June 2019 ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Friday, June 28, 2019

یہ شادی نہیں ہوسکتی

عارف رمضان جتوئی

شادی کی تیاریاں دھوم دھام سے جاری تھیں۔ رخصتی کا وقت جیسے جیسے قریب آرہا تھا دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جارہی تھیں۔ زندگی کے آخری لمحات میں اچانک کوئی مل جائے پھر ہنگامی طور پر محبت بھی ہوجائے اور پھر اس کے ملنے کے اسباب بھی بن جائیں اور ملن کی گھڑیاں چند لمحوں کے بعد آنے والی ہوں تو ایسے میں سانس چلنے سے گریزاں ہوجاتی یہاں دھڑکنیں ہی تیز ہوئی تھیں۔
پہلی شادی کے بوجھ تلے دبا آج میں اپنی زندگی کے حسین ترین ہر لمحے کو اپنے اندر جذب کرنا چاہتا تھا۔ ہر پل الگ تھا، نمایاں تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اچانک زمین سے آسمان کا سفر ہوچلا ہو۔ نام کو دوسری شادی تھی حقیقت میں تو زندگی ہی اسی کا نام تھی۔ ظالم سماج اور بے ذوق لوگ میرے جذبات کو کہاں سمجھ سکتے تھے۔ مجھے کسی کی تنقیدی نگاہوں کی پروا بھی نہیں تھی، وہ کچھ ہی پل میں ہمیشہ کے لیے میری ہونے والی تھی۔ لمحات تھم سے گئے تھے۔ نہ جانے کب وقت پورا ہوگا دل صابرین کی فہرست سے نکل چکا تھا۔ ایسے حالات میں تو انسان اوقات اور انسانیت کی فہرست سے بھی خروج کرلیتا ہے یہ تو پھر بھی دل تھا، صبر کہاں ممکن تھا۔
”ٹھہریں یہ شادی نہیں ہوسکتی“، کسی نے گرج دار آواز میں کہا۔ ایسے محسوس ہوا کہ جیسے کسی بالی ووڈ فلم کے ویری ہارٹ ٹچنگ سین کی طرح ولن کا ڈیڈ پولیس لیے آدھمکا ہو۔ سب کی سانسیں تھم گئیں۔ میں تو جیسے کلٹی (مرنے) ہونے والا تھا۔ ”آپ نے دوسری شادی کا اجازت نامہ نہیں لیا“، افسر نے آگے بڑھ کر مجھ سے پوچھا۔ جی سر لیا ہوا ہے بلکہ میری پہلی بیوی بھی یہی موجود ہیں۔ ان کی مکمل اجازت اور ہر ممکن اخلاقی حمایت مجھے حاصل ہے۔
”محترم! بیوی سے نہیں حکومت سے اجازت لی ہے“۔ ”حکومت مطلب سمجھا نہیں“۔ ”مصالحاتی کمیٹی سے دوسری شادی کا اجازت نامہ لینا اب ضروری ہے۔ آپ نے لیا کیا؟“”نہیں سر وہ تو نہیں لیا“۔ ”اجازت نامہ لیے بغیر شادی غیرقانونی ہے۔ تب تک یہ شادی نہیں ہوسکتی۔ آپ کو ساتھ چلنا ہوگا“۔ افسر کے جملوں نے میرے قدموں کی زمین کھینچ لی تھی۔ سب کچھ آنا فانا ختم ہوگیا۔ دو اہلکار آگے بڑھے اور میری محبت کی ڈولی کی جگہ مجھے ڈولی میں بیٹھا کر لے گئے۔ درد اور کرب اتنا شدید تھا کہ خواب میں بھی میرے حقیقی آنسو نکل آئے تھے۔
خود کو بستر پر ٹھیک حالت میں پاکر پہلی بار مجھے بھیک مانگنے کی غرض سے دروازہ پیٹنے والی پر پیار آیا۔ جو مجھے اکثر خوابوں سے نکال کر حقیقت میں لا کھڑا کرتی ہے۔ آج وہ نہیں آئی تھی مگر آنکھ کھلنے پر خوشی بہت ہوئی۔ خوار محبت کی بھری محفل میں یوں تذلیل کون برداشت کرسکتا تھا۔ میں سلامت تھا، محبت کا کیا ہے سمجھا بجھا کر سلا دیں گے۔ اگر جیل پہنچ جاتے تو جو تھی وہ بھی میکے سدھار جاتی اور گھر میں ہماری عدم حاضری پر الو پہرا دیتے۔ 
محبت پانے کے خواب دیکھنے ختم کیے تھے محبت تو باقی ہی تھی۔ اظہار خیال میں سَنّی جذباتی ہوجاتا۔ آج بھی وہ مسلسل کہہ جا رہا تھا۔ شادی کرلے محبت کی تو ڈرنا کیا۔ اس کے بار بار کہنے پر میں نے جھنجھلا کر کہا، ”اب پکا میری دوسری شادی ہو ہی نہیں ہوسکتی، تم بھی اب یہ فضول باتیں کرنا بند کردو۔ میں کب کا دل کے قبرستان میں محبوبہ کو لال جوڑے سمیت دفن کرچکا“۔ ”کیوں نہیں ہوسکتی؟ ہم ہیں نہ کروائیں گے۔ تمام بندوبست ہوجائے گا، تم گھبراو نہیں“، سنی نے پھر سے ہمت بندھوائی۔ یہ دوست بھی بہت .... ہوتے ہیں۔ انسان کو ہر صورت گڑوانے کے چکر میں رہتے ہیں اور اپنی جان پر کھیل کر دوسرے کی پوری زندگی اجیرن بنانے میں کسر نہیں چھوڑتے۔
نہیں بھئی اب یہ گیند اپنے کورٹ سے باہر نکل گئی ہے۔ پہلے پہلی کو پٹاﺅ (راضی) پھر مصالحاتی کمیٹی کو پٹاﺅ پھر دوسری کو پٹاﺅ پھر اس کے گھر والوں کو پٹاﺅ پھر رخنہ ڈالنے والے ماما کو پٹاﺅ۔ سنی اب یہ شادی نہیں ہوسکتی۔ شادی کب ہوگی جب پوری زندگی پٹنے پٹانے میں ہی نکل جائے گی بلکہ میرا تو سب کے لیے یہی مشورہ ہے جو دوسری محبوبہ کے چکر میں ہیں اب چپ چاپ پھپو، چاچو کی لڑکی سے شادی کرلیں اور دوسری کا خیال ترک کر کے چھچور پنے کی محبت کو مصالحاتی کمیٹی کے دروازے پر چھوڑ آئیں۔ یہ کمیٹی اس سے کہیں زیادہ نچوڑ لے گی جتنا دوسری پر خرچ بھی نہیں ہوئے ہوں گے۔ اس لیے نامراد محبت کو کرو بائے بائے اور دھندے پر لگ کر پہلے والی کے سوکھتے باغ ہرے کرو۔

”ہائیکورٹ کو بھی ابھی فیصلہ دینا تھا“، میں نے دل ہی دل میں خود سے پوچھا اور پھر اگلی کتاب کا ٹائٹل لکھنے بیٹھ گیا ”میں نے بند آنکھوں کے خوابوں کو مصالحالتی کمیٹی میں چکنا چور ہوتے دیکھا“ کتاب کا ٹائٹل تجویز ہوچکا تھا۔ اب صرف محبوبہ کا سراپا تحریر کرنا باقی تھا۔ کتاب تو عدالت کے اسی جج کے نام کروں گا جس نے میری محبت کی کشتی میں آخری کیل ٹھونکا۔ 

مصنوعی گونگوں کی دنیا

عارف رمضان جتوئی

کراچی میں گٹگا کھانے والوں کی تعداد دیگر شہروں کی نسبت زیادہ ہے۔ گٹکا کھانے والوں سے بات کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ آیا اس وقت ان کے منہ میں گٹکا تو نہیں ہے اگر ایسا ہو تو پھر سمجھ صرف ہوں ہوں ہی آتی ہے یا پھر آپ کی گونگوں والی حس بہت تیز ہونی چاہیے۔ 
دکان دار تو اب اس زبان کو بہت خوبی سے سمجھنے لگے ہیں۔ آپ کبھی منہ بند کر کے دودھ والے کو ایک سیدھا اور ایک آدھے کا اشارہ کریں تو وہ سمجھ جائے گا یہ ڈیڑھ کلو دودھ مانگ رہا ہے۔ ایسے ہی اس کے بعد دو کا اشارہ کردیں تو وہ سمجھ جائے گا ڈیڑھ کلو دو جگہ دینا ہے۔ چائے والے کے پاس جاکر آپ خالی آدھے کا اشارہ کریں تو وہ باخوبی سمجھ جائے گا اس کو پوری نہیں بلکہ آدھا کٹ چائے چاہیے۔ ایسے کئی ایک اشارے ہیں جو اب کئی لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ کراچی کی زبان کراچی سے باہر سے آنے والے کو ایک سال تک ٹھیک سے ہرگز سمجھ نہیں آتی خاص طور پر جب آپ اورنگی یا کورنگی میں ہوں۔ کیوں کہ وہاں پر آنٹیوں کی باتیں بھی سمجھ سے بالاتر جائیں گی۔ 
گٹکا ہو یا پان دونوں صورتوں میں پیک پھینکنے والے بہت ہی بدتہذیب اور غیر محتاط ہوتے ہیں۔ کبھی بھی بس (مزدہ) کے پاس سے گزرتے وقت احتیاط کیجیے کہ اتنا قریب نہ ہوں کوئی پیک پھینکے تو آپ اس میں نہا جائیں۔ یہ حملہ کبھی بھی کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ تب آپ گالی دینے اور لعنت دینے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ 
گٹکے کے نقصانات ہی نقصانات ہیں فائدے کوئی نہیں سوائے ایک یا دو کے۔ گٹکے سے کینسر پھیلا اور بڑھتا ہے۔ کئی افراد اسی کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں جاچکے۔ گندگی، ماحولیاتی آلودگی، اخلاقی آلودگی نہ جانے کتنی نقصانات ہیں اس گٹکے کے۔ دو فائدے جو ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں انسان کی بولتی مستقل بند رہتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ گٹکے کا فارمولا اہلیہ پر لازمی آزمانا چاہیے۔ ایک تو خاموشی جیسی نعمت بحال ہوگی اور دوسرا جو تنگ ہیں ان کی اہلیہ سے جلد ہی جان چھوٹ جائے گی۔ (یہ بات مزاحا کہی ہے ایسا ہرگز نہ کیجیے)
موت تو ہے ہی گٹکا۔۔۔ وہ تمام دوست جو گٹکے سے باقاعدہ ناشتہ، لنچ اور ڈنر کرتے ہیں وہ خیال رکھیں۔ اپنا نہیں تو کم از کم اپنے بچوں کا خیال رکھیں۔ آپ کے ساتھ رہنے والوں پر اس کے کتنے برے اثرات پڑتے ہیں کبھی سوچیں۔ ہم صرف چار منٹ آپ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوپاتے وہ جو آپ کے ساتھ ہمیشہ رہتے ہیں، ان کا خیال کیجیے۔ وہ آپ سے محبت کرتے ہیں آپ سے دور تو نہیں جاسکتے مگر ان کو اتنا مشکل اور تکلیف میں ڈال کر آپ محبت کا جواب نفرت سے دیتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ آپ ایسی غیر اخلاقی اشیا کھانے اور استعمال کرنے سے گریز کیجیے۔ اس سے آپ مصنوعی طور پر گونگنے تو ہو ہی جاتے ہیں باوجود ایک صحت مند زبان رکھنے کے ساتھ ہی آپ اپنوں سے بھی دور ہوجاتے ہیں۔ کبھی وہ آپ سے گھن کریں گے کبھی آپ ہی ان سے بات کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ کبھی وہ چاہ کر بھی آپ سے بات نہیں کرسکتے کیوں کہ آپ بات کرنی کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ تو ایسی گومگو کی حالت میں آپ بالکل تنہا ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اپنا اور اپنے ساتھ والوں کا خیال کیجیے کسی اور کا نہیں آپ کا اپنا فائدہ ہے۔

سوشل میڈیا کی طاقت


پاکستان شائد دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مخالفت میں تنقید بالکل برداشت نہیں کی جاتی۔ دنیا بھر میں اداروں، حکومتوں، جماعتوں اور گروہوں پر تنقید اور مخالفت ہونا عام بات ہے لیکن اس تنقید کو بھی ایک حد تک رکھا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا سے قبل اخبارات، ٹیلی ویژن اور عوامی جلسوں کے زریعے تنقید کی جاتی رہی مگر سوشل میڈیا کے متعارف ہوتے ہی مخالفت اور تنقید نے زور پکڑ لیا۔ ایک منٹ میں دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والی ہر اہم سرگرمی فوری طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کی افادیت سے یقینا انکار نہیں مگر پاکستان میںں اکثر سوشل میڈیا کا منفی استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کا کام اسی کو سانجھے کے محاورے کے برعکس ہر فرد اپنے کام ، زمہ داری اور فرض کو چھوڑ کر دوسروں پر تنقید کرتا نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا ہی کے ذریعے لوگ اکثر سستی شہرت کے لیے منفی اقدامات کو فروغ دے کر اپنے مزموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جہاں سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے وہیں مذہب جیسے حساس اور اہم موضوع کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا ہی کے ذریعے دنیا کے کسی کونے میں بیٹھ کر مکروہ عناصر نے عام افراد کی برین واشنگ کرکے انکو دہشت گردی کے بدترین واقعات میں استعمال کیا۔ سوشل میڈیا کا استعمال عام ہوا تو فتنہ فساد پھیلانے والوں کی ایک طرح سے لاٹری نکل آئی۔ پاکستان میں دہشت ، انتہا پسندی، انتشار، فساد پھیلانے کے لیے دشمن نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا دنیا کے باقی ملکوں کی نسبت پاکستان میں سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کا معقول انتظام نہ ہونے کے باعث دشمن کو اپنے مذموم مقاصد میں بڑی کامیابیاں ملیں اور رہی سہی کسر پاکستان میں بیٹھے انکے ایجنٹ عناصر نے پوری کر دی۔ دشمن کو بخوبی اندازہ تھا کہ سیاسی ،معاشی اور سماجی مسائل کے برعکس مذہب جیسے حساس مسلے پر فوری رد عمل سامنے آئے گا چنانچہ ملک میں کئی ایسے واقعات آپکے سامنے ہوں گے جہاں جھوٹی افواہ پر لوگ لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو گیا، کسی جگہ پر لوگوں نے جھوٹی افواہ پر مشتعل ہوکر بےگناہ افراد کو مار ڈالا یا زخمی کر دیا اور کئی سچے واقعات کو سوشل میڈیا کے ذریعے غلط رنگ دے کر مجرموں کو بچا لیا گیا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد وزیرستان میں پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کیے تو دشمن نے بیرون ملک میں بیٹھے زر خرید ایجنٹوں کے ذریعے آپریشن کو غلط رنگ دے کر دنیا میں امریکی دہشتگردی کی تصاویر پھیلا کر پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور آج تک دشمن پاکستان کے محافظوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کی ناکام کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ لال مسجد کا واقعہ ہو یا راولپنڈی میں مسجد جلانے کا، ماڈل ٹاؤن کا سانحہ ہو یا تحریک لبیک یارسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دھرنا، ہر واقعے میں سوشل میڈیا کے ذریعے حقائق سے افواہیں گردش کرتی رہیں۔ گذشتہ دنوں معروف بلاگر اور سوشل میڈیا ایکٹیویٹیس بلال خان کی مظلومانہ شہادت پر سوشل میڈیا پر تقریبا سبھی لوگ واقعے کی شدید مذمت کرتے نظر آئے۔ بلاشبہ بلال خان سوشل میڈیا پر ناموس صحابہ پر آواز اٹھاتے رہے۔ پی ٹی ایم ہو تحریک لبیک، بلال خان نے ہر واقعے پر کھل کر آواز اٹھائی۔ بلال خان کی شہادت پر حبیب جالب کا شعر یاد آیا گیا

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر

 گزشتہ ہفتے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سوشل میڈیا پر بول نیوز کے سنئیر اینکر سمیع ابراہیم کے ساتھ شدید گرما گرمی کے بعد ایک تقریب میں عمر میں اپنے سے کئی بڑے سمیع ابراہیم کو تھپڑ دے مارا۔ سمیع ابراہیم کا جرم فواد چوہدری کی ڈبل سواری کرنے کی کوششوں کے بارے بتانا بنا جبکہ مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر موجود فواد حسین چوہدری کے آفیشل ہینڈل سے پاکستان پیپلز پارٹی کی کئی اہم واقعات پر ٹویٹس کو لائک کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ سیاسی مخالفین اینکر، کالم نگار یا اخبار خرید کر اپنے موقف کو پھیلانے کی کوششوں میں اب سوشل میڈیا ایکٹیویٹیس خرید کر اپنے موقف کو پھیلا رہے ہیں، وہی  دشمن اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اپنا ملک میں بیٹھا ففتھ جنریشن وار تیز کر رہا ہے۔  سوشل میڈیا کی اس جنگ میں اپنی مسلح افواج کے خلاف پروپیگنڈے کے منہ توڑ جواب دیجیے۔ ملک مخالف سرگرمیوں کو سوشل میڈیا پر محب وطن افراد کے ساتھ شئیر کیجیے۔ تنقید کیجیے ، اپنا موقف دیجیے ، لیکن اخلاق کے ساتھ ، مناسب الفاظ کے ساتھ۔ والدین کو اپنے بچوں پر بہت نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ آپکا بچہ کن موضوعات پر بحث کر رہا ہے ، کن کوگوں کے ساتھ اٹھ بیٹھ رہا ہے۔ خدارا اپنے عزیزوں کو غلط ہاتھوں میں استعمال ہونے سے بچائیے۔

Thursday, June 20, 2019

ااسکاﺅٹنگ اور تفریح



انصرمحمودبابرکدھر

آج کل موسم ِ گرما بھی اپنے عروج پہ ہے اور عیدکی تعطیلات بھی چل رہی ہیںاورساتھ ہی ساتھ تعلیمی اداروں میںموسم ِ گرماکی چھٹیاںبھی شروع ہوچکی ہیں۔توان تمام مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اکثردوست احباب چھٹیاں گزارنے شمالی علاقہ جات یادیگرصحت افزاءپہاڑی مقامات کارخ کرتے ہیں۔یہ ایک بہت اچھی اور صحت مندانہ سرگرمی ہے لیکن نوآموزحضرات شائد اس چیزسے آگاہی نہ رکھتے ہوںکہ تمام سیاحتی مقامات پہ قائم ہوٹل والوں کابھی یہ سیزن ہوتاہے اوراس دوران وہ اپنے من چاہے کرائے وصول کرتے ہیں۔ایسے میںخصوصاً اسکول اورکالج (سرکاری اورپرائیویٹ دونوں)کے طلباءوطالبات کو میںمشورہ دوں گاکہ اگرآپ سیرو تفریح کے ساتھ ساتھ کچھ سیکھنے کے بھی خواہش مند ہیں تواسکاﺅٹنگ آپ کیلئے بہترین رہے گی۔طالبات کے لیے گرلزگائیڈکاادارہ موجودہے ۔جہاںسے تربیت لے کرہمارے تعلیمی اداروں کی بچیاںبھی بہت ساری مثبت سرگرمیوں کواپنے ماحول اورمعاشرے میں فروغ دے سکتی ہیں۔اسکاﺅٹنگ ہویاگرلزگائیڈ،ہرایک کایہ تربیتی ٹور ایک ہفتہ پر مشتمل ہوتاہے۔یہ تربیتی کیمپ مری کی خوشگوارفضاﺅں اورتازہ ہواﺅںکے حامل انتہائی خوبصورت اورتاریخی مقام گھوڑاگلی میںواقع ہے۔جہاں پر حکومت پاکستان نے ایک وسیع علاقہ بر ِ اعظم ایشیاءکے سب سے بڑے اس گرمائی تربیتی کیمپ کے لیے وقف کررکھاہے۔وہاںکی صاف ستھری آب وہوااورقدرتی چشموں کا انتہائی ٹھنڈااورمیٹھاپانی ایک ایسی نعمت ہے کہ جوآپ کوہمیشہ یادرہے گی۔ہمارے میدانی علاقومیں جون ،جولائی اوراگست کے مہینوں میں جھلسادینے والی گرمی کاوہاں تصور بھی نہیںہے۔
گردوغباراورپسینے سے دوریہ سہاناموسم آپ کو خوابوں اورتخیلات کی وادی کامسافربنادے گا۔وہاں پرآپ فطرت کے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ رنگ ، ترتیب،شوخیاں ،گنگناہٹ اورشاعری آپ کے مزاج کاحصہ بن جاتے ہیں۔اور یہ آپ کے لیے معقول اخراجات میںایک ایسی شاندار تفریح ہے کہ جس کاآج کی مہنگائی کے دور میں تصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔
قارئین کرام! اسی کیمپ میںمختلف کورسزبھی کروائے جاتے ہیںجیسے ”اسکاﺅٹ ماسٹر“اور”وڈبیج“ وغیرہ۔ان کورسز کے کامیاب اختتام پر آپ کی ڈیوٹی سرکاری سطح پرحاجی کیمپ میںبھی لگ سکتی ہے اورخوش نصینی سے بذریعہ قرعہ اندازی آپ کوحکومت پاکستان مفت حج کی سہولت بھی دیتی ہے۔ چنانچہ آپ اس قیمتی وقت کابھرپورفائدہ اٹھائیںاوراپنی ذہنی وجسمانی آسودگی کی خاطر کچھ وقت اپنے لیے ضرورنکالیں اور خوب انجوائے کریں۔اگرآپ اپناکاروبارکرتے ہیں یا کہیں جاب کرتے ہیں توبھی میں سمجھتاہوںکہ پھرتوآپ پہ یہ ٹور لازم ہے۔اس لیے کہ آپ کی فٹنس اور کارکردگی کوبہتربنانے کیلیے سالانہ ٹورز اکسیرکادرجہ رکھتے ہیں ۔ جیساکہ بعض سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میںریفریشرکورس کروائے جاتے ہیں اسی طرح سیروتفریح بھی آپ کی زندگی اور کاروبارکالازمی جزوہوناچاہئے۔ اسکاﺅٹنگ ایک ایساپلیٹ فارم ہے کہ جہاں آپ کواپنی چھپی ہوئی اورخوابیدہ صلاحیتوں کاپتاچلتاہے اوران تمام پوشیدہ اورمثبت سرگرمیوںکوایک نئی زندگی ملتی ہے۔یہ وہاں کے ماحول اور آب وہواکااثرہے کہ آپ کے اندرکاجوبچہ ہے وہ اپنی تمام تر شرارتوں اوربچپنے کے ساتھ بھر پورانگڑائی لے کر بیدارہوجاتاہے اور آنے والے کم ازکم ایک سال کے لیے آپ کوتازہ دم اورچاک وچوبندرکھتاہے یہ میراذاتی تجربہ ہے۔ 
اسی ایک ہفتہ کے دوران آپ چاہیںتوپنڈی پوائنٹ والی چئیرلفٹ کالطف اٹھاسکتے ہیں۔مال روڈاورکشمیرپوائنٹ کی رونقیںانجوائے کرسکتے ہیں۔بلندوبالاپہاڑوں سے اترتے دھواں دھواںسے بادلوں کے پس منظرمیںبھاپ اڑاتی خوش ذائقہ چائے ا ٓپ کے اس وقت کوخوشگواربنادے گی۔انھی سات دنوں میں سے وقت نکال کر آپ ایوبیہ چلے جائیں جواس ریجن کا بلندترین مقام ہے اور خیبرپختونخوا میں واقع ہے۔ایوبیہ میں بھی چئیرلفٹ لگی ہوئی ہے ۔یہاں کے چپلی کباب بہت مشہور ہیں ۔یہاں سے کچھ ہی آگے نتھیاگلی کامشہورمقام ہے۔کسی اوردن وقت نکالیں اورنیومری کے لیے عازم ِ سفرہوجائےں۔یہاںپرایشیاءکی سب سے بڑی چئیرلفٹ اور کیبل کار ہے اورملک کے طول وعرض سے لوگ جوق درجوق یہاںآتے ہیںاورایک بھرپوراورشانداردن گزارکرلوٹتے ہیں۔
اسکاﺅٹنگ میں مندرجہ ذیل سہولیات سے آپ بھرپورفائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
1۔ معیاری تفریح۔ 2۔ کم خرچ بالانشیں۔ 3۔ گروپ ٹورز۔ 4۔ فرسٹ ایڈ کی تربیت۔ 5۔ ٹریفک رولز کی تربیت 6۔ قدرتی آفات سے نپٹنے کی تربیت۔ 7۔ حالت جنگ کے حوالے سے خصوصی تربیت۔ 8۔ ہائیکنگ۔ 9۔ ٹریکنگ۔ 10۔ کیمپ فائر۔ 11۔ علوم وفنون کی مشہورشخصیات سے ملاقات کاموقع۔ 12۔ فوٹوگرافی۔ 13۔ کوکنگ اینڈ پریزنٹیشن۔ 14۔ خیمہ لگانے کی تربیت۔ 15۔ خالص علمی اور تفریحی ماحول اس کے علاوہ بھی بہت کچھ سیکھنے اورسکھانے کو ملتا ہے۔ اس دوران آپ دوسروں کے تجربات سے اوردوسرے لوگ آپ کے تجربات سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔
بوائے اسکاﺅٹس اور گرلز گائیڈمیں رجسٹریشن کروانے کا طریقہ کاریہ ہے کہ اپنے متعلقہ تعلیمی اداروں کے فزیکل انسٹرکٹرزسے رابطہ میںرہیں اورجیسے ہی گرمائی چھٹیاں قریب آئیں اپنانام لکھوادیں۔نیزاپنے” EDO“ آفس سے بھی رابطہ میں رہیںتاکہ اس سمرکیمپ میںجانے کے وقت اور تاریخ سے آپ آگاہ رہیں۔اگرتوآپ طالب علم ہیں توپھرتوکوئی مشکل ہی نہیں ہے۔لیکن اگرآپ تعلیمی دورسے فارغ ہوچکے ہیں توبھی آپ اس کیمپ میں جانے والے اپنے قریبی ادارے کے ساتھ منسلک ہوسکتے ہیں۔اوراگرآپ کااپنادوستوں کاگروپ ہے تو آپ اپنے گروپ کی رجسٹریشن کرواکرلیٹربنوالیں اوروہاں جاکرانجوائے کریں۔ایک گروپ 9افرادپرمشتمل ہوتاہے جس میںآٹھ اسکاﺅٹ اورنواںاسکاﺅٹ لیڈریاگروپ لیڈرہوتاہے ۔اسی ترتیب سے گروپ بناکرآپ رجسٹریشن کرواسکتے ہیں۔اورخیمے حاصل کرسکتے ہیں۔ 2016تک اس کی رجسٹریشن فیس200روپے فی کس کے حساب سے ہواکرتی تھی جس کے بدلے میں آپ کو خیمہ الاٹ کردیاجاتاہے اورآپ ان کے طریقہ کار کے مطابق وہاں رہیں اورایک ہفتہ کے ٹورکے اختتام پرکیمپ انتظامیہ کی جانب سے گورنمنٹ آف پاکستان کے جاری کردہ سرٹیفکیٹ بھی حاصل کریں۔

خون کے آنسو



صدف نایاب، اسلام آباد

آج پھر ایک دل کا دہلا دینے والا منظر دیکھا، کیسے ایک معصوم کلی کو کچل دیا گیا۔ عقل ابھی تک حیران ہے کہ کیا وہ انسان ہی تھے؟ جنھوں نے اتنا بھی احساس نہ کیا کہ یہ بھی ہماری طرح ایک انسان اور مسلمان ہے۔ مارنے والے بھی امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھتے تھے یقینا اور جس کو مارا گیا وہ بھی اس امت کی وہ بیٹی تھی کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا بیٹی کی تربیت پر جنت کے حقدار ہو۔
آخر کب تک یہ مظالم یونہی اسلامی نظریہ پاکستان میں ہوتے رہیں گے؟ کب تک ہم ایسے ہی خون کے آنسو روتے رہیں گے؟۔ ان سوالوں کے جواب ہم میں سے کسی کے پاس نہیں مگر ہم اتنا ضرور کر سکتے ہیں کہ اپنے خاندان کے بیٹوں کی ایسی تربیت کریں کہ کل کو وہ ہمارے لیے بدنامی کا باعث نہ بنیں۔ اتنی آوازضرور نکال سکتے ہیں کہ مجرم پھانسی کے تختے پر لٹک جائے۔ ان سب سے بڑھ کر بھی یہ کہ دعا کا دامن ہاتھ سے نا چھوٹنے پائے۔ جہاں ایک بے بسی کا احساس گھیرے ہوئے ہے دل کو وہیں امید بھی دل میں زندہ رہنی چاہیے کیونکہ ہر رات کے بعد ہی دن نکلتا ہے۔
آیت کریمہ ہے ”جب زندہ گاڑھی ہوئی بچی سے سوال ہو گا کہ وہ کس جرم میں ماری گئی“ اس آیت کی ایک تفسیر اور ایک تصویر آج ان بچیوں کی صورت میں بھی ہمیں نظر آتی ہے۔ جب قیامت کے دن سوال ہو گا ان تمام ننھی پریوں سے ”کہ کس جرم میں تم ماری گئیں“۔ تب کیا ہو گا وہ وقت سوچ کر ایک جھرجھری تو مجرم کے جسم میں بھی دوڑی ہو گی۔ 
وہ جہالت جس میں عرب گھرےہوئے تھے۔ وہ آج بھی ویسے ہی زندہ ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ اس وقت تک کوئی نبی نہیں آئے تھے انہیں سمجھانے ان کے پاس علم نہیں تھا جبکہ آج ہمارے پاس اللہ کا نبی، قرآن اور علم سب موجود ہے۔ مگر ہم ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ایک اندر کی بھوک ہے جسے مٹانے کے لیے آج کا انسان ہی انسان کو کھا جانے پر مجبور ہو گیا ہے۔
حفاظت کی دعاو ¿ں سے لے کر احتیاطی تدابیر تک، گھر سے لے کر باہر تک، ناقص تربیت، دین سے دوری اور اللہ کا خوف ختم ہونے اور خسارہ اٹھانے تک، دوپٹہ سے لے کر پردے گراتی ہوئی بے حیائی تک، ایک عام زہن کے انسان سے حوس پرست بننے تک۔۔ بہت بڑے بڑے مقام ہیں ہمارے سوچنے کے لیے۔ آئیے سوچیے اور عمل کیجیے۔ 

نقل اور مستقبل کے معمار



 قیممصری

چند دن پہلے نویں اور دسویں کے امتحانات میں ہمارے ہونہار طلبہ نے نقل اور دھوکے بازی کے میدان میں جو کارہائے نمایاں سر انجام دیے ان سے ہم سب ہی باخوبی واقف ہیں کیونکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ہر سال ہی ایسا ہوتا ہے۔ دھوکے بازی تو ہمارے روزمرہ کے معاملات اور معمولات کا حصہ ہے۔ نقل اور دھوکے بازی کی وجوہات جو بھی ہوں ،یہ ہمارے نوجوانوں کی کمزور اور پست شخصیت کی نشاندہی ضرور کرتی ہے۔یہ بات تو شاید ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی طلبہ کی بہترین اسلامی اور انسانی خطوط پر تر بیت اور شخصیت سازی میں نا کام رہے ہیں۔ان اداروں نے ڈگری بردار نوجوانوں کا ایک ریوڑ تو ضرور پیدا کردیا ہے مگر ایک رہنما،ایک رہبر پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ایک رہنما یا رہبر کی چیدہ چیدہ خصوصیات پر نگاہ ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ ایک مستعد،ایماندار اور بے لوث شخص ہوتا ہے۔اس کے برعکس مستقبل کے معمار ہمارے طلبہ سستی و کاہلی،بے ایمانی اور خود غرضی سے بھرے ہوئے ہیں۔ خود غرضی طلبہ میں کیسے پیدا ہوئی؟اس کی ایک وجہ تو مقابلے بازی اور وہ موازنہ ہے جو کبھی والدین تو کبھی اساتذہ ایک طالب علم کا دوسرے طالب علم کے ساتھ کرتے ہیں اور دوسری وجہ ڈگری کا حصول ہے۔ان دونوں ہی صورتوں میں طلبہ پر ذہنی دباو ¿ پیدا ہوتا ہے۔بعض طلبہ اس دباو ¿ پر قابو پاتے ہوئے کامیاب ہوجاتے ہیں اور بعض اپنی صلا حیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ایسے میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا انتخاب ہی غلط ہوتا ہے۔وہ اس شعبے کے لئے بنے ہی نہیں ہوتے جس کا وہ انتخاب کر بیٹھتے ہیں۔اب یہاں دلچسپی اور رجحان کے فقدان میں وہ اپنی صلاحیتوں کو سمجھ پاتے ہیں نہ بروئے کار لا پاتے ہیں۔
اس تیسری صورتحال کا ادراک اساتذہ کو ہوتا ہے نہ والدین کو کیونکہ ہمارے یہاں کیرئیر کاو ¿نسلنگ(career counselling ) کا رواج ہے ،نہ بچے کی رجحان کو سمجھنے کا شوق۔ جس طرح سے ہم یہ طے کرتے ہیں یہ فلاں کی بہو بنے گی اور یہ فلاں کا داماد بالکل اسی طرح یہ طے کیا جاتا ہے کہ یہ ڈاکٹر بنے گی اور یہ انجینئر۔ اب دھوکے بازی چونکہ ہمارا قومی مزاج ہے تو ہم اپنی نسلوں کو بھی یہی منتقل کیا ہےاور ایسے حالات کہ جس میں ڈگری کے حصول کی ریس میں پیچھے رہ جانے کا خوف دامن گیر ہو،ایسے میں طلبہ کو اول کا تمغہ سینے پر سجانے کا واحد حل نقل ہے نظر آتا ہے۔
ایسا کیوں نہ ہو؟ہمارے امتحانی مراکز نقل اور بوٹی کلچر کو پروان چڑھنے کے لئے سازگار ماحول فراہم کر رہے ہیں۔ ان مراکز پر مقرر نگران سیاسی وابستگی اور اقربا پروری کو پنپنے کا موقع دیتے ہیں اور امتحانات کی شفافیت کو خراب کرتے ہیں۔اسی طرح بعض لا لچی اساتذہ چند روپوں کے عوض اپنے مرکز پر نقل کی اجازت دے دیتے ہیں۔ایسے میں کمرہ امتحان مچھلی بازار کا منظر پیش کرتا ہے۔کون کیا ہے اور کیا کر رہا ہے کسی کو نہیں معلوم،بس پرچہ ختم ہونے تک زیادہ سے زیادہ پیسے اکٹھے ہونا چا ہیے۔ 
سخت ترین پابندی کے باوجود مراکز پر موبائل فون کے استعمال کی اجازت کیوں دی جاتی ہے؟اور تو اور طلبہ کو گائیڈ کیا جاتا ہے کہ بیٹا!نقل کے لیے لایا ہوا مواد چھپا دیں کہ بورڈ سے ٹیم آگئی ہے۔رول نمبر فلاں فلاں کا خاص خیال اور خصوصی رعایت۔یہ تمام باتیں ثانوی بورڈ کی جانب سے کئے جانے والے دعوو ¿ں پر سوالیہ نشان ہے۔
یہ تو تھے نقل کے چند اسباب اور وجوہات لیکن وہ طلبہ جو اس گناہ اور جرم کو اپناتے ہیں ان کا مستقبل کیا ہے؟کیا یہ ملک اور قوم کے کسی کام آسکتے ہیں؟ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا کہ ان کا مقصد صرف اور صرف ڈگری کا حصول ہوتا ہے جو یا تو رٹ کر یا نقل کر کے پورا ہوجاتا ہے۔یہ لوگ معلومات اور علم کے عملی نفاذ سے یعنی (practical implementation of knowledge )سے دور بھاگتے ہیں۔وجہ یہی ہوتی کہ سمجھ کر نہیں پڑھا یا پڑھا ہی نہیں۔اسی لئے یہ غیر ہنر مند (non -skilled) ہوتے ہیں۔ 
نئے خیالات اور سوالات ان کے ذہنوں میں کبھی جنم نہیں لیتے۔ان کی سوچیں زنگ آلود اور منجمد ہوتی ہیں اور اگر یہ ذہین ہیں بھی تو کیا اعلیٰ شخصی اوصاف ان میں موجود ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں!کیونکہ یہ لوگ خود غرض اور بے ایمان ہوتے ہیں،جو کبھی اجتماعی اور قومی فائدے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے بلکہ یہ تو وہ لوگ ہیں کو اپنے مفاد کی خاطر اپنی ذات سے منسلک اداروں اور لوگوں کو بھی نقصان پہچانے سے گریز نہ کریں۔ اس طرح کے لوگ اگر آگے آجائیں توقابل اور مخلص لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں،جس کے دو بڑے نقصان ہیں۔
پہلا یہ کہ معاشرے میں ایجادات اور انقلاب کا سلسلہ رک جاتا ہے۔لوگ ترقی نہیں کر پاتے اور معیار زندگی بہتر نہیں ہوپاتا۔دوسرا یہ کہ اگر یہ لوگ بڑے بڑے عہدوں ہر پہنچ جائیں تو مفاد پرستی میں ظلم وزیادتی اور حق تلفی کا بازار گرم کرتےہیں اور رشوت ستانی،تعصب اور اقرباءپروری جیسی معاشرتی برائیوں کو بھی ہوا دیتے ہیں۔ دھوکے بازی صرف میدان تعلیم کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک معاشرتی برائی ہے۔جھوٹ بول کر مال کمانا،جھوٹ بول کر کام نکلوانا،حق اور سچ کو ذاتی مفاد کی خاطر چھپانا اور اس طرح کے کئی کام جو ہم نہ صرف کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بڑے فخر سے بیان بھی ہیں یعنی اچھائی اور برائی میں کوئی فرق ہی نہیں رہا۔
اس برائی کو معاشرے سے ختم کرنے کے لئے نہ صرف تعلیمی شعبے کی اصلاح کی ضرورت ہے بلکہ معاشرتی رویوں میں بھی تبدیلی درکار ہے۔ جب بچے سارا دن والدین کو جھوٹ بولتے،دھوکہ دیتے دیکھیں گے تو کیا ان کے ذہنوں پر یہ افعال اثر انداز نہ ہوں گے؟ تربیت کے نام پر گفتار کا غازی بننے سے بہتر ہے کہ عملی نمونہ بن کر بچوں کی شخصیت کو سنوارا جائے۔ ڈگری اور موازنے کے ریس ٹریک سے نکل کر ان کی صلاحیتوں کو پہچانا جائے اور کا اعتراف بچوں کے سامنے بہترین الفاظ میں کیا جائے تاکہ ان میں خود اعتمادی اور یقین ذات پیدا ہو اور وہ ہر کامیابی اپنی محنت کی بدولت حاصل کرنے کے عادی بن جائیں ساتھ ساتھ ہار کو برداشت کرنے اور اس کو سیکھنے کا حوصلہ بھی ان میں پیدا ہو سکے۔اس طرح ایک متوازن شخصیت پروان چڑھے گی جو معاشرے اور ملک دونوں کے لیے مفید ہوگی۔

بہو کو بیٹی نہ کہا جائے



 فاطمہ خان

عالیہ اپنی خالہ کی بہو تھی اور بہت چاہتوں سے بیاہ کر لائی گئی لیکن ساس کا بدلتا رویہ اسے موت کی وادی میں چپ چاپ کب چھوڑ آیا پتا ہی نہیں چلا۔ شادی کے دوسرے دن گھر کے تمام ملازمین نکال دیا گیا۔ احمد اپنے والدین کا سب سے بڑا اور لاڈلا بیٹا تھا۔ دیہات میں رہنے والا حمید اللہ کا یہ خاندان اپنے مال مویشی اور زمیندارے میں اپنی مثال آپ تھا لیکن رواج کے مطابق بیٹے نے مڈل تک تعلیم حاصل کی اور نوکری کے لیے دبئی چلا گیا۔ دو سال دل لگا کر اتنا کمایا کہ والدین کی خوشی کا ٹھکانہ ہ رہا۔ گھر میں ہر نئی ایجاد موجود تھی غرضیکہ کسی چیز کی کمی تھی بھی تو احمد کی کمائی سے پوری ہوئی۔ احمد کی شادی بھی بڑی دھوم دھام سے کی گئی۔ لوگ احمد کی بیوی کی قسمت پر رشک کرتے۔ احمد کی بیوی کو آئے چند دن گزرے کہ ساس جو کہ خالہ بھی تھی، بہو اور بیٹے کو گھر سے نکال دیا۔ سارا پیسہ جو احمد نے کمایا چھین لیاگیا۔ بے سروسامانی کی حالت میں در در بھٹکنے لگے۔احمد کو مہروں کی بیماری لاحق ہوئی، اب وہ دوبارہ دبئی جانے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ شاید اسی بات نے والدین کی تمام امیدیں خاک میں ملا دیں تھیں۔ احمد کے ماما جی نے حالات کی سنگینی کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی صلح کروائی۔ 
صلح زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوئی۔ دونوں کے لیے زندگی تنگ کر دی گئی۔ اولاد کی امید لگی تو ایک بار پھر سے خالی ہاتھ گھر سے بے گھر کر دیے گئے۔ اللہ پاک نے بیٹے کی نعمت سے نوازا مگر خوشیاں ان سے کوسوں دور تھیں۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد سے عالیہ بیمار رہنے لگی۔ ادھر شوہر کی والدین سے گرماگرمی سے پریشان رہنے لگی۔ ہر وقت رونے کے علاوہ اسے کوئی کام نہیں تھا۔ ساس کی جلی کٹی اور بیٹا چھین لینے کی باتیں اسے چین نہ لینے دے رہیں تھیں۔ احمدکے پاس بیوی کے علاج کے لیے ایک روپیہ نہ تھا۔ عالیہ کی بیماری اسے لمحہ لمحہ کھوکھلا کر رہی تھی۔ وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔ سوچ سوچ کر دماغ پھٹ رہا تھا مگر عالیہ کے لیے وہ مسکرا رہا تھا۔ احمد کام کی تلاش میں نکلا۔ کچھ دن بعد خبر ملی احمد نے خودکشی کرلی۔ ماں باپ رو رو کہ بے حال ہو گئے۔ آج احمد کے والدین اپنا غرور خاک میں ملا چکے تھے۔ مگر بے سود۔ زندگی میں والدین نے لا وارث کر دیا۔ اس کی ہر چیز سے محروم کر دیا۔ احمد کی موت عالیہ سے اس کی زندگی بھی لے گئی۔ عالیہ کے دماغ کی نس پھٹ گئی اور وہ بیٹے کو اس دنیا میں اکیلا کر گئی۔ 
یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ روز ہی ایسے کئی واقعات ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ خصائل سے بھری بیٹی کے بہو بنتے ہی کئی خامیاں سامنے آجاتی ہیں۔ یہ خود ساختہ ہوتی ہیں یا حقیقی یہ بات سب ہی اچھے سے جانتے ہیں۔ انسان معاشرتی حیوان ہے۔ انسان اکیلے زندگی نہیں گزار سکتا۔ اچھی اور بہترین زندگی گزارنے کے لیے اسے دوسروں کی مدد اور رہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ معاشرہ افراد سے بنتا ہے۔ اگر فرد ہی مل کر نہ رہیں تو بنیاد یقینا کھوکھلی ہو گی۔ معاشرے کی بنیادی اکائی گھر ہے۔ جب لوگ مل جل کر رہتے ہیں، دکھ سکھ بانٹتے ہیں تو ایک صحت مند معاشرہ جنم لیتا ہے اور اسے پنپنے کے لیے رشتوں میں محبت اور قربانی کے جذبات درکار ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ایک اہم کردار بہو ہے۔ وہ لڑکی جسے ماں،باپ بچپن سے جوانی تک سر کا تاج بنا کر رکھتے ہیں، جب پرآئے گھر جاتی ہے تو خود پرآئی ہو جاتی ہے۔ والدین، بہن بھائی، سہیلیاں اور رشتے دار پل بھر میں بے گانے کہلائے جاتے ہیں۔ سسرال ہی تمہارا اصل گھر ہے۔ بیٹی کبھی اس گھر کو چھوڑنا نہیں۔ ڈولی اٹھی ہے اب جنازہ ہی جائے گا۔ والدین کی نصیحتیں بیٹی کا دل چیر دیتی ہیں۔ پیدائش سے اب تک کی ساری محبتیں، ساری ریاضتیں سسرال کے باہر دم توڑ جاتی ہیں۔ 
سسرال ایک نیا گھر جہاں نئے خواب لے کر آنے والی ہر لڑکی ان کے چکنا چور ہونے پر جیتے جی مر جاتی ہے لیکن پاک ہے وہ رب جس کے قبضے میں یہ جان ہے، بڑی حوصلہ مند تخلیق ہے عورت، جو کہ سہہ جاتی ہے، رک جاتی ہے، سہم جاتی ہے مگر گھر ٹوٹنے نہیں دیتی۔ اللہ رب العزت نے عورت کی تخلیق سے سکون کو تعبیر دیا ہے کہ یہ بیوی، بیٹی، بہن اور ماں ہر کردار میں سراپا سکون ہے۔ ماں ہے تو اس کی گود زمانے بھر کے دکھوں کا مداوی بن جاتی ہے۔ اس کے آنچل کی ہوا جنت کی معطر ہواﺅں کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔ بیوی ہے تو آنکھوں میں چھپے آنسوﺅں کو، دل میں دفن دکھ کو پل میں بھانپ کر اپنے پیار سے، محبت سے، دلجوئی سے حوصلہ دیتی ہے۔ دنیا کی دوڑ دھوپ سے تھک جانے پہ اس کی مسکراہٹ صدیوں کی تھکن زائل کر دیتی ہے۔ بہن ہو تو ہر مایوسی کی لمحے میں کندھے پہ ایسی تھپکی دیتی ہے کہ امید اس مرجھائے ہوئے وجود سے کسی کونپل کی طرح نکلتی ہے۔ ابا کی ڈانٹ سے بچانے کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر مشکل لمحے میں ڈھال بن جاتی ہے۔ بیٹی ہے تو ایک نئی شروعات کرنے لگتی ہے۔ گھر کا ہر کام اس کی پسند اور مرضی سے ہونے لگتا ہے۔ باپ، بھائی، چاچا، ماما، دادا، نانا سب کی نظر کا نور ہوتی ہے۔ پل بھر آنکھ سے اوجھل ہو تو گھر کھانے کو دوڑتا ہے۔ رحمت الٰہی کا رتبہ پانے والی گھر کو رحمتوں اور برکتوں سے بھر دیتی ہے۔
آہ! ان سب کے ساتھ ایک مظلوم کردار اور بھی ہے، جسے نبھاتے نبھاتے عورت خاک ہو جاتی ہے مگر صلہ کچھ نہیں۔ وہ کردار ہے بہو۔ معاشرہ تنگ نظر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بیٹے کی شادی ٹھاٹھ سے کرنا ایک عام سی بات ہے۔ لیکن افسوس کہ بیٹے کی نسبت سے آنے والی لڑکی جو کہ بہو(بیٹی) ہے اس کے لیے گھر اور گھر والوں کے دل دونوں تنگ ہوتے ہیں۔ یہاں قوسین میں بیٹی لکھنے کا مقصد سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ کہہ دینے سے ہو جانا ممکن ہے۔
ایک لڑکی جو ماں باپ، بہن بھائی سب رشتے ناتے چھوڑ کر آتی ہے۔ اگر اسے وہ عزت، محبت اور مقام نہ ملے تو وہ ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔ والدین کی انا نے دو زندگیاں چھین لیں۔ افسوس کہ معاشرہ تنگ نظر ہو گیا۔ 

گمان کی طاقت



 حوریہ ایمان ملک (سرگودھا)

اچھا گمان کرو اچھا ہی ہوگا ، برا گمان کرو گے تو برا ہوگا۔ شاید آپ نے بھی کچھ لوگوں سے سنا ہو کہ جو خیال بار بار ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ سچ ہوجاتا ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ ہمارے دماغ میں وسوسے اور خیالات آتے رہتے ہیں لیکن جب ہم ان خیالات کو ذہن سے جھٹکنے کے بجائے ان کی پیروی شروع کردیتے ہیں ۔ تب ہمارے لاشعور میں ایک یقین پیدا ہوجاتا ہے ۔ ہم لاشعوری طور پر وہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں جو کچھ ہم سوچ رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم کچھ برا سوچ رہے ہیں اپنے یا کسی اور کے متعلق برا گمان کررہے ہیں تو ہمارا یقین اس بات پہ پختہ ہونے لگتا ہے ۔ اگر ہم اس گمان کو ذہن سے جھٹک دیں اور اپنا دھیان اور توجہ کہیں اور مبذول کرلیں تو گمان کی طاقت کمزور پڑنے لگے گی۔ اس طرح ہم نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔
فرض کریں اگر کسی کو یہ خوف ہے کہ وہ آگ میں جل کر مرے گا اور اس پہ یہ گمان غالب رہے تو لاشعوری طور پر اس کا یقین اس بات پہ پختہ ہوتا جائے گا اور نتیجہ وہی ہوگا جو اس نے خود سے سوچا ہوگا۔ اگر کسی کے بارے میں اچھا گمان رکھتے ہیں تو اس کو مستحکم کیجیے تاکہ اس سے فائدہ پہنچے لیکن برے گمان سے ہمیشہ بچیں۔ ہماری ایک عزیزہ کہتی ہیں میری چھٹی حس بہت تیز ہے۔ پوچھا وہ کیسے ؟ تو محترمہ فرمانے لگیں جب کسی کے متعلق میں سوچتی ہوں کہ فلاں شخص مر جائے گا یا فلاں کے ساتھ ایسا ہوگا تو اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ 
میں تاسف سے سوچنے لگی کہ ہم لوگ کتنے ناسمجھ ہیں۔ اپنے گمان کو پہلے تقویت دیتے ہیں اور پھر اپنی چھٹی حس کا کارنامہ سمجھ کر خود کو معتبر سمجھ لیتے ہیں۔ جس طرح حسد سب کچھ کھاجاتا ہے بلکہ اسی طرح برا گمان بھی سب کچھ ختم کرسکتا ہے۔کیونکہ ہماری مثبت سوچ اور گمان کا ہماری اور ہم سے جڑے لوگوں کی زندگیوں پہ مثبت اثر پڑتا ہے جبکہ منفی سوچ کا اثر بھی منفی ہوتا ہے۔ اسی لیے کوشش کریں کہ ہمیشہ سب کے لیے اور اپنے لیے اچھا اور نیک گمان کریں۔ تاکہ آپ کا گمان اور یقین آپ کےلیے اور دوسروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں نہ کہ نقصان دہ۔

منفی سیاست اور نوجوانان



عبد اللہ یوسفزئی

بچپن میں ہمیں سکھایا گیا تھا کہ دنیا کے سب سے عظیم سیاست دان حضرت محمدﷺ تھے۔ آپﷺ کے صفات، کردار اور لوگوں سے برتاو کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے سیاست کومعزز پیشہ سمجھ لیا۔ لیکن جب ہوش سنبھالا تو پتا چلا کے یہاں تو سیاست کسی اور شے کا نام ہے۔ یہاں توسیاست گالم گلوچ اور جھوٹ کا نام ہے۔ یہاں تو وہ بندہ بہترین سیاست دان سمجھاجاتاہے جوجھوٹ بولنے میں ماہر ہے، جو بازاری زبان استعمال کرتا ہے اور لوگوں کو ور غلانے کا ہنر جانتا ہے۔ پچھلے ایک دہائی میں گالم گلوچ کی سیاست نے بہت ترقی کرلی۔ جس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں میں لاشعور اور نام نہاد سیاسی چہروں کو متعارف کرانا ہے۔ جس کا اثر نوجواں طبقے پر پڑ رہا ہے۔ ایک جھلک دیکھنے کے لیے آپ سوشل میڈیا کا رخ کرسکتے ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا ایک ویلج کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ جس میں سوشل میڈیا کا کردار نمایاں ہے۔ سوشل میڈیا کو ہم جدید بیٹھک بھی کہہ سکتے ہیں، جہاں پر ہر کوئی کھل کر اظہار خیال کرسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ بالخصوص نوجوان طبقہ اس کے بہتر استعمال سے ناواقف ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال منفی سیاست کے لیے ہورہاہے۔ ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ سیاسی مخالف کو کسی بھی طرح نیچا دکھایا جاسکے۔ برے القاب سے مخاطب کرکے اطمینان قلب حاصل کیا جاسکے۔ قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ، ”ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو“۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے، ”ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑایا کرو“۔ جس چیز سے ہمیں قرآن نے بھی منع کیاہے اور انسانیت نے بھی، وہی کام کرتے ہوئے ہمیں سکون ملتا ہے۔ اس سے بڑی افسوس کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم سیاسی مخالف کو دشمن کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ 
منفی سیاست نے ہمیں اس مقام پر لا کر کھڑا کیا ہے کہ کسی مولوی کو شیطان کہہ کر ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔ اخلاق کا معیار اتنا گرچکا ہے کہ ہم دسروں کی رائے اور مذہب تک کو اہمیت نہیں دیتے کیونکہ وہ ہمارے منفی سیاست کے عین مطابق نہیں ہوتے اور ایسا تو ہونا ہی تھا کیوں کہ ہماری نوجوان نسل ایسے سیاست دانوں کے پیروکار ہیں جو انسانیت کے نام سے ہی ناواقف ہیں۔ انہیں تو صرف الیکشن جیتنے کی فکر ہوتی ہے، وہ تو صرف اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کرنا ہی اصل کامیابی ہے چاہے وہ گالی سے ہو یا جھوٹ سے، فرق نہیں پڑتا۔ 
پچھلے دنوں ایک دوست کی طرف سے تصویر ملی، جس میں ایک نوجوان نے اپنے لیڈر کے دفاع میں ایسے الفاظ لکھے تھے جسے سوچ کر بھی مجھے شرم آتی ہے۔ سوشل میڈیا کا دروازہ کھول کر دیکھ لوگے تو ان گنت مثالیں دیکھنے کو ملیں گی۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ کیوں ایسا کرتا ہے، جبکہ لوگ اپنے بچوں کو بااخلاق، سمجھدار اور با کردار بنانے کے لیے تعلیم دلواتے ہیں لیکن نتیجہ توقعات کے برعکس نکلتا ہے۔ کیوں کہ ان کے دماغ میں یہ بات کبھی نہیں ڈالی گئی کہ آپ کے حقیقی لیڈرکون ہے۔ حضرت محمد ﷺنے زندگی کے جو اصول بیان فرمائے ہیں وہ اس سے بے خبر ہیں، اقبال کے افکار سے وہ لا علم ہیں۔ یہ کسی نے نہیں بتایا کہ ہم دنیا کا بہترین قوم کیسے بن سکتے ہیں۔ یہ کسی نے نہیں بتایا کہ سوشل میڈیا پر پراپگنڈے کرنے سے کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتا۔ اسے تو صرف یہ سکھایا گیا ہے کہ جسے آپ ووٹ دیتے ہیں، وہی آپ کا لیڈر ہے، وہ جو کہتا ہے پتھر سے لکھی ہوئی بات ہے، اگر نوجوانوں کو اسی طرح لا شعور رکھا گیا تو شاید ہم کبھی بھی ترقی نہیں کرسکیں گے ۔
کبھی اے نوجوں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا! تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

جہان دانش

 بلال شیخ
احسان 1914ءکاندھلہ ضلع مظفر گڑھ ہندوستان کے ایک مزدور گھرانے میں پیدا ہوا اور بچپن کا کچھ عرصہ گزار کر یہ اپنے والدین کے ساتھ کاندھلے منتقل ہو گیا۔ احسان کے والد بھی مزدوری کرتے تھے اور غریبی ان کو ورثے میں ملی تھی۔ احسان بچپن سے خوش مزاج اور ملنسار لڑکا تھا۔ چوتھی جماعت پاس کی تو احسان کے والد کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ وہ کتابیں خرید کر احسان کو دے سکتا اور آنے والے خرچے اٹھا سکتا۔ چوتھی جماعت کے بعد تعلیم ترک کر کے والد کے ساتھ مزدوری کا شعبہ اپنا لیا اور اس کوشش میں لگ گیا کہ شاید زندگی آسان ہو جائے گی۔ احسان نے کسی کام کو چھوٹا نہیں سمجھا۔ ماں باپ سے محبت اور فرمانبرداری اس کو تحفے میں ملی تھی اس لیے والدین کے سامنے کبھی ضد نہیں کی تھی۔ احسان نے والدین کی غریبی اور مفلسی کو دور کرنے کے لیے ہر طرح کا کام کیا۔
مزدوری تو وہ کرتا ہی تھا مگر اس کے علاوہ وہ ملازمت بھی کرتا تھا اور جب ملازمت سے جواب ملتا تو واپس مزدوری پر آجاتا اس کو مزدوری ملازمت سے بہتر لگتی تھی کیونکہ اس میں کوئی آقا نہیں ہوتا اور جو کمایا آپ کا اپنا ہوتا ہے۔ اگر چھٹی بھی ہو جائے تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ان سب حالات کے باوجود اس کے اندر علم حاصل کرنے کا ذوق دھاڑے مارتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ احسان کو بکریاں پالنے اور ان کو چرانے کا شوق پیدا ہوا اور اس نے کچھ بکریاں پال لیں اور روز ان کو چرانے جنگل میں نکل جاتا۔ اس دوران اس کا ایک دوست ”اصغر جنگ“ جس کو کتابوں کو شوق تھا وہ احسان کو کتابیں پڑھنے کے لیے دے دیتا اور بعد میں دونوں اس کتاب پر باتیں کرتے تھے اس طرح احسان کے اندر مطالعے کا شوق پیدا ہوا اور جو علم کی پیاس تھی اس کو بجھانے کا بھی کوئی ذریعہ ملا۔ احسان کی زندگی میں جتنے مرضی مسائل آئے غریبی کا سامنا کرنا پڑتا یا بے روزگاری کا مگر مطالعے کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ کئی بار احسان کو ملازمت کے دوران مطالعہ کا وقت نہ ملتا تو اس کی روح بے چین ہونا شروع ہو جاتی تھی اور جب اس سے نہ رہا جاتا تو وہ ملازمت چھوڑ دیتا تھا اور ایسا کئی بار ہوا کہ مطالعے کی خاطر اس نے بے روزگاری کو گلے لگا لیا۔
جب علم کا پیالہ بھر گیا تو مشاہدہ کی شکل میں علم پیالے سے باہر آنا شروع ہو گیا اور شاعری نے ذہن میں دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا اور اس طرح احسان نے شاعری کے ساتھ ہاتھ ملا لیا اور ادبی محفلوں میں اپنی شاعری پڑھ کر داد سمیٹنے لگ گیا۔ اس طرح احسان کی زندگی کو مقصد ملنا شروع ہو گیا وہ اپنی زندگی کو شاعری کی شکل میں دوسروں تک پہنچانا شروع ہو گیا ابھی احسان صرف کاندھلے تک ہی محدود تھا مگر دل ابھی علم کی طلب سے بھرا نہیں تھا۔ احسان کو پتا چلا کہ لاہور میں مزدور کا مستقبل بہت اچھا ہے اور بہت سی لائبریریاں ہیں اور بہت سی ایسی کتابیں مل جائے گی جو کاندھلے میں میسر نہیں۔ اپنے دوست اصغر جنگ سے مشورہ کر کے لاہور آگیا اور یہ اس کی اپنی زندگی کا بہت بڑا فیصلہ تھا جس پر اس کو اپنی ماں کے آنسو برداشت کرنے پڑے تھے جو کہ وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ لاہور میں آ کر احسان نے ہر کام کیا مزدوری بھی اور کپڑے بھی سلائی کیے، باغ کی چوکیداری بھی کی اور دیواروں پر پینٹ بھی کیا۔ احسان نے کئی کام بدلے مگر نہ بدلا تو اس کا شوق نہ بدلا مطالعہ کی جگہ اس کے دل میں کوئی جگہ نہ بنا سکا۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ باغ کی چوکیداری کے دوران وہ ایک دن میں چار سو صفحات کا مطالعہ کرتا تھا اور احسان کے اندر شاعری ٹھاٹے مارتی تھی۔ چوکیداری کے دوران ایک شخص نے احسان سے چالیس نظمیں لکھوائیں اور دو روپے فی نظم معاوضہ دیا۔ یہ اس دور میں احسان کے لیے بہت بڑی رقم تھی۔
اس طرح احسان کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا رہا اور اس کی شاعری مختلف اخبارات اور رسالوں میں چھپتی رہی۔ احسان کو اب کافی لوگ جاننے لگ گئے تھے۔ شہرت اس کا گہراو کرنا شروع ہو گئی تھی اور وہ لوگوں سے بچنے کے لیے ایسی ملازمت تلاش کرتا کہ وہ سکون سے رہ سکے اور اپنے شوق کو وقت دے سکے۔ یہ بڑھتی شہرت بھی احسان کے لیے غرور کا باعث نہیں بنی۔ ایک طرف وہ ملک کا نامور شاعر تھا اور دوسری طرف گورنر ہاوس میں باغبان کے فرائض سرانجام دیتا رہا۔ یہ کہانی کسی اور کی نہیں ہمارے ملک کے نامور شاعر احسان دانش کی ہے۔ احسان دانش جب محفلوں میں اپنی شاعری پڑھتے تو سامعین کے آنکھوں میں آنسو اور کلیجے پھٹنے کو آجاتے تھے وہ اپنی شاعری سے معاشرے کی غریبی کا اصل چہرہ لا کر سامنے رکھ دیتے تھے اور جب وہ سٹیج سے اتر کر نیچے آتے تو ان کے مداح ان کے ہاتھ چومتے اور سینے سے لگا لیتے۔ جب بھی وہ گھر سے نکلتے تو لوگوں کا سمندر ان پر امڈ آتا تھا اس سے بچنے کے لیے انہوں نے گھر میں اپنی ذاتی لائبریری بنا لی اور دن کا بیشتر وقت اپنی لائبریری میں مطالعہ کرتے گزارتے۔ آپ ان کی کتاب سے محبت کا اندازہ یہاں سے لگا سکتے ہیں کہ ان کے بیٹے فیضان دانش کو پی ایچ ڈی کے دوران لسانیات پر کتابیں تلاش کرنی تھیں انہوں نے ایک پبلک لائبریری میں کتابیں تلاش کی تو چالیس کے قریب کتابیں ملیں مگر جب اپنے والد صاحب کی لائبریری میں کتابیں تلاش کی تو ایک سو پانچ کتابیں صرف لسانیات پر تھی۔
زندگی میں کچھ بھی بڑا حاصل کرنے کے لیے کچھ راستے ہوتے ہیں۔ کسی کو شہرت حاصل کرنی ہے کسی کو پیسہ اور کسی کو رتبہ حاصل کرنا ہے اور ان سب کو حاصل کرنے کے لیے کچھ راستوں کا چناو کرنا پڑتا ہے جن میں ایک راستہ مستقل مزاج ہونا ہے۔ بیشتر افراد اس وقت ہار مانتے ہیں جب منزل صرف ایک قدم کی دوری پر ہوتی ہے۔ مقدر کا رونا روتے اس دنیا سے چلے جانا بہت آسان ہے مگر موت سے پہلے کچھ بڑا کر جانا بہت مشکل۔ احسان دانش کی زندگی ہمارے لیے مستقل مزاجی کا عملی نمونہ ہے۔ آپ کی زندگی میں جتنی مرضی مجبوریاں ہیں آپ کو اپنی کامیابی جتنی مرضی دور نظر آرہی ہو۔ مگر آپ اپنے راستے پر چلتے جائیں۔ پہلے آپ خود راستہ بنائیں گے پھر راستہ خودبخود آپ کے قدموں میں بچھتا جائے گا اور پھر راستے کے ایک نکڑ پر کامیابی آپ کا ویلکم کرنے کے لیے کھڑی ہوگی اور یہ سب تب ممکن ہے جب آپ مستقل مزاج ہوں گے۔

بیماری ہمارے اندر ہے

 انصر محمود بابر
ہمارے دور تعلیم میں تو جمع تفریق کے لیے کیلکولیٹر کا میسر ہونا بھی امیری کی علامت ہوتی تھی لیکن دماغ خوب چلتا تھا۔ وقت دیکھنے کے لیے خال خال لوگوں کے پاس گھڑی ہوا کرتی تھی۔ اس کے باوجودایک دوسرے کے لیے کافی وقت مل جایا کرتا تھا۔ محلے میں کسی کسی کے گھر بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن ہوا کرتا تھا اور پھر بھی بے حیائی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ ذاتی سواری کا دور دور تک کوئی تصور نہ تھا۔ پھر بھی سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہو ہی جاتے تھے۔ کسی کسی پڑھے لکھے ”بابو“ یا ”منشی“ کے ہاں اخبار آیا کرتا تھا جو خبریں پڑھ پڑھ کر سنایا کرتے اور بڑے بوڑھے سر دھنتے جاتے۔
بڑی سے بڑی بیماری بخارکو مانا جاتا تھا جس کی اعلیٰ سے اعلیٰ دوائی کوئی کڑوی کسیلی گولی ہوتی اور یہ گولی بھی سب کو میسر نہیں ہوتی تھی۔ گھر میں زیادہ سے زیادہ 2 کمرے ہوا کرتے تھے۔ کچی دیواروں پر مٹی کا لیپ ہوتا اور ناہموار کچے فرش پر چارپائیاں گھسیٹنے کے نشانات ہوا کرتے۔ گھروں میں واش روم کا کسی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ گھر کے کھلے آنگن میں شام کو جب پانی کا چھڑکاﺅ کرتے تو مٹی کی خوشبو روح تک میں اتر آتی۔ مہینے میں ایک آدھ بار گوشت پکتا تو شوربہ اور آلو بھی سالن کا حصہ ہوتے اور اس سالن میں بھی ہمسایوں کا حصہ ضرور ہوتا۔ عید بقر عید پہ گڑ والے میٹھے چاول پکتے اور ان نعمتوں پہ بھی خدا کا شکر ادا کرتے نہ تھکتے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ روزوں والی عید پہ نئے کپڑے سلواتے اور وہ بھی نیلے رنگ کی اسکول یونیفارم تاکہ عید پہ نئے کپڑوں کا شوق بھی پورا ہوجائے اور اس کے بعد سارا سال سکول میں پہننے کے کام بھی آتی رہے۔ بالکل اسی طرح سیاہ رنگ کے جوتے خریدے جاتے اور یہ جوتے بھی سارا سال اسکول یونیفارم کا حصہ ہوتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کے اس دور میں بچوں کو اسکول چھوڑنے کوئی نہیں جایا کرتا تھا خود اسکول جانا پڑتا تھا اور وہ بھی پیدل۔
ان ساری کمزوریوں، کمیوں اور غربت کے باوجود ہمارے بزرگوں کی صحت قابل رشک اور جسامت آئیڈیل ہوتی۔ ان کی آنکھوں میں حیا، چہروں پہ رعب اورشخصیت میں جلال ہوتا۔ اس سادگی میں بھی وقار اور ایک بانکپن ہوتا۔ ان کی ہنسی کسی آبشار کی مانند شفاف ہوتی اور کسی کے لیے دل میں کوئی کینہ اور بغض نہ ہوتا۔ ہر رشتے کا احترام ہوتا اور ہر جذبہ خالص ہوتا۔ سادہ لوگ، سادہ خوراکیں، سادہ طرز زندگی اور خلوص ان کا طرہ امتیاز ہوتا۔ ان کی شخصیت میں ٹھہراﺅ، لہجے میں نرمی اور دل میں سکون کی ندیاں موجزن ہوتیں۔ زندگی اتنی بھر پور اور پرسکون ہوتی کہ کسی الف لیلوی داستان کا گمان ہوتا۔ آج کل کی طرح ہارٹ اٹیک، شوگر، فالج اور دماغی شریان پھٹنے جیسی مہلک بیماریوں کا کسی نے کبھی نام تک بھی نہ سنا ہوگا اور آج ہم ان سب کا شکار بنے ہوئے ہیں۔
جب کہ آج ہمارے گھروں میں کئی کئی کمرے ہیں۔ ہرکمرے میں پختہ فرش، اس پہ خوبصورت اور قیمتی قالین، اٹیچ باتھ، بڑے سائز کی ایل سی ڈی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، مہنگا موبائل فون، آرام دہ بستر، پرشکوہ بیڈ اور صوفے، جدید ڈائننگ ٹیبل اور روزانہ انواع واقسام کے من و سلوٰ ی نما کھانوں کی ورائٹی کے علاوہ تقریباً اکثر گھروں میں مائکرو ویو اوون، فریج، اے سی، واشنگ مشینیں، بجلی بند ہونے کی صورت میں متبادل ذرائع موجود ہوتے ہیں۔ الماریاں ہرتہوار، ہر کام اور موقع کی مناسبت سے قیمتی ملبوسات سے بھری پڑی ہوتی ہیں۔ برانڈڈ جوتوں، کوٹ اور ٹائیوں کی بہتات ہے۔ بچوں کے اسکول اور کالج جانے کے لیے موٹرسائیکل اور گاڑیاں موجود ہیں۔ سکون پھر بھی نہیں ہے۔
گھر سے باہر کی بات کریں تو شاندار گاڑی، انتہائی ڈیکوریشن والا ٹھنڈا ٹھار دفتر، خوب صورت سیکرٹری، جما جمایا کاروبار اور اوپر کی آمدنی کے ٹھاٹ باٹھ کے علاوہ شہر کے مہنگے مہنگے کلبوں کی ممبر شپ اور دیگر لوازمات کی بھرمار ہے۔ ہر چیز آپ کی قوت خرید میں ہے۔ آپ کسی ادارے میں چلے جائیں، لوگ ہاتھ باندھے آپ کے آگے بچھے چلے جاتے ہیں۔ کاروبار، سیاست، معیشت، بیرون ممالک دورے اور اس جیسی ہر چیز آپ کی پہنچ میں ہے۔ بہترین پرائیویٹ تعلیمی ادارے آپ کے بچوں کی تعلیم کے لیے موجود ہیں اور قابل ترین ڈاکٹرز آپ کی دیکھ بھال کے لیے آپ کی خدمت میں ہمہ وقت حاضر و موجود ہیں۔ آپ پھر بھی بے چین ہیں۔
کوئی ایسی بیماری ہے جو آپ کے ڈاکٹرز کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ کوئی ایسی کمی آپ کے بستر میں ہے کہ آپ کی نیند کسی خواب آور دوا کی مرہون منت ہے۔ کوئی ایسا جراثیم آپ کے جسم میں موجود ہے جو آپ کو آپ کا من پسند کھانا کھانے کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ کا کوئی عمل تو ایسا ہے کہ آپ بے سکونی، بے چینی کا شکار ہیں۔ آپ ایسا کیا کرتے ہیں کہ جو آپ کے دل کو قرار نہیں؟ یقینا کوئی ایسی بیماری ہے جسے ڈاکٹرز تشخیص نہیں کر پا رہے۔ آپ کا دل کوئی ایسی خوشی چاہتا ہے جو مہنگی گاڑیوں، شاندار بنگلوں، ہائی پروفائل میٹنگز، آئے دن بدلتی رفاقتوں اور امپورٹڈ مشروبات میں میسر نہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ کے اس روگ کا علاج اور نسخہ ہے میرے پاس۔ آپ بس ان چند ٹوٹکوں پہ عمل کرگزریں ان شاءاللہ افاقہ ہوگا۔
آپ اپنا معمول بنالیں۔ آپ ہر ماہ کسی غریب رشتے دار کی چپکے سے مدد کردیا کریں۔ کسی پڑھے لکھے بے روزگار کو کام پہ لگوادیں۔ کسی طالب علم کی چپکے سے فیس بھردیا کریں۔ ہر ویک اینڈ پہ اپنے دوستوںکے ساتھ گپ شپ لگائیں۔ ان کے ساتھ کیرم کھیلیں۔ اکٹھے واک پہ جائیں۔ چائے کافی کے بہانے دوستوں کو وقت دیں۔ بچوں کے ساتھ کھیلیں۔ بات بات پہ کھل کرہنسیں، قہقہے لگائیں۔ دوستوں اور بچوں کے ساتھ ٹرپ پہ جائیں۔ اپنی فیملی کو انٹرٹین کریں۔ اپنے شہر، گاﺅں یا محلے میں کوئی رفاہی کام کروادیں۔ قدرتی نظاروںکو غور سے دیکھیں اور قدرت کی صناعی پہ غور کریں اور جو کچھ آپ کے پاس ہے ان تمام نعمتوں کا شکر ادا کریں۔ میرا یقین ہے کہ آپ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کریں گے۔ آپ آرام سے سوسکیں گے۔ آپ کے دل کو قرار آجائے گا۔ کچھ عرصہ یہ مت سوچیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ جس طرح آپ کے پاس لوگوں کے لیے وقت نہیں اسی طرح لوگوں کے پاس بھی وقت نہیں کہ وہ آپ کے متعلق سوچتے پھریں۔ کچھ وقت کے لےے آپ اپنے لیے بھی سوچیں۔ کچھ وقت اپنے لیے بھی نکالیں۔ اس لیے کہ بیماری ہمارے اندر ہے اس کا علاج بھی اپنے اندر سے شروع کرنا ہوگا۔

حسنِ صورت عارضی ہے

عظمیٰ ظفر

رشتے والی خالہ کو دیکھ کر یونیورسٹی سے واپس گھر آنے والی زینب کا منہ بن گیا۔ ایک تو پوائنٹ کا رش کافی تھا دماغ گرم کرنے کے لیے اور اب یہ شروع ہو جائیں گیں کہ آج کل کیسی لڑکیاں پسند کرتے ہیں لڑکے والے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی خوش مزاج سی زینب نے سرد مہری سے انھیں سلام کیا اور کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
زینب کے اس طریقے پر بیگم ناہید شرمندہ سی ہو کر پہلو بدل گئیں اور خالہ زبیدہ سے معذرت کرتے ہوئے زینب کی طرف داری کرنے لگیں۔ ارے بھئی کوئی بات نہیں! دھوپ سے آئی ہے تھک گئی ہوگی۔ رشتے والی خالہ نے زینب کی اس بات کو نظر انداز کیا تم اسے اب گھر بٹھا دو۔ ویسے ہی رنگ کم ہے دھوپ میں اور جل رہا ہے زینب کو ان کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ امی کو دکھی کر دینے کے لیے زینب کے ر نگ کا کم ہونا ہی کافی تھا مزید اس پہ معقول شکل۔ اس لیے وہ جلدی سے شربت کے تین گلاس بنا کر لے آئی۔ ”اے جیتی رہو بٹیا!“ ”اور سنائیں خالہ! کون سے سیارے کی لڑکیوں کے رشتے کروا رہی ہیں آج کل؟“ زینب نے مسکراتے ہوئے گلاس بڑھایا اس کے اس چٹکلے پہ دونوں خواتین کے چہرے پر ہنسی آ گئی۔لو اور کر لو بات! زمین کی تو بیاہ جائیں پہلے، انوکھے سیارے سے تو تم آئی ہو بٹیا۔ آج کل کی بچیوں کی طرح کوئی شو شا ہی نہیں ایسی لڑکیوں کو کون پسند کرتا ہے؟ آج کل کے لڑکے بھی کہتے ہیں مینی کیور، پیڈی کیور والی لڑکی چاہیے۔
پچھلے مہینے ایسی گوری، چندے آفتاب، چندے مہتاب لڑکی ڈھونڈ کر دی میں نے بیگم شہناز کے بڑے بیٹے کے لیے تم لوگ شادی میں کیوں نہیں آئے پوچھ رہی تھیں وہ تمھارا کے ناہید کیوں نہیں آئی؟ ”دراصل ہم لوگ خود نند کے بیٹے کی شادی میں مصروف تھے ان دنوں اس لیے شرکت نہ کر سکے“، بیگم ناہید نے کہا۔”لو تمھاری نند تو بڑی تعریف کرتی تھی زینب کی کسی اور سے کردی اپنے بیٹے کی شادی اپنے نہیں پوچھیں گے تو کون پوچھے گا؟“ ”اب ایسا بھی نہیں، میری بیٹی بہت سلیقے والی ہے جب اللہ کا حکم ہوگا، ہو جائے گی بس تم اچھا لڑکا دیکھنا جو دین دار ہو“۔
”امی! میں بھائی کے ساتھ شہناز آنٹی کے گھر چلی جاوں؟ مجھے کروشیے کے کچھ ڈیزائن پوچھنے تھے“، زینب نے ان سے پوچھا۔ ”چلو میں بھی چلتی ہوں کافی عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی“۔ ”امی! دروازہ تو کھلا ہوا ہے“، زینب نے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ ”چلو اندر چل کر دیکھتے ہیں، سناٹا بھی لگ رہا ہے“، لاونج میں پہنچے تو شہناز بیگم کافی غمزدہ لگ رہی تھیں۔ ”آنٹی خیریت تو ہے، باہر کا دروازہ کیوں کھلا ہے“۔ ”کیا ہوا شہناز؟“ بیگم ناہید کا پوچھنا تھا کہ وہ زار و قطار رونے لگیں۔ ”ارے ارے، شہناز! کیا ہوا؟ تم رونا بند کرو اور کچھ بتاو بھی“۔
”میں آپ کے لیے پانی لاتی ہوں“، کچن کی حالت دیکھ کر زینب کو لگا کے یہاں کوئی طوفان آیا تھا۔ گلاس دھو کر پانی لے آئی۔ پانی پینے کے بعد وہ گویا ہوئیں، ”کیا کیا بتاوں بہن، بہت چاہ سے بہو لے کر آئی تھی مگر وہ تو مومی مجسمہ نکلیں۔ گھر کے ہر کام کے لیے تو ملازمہ موجود ہے۔ آج اس نے چھٹی کرلی کل رات سے میری طبعیت خراب ہے موشن نے آدھی جان نکال دی ہے، صبح سے بخار سے نڈھال اٹھنے کی ہمت نہیں ہے۔ فہد بھی بنا ناشتے کے چلا گیا۔ بہو سے اتنا کہہ دیا کہ دوپہر میں تھوڑی سی کھچڑی بنا دینا۔ غصے سے بھری کچن میں جو اٹھا پٹخ مچائی وہ الگ، فہد کو فون کرکے بلایا اور چلتی بنیں۔ دیکھو تو دروازہ بھی کھلا چھوڑ گئی۔ بول کر گئیں ہیں نازک پری جب ملازمہ آجائے گی تب آوں گی۔ میں گھر کے کام نہیں کروں گی، میری اسکن خراب ہوتی ہے۔ فہد سے کچھ کہو تو کہتا ہے میں کیا کروں؟ اسے میرے کاموں سے بھی کوئی دلچسپی نہیں“۔
زینب ایک، ڈیڑھ گھنٹے کے عرصے میں کچن سمیٹ کر ان کے لیے کچھڑی چڑھا چکی تھی۔ پھر ان کے لیے قہوہ بنا کر لائی۔ ”آنٹی پہلے یہ بسکٹ کھا کر دوا لیں پھر آپ اور امی باتیں کریں جب تک کچھڑی تیار ہو جائے گی“۔”تم نے اتنا کچھ کیوں کیا بیٹا! میں کر لیتی بہت شکریہ اللہ تمہیں خوش رکھے“، آج معمولی صورت والی زینب ان کو بہت پیاری لگ رہی تھی۔ کچھ ہی دنوں بعد ایک مہکتی شام میں زینب کا سانولا رنگ خوشی سے چمک رہا تھا اور شہناز بیگم اپنے دوسرے بیٹے کی خوشیوں کا ہار زینب کے گلے میں ڈال کر یہی سوچ رہی تھیں کہ!
حسنِ صورت عارضی ہے
 حسنِ سیرت مستقل
اس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں 
اِس سے خوش ہوتا ہے دل

Monday, June 3, 2019

اپیل بنا م وزیر اعظم پاکستان عمران خان


علی احمد ساگر

جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولنگر کی تحصیل منچن آباد کے علا قہ میکلوڈگنج میں ایسا واقع پیش آیا جسے سن اپنے انسان ہو نے پر شرم محسوس ہوتی ہے۔ 19مئی 2019بروز۱توار کو میکلوڈگنج کی نواحی بستی کا رہائشی زبیر ڈوگر جو کہ کپڑا بیچنے کاکاروبار کرتا تھا اور دیوان پٹرولیم پر ہر اتوار کو لگنے والے اتوار بازار میں کپڑا بیچنے گیا تو اسکول سے چھٹی ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھ اپنے ساتھ سالہ معصوم بھتیجے عبدالرحمن کو بھی اپنی مدد کے لئے ساتھ لے گیا۔ گرمی کا موسم تھا زبیر اپنے کام کاج میں مصروف ہوا تو عبدالرحمن پانی پینے کے لئے دیوان پٹرولیم پر چلا گیا جہاں سے حوس کے پجاری ، وحشی درندوں سلیم جھنگڑ اور صفدرشیخ جو کہ مقامی زمیندار اور دیوان پٹرولیم سروس کے مالک دیوان شہزاد احمد چشتی کے کھیتوں پرملازم تھے نے بچے کو ورغلا کر اغواہ کر لیا۔
زبیر کاروبار ی مصروفیت سے فارغ ہوا تو بھتیجے عبدالرحمن کی تلاش شروع کردی۔ قرب و جوار سے نہ ملنے پر گھر فون کرکے معلوم کیامگر عبدالرحمن کا کہیں پتا نہ چل سکا۔ تلاش سے تھک ہار کر شام کو اغواہ ہونیوالے معصوم عبدالرحمن کے والد سیف اللہ نے تھا نہ میکلوڈگنج میں درخواست گزاری جس پر پولیس تھا نہ میکلوڈگنج نے روائتی انداز اپناتے ہوئے ٹال مٹول سے کام لیا اور مدعیان سے کہہ دیا کہ ہمارا نمبر لے جا ئیں اگر کہیں سے پتہ چل جا ئے تو ہمیں بھی بتا دینا اور درخواست بغیر ٹیگ لگائے لاکر میں پھینک دی ۔ چار یوم گزرجانے کے باوجود بھی میکلوڈگنج پولیس ٹس سے مس نہ ہو ئی تو بے قرار والد اپنے عزیزو اقارب کے ہمراہ ضلع بہاولنگر شہر کی منڈیوں اور بازاروں میں گمشدگی کے پوسٹرز بنوا کرتقسیم کرنے لگا اور ہر آنے جا نے والے سے پوچھتا کہ کہیں کسی نے میرے بیٹے کو دیکھا ہو۔۔۔
بہاولنگر کے اتوار بازار میں پوسٹرز تقسیم کرتے ہو ئے اور ررہاتھا کہ وہا ں پر وزٹ پر آئے مقامی اسسٹنٹ کمشنر بہاولنگر نے اس سے دریافت کیا تو عبدالرحمن کے والد سیف اللہ وغیرہ نے انہیں تمام حقائق سے آگاہ کیا جس پر انہوں نے اپنا ایک بندہ ساتھ بھیج کر ڈی پی او بہاولنگر کے پاس داد رسی کے لئے پہنچا یا ۔ڈی پی او بہاولنگر عمارہ اطہر نے جب یہ سارا قصہ سنا تو انہوں نے ڈی ایس پی منچن آباد کی سر زنش کرتے ہو ئے جلد ہی بچے کی بازیابی کے لئے احکا ما ت صادر کیے اور فوری تحقیقات کا حکم دیا۔ڈی ایس پی منچن آباد نے میکلوڈگنج پولیس کے ہمراہ دیوا ن پٹرولیم کے سی سی ٹی وی کیمروں کا بیک ڈیٹا چیک کرکے اپنی تفتیش کا آغاز کیا تو مغویہ بچے کو علاقہ کی معروف سیاسی شخصیت دیوان شہزاد احمد چشتی ایکس چیئرمین یونین کو نسل پیر گھر چشتی کے ملازم سلیم کو بچے کو مکئی کی فصل کی طرف لے جا تے ہو ئے دیکھا گیا تو ڈی ایس پی منچن آ با د نے فوری طو رپرزیر دفعہ 363مقدمہ درج کرکے سلیم کو گرفتا ر کر کے تفتیش شروع کر دی۔ دوران تفتیش ملزم سلیم جھنگڑ نے اپنے ساتھی صفدر شیخ کو بھی گرفتار کر وا دیا جنہوں نے بچے کو اغواہ کرنے کا جرم قبول کر لیا۔
24مئی 2019بروز جمعہ ملزمان کی نشاندہی پر پولیس نے سلیم جھنگڑ اور اس کے ساتھی صفدر شیخ کے ہمراہ معصوم بچے سے جنسی زیادتی کے بعد بچے کو جان سے مارنے کا جرم کا قبول کرلیا اور نعش پٹرول پمپ کے قریبی کھڑی مکئی کی فصل سے برآمد کروا لی۔ معصوم بچے کی نعش کو جنگلی کتوں اور گیدڑوں نے چیڑ پھاڑ دیا تھا جسے دیکھ کر والدین اور عزیز واقارب کو غشی کے دورے پڑنے لگ گئے ۔ یہ خبر جنگل کی آ گ کی طرح علا قہ میں پھیل گئی اورمظلوم بچے کے ورثاءاور اہلیان علا قہ جا ئے وقوعہ کے قریب جمع ہو گئے اور میکلوڈگنج پولیس کی بے حسی پر شدید احتجاج کیا ۔میکلوڈگنج پولیس نے چار یوم تک بچے کے ورثاءکی کو ئی مدد نہیں کی بلکہ ڈی پی او کے حکم کے بعد ہی ڈی ایس پی منچن آباد نے وقوعہ کو ٹریس کیا ۔علی الصبح سے سلیمانکی روڈ پر مظاہرین کی بڑی تعداد کی جمع رہی اورمین جی ٹی روڈ بند رہا۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ دیوان شہزاد نے معصوم کے ورثاءکے ساتھ تعاون نہیں کیا بلکہ اپنے ملازم کو آخری دم تک بچانے میں کوشاں رہا لہذا اس کے خلاف بھی مقد مہ درج کرکے گرفتار کیا جا ئے ۔ایس پی انوسٹی گیشن بہاولنگر مظاہرین سے معاملات طے کرنے میں کامیاب ہو گئے اور شام کے قریب مظاہرین نے اپنے مطالبات سے دستبردارہو کر ہڑتال ختم کردی ۔چونکہ ڈی پی او کے حکم پر مو رخہ 23مئی 2019کو تھا نہ میکلوڈگنج میں سیف اللہ ولد محمد صدیق کی مدعیت میں ایف آئی آر مقدمہ نمبر 141/19بجرم 363نا معلوم افراد کے خلاف در ج ہو چکی تھی لہذا اسی مقدمہ کی مثل میں 302اور 377کی دفعات شامل کر دی گئیں ۔ڈی ایس پی منچن آ با د نے 30مئی 2019کو تھا نہ میکلوڈگنج میں پریس کانفرنس کرتے ہو ئے صحافیوں کو بتا یا کہ دوران تفتیش ملزم صفدر شیخ نے مزید ایسے کئی واقعات میں ملوس ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
انہوں نے بتا یا ملزم صفدر شیخ پر اس سے قبل تھا نہ فورٹ عبا س اور تھا نہ ماچھیوال میں بھی زیر دفعہ 302,377کی ایف آئی آرز در ج ہیں جن میں یہ سزائے مو ت ہو چکا ہے ۔انہوں نے بتا یا کہ صفدر شیخ عادی ملزم ہے جبکہ اب تک کی تفتیش کے مطا بق سلیم جھنگڑ کی اس نو عیت کی پہلی واردات ہے۔باوثوق ذرائع کے مطا بق پتہ چلا ہے کہ ملزم صفدر شیخ انسانی خون کو پینے کے ساتھ ساتھ انسانی گوشت کھانے کا شوق بھی رکھتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اس طرح کے خطرناک ملزمان ،ناعاقبت اندیش آخر قانون کے شکنجے سے بچ کیسے جا تے ہیں۔
حیرت کی با ت ہے کہ ایسے جنونی اور انسانیت سوز واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتاجا رہاہے ۔1981کے ضیا ءالحق کے دور میں اسی طرز کاایک واقع پیش آیا جس پر انہوں نے پنجاب پولیس کو 10گھنٹے کی مہلت دی اور ملزمان کو گرفتا ر کرکے پیش کرنے کے احکامات جاری کیے ۔پولیس نے تین ملزمان کو گرفتا ر کر کے ضیا ءالحق کے پیش کیا تو انہوں نے تینوں ملزما ن کو لاہور کی مین سڑک پر پول لگا کر گلے میں پھندہ ڈال کر لٹکانے کے احکا مات دیے ۔کئی روز تک ان ملزمان کی نعشیںلٹکی رہیں حتی کہ ان کی کھالیں لٹک گئیں ۔ان درندوں کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کے بعد کئی سال تک زیادتی اور قتل کاکوئی کیس سامنے نہیںآیا ۔ سات سالہ معصوم عبدالرحمن اپنے گھر میں دوچھوٹی بہنوں کااکیلا بھائی تھا ۔مقتول عبدالرحمن کے والد ین اور اہلیان علاقہ نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے در مندانہ اپیل کی ہے کہ ظالم ،درندوں ،انسانی شکل میں چھپے بھیڑیوں کو سر عام پھانسی دے کر نشان عبرت بنا یا جا ئے ۔

Saturday, June 1, 2019

نظریاتی اختلاف




مستقل عنوان: حقیقت کے قریب
کالم نویس: مدثر مہدی 

عوام ا س وقت نہایت پریشان و حیران کن صورتحال سے دوچار ہے۔ملک تباہی کے دہانے پر ہے یاخوشحالی کے راستے پر کوئی نہیں جانتا ۔جی ہاں یہ وہی عمران خان ہیں جو وزیراعظم بننے سے قبل بلند و بانگ دعوو ں کا راگ الاپتے تھے جن کا کہنا تھا کہ عوام کو میٹرو بس،سڑکیں نہیں بلکہ روٹی ،مکان،علاج اور روزگار چاہئے۔جو بھولی بھالی معصوم عوام کو ایسے دلفریب و رنگین خواب دکھا چکے ہیںجن کے سحر سے نکلنا ناممکنات جیسامعلوم ہوتا ہے۔ ناجانے کب یہ قوم غفلت کی گہری نیند سے بیدار ہوگی۔بہرحال ابھی معاملہ کچھ یوں ہیں کہ یہ خواب تو عوام کی جان چھوڑنا چاہتا ہے مگر عوام اس حسین و دلکش طلسمی سپنے کی جان نہیں چھوڑنا چاہتے۔عین ممکن ہے عوام کو اس خواب شیریں سے جگانے کیلئے کسی پیربابا کی ضرورت پڑے تاہم ان پیر باباکا پتہ بھی ہمیں خان صاحب ہی سے پوچھنا ہوگاچونکہ وہ اس فیلڈکا کافی فہم وادراک رکھتے ہیں۔خان صاحب کو میدان میں اترنے سے پہلے حقائق کا علم نہ تھا جن معلومات کے دم پر وہ تبدیلی کے فلک شگاف نعرے لگاتے تھے ان کا حقیقت سے دور دور تک کو ئی تعلق نہ تھا۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی نوجوان قیادت باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔مریم صفدر کے ساتھ بلاول بھٹو کو دیکھ کر اچانک محترمہ بینظیر بھٹو (شہید)اور جیل میں قید نواز شریف صاحب کی یاد آگئی۔ملک کی دونوں بڑی جماعتوں نے اپنی تمام سیاسی زندگی میں ایک دوسرے کوچور و غدار کا خطاب دے کر لوگوں سے ووٹ بٹورے۔دونوں سیاسی جماعتوں میں سے جو جماعت لفظ © © ©”چور“ کی گردان کا وِرد زیادہ مرتبہ کرتی وہی محکوم لوگوں کا مسیحا بن کر مسند اقتدار پر براجمان ہوجاتی۔مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ”زرداری صاحب“یا ”نوازشریف صاحب“جب بھی کرسی پر بیٹھتے ہونگے ہم عوام کی بیوقوفی،جاہلیت،نالائقی پر فاتحانہ مسکراہٹ بکھیرتے ہونگے۔
ہم نے پیپلز پارٹی کو اسی کا رنا مے پر تو ووٹ دیے تھے کہ اس پارٹی نے ہمیںبتایا تھا کہ (ن)لیگ والے چور و لٹیرے ہیںانہوں نے ہماراپیسہ لوٹا ہے ہم کو ٹھگ لیا ہے۔بالکل اسی طرح ہم نے میاں نواز شریف کو بھی تو اسی بنا پرووٹ دیے تھے کیونکہ اس مسیحا نے ہم کو یہ فہم و ادراک دیا تھا کہ پیپلزپارٹی ہم کو اندھیروں میں ڈبو رہی ہے ان کی بدولت ملک غریب ہورہااور ایک دن یہ اس ملک کو بیچ ڈالیں گے۔اگر سچ یہی تھا تو آج یہ لوگ ایک ساتھ کیوں ہیں!ان دونوں میں سے کوئی ایک تو غلط تھا یا پھر دونوں ہی مکار تھے کیونکہ حق اور باطل ایک کیسے ہوسکتے! کہیںہم نے ان کو سمجھنے بوجھنے میں کوئی غلطی تو نہیں کردی!کیا ہمارے ساتھ دھوکا تونہیں ہوا!کیا ہم ویسے لوگ تونہیں جو سب کچھ دیکھنے کے باوجود بھی اندھے ہیں! ان دونوں سیاسی جماعتوں کے مطابق تو یہ دونوں کرپٹ ،بد عنوان،بدکردار،فریبی،غدارتھے تو آج یہ پارساو پاکبازکیسے ہوگئے۔ یہ دونوں تو نظریاتی پارٹیاں تھیں۔جمہورو جمہوریت کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے والے لوگ تھے۔آج کدھر ہے ان کانظریہ۔
نظریہ سے مجھے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ یاد آگیا۔آپ اگر باریک بینی سے جائزہ لیںتو آپ کو ہماری گلی محلے ،حلقے،شہر،صوبے نیزملکی سیاست ایک ہی کہانی محسوس ہوگی۔میرے والد ایک وکیل اور سماجی آدمی تھے جس بنا پر انکی سینکڑوں دیرینہ مخالفتیں تھیں جو مجھے ورثے میں ملیں۔ایک بار میں نے ان سے دریافت کیا میں نے علاقے میں بہت سے لوگوں کے لڑائی جھگڑے دیکھیں ہیں مگربالآخر سب کی صلح ہوجاتی ہے لیکن آپ میری پیدائش سے قبل کے واقعات کو لیکر آج بھی کئی لوگوںسے نہ صرف لاتعلق بلکہ آج بھی ان کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں جبکہ وہ لوگ آپ کے قریب آنے کیلئے آپ کے ایک اشارے کے منتظر ہیں۔والد محترم نے تسلی و تسکین سے بھرپور لہجے میں جواب دیا کہ بیٹا جس طرح برائی اور اچھائی کبھی ایک نہیں ہوسکتی اسی طرح اچھا انسان بھی کبھی برے کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا۔یہ دونوں مد مقابل اور ایک دوسرے کی ضد ہیںکیونکہ ان دونوں میں سوچ کا فرق ہے اور وہ سوچ” نظریہ“ ہوتا ہے تاہم اگر میں اپنے مخالفین کے ساتھ صلح چاہتا ہوںتو مجھے پہلے اپنے نظریے کا قتل کرنا ہوگااس کا گلا دبانا ہوگا۔صلح تب ہی ممکن ہے جب وہ مجھ جیسے ہوجائیں یا میں ان جیسا بن جاو ¿ں۔ پس ہمیں یہ مان لینا چاہئے ا ن جماعتوں کا کبھی کوئی نظریہ تھا ہی نہیںاور اگر ان کا کو ئی نظریہ تھا تو آج یہ ایک جگہ ایک جیسی سوچ وفکر کے ساتھ نہ مل بیٹھتے۔
 مریم نواز اسی نواز شریف کی بیٹی ہیں جن کے بارے میں پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ یہ ضیا ءالحق کے بیٹے ہیں۔اگر پیپلز پارٹی سچ میں جمہوری جماعت ہے تو آج ایک آمر کے بیٹے کی جماعت کے ساتھ کیوں کھڑی ہے۔ایک ڈکٹیٹر کی پیدا کردہ سیاسی پارٹی کا ساتھ دینا کیا جموریت کا قتل نہیںبلکہ میں یوں کیوں نہ کہہ دوں کے یہ لوگ جمہوریت کا قتل کر نے کے بعد اس کو اپنے ہاتھوں سے دفنا بھی چکے ہیں۔ایسے درندہ صفت لوگ موت سے کیوں نہیں ڈرتے،کیا ان کا بعد از مرگ دائمی زندگی پر ایمان بھی نہیں ،اگر انہیں خوف خدا ہے تو لوگوں کے حال پر رحم کیوں نہیں کرتے،عوام کے جذبات سے کھیلنا ان کا ذوق و شوق کیوں ہے،بھوکے و غمزدہ چہروں پر تمسخر اڑانا ان کا پسندیدہ و دلعزیز مشغلہ کیوں ہے،یہ کیوں نہیں سوچتے غربت کی ماری قوم ان کے جھوٹے وعدوں کواپنی مشکلات کی نجات سمجھتی ہے۔مہنگا ئی و بے روزگاری سے پسی ہوئی عوام ان کے کھوکھلے نعروں کو امید کی کرن سمجھتے ہیں۔میری تمام سیاسی جماعتوں سے التجا ہے برائے مہربانی ہم مفلس زدہ لوگوں پر ہنسنا بند کرو۔ہماری سانسوں پر نہیں ہمارے دلوں پر حکومت کرنے کے ہنر سیکھو۔ 

اعتکاف فضائل و مسائل

 کوثراسلام

مسلمان سارا سال اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ کوئی کاروبار کرتا ہے تو کوئی کھیتی باڑی، کوئی اسکول کالج میں پڑھاتا ہے تو کوئی اسپتال میں ڈاکٹر ہے۔ مسلسل دنیاوی کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے ایمانی اور روحانی سطح کمزور ہو جاتی ہے۔ مسلمان کو روحانی طور پر چارج کرنے کے لیے اللہ تعالی نے رمضان کے روزے فرض کر دیے۔ رمضان کا مہینہ ایک طرح سے مسلمانوں کے لیے سالانہ ورکشاپ کا مہینہ ہے جس میں مسلمان خود کو ایمانی اور روحانی لحاظ سے اپ گریڈ کرتے ہیں۔
مسلمان جب مسلسل بیس دن روزہ رکھ کر اپنی نفسیات اعتدال پر لاتے ہیں تو پھر اللہ تعالی چاہتے ہیں کہ یہ باقی دس دن میرے سوا تمام مخلوقات سے غیر ضروری میل جول ترک کرکے میرے در پر آ جائیں تاکہ ایمان اور روحانیت کی بلندیوں کو چھو سکیں۔یہ آخری دس دن جس میں مسلمان ہر طرف سے یکسو ہو کر صرف اللہ سے لو لگا کر ان کے در یعنی مسجد کے کسی گوشے میں ہر وقت عبادت اور ذکر و تلاوت میں مشغول رہتا ہے اس کو اعتکاف کہتے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسجد میں ایک جگہ مخصوص کر دی جاتی اور وہاں آپ کے لیے کوئی پردہ چٹائی وغیرہ کا ڈال دیا جاتا یا کوئی چھوٹا سا خیمہ نصب ہو جاتا اور بیسویں تاریخ کو فجر کی نماز پڑھ کر آپ وہاں چلے جاتے اور عید کا چاند دیکھ کر وہاں سے باہر تشریف لاتے۔حدیث نبوی ہے ”اعتکاف کرنے والا گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کے لیے (بغیر کئے بھی) اتنی ہی نیکیاں لکھی جاتی ہیں جتنی کرنے والے کے لیے لکھی جاتی ہیں“ (ابن ماجہ) یعنی وہ نیک کام جو یہ اعتکاف کی وجہ سے نہیں کر سکتا اللہ تعالی بغیر کیے اس کا ثواب عطا فرماتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں”رمضان کے (آخری) دس دنوں کے اعتکاف کا ثواب دو حج اور دو عمروں کے برابر ہے“۔ (بیہقی)
اللہ تعالی فرماتے ہیں ”جو شخص مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور جو میری طرف چل کر آتا ہے میں دوڑ کر اسے اپنا لیتا ہوں“۔ اعتکاف کرنے والا اپنا گھر چھوڑ کر اللہ کے در پر آ کر پڑ جاتا ہے تو وہ کتنا اللہ کے قریب ہوگا۔ اعتکاف کرنے والے کا ہر ہر منٹ عبادت ہے شب قدر آخری عشرہ میں آتی ہے تو جب شب قدر آئے گی اعتکاف کرنے والا عبادت میں ہوگا لہذا شب قدر کے حصول کا سب سے بہتر طریقہ اعتکاف کے سوا اور کوئی نہیں۔
اعتکاف کا وقت
اعتکاف 20 رمضان کی شام کو غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے تک رہتا ہے۔ یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے یعنی محلہ یا بستی میں بعض لوگوں کے کر لینے سے سب کے ذمہ سے ادا ہو جاتا ہے اور اگر کوئی بھی نہ کرے تو سب کے اوپر اس کا وبال ہوگا۔ جس شخص کا اعتکاف کا ارادہ ہو اسے چاہیے کہ 20 رمضان کو سورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں داخل ہو جائے۔ یا اگر عورت ہے تو اعتکاف کی جگہ بیٹھ جائے۔
عورت اپنے گھر میں جہاں نماز پڑھنے کی جگہ ہے وہیں اعتکاف کرے اگر کوئی جگہ مخصوص نہ ہو تو جہاں اعتکاف کرنا چاہتی ہو وہی جگہ نماز کے لیے مخصوص کرکے وہاں اعتکاف کے لیے بیٹھ جائے یہ اس کے حق میں ایسا ہے جیسے مرد کے لیےجماعت والی مسجد میں اعتکاف کرنا۔ وہاں سے ضروری حاجت کے سوا دوسرے وقت میں نہ نکلے۔
مسائل اعتکاف
20 تاریخ کو اگر سورج غروب ہونے کے بعد اعتکاف میں داخل ہوا تو عشرہ اخیرہ کی سنت ادا نہ ہوگی۔ عورت کے لیے اعتکاف کے لیے شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے بغیر شوہر کی اجازت کے اعتکاف نہ کرے۔ خواتین کو اعتکاف کے دوران مخصوص ایام آ جائے تو اعتکاف چھوڑ دے۔ پاک ہونے کے بعد اس ایک دن کی قضا ضروری ہے 10 دن کی نہیں۔ یہ قضا اگر رمضان میں کی تو رمضان کا روزہ کافی ہوگا اگر رمضان کے بعد قضا کی تو اس دن روزہ رکھنا ضروری ہوگا۔
یہی حکم اس شخص کا بھی ہے جس کا اعتکاف ٹوٹ جائے۔ اعتکاف اگر دن میں ٹوٹ جائے تو صرف دن کی قضا واجب ہوگی یعنی صبح صادق سے شروع کرکے غروب آفتاب تک اعتکاف کرے۔ اور اگر رات میں اعتکاف ٹوٹا تو پھر رات دن دونوں کی قضا واجب ہے۔ یعنی غروب آفتاب سے کچھ دیر قبل شروع کرکے دوسرے دن غروب کے بعد ختم کرے۔ 
معتکف کے لیے کرنے کے کام
اعتکاف میں نیکی اور اچھی باتیں کریں فضول اور لایعنی باتوں سے احتراز کریں۔ اپنی طاقت کے مطابق اپنے اوقات زیادہ سے زیادہ عبادت میں صرف کریں۔ قران شریف کی تلاوت کریں۔ دینی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ درود شریف استغفار اور تسبیحات کثرت سے پڑھیں۔ اشراق چاشت اوابین اور تہجد کی نماز کا اہتمام کریں۔ صلوة تسبیح صلوة حاجت اور تحیتہ الوضو بھی پڑھا کریں۔ شب قدر کی پانچوں راتوں میں جاگ کر عبادت کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے لیے اپنے اہل و عیال کے لیے اپنے ملک کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے خوب گڑگڑا کر دعائیں مانگیں۔



میمونہ رحمت، راولپنڈی

رمضان المبارک میں جہاں دیگر عبادات میں مسلمانوں میں جوش و خروش پایا جاتا ہے وہیں صدقہ و زکوٰة بھی عموماََ لوگ رمضان المبارک میں ہی زکوٰة ادا کرتے ہیں۔ زکوٰة دین اسلام کا چوتھا رکن ہے اور ہر عاقل، بالغ ، آزاد اور صاحب نصاب مسلمان پرفرض ہے جب کہ صاحب نصاب ہوے ایک سال کا عرصہ گزر جائے (قمری سال)۔ کسی بھی شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا ، ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر تجارتی مال یا ملکی،غیر ملکی کرنسی موجود ہو تو وہ صاحب نصاب ہوگا اور اس پر مال کا اڑھائی فیصد اداکرنا واجب ہوگا۔ زکوٰة میں پیسے دینا ہی ضروری نہیں بلکہ جتنے روپے زکوٰة کے بنتے ہیں ان کا راشن، کپڑا، کتابیںوغیرہ بھی لے کر مستحق کو دیا جا سکتا ہے۔ 
اکثر گھرانوں میں یہ رواج ہے کہ گھر کے سربراہ نے زکوٰة ادا کردی تو باقی صاحب نصاب گھر والوں کا کہنا ہے کہ جی ہمارے گھر کی زکوٰة ادا ہو گئی ہے تو یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ زکوٰة بھی نماز، روزہ ، حج اور قربانی کی طرح ایک انفرادی فریضہ ہے ۔ جن زیورات کی مالک عورت خود ہے خواہ وہ میکے سے ملے ہیں یا شوہر نے دیے ہیں ان زیورات کی زکوٰة عورت پر فرض ہے ہاں اگرشوہر نے صرف پہننے کو دیے ہوں یعنی ان زیورات کا مالک نہیں بنایا تو ان کی زکوٰة مرد کے ذمے ہے۔ کرایہ پر دیے گئے مکانات، دکانیں، گاڑیاں وغیرہ سے حاصل ہونے والی آ مدنی اگر بقدر نصاب ہے اور اس پر سال گزر جائے تو زکوٰة واجب ہوگی۔
 دیہات میں اکثرلوگوںکے پاس مویشی ہوتے ہیں ان کے لیے یہ ہے کہ اگر تو وہ مویشی مفت چارہ کھاتے ہیں مطلب خودرو پودے کھاتے ہیں تو ان پر مقرر شرح سے سال گزرنے پر زکوٰة کی وصولی ہوگی لیکن اگر سال کا زیادہ حصہ ان کو قیمتی چارہ ڈالا جائے تو وہ زکوٰة سے مستثنیٰ ہیں۔ بارانی زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار کا دسواں حصہ جب کہ قیمتاََ سیراب ہونے والی زمین کی پیداوار کا بیسواں حصہ زکوٰة ہوگا۔زکوٰة کا جو مستحق ہے اسی کو زکوٰة دینا ضروری ہے اور جو زکوٰة کا مستحق نہیں ہے اگر اس کو دے دی تو ادائیگی نہیں ہو گی۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ”بے شک اللہ تعالیٰ نے زکوٰةکے مستحق کو کسی نبی کی مرضی پر چھوڑا ہے اور نہ ہی نبی کے علاوہ کسی اور کی مرضی پر بلکہ خود ہی فیصلہ فرما دیا ہے اور اس کے آٹھ حصے کر دیے ہیں“۔ (ابوداو ¿د: ۳۶۱، عن زیادبن حارث رضی اللہ عنہ)
مستحقین زکوٰة کے بارے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”زکوٰة تو صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو محتاج اور مسکین ہوں اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں اور مو ¿لفتہ القلوب اور گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے“۔ (سورة التوبہ آیت نمبر ۰۶)
اپنے مال و اسباب کا جائزہ لیجیے اور اگر آپ کے پاس کم از کم پینتالیس سے سینتالیس ہزار بینک میں یا ضرورت سے زائد پڑے ہوے ہیں اور ان کو سال ہو گیا ہے تو آپ صاحب نصاب ہیں، اس بابرکت ماہ میں زکوٰة اداکر کے اپنا مال پاک کیجیے ۔ اگر ہمارے معاشرے میں ہر صاحب نصاب شخص زکوٰة ادا کرنے لگے تو یقین مانیے ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ زکوٰة کے مستحقین ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں گے۔

بچوں کو کائنات سے جوڑیں



راحیلہ چوہدری ، لاہور

بچے کی سمجھ اور محسوس کرنے کا عمل پیدائش کے پہلے دن سے شروع ہو جاتا ہے۔ تین سال کی عمر تک وہ ماں باپ کے مزاج وماحول سے آشنا ہو جاتا ہے۔اس دور کا مشاہدہ اس کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار عطا کرتا ہے۔بچے کی ابتدائی تربیت میں ماں کی قربت کا اہم حصہ ہوتا ہے۔جو بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو اُبھارنے اور اس کی شخصیت کو اعتماد عطا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔بچے کی زندگی کے پہلے پانچ سال بڑے اہم ہوتے ہیں۔ان ابتدائی سالوں میں بچے کو محبت ،یقین اور بھرپور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک بچے کے لیے ماں کی محبت اور توجہ اتنی ہی بنیادی اور ضروری ہے ۔جتنا کسی پودے کے لیے دھوپ اور پانی۔
مغرب نے ہماری آج کی ماں کے ہاتھ میں اسمارٹ فون پکڑا کے بچوں کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے۔اس اسمارٹ فون نے انسان کو جہاں بہت فائدے پہنچائیں ہیں ۔دوسری طرف ہماری آج کی ماںسے اپنے بچے کے لیے فکر کو چھین لیا ہے۔والدین بچوں کومہنگے سکول کالج کے حوالے کر کے بالکل بے فکر ہوچکے ہیں۔ جبکہ خوبصورت و فعال ذہنوںکی تعمیر کے لیے صرف دولت نہیںجذباتی اور فکری سرمایہ چاہیے ہوتا ہے۔جو والدین اپنے بچوں کی زندگی میں وقت کی انوسٹمینٹ نہیں کرتے ان کے بچوں کی پرسنلٹی میں بہت سی کمیاں رہ جاتی ہیں۔موجودہ نظام تعلیم ہمارے بچوں کو ڈیپریشن اور تکبر کے سوا کچھ بھی نہیں دے پا رہا۔بچوں کو ایک باکردار انسان اور ایک با عمل مسلمان بنانے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ بچے کے ابتدائی سالوں میں اسے کائنات کے ساتھ جوڑا جائے۔بچے کا کائنات کے ساتھ جڑنا اس کی تربیت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
کائنات میں غورو فکر کرنے سے بچوں کو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔بچپن میں ہی اس کے ذہین کے خالی صفحے پر عقیدہ توحید نقش ہوجاتا ہے۔بچہ بچپن سے ہی زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کو اپنے سامنے رکھتا ہے۔اس کی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی اس کی اللہ سے پکی دوستی ہو جاتی ہے۔اگر ہم تصوف کی تاریخ پہ نظر دوڑائیں ۔جتنے ولی جتنے درویش تھے انہوں نے علم حاصل کرنے کے بعد جنگلوں غاروں میں رہ کر ہی اللہ کی معرفت حاصل کی۔اللہ کی کائنات میں غوروفکر کرنے سے ہی اصل علم انسان کو اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے ۔کائنات میں غور وفکر کے بعد ہی انسان کے اوپر حقیقی معنوں میں علم و حکمت کے دروازے کھلتے ہیں۔
بچوں کو گھر میں چھوٹے چھوٹے پھول اور پودے خرید کر دیں۔اگر آپ کے گھر میں لان یا ایسی جگہ ہے جہاں چھوٹا سا کچن گارڈن بنایا جاسکے بنائیے۔اس میں بچوں کے ساتھ مل کر سبزیاں اُگائیے۔اگر یہ کام آپ خود نہیں کر سکتے تو جب مالی آئے تو بچوں کو مالی کے پاس بھیج دیں ۔بچے اسے دیکھیں گے سوال جواب کریں گے۔ان کی دلچسپی بڑھے گی۔بچے جب پودوں کے پیداوری اور تعمیراتی مراحل کا مشاہدہ کرتے ہیں اس مشاہدے سے بچوں کی سمجھ بوجھ اور ذہنی استعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔پودوں کے ساتھ جڑنے سے بچوں کے اندرخوشی خلوص،محبت ،خدمت جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔اکژ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچے ایسے کام کہاں کر سکتے ہیں ۔جبکہ بچوں میں اللہ تعالی نے قدرتی طور پہ بے پناہ طاقت اور سیکھنے کی صلاحیت رکھی ہے۔ چاپان کے بچے سکول میں اپنے ہاتھوں سے سبزیاں لگاتے ہیں اور وہی سبزیاں دوپہر کو ان کو کھانے میں دی جاتی ہیں۔اور سبزیاں لگانے کا کام ہر کلاس ہر عمر کا بچہ سکول میں کرتا ہے۔
بچوں کو ہفتے میں ایک بار ضرور باغات کی سیر کروائیں۔ٹہنی بیج اور پتے دکھائیں۔پودوں کے نام اور خوشبو کی پہچان کروائیں۔بچوں کو پودوں کی اہمیت کے بارے میں بتائیںکہ پودے بھی ہماری طرح سانس لیتے ہیں ۔ان کی وجہ سے ہمیں آکسیجن ملتی ہے۔اس لیے ان کا خیال رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔اسی طرح بچوں کو پودوں کی خاصیت کے بارے میںبھی ضرور بتائیں۔جیسے سنیک پلانٹ ایک انڈور پلانٹ ہے اس کی خاصیت یہ ہے کہ رات کے وقت یہ پودا وافر مقدار میں آکسیجن چھوڑتا ہے اسی وجہ سے اسے آکسیجن بم بھی کہتے ہیں۔اس کی موجودگی میں انسان پرسکون نیند سوتا ہے اور صبح بستر سے اٹھتے کسی قسم کی تھکن محسوس نہیں ہوتی ۔اسی طرح ایلوویرا کو سردیوں میں کمرے میں رکھنے سے لوشن کی ضرورت نہیں پڑتی۔پودینے کے پودے کو گھر کے دروازہ کے ساتھ رکھنے سے گھر کے اندر مکھیاں مچھر داخل نہیں ہوتے۔
بچوں کو درختوں پر چڑھنا اور اترنا بھی سکھائےے۔اس سے بچوں میں ڈر اور خوف ختم ہو جاتا ہے۔ہڈیاں اور عضلات مضبوط ہوتے ہیں ۔بچے بہادر اور نڈر ہو جاتے ہیں۔اور اس کا سب سے بڑا فائدہ بچوں میں دنیا کو مختلف زاویے سے دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ہمارے پیارے نبی بھی جب عرب کے حالات دیکھ کر بہت پریشان ہو جاتے۔تو وہ پہاڑ کی چوٹی پہ چڑھ کر شہر کی طرف دیکھا کرتے اور مسائل کا حل سوچا کرتے۔پودوں کی اہمیت بتانے سے بچوں میں اللہ اورکائنات کی محبت بڑھے گی۔پھولوں اور پودوں کے قریب رہنے سے بچوں کو ذہنی دباﺅ اور چڑ چڑے پن سے نجات ملتی ہے۔بچوں کی خو ش مزاجی میں اضافہ ہوتا ہے۔
کھانا کھانے کے بعد بچے ہوئے کھانے کو بچوں سے ایک جگہ جمع کرواتے جائیں اور پھر جب وقت ملے۔لان یا چھت پر جا کر بچوں کے ہاتھ سے پرندوں کو کھانا ڈلوائیں ۔اس طرح بچوں میں رزق کا احترام پیدا ہو گا اور پرندوںکو کھانا کھلانے کے سارے عمل سے بچوں میں رحم ،نرمی، خلوص اور امید جیسے جذبات پیدا ہوں گے۔
رات کے وقت کبھی چھت یا لان میں بچوں کو آسمان کا مشاہدہ کروائیں۔ان کو چاند اور ستاروں کے متعلق بتائیں۔دب اکبر ،صبح کا ستارہ، قطبی ستارہ کے بارے میںبتائیں۔قطبی ستارے کے بارے میں بچوں کو خاص طور پر بتائیں کہ شمال کی طرف نظر آنے والا روشن ترین ستارہ ہے۔اس ستارے کی مدد سے راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔اور انسان کو بھی ایک قطبی ستارے کی مانند ہونا چاہیے۔جو اپنے کردار اور صفات کی روشنی سے لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھائے۔رات کے وقت پارک جائیں تو بچوں کو جگنو دکھائیں۔اس کی صفات کے بارے میں بتائیں۔کائنات کا مشاہدہ کرواتے ہوئے بچوں کے سوالوں کا خندہ پیشانی سے جواب دیں۔کبھی ناگواری کا اظہار مت کریں۔بچے کے سوالات آپ کو بتائیں گے کہ وہ کائنات سے متعلق معلومات کو اپنے ذہین میں کس طرح سے جذب کر رہا ہے۔
آپ کے پہلے بچے کے پانچ سال بہت اہم ہیں۔آپ کا پہلے بچے پہ لگایا ہوا وقت باقی بچوں کی تربیت میں مدد گار ثابت ہو گا۔آپ کے باقی بچے آپ کے بڑے بچے کو دیکھ کر ہی بہت کچھ سیکھ جائیں گے۔بچوں کو والدین کی شکل میں صرف ایک مبلغ نہیں چاہیے ہوتا ۔بچوں کو ایک رول ماڈل چاہیے ہوتا ہے۔آپ کی جو دلچسپیاں ہوں گی۔ آپ کے بچے میں بھی وہی پیدا ہوں گی۔آجکل کے والدین بچوں کو اللہ کا ایک تحفہ سمجھتے ہیں۔والدین کی غلط انداز کی محبت بچوں کے بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔ بچوں سے بچوں کے لیے محبت کریں ایسی محبت جو انہیں سنوار دے۔ان ننھے منے پھولوں کی پرورش اس طرح کیجیے ۔جب یہ کھلیں تو ان کے کردار کی خوشبو سے سارا جہان مہک اُٹھے۔اور ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکے۔