2019 ~ The NTS News
The NTS News
hadith (صلی اللہ علیہ وسلم) Software Dastarkhān. دسترخوان. الفاظ کا جادو Stay Connected

Tuesday, December 10, 2019

ڈیئر سیلری ! تم کب آﺅ گی؟



تحریر: عارف رمضان جتوئی

نیوز ون کے رپورٹر ایس ایم عرفان انتقال کرگئے۔ کراچی پریس کلب کے رکن اور ہمارے ایک بہترین ساتھی ہم سے بچھڑ گئے۔ ان کے انتقال کی خبر ملی تو دل مغموم ہوا. پھر پتا چلا وجہ انتقال ہارٹ اٹیک ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے نیوز ون میں سیلریز نہیں مل رہیں۔ یہ صورتحال اب تقریبا صحافتی ہر ادارے کی ہے۔ ایس ایم عرفان بھی بہت پریشان تھے، ان کے گزشتہ روز کے واٹس ایپ پر ایک مزاحیہ انداز میں اسٹیٹس تھا ”ڈیئر سیلری ! تم کب آﺅ گی، آئی مس یو سو مچ ۔۔“اب وہ سیلری آکر شاید مس ٹو کہے گی۔
آپ سمجھ سکتے ہیں اس وقت کی مہنگائی اور پھر اس پر محدود اور میسر سیلری بھی وقت پر نہ ملے تو کرایے دار کو مالک بھی نوٹس جاری کردیتا ہے۔ بل چاہیے بجلی کا ہو یا گیس کا یا 5سو تک کی کیبل کا وہ بھی کٹ جاتا ہے۔ بچوں کی فرمائشوں کا گلا گھونٹ بھی دیں تو پیٹ کی آگ کا ایندھن تو بھرنا ہی پڑتا ہے آخر کو جینا تو ہے ناں۔ موسم بھی بدل چکا ہے، پرانے کپڑے دھوپ لگا کر نکال بھی لیں تو ممکن ہے وہ اب چھوٹے ہوچکے ہوں۔ ماں باپ سردی میں رات کو سو بھی لیں تو بچوں کے کپ کپانے کو دل کیسے مان لے۔
اللہ جانے ایس ایم عرفان کے حالات ہماری سوچ سے کتنا زیادہ پریشان کن تھے۔ وہ حالات کی سنگینیوں کو جانتے تھے...... پڑھے لکھے بھی تھے... .خود کشی کو وہ حرام سمجھتے تھے مگر یہ دل.... اس کا کیا کیا جائے... . کبھی تو مان لے مگر ہر بار تھوڑی مانتا ہے... بہت تڑپا ہوگا کئی بار سوچا ہوگا جا کر مالکان کا گلا دبا دے مگر پھر اپنی تعلیم اور مہذب ہونا یاد کر کے خاموش بیٹھ جاتا ہوگا۔ دل ہے ناں کب تک... بالآخر زور سے دھڑکا اور ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔ایس ایم عرفان کی تدفین کے بعد صحافیوں نے کراچی میں نیوز ون کے ہیڈ آفس پر دھرنا دیا احتجاج کیا۔ یہ حل ہے تو یقینا یہی کرتے رہنا چاہیے مگر شاید یہ حل نہ تھا نہ ہے۔ البتہ کچھ نہ ہونے کے لیے یہ کرنا بھی بہت ہے۔
ایس ایم عرفان کا انتقال صحافت سے منسلک ہر فرد کی پریشانی کو عیاں کرتا ہے۔ موجودہ حکومت نے میڈیا کو جس طرح کے بحران دیے وہ شاید صدیوں بھلائے نا جاسکیں گے۔ بڑوں کا کچھ ہوا یا نہیں کم از کم نچلی سطح پر سب ہی پس گئے۔ مالکان اور ایڈیٹران کو جیسے موقع ہی مل گیا۔نکالو ، پھر نکالو اور بار بار نکالو یہاں تک کوئی صرف وہ رہ جائے جو ضرورت سے زیادہ ضروری ہے۔ یوں جسے نکال دیا وہ رل گیا۔ جو رہ گیا اسے سیلری بھی محدود دی گئی اور وہ بھی اپنی مرضی سے۔ کچھ حکومت نے حالات بگاڑے اور کچھ اداروں نے ہاتھ صاف کیا۔ مل بانٹ کر دونوں نے چھوٹے صحافیوں کو رگڑ دیا۔
حکومت کے آتے پہلی فرصت میں بے شمار ملازمین کو فارغ کیا گیا۔ پھر جو بچے ان کو سیلری نہ دے کر نکلنے پر مجبور کیا گیا پھر بھی جو بچ گئے ان کو کئی ماہ سے سیلری نہیں مل رہی۔ حالات یہاں تک گھمبیر ہوچکے ہیں کہ اب ایک اچھا باعزت میڈیا سے منسلک فرد سب چھوڑ کر یا تو جنرل اسٹور چلا رہا ہے یا پھر کہیں مزدور بنا ہوا ہے ورنہ اکثر نے تو اپنا چپس اور برگر کا ٹھیلا سجایا ہوا ہے۔
ایسا ہرگز نہیں کہ میڈیا میں بحران حقیقی ہے۔ مصنوعیت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ جس کی پرچی جاندار تھی وہ آج بھی اپنی جگہ پر ذرا برابر بھی ہلے کام کر رہا ہے۔ اب کام آتا ہے یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بے شمار نیوز پیپر اور چینلز ہوچکے ہیں اب معیار کون دیکھتا ہے۔ اب یہ سلسلہ چل رہا ہے اور یوں چلتا رہے گا۔ ایسے بے شمار صحافی جو بہت کمال کے تھے اب وہ گمنام ہوچکے وجہ وہی کہ ان کے لیے اداروں میں جگہ نہ رہی۔ یہ وہ صحافی ہیں جن کو پہلے باہر نکل کر اپنی جان کی فکر رہتی تھی۔ اب ان کو اپنے آفس میں جان بچانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے موت ہوتی تھی ایک گولی کھا کر اب موت ہوتی ہے روٹی نہ کھا کر۔
ایم ایس عرفان کی موت کو حادثاتی قرار دیا جائے یا پریشانی کی وجہ کیا فرق پڑتا ہے۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ وہ سب کے لیے مقرر ہے، جب آنا ہے آکر رہتا ہے۔ نیوز چینل نے چند روپے ہی تو روکے ہیں اب اس میں کوئی مر ہی جائے تو ان کا کیا لینا دینا۔ ایسا کبھی کسی چینل مالکان کے بچوں کے ساتھ ہوتو شاید ان ہیں اس درد یا تکلیف کا احساس ہو۔ ویسے مالک کائنات کی لاٹھی بے آواز ہے، ایسی کئی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں بڑے بڑے اداروں کے بچے بیرون ملک بھی جا کر صرف تابوت میں واپس آئے۔ اللہ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔
صحافتی تنظیموں کو ان معاملات کے لیے اپنا بھرپور فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پھر ہم کسی دوست ساتھی کا اللہ نہ کرے جنازہ پڑھنے جارہے ہوں۔ خدارا اس ڈوبتی صحافتی کشتی کو بچانے کے لیے آگے آئیں۔ وہ بھی جو صحافتی تنظیموں کے بڑے ہیں وہ بھی جو اداروں میں اچھی پوزیشن پر ہیں۔ وہ بھی جو روز انہیں کیمرہ مین رپورٹرز اور ٹیکنیشنز کے ذریعے ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر بھڑکیں مار رہے ہوتے ہیں۔ اللہ ایس ایم عرفان بھائی کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے، آمین

Monday, August 26, 2019

الجنان ارضی

انیلہ افضال

تمام مسلمانوں کا اس بات پر مکمل ایمان ہے کہ ایک دن جب قیامت قائم کر دی جائے گی تو ہم سب کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے جہاں پر ہمیں ہمارے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ اللہ کے انصاف کا ترازو ہمارے اعمال کو پورا پورا تولے گا۔ اور پھر ”جن کے اعمال کا وزن بھاری ہو گا وہ دل پسند زندگی میں ہوں گے اور جن کے اعمال کا وزن ہلکا ہو گا ان کی منزل ھاویہ ہے“۔ (القرآن)
قرآن کریم فرقان حمید میں اللہ تعالیٰ نے دل پسند زندگی کو جنت کی زندگی فرمایا ہے۔ جنت! کیا خوش گوار احساس ہے! یقیناً جنت میرے رب کی بہترین نعمت ہے۔ یہ تو وہ جنت ہے جس کا وعدہ نیک اعمال کے بدلے میں میرے رب نے بار بار کیا ہے اور جو آسمانوں میں کہیں موجود ہے لیکن زمین پر جو جنتیں اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو عطا فرمائی ہیں ایک نظر ان پر بھی ڈالی جائے کہ ایمان تازہ اور روح سرشار ہو جائے۔
اس روئے زمین پر موجود جنتوں میں سب سے افضل ہے جنت البقیع۔ بقیع اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جنگلی پیڑ پودے بکثرت پائے جاتے ہوں اور چوں کہ بقیع قبرستان کی جگہ میں پہلے جھاڑ جھنکاڑ اور کانٹے عوسج یعنی غرقد کے پیڑ بکثرت تھے اس لیے اس قبرستان کا نام بھی بقیع غرقد پڑ گیا، یہ قبرستان مدینہ منورہ کی آبادی سے باہر مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں واقع ہے۔ اس کے ارد گرد مکانات اور باغات تھے اور مسجد نبوی کی آخری توسیع میں اس قبرستان اور مسجد نبوی کے درمیان جو مکانات تھے ان سب کو منہدم کر دیا گیا، اب یہ بقیع قبرستان مسجد نبوی کے خارجی صحن سے مل چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات مہاجرین رضوان اللہ اجمعین نے جب مدینہ منورہ کو ہجرت کر کے اپنا مسکن و وطن بنایا، تو اس شہر مبارک میں مزید تعمیری و تمدنی ترقی ہونے لگی۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ کوئی مناسب جگہ مسلمانوں کی اموات کی تدفین کے لیے متعین ہو جائے، اسی مقصد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس (بقیع کی) جگہ تشریف لائے، تو ارشاد فرمایا، ”مجھے اس جگہ (یعنی بقیع) کا حکم (قبرستان کے لیے) دیا گیا ہے۔ (مستدرک امام حاکم 11/193) اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس (بقیع کی) جگہ مسلمانوں کا قبرستان بنانے کا حکم فرمایا تھا اور یہیں سے اس جگہ یعنی بقیع قبرستان کی فضیلت کی ابتدا ہوتی ہے۔ جو عمرہ زائرین یا حج زائرین مدینہ منورہ میں وفات پاتے ہیں وہ اس ارضی جنت میں دفن ہوتے ہیں۔ یہاں دفن ہونا ہر مسلمان کی خواہش ہے۔
کرہ ارض پر موجود دوسری عظیم ترین جنت، جنت المعلیٰ ہے۔ یہ ارضی جنت ”الحجون“ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ مکہ معظمہ کا خاص قبرستان ہے جو جنت البقیع کے بعدجَنَّت المعلیٰ دنیا کا سب سے افضل ترین قبرستان ہے جو کعبہ سے جنوب مشرقی جانب قریب ہی واقع ہے۔ اس قبرستان میں سرورِ کونین حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رشتے داروں، ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰؓ، صحابہ وتابعین اور اولیاءوصالحین رضی اللہ عنھم کے مزارات مقدسہ ہیں۔ یہ قبرستان بیت اللہ شریف کے مغربی جانب تقریبا ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے یہاں پر عام حجاج کرام اور مقامی لوگوں کو بھی دفن کرنے کی اجازت ہے۔ عالم اسلام میں اس شخص کو خوش نصیب مانا جاتا ہے جس کو یہاں دفن ہونے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔
روئے زمین پر موجود تیسری جنت کو ریاض الجنہ کہا جاتا ہے۔ ریاض الجنہ یہ وہ مبارک جگہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر یعنی حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے منبر شریف کے درمیان میں ہے، اس کا نام ریاض الجنة ہے (جنت کا باغیچہ)۔ یہ نام اس لیے پڑا کہ حدیث شریف میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا، ”میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے“۔ (رواہ البخاری:1196ومسلم :1391)
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مقام کی بڑی فضیلت ہے، اگر مسجد نبوی آنے کا موقع ملے تو یہاں عبادت، ذکر، اللہ سے دعا اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ اس جگہ پہ نبیﷺ سے بھی خاص طور سے عبادت کرنا ثابت ہے۔ یزید بن ابی عبید بیان کرتے ہیں کہ میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی کے ساتھ آتا اور وہ مصحف والے ستون کے پاس یعنی روضہ شریف میں آکر نماز ادا کرتے، تومیں نے انہیں کہا ”اے ابو مسلم میں دیکھتا ہوں کہ آپ اس ستون کے پاس ضرور نماز ادا کرتے ہیں“۔ تووہ فرمانے لگے، ”میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بھی یہاں خاص کرنماز ادا کیا کرتے تھے“۔ (بخاری:502 ومسلم:509 ) اللہ تعالی ہم سب کو اس مقدس جگہ ریاض الجنہ میں عبادت کرنے اور کچھ دیر سعات حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔
مندرجہ بالا جنتیں تو خوش نصیبوں کو ہی حاصل ہوتی ہیں مگر مزید دو جنتیں ایسی ہیں جو ہر مسلمان کو حاصل ہیں۔ اگرچے ان کا حصول بھی سراسر خوش نصیبوں کے حصے میں ہی آتا ہے۔
حدیث نبویﷺ ہے کہ ”جنت ماں کے قدموں تلے ہے“۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ”ماں کے بغیر گھر قبرستان لگتا ہے“۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ: ”یارسول اللہﷺ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟“ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیری ماں“۔ انہوں نے عرض کیا ”پھر کون؟“ آپﷺ نے فرمایا، ”تیری ماں“۔ ”پھر کون؟“ آپ ﷺ نے فرمایا، ”تیری ماں“۔ چوتھی مرتبہ سوال کیا ”پھر کون؟“ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرے والد“۔ ماں ہستی ہی ایسی ہے جو دنیا کی ساری مشکلات اور تکالیف خود سہتی ہے لیکن اپنی اولاد پر آنچ نہیں آنے دیتی، انہیں اپنے پروں میں چھپا کر رکھتی ہے۔ اسی لیے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ”ماواں ٹھنڈیاں چھاواں“۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول ا للہﷺ نے ارشادفرمایا ”میں جنت گیا تو میں نے دیکھا کہ اس میں کوئی قرآن پڑھ رہاہے؟ فرشتوں نے جواب دیا حارثہ بن نعمانؓ ہیں“۔ (حارثہ بن نعمانؓ اپنی ماں کی خدمت اور حسن سلوک کے حوالے سے خاص شہرت رکھتے ہیں)۔ اسی طرح اویس قرنیؓ کو بھی اسلام کی تاریخ میں اطاعت، خدمت اور حسن سلوک سے شہرت حاصل ہے۔ ماں کی شفقت، محبت، خلوص، پیار اور ایثار و مروت کسی تعارف کی محتاج نہیں کیوں کہ ماں کی محبت و پیار بے لوث ہوتا ہے۔ ماں کے لیے کوئی مخصوص دن، مخصوص وقت، مخصوص لمحہ نہیں ہوتا بلکہ ہر روز، ہر لمحہ، ہر گھڑی ماں کا وقت ہوتا ہے۔ ماں کے ساتھ گزرا ہوا وقت یقیناً جنت میں گزرتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، ”جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرو تو خوب چرو“۔ صحابی کرام نے عرض کیا، ”یا رسول اللّٰہﷺ! جنت کے باغ کیا ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”دین کے حلقے“۔ یعنی دینی محافل، ذکر واذکار کی محافل اور وہ تمام جگہیں جہاں یہ محافل منعقد کی جائیں جنت کے باغ ہیں۔ ایک اور جگہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ، ”اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناو“۔ یعنی ہمیں اپنے گھروں عبادات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ذکر واذکار کی محافل کا انعقاد کرنا اور عبادات میں مشغول ہونا گویا گھروں کو جنت کے باغ بنانے کے مترادف ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی تعمیر کے لیے چن لیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اسکول، کالج، مدرسے، دفتر، دکان، مارکیٹ، گھر غرض جہاں کہیں بھی ہوں اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اذکار کی محافل کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی جنت کے ان باغوں میں چرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ہے زندگی کا مقصد اورورں کے کام آنا

 فاطمہ خان

اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں۔ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کی مدد ہے۔ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے، یعنی تمام مخلوقات سے افضل اور اعلی مخلوق۔ انسان تمام مخلوقات سے اس لیے افضل ہے کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے کام آتا ہے۔ اس کے دل میں ایثار و قربانی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اپنے لیے جینا کوئی مشکل نہیں۔ معاشرے میں حسن تب ہی پیدا ہوتا ہے جب سفید پوش لوگ عزت اور بھرم کو قائم رکھ پائیں اور ضروریاتِ زندگی بھی پورا کر سکیں۔ ہمارا معاشرہ ایک مسلط کردہ دوڑ میں بغیر نفع نقصان جانے دوڑا چلا جا رہا ہے۔ اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتا ہے لیکن غریب اور مظلوم کے لیے اندھا اور بہرہ بن جاتا ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہو کر بھی اپنے مقام سے گرتا جا رہا ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے، حالات نہیں بدل رہے۔ حالات کیسے بدلیں۔ حالات بدل نہیں سکتے جب تک ہم خود نہ بدل جائیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ نیکی کرنے کے لیے اپنے خاندان کا تعارف کروانا ہمارے لیے ضروری کیوں ہے؟ ایک عام سی مثال سے جائزہ لیتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بس اسٹاپ، چوراہوں، بازاروں، اسکولوں، اسپتالوں میں ٹھنڈے پانی کے کولر لگائے جاتے ہیں۔ کولر پر جتنی جگہ ہوتی ہے وہاں خاندان کے افراد کے نام کے ساتھ ان کے ایصال ِثواب کے لیے نوٹ لکھا ہوتا ہے۔ یہ قدرتی سی بات ہے جب انسان تکلیف سے گزر رہا ہو اور اسے اچانک سکھ کا، سکون کا لمحہ مل جائے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس وسیلے کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے اور اس کے لیے دعا کرتا ہے۔ پیاس میں، تھکن سے چور انسان جب ٹھنڈا پانی پیے گا تو بلواسطہ وہ اس کے لگوانے والے کو یعنی وسیلے کے حق میں دعا کرے گا۔
اسلام کہتا ہے اگر راہ سے کانٹا یا پتھر ہٹا دیا تو بھی نیکی ہے۔ ایک وقت تھا جب گھروں کے باہر پانی کا بندوبست کیا جاتا جاتا تھا، چھاوں کا انتظام کیا جاتا تھا۔ بالخصوص ان گھروں میں جہاں اسٹاپ یا چوک ہوں تا کہ مسافروں کو تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن انسان جب سے مادہ پرستی کا شکار ہوا ہے، اپنی حقیقت سے منہ موڑ بیٹھا ہے۔ آج اگر کوئی اللہ کا بندہ پیاس سے تڑپتا ہوا آپ کے دروازے پہ آجائے تو آپ پانی تو درکنار دروازہ تک نہیں کھولیں گے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے۔ ان گناہگار آنکھوں نے ایسے بے شمار واقعات دیکھے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ بہت پرہیز گار لوگ بھی ایسا ہی منافقانہ رویہ رکھتے ہیں۔ وہ شاید اس بات سے ناواقف ہیں کہ انسانیت کے تقاضے کیا ہیں۔ میردرد نے کیا خوب کہا:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
لوگ سڑکوں پہ بھوکے، ننگے سردی میں پڑے رہتے ہیں اور حکمران اپنی گاڑیوں میں بھی ہیٹر سے مستفید ہوتے ہیں۔ فرق ضرویات سے آسائشات اور تعیشات کا ہے۔ غریب ضروریات کے لیے تڑپ تڑپ کر مر رہا ہے جب کہ امراءآسائشات کے بعد تعیشات سے بھی آگے مریخ کی تسخیر کے خواہاں ہیں۔ حالاں کہ تعیشات کے بعد ہی سہی کم از کم یتیم و مسکین کے حال پہ ترس کھا لیا جانا ان کے اختیار میں ہے۔ افسوس کہ حالات اس قدر بگڑے ہیں کہ ان کی تلخی کو کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے،
روٹی امیرِ شہر کے کتوں نے چھین لی
فاقہ غریب گھر کے بچوں میں بٹ گیا
چہرہ بتا رہا تھا کہ مارا ہے بھوک نے
حاکم نے یہ کہا کہ کچھ کھا کہ مر گیا
انسان اکیلا نہیں رہ سکتا۔ اسے زندگی گزارنے کے لیے دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا پڑتا ہے۔ مل جل کر رہنے سے خوشی اور غم بانٹنے سے معاشرے میں نکھار آتا ہے۔ بہترین انسان دوسرے انسانوں کی بوقتِ ضرورت بڑھ چڑھ کر مدد کرتا ہے۔ اللہ اپنے بندوں سے 70 ماوں سے زیادہ پیار کرتا ہے، پھر بھلا وہ کیسے اپنے بندے کو مشکل میں تنہا چھوڑ سکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں،
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا 
مدد یا ہمدردی کرنے سے اللہ بھی راضی ہو گا اور معاشرہ بھی خوشحال ہو گا۔ غریب کو کھانا کھلانا نیکی ہے۔ ایسے افراد جو اپنے بچوں کو مفلسی کے تحت اسکول نہیں بھیج پاتے۔ ان بچوں کو صاحبِ حیثیت لوگ اسکول پڑھا سکتے ہیں۔غریب بچیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے والدین کی دہلیز پہ بیٹھی بوڑھی ہو جاتیں ہیں۔ کیا مخیر افراد کا فرض نہیں کہ وہ ان سفید پوش طبقے کی مدد کریں۔ اللہ نے اس طبقے کی مدد کے لیے زکوة، عشر، صدقات اور خیرات کے ذرائع پیدا کیے۔ اللہ نے مسلمانوں پر یہ واضح کیا کہ زکوة مال و دولت کو پاک کرتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح روزہ جسم کو ہر بیماری سے پاک کرتا ہے۔   
جنگِ یرموک میں ایک زخمی کو جب پانی پلایا جانے لگا تو اس نے دوسرے زخمی کی طرف اشارہ کیا کہ پہلے اسے پانی پلایا جائے۔ جب دوسرے زخمی کو پانی پلانا چاہا تو اس نے تیسرے زخمی کی جانب اشارہ کیا کہ پہلے اسے پانی پلایا جائے۔ پانی پلانے والا شخص جب زخمی کے قریب آیا تو دیکھا کہ زخمی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گیا تو وہ دوسرے زخمی کے پاس دوڑا دوڑا پہنچا لیکن وہ بھی شہید ہو چکا تھا۔ پانی پلانے والا شخص جب پہلے شخص کے پاس آیا تو وہ بھی جامِ شہادت نوش کر چکا تھا۔ یہ ہے اسلام کی تعلیم کہ زخموں سے چور ہوتے ہوئے بھی دوسرے بھائی کے لیے قربانی کا جذبہ عروج پہ رہا۔ موت کے خوف سے ان کے قدم ڈگمگائے نہیں بلکہ حوصلہ بلند رہا اور ایثار کا جذبہ سر چڑھ کہ بولا کہ میں نہیں میرے دوسرے بھائی کو پانی دے دیا جائے۔
تاریخِ اسلام کی ورق گردانی کی جائے تو اسلام ایسی مثالوں سے جگمگا رہا ہے۔ فتحِ مکہ کے موقع پر انصار نے مہاجرین کا جس طرح خیر مقدم کیا، تاریخ میں ایسی مثال نہ کبھی تھی نہ آگے مل پائے گی۔ انصار نے مہاجرین کو صرف بھائی تسلیم نہیں کیا بلکہ بھائی کے تمام فرائض بھی سر انجام دیے۔ اپنے گھر، کاروبار تک ان کو دے دیے۔ مسلمان مادیت کے ایسے دلدل میں گر چکا ہے کہ اپنے اصل کو بھول بیٹھا ہے۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ کائنات میں انسان اپنی تخلیق کے محرک کا ادراک کرے اور خود کو اشرف المخلوقات ثابت کرے۔ 

مسجدیں آباد کریں

انصرمحمود بابر
ہمیں مساجد میںاب کچھ تبدیلی کرنی پڑے گی۔ مساجد کو صرف نماز پڑھنے کی جگہ ہی نہ بنائیں بلکہ اسلامی کمیونٹی سنٹر کی طرز پرچلائیں۔ وہاں غریبوں کے کھانے کا انتظام ہو۔ ڈپریشن میں الجھے لوگوں کی کاونسلنگ ہو۔ ان کے خاندانی جھگڑوں کو سلجھانے کا انتظام ہو۔ مستحقین کی مناسب تحقیق کے بعداجتماعی و انفرادی طور پر مدد کی جا سکے۔ اپنے گھروں کے فالتو سامان کو نادار افراد کے لیے عطیہ کرنے کی غرض سے مساجد کا ایک حصہ مخصوص ہو۔ آپس میں رشتے ناتے طے کرنے کے لیے ضروری واقفیت کا موقع ملے۔ نکاح کا بندوبست سادگی کے ساتھ مساجد میں کیے جانے کو ترجیح دی جائے۔ قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے اجتماعی کوششوں کا آغاز مساجد سے ہو کیوں کہ صدقات و خیرات کرنے میں ہم مسلمانوں کا کوئی ثانی نہیں۔ بڑی جامع مساجدسے ملحق مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم کا بھی اہتمام ہو ۔ ہماری مساجد میں ایک شاندار لائبریری ہو، جہاں پر مکمل اسلامی و عصری کتابیں مطالعہ کے لیے دستیاب ہوں۔ اب وقت آگیا ہے کے ترجیحات بدل کر کچھ ضروری جگہوں پربھی اپنا مال خرچ کیا جائے۔
 ان میں سے کوئی بھی تجویز نئی نہیں ہے۔ تمام کاموں کی مثال 1400 سال پہلے کے دور نبوی ﷺ میں بآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔ کیا مسجد ِ نبوی صحابہ کرام ؓ کی علمی وعملی تربیت گاہ نہیں تھی؟ تمام غزوات وسرایہ کی حکمت ِ عملی کا گڑھ مسجد نبوی تھی۔ ساری جنگی تیاری اور ساز و سامان کی تقسیم و ترتیب مسجد نبوی میں ہوا کرتی تھی۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، مسجد نبوی میں تلوار بازی بھی ہوا کرتی تھی اور دیگر علوم و فنون کی تربیت و تیاری بھی۔ کیا وجہ تھی کے اس دور کے مسلمان دوڑے دوڑے مسجدکی جانب آیا کرتے تھے؟ اور آج ہم نے اپنی نسل ِ نو کی دلچسپی کے لیے مساجد میں کیا انتظامات کیے ہیں؟
خدا کے بندو اپنی مساجد میں نوجوانوں کا داخلہ آسان بناﺅ ورنہ موجودہ عادی نمازیوں کے بعد خدانخواستہ مساجد ویران ہوجائیں گی۔ آپ کسی مسجد میں چلیں جائیں، آپ کو نمازیوں میں زیادہ تعداد ضعیف العمر، بلغم زدہ، ریٹائرڈ اور فارغ لوگوں کی نظرآئے گی۔ کیا وجہ ہے کہ نوجوان اور پڑھا لکھا طبقہ مسجد سے دورہے؟ شاید اس لیے کہ پھٹی پرانی صفوں اور گرد آلود فرشوں والی مساجد میں ان کی جرابیں گندی ہوتی ہیں۔ دنیاکے کسی کلب، ہوٹل، ریسٹورنٹ، کسینو، کالج اور یونیورسٹی میںچلے جائیں، آپ کو صاف ستھرا ماحول، سنٹرلی ائیرکنڈیشنڈ ہال، وائٹ واش اور فرنشڈ کمرے، تیز رفتار انٹرنیٹ اور جدید ترین لیب نظر آئیں گی۔ بے دھیانی میں کسی کو کندھا لگ جائے یا چھولیا جائے تو وہ بجائے گھورنے کے سوری کرتا ہے۔ آپ کو وہاں پر دنیا کے بہترین طور طریقے اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے معیار ملیں گے۔
جب کہ ہماری مساجد میں آج بھی برادری ازم اور اجارہ دارانہ نظام دیکھنے کو ملتا ہے۔ پرانے نمازی کبھی کبھار نماز پڑھنے والوں کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ جب کہ پچھلے 60 سالوں سے نماز پڑھنے والوں میں سے 40 فیصدسے زائد لوگوں کوساری نماز بھی نہیں آتی ہوگی۔ نئے نمازی کوشاید ہی کبھی پہلی صف میں جگہ ملی ہو۔ پچھلی صفوں میں اگر بچے شور مچا رہے ہوں تو آئندہ کے لیے ان کے مسجد میں داخلے پر پابندی لگادی جاتی ہے۔ اس پہ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہمارے آئمہ حضرات دنیاوی تعلیم کو آج بھی غیر اسلامی اور کافروں کی تعلیم سمجھتے ہیں۔ پینٹ شرٹ اور تھری پیس وغیرہ کو غیر شرعی لباس سمجھ کر قابل ِ نفرت سمجھا جاتاہے جب کہ دوسری جانب کالج اور یونیورسٹی کے طلباءکے اذہان میں اٹھنے والے سوالات کو شیطانی وسوسے قرار دے کر جھٹلا دیا جاتا ہے اور نتیجتاً نوجوان نسل دین سے دور ہوتی چلی جاتی ہے۔ ان پہ فتوے لگائے جاتے ہیں کہ دیکھو انگلش تو فرفر بولتا ہے اور دین اتنا بھی نہیں آتا کہ باپ کا جنازہ ہی پڑھا سکے۔ خدارا اب رک جائیں، سوچیں اور اپنی ترجیحات بد لیں۔ اپنے بچوں کو وقت دیں۔ ان کے مسائل کوسمجھیں۔ ان کی ترجیحات کو جانیں ورنہ آج کی نسل کوبے دین کرنے کی ساری ذمے داری آپ پہ ہوگی اور مورخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔


بدلو سوچبدلو زندگی

ناصر محمود بیگ۔۔۔ کسووال

سقراط کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا : ”بتائیں میرا مستقبل کیسا ہوگا ؟“ سقراط نے ایک کاغذ منگوایا اور کہا اس پر اپنے خیالات لکھو، اس نے جو جو سوچا تھا سب لکھ ڈالا۔ سقراط نے بتا دیا کہ جیسے تمہارے خیالات ہیں اس کے مطابق تمہارا مستقبل ایسا ہو گا ۔معروف مصنف نپولین ہل کہتا ہے:”دنیا میں اتنا خزانہ زمین میں سے نہیں نکالا گیا،جتنا کہ انسان نے اپنے ذہن، خیالات ،تصورات اورسوچ کے سمندرسے حاصل کیا “۔اچھی سوچ ایک ایسا خزانہ ہے جس سے مٹی کو بھی سونا بنایا جاسکتا ہے جبکہ منفی اور گھٹیا سوچ رکھنے والا شخص سونے کو ہاتھ ڈالے تو وہ بھی مٹی بن جائے ۔ا چھا سوچنے والے لوگ مسائل کو حل کرنے کی بہتر اہلیت رکھتے ہیں ۔وہ اپنے آپ کو دوسروں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑتے کہ ایسے ان سے کوئی نا جائز فائدہ اٹھائے اور ان کو دھوکا دے ۔جن کی اپنی آزاد سوچ ہوتی ہے ان کو غلام نہیں رکھا جا سکتا ۔اور قوموں کی غلامی اصل میں سوچ کی غلامی ہوتی ہے ۔تاریخ کے مشہور آمر حکمران اڈولف ہٹلر نے کہا تھا :”ہم جیسے حکمرانوں کو لوگوں پر حکومت کرنے کا موقع آسانی سے مل جاتا ہے کیونکہ اکثر لوگوں کے پاس سوچ اور فکر نہیں ہوتی“۔جان میکسویل نے چالیس سال دنیا کے کامیاب لوگوں پر تحقیق کی۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ ایک وصف ان سب میں مشترک ہے اور وہ یہ کہ ان سب کا سوچنے کا انداز ایک جیسا ہوتا ہے۔ےہ اندازفکر ہی ہے جو کامیاب اور ناکام شخص میں تفریق پیدا کرتا ہے۔میکسویل نے یہ بھی بتایا کہ اچھا سوچنا بھی ایک فن ہے جو سیکھنا پڑتا ہے،اچھے خیالات کوئی ایسی چیز نہیں جو آپ کو ڈھونڈتے پھریں یاپھرآپ کے ذہن میں خود بخود آجائیںبلکہ آپ کو انہیں تلاش کرنا پڑتا ہے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی سوچ بہتر ہوجائے اوراچھے اچھے خیالات آپ کے ذہن میں آئیں تو جان میکسویل کے بتائے ہوئے چند طریقوں پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔
(1) برتن میںجو ڈالو گے ،وہی باہر آئے گا
ایک آفاقی اصول ہے کہ برتن میں سے وہی چیز باہر آئے گی جو اس میں ڈالی گئی ہو گی،یہ نہیں ہو سکتا کہ اس میں ڈالیں پانی اور نکلے شہدآپ اپنے روز مرہ معمولات میں جو کچھ دیکھیں گے،پڑھیں گے،سنیں گے ےا جس قسم کے ماحول میں آپ رہیں گے اسی قسم کے خیالات آپ کے ذہن میں پیدا ہونے لگیں گے۔دنیا کے کامیاب مفکرین اور فلاسفروں نے ہمیشہ اپنے ماحول سے متاثر ہو کر ہی اتنے زبردست نظریات پیش کیے۔نیوٹن کے سر پر اچانک درخت سے سیب گر کر لگتا ہے، پھر وہ اس کی وجہ پر غور وفکر کرتا ہے اور آخر کار کشش ثقل کا قانون پیش کر دیتا ہے۔مشہور انگریزی نظم ”ڈیفوڈلز“ کا شاعر”ورڈزورتھ“ فطرت کے دلفریب نظاروں کا دلدادہ نہ ہوتا تو ایسی شاندار نظم تخلیق کبھی نہ ہوتی۔اس لیے اچھی اچھی کتابیں پڑھنا،بڑے لوگوں کی باتیں سننااورفطرت کے قریب رہنا ،سوچ کے بند دروازے کھول دیتا ہے۔
((2جیسی صحبت ویسی سوچ
 مشہور انگریزی مقولہ ہے کہ اگر کسی انسان کے کردار کو پرکھنا ہو تو اس کے دوستوں کو دیکھ لیں ۔آپ کا اٹھنا بیٹھنا جس قسم کے لوگوں میں ہو گاان کا رنگ آپ کی سوچ پر ضرور چڑھ کر رہے گا۔خوشبو کی دکان پر جائیں گے تو کچھ نہ بھی خریدیں پھر بھی کپڑوں میں خوشبو رچ بس جائے گی۔کوئلے کی دکان پر جائیں گے تو کوئلہ نہیںخریدیں گے تب بھی کپڑوں پر کالک لگ جائے گی۔ا گر آپ کے ارد گرد تیز طراراورکاروباری سوچ رکھنے والے لوگ ہوں گے تو آپ کی سوچ میں بھی تیزی آجائے گی۔آپ اپنی سوچ کو جس سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیںاسی شعبے کے لوگوں سے میل جول بڑ ھا دیں ۔لہذااچھا سوچنے والوں کی دوستی بھی انسان کو اچھی سوچ کا مالک بنا دیتی ہے۔
 (3)اچھے خیالات کا انتخاب کریں
انسان کے ذہن میں ہر وقت خیالات آتے اور جاتے رہتے ہیں ان میں کچھ اس کے لیے مفید اور مثبت ہوتے ہیں اور بعض اس کو غلط راستے پر چلا دیتے ہیں۔اب یہ ہمارا کام ہے کہ خیالات کو اچھی طرح چھان پھٹک کر اپنی عادات اور کردار کا حصہ بنائیں۔ذہن میں کسی خیال کا آنا ہمارے اختیار میں نہیں ہوتامگر ان میں سے اچھے خیالات کا انتخاب کرکے انہیں عملی جامہ پہنانا ہمارا کام ہے۔کسی دانشور کا قول ہے: ” دل کے دروازے پر دربان بن کر بیٹھ جاﺅاور دیکھو کہ کون سا خیال آتا ہے اورکون سا خیال جاتا ہے“۔جس طرح ہم گھر کا دروازہ کھلا نہیں چھوڑ تے تاکہ کوئی آوارہ کتا ےا چور وغیرہ گھر میں داخل نہ ہو جائے ، اسی طرح ہمیں یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ذہن میں آنے والا خیال مثبت ہے یا منفی؟کیا یہ میرے کام کا ہے ےا نہیں؟
(4)اپنے اچھے خیالات پر خود بھی عمل کریں
خیالات اور نظریات کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے،یہ بہت جلد اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔یہ انسان کا کردار اور عمل ہی ہے جو اس کی سوچ کو زندہ رکھتا ہے۔ دنیا میں بہت سے مفکر اور دانشور گزرے جنہوں نے کامیابی کے موضوع پر درجنوں کتابیں لکھ ڈالیں مگر ان میں سے بعض اپنی ذاتی زندگی میں بری طرح ناکام رہے۔اس کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اوروں کو تو کامیابی کے فارمولے بتائے مگر اپنی زندگی میں ان پر عمل نہ کر سکے۔اس لیے بہت سا اچھا سوچ کر اس پر عمل نہ کرنے سے بہتر ہے کہ تھوڑا سا اچھا سوچ کر اس پر عمل پیرا ہو جائیں۔
 (5) سوچ کو جذبات سے آزاد رکھیں
اچھی سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جو محسوس کریں اس پر فوری کوئی رائے یا خیال پختہ نہ کر لیں۔کسی واقعہ پر اپنا رد عمل ظاہر کرنے پہلے اس کا اچھی طرح تجزیہ کر لیں۔ہمیشہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔کبھی بھی جذبات کی رو میں بہہ کر کوئی منصوبہ نہ بنائیں۔ےاد رکھیں ،محسوس کرنے اور سوچنے میں فرق ہوتا ہے ۔جذبات دریا کی موجوں کی طرح عارضی ہوتے ہیں جبکہ سوچ دریا کا نہ رکنے والا بہاﺅ کا نام ہے۔ اپنی سوچ کی ناﺅ کو جذبات کی لہروں کے رحم و کرم پر مت چھوڑیں بلکہ اپنے محسوسات اور جذبات کو اپنے اچھے خیالات کے تابع کریں۔
 (6اچھے خیالات کا تسلسل جاری رکھیں
زندگی میں کامےابی کے لیے صرف ایک اچھا خیال کافی نہیں ہوتا ،جیسے اگر ایک شاندار کھیل پیش کرنے والا کھلاڑی ،صرف ایک کتاب کا مصنف،ایک تقریر کرنے ولا مقرر اور ایک ایجاد کاموجداپنی پہلی کامیابی پر تکیہ کر کے بیٹھ جائیں ،مزید آگے نہ بڑھیں،خوب سے خوب تر کی تلاش نہ کریں تو یہ ان کی خام خیالی ہو گی۔اسی طرح اچھے خیالات کو ذہن میں جگہ دیں اور نئے نئے خیالات کو ہمیشہ خوش آمدید کہیں۔
سوچ انسانی زندگی کے اہم ترین عوامل میںسے ہے جو اس کے اعمال،عادات،اخلاق، کردار اور مستقبل پر اثراندازہوتی ہے۔تحقیقات سے یہ بات ثابت ہے کہ انسان کے مستقبل پر اثر انداز ہونے والی سب اہم شے اس کی سوچ ہی ہے۔سوچ دو طرح کی ہوتی ہے، مثبت اور منفی۔سوچ منفی اس لیے ہوتی ہے کہ آدمی کو سوچنا نہیں آتا،اس کے ذہن میں پہلے سے منفی ےادداشتوں کی بھر مار ہوتی ہے وہ ہر واقعہ اور تجربہ کو ایک ہی عینک سے دیکھنے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے ۔اس کے پاس منفی سوچ کے مقابلے میں مثبت سوچ کی متبادل آپشن ہی نہیں ہوتی۔اگر سوچنے کا فن آجائے تو اس کو مثبت اور منفی میں سے انتخاب کرنا آجاتا ہے۔منفی سوچ کو مثبت بنانے کا فن سیکھنا کچھ مشکل نہیں۔ جان میکسویل نے اپنی کتاب ”کامیاب لوگ کیسے سوچتے ہیں؟“ میںبتایا کہ ان اقدامات سے ہم بھی اپنی زندگی سے منفی سو چ کوکم کر سکتے ہیں۔مثبت سوچ کے محرکات کو اپنا کر،اچھی سوچ کے مالک افراد سے دوستی کر کے،مثبت خیالات کا انتخاب کر کے،اپنی اچھی سوچ پر خود عمل کر کے ،سوچ کو جذبات سے آزاد کر کے اور اچھے خیالات پر مسلسل کام کر کے سوچ بدلنا ممکن ہے۔بس رکاوٹ صرف یہ ہے کہ آدمی اپنی سوچ کو خود نہیں بدلنا چاہتا۔

بوجھ

 فاطمہ خان، اٹک

تمہاری سرمئی آنکھیں بلا کی محسور کن ہیں۔ ایسا نشہ ہے ان میں کہ سامنے والا اپنے ہوش گنوا بیٹھے۔ مخروطی ناک پہ یہ ستارہ۔اف! بلا کا دلنشین لگتا ہے۔ رخسار کے یہ گڑھے تمہاری مسکراہٹ میں تمہارے چہرے کا حسن بڑھا دیتے ہیں۔ تم پہلے سے زیادہ حسین ہو گئی ہو فائقہ! ویسے اتنی تیاری کی وجہ؟ عموماً تم سادہ سی رہتی ہو شادیوں پہ۔ پھر اب ایسا چینج ؟ احسن صاحب بیگم کو تیار ہوتا دیکھ کر چپ نہ رہ سکے۔ ” اب کیا اپنے بھائی کی شادی پر بھی تیار نہ ہو کر جائیں؟“ ارے! ارے میں نے ایسا کب کہا۔ ایک بار نہیں، سو بار جائیے۔ ایسے ہی بن سنور کر جایا کیجیے۔ اگر برا نہ منائیں تو کبھی کبھار ہمارے لیے تیار ہو جایا کیجیے۔ اب ناراض مت ہوں، میں تو مذاق کر رہا تھا۔
احسن صاحب یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور آج بہت دنوں کے بعد شریکِ حیات سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کر رہے تھے۔ اب بتائیے تو کیسی رہی تعریف؟ ” بالکل صحیح فرمایا آپ نے۔ یہ زلفیں!!! یہ زلفیں تو کسی ناگن کی طرح پھن پھلائے ہوئے ہیں۔ افسوس کہ اب ان میں چاندی اتر آئی ہے“۔ فائقہ بیگم نے شوہر کی بات کو مزید آگے بڑھایا“۔ ہا ہا ہا ہا بہت خوب فائقہ بیگم۔ کمرے میں قہقہہ گونجا۔ ” آج لگ رہا ہے کہ لٹریچر کی طالبہ رہی ہیں کسی دور میں“۔ آپ بھی ناں بس باتیں بناتے ہیں۔ چلیے دیر ہو رہی ہے۔ بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔“ فائقہ بیگم نے پرفیوم ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھا اور دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے بولیں۔” ایک نظر جی بھر کر دیکھ تو لینے دو اور بچے اب بڑے ہو گئے ہیں۔ تمہارا بیٹا میڈیکل کے لیے انٹری ٹیسٹ پاس کر چکا ہے اب۔ ادھر دیکھو!!! تم سرمئی ساڑھی میں پریوں کی ملکہ دکھائی دے رہی ہو“۔ اب بس بھی کیجیے پروفیسر صاحب! اب چلیے۔
”بہت شکریہ اگر آج آپ یہ سب نہ کرتے تو میں اپنے خاندان میں اتنی عزت نہ پا سکتی۔ ابو کی وفات کے بعد علی کی شادی کے اخراجات پورے کرنا امی کے لیے قدرے مشکل ہوتا۔ طاہر بھائی اور آپ نے میری اور آپا کی اہمیت بڑھا دی۔“ فائقہ بیگم شوہر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رو دیں۔ ارے ارے! فائقہ یہ کیا کر رہی ہو تم ، ارے یار ہم علی کے بہنوئی ہیں۔ چھوٹا بھائی سمجھ کہ اس کی شادی کی اخراجات اٹھائے ہیں۔ تم رو مت۔ رونے سے ان نشیلی اکھیوں کا نشہ زائل ہو جائے گا۔ احسن صاحب بیگم کا موڈ خوشگوار کرنے کی کوشش کر تے ہوئے بولے۔ 
”جی امی جان! آپ نے یاد کیا مجھے۔ “ احسن صاحب یونیورسٹی سے واپس پہنچے کہ بیگم نے پیغام دیا تو فوراً امی سے ملنے کمرے میں آگئے۔ ”احسن بیٹھو میرے بچے۔ بہت تھک گئے ہو تم۔ میں شربت بنا کر لاتی ہوں“۔ اماں جائے نماز سے اٹھنے لگیں تو بیٹے نے روک دیا۔ ” نہیں امی جان! آپ بتائیں کیا بات ہے؟
”عبیلہ کا فون آیا تھا کل شام۔ اسے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔ اسد کا ہاتھ ذرا تنگ ہے تو تم کچھ پیسے بھیج دو اسے“۔ جی امی ٹھیک ہے کتنے پیسے چاہیے ہیں۔ اس نے مجھے فون کیوں نہیں کیا؟ میں بھجوا دیتا اسے“ بس رہنے دو ناں۔ مجھے بتا دیا یہ کافی نہیں ہے۔ بس زیادہ نہیں 50ہزار بھجوا دو۔ احسن صاحب کو تو جیسے سانپ سونگ گیا ہو۔ لیکن امی؟ آپ جانتی ہیں ابھی حالات کیسے ہیں۔ علی کی شادی پہ خرچا ہوا ہے۔ اگلے مہینے بھیج دوں گا۔ “ مجھے پتا تھا تم رن مرید ہو گئے ہو۔ ماں اور بہن کی پرواہ نہیں تمہیں۔ اللہ جانے کہاں سے تعویز کر دیے میرے بیٹے پر۔ کیسا قابو میں کیا ہے کہ ماں کی بات بھی نہیں سنتا۔ صرف سسرال والوں کو کھلا، جو بھی کماتے ہو انہی پر خرچ ہوتا ہے بیگم کم تھیں، جو تم بھی ان پر لٹانے نکل پڑے۔“اماں جی آج پھٹ پڑیں۔ 
برسوں پہلے جو چنگاری اپنے سینے میں دفن کیے ہوئے تھیں۔ آج وہ احسن کی ازدواجی زندگی میں آگ لگانے کے لیے تیار تھی۔ احسن صاحب نے یونیورسٹی کی دوست فائقہ سے پسند کی شادی کی۔ والدین کی مرضی کے بر خلاف۔ اماں جی آج اسی بات کا بدلہ لینے کو تیار تھیں۔ گھر میں ایک فساد برپا ہوگیا۔” اماں جی جیسا آپ سوچ رہی ہیں ویسا نہیں ہے اور شادی میں صرف بارات کا فنکشن میں نے اور طاہر بھائی نے ارینج کیا۔ وہ بھی اپنی خوشی سے کیا اماں جی۔ آپ دوبارہ یہ بات کبھی کسی سے نہ کیجیے گا۔ خصوصاً فائقہ سے ذکر بھی نہیں کیجیے گا۔ میں کچھ دن تک پیسوں کا بندوبست کر کے عبیلہ کو بھجوا دوں گا“۔ احسن صاحب اک انجانی کیفیت سے دوچار تھے۔ بیگم کے پوچھنے پہ وہ کیا بہانہ بنائیں گے۔ یہی سوچ انہیں کھائے جا رہی تھی۔
”کیا بات ہے؟ آج تم کچھ پریشان دکھائی دے رہی ہو۔ سب خیریت ہے ناں“۔ فائقہ نے احسن صاحب کی کسی بات کا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ فائقہ میں تم سے بات کررہا ہوں۔ جواب دو؟؟ ”جانتے ہو احسن اماں جی نے آج بہت بے عزت کیا مجھے اور میرے والدین کو۔ میرے لیے اپنے والدین بالخصوص میرے والد مرحوم کے بارے میں ایسے ایسے الفاظ کہے کہ میں بتا نہیں سکتی۔ مجھے لگا تھا کہ میرے خاندان میں میری عزت بڑھ جائے گی لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ میرے والدین رسوا کیے جائیں گے۔ شادی پہ جو خرچ کیا۔وہ آپ کی تجویز تھی، میری نہیں۔ پھر میرے والدین کو کیوں ذلت کی اس پستی میں دھکیل دیا گیا، جہاں سے شاید وہ کبھی نہ نکل سکیں۔ کیا مائیں ایسی بھی ہو تیں ہیں احسن؟ تم نے کہا اور میں نے 18 سال انہیں ائف تک نہیں کہا، وہ ہمیشہ سے اپنی بھانجی کو بیاہ کر لانا چاہتی تھیں، بارہا مجھے طعنے تشنے دیے لیکن میں سہہ گئی احسن۔ جانتے ہیں کیوں؟ بابا کو میرے انتخاب پہ کوئی شبہ نہیں تھا، اسی لیے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں ہر مشکل میں اپنا گھر بچائیں گی، چاہے مجھے جھکنا پڑے۔ عورت ہی کو جھکنا ہوتا ہے ناں۔ میں جھک گئی۔ آپ کی امی جان کو اپنی ماں سمجھا۔ لیکن آج۔ آج اِس ماں نے دوسری ماں کا سینہ چھلنی کر دیا۔ میری امی کو فون کر کے بہت باتیں سنائی گئیں ہیں احسن۔ میں آپ کی ہی منتظر تھی۔ مجھے اس گھر سے نکال دیا گیا ہے۔ جس گھر کو میں بڑے مان سے اپنا کہا کرتی تھی اسی گھر سے بے گھر کردی گئی ہوں۔ میرا سامان گاڑی میں رکھوا دیں۔ میں اپنے والدین کی توہین کے ساتھ اس گھر میں رہنا بھی نہیں چاہتی“۔ فائقہ کے آنسو اسے دل کا بوجھ ہلکا نہیں کرنے دے رہے تھے، جسے وہ برسوں چپ چاپ اٹھائے جی رہی تھی۔ 
فائقہ ایسا مت بولو۔ یہ گھر تمہارا ہے۔ تم سے ہی تو ہماری زندگی جڑی ہے۔ اماں جی کو سمجھاﺅں گا میں۔ انہیں آنٹی سے معذرت کرنی ہو گی۔ تم فکر نہیں کرو۔ پلیز رک جاﺅ فائقہ۔“ احسن صاحب کی بے بسی فائقہ کو رکنے پہ مجبور نہ کر سکی۔ فون کی گھنٹی بجی فائقہ نے فون اٹھایا۔ خبر دی گئی فائقہ کی والدہ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ فائقہ بے سدھ گر پڑی۔ شاید اس کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔

پکے کوٹھے

(افسانہ )
عامر ظہور سرگانہ

دایا دیندار ہانپتا ہوا چوہدری خیر محمد کے ڈیرے پر پہنچا۔جیسے ہی سانس بحال ہوئیں تازہ حقے پر ٹوٹ پڑا۔ ڈیرے پر جلتی دوپہر میں مستریوں کے ساتھ ساتھ مزدوروں کا تانتا بندھا تھا۔ٹھیکیدار فضل قریشی بھی راج مستری اجمل شاہ کے ساتھ حویلی میں جاری کام پر مول تول میں لگا ہوا تھا۔بھادوں کی تلخ دوپہریں مستریوں اور مزدوروں کے لیے کسی امتحان سے کم نہ تھیں۔ چوہدری خیر محمد نے دو ماہ بعد اپنے چھوٹے بیٹے چوہدری شفیق کی شادی خانہ آبادی کے سلسلے فضل قریشی کو حویلی کی تعمیر مکمل کرنے کاالٹی میٹم دے رکھا تھا۔ اس قہر کی گرمی میں ٹخنوں تک پسینے میں شرابور مزدور تندہی سے کام میں جتے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی جب نڈھال ہورہتے تو کچھ دیر کے لیے چوہدری خیر محمد کے ڈیرے پر لگے شہتوت اور نیم کے درختوں کی چھاو ¿ں میں آرہتے۔ جہاں بان کی چارپائیوں پر ہر وقت کوئی نہ کوئی نیم دراز رہتا۔
دایا دیندار جو ابھی کھیتوں سے لوٹا تھا دم بھرنے کو وہ بھی اس گھنی چھاو ¿ں میں بیٹھ گیا۔یہاں کا ایک اور فائدہ یہ تھا کہ حقہ ہر وقت تازہ دم ملتا. گارے مٹی سے لتھڑی دھوتی پر اس نے جا بجا سوراخوں والی بنیان پہن رکھی تھی۔جس پر پسینے کی وجہ سے داغ اور سفید دھبے بن گئے تھے۔ دیندار کا بس نام ہی دیندار تھا۔مذہبی معاملات میں خاصا کند ذہن واقع ہوا تھا۔مسجد اور مولوی صاحب سے اس کا واسطہ عیدین، جمعہ ،جمعرات، گیارہویں جیسے دنوں کے بعد کم کم ہی پڑتا تھا۔نمازوں میں خاصا بخیل واقع ہوا تھا۔ہاں کبھی کبھار علی الصبح تلاوت کا اہتمام کرلیتا۔
دیندار حیرت اور حسرت کے ملے جلے احساس کے ساتھ کچی حویلی کو دیکھ رہا تھا جس کو گرانے کا عمل جاری تھا۔ اس بات نے شاید اس کے دل میں بھی پکے کوٹھے کا ارمان بھر دیا تھا۔اسی معدوم خواہش میں مبتلا حقے کی نَے ہاتھ میں دابے دیندار کچھ لمحے ماورائی کیفیت میں حقہ گڑ گڑاتا رہا۔ آج گھر آیا تو دائی حاکم روز کے معمول مطابق محلے کی عورتوں کے ہمراہ تنور پر روٹیاں لگانے میں مگن تھی۔
دایا دیندار خاموشی سے توت کی چھاو ¿ں میں پڑی چارپائی پر دراز ہوگیا۔اسی لمحے اس کی نگاہ کچے مکان کی طرف اٹھ گئی۔ دل ہی دل میں جیسے وہ اسے پختہ گھر کی تعمیر کے ارادے سے آگاہ کر رہا ہو۔کہ اب مون سون، کلر تھور سے اس کی دیواریں کھوکھلی نہیں ہوں گی۔ جنہیں اکثر دائی حاکم اپنے بڑے بیٹے کالے خاں کے ساتھ مل کر لیپتی رہتی تھی۔یہ دائی حاکم کا کمال تھا کہ مکان کے اندر اس کا سلیقہ بولتا تھا۔ دائی حاکم نے مکان کے سن رسیدہ فرنیچر کو، ٹرنک اور اکلوتی پیٹی جو وہ دائے حکیم کے گھر سے عجلت میں لائی تھی وضع ساری سے سنبھال رکھا تھا۔ وہ میکے کی ہر چیز کانچ کے برتن کی طرح سنبھال سنبھال رکھتی۔ اس کو جیسے اس کچے مکان اور کہن سال فرنیچر سے والہانہ عشق تھا۔ ادھر دایا دیندار تھا کہ چوہدری خیر محمد کی پکی حویلی کے سحر سے نہ نکل پایا تھا۔
وہ اسی سوچ میں غرقاب تھا کہ دائی حاکم تنور سے فارغ ہوکر دائے دیندار کی چارپائی کے برابر والی چارپائی پر اپنا سارا سامان دھر کےجھٹ سے سلور کا ڈول نلکے سے بھر لائی۔دائے دیندار کے ہاتھ دھلانے کے بعد وہ دونوں اپنی اپنی چارپائی پر براجمان ہوگئے۔ اس نے دائے حاکم کو چھابی میں روٹی رکھ کے دی اور پھر دائی حاکم ایک بھرپور توجہ سے چنگیر میں دھری روٹیاں گنتی جاتی اور دایا حاکم کمزور دانتوں میں تنور کی روٹیاں چباتا جاتا۔دائی حاکم کا خاصا یہ تھا کہ محلے کی عورتیں جو روٹیاں لگوانے آتیں احتراماً اسے اپنے اپنے گھر سے سالن کا ایک کٹورا لادیتی تھیں۔ یوں دوپہر کے کھانے کا اچھا بندوبست ہوجاتا تھا۔ کئی ایک بار دایا دیندار اس پر خفا بھی ہوا پر وہ اس سے نہ رکی۔
دایا دیندار اپنے اندر پھوٹتی تمنا کی نئی کونپل کو سینچنا چاہتا تھا یوں وہ دائی حاکم سے مخاطب ہوا بھلیے لوکے! کاہے اتنا جتن کرتی ہے۔ کبھی آرام بھی کرلیا کر اب یہ تیرے بس کا کام نہیں رہا یہ تنور، چولہا چونکا چھوڑ اور اب ایک نوں لے آ جو تیرے سارے کام کرے۔تیرا کالے خاں اب جوان ہوگیا ہے اور اب تو خیریت سے ہزار روپے ماہوار چوہدری بشیر کے ہاں سے تنخواہ بھی اٹھانے لگ گیا ہے۔ دائی حاکم نے روٹیوں کی الٹ پلٹ تھوڑی دیر کو موقوف کی اور کہنے لگی ہائے وے ہائے! تجھے آج کے ہوگیا کالے کے ابا! چنگی بھلی تو ہوں میں۔ لیکن دوسری بات تمہاری ٹھیک ہے ماسی مراداں ہے نہ وہ جس کا پتر ضلع داروں کا منشی ہے۔اس کی دھی ہے بڑی نیک بخت۔میں کل ای بات کرتی ہو اس سے۔
دیندار چونکتے ہوئے بولا ارے واہ بھئی نوں بی پسند کر لئی اور ہمیں بتایا بھی نہیں کسی نے۔تو میں کل ای بھٹے والوں سے بات کرتا ہوں۔ دائی حاکم نے بوکھلائے ہوئے انداز میں جواب دیا۔جھلا تو نہیں ہوگیا دیندار! بھٹے والوں سے کس کی بات کرنی ہے تیں؟ او نیک بختے پکی اینٹوں کی بات جو کرنی ہے۔خیر سے دھی رانی کچے کوٹھے میں تھوڑا نہ رہے گی؟ 
دائی حاکم نے مرجھائے ہوئے انداز میں چنگیر پرے رکھتے ہوئے جواب دیا ماڑے بندے کو اس طرح کے چونچلے زیب نہیں دیتے۔کل کے خبر کے حالات ہوویں۔ 
تو فکر نہ کر مالک سب چنگی ای کرو۔ دیندار نے حتمی فیصلہ سنانے کے انداز میں کہا۔اس کے ساتھ ہی اس نے چھابی دائی حاکم کو لوٹا دی اور سلور کے ڈول سے پینے کا پانی انڈیلنے گا۔
حکمت کی رو سے پانی پینے کی بہت سی متفرقات سہی پر غریب آدمی کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔اس کے مطابق تو سب نے ایک جگہ ہی جانا ہے تو کیا آگے کیا پیچھے۔
اس دن کو گزرے ڈیڑھ ماہ ہوگیا تھا۔چوہدری خیر محمد کی پکی حویلی تقریباً تیار ہوچکی تھی۔اب حویلی کے رنگ روغن اور آرائش کا کام آخری مرحلے میں چل رہا تھا۔راج مستری گاہے گاہے چلا کر سب کو عندیہ دیتا کہ ٹھیکیدار صاب نے کہا ہے دو دونوں میں کام مکمل کرنا ہے. چوہدری صاحب کے بیٹے چھوٹے چوہدری صاحب کی شادی جو ٹھہری خیر سے اگلے ماہ۔چوہدری صاب محرموں سے پہلے پہلے شادی کا کام نبیڑنا چاہتے ہیں اس لیے ہاتھ پاو ¿ں چلاو ¿۔ 
دیندار ماچھی نے حویلی کو بنیادوں سے اٹھ کر ہوا میں بلند ہونے تک کا سارا مرحلہ آنکھوں سے دیکھا تھا۔ مزدوروں اور مستریوں سے بات چیت اس کا مشغلہ ہوچلا تھا۔کوٹھی پر ایسا دل پھینکا کہ ایک دن چوہدری خیر محمد کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ کہنے لگا چوہدری صاحب کچھ رقم ادھار چاہیے۔پتر کی شادی کرنی ہے آہستہ آہستہ چکتا کردوں گا۔ چوہدری خیر محمد دل کا بادشاہ تھا اس نے حامی بھر لی کہ گندم شہر بھیجی ہوئی ہے جیسے ہی آڑھتی سے اس کی ر قم آتی ہے وہ دس ہزار اس کی ہتھیلی پر رکھ دے گا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ دیکھ بھائی دینے تجھے پتہ ہی ہے حویلی پہ اور شادی پہ چوکھا خرچہ ہوگیا ہے۔یہ بھی غنیمت سمجھ۔ 
دائے دیندار کی گھر میں اور تو کوئی جمع پونجی نہ تھی۔ بس ایک کیلی بھینس تھی جو گھر کی تمام ضرورت پر مکمل تھی۔دائی حاکم اس کے دودھ سے تمام کام نبیڑتی تھی۔ گھر میں دہی کی ضرورت، صبح کو لسی، چائے، شام میں کچی لسی کے علاوہ دائی حاکم ایک آدھ سیر زوار دودھی کو بیچ بھی دیا کرتی تھی جس سے گھر کا روزانہ کا خرچ نکل آتا۔اس کے علاوہ دائی حاکم نے گھر کی ضرورت کو پانچ سات مرغیاں، دو چار بکریاں بھی ادھر ادھر سے لے رکھی تھیں۔
دائے دیندار نے اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے کیلی بھینس کی قربانی دے ڈالی۔بھینس کی نسل اور دودھ کی پ?داوار دیکھ کر بیوپاری فیاض قریشی نے اسے مبلغ پچیس ہزار ادا کیے۔
جب یہ بات دائی حاکم کو معلوم پڑی تو پہلے تو اس نے خاصی ناگواری کا اظہار کیا پھر شوہر کی رضا میں خاموش ہوگئی۔اس معاملے کو لے کر ایک دن دائی حاکم پھٹ پڑی ہمارے پرکھوں کی عمریں بیت گئیں کچے مکانوں میں۔زمانے کو بھی پتہ نہیں کیا ہوا لگ گئی ہے کہ اس طور اندھا دھند چل پڑا ہے۔جہاں تک مجھے نظر آتا ہے یہ پکے مکان کہیں رشتہ داریوں میں پکی دیواریں نہ کھڑی کرنے لگ جائیں۔کچی دیوار تو آسانی سے ڈھے جاو ¿ے مجھے یہ تو گرتی نظر نہ آوے۔ دائے دیندار نے بھی حقہ گڑ گڑا تے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ تو کاہے فکر کردی ہے کملی روح۔جن دیواروں کی تیں بات کرے وہ تو آج کے کل کھڑی ہوجاویں ہیں۔ مکان چاہے کچے رہیں کہ پکے۔ 
دیندار کو حقیقی فکر تب لاحق ہوئی جب چوہدری بشیر نے صبح صبح اسے آن لیا اور بتایا کہ کالے خان اکثر راتوں کو ڈیرے سے غائب رہتا ہے۔
اس سے پہلے بھی دائی حاکم اسے بتا چکی تھی کہ کالے خاں محلے اور گاو ¿ں کے اوباش نوجوانوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا پایا گیا ہے۔دائی حاکم کی فکر بڑھتی جارہی تھی۔لیکن دائے دیندار نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اب ہمارے بچے کیا اپنے گلی محلوں میں نہیں گھومیں گے تو کیا آسامناں پہ گھومیں گے۔اس عمر میں بالکوں کا لہو جوش مارتا ہے تو فکر نہ کریا کر۔ 
لیکن ادھر جیسے سن بلوغت کی دہلیز سے قدم آگے کو بڑھنے لگے تھے کالے خان کی بیٹھکوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگیا تھا۔
ویسے تو دیندار نے آس پاس کے جان پہچان والوں سے ادھار بندوبست کرکے پکا کوٹھا تیار کرلیا تھا جسے وہ پہروں م ±سرت اور رشک کی نگاہ سے دیکھتا رہتا۔
اب دونوں کو کالے خان کی فکر گھیرے رہتی تھی۔ دایا دیندار چارپائی پر تکیے کی اوٹ لگائے بیٹھا تھا اور دائی حاکم اس کی پائندوں میں بیٹھی کہیں گہری سوچ میں محو تھی۔ شام کی سرخی ابھی باقی تھی سورج غروب کی جانب رواں دواں تھا بالکل ایسے جیسے بیچ ساگر کوئی کشتی ہچکولے کھاتی یہ جاتی کہ وہ جاتی۔ 
کہہ اتنے میں دایا دیندار بول اٹھا ۔ بھلیے لوکے! کالے خاں اب واقع ہی پریشان کرنے لگ گیا ہے۔صبح سویرے چوہدری بشیر نے آن پکڑا تھا۔ کہہ رہا تھا کالے خان اکثر راتوں کو ڈیرے سے غائب ہوتا ہے۔اس کے کرتوت کچھ بھلے نہیں ہیں۔ اگر اس نے یہ روش ترک نہ کی تو پھر وہ کوئی اور بندہ کام پہ رکھ لے گا پھر مجھ سے گلہ مت کریو۔ 
 میں تو پہلے ہی آپ کو بتا چکی کہ چھورے کے لچھن بگڑ رہے اس کا جتی جلدی ہوسکے کم نبیڑ۔اس تے پہلے کہ چھورا ہاتھ میں سے نکل جاوے اور بہت دیر ہوجائے۔ارے اس نور محمد نائی کے بیٹے کو دیکھ لو پرسوں بختو کمہارن کی بیٹی بھگا لے گیا کم بخت۔اسی کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا اپنا کالے خان بھی۔اس کی ماں آئی تھی کل شکایت کرنے۔اب تو جیسے مناسب سمجھے سو کر۔ دائی حاکم گہرے فکر کے انداز میں بولی۔
دیندار نے فیصلہ کن لہجے میں جواب دیا تے پھر تیں دیکھدی کیا ہے؟ ماسی مراداں سے بات کر کہ ہم اگلے ہفتے کی جمعرات کو برات لے آئیں گے۔ 
شادی میں دو دن باقی تھے دائی حاکم نے گھر کو بڑی محنت سے شادی گھر بنادیا تھا۔ وہ تو یہاں تک کہ بہو کے جہیز کا سامان بھی دیکھ آئی تھی۔میاں بیوی دونوں اس موقع پر خوش تھے۔ بس کالے خان بجھا بجھا سا رہنے لگا تھا۔
یہ سب چل رہا تھا کہ صبح صبح چوہدری بشیر پھر نازل ہوگیا۔ آج اس کے تیور پہلے سے بھی بگڑے ہوئے تھے۔اس نے دائے دیندار کو مخاطب کیا تمہارا سپوتر کل شام سے غائب ہے کہیں دیکھا نہیں گیا۔اور ساتھ ہی ساتھ میرے گھر سے پانچ ہزار نقد اور اس کی بیوی کے گہنے بھی لے اڑا ہے۔ 
دیندار نے اس سے معافی مانگنا چاہی لیکن وہ کچھ سنے بغیر یہ کہہ کے چل دیا کہ آج شام میں چوہدری خیر محمد کے ڈیرے پر بیٹھک ہے اس لیے وہ وقت سے پہلے پہنچ جائے اور کوشش کرکے اپنے بیٹے کا سراغ بھی لگائے۔ 
وہ ابھی چند قدم دور گیا ہی تھا کہ گامن دھوبی اچانک سے نمودار ہوا اور کہنے لگا ارے بھائی دینے! کچھ سنا تم نے؟ تمہارے کالے خان کو لے کر گاو ¿ں میں چرچا ہورہا ہے کہ وہ ممتاز میراثی کی بیٹی کو بھگا کر لے گیا ہے۔ گاو ¿ں کے کچھ نوجوانوں نے اسے سائیکل پر گاو ¿ں کی نکڑ پر دیکھا تھا کل شام۔تب سے دونوں کا کچھ اتا پتا نہیں۔ 
وہ دونوں اسی بات میں لگے تھے کہ چوہدری خیر محمد کا بڑا بیٹا سکوٹر بھگاتے آن پہنچا۔ اسے نے سکوٹر روکا اور سرسری دعا سلام کرتے یہ کہہ کر نکل گیا کہ گاو ¿ں میں آپ کے بیٹےاور ممتاز میراثی کی بیٹی کو لے کر کہرام مچا ہے۔ابا جان نے شام کو ڈیرے پہ بلایا ہے۔پنچائیت ہے۔چوہدری بشیر بھی وہیں آرہا ہے۔ 
شام تک گھر میں افسوس اور طنز کرنے والوں کی ریل پیل رہی۔سب اسے کیلی بھینس کی بددعا کہہ رہے تھے۔ کوئی تو پکے کوٹھے کو دیکھ کہ کہتا مجھے تو یہ بدشگون لگتا ہے۔باقی گاو ¿ں والوں کو بھی فوراً اس روش کو ترک کردینا چاہیے۔
دائی حاکم اس وقت سے اپنی قسمت پر روئے جاتی کہ ہائے اس نے ایسا کونسا برا کام کیا جو اس کو اسکی اتنی بھیناک سزا ملی۔
شائید اس کو وہ لمحہ پھر سے یاد آنے لگ گیا تھا جب وہ بھی دو دہائیاں قبل دائے دیندار کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ پھر پکڑے جانے پر پنچایت نے دونوں کی زبردستی شادی کرانے کا فیصلہ صادر کیا تھا۔
جوں جوں شام ہوتی جارہی تھی دائے دیندار کا دل بیٹھا جاتا تھا۔جس ڈیرے پر وہ چھاتی چوڑی کرکے بیٹھتا تھا اب سر جھکائے بیٹھا ہوگا۔لوگ کیا کہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔چوہدری خیر محمد کیا سوچے گا اس کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔ بس یہ سوچ تھی کہ چوہدری خیر محمد کی حویلی کی طرف جاتے راستے کو ترک کرکے اس نے خونی نہر کے پل کی طرف جانے والی کچی سڑک پر چلنا شروع کردیا۔


خوشبو



علی عبداللہ

خوشبو سے مجھے فلم ”دی پرفیوم“ اکثر یاد آجاتی ہے کہ جس کا مرکزی کردار اپنی فطری انسانی خوشبو سے محروم ہونے کی بنا پر چاہے جانے سے عاری ہوتا ہے، اور یہی محرومیت پہلے اسے باقاعدہ عطرسازی سیکھنے اور پھر اس کے تجربات خوبصورت دوشیزاو ¿ں پر کرنے پر اکساتی ہے، تاکہ وہ ان میں سے ایسی خوشبو کشید کرے جو اک عالم کو مسحور کر سکے۔ آخر کار وہ ایک عجیب و غریب اور مسحورکن خوشبو بنانے میں کامیاب تو ہو جاتا ہے مگر اس کی قیمت کیا ادا کرتا ہے، اس کے لیے آپ کو یہ فلم ہی دیکھنا پڑے گی۔ اس میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ خوشبو کے لیے آپ کے پاس ایک اچھی ناک کا اور مستقل مزاجی کا ہونا ضروری ہے، یعنی آپ باذوق بھی ہوں۔ ایک اچھی خوشبو نہ صرف آپ کا اعتماد برقرار رکھتی ہے بلکہ اس سے آپ کا اور اردگرد کے لوگوں کا موڈ بھی اچھا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں مہنگے کپڑوں اور جوتوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے مگر خوشبو کے معاملے میں "کوئی بھی دے دو" سننے کو ملتا ہے۔ حالانکہ خوشبو انسانی مزاج اور جذبات پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہے۔ کہتے ہیں قلوپطرہ نے جو خوشبواپنی کشتیوں کے بادبانوں سے لگائی تھی وہ ساحل پر پہنچنے سے پہلے، میلوں دور سے ہی مارک انٹونی کو محسوس ہو گئی تھی۔ اسی لیے شیکسپئیر نے اس بارے کہا تھا،
"So perfumed that the winds were lovesick with them"
پرفیوم یونانی زبان کے لفظ "perfumare" سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں "To smoke through" یعنی دھویں کے ذریعے۔ عطر سازی قدیم میسوپوٹیمیا اور مصر سے شروع ہوئی، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا آغاز قدیم چائینہ سے ہوا تھا۔ جبکہ اسے مزید ترقی یافتہ رومیوں اور عربوں نے بنایا۔ ہندوستان میں بھی اس کے آثار 3300 قبل مسیح سے 1300 قبل مسیح کے درمیان ملتے ہیں۔
کسی بھی خوشبو کی تین پرتیں ہوتی ہیں۔ پہلی وہ جسے آپ معمولی سا سونگھ کر بے نقاب کرتے ہیں۔ اسے ٹاپ نوٹ کہا جاتا ہے اور اکثر لوگ اسی کے بل بوتے پر پرفیوم خریدتے ہیں۔ اکثر کمپنیوں کے لیے یہ ٹاپ نوٹ ہی سیلنگ پوائنٹ ہوتا ہے۔ یہ پرت زیادہ دیر پا نہیں ہوتی۔ دوسری پرت جسے ہارٹ نوٹ یا مڈل نوٹ کہا جاتا ہے، یہ اس پرفیوم میں موجود جڑی بوٹیون اور دیگر عناصر پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ پرت ٹاپ نوٹ سے زیادہ دیر پا ہوا کرتی ہے جو بیس نوٹ کی فوری ناخوشگوار خوشبو کو ڈھانپتی ہے ۔ تیسری پرت بیس نوٹ کہلاتی ہے، جو سب سے زیادہ دیر پا اور مسحور کن ہوتی ہے، اس نوٹ میں عموماً قیمتی لکڑی، عنبر اور مشک وغیرہ شامل ہوتا ہے۔ اس پرت کا اثر کم ازکم 30 منٹ کے بعد ظاہر ہوتا ہے اور یہی پرت آپ کو ایک ان دیکھی کائنات اور دلکش احساس سے نوازتی ہے اور آپ کے موڈ اور مزاج پر اثر انداز بھی ہوتی ہے۔
 پرفیوم مختلف کیٹیگری کے ہوتے ہیں جن کا علم ہونا ضروری ہے۔ Eau de Toilette میں خوشبو دار آئل کی مقدار 10 فیصد تک ہوتی ہے۔ اسی بنا پر یہ خوشبوئیں زیادہ دیر پا نہیں ہوتیں۔ Eau de parfum کیٹیگری میں شامل کیے جانے والے خوشبودار آئل کی مقدار 15 سے 20 فیصد تک ہوتی ہے، جس بنا پر ان کی خوشبو پہلی کیٹیگری سے زیادہ دیرپا ہوتی ہے۔ جبکہ صرف پرفیوم جو کہ خالص خوشبو ہوتی ہے، اس میں یہ آئل 40 فیصد تک ہوتی ہے اور یہ بہت زیادہ دیر پا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خالص پرفیوم کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ جدید زمانے میں پرفیوم عموماً ایتھانول، یا ایتھانول اور پانی کی ملاوٹ سے بنایا جاتا ہے اور پھر اس کے اندر خوشبودار آئل کی کیٹگری کے حساب سے ملاوٹ ہوتی ہے۔
پرفیوم خریدتے وقت کوشش کیجیے کہ ایک ہی وقت میں دو یا تین سے زیادہ ٹیسٹ نہ کریں، ورنہ آپ کا دماغ زیادہ بوجھ برداشت نہ کر پائے گا۔ مزید دکاندار حضرات ساتھ کافی کے دانے بھی رکھتے ہیں تاکہ وقفہ لے لیا جائے مگر بہتر یہ ہوتا ہے کہ کافی کے بجائے آپ اپنے جسم کو سونگھیں تاکہ آپ کا دماغ نارمل حالت میں آ کر نئے پرفیوم کو بہتر طریقے سے ٹیسٹ کر سکے۔ پرفیوم لگانے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جہاں خون کی گردش زیادہ ہو وہاں چھڑکا جائے۔ اس سے خوشبو زیادہ پھیلتی ہے۔ یعنی کان کے پچھلے حصوں، گردن، کلائی اور ہاتھوں کے اوپری حصوں پر۔ اس کے علاوہ بالوں کے برش پر پرفیوم چھڑک کر بال بنائیں جائیں تو بھی خوشبو زیادہ دیر تک موجود رہتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر آپ خود کو پرسکون رکھنا چاہتے ہیں تو لیونڈر کی خوشبو استعمال کیجیے اور اگر فوری انرجی بوسٹر چاہیے ہو تو سٹرس وغیرہ جیسی خوشبو کا استعمال کرنا بہتر ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ جاسمین، صندل اور عود بھی بہت زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ گو کہ خوشبو منتخب کرنے کے لیے جنس یعنی مردانہ یا زنانہ کا فرق نہیں ہوتا لیکن کچھ لوگ اس کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اسی بنا پر چند مشہور اور بہترین مردانہ و زنانہ پرفیوم کے نام پیش نظر ہیں، اگر موقع ملے تو ان میں سے کوئی بھی ضرور خریدیے۔ خواتین میں،
 burberry, gucci bloom, the body shop white musk, bvlgari, origins ginger essence skin scent
 وغیرہ کافی مقبول ہیں۔ ان کے علاوہ Tom ford oud minerale, SJP Stashاور Francis kurkdjian aqua vitae آل ٹائم فیورٹ خوشبوئیں ہیں۔ جبکہ مردوں کے لیے davidoff cool water, Dolce & Gabana light blue, calvin klein ck one dunhill, 273 california, obsession ، joop Homme اور Tom Ford oud wood کافی مقبول ہیں۔


Thursday, August 15, 2019

یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسبان اس کے

راحیلہ چودھری

14 اگست جیسے موقعوں پر ٹی وی پہ چلنے والے ایسے بہت سے ملی نغمے کچھ وقت کے لیے اپنے وطن اور قائد سے قریب کر دیتے ہے۔ یہ ملی نغمے سن کر اندر کوئی چنگاری سلگتی ہے جو ایسے دنوں میں کچھ جذبے بیدار کر دیتی ہے۔ اگست کے آغاز سے ہی روزانہ آنکھوں کے سامنے سے قائد کی جدو جہد اور ذہن کے دریچوں پر مسلمانوں کی قربانیوں کی داستانیں بار بار دستک دیتی ہیں اور ایک فلم کی طرح وہ سارے واقعات ذہین کے سامنے سے گزرتے ہیں جو قیام پاکستان کے وقت پیش آئے۔
قائداعظمؒ نے فرما یا تھا، ”ہم نے صرف پاکستان کا مطالبہ نہیں کیا جو کہ زمین کا ایک ٹکڑا ہے بلکہ ہم نے ایسی ریاست کو چاہا ہے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں“۔ پاکستان بنانے کے بعد اللہ کی رضا سے وہ اتنا عرصہ زندہ نہ رہ سکے کہ اس ملک کو ایک اسلامی ریاست بنا سکتے۔ ان کے بعد بحثیت مسلمان اور بحثیت پاکستانی قوم کے یہ ہمارا فرض تھاکہ اس ملک پاکستان کو ہم سب مل کر حقیقی معنوں میں اپنے عمل سے ایک اسلامی ریاست بناتے مگر افسوس پاکستان میں جس طرف نظر دوڑائیں دل خون کے آنسو روتا ہے۔ قائد اعظمؒ نے جس مقصد کے لیے اس ملک کو حاصل کیا تھا۔ اس مقصد اور قائد کے اصولوں کو تو ہم کب کے بھول چکے ہیں۔ ملکی ادارے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اتحاد ہم میں باقی نہیں رہا۔ یقین ہم کب کا کھو چکے ہیں۔ ایمان کب کا بک چکا ہے۔ رشوت، سود، بے ایمانی، کرپشن یہاں تک کے محافظ ادارے خود سب سے بڑے ڈاکووں کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔
ذرا ایک لمحے کو قیام پاکستان کے وقت کا تصور کیجیے۔ جب پاکستان آتے ہوئے مسلمانوں کے قافلے لوٹ لیے گئے تھے۔ جب ہمارے مسلمانوں کو اپنے خونی رشتوں کی لاشوں کو بے گوروکفن چھوڑ کر پاکستان آنا پڑا۔ مائیں اپنے بھوکے بچے کھیتوں میں چھوڑ کر آگئیں۔ ماو ¿ں، بہنوں کی عصمتوں کو سر عام لوٹا گیا۔14 اگست 1947کے سنگِ میل پر جدوجہد ختم ہونے کا یہ طویل باب اپنے دامن میں بے شمار روح فرسا داستانیں لیے ہوئے ہے۔ جس سے شاید ہی کوئی واقف نہ ہو۔ یہ سب داستانیں کہنی، لکھنی، سسننی، پڑھنی بہت آسان ہیں مگر ایک لمحے کے لیے سوچیں جو لوگ قیام پاکستان کے وقت مر گئے ان سے جڑے لوگوں کی زندگیاں ان کے بعد کیسے گزری ہوں گی۔ آج ہمارے پاکستان کے جو حالات ہیں یہ سب دیکھ کر قائد اور ان تمام مسلمانوں کی روحیں روتی ہوں گی جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت اپنی جانیں دیں۔ 
کیا ایسا تھا وہ ملک پاکستان جس کے لیے ہمارے قائدؒ نے اتنی جدوجہدکی؟ کیا ایسے تھے وہ نوجوان جن کا اقبالؒ نے خواب دیکھا تھا؟ کیا اس نوجوان کے لیے قائدؒ نے یہ پاکستان حاصل کیا جو گھر سے تو پڑھنے کے لیے نکلتا ہے اور علمی اداروں میں اپنی ہی مسلمان بہنوں کی عزیتیں لوٹتا پھر رہا ہے۔ دوسری طرف قائدؒ کی نوجوان بیٹیاں جو گھر سے بن سنو ر کر سینما گھروں کے باہر لمبی قطاروں میں بھارت سے آنے والی ہر نئی فلم کو بزنس دینے کے لیے صف ِ اول میں کھڑی ہیں۔ اسی بھارت کو جو اس وقت ہمارے مسلمان کشمیری بہن بھائیوں پر ظلم اور تشدد کی انتہا کیے ہوئے ہے۔ یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو بری طرح مغرب کے بچھائے ہوئے ”ٹرینڈ“ کے جال میں پھس چکے ہیں جنہوں نے مستقبل میں نبیﷺ کی امت کے بچوں کے والدین بننا ہے یہ نوجوان اقبالؒ اور قائدؒ کے پاکستان کوتربیت یافتہ غیرت مند مسلمان کیسے دیں گے؟ 
کیا 14اگست اور اگست کا مہینہ ہر سال اس لیے آتا ہے کہ اسے ٹی وی چینلز پر ایک برتھ ڈے کی طرح منا کر گزار دیا جائے؟ آج یہ سوچنے کا دن ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ہم نے کیا کرنا ہے۔ جس ملک کو اللہ نے جناحؒ اور اقبالؒ جیسی عظیم شخصیات سے نوازا ہو۔ اس ملک میں مسائل کیسے کم نہیں ہو سکتے۔ اس ملک میں باکردار لوگ کیسے نہیں پیدا ہو سکتے؟ کمی کس چیزکی ہے۔ کمی ہمارے علم اور عمل کی ہے۔ قا ئد اعظمؒ نے ایک موقع پر فرما یا تھا، ”ہر مسلمان کو دیانت داری خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے“۔ ہماری سب سے بڑی غلطی ہی یہ ہے کہ ہم نے قائدؒ اور اقبالؒ کی زندگی کو نہ پڑھا اور نہ ان سے کچھ سیکھا۔
قائد اعظمؒ ایک عظیم انسان تھے ان کی بے غرضی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے سب سے پہلے سخت ڈسپلن اپنی شخصیت پر نافذ کیا تھا۔ عیش و آرام اور آسانی کی زندگی انہوں نے کبھی نہیں گزاری۔ وہ اپنی ذاتی کامیابی اور آسائش کے لیے کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ جن سخت ضوابط کی توقع وہ دوسروں سے کرتے تھے ان کی پابندی سب سے پہلے خود کرتے تھے۔ کام، کام اور صرف کام کا اصول دوسروں کے لیے بعد میں اور اپنے لیے پہلے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختصر سی زندگی میں تخلیق پاکستان کا وہ کارنامہ انجام دیا جس کی نظیر پیش کرنے سے تا ریخ قاصر ہے۔ ان کے قول و فعل میں تاثیر کی وجہ بھی ان کی عملی سچائی تھی۔ ان کی دیانت دارانہ زندگی نے ان کی قیادت کو کرشماتی بنا دیا تھا۔ پاکستان میں لوگ اپنے مسا ئل حل کرنے کے لیے دوسروں کے لیے مسائل پیدا کر کے سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی تو سکون سے گزر رہی ہے جب کے حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا مکافات عمل ضرور ہوتا ہے۔ کسی بھی عہدے پر کام کرنے والا انسان غلط طریقے سے پیسہ کمانے کے لیے صرف اپنے کام سے خیانت نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہوتا ہے اور اپنے ملک کے ساتھ غداری بھی کرتا ہے۔ جو انسان بھی اپنے اندر عقیدہ آخرت، احساس جواب دہی، حلال حرام کا فرق ان تین چیزوں کو اپنے اندر بیدار رکھے تو سارے معاملات درست رہیں۔ اگر ہر انسان اپنے ساتھ یہ وعدہ کرے کہ میں نے برائی کو ختم کرنا ہے اور اچھائی کو نافذکرنا ہے تووہ کر سکتا ہے۔ یاد رکھیے اچھائی میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ وہ اپنا آپ منوا کر رہتی ہے۔ اچھائی کا سفر تنہا اور طویل ضرور ہوتا ہے لیکن وہی انسان کا اصل سرمایہ ہوتا ہے۔
عقیدہ آخرت اور حلال حرام کا فرق اگر یہ دو چیزیں پاکستانی قوم میں بیدار ہو جائیں تو ہمارے سارے معاملات، ہمارے سب ادارے سب چیزیں ٹھیک ہو جائیں۔ آخر میں، قائد اعظمؒ نے فرمایا، ”امید، ہمت اور خود اعتمادی میرے ہم وطنوں کے لیے یہی میرا پیغام ہے“۔ قائدؒ کا بہت خوبصورت پیغام جسے ہم بالکل بھول چکے ہیں۔ پاکستانی قوم میں اس وقت ان تینوں چیزوں کی شدید کمی ہے۔ امید، ہمت او ر خود اعتمادی یہ تینوں چیزیں ایک مسلمان ایک مومن کے کردارمیں اس وقت پیدا اور مضبوط ہوتی ہیں جب اس کا تعلق اللہ، رسولﷺ (مطالعہ سیرت و حدیث) اور قرآن سے مضبوط ہوتا ہے۔ آج افسوس کے ساتھ ملکی مسائل، نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسا ئل کی اصل وجہ ہی قرآن، حدیث اور کلام اقبال سے دوری ہے۔ جب تک ہر انسان ذاتی طور پر ان سب چیزوں سے اپنا تعلق مضبوط نہیں کرے گا وہ اپنے مقصد حیات کو تلاش نہیں کر سکتا۔ مقصد حیات کے بغیر اس ملک کو ایک اسلامی ریاست تو کیا ہم کچھ بھی نہیں بنا سکتے۔جب تک پاکستان کا نوجوان بے مقصد زندگی نہیں چھوڑے گا اس وقت تک ہم اس پاکستان کو اقبال اور قائدکاپاکستان نہیں بناسکتے۔

پاکستانی جھنڈے کی کہانی

راحت جبین

میں ہو ں پاکستان کا قومی جھنڈا۔ میری کہانی بھی عجیب ہے۔ کہیں پر مجھے عزت اور احترام دیا جاتا ہے توکہیں مجھے جلایا جاتا ہے اورکہیں جانے انجانے پاوں تلے روندا جاتا ہے۔ اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی میری مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پورے پاکستان کے گلی کوچوں میں جھنڈے فروخت ہوتے ہیں۔ ہر گھر کے اوپر ایک جھنڈا ضرورلہرایا جاتاہے۔ دن کو سڑکوں پر ہر طرف جھنڈے ہی جھنڈے ہوتے ہیں تو رات کو سفید اور سبز رنگ کے برقی قمقمے روشن ہوتے ہیں۔ کپڑوں پر میری تصویریں آویزاں ہوتی ہیں۔ چوڑیوں سے لے کر کپڑوں تک، سفید اور سبز رنگ کے ہوتے ہیں۔ دیواروں پر بھی رنگ کرکے انہیں خوشنما بنایا جاتا ہے۔ غرض چاروں جانب سبز اور سفید رنگ ہی نظر آتا ہے۔ 14 اگست تک میری بہت تعظیم کی جاتی ہے۔ مجھے اپنی قسمت پر رشک آنے لگتا ہے مگر یہ تعظیم اور احترام وقتی ہوتا ہے۔ تقریبات مکمل ہونے کے بعد مجھے گلی کوچوں میں پھینک دیاجاتاہے اور آتے جاتے لوگ مجھے بے دردی سے قدموں تلے روندتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اپنے عظمت و تکریم کی خوشیاں مناوں یا پھر اپنے روندے جانے پر ماتم کروں۔
جہاں تک بات جان بوجھ کر جلانے اور روندے جانے کی ہے وہ تو سمجھ آتی ہے کہ لوگ اپنی ذاتی دشمنی، بغض، نفرت اور نا انصافی کا بدلہ مجھے جلا کر یا جان بوجھ کر پاوں تلے روند کر لیتے ہیں مگر مجھے حیرت اور افسوس تو ان پر ہوتا ہے جو ہر 14 اگست کو یا 06 ستمبر کو محبت سے جھنڈے خریدتے ہیں۔ گلی کوچوں کی رونق بناتے ہیں اور ان لوگوں کو وطن سے دشمنی کا طعنہ دیتے ہیں جنہوں نے کوئی بھی جھنڈا نہیں لگایا ہوتا مگر جب تقریبات اختتام کو پہنچتی ہیں تو محبت کے دعوے دار سارے جھنڈے بے دردی سے پھینک دیتے ہیں۔ مجھے اب تک یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ ہر کوئی اپناغصہ نکالنے کے لیے میرے وجود کا استعمال ہی کیوں کرتا ہے۔ آئیے آج میں آپ سب کو اپنی کہانی سناوں۔ میرا پورا نام پرچم ستارہ و ہلال ہے۔
قائد اعظم کی ہدایت پر سید امیر الدین کدوائی نے میرا ڈیزائن بنایا۔ جس میں دو تہائی سبز رنگ رکھا اور ایک تہائی سفید رنگ۔ سبز رنگ مسلمانوں کی اکثریت کو ظاہر کرتا ہے اور سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ مقصد یہی تھا کہ ایک مسلم مملکت ہونے کے باوجود یہاں اقلیتوں کے حقوق پامال نہیں ہوں گے۔سبز رنگ کے اوپر چاند ستارہ بنا ہے۔ چاند ترقی اور ستارہ علم کو ظاہر کرتا ہے۔ 14 اگست، 23 مارچ اور 06 ستمبر کو مجھے بلند رکھا جاتا ہے۔ قائد اعظمؒ، لیاقت علی خان اور علامہ اقبالؒ کے یوم وفات پر مجھے سرنگوں رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی خاص مواقع پر پرچم کی بلندی کی تقریبات ہوتی ہیں۔ 
مجھے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ میرے ہی ملک کے لوگ اور مجھ سے محبت کے دعوے دار مجھے پاوں تلے روندتے ہیں۔ اس بات کو مد نظر رکھ کرمیں اپنے ہم وطنوں کو یہی مشورہ دوں گا کہ خدارا اپنی وطن دوستی کے لیے میرا استعمال بند کریں بلکہ اگر اپنی وطن دوستی کا ثبوت دینا ہی ہے تو اس ملک کی خوشحالی اور ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ اپنے ملک کو پرچم اور سجاوٹ کے ساتھ ساتھ سبزہ اگا کر بھی ہرا بھرا کریں۔ ہر کوئی ایک پودا اپنے ہاتھوں سے لگائے، اس کو سینچے اور ملک کو ہرا بھرا رکھے۔ ساتھ ہی اپنے ارد گرد کے ماحول کو ممکنہ حد تک صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کریں۔ یہی ان کی ملک دوستی کا پختہ ثبوت ہوگا اور مجھ سے محبت کا مان بھی۔ اس طرح بے حرمتی بھی نہ ہوگی۔

آزادی، قربانی اور کشمیر

ناصر محمود بیگ

ہرسال جیسے ہی اگست کا مہینا آتا ہے پاکستان کے ہر محب وطن شہری کے دل میں پاکستانیت کا جذبہ اپنے عر وج پر نظر آتا ہے۔ گھروں اور بازاروں کو سجاےا جاتا ہے۔ ملکی اور علاقائی سطح پر جشن آزادی کی رنگا رنگ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ اہم قومی عمارات کو سبز ہلالی پرچم اور چراغاں سے مزین کیا جاتا ہے۔ اس سال یوم آزادی کی ےہ تصویر قدرے مختلف دکھائی دیتی ہے۔ میرے وطن کی فضا میں خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس سال عید قربان اور یوم آزادی ایک دن کے وقفے سے اکٹھے ہوئے ہیں اور ساتھ ساتھ مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں پر زندگی مزید تنگ کر دی گئی ہے۔ آج ہر پاکستانی کا دل اپنے کشمیری بھائیوںکے ساتھ دھڑکتا ہے۔ بھارت نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی جداگانہ حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے مگر مودی سرکار کی یہ مذموم کوشش الٹا اس کے گلے پڑنے والی ہے اور عنقریب کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہوگا ان شاءاللہ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی گئی، اس نے اپنی آزادی کی جدو جہد جاری رکھی اور ایک دن آزاد اور خود مختار قوم بن گئی۔
آج ہم بھی اپنی آزادی کی بہترویں سالگرہ منا رہے ہیں اس کے لیے ہم اپنی عمارتوں پر پرچم بھی لہراتے ہیں اور خوشی کے ترانے بھی گاتے ہیں لیکن پتا نہیں کیوں ہم یہ بھول جاتے ہیںکہ وطن ہمیں کتنی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ کتنی عورتوں کے سہاگ اجڑے، کتنی ماﺅں کے سامنے ان کے شیر خوار بچوں کو نیزوں میں پرو دیا گیا، کتنی پاک دامن بیبیوں کی عصمتوں کو پامال کیا گیا، کتنے نوجوانوں نے اپنی زندگیاں قربان کیں، تب جا کر آزادی کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ آج لاہور کی سڑکوں پر ون ویلنگ کرنے والے اور آزادی کے جشن پر رقص وسرور کی محفلیں سجانے والے نوجوان کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ پاکستان ہمیںکسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا گیا۔ یہ ان تھک محنت، طویل جدو جہد اور لازوال قربانیوں کی ناقابل فراموش داستان ہے۔
آج یہ مہینا آزادی کا مہینا ہے اور ساتھ ساتھ قربانی کا مہینا بھی ہے جس میں مسلمان اپنا قیمتی جانور اپنے رب کی خوشنودی کے لیے قربان کرتے ہیں۔ اس مرتبہ عید قربان اور جشن آزادی ایک دن کے وقفے سے اکٹھے ہوئے ہیں۔ یہ سال ہمیں اس بات کی ےاد دہانی کرواتا ہے کہ آزادی اور قربانی کا بہت گہرا تعلق ہے۔ آزادی کبھی بھی قربانیوں کے بغیر نہیں ملا کرتی۔ آزادی کی قیمت ہمیشہ قربانی سے ادا کرنا پڑتی ہے۔ اسی آزادی کی خاطر ہمارے کشمیری بھائی پچھلے ستر سال سے جان، مال اور عزت کی قربانی دے رہے ہیں اور ان شاءاللہ اب وہ وقت دور نہیں جب سری نگر کے ہیڈ کواٹر پر پاکستان کا پرچم لہرائے گا کیونکہ :

ےاران جہاں کہتے ہیں جسے کشمیر، ہے جنت
اور جنت کسی کافر کو ملی ہے، نہ ملے گی 

آج پاکستان کا بچہ بچہ کشمیر کی آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیارہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم ؒنے فرمایا تھا، ”کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے“ اور اپنی شہہ رگ کو دشمن کے پنجے سے چھڑوانے کے لیے ہم ہر طرح کی قربانی دے سکتے ہیں۔ آج کشمیر کے مظلوم مسلمان مدد کے لیے پکار رہے ہیں کہ کوئی محمد بن قاسم آئے اور ان کو وقت کے راجا داہر سے آزاد کروائے، کوئی طارق بن زیاد ہو جو اپنی کشتیاں جلا کر ان کی فریاد پر لبیک کہے۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے حکمران اور سپہ سالار ضرور ایسا فیصلہ کریں گے جس سے کشمیریوں کے دکھ درد کا مداوا ہو گا اور شہیدوں کا لہو رنگ لائے گا۔ ان شاءاللہ ۔

کشمیر میرا ہو چکاہے پھر سے لہو لہو
میں کس منہ سے کہوں جشن آزادی مبارک

Friday, August 9, 2019

کشمیریوں کے قتل عام کا منصوبہ



سعد فاروق
0321-1065575

مقبوضہ جموں کشمیر برصغیر پاک وہند کی تقسیم سے ہی مسلسل بھارتی حکومت، فوج اور ایجنسیوں کے رحم و کرم پر ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں روزانہ جنازے اٹھنا معمول کی بات ہے۔ جب دنیا کے نام نہاد جمہوریت کے دعوے داروں کا دل چاہتا ہے اس جنت نظیر وادی میں انسانوں کا قتل و غارتگری، املاک کی تباہی ، وسائل کی لوٹ مار اور کشمیریوں کے خون پسینے کی کمائی لوٹ کر بھارت لے جاتے ہیں۔قدرتی طور پر بھی وادی لہو رنگ بھارت کے ساتھ کسی صورت نہیں ملتی۔ مقبوضہ کشمیر کے تمام دریا پاکستان کی جانب بہتے ہیں،ایک ساتھ عید، ایک جیسا موسم، زبان، تہذیب و ثقافت پاکستان کے ساتھ ملتی ہے، ہر کشمیری کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے، کشمیری عوام بھارتی ظلم و ستم کے باوجود پاکستان کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتی آ رہی ہے۔ مودی حکومت نے برسراقتدار آتے ہی کشمیریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ گذشتہ پانچ سال میں ظلم وبربریت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے، تاریخ سوز مظالم اتنے شدید کیے گئے کہ بھارت کے اندر سے شدید احتجاج کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے شعبہ انسانی حقوق کی جانب سے مختصر وقت میں بھارتی مظالم پر دو رپورٹس جاری کی جا چکی ہیں لیکن دنیا کے بدترین دہشتگردوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ مودی حکومت نے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی مقبوضہ وادی میں تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے منصوبہ بندی کر لی، جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مشیر برائے قومی سلامتی اجیت ڈول نے گزشتہ ماہ آخر پر مقبوضہ کشمیر کا تین روزہ دورہ کیا۔ اجیت ڈول کے بھارت پہنچتے ہی مزید 50 ہزار فوجی جموں کشمیر میں تعینات کرنے کا فیصلہ کرنے کے فوری بعد سے ہی فوج مقبوضہ وادی انتہائی تیز رفتاری سے پہنچائی جا رہی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج تک بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں موجود اپنی فوج کی درست تعداد نہیں بتائی، بھارت کی جانب سے ہمیشہ اقوام متحدہ سمیت کسی بھی عالمی ادارے کے وفد کو مقبوضہ وادی کا دورہ نہیں کروایا گیا عین ممکن ہے کہ 50 ہزار کی بجائے لاکھوں مزید فوجی وادی کشمیر میں تعینات کیے جا چکے ہیں۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں 8 لاکھ سے زائد بھارتی فوجی پہلے سے تعینات ہیں جن کی تعداد میں وقفے وقفے اضافے کے اب تک یہ تعداد 10 لاکھ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے۔ عالمی برداری کی جانب اچانک بغیر کسی وجہ بھاری تعداد میں فوج کی تعیناتی پر شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے جموں و کشمیر پالیسی پلاننگ گروپ نے نریندر مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کی کوششوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔کانگریس کے جموں و کشمیر پالیسی پلاننگ گروپ کا اجلاس سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ وزارت داخلہ اور مقبوضہ کشمیر حکومت کے اقدامات کے بارے میں رپورٹس انتہائی تشویش ناک ہیں جو حکومت کے ارادوں سے متعلق بےچینی و خدشات پیدا کررہی ہیں۔اجلاس میں کہا گیا کہ مقبوضہ وادی میں بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی، سری امرناتھ یاترا کے لیے جانے والوں کی تعداد میں کمی اور سیاحوں، یاتریوں اور دیگر شہریوں کے لیے غیر ضروری ہدایات کی وجہ سے انتہائی عدم تحفظ اور خوف کا ماحول پیدا ہورہا ہے۔جموں و کشمیر پالیسی پلاننگ گروپ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ نہ کرے جس سے بحران پیچیدہ ہوجائے۔ گذشتہ کئی ہفتوں سے مقبوضہ کشمیر میں کسی بڑی کارروائی کی اطلاعات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کشمیری خوف و ہراس کی گرفت میں ہیں۔ اگرچہ کٹھ پُتلی حکومت کا کہنا ہے کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے لیکن حکومتی سطح پر بعض اعلانات اور فوجی نقل و حمل مزید افواہوں کا باعث بن رہی ہیں۔ گزشتہ روز مقبوضہکشمیر میں تعینات بھارتی فوج کی 15ویں کور کے کمانڈر لیفٹنٹ جنرل جے ایس ڈھلون، کشمیر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ اور سی آر پی ایف کے اے ڈی جی ذوالفقار حسن نے مشترکہ پریس کانفرنس میں ان اطلاعات کی تردید کی ہے لیکن اس پریس کانفرنس کے فوراً بعد داخلہ کے پرنسپل سیکرٹری شیلین کابرا نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں امرناتھ یاترا کے لیے آئے یاتریوں اور سیاحوں کو فوراً وادی چھوڑنے کے لئے کہا گیا ہے۔حکم نامے میں کہا گیا ہے ’موجودہ سکیورٹی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یاتریوں اور سیاحوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ وادی میں اپنا قیام مختصر کر کے فوراً واپس لوٹ جائیں۔‘ حالانکہ ڈی جی پولیس دلباغ سنگھ نے بتایا کہ اضافی فورسز کی تعیناتی ایک معمول کا عمل ہے جسے میڈیا میں مبالغہ آمیز اعداد و شمار کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے تاہم اصرار کے باوجود انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کتنی اضافی فورسز کو تعینات کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر چلنے والی اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی بھارتی آئین میں خصوصی پوزیشن کو ختم کیا جائے گا اور ممکنہ عوامی ردعمل کو روکنے کے لئے فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔ تاہم بعد میں مقبوضہ جموں کشمیر کے گور نر نے کہا کہ آئین کی دفعہ 35-کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہو گی۔دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں کشمیر میں ہندو اکثریت والے علاقوں کو علیحدہ ریاست جبکہ کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیرِ انتظام خطے قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلے کے ردعمل کو روکنے کے لئے ہفتے کے روز سے کرفیو نافذ ہو گا لیکن ڈی جی جموں کشمیر پولیس دلباغ سنگھ نے ان خبروں کی بھی تردید کی۔ اس حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے آئین کے مطابق حکومت کسی بھی ریاست کی جغرافیائی حدود یا نام مقامی قانون سازوں کی رضامندی کے بغیر تبدیل نہیں کر سکتی۔ واضح رہے بھارت نواز سیاسی جماعتیں، حریت قیادت اور سول سوسائٹی بھی طویل عرصے سے کہتے آ رہے ہیں کہ ایسا کچھ بھی ہوا تو کشمیر میں حالات خراب ہو جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ بھارتی فوج کو فوری مقبوضہ علاقوں سے نکلنے کا حکم جاری کرکے اپنی امن فوج تعینات کرئے ورنہ بھارت کشمیریوں کی نسل کشی تو سالوں سے کرتا آ رہا ہے اور اب کشمیری نسل کو ہی ختم کرنے کے گھناؤنے منصوے بنا کر عمل کرنے کے لیے تیار ہے۔ بھارتی حکومت کسی صورت امن کی لیے تیار نظر نہیں آ رہی، امریکی صدر کی جانب سے دو دفعہ ثالثی کی پیشکش ٹھکرانا واضح اعلان ہے کہ مودی حکومت جنگی جنون میں مبتلا ہو کر خطے میں کسی صورت امن قائم نہیں ہونے دے گی۔ بھارتی فوج بھی مقبوضہ وادی میں رہنے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا بھر کی آسائشوں کے باوجود کشمیریوں پر مظالم کر کر کے بھارتی فوجی نفسیاتی طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ سال 2018 کے دوران 80 بھارتی فوجی اہلکاروں نے خود کشی کی جبکہ بھارتی فضائیہ میں 16 اہلکاروں اور نیوی میں 8 اہلکاروں نے خود کشی کی۔ جنوری 2007 سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں خود کشی کرنے والے بھارتی اہلکاروں کی تعداد 428 ہوگئی ہے. آنے والے دنوں کے دوران خطے میں بڑی کشیدگی کا خدشہ ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی کہہ چکے ہیں کہ بھارت مذاکرات کی طرف نہیں آئے گا تو حالات بگڑتے جائیں گے، کشمیر پر ہٹ دھرمی بھارت کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں معاملات بگڑتے جا رہے ہیں، آج اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو مراسلہ ارسال کر رہا ہوں۔ ان کا کہنا ہے بھارت کہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے لیکن بھارت مسئلہ کشمیر پر دوطرفہ نشست کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی کی جانب سے دو ٹوک بیان کے بعد بھی بھارتی جنگی جنون خطے میں نئی جنگ چھیڑ دے گا۔

دنیا کے منصفو!

انیلہ افضال

دنیا کے منصفو! سلامتی کے ضامنو!
کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے لہو کا شور سنو!

اللہ اللہ! یہی دیکھنا باقی رہ گیا تھا کہ امت مسلمہ اپنی بقا کے لیے اغیار پر تکیہ کیے ہو ہے ہے۔ پون صدی ہونے کو آئی! کسی نے کشمیر کی وادی میں بہتے ہوئے لہو کا شور نہیں سنا۔ پہلے تو چلو میڈیا اتنا طاقتور نہیں تھا یا رسائی اتنی آسان نہ تھی مگر اب! آج کے اس سوشل میڈیا کے دور میں جہاں کوئی پھسل جائے تو بھی ساری دنیا کو خبر ہو جاتی ہے۔ تو کیا کشمیر میں جو ہو رہا ہے نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ، جو کیا جا رہا ہے، دنیا اس سے بے خبر ہے؟ آج انٹر نیٹ کے اس دور میں آپ ایک ننھی منی سی ایپ بھی ڈاو ¿ن لوڈ کرتے ہیں تو اس کے ٹرم اینڈ کنڈیشن میں واضح طور پر آپ سے آپ کے ڈیٹا تک رسائی طلب کی جاتی ہے۔ مطلب دنیا بھر سے آپ پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ آپ کی کالز اور میسجز کو مانیٹر کیا جاتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا کشمیر کے حالات سے بے خبر ہے۔ اس لیے ”دنیا کے منصفوں“ سے امید مت لگائیں اور ہمارا شکوہ دنیا سے تو ہے بھی نہیں۔ ہمارا گلہ تو اپنوں سے ہے۔
 دنیا تو غیر ہے، ہماری سنی کو ان سنا کرے گی ہی مگر کیا امت بھی بہری ہو گئی ہے؟ امت کیوں خاموش ہے؟ امت مسلمہ اس روئے زمین پر موجود آبادی کا ایک بڑا حصہ ہے مگر ہر جگہ رذیل! ہر پلیٹ فارم پر خوار! مقام حیرت تو یہ ہے کہ برطانیہ یا فرانس میں کوئی حادثہ ہو جائے تو سوشل میڈیا پر ڈی پیاں لگا دی جاتی ہیں۔ اور مسلم امہ کے لیے ”یا اللہ رحم!“ کے ایک کمنٹ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کیوں کہ ہم نے طاقتور کے سامنے جھکنے کو سکون و نجات کو ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ میرا پیٹ بھرا ہوا ہے تو مجھے کسی بھوک سے بلکتے آنتوں کی پرواہ کیوں ہو گی۔ میرا گلہ دنیا سے یا اقوام متحدہ سے نہیں، اس خاموش امت سے ہے۔ یاد رکھیں! اب بھی نہ بولے تو دلی زیادہ دور نہیں۔ آج ان کی تو کل ہماری باری ہے۔ بھیڑیے کے منہ کو خون لگ چکا ہے اور مسلم خون تو خوشبو دار ہوتا ہے۔ اس میں سے، کمزور ہی سہی، ایمان کی مہک آتی ہے جو اس بھیڑیے کو بہت بھاتی ہے۔
 کشمیر ہی کیوں! غزہ، فلسطین، برما اور ہندوستان، ہر جگہ مسلمان بیٹیاں محمد بن قاسم کو پکار رہی ہیں، عمر کو صدائیں دے رہی ہیں، طارق بن زیاد کی راہیں تک رہی ہیں مگر وہ اب نہیں آئیں گے کیونکہ اب ماو ¿ں نے محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی اور نور الدین زنگی پیدا کرنے چھوڑ دیے ہیں۔ جب مائیں اپنے بچوں کو صدیق کی صداقت، بلال و اویس کی محبت، عثمان کی سخاوت اور حیا، علی اور عمر کی دلیری اور انصاف کی بجائے سپائیڈر مین کی کہانیاں سنائیں گی تو ایسی ہی قوم تیار ہو گی جیسے آج ہم ہیں۔ بریان وانی کا نام تو سب نے سن رکھا ہے۔ کون تھا وہ؟ ایک کشمیری مجاہد! جیسے بھارتی فوج نے شہید کر دیا مگر وہاں تو روز ہی شہریوں کو اور مجاہدوں کو شہید کیا جارہا ہے تو پھر برہان وانی! چہ معنی وارد؟ وہ ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا۔ وہ کوئی گولی بندوق لے کر بھارتی افواج پر حملہ آور نہیں ہوا تھا۔ وہ تو ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ تھا۔ دنیا کو کشمیر کی سچائی دکھا رہا تھا بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کر رہا تھا۔ کشمیریوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کر رہا تھا۔ بس! شہید کر دیا گیا مگر اس کا لہو جہاں جہاں گرا وہیں وہیں سے ایک برہان وانی پیدا ہوا۔
میں جانتا ہوں دشمن بھی کم نہیں ہے
لیکن ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
 اب دیکھیں وادی میں غیر معینہ مدت کے لیے انٹر نیٹ سروس بند کر دی گئی ہے۔ ہندوستان نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا ہے۔ اس کے بعد پورے بھارت سے بھارتی شہریوں کو کشمیر کی سرزمین پر رہائش اختیار کرنے کا حق حاصل ہو گیا ہے۔ اب سکون سے پورے بھارت سے ہندوو ¿ں کو کشمیر میں بسایا جائے گا اور مسلم آبادی کو مسلم اقلیت میں بدل دیا جائے گا تاکہ کل کلاں کو اگر کسی وجہ سے استصواب رائے کرانا بھی پڑے تو ہندو اکثریت بھارت کے حق میں فیصلہ کرے۔ آہ! آج اقوام عالم اس بات کی گواہ ہیں کہ شہہ رگ کٹ جانے کے باوجود ایک قوم نہ صرف زندہ ہے بلکہ کچھ ہی دنوں میں 14 اگست پر گاڑی پر پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے انڈین گانے بھی سنے گی۔ باقی رہ گئے ہم! ہم کچھ نہیں کریں گے، ہم کچھ نہیں کر سکتے. آئیے! ڈی پیاں بدلتے ہیں۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے