دنیا پر ہے۔ مجھے پکار رہا ہے۔ ایک خیال روشنی بن کر ذہن میں کوندا۔ روز پکارتا ہے۔ جب تم سوئے ہوتے ہو۔ کسی نے کان میں گویا سرگوشی کی۔ ایک آنسو رخسار پر ڈھلک آیا تھا۔ ”اے اللہ تو ہی میرا رب ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں“۔
وضو مضطرب اعضا کو سکون بخش رہا تھا۔ میری رعیت۔ انہوں نے خود کلامی کی۔ ”زینب اٹھیے“۔ گہری نیند ہی میں زینب نے کروٹ بدل لی تھی۔پانی کا ایک نرم سا چھینٹا۔ انہوں نے آنکھیں کھول کر شوہر کی جانب دیکھا۔ ہمارا رب آسمان دنیا پر ہمیں پکار رہا ہے۔ روز پکارتا ہے آج اٹھ جائیے۔ انہوں نے جیسے التجا کی کہ اگر وہ نہ اٹھیں تو آگ تو بس ان کے پاو ¿ں تلے دہک ہی رہی تھی۔ تہجد کے نوافل میں وہ قرات کر رہے تھے۔ زینب ان کے ہمراہ تھی۔ زینب! رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں شب قدر ہے اور اسی شب کی مبارک و منور ساعتوں میں اللہ تعالی کے مقرب فرشتے جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالی کا یہ پیغام تمام نوع انسانی کے لیے لے کر ہمارے پیارے و محترم نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تھے۔ ”پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا“۔
آئیے زینب مل کر اپنی غلطیوں کا جائزہ لیں۔ ان پر اللہ تعالی سے معافی مانگیں۔ اپنی اصلاح کریں۔ قرآن پاک اور اسوہ رسول حسنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رہنمائی اور اکتساب فیض کے لیے کوئی پروگرام ترتیب دیں۔ ”آئیے زینب کہ قرآن پاک کا ہم پر حق ہے کہ اسے پڑھیں، سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ ہم اس گھر کے، ان بچوں کے نگراں اور ذمے دار ہیں۔ میں اس گھر کا نگراں اور جوابدہ ہوں۔ جوابدہی کے خوف سے زباں لڑکھڑا سی گئی تھی۔ خوف آنکھوں سے جھلک رہا تھا۔ آپ ان بچوں پر نگراں اور جواب دہ ہیں“۔ زینب بنا پلکیں جھپکائے یک ٹک انہیں دیکھے جا رہی تھیں۔ 
یہ گھر جہاں خاندان رہتا ہے ناں بہت بابرکت جگہ ہے۔ کیوں نہ ہم قرآن پاک سے عملی تعلق کی بحالی کا پروگرام اپنے گھر سے شروع کریں۔ کبھی میں نگران بنوں اور آپ معاون۔ کبھی آپ نگران اور میں معاون ہم دونوں مل کر اپنے اور اپنے بچوں کو قرآن کے نور سے، تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے منور کرنے میں لگ جائیں کے اس دن جب کہیں جائے اماں نہ ہوگی۔ 
جب سانحہ پشاور اور سانحہ قندوز کے مجرموں کو کٹھہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔ جب ہر طرف زمین آگ اگل رہی ہوگی آسمان آگ برسا رہا ہو گا اس روز، اس روز۔ وہ دونوں ہچکیوں سے رونے لگے تھے۔ مالک! آقا اس روز ہمارا شمار قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں میں کرنا۔ آمین تم میں سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔ کرن سورة العلق کی تلاوت کر رہی تھی۔ کاشف ترجمہ پڑھ کر سنا رہا تھا۔ ابا جان بچوں کو بتا رہے تھے۔ اللہ تعالی نے اپنی ہر مخلوق کو حسب ضرورت علم عطا کیا۔ جیسے مچھلی کو تیرنے کا علم، پرندوں کو اڑنے کا علم۔ فرشتوں اور جنات کو بھی علم عطا ہوا لیکن انسان کو بہت زیادہ علم عطا کر کے تمام مخلوقات پر فضیلت عطا کی گئی۔ اللہ تعالی کا عطا کردہ یہ علم جسے علم الاسماءکہا جاتا ہے کی بدولت ہی انسان کو اللہ کا نائب او مسجود ملائک ہونے کا شرف ملا۔امی اور بابا جانی بچوں کو سورة العلق کی تفسیر سکھا رہے تھے۔ ننھے اذہان علم کی قدر وقیمت سمجھنے لگے تھے۔

 ہمیں حکم ربانی ہے کہ سیکھیں، وہ علم جو منتشر گروہوں کو ملت واحدہ میں بدلتا ہے، جو اضطراب کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں سکون کی کرنیں بکھیرتا ہے۔ وہ علم جو تفکر کائنات کی دعوت دے کر ستاروں پر کمند ڈالتا ہے۔ نافع تخلیقات اور ایجادات کی راہیں کھولتا ہے۔ وہ علم جو خالق کی رضا اور مخلوق کے لیے امن و سلامتی بنتا ہے۔ اے ہمارے رب! ہم اس قابل نہیں کہ قرآن پاک پڑھنے اور پڑھانے کا حق ادا کر سکیں لیکن تیری رحمت پر نظر رکھتے ہوئے ہم اس فریضہ عظیم کو ادا کرنے کا ارادہ کر چکے اور ہم نے تجھ پر توکل کیا اور تو ارادوں کو پورا کرنے والا، راہ ہدایت دکھانے والا، اس پر چلانے والا اور منزل تک پہچانے والا ہے۔ ہم نے تجھ پر بھروسہ اور تجھ پر توکل کیا۔ تو ہماری نیتوں کو خالص اور ہمارے اعمال کو قبولیت بخش دے۔ ہمارے ہر گھر کو اصحاب صفحہ کا چبوترہ بنا دے۔ بے شک ہم تیرے ہیں۔ تیری جانب ہی ہمیں پلٹنا ہے۔ ہمیں، شہداءاور ان کے لواحقین کو اجر و ثواب عطا فرما۔ آمین ثم آمین

نظریہ پاکستان، پاکستان کی بقا کا ضامن

 فاطمہ خان 

مملکتِ خدادا، پاکستان نظریہ اسلام کے تحت وجود میں آیا۔ جس کی بنیاد اسلام کے رہنما اصول تھے۔ نظریہ کسی بھی قوم کے استحکام کے ساتھ ساتھ اس کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے۔ مسلمانان ہند برسوں غلامی کے طوق گلے میں پہنے ہوئے تھے، جب علامہ اقبال کے تصور کے آئینے میں قائد اعظم نے نظریہ اسلام کے پیرہن میں نظریہ پاکستان پیش کیا۔ نظریہ پاکستان در حقیقت نظریہ اسلام ہے۔ اسلام دین الہی ہے۔ اللہ نے اسلام کو بطور دین پسند فرمایا۔ اسلام دراصل مکمل ضابطہِ حیات ہے، جس میں اللہ نے معاشی، معاشرتی، مذہبی، سیاسی، ثقافتی زندگی گزارنے سے متعلق رہنمائی فرمائی ہے۔ تاریخ کے آئینے سے اگر پردہ اٹھایا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نظریہ پاکستان کی اصل اسلام ہے۔
آئیے اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں۔ نظریہ پاکستان کے اہم عناصر کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اقتدارِاعلی اس کا بنیادی ستون قرار پاتا ہے۔ مسلمانان ہند نے ایک الگ وطن حاصل کیا تا کے ایک اللہ کی عبادت کر سکیں۔ اس کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر زندگی بسر کر سکیں۔ نظریہ پاکستان کی بقا کا دوسرا اہم ستون اقتدارِ اعلی کا تصور ہے۔ حاکمیت صرف اس ذاتِ پاک کی عطا کردہ ہے تا کہ اس کے بنائے ہوئے نظام کو دنیا میں رائج کیا جائے۔ انسان اس دنیا میں اللہ کا نائب بن کر آیا ہے، یہ جاہ و جلال عارضی اور اس ذات کا تفویض کردہ ہے۔ مسلمان جب دائرہِ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس بات کا اعتراف کرتا ہے ”لاالہ الااللہ“۔ ”کوئی معبود نہیں ما سوائے اللہ“۔
ہم نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ نظریہ اسلام ہی درحقیقت نظریہ پاکستان ہے تو اس بات میں شک وشبہ نہیں کہ واحدانیت اور اقتدارِ اعلی کا حقیقی مالک اللہ تبارک وتعالی ہے۔ جیسے جیسے تاریخ کی ورق گردانی کریں تو اقتدارِ اعلی کا مالک دنیاوی حکمرانوں کو تصور کیا جاتا رہا ہے اور اسی لیے دنیا جنگ وجدل میں مبتلا رہی۔ اگر اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے تو امن کے پنچھی ہواوں میں جھومتے نظر آئیں گے۔ جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے۔ 
نظریہ پاکستان کی بقا میں اخوت، معاشرتی عدل و انصاف اور روداری جیسی صفات بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ پاکستان مسلم اکثریت کے علاقوں کو ملا کر بنایا گیا۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختون خواہ، گلگت بلتستان اور بلوچستان مسلم اکثریتی علاقے ضرور تھے لیکن ان علاقوں کے بسنے والے مختلف زبانیں بولنے والے تھے۔ جن کا رہن سہن، رسم ورواج جدا جدا تھے لیکن ان میں ایک چیز مشترک تھی جو کے دینِ اسلام ہے۔ دینِ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے اور اسلام کے نام پر یہ تمام منفرد خصوصیات کے حامل لوگ ایک پرچم تلے جمع ہوئے۔ ان کے اتحاد نے پاکستان کی بنیادیں مضبوط بنائیں۔ علامہ اقبالؒ نے مسلم امہ کے اتحاد کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی شاعری میں بارہا اس کی اہمیت پر زور دیا۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
آج معاشرتی مسائل میں سرفہرست لسانی مسائل ہیں جو ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ جس سے پاکستان کی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے اور نظریہ پاکستان بھی مانند ہوتا چلا جارہا ہے۔ موجودہ دور افراتفری کا دور ہے، سب اسی دوڑ میں دوڑے چلے جا رہے ہیں اور اقدار اپنی افادیت کھو رہے ہیں۔ پاکستان کی بقا کے لیے ہمیں پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان کی حدود سے باہر نکل کر سوچنا ہو گا۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا یہی اس کی سلامتی کا ضامن ہے اگر مسلمان دینِ الہی کو پسِ پشت ڈال دیں تو زوال کا شکار ہو جائیں گے۔
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیروجواں بے تاب ہو جا
قائداعظمؒ نے21 مارچ 1948 میں ڈھاکہ کی عوام سے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ ”میں چاہتا ہوں آپ پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان اور بنگالی بن کر بات نہ کریں۔ یہ کہنے میں آخر کیا فائدہ ہے کہ ہم پنجابی، سندھی یا پٹھان ہیں، ہم تو بس مسلمان ہیں“۔ 
قائد کی دوراندیشی قابلِ تحسین ہے کہ آپ نے وقت کی ضرورت اور علاقائی تعصبات سے عوام کو آگاہی دی۔ پاکستانی قوم منتشر ہے اور اسے پھر سے متحد ہونے کی ضرورت ہے تا کے نظریہ پاکستان اپنی افادیت برقرار رکھے۔ 
پاکستان کی بقا میں ایک اور اہم عنصر جمہوریت کا فروغ بھی ہے۔ جمہوریت ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس میں عوامی رائے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں۔ جمہوری اقدار کو فروغ دیا جاتا ہے۔ معاشرے میں توازن پیدا ہوتا ہے اور یوں پاکستان کی بنیادیں مظبوط ہوتی ہیں۔ ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ افراتفری کی صورتحال ختم ہوتی ہے۔ 
نظریہ پاکستان کی بقا کا براہ راست تعلق نوجوان نسل سے ہے۔ پاکستان کی آزادی میں لاکھوں نوجوانوں نے قربانیاں دیں۔ آزادی کے جس پیڑ کی چھاو ¿ں میں آج ہم سکھ کا سانس لیتے ہیں، انہیں نوجوانوں نے اس پیڑ کی آبیاری اپنے لہو سے کی۔ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں، رشتہ داروں کی جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔ دن رات وطن کی خاطر ایک کر ڈالے تب جا کر یہ ننھا سا پودا حالات کی آندھیوں سے لڑتا، ڈگمگاتا ہوا آج ایک تناور درخت کی صورت میں موجود ہے۔ 
علامہ نوجوانوں کو انقلابی تصور کرتے تھے اسی لیے اپنی بہت سی نظموں میں نوجوانوں کو تحریک دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
کبھی اے نوجوانِ مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا جس کا ہے تو ٹوٹا ہوا تارا
ایک اور جگہ کہتے ہیں
عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
نوجوان نسل کا اپنے نظریے سے مربوط رہنا از حد ضروری ہوتا ہے۔ نظریہ پاکستان اور نظریہ اسلام کی بقا اسی بات میں پوشیدہ ہے۔ اسلام سے وابستگی بھی نظریہ پاکستان کی بقا کا عنصر ہے۔ اسلام ہی وہ منزل ہے جس کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا۔ اگر اسلام سے دوری روا رکھی جائے گی تو نظریہ پاکستان اپنی موت آپ مر جائے گا۔ قرآن پاک اس ضمن میں انسان کی بھرپور رہنما ئی کرتا ہے۔ 
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
نظریہ پاکستان ایک سوچ ہے، ایک انداز ہے جس کے مطابق ہم نے اپنی نسلوں کی تربیت کرنی ہے۔ بڑے لوگ اپنی قوموں کو بڑے نظریے دیتے ہیں۔ ہمیں بھی ایک نظریہ ملا ہے جس کو روحانی عطا کہا جاتا ہے۔ نظریہ پاکستان کی بقا کے لیے ہمہ وقت ان تمام عناصر کی تکمیل ضروری ہے۔ پاکستان تا قیامت قائم رہے اور اسی آب وتاب کے ساتھ اسلام سے وابستہ رہے۔

تعلیم کی ضرورت اور اہمیت

 محمد مبین جوئیہ

تعلیم ہر ذی شعور انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب، مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے۔ یہ انسان کا حق ہے جو کوئی اس سے نہیں چھین سکتا۔ اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہے۔ تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی کی ضامن ہے۔ یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف اسکول، کالج، یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اس کے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور اقدار کا خیال رکھ سکے۔ تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوراتی ہے۔ دنیا میں ہر چیز دیکھی جائے تو وہ بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے۔ اسلام میں تعلیم کے حصول کو فرض کا درجہ دے کر اس کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ 
آج کے اس پر آشوب اور تےز ترین دور میں تعلیم کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ جدید علوم تو ضروری ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ آج جب کے نسل نو بے حیائی کی طرف راغب ہے، فحاشی اور عریانیت کا دور دورہ ہے تو ایسے میں اپنی نوجوان نسل کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنا ازحد ضروری ہے۔ تعلیم کی اولین مقاصد میں ہمیشہ انسان کی ذہنی، جسمانی او روحانی نشونما کرنا ہے تعلیم کے حصول کے لیے قابل اساتذہ کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ درحقیقت بہترین استاد وہ ہے جو بچوں کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے۔ انہیں شعور و ادراک، علم و آگہی نیز فکر و نظر کی دولت سے اپنے شاگرد کو مالا مال کرتا ہے۔ ایسے اساتذہ حقیقتا وہ جوہری ہوتے ہیں جو معاشرے کو ہیرے تراش کر دیتے ہیں۔
 افسوس آج کے ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں جہاں سائنس دان کائنات کو تسخیر کر رہے ہیں، آئے روز نت نئی تحقیق، تجربات اور ایجادات کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رہے ہیں وہیں ہمارا تعلیمی معیار دن بدن تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ ہم آج بھی بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کے بجائے رٹہ سسٹم کو فروغ دینے میں مصروف عمل ہیں۔ ہم نے بچوں کے لیے تعلیم کو سیکھنے کا ذریعہ بنانے کے بجائے بوجھ بنا دیا ہے جسے وہ زبردستی لادے ہوئے ہیں اور موقع میسر آتے ہی اس سے جان چھڑانے کے در پے ہوتے ہیں۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کے مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں معراج پاکر دین و دنیا میں سربلندی اور ترقی حاصل کی لیکن جب بھی مسلمان علم اور تعلیم سے دور ہوئے وہ غلام بنالیے گئے یا پھر جب بھی انہوں نے تعلیم کے مواقع سے خود کو محروم کیا وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے۔ آج پاکستان میں تعلیم ادارے دہشت گردی کے نشانہ پر ہیں۔
 دشمن طاقتیں تعلیم کی طرف سے بدگمان کرکے ملک کو کمزور کرنے کے درپے ہیں ایسے عناصر بھی ملک میں موجود ہیں جو اپنی سرداری، چوہدراہٹ، جاگیرداری کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کی وجہ سے اپنے اثر و رسوخ والے علاقوں میں بچوں کی تعلیم میں روکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثر بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں اوران کا مستقبل سیاہ رہ جاتا ہے اوراسی وجہ سے ہمارے نوجوان طبقہ تعلیم کی ریس میں پچھے رہ جاتے ہے۔ مغرب کی ترقی کا راز صرف تعلیم کو اہمیت دنیا اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا ہے اورایسی تعلیم کے بل پر آج وہ اس مقام پر ہیں۔ مغرب کی کامیابی اور مشرقی کے زوال کی وجہ بھی تعلیم کا نہ ہونا ہے دنیا کے وہ ملک جن کی معیشت تباہ ہوچکی ہے جو دنیا کی بڑی طاقتوں پر انحصار کرتے ہیں ان کا ڈفینس بجٹ تو اربوں روپے کا ہے مگر تعلیم بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر کوئی بھی ملک چاہتا ہے کہ وہ ترقی کرے تو ان کو چاہیے کہ وہ اپنی تعلیمی اداروں کو مضبوط کریں آج تک جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ صرف علم کی بدولت کی ہے علم کی اہمیت سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔

ٹیکنالوجی کے اثرات

 آمنہ زینب

گلوبل ولیج ایک ایسا نام ہے جس کے بارے میں آج کی دنیا میں شاید ہی کوئی انسان ہو جولاعلم ہو۔ آج کی دنیا میں جدید ٹیکنالوجی نے ہمارے معاشرے کو کیا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر گلوبل ولیج کی دنیا میں تبدیل کردیا ہے۔ ہمارے ماضی کی مشکلات کو حل کیا ہے۔ وہاں ساتھ ہی ساتھ آج کی ٹیکنالوجی نے انسان کی انسانیت، آپس کی محبت، انسانی، شرافت، ایمانداری اور خونی رشتے کو بھی جدا کر دیا ہے۔
آج کے دور میں لوگ ساتھ ہوتے ہوئے بھی جدا نظر آتے ہیں۔ یہ سارا ٹیکنالوجی کا ہی اثر ہے جس نے انسان کی انسانیت کو ختم کر کے ایک مشین کا روپ اختیار کرلیا ہے پہلے زمانے میں انسانوں کی مشقت سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ اس جدید ٹیکنالوجی نے ہماری اس گلوبل ولیج کی دنیا میں مشینی انسان جو نہ کوئی احساس و جذبہ رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی ذہنی صلاحیت۔ یہ حقیقت کہ مشینی روبوٹ آج کامیاب فیکٹریوں میں بہترین طریقہ سے انسانی ورکرز کی جگہ کام سرانجام دے رہے ہیں۔ 
مشین نے مختلف طریقوں سے انسانی زندگی میں آسانیاں پیدا کر دی ہیں، پل پل کی خبر پہنچتی ہے۔ موبائیل اور نیٹ بھی انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا ہے۔ جہاں فاصلے کم ہوئے، وہاں کئی برائیوں نے بھی جنم لیا۔ نوجوانوں میں بے راہ روی بڑھ گئی۔ انٹرنیٹ کی دنیا کا غلط استعمال تہذیب و ثقافت اور ملکوں وقوم کو تباہ کر گیا اور اب وہیں ہماری تہذیب کو بھی کھوکھلا کر رہا ہے۔
جہاں ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی میں لاتعداد مشکلات کو آسانی کی شکل میں تبدیل کیا ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ گلوبل ویلج کی دنیا نے بہت سارے مسائل سے بھی انسان کو آگاہ کیا ہے۔ بہت سارے خطرناک مسائل نے بھی جنم لیا ہے اس گلوبل ویلج کی دنیا میں۔ پہلے دور میں جو مسائل لاحق نہ تھے اب اس گلوبل ویلج کی دنیا میں عملی صورت میں رونما ہو رہے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے لوگوں میں بھائی چارہ عام پایا جاتا تھا لیکن آج کل تو ایک معاشرے میں رہے کہ بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے برابر والے گھر میں کس کا بسیرا ہے۔

آج کی گلوبل ویلج کی دنیا میں انسان کی جگہ مادیت نے اپنے نام کر رہی ہے۔ محبت نے مطلبی اختیار کر رکھی ہے، لیکن آج اس حقیقت سے کوئی منہ نہیں موڑ سکتا کے اس انٹرنیٹ کی دنیا نے فحش و بے حیائی کا بازار گرم کیا ہے۔ اس گلوبل ویلج کی دنیا نے نوجوانوں میں فحاشی چیزوں کے ساتھ ساتھ نشے کی لت کو عام کیا ہے۔ آج کی سوشل نیٹ ورکنگ نے جہاں انسانی زندگیوں کو آسان بنایا ہے وہاں لاتعداد خطرناک مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔